اب دیکھیے
عرفان علوی بھائی کی ایک تازہ بہ تازہ غزل کا عنوان۔۔۔
قارئین دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ عنوان پڑھتے وقت یہ نہیں لگتا کہ گویا یہ میرے دل کی آواز ہے، وہی آواز جو متقدمین اساتذہ کے زمانے کی آواز ہے، وہی آواز جو وہ اس فانی و بے ثبات دنیا کے حالاتِ ناساز کے بارے میں لگاتے رہے، دنیا کی مذمت بیان کرتے رہے۔ تاکہ بارے یہ ملحوظ خاطر رہے کہ یہ دنیا انتہائی بودی، دَنی اور ناپائیدار ہے، یہاں چین، راحت اور آرام جیسی اشیاء عنقا اور نایاب ہیں۔ لہٰذا اس واہیات و نامراد دنیا سے دل لگانا عبث ہے۔ پھر خود اپنے سے مخاطب ہوتے کہ اے پل دو پل کے مسافر چل بوریا بستر اٹھا اور چل دے اس بودی دنیا سے۔
قارئین عنوان پڑھ کر جب آپ ان ہی گوناگوں کیفیات میں مگن اور سوچ و بچار میں گم، خود کو اور شاعر کو دنیا کی بے چینیوں کے خلاف پاتے ہوئے لڑی ہذٰا میں داخل ہوکر پہلا ہی شعر یعنی مطلع پڑھتے ہیں تو لگتا ہے جیسے آپ کے تصورات کا تاج محل چکنا چور ہوگیا، کرچی کرچی ہوگیا۔ کیوں کہ لڑی ہٰذا میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ شاعر خود اپنے سے مخاطب ہو، خود اپنے آپ کو دنیا پہ لات مارنے کا کہہ رہا ہو بلکہ ان تمام تر تاثرات کے برخلاف لڑی ہٰذا کے پہلے شعر ہی میں شاعر اپنے سے متعلق آپ کی تمام غلط فہمیوں کو دور کرکے آپ کے ہوش ٹھکانے لگا دیتا ہے۔ وہ واضح طور پر ببانگ دہل اعلان کرتا ہے کہ اگرچہ یہ موئی دنیا لاکھ نامراد سہی، کروڑ بدنام سہی پھر بھی اے مسافر اس دنیا سے ہمیں نہیں تجھے نکلنا چاہئیے، کیوں کہ بسیار سوچ و بچار کے باوجود ہمیں تمہارا اس دنیا میں آمد کا کوئی مقصد، کوئی کام سمجھ میں نہیں آیا۔ لہٰذا چپ چاپ پتلی گلی پکڑ اور وہاں سے نکل!!!
ملاحظہ ہو معرکۃ الآراء اعصاب شکن شعر جس نے اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دئیے۔۔۔
یہاں پر چین کیا ، آرام کیا ہے
بھلا دنیا میں
اُن کا کام کیا ہے