راشد احمد
محفلین
میں آج کل کافی پریشان ہوں۔ اس کی وجہ ملک کے حالات ہیں۔ جب سے پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے۔ پاکستان دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ بھارت اور امریکہ نے پاکستان پر دھمکیوں کی یلغار کر دی ہے اور ہم سے بے جا مطالبات کر رہے ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس اور بے حسی کا عالم ہے۔ ہر طرف ایک عجب سی بے چینی ہے کہ کل پتہ نہیں کیا ہو جائے۔میں نے اپنے آپ میں اور پاکستانی عوام کا بغور جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ہم حکمرانوں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ کیا ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہر کالم نگار، ٹی وی پروگرام حکمرانوں کو لتاڑنے میں مصروف ہے کوئی عوام کو دیکھتا ہی نہیں کہ وہ اس میں کہاں کھڑی ہے۔
تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک کالم لکھا جائے جو عوام کے بارے میں ہوں۔ میں یہ کالم اپنی ویب سائٹ عوام آن لائن ڈاٹ کام پر شائع کر چکا ہوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کالم کو ایسی جگہ پر شائع کیا جائے جہاں عوام کا ہجوم ہو۔ تاکہ عوام تک میری بات پہنچ سکے۔ یہ کالم میری پہلی کاوش ہے۔ اگر میں جانے انجانے میں کسی کی دل آزاری کردوں تو معذرت خواہ ہوں۔ لیکن اگر آپ کو کوئی میری بات غلط لگے تو میری اصلاح ضرور کیجئے گا۔
جب بھی ملک میں مہنگائی ہوتی ہے، چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں. قانون شکنی ہوتی ہے، حکمران اور سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹتے ہیں یا کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے. تو ساراملبہ حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے
ہم اکثر حمکران ٹولے کو جھنجھوڑتے نظر آتے ہیں، سارے گلے شکوے بھی اسی سے کرتے ہیں، لیکن افسوس ہمارے حکمران طبقے میں عمل کا فقدان ہے اور ان کے اندر کا انسان مر چکا ہے، یقیناََ مردے کبھی واپس نہیں آتے بلکہ وہ تو جاگنے کے لئے صرف قیامت کے منتظر ہوتے ہیں۔ آپ ان مردوں کو جگانے کے لئے کالم نگار اور دانشور اپنے قلم کی سیاہی کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو مورو الزام دینے کی بجائے ہمیں خود جاگنا چاہئے. ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ
- ہم نے اپنے حقوق کس طرح حاصل کرنے ہیں.
- ہمیں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا فرسودہ کس طرح سے ختم کرنا ہے.
- ہم نے ان کرپٹ اور بددیانت لوگوں کا احتساب کس طرح کرنا ہے.
- ہمیں اپنے حقوق کے لئے کس طرح جنگ کرنی ہے.
بہت سے مسائل ہم عوام کے ہی پیدا کردہ ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم غلط لوگوں کو ہر بار منتخب کرتے ہیں. ہم عوام حکمرانوں کے دکھائے گئے سبز باغ کو صحیح سمجھ لیتے ہیں.
- ہم ان لوگوں کو بار بار منتخب کرتے ہیں جن کو ہم کئی بار آزما چکے ہیں وہ ہر بار عوام کی امنگوں کا خون کرکے اقتدار کے مزے لیتے ہیں. مومن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ جس سوراخ سے ایک بار ڈسا جاتا ہے دوبارہ اس سوراخ کا رخ نہیں کرتا.
- ہم ان حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے. اگر کوئی اشیائے ضروری مہنگی کرتا ہے تو ہم کچھ نہیں بولتے. کوئی ہمارے ملک پر یلغار کرتا ہے تو ہم چپ رہتے ہیں.
- کوئی حکمران ملک میں عدل وانصاف کا خون کرتا ہے تو ہم نہیں بولتے.
- کوئی پولیس والا ہمارے کسی عزیز کو بلاوجہ گرفتار کرتا ہے کہ ہم لوگ مل کر آواز اٹھانے کی بجائے ان کو رشوت کی پیشکش کرتے ہیں.
- کسی سرکاری دفتر میں ہمیں قطار میں کھڑا ہونا پڑ جائے تو ہم قطار سے بچنے کے لئے رشوت کی پیشکش کرتے ہیں.
- کوئی ہمارے ملک میں بجلی کا بحران پیدا کر دے تو ہم احتجاج کرنے کی بجائے یو پی ایس یا جنریٹر خریدنا شروع کر دیتے ہیں.
- کوئی بدمعاش ہمارے علاقے میں کسی شخص پر ظلم ڈھائے تو ہم خاموش ہوجاتے ہیں کہ کہیں وہ ہمیں مار ہی نہ ڈالے.
- کسی جگہ کوئی حادثہ ہو جائے تو ہم چپ چاپ وہاں سے کھسک جاتے ہیں کہ کہیں ہمیں اس حادثے کا ذمہ دار قرار دے کر دھر نہ لیا جائے.
- جو بھی نیا حکمران آتا ہے ہم اس کو پہلے اچھا کہتے ہیں لیکن بعد میں اس کو برا بھلا کہنا شروع دیتے ہیں اور کچھ سالوں بعد اس کو دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں.
- ہم لوگ اپنے آپ کو بلوچی، پنجابی، سندھی، پشتون کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں، پاکستانی کہہ کر نہیں.
- ہم ذات برادری کے چکروں میں الجھے ہوئے ہیں. الیکشن کے دنوں میں اسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ہماری ذات برادری کا ہو یا کوئی ہمارا قریبی عزیز ہو.
- ہم لوگ خود کو سنی، وہابی، شیعہ کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں مسلمان کہہ کر نہیں.
- ہم لوگ ملکی حالات پر کڑھتے ہیں لیکن کوئی صدائے احتجاج نہیں کرتے.
- ہمارے اندر منافقت سرایت کرگئی ہے. ہم لوگ خود غلط کام کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے غلط کاموں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. حالانکہ ان پر تنقید کرنے کے لئے پہلے ہمیں خود ٹھیک ہونا پڑے گا.
- ہم فضول رسم و رواج میں الجھے ہوئے ہیں. شادی بیاہ، خوشی غمی پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے بھائیوں کی حالت زار کو ٹھیک نہیں کرتے.
- ہم کسی قطار میں کھڑے ہوں تو ایک دوسرے کو دھکے مار کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.
- ہم تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے.
- ہم لوگ اپنے مذہب سے دور ہو چکے ہیں. نماز پنجگانہ کا اہتمام نہیں کرتے اس لئے تقوی، سکون اور صبر سے محروم ہیں.
- لوگوں کی دیکھا دیکھی میں ہم بھی اپنے ہاتھ سے اپنا منہ لال کرتے ہیں.
- مغرب کی روایات سے ہم متاثر ہیں. اپنے اسلاف کے کارناموں کو ہم بھول چکے ہیں اور جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے.
ایک بات یاد رکھیں کہ حکمران لوگ آسمان سے نہیں اترے یہ بھی ہماری طرح کے لوگ ہیں. یہ بھی انسان ہیں اور ہم عوام بھی انسان ہیں لہذا آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کریں. یہ نہ سوچیں کہ اس جدوجہد پر کتنا وقت لگے گا. بلکہ جدوجہد کرتے جائیں. تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے. آج وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوم ہیں.
میں نے اگرچہ ایک کڑوا سچ کہا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ میں کوئی غلط بات کر گیا ہوں. اگر کسی بھائی کو میری باتیں بری لگیں تو پیشگی معذرت ہے.
تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک کالم لکھا جائے جو عوام کے بارے میں ہوں۔ میں یہ کالم اپنی ویب سائٹ عوام آن لائن ڈاٹ کام پر شائع کر چکا ہوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کالم کو ایسی جگہ پر شائع کیا جائے جہاں عوام کا ہجوم ہو۔ تاکہ عوام تک میری بات پہنچ سکے۔ یہ کالم میری پہلی کاوش ہے۔ اگر میں جانے انجانے میں کسی کی دل آزاری کردوں تو معذرت خواہ ہوں۔ لیکن اگر آپ کو کوئی میری بات غلط لگے تو میری اصلاح ضرور کیجئے گا۔
جب بھی ملک میں مہنگائی ہوتی ہے، چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں. قانون شکنی ہوتی ہے، حکمران اور سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹتے ہیں یا کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے. تو ساراملبہ حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے
ہم اکثر حمکران ٹولے کو جھنجھوڑتے نظر آتے ہیں، سارے گلے شکوے بھی اسی سے کرتے ہیں، لیکن افسوس ہمارے حکمران طبقے میں عمل کا فقدان ہے اور ان کے اندر کا انسان مر چکا ہے، یقیناََ مردے کبھی واپس نہیں آتے بلکہ وہ تو جاگنے کے لئے صرف قیامت کے منتظر ہوتے ہیں۔ آپ ان مردوں کو جگانے کے لئے کالم نگار اور دانشور اپنے قلم کی سیاہی کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو مورو الزام دینے کی بجائے ہمیں خود جاگنا چاہئے. ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ
- ہم نے اپنے حقوق کس طرح حاصل کرنے ہیں.
- ہمیں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا فرسودہ کس طرح سے ختم کرنا ہے.
- ہم نے ان کرپٹ اور بددیانت لوگوں کا احتساب کس طرح کرنا ہے.
- ہمیں اپنے حقوق کے لئے کس طرح جنگ کرنی ہے.
بہت سے مسائل ہم عوام کے ہی پیدا کردہ ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم غلط لوگوں کو ہر بار منتخب کرتے ہیں. ہم عوام حکمرانوں کے دکھائے گئے سبز باغ کو صحیح سمجھ لیتے ہیں.
- ہم ان لوگوں کو بار بار منتخب کرتے ہیں جن کو ہم کئی بار آزما چکے ہیں وہ ہر بار عوام کی امنگوں کا خون کرکے اقتدار کے مزے لیتے ہیں. مومن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ جس سوراخ سے ایک بار ڈسا جاتا ہے دوبارہ اس سوراخ کا رخ نہیں کرتا.
- ہم ان حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے. اگر کوئی اشیائے ضروری مہنگی کرتا ہے تو ہم کچھ نہیں بولتے. کوئی ہمارے ملک پر یلغار کرتا ہے تو ہم چپ رہتے ہیں.
- کوئی حکمران ملک میں عدل وانصاف کا خون کرتا ہے تو ہم نہیں بولتے.
- کوئی پولیس والا ہمارے کسی عزیز کو بلاوجہ گرفتار کرتا ہے کہ ہم لوگ مل کر آواز اٹھانے کی بجائے ان کو رشوت کی پیشکش کرتے ہیں.
- کسی سرکاری دفتر میں ہمیں قطار میں کھڑا ہونا پڑ جائے تو ہم قطار سے بچنے کے لئے رشوت کی پیشکش کرتے ہیں.
- کوئی ہمارے ملک میں بجلی کا بحران پیدا کر دے تو ہم احتجاج کرنے کی بجائے یو پی ایس یا جنریٹر خریدنا شروع کر دیتے ہیں.
- کوئی بدمعاش ہمارے علاقے میں کسی شخص پر ظلم ڈھائے تو ہم خاموش ہوجاتے ہیں کہ کہیں وہ ہمیں مار ہی نہ ڈالے.
- کسی جگہ کوئی حادثہ ہو جائے تو ہم چپ چاپ وہاں سے کھسک جاتے ہیں کہ کہیں ہمیں اس حادثے کا ذمہ دار قرار دے کر دھر نہ لیا جائے.
- جو بھی نیا حکمران آتا ہے ہم اس کو پہلے اچھا کہتے ہیں لیکن بعد میں اس کو برا بھلا کہنا شروع دیتے ہیں اور کچھ سالوں بعد اس کو دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں.
- ہم لوگ اپنے آپ کو بلوچی، پنجابی، سندھی، پشتون کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں، پاکستانی کہہ کر نہیں.
- ہم ذات برادری کے چکروں میں الجھے ہوئے ہیں. الیکشن کے دنوں میں اسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ہماری ذات برادری کا ہو یا کوئی ہمارا قریبی عزیز ہو.
- ہم لوگ خود کو سنی، وہابی، شیعہ کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں مسلمان کہہ کر نہیں.
- ہم لوگ ملکی حالات پر کڑھتے ہیں لیکن کوئی صدائے احتجاج نہیں کرتے.
- ہمارے اندر منافقت سرایت کرگئی ہے. ہم لوگ خود غلط کام کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے غلط کاموں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. حالانکہ ان پر تنقید کرنے کے لئے پہلے ہمیں خود ٹھیک ہونا پڑے گا.
- ہم فضول رسم و رواج میں الجھے ہوئے ہیں. شادی بیاہ، خوشی غمی پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے بھائیوں کی حالت زار کو ٹھیک نہیں کرتے.
- ہم کسی قطار میں کھڑے ہوں تو ایک دوسرے کو دھکے مار کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.
- ہم تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے.
- ہم لوگ اپنے مذہب سے دور ہو چکے ہیں. نماز پنجگانہ کا اہتمام نہیں کرتے اس لئے تقوی، سکون اور صبر سے محروم ہیں.
- لوگوں کی دیکھا دیکھی میں ہم بھی اپنے ہاتھ سے اپنا منہ لال کرتے ہیں.
- مغرب کی روایات سے ہم متاثر ہیں. اپنے اسلاف کے کارناموں کو ہم بھول چکے ہیں اور جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے.
ایک بات یاد رکھیں کہ حکمران لوگ آسمان سے نہیں اترے یہ بھی ہماری طرح کے لوگ ہیں. یہ بھی انسان ہیں اور ہم عوام بھی انسان ہیں لہذا آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کریں. یہ نہ سوچیں کہ اس جدوجہد پر کتنا وقت لگے گا. بلکہ جدوجہد کرتے جائیں. تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے. آج وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوم ہیں.
میں نے اگرچہ ایک کڑوا سچ کہا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ میں کوئی غلط بات کر گیا ہوں. اگر کسی بھائی کو میری باتیں بری لگیں تو پیشگی معذرت ہے.