عمران خان کی ٹیم

ان نا اہلوں سے کئی درجہ بہتر ہے جو ۵،۸ فیصد معاشی گروتھ کے باوجود برآمداد بجائے بڑھانے کے الٹا گرا کر چلے گئے۔
یہاں نمبر ہی غلط ہیں ... اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر چیک کرلیں، 2018 کی کل برآمدات 24.7 ارب ڈالرز تھیں، آپ یہاں 23 ارب دکھا رہے ہیں. 2016 میں برآمدات 22 ارب ڈالر تھیں، یہاں 20 ارب بتائی گئی ہیں ...
علاوہ ازیں 2013 تا 16 برآمدات کی تنزلی کی وجوہات پر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے، تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں، کیونکہ اس کے بعد آپ کوئی اور غیر متعلق بات چھیڑ دیں گے.
 
جب تک عمران خان موٹروے، پل، میٹرو نہیں بناتا کوئی لیگی نہیں مانے گا کہ اس نے کچھ کیا بھی ہے :)
بھائی صاب... انفراسٹرکچر بہتر کیے بغیر ملک میں نہ تو ترقی کے مساوی مواقع پیدا ہوسکتے ہیں نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری آ سکتی ہے ... ویلفیئر اسٹیٹ کا نعرہ لگانا آسان ہے، مگر اس کو چلانے کے لیے وسائل یا تو معاشی سرگرمیاں بڑھانے سے پیدا ہوسکتے ہیں یا پھر قدرت کی مہربانی سے ... جیسا کہ آنجناب کے ناروے کے پاس نارتھ سی میں سیاہ سیال سونا وافر موجود ہے.
سرکاری ہسپتال اور اسکول وغیرہ کاسٹ سینٹرز ہوتے ہیں جبکہ موٹرویز اور پل وغیرہ ریونیو جنریٹ کرتے ہیں ... محض کاسٹ سینٹرز بڑھاتے چلے جائیں گے تو ان کا خرچہ کہاں سے نکالیں گے؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
غلط کیسے؟ پاکستان محکمہ شماریات کے پاس یہی نمبرز ہیں

یہاں تصویر لگانے کا طریقہ اتنا پیچیدہ نہ ہوتا تو میں اسٹیٹ بینک کی رپورٹس کے اسکرین شاٹس لگا دیتا ... آپ اپنے طور پر تصدیق کر سکتے ہیں ...

لگتا ہے پی بی ایس والوں کی ٹیبیولیشن میں کوئی ڈسکرپنسی ہے ... اور انہوں فٹ نوٹ میں ڈسکلیمر دیا ہوا ہے کہ یہ عبوری (پرووژنل) نمبرز ہیں.
 
پاکستان بھی صرف قائد اعظم والوں کا ہے۔ مہاتما نیازی زبردستی وزیر اعظم بن گیا ہے یہاں :)
کاش مہاتما کی اتنی اوقات ہوتی ... زبردستی بنا نہیں، مسلط کیا گیا ہے .... زبردستی "بنا" ہوتا تو شاید اتنا اختلاف نہ ہوتا :)
 

جاسم محمد

محفلین
سرکاری ہسپتال اور اسکول وغیرہ کاسٹ سینٹرز ہوتے ہیں جبکہ موٹرویز اور پل وغیرہ ریونیو جنریٹ کرتے ہیں ... محض کاسٹ سینٹرز بڑھاتے چلے جائیں گے تو ان کا خرچہ کہاں سے نکالیں گے؟؟؟
اب تک جو موٹرویز، پل، میٹرو بنے ہیں ان سے پاکستان کو کتنی آمدن ہوئی ہے اور کتنے اخراجات ادا کرنے پڑے ہیں؟ تازہ اعداد و شمار کے مطابق تو اورینج ٹرین بھی ایک سفید ہاتھی ہی ہے۔
لاہور کی اونج لائن ٹرین اپنے ابتدائی سو روز مکمل ہونے پر 14 کروڑ روپے خسارے میں رہی ہے۔

ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 24 اکتوبر سے آپریشنل ہونے والی اورنج لائن ٹرین میں موجود جگہ کے تناسب سے صرف 40 فیصد لوگ سفر کر رہے ہیں۔ ٹرین کے خسارے میں جانے کی ایک وجہ 11 فیڈر روٹس پر 180 بسوں کا نہ چلنا ہے، جس کی وجہ سے مختلف علاقوں سے مسافروں کو اورنج ٹرین سٹیشن تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

گذشتہ سو روز میں اورنج لائن ٹرین پر 72 لاکھ افراد نے سفر کیا، جن سے کرائے کی مد میں 28 کروڑ 80 لاکھ سے زائد کی آمدن ہوئی جبکہ بجلی کا بل 30 کروڑ اور تنخواہوں کی مد میں 12 کروڑ روپے ادا کیے جانے کے بعد خسارہ 14 کروڑ روپے رہا۔

اتھارٹی کے اندازے کے مطابق ٹرین کو چلانے کے لیے سالانہ دو ارب روپے کی بجلی استعمال ہوگی۔ ٹرین کے 27 کلومیٹر طویل ٹریک کے نیچے اب بھی نجی پبلک ٹرانسپورٹ چل رہی ہے اور مسافر ٹرین کی ٹکٹ مہنگی ہونے کے سبب پرائیویٹ ٹرانسپورٹ استعمال کر رہے ہیں۔
لاہور اورنج لائن ٹرین: ’یہ سفید ہاتھی اب پالنا تو پڑے گا‘
 

جاسم محمد

محفلین
کاش مہاتما کی اتنی اوقات ہوتی ... زبردستی بنا نہیں، مسلط کیا گیا ہے .... زبردستی "بنا" ہوتا تو شاید اتنا اختلاف نہ ہوتا :)
کوئی بات نہیں۔ مسلط کرنے والوں سے یہی غلطیاں پہلے بھی بہت بار ہو چکی ہیں :)




یوں عمران خان بھی کچھ عرصہ بعد تابعداری چھوڑ کر مزاحمتی جمہورا بن جائے گا۔ :)
 
Top