عنوان طرح طرح کے

سیما علی

لائبریرین
ان کی شخصیت اور اخلاق میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کا مذاق اڑایا جائے!!!
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرئے
اسی لئے علما اور صوفی!!!! بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے !!!اُن کے کردار کی صداقت ہی ہر چیز پر غالب تھی۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرئے
اسی لئے علما اور صوفی!!!! بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے !!!اُن کے کردار کی صداقت ہی ہر چیز پر غالب تھی۔۔۔۔
علامہ اقبال رح نے جو ایک قائد کی نشانیاں بتائیں وہ دیکھیے کیسے قائداعظم پر صادق آتی ہیں اور آج کے ہمارے قائدین اس سے مکمل طور پر مختلف نظر آتے ہیں۔ الا ماشاءاللہ
نِگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
 

سید عمران

محفلین
بعض عنوان ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے اندر ہزار عنوان رکھتے ہیں۔ لیکن ٹھہرئیے قبل اس کے آپ کا ذہن بھٹک کر کسی سنجیدہ تحقیقی مقالے کی طرف چلا جائے ہم آپ کو ڈی ٹریک ہونے سے بچاتے ہیں اور ایک بار پھر یاد دہانی کراتے ہیں کہ ہم سے کسی سنجیدہ مضمون کی توقع رکھنا چائنیز سوپ میں چائنیز ڈھونڈنے کے برابر ہے۔
تو بات ہورہی تھی عنوان کی بلکہ عنوان کے اندر مزید عنوان کی۔ یہاں ہمیں ڈبے میں ڈبہ ، ڈبہ میں کیک جیسا فرسودہ شعر دہرانے کی اجازت دیں کہ اس شعر کا اس مضمون سے گہرا ربط ہے کیوں کہ اس مضمون کا اُس عنوان سے گہرا تعلق ہے جو ہم ابھی بیان کرنے والے ہیں۔
جی تو ہم بیان کر رہے ہیں کہ جس عنوان کے بارے میں ہم یہ مضمون لکھ رہے ہیں وہ عنوان نام بدل بدل کر اپنے اندر ہزار عنوان سمونے کے صلاحیت رکھتا ہے۔ اب مزید کچھ کہنے سننے کے بجائے سیدھا، براہ راست اس عنوان کی بات کرتے ہیں جس کو دیکھ کر ہمارے اندر کا سویا ہوا اژدھا کلبلا کر رہ جاتا ہے۔ ہم ہزار بار اس کا سر کچل چکے ہیں لیکن عنوان دیکھتے ہی وہ پھر سر اٹھا لیتا ہے۔ اژدھے کے شر و فساد سے بچنے کی ایک ہی راہ تھی کہ وہ عنوان صفحہ سرورق سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا۔ افسوس! یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور جن کے بس میں ہے آج کل ان کا کسی پر بس نہیں چل رہا ہے۔
اب ہو کچھ یوں رہا ہے کہ کوئی راہ نہ پاتے ہوئے آج یہ سر کچلا اژدھا منہ کھولے باہر آگیا۔ بس اب کچھ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ نہ عنوان مٹا نہ اژدھا مرا۔ رخ اس اژدھے کا سیدھا عنوان کی طرف ہے۔ سسکاریاں بھرتا اژدھا عنوان پر نگاہیں جمائے بزبانِ حال پوچھ رہا ہے کہ یہاں احمق کون ہے کو سوالیہ انداز میں کیوں پوچھا جارہا ہے۔ کیا سب کو معلوم نہیں ہے کہ احمق کون ہے؟؟؟
چناں چہ سب پر لازم ہے کہ دل پہ ہاتھ رکھ کے جلدی سے اپنے والے احمق کا نام زیر لب دُہرائیں۔ لیکن صرف زیرِ لب دہرانے کی ہورہی ہے۔ کسی نے یہاں لکھنے کی کوشش کی اور ا ژدھے کو یہ کوشش پسند نہ آئی تو جانتے ہیں کیا ہوگا؟؟؟
بھئی وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ہے۔ اژدھے کے شر و فساد سے بچنے کی ایک ہی راہ تھی کہ وہ عنوان صفحہ سرورق سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا۔ افسوس! یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور جن کے بس میں ہے آج کل ان کا کسی پر بس نہیں چل رہا۔
اب ہو کچھ یوں رہا ہے کہ کوئی راہ نہ پاتے ہوئے آج یہ سر کچلا اژدھا منہ کھولے باہر آگیا۔ بس اب کچھ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ نہ عنوان مٹا نہ اژدھا مرا۔ رخ اس اژدھے کا سیدھا عنوان کی طرف ہے۔ سسکاریاں بھرتا اژدھا عنوان پر نگاہیں جمائے بزبانِ حال پوچھ رہا ہے کہ یہاں احمق کون ہے کو سوالیہ انداز میں کیوں پوچھا جارہا ہے۔ کیا سب کو معلوم نہیں ہے کہ احمق کون ہے؟؟؟
اچھا ہوا یہ اژدھا منہ کھولے باہر آیا اور اے کلاس تحریر پڑھنے کا موقع ملا !!!!بہت خوبصورت انداز اور یہ ون اینڈ اونلی مفتی صاحب کا ہی ہو سکتا ہے !!!! شاد و آباد رہیے بڑی کے ساتھ🤓🤓👏👏👏👏
 

رباب واسطی

محفلین
زندگی احساس کا اور احساس زندگی کا عنوان ہے
زندگی چیزوں کا نام نہیں ہے
زندگی تو احساسات کا نام ہے
احساس پر جب چوٹ پڑتی ہے تو زندگی ویران ہو جاتی ہے اور احساس کو جب نشوونما ملتی ہے تو زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے
احساس پر چوٹ برے رویوں سے پڑتی ہے اور برے اخلاق زندگیوں کو تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں اور اچھے اخلاق زندگی کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیتے ہیں
احساس کو خوبصورت اخلاق پانی لگاتے اور برے اخلاق آگ لگا دیتے ہیں
 

سید عمران

محفلین
ہماری خوش نصیبی کہ بعد مدت کے خورشید صاحب جیسے کمالِ باکمال کی مے ناب سے اپنے دستِ نایاب کے ذریعہ چشم پُرآب کو فیض یاب کرنے کا وقت آیا۔۔۔
خورشید صاحب، یہ کیا غضب کیا، یہ کیا ستم کیا کہ ہمارے ہاتھ بلینک چیک دے دیا۔ یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی بھلا جو آپ نے کہی ’’ایک نظم‘‘۔ جب اتنی مشکل سے کوئی نظم کہی ہی تھی تو نام بھی اچھوتا رکھتے مثلاً ’’دو نظم‘‘۔ یہ ایک نظم تو ہر کوئی کہتا پھرتا ہے، آپ نے بھی کہہ دی تو خاص کمال نہیں کیا۔
ویسے اس کمال سے ایک قصہ یاد آیا جسے سنا کر آپ کو مالا مال کرتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے جاننے والے ایک بزرگ تھے۔ بزرگ تو وہ بعد میں بنے پہلے جوان تھے اور علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ خیر ہمیں ان کی جوانی سے کیا لینا دینا۔ جب ہم جوان ہوئے تو وہ پیرانی سالی کی عمر بھی کراس کررہے تھے۔
اس عمر میں اکثر وکیبلری کا مسئلہ در پیش رہتا ہے، بولے تو اکثر چیزوں کے نام فوراً ذہن میں نہیں آتے۔ اس سے یہ مت سمجھیے گا کہ پاگل پن کا کوئی مسئلہ ہے یا کوئی نفسیاتی کیس ہے۔ نہ بھئی نہ، ایسی کوئی بات نہیں، بات فقط اتنی ہے کہ وہ ہر بات کو بات بے بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ اب اس کو مثال سے سمجھیے۔ ایک بار انہوں نے ہم سے کہا کہ وہاں جاؤ، اس سے کہو، وہ دے دے۔ عام لوگ تو ایسی بے تکی بات سن کر ٹاپتے رہ جاتے ہیں کہ بھئی کہاں جائیں، کس سے کہیں کہ کیا دے دے۔ مگر ہم کہ ٹھہرے سرکش و منہ زور۔ ٹاپتے ہم صرف اسکول کی دیوار تھے، ٹُلّا مارنے کے لیے۔ خیر ہم تو دریدہ دہنی سے پوچھ لیتے تھے کہ کہاں جائیں، کس سے کہیں ، کیا دے دے۔ اور یہ کِس کون سا والا کِس ہے؟ کہیں انگریری والا کِس تو نہیں ہے؟ا گر یہ انگریزی والا کِس ہے تو ایسے کِس کو ہم دور سے مِس کرتے ہیں۔ تب وہ کسمساتے ہوئے سوچ سوچ کے کہتے کہ پڑوس میں جاؤ، شبیر سے کہو، پان دے دے۔
اب دیکھیں ناں کتنی سادہ سی بات تھی، اس میں زیادہ سوچ و بچار والا تو کچھ نہیں تھا ناں؟ لیکن یہی بات اکثر ہمیں مشکل سے دوچار کردیتی تھی۔خیر مدعا آپ کو کسی بزرگ کی یادداشت کی کمزوری بتانا نہیں تھا بلکہ کچھ اور بتانا تھا۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے، کچھ اور بتانے سے قبل ہم آپ کو کچھ اور بتانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ ہم اکثر ان بزرگ سے کہا کرتے تھے آپ کی وکیبلری کے اصولوں کے مطابق ہم دنیا کی بیسیوں زبانیں بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اس پر وہ حیران ہوتے کہ اچھا کیسے؟ تب ہم یہ ازلی راز افشا کرتے کہ ہر زبان کے چند الفاظ سیکھ لیں مثلاً وہ ، یہ، اُس، کہو، دے دے وغیرہ اور ان الفاظ کے الٹ پھیر سے اپنا سارا مدعا بیان کرتے رہیں، اب سمجھنا نہ سمجھنا سننے والے پر منحصر، جیسا ہم لوگوں کا حال ہے۔ تس پہ وہ ہنس ہنس کے رہ جاتے۔
خیر اس واقعہ معترضہ کے بیان کرنے کے بعد اب وہ حال بیان کرتے ہیں جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی۔ اوہ سوری، روا روی میں منہ سے ملی نغمہ نکل گیا، ورنہ یقین مانیے ہم یہ نہیں کہنا چاہ رہے تھے، ہم تو یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آپ کی جو نظم ہے جس کا عنوان ہے ایک نظم، اسے دوسروں کو بتانے سے مفاد عامہ کو متعدد خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ مثلاً سارے جدید و قدیم شاعر اگر آپ کے اصول کی پیروی کریں اور اپنی ہر نظم کا نہیں تو کم ازکم ایک ایک نظم کا عنوان رکھیں ایک نظم، تو ہر ایک کو جس دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا ہر ایک کو اندازہ نہیں۔ اب ہم کہیں کہ ایک نظم میں کیا کمال کی منظر کشی کی گئی ہے، اور شاعر کا نام نہ بتائیں تو لوگ اقبال پلمبر کی ایک نظم جاجا کے پڑھیں گے، وہاں ستلی، ٹیپ، پانے کا ذکر تو ملے گا لیکن کوئی منظر کشی نہیں دِکھے گی۔ اس پہ لوگ باگ آکے ہمارا گریبان پکڑیں گے۔ تو ہم کس کس کو بتاتے پھریں گے کہ کس کس شاعر نے اپنی کس کس نظم کا عنوان رکھا ہےایک نظم۔۔۔

اب بتائیں خورشید صاحب، ہے گڑبڑ گھٹالے والی بات کہ نہیں؟؟؟
 
آخری تدوین:
ہماری خوش نصیبی کہ بعد مدت کے خورشید صاحب جیسے کمالِ باکمال کی مے ناب سے اپنے دستِ نایاب کے ذریعہ چشم پُرآب کو فیض یاب کرنے کا وقت آیا۔۔۔
خورشید صاحب، یہ کیا غضب کیا، یہ کیا ستم کیا کہ ہمارے ہاتھ بلینک چیک دے دیا۔ یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی بھلا جو آپ نے کہی ’’ایک نظم‘‘۔ جب اتنی مشکل سے کوئی نظم کہی ہی تھی تو نام بھی اچھوتا رکھتے مثلاً ’’دو نظم‘‘۔ یہ ایک نظم تو ہر کوئی کہتا پھرتا ہے، آپ نے بھی کہہ دی تو خاص کمال نہیں کیا۔
ویسے اس کمال سے ایک قصہ یاد آیا جسے سنا کر آپ کو مالا مال کرتے ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے جاننے والے ایک بزرگ تھے۔ بزرگ تو وہ بعد میں بنے پہلے جوان تھے اور علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔ خیر ہمیں ان کی جوانی سے کیا لینا دینا۔ جب ہم جوان ہوئے تو وہ پیرانی سالی کی عمر بھی کراس کررہے تھے۔
اس عمر میں اکثر وکیبلری کا مسئلہ در پیش رہتا ہے، بولے تو اکثر چیزوں کے نام فوراً ذہن میں نہیں آتے۔ اس سے یہ مت سمجھیے گا کہ پاگل پن کا کوئی مسئلہ ہے یا کوئی نفسیاتی کیس ہے۔ نہ بھئی نہ، ایسی کوئی بات نہیں، بات فقط اتنی ہے کہ وہ ہر بات کو بات بے بات نہیں کہہ سکتے تھے۔ اب اس کو مثال سے سمجھیے۔ ایک بار انہوں نے ہم سے کہا کہ وہاں جاؤ، اس سے کہو وہ دے دے۔ عام لوگ تو ایسی بے تکی بات سن کر ٹاپتے رہ جاتے ہیں کہ بھئی کہاں جائیں، کس سے کہیں کہ کیا دے دے۔ مگر ہم کہ ٹھہرے سرکش و منہ زور۔ ٹاپتے ہم صرف اسکول کی دیوار تھے، ٹُلّا مارنے کے لیے۔ خیر ہم تو دریدہ دہنی سے پوچھ لیتے تھے کہ کہاں جائیں، کس سے کہیں ، کیا دے دے۔ اور یہ کِس کون سا والا کِس ہے؟ کہیں انگریری والا کِس تو نہیں ہے؟ا گر یہ انگریزی والا کِس ہے تو ایسے کِس کو ہم دور سے مِس کرتے ہیں۔ تب وہ کسمساتے ہوئے سوچ سوچ کے کہتے کہ پڑوس میں جاؤ، شبیر سے کہو، پان دے دے۔
اب دیکھیں ناں کتنی سادہ سی بات تھی، اس میں زیادہ سوچ و بچار والا تو کچھ نہیں تھا ناں؟ لیکن یہی بات اکثر ہمیں مشکل سے دوچار کردیتی تھی۔خیر مدعا آپ کو کسی بزرگ کی یادداشت کی کمزوری بتانا نہیں تھا بلکہ کچھ اور بتانا تھا۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے، کچھ اور بتانے سے قبل ہم آپ کو کچھ اور بتانا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ ہم اکثر ان بزرگ سے کہا کرتے تھے آپ کی وکیبلری کے اصولوں کے مطابق ہم دنیا کی بیسیوں زبانیں بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اس پر وہ حیران ہوتے کہ اچھا کیسے؟ تب ہم یہ ازلی راز افشا کرتے کہ ہر زبان کے چند الفاظ سیکھ لیں مثلاً وہ ، یہ، اُس، کہو، دے دے وغیرہ اور ان الفاظ کے الٹ پھیر سے اپنا سارا مدعا بیان کرتے رہیں، اب سمجھنا نہ سمجھنا سننے والے پر منحصر، جیسا ہم لوگوں کا حال ہے۔ تس پہ وہ ہنس ہنس کے رہ جاتے۔
خیر اس واقعہ معترضہ کے بیان کرنے کے بعد اب وہ حال بیان کرتے ہیں جس کی خاطر ہم نے دی قربانی لاکھوں جان کی۔ اوہ سوری، روا روی میں ملی نغمہ نکل گیا، ورنہ یقین مانیے ہم یہ نہیں کہنا چاہ رہے تھے، ہم تو یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ آپ کی جو نظم ہے جس کا عنوان ہے ایک نظم، اسے دوسروں کو بتانے سے مفاد عامہ کو متعدد خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ مثلاً سارے جدید و قدیم شاعر آپ کے اصول کی پیروی کریں اور اپنی ہر نظم کا نہیں تو کم ازکم ایک نظم کا عنوان رکھیں ایک نظم، تو ایک ایک کو دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اب ہم کہیں کہ ایک نظم میں کیا کمال کی منظر کشی کی گئی ہے، اور شاعر کا نام نہ بتائیں تو لوگ اقبال پلمبر کی ایک نظم جاجا کے پڑھیں گے، وہاں ستلی، ٹیپ، پانے کا ذکر تو ملے گا لیکن کوئی منظر کشی نہیں دِکھے گی۔ اس پہ لوگ باگ آکے ہمارا گریبان پکڑیں گے۔ تو ہم کس کس کو بتاتے پھریں گے کہ اس اس شاعر نے اس اس نظم کا عنوان رکھا ہےایک نظم ۔۔۔

اب بتائیں خورشید صاحب، ہے گڑبڑ گھٹالے والی بات کہ نہیں؟؟؟
محترم سید عمران صاحب!
بہت خوشی ہوئی کی ایک پورا مضمون آپ نے لکھا میری نظم پر- اتنا اچھا مضمون لکھنے پر میری طرف سے مبارکباد۔ اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میں ایک نقاد بننے کی کافی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر آپ یہ کام پہلے نہیں کرتے تو اب ضرور اس پر سوچیں۔ اور نقاد تو ایک عالم فاضل شخص ہی ہوسکتا ہے جو کہ آپ ہیں۔
میں الٹا سیدھا کچھ لکھ تو لیتا ہوں لیکن اردو میری بس واجبی سی ہے جیسا کہ آپ نے اپنے مضمون میں کسی کے بارے میں بتایا ہے۔
ہم اکثر ان بزرگ سے کہا کرتے تھے آپ کی وکیبلری کے اصولوں کے مطابق ہم دنیا کی بیسیوں زبانیں بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اس پر وہ حیران ہوتے کہ اچھا کیسے؟ تب ہم یہ ازلی راز افشا کرتے کہ ہر زبان کے چند الفاظ سیکھ لیں مثلاً وہ ، یہ، اُس، کہو، دے دے وغیرہ اور ان الفاظ کے الٹ پھیر سے اپنا سارا مدعا بیان کرتے رہیں، اب سمجھنا نہ سمجھنا سننے والے پر منحصر،
اور آپ نے تو ماشااللہ اردوئے معلیٰ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے
مضمون کا مطمع نظر جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ نظم کا کوئی عنوان بھی ہونا چاہیے تھا- تو اس پورے مضمون کے آخر میں اگر ایک عنوان بھی تجویز کردیتے تو بہت خوشی ہوتی اور شکریے کے ساتھ میں قبول کرلیتا۔ اب بہر حال وہی بات کہ پڑھنے والا اسے جو عنوان دیدے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
 

سید عمران

محفلین
محترم سید عمران صاحب!
بہت خوشی ہوئی کی ایک پورا مضمون آپ نے لکھا میری نظم پر- اتنا اچھا مضمون لکھنے پر میری طرف سے مبارکباد۔ اس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میں ایک نقاد بننے کی کافی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر آپ یہ کام پہلے نہیں کرتے تو اب ضرور اس پر سوچیں۔ اور نقاد تو ایک عالم فاضل شخص ہی ہوسکتا ہے جو کہ آپ ہیں۔
میں الٹا سیدھا کچھ لکھ تو لیتا ہوں لیکن اردو میری بس واجبی سی ہے جیسا کہ آپ نے اپنے مضمون میں کسی کے بارے میں بتایا ہے۔
ہم اکثر ان بزرگ سے کہا کرتے تھے آپ کی وکیبلری کے اصولوں کے مطابق ہم دنیا کی بیسیوں زبانیں بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ اس پر وہ حیران ہوتے کہ اچھا کیسے؟ تب ہم یہ ازلی راز افشا کرتے کہ ہر زبان کے چند الفاظ سیکھ لیں مثلاً وہ ، یہ، اُس، کہو، دے دے وغیرہ اور ان الفاظ کے الٹ پھیر سے اپنا سارا مدعا بیان کرتے رہیں، اب سمجھنا نہ سمجھنا سننے والے پر منحصر،
اور آپ نے تو ماشااللہ اردوئے معلیٰ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے
مضمون کا مطمع نظر جو میری سمجھ میں آیا وہ یہ ہے کہ نظم کا کوئی عنوان بھی ہونا چاہیے تھا- تو اس پورے مضمون کے آخر میں اگر ایک عنوان بھی تجویز کردیتے تو بہت خوشی ہوتی اور شکریے کے ساتھ میں قبول کرلیتا۔ اب بہر حال وہی بات کہ پڑھنے والا اسے جو عنوان دیدے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
ہم نے یہ مضمون کسی مطمع نظر کے تحت نہیں لکھا۔۔۔
ایسے ہی لکھ دیا کہ تھوڑا سا مسکرالیں، خوش ہولیں، بس!!!
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس پر لکھوں؟؟؟
ہمارا تحریری کس ہمیشہ اردو والا ہی ہوتا ہے!!!
آپ کس بل پر لکھئیے۔
کس پر بھی زبر ہے اور بل پر بھی۔
چراغ کس نے رگڑا جو آواز آئی
مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں
 
Top