سنتے آئے ہیں کہ آئی ایس آئی کے ایجنٹ کو آخر وقت تک کوئی نہیں پہچان سکتا۔ وہ آپ کے ساتھ کھاتے ہیں، پیتے ہیں، اٹھتے بیٹھتے ہیں پر مجال ہے جو آپ کو شک بھی گزرے کہ یہ اصل میں فلاں ہے۔ فسانہ اس افسانے کے بنانے کا یہ ہے کہ آج صبح آنکھ جو کھلی تو ایکا ایکی یہ لڑی سامنے نظر آئی، اسے دیکھ آنکھیں مزید کھل گئیں، ساتھ ہی ساتھ دماغ بھی ایسا کھلا کہ بیان کردہ باتیں بن بلائے مہمان کی طرح دندناتی ہوئی اس میں گھسی چلی آئیں۔
ہم جانتے ہیں گھسے چلے آنا گھسا پٹا لفظ ہے جو شریفوں کے لیے نہیں ہے، پر یہ ہم نے اپنے لیے بولا بھی نہیں ہے۔ اس نامناسب لفظ کا استعمال ہم نے اپنے جیسے شریفوں کے لیے نہیں کیا بلکہ وہ جو غیر شریفانہ انداز سے مدعو کیے بغیر ہمارے دماغ میں چلی آرہی ہیں ان باتوں کے لیے کیاہے۔
نکتہ رسا لوگ یہاں ایک نکتہ اٹھا سکتے ہیں کہ’’ گھسے چلے آنا‘‘ اور ’’گھسا پٹا‘‘ تین اور دو الفاظ پر مشتمل ہیں جب کہ آپ نے انہیں جمع کی بجائے واحد کے صیغہ سے جمع کیا ہے، ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کا سیدھا سادا جواب ہے کہ ہماری مرضی۔ ہماری لڑی ہے ہماری تحریر ہے ہم جو چاہے کریں۔ کسی کو اعتراض ہے تو اپنا مضمون خود لکھے، پھر چاہے تو اس میں جمع کو جمع اور واحد کو واحد کردے، اور چاہے تو ہماری پیروی کرتے ہوئے ہماری نقل مارے اور اس کے برعکس لکھے، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
ارے صاحبو، اس سارے قضیہ کے دوران اصل قضیہ تو بیان کرنے سے رہا ہی جاتا ہے کہ یہ سارا قضیہ آخر ہم نے چھیڑا ہی کیوں اور آئی ایس آئی کا تذکرہ یہاں کیا ہی کیوں؟ قبل اس کے کہ کسی اور کا کوئی اور قضیہ چھڑے ہم فوراً مدعے پہ آتے ہیں اور اس قضیہ کا قصہ تمام کرتے ہیں۔ تو صاحبو، سویرے سویرے جیسے ہی لڑی مذکورہ پر ہماری نظر پڑی تو ہم اپنے غیر معمولی آئی کیو لیول کی بنا پر فوراً سمجھ گئے کہ یقیناً آئی ایس آئی کے کسی ایجنٹ کی کمیونیکیشن فریکوئنسی کسی دشمن کے ہاتھ لگ گئی۔ اب جب یہ راز کی کوئی بات کرتے دشمن فوراً سن لیتا۔ ہوتے ہوتے ان کو بھی راز کی یہ بات پتا لگ گئی کہ دشمن ان کے ہر راز سے آگاہ ہورہا ہے جس پر یہ فی الفور دل برداشتہ ہوگئے اور شدتِ جذبات سے یہ غزل کہہ دی کہ ہائے میرے اللہ میں کیا کروں اب تو میرا کوئی راز راز ہی نہ رہا!!!
ان ہی سوچوں میں غلطاں ہم لڑی ہٰذا میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہاں تو محفل کا رنگ سراسر بدلا نکلا، بلبل سمجھا تھا جسے وہ کوّا نکلا۔ پہلا شعر دیکھ کر ہم شک میں تو پڑگئے کہ یہاں عاشقی معشوقی کا کوئی چکر چل رہا ہے پر جب دوسرا شعر پڑھا تو ہمارا شک یقین میں بدل گیا کہ یقیناً یہی بات ہے اور جب تیسرا شعر پڑھا تو کیا ہوا؟ یہ جاننے کے لیے سب سے پہلے سب سے پہلا شعر ملاحظہ فرمائیے ؎
شعر پڑھتے ہی ہماری خود کی ذاتی طبیعت فوراً سے پیشتر مشکوک ہوگئی۔ یوں لگا جیسے کوئی آدمی ایک بہت بڑے بازار کی رش زدہ فٹ پر کھڑا حسینوں کو تاڑ رہا ہے اور پیغام رسا یعنی گہرے رنگ کا سن گلاس اسے حسینوں کے جلوؤں کے پیغام پہنچا رہا ہے۔ معاملہ اس وقت گڑبڑ ہوا جب یہ تاڑو صاحب مطمئن تھے کہ گہرے رنگ والے سن گلاس کے پیچھے سے کوئی ان کی آنکھ کے آنکھ مٹکوں کو نہیں دیکھ رہا ہے پر سامنے والی دوکان کی دیوار پر لگے تیز بلبوں کی روشنی میں ان کی آنکھیں صاف نظر آرہی تھیں۔ راز اِس کا اُس وقت کھلا جب ان کے طرح طرح سے گھورنے کے جواب میں آتے جاتے حسین انہیں بے طرح گھورنے لگے۔ تب یہ صاحب سمجھے کہ اوہو یہ معاملہ تو کچھ گڑبڑ ہے، لگتا ہے اب میرا کوئی راز راز نہ رہا۔ تاہم ہمارے لیے یہ ساری صورت حال ابھی دائرۂ شک میں ہی گردش کررہی تھی اور اس جھوٹ کی طرح تھی جس کے پاؤں پر پہ ہوتے ہیں کہ اچانک اگلے شعر پہ نظر گئی۔ یوں شک کو یقین کا اطمینان حاصل ہوا اور جھوٹ کے پیر وں کو زمین نصیب ہوئی۔ اگلا شعر دیکھے ؎
جو تماشا اب تک محض افسانہ تھا وہ حقیقت بن گیا۔ شعر بالا سے واضح ہوگیا کہ صاحبِِ تاڑم تاڑو بالا بالا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ ادھر موصوف کی خود فریبی کا یہ عالم تھا کہ خود کو نادان اور معصوم سمجھ رہے ہیں، تماشا دوسروں کا دیکھتے ہیں، بری طرح دوسروں کو گھور تے ہیں اور ان کی بری بات کے جواب میں جب حسین برا مانتے ہیں تو ان کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں، گویا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ موصوف اپنے کو مظلوم سمجھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہائے ہائے ان حسینوں نے تو بدتیزی کرکرکے میرا تماشا بنا کے رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد لگے حسینوں کو کوسنے پیٹنے کہ یہ سب بڑے عیار مکار ہوتے ہیں ڈھکے چھپے رہتے ہیں، کھل کے سامنے نہیں آتے۔ کوئی انہیں سمجھائے کہ یہ کھل کے سامنے کیوں آئیں بھئی؟ یہ کوئی تھائی لینڈ کے حسین ہیں؟ ویسے بھی اگلا شعر ان کا سارا کچا چٹھا کھول رہا ہے کہ حسین انہیں منہ کیوں نہیں لگارہے ہیں؟ یاد رہے اگر منہ لگانا کسی کے دماغ کو فحش نگاری کی طرف لے جارہا ہے تو ہم معذرت خواہ ہرگز نہیں ہیں، بلکہ ان لوگوں کو اپنے دماغ کو لگام ڈالنی چاہئیے تاکہ وہ ادھر ادھر نہ نکلے، سیدھی راہ پر گامزن رہے۔ کیوں کہ اب ہم بھی تیسرے شعر کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں اور حسینوں کے منہ چڑھانے کا راز جانتے ہیں ؎
دیکھا یہ صاحبِ تاڑو آخر میں عمر رسیدہ نکلے۔ چچا ہوکر بھیتجوں جیسا پروٹوکول طلب کرنے نکلے، ہونہہ۔ جانتے نہیں کہ حسینوں کو بھی اپنا ہم عمر جوان چاہیے، کیوں کہ یہ حسین خود بھی جوان ہیں۔ اگر جوان نہ ہوتے تو بھلا حسین کیوں کر ہوتے؟؟؟
پس خلاصہ ذکر کردہ جنجال پورے کا یہ نکلا کہ مذکورہ حسینوں کو بھی کم از کم ایک عدد جوان جہان منڈا چاہیے۔ کیوں کہ ان حسینوں سے منسوب یہ قول آج کل بڑا وائرل ہورہا ہے کہ بیس سالہ ایک جوان کی محبت ستر سالہ بیس بوڑھوں کی محبت سے بہتر ہے!!!