ہماری خوش نصیبی کہ بعد مدت کے
خورشید صاحب جیسے کمالِ باکمال کی مے ناب سے اپنے دستِ نایاب کے ذریعہ چشم پُرآب کو فیض یاب کرنے کا وقت آیا۔۔۔
خورشید صاحب، یہ کیا غضب کیا، یہ کیا ستم کیا کہ ہمارے ہاتھ بلینک چیک دے دیا۔ یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی بھلا جو آپ نے کہی ’’
ایک نظم‘‘۔ جب اتنی مشکل سے کوئی نظم کہی ہی تھی تو نام بھی اچھوتا رکھتے مثلاً ’’دو نظم‘‘۔ یہ ایک نظم تو ہر کوئی کہتا پھرتا ہے، آپ نے بھی کہہ دی تو خاص کمال نہیں کیا۔
ویسے اس کمال سے ایک قصہ یاد آیا جسے سنا کر آپ کو مالا مال کرتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے جاننے والے ایک بزرگ تھے۔ بزرگ تو وہ بعد میں بنے پہلے جوان تھے اور علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ خیر ہمیں ان کی جوانی سے کیا لینا دینا۔ جب ہم جوان ہوئے تو وہ پیرانی سالی کی عمر بھی کراس کررہے تھے۔
اس عمر میں اکثر وکیبلری کا مسئلہ در پیش رہتا ہے، بولے تو اکثر چیزوں کے نام فوراً ذہن میں نہیں آتے۔ اس سے یہ مت سمجھیے گا کہ پاگل پن کا کوئی مسئلہ ہے یا کوئی نفسیاتی کیس ہے۔ نہ بھئی نہ، ایسی کوئی بات نہیں، بات فقط اتنی ہے کہ وہ ہر بات کو بات بے بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ اب اس کو مثال سے سمجھیے۔ ایک بار انہوں نے ہم سے کہا کہ وہاں جاؤ، اس سے کہو وہ دے دے۔ عام لوگ تو ایسی بے تکی بات سن کر ٹاپتے رہ جاتے ہیں کہ بھئی کہاں جائیں، کس سے کہیں کہ کیا دے دے۔ مگر ہم کہ ٹھہرے سرکش و منہ زور۔ ٹاپتے ہم صرف اسکول کی دیوار تھے، ٹُلّا مارنے کے لیے۔ خیر ہم تو دریدہ دہنی سے پوچھ لیتے تھے کہ کہاں جائیں، کس سے کہیں ، کیا دے دے۔ اور یہ کِس کون سا والا کِس ہے؟ کہیں انگریری والا کِس تو نہیں ہے؟ا گر یہ انگریزی والا کِس ہے تو ایسے کِس کو ہم دور سے مِس کرتے ہیں۔ تب وہ کسمساتے ہوئے سوچ سوچ کے کہتے کہ پڑوس میں جاؤ، شبیر سے کہو، پان دے دے۔
اب دیکھیں ناں کتنی سادہ سی بات تھی، اس میں زیادہ سوچ و بچار والا تو کچھ نہیں تھا ناں؟ لیکن یہی بات اکثر ہمیں مشکل سے دوچار کردیتی تھی۔خیر مدعا آپ کو کسی بزرگ کی یادداشت کی کمزوری بتانا نہیں تھا بلکہ کچھ اور بتانا تھا۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے، کچھ اور بتانے سے قبل ہم آپ کو کچھ اور بتانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ ہم اکثر ان بزرگ سے کہا کرتے تھے آپ کی وکیبلری کے اصولوں کے مطابق ہم دنیا کی بیسیوں زبانیں بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اس پر وہ حیران ہوتے کہ اچھا کیسے؟ تب ہم یہ ازلی راز افشا کرتے کہ ہر زبان کے چند الفاظ سیکھ لیں مثلاً وہ ، یہ، اُس، کہو، دے دے وغیرہ اور ان الفاظ کے الٹ پھیر سے اپنا سارا مدعا بیان کرتے رہیں، اب سمجھنا نہ سمجھنا سننے والے پر منحصر، جیسا ہم لوگوں کا حال ہے۔ تس پہ وہ ہنس ہنس کے رہ جاتے۔
خیر اس واقعہ معترضہ کے بیان کرنے کے بعد اب وہ حال بیان کرتے ہیں جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی۔ اوہ سوری، روا روی میں ملی نغمہ نکل گیا، ورنہ یقین مانیے ہم یہ نہیں کہنا چاہ رہے تھے، ہم تو یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آپ کی جو نظم ہے جس کا عنوان ہے ایک نظم، اسے دوسروں کو بتانے سے مفاد عامہ کو متعدد خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ مثلاً سارے جدید و قدیم شاعر آپ کے اصول کی پیروی کریں اور اپنی ہر نظم کا نہیں تو کم ازکم ایک نظم کا عنوان رکھیں ایک نظم، تو ایک ایک کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ہم کہیں کہ ایک نظم میں کیا کمال کی منظر کشی کی گئی ہے، اور شاعر کا نام نہ بتائیں تو لوگ اقبال پلمبر کی ایک نظم جاجا کے پڑھیں گے، وہاں ستلی، ٹیپ، پانے کا ذکر تو ملے گا لیکن کوئی منظر کشی نہیں دِکھے گی۔ اس پہ لوگ باگ آکے ہمارا گریبان پکڑیں گے۔ تو ہم کس کس کو بتاتے پھریں گے کہ اس اس شاعر نے اس اس نظم کا عنوان رکھا ہےایک نظم ۔۔۔
اب بتائیں خورشید صاحب، ہے گڑبڑ گھٹالے والی بات کہ نہیں؟؟؟