عوام کا قصور

راشد احمد

محفلین
میں آج کل کافی پریشان ہوں۔ اس کی وجہ ملک کے حالات ہیں۔ جب سے پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا ہے۔ پاکستان دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا ہے۔ بھارت اور امریکہ نے پاکستان پر دھمکیوں کی یلغار کر دی ہے اور ہم سے بے جا مطالبات کر رہے ہیں۔ عوام میں خوف و ہراس اور بے حسی کا عالم ہے۔ ہر طرف ایک عجب سی بے چینی ہے کہ کل پتہ نہیں کیا ہو جائے۔میں نے اپنے آپ میں اور پاکستانی عوام کا بغور جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ ہم حکمرانوں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ کیا ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہر کالم نگار، ٹی وی پروگرام حکمرانوں کو لتاڑنے میں مصروف ہے کوئی عوام کو دیکھتا ہی نہیں کہ وہ اس میں کہاں کھڑی ہے۔

تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ ایک کالم لکھا جائے جو عوام کے بارے میں ہوں۔ میں یہ کالم اپنی ویب سائٹ عوام آن لائن ڈاٹ کام پر شائع کر چکا ہوں۔ لیکن میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کالم کو ایسی جگہ پر شائع کیا جائے جہاں عوام کا ہجوم ہو۔ تاکہ عوام تک میری بات پہنچ سکے۔ یہ کالم میری پہلی کاوش ہے۔ اگر میں جانے انجانے میں کسی کی دل آزاری کردوں تو معذرت خواہ ہوں۔ لیکن اگر آپ کو کوئی میری بات غلط لگے تو میری اصلاح ضرور کیجئے گا۔

جب بھی ملک میں مہنگائی ہوتی ہے، چیزوں کی قیمتیں بڑھتی ہیں. قانون شکنی ہوتی ہے، حکمران اور سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے ملک لوٹتے ہیں یا کوئی سانحہ رونما ہو جاتا ہے. تو ساراملبہ حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے

ہم اکثر حمکران ٹولے کو جھنجھوڑتے نظر آتے ہیں، سارے گلے شکوے بھی اسی سے کرتے ہیں، لیکن افسوس ہمارے حکمران طبقے میں عمل کا فقدان ہے اور ان کے اندر کا انسان مر چکا ہے، یقیناََ مردے کبھی واپس نہیں آتے بلکہ وہ تو جاگنے کے لئے صرف قیامت کے منتظر ہوتے ہیں۔ آپ ان مردوں کو جگانے کے لئے کالم نگار اور دانشور اپنے قلم کی سیاہی کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کو مورو الزام دینے کی بجائے ہمیں خود جاگنا چاہئے. ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ

- ہم نے اپنے حقوق کس طرح حاصل کرنے ہیں.
- ہمیں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا فرسودہ کس طرح سے ختم کرنا ہے.
- ہم نے ان کرپٹ اور بددیانت لوگوں کا احتساب کس طرح کرنا ہے.
- ہمیں اپنے حقوق کے لئے کس طرح جنگ کرنی ہے.

بہت سے مسائل ہم عوام کے ہی پیدا کردہ ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم غلط لوگوں کو ہر بار منتخب کرتے ہیں. ہم عوام حکمرانوں کے دکھائے گئے سبز باغ کو صحیح سمجھ لیتے ہیں.

- ہم ان لوگوں کو بار بار منتخب کرتے ہیں جن کو ہم کئی بار آزما چکے ہیں وہ ہر بار عوام کی امنگوں کا خون کرکے اقتدار کے مزے لیتے ہیں. مومن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ جس سوراخ سے ایک بار ڈسا جاتا ہے دوبارہ اس سوراخ کا رخ نہیں کرتا.

- ہم ان حکمرانوں کی بدعنوانیوں اور غلط پالیسیوں کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے. اگر کوئی اشیائے ضروری مہنگی کرتا ہے تو ہم کچھ نہیں بولتے. کوئی ہمارے ملک پر یلغار کرتا ہے تو ہم چپ رہتے ہیں.
- کوئی حکمران ملک میں عدل وانصاف کا خون کرتا ہے تو ہم نہیں بولتے.
- کوئی پولیس والا ہمارے کسی عزیز کو بلاوجہ گرفتار کرتا ہے کہ ہم لوگ مل کر آواز اٹھانے کی بجائے ان کو رشوت کی پیشکش کرتے ہیں.
- کسی سرکاری دفتر میں ہمیں قطار میں کھڑا ہونا پڑ جائے تو ہم قطار سے بچنے کے لئے رشوت کی پیشکش کرتے ہیں.
- کوئی ہمارے ملک میں بجلی کا بحران پیدا کر دے تو ہم احتجاج کرنے کی بجائے یو پی ایس یا جنریٹر خریدنا شروع کر دیتے ہیں.
- کوئی بدمعاش ہمارے علاقے میں کسی شخص پر ظلم ڈھائے تو ہم خاموش ہوجاتے ہیں کہ کہیں وہ ہمیں مار ہی نہ ڈالے.
- کسی جگہ کوئی حادثہ ہو جائے تو ہم چپ چاپ وہاں سے کھسک جاتے ہیں کہ کہیں ہمیں اس حادثے کا ذمہ دار قرار دے کر دھر نہ لیا جائے.
- جو بھی نیا حکمران آتا ہے ہم اس کو پہلے اچھا کہتے ہیں لیکن بعد میں اس کو برا بھلا کہنا شروع دیتے ہیں اور کچھ سالوں بعد اس کو دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں.
- ہم لوگ اپنے آپ کو بلوچی، پنجابی، سندھی، پشتون کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں، پاکستانی کہہ کر نہیں.
- ہم ذات برادری کے چکروں میں الجھے ہوئے ہیں. الیکشن کے دنوں میں اسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں جو ہماری ذات برادری کا ہو یا کوئی ہمارا قریبی عزیز ہو.
- ہم لوگ خود کو سنی، وہابی، شیعہ کہہ کر فخر محسوس کرتے ہیں مسلمان کہہ کر نہیں.
- ہم لوگ ملکی حالات پر کڑھتے ہیں لیکن کوئی صدائے احتجاج نہیں کرتے.
- ہمارے اندر منافقت سرایت کرگئی ہے. ہم لوگ خود غلط کام کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے غلط کاموں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. حالانکہ ان پر تنقید کرنے کے لئے پہلے ہمیں خود ٹھیک ہونا پڑے گا.
- ہم فضول رسم و رواج میں الجھے ہوئے ہیں. شادی بیاہ، خوشی غمی پر بے تحاشہ خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے بھائیوں کی حالت زار کو ٹھیک نہیں کرتے.
- ہم کسی قطار میں کھڑے ہوں تو ایک دوسرے کو دھکے مار کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.
- ہم تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتے.
- ہم لوگ اپنے مذہب سے دور ہو چکے ہیں. نماز پنجگانہ کا اہتمام نہیں کرتے اس لئے تقوی، سکون اور صبر سے محروم ہیں.
- لوگوں کی دیکھا دیکھی میں ہم بھی اپنے ہاتھ سے اپنا منہ لال کرتے ہیں.
- مغرب کی روایات سے ہم متاثر ہیں. اپنے اسلاف کے کارناموں کو ہم بھول چکے ہیں اور جاننے کی زحمت ہی نہیں کرتے.

ایک بات یاد رکھیں کہ حکمران لوگ آسمان سے نہیں اترے یہ بھی ہماری طرح کے لوگ ہیں. یہ بھی انسان ہیں اور ہم عوام بھی انسان ہیں لہذا آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ اپنے حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کریں. یہ نہ سوچیں کہ اس جدوجہد پر کتنا وقت لگے گا. بلکہ جدوجہد کرتے جائیں. تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے. آج وہ دنیا کی ترقی یافتہ قوم ہیں.

میں نے اگرچہ ایک کڑوا سچ کہا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ میں کوئی غلط بات کر گیا ہوں. اگر کسی بھائی کو میری باتیں بری لگیں تو پیشگی معذرت ہے.
 

محمد نعمان

محفلین
حکمرانوں کو مورو الزام دینے کی بجائے ہمیں خود جاگنا چاہئے. ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ

- ہم نے اپنے حقوق کس طرح حاصل کرنے ہیں.
- ہمیں جاگیرداری اور سرمایہ داری کا فرسودہ کس طرح سے ختم کرنا ہے.
- ہم نے ان کرپٹ اور بددیانت لوگوں کا احتساب کس طرح کرنا ہے.
- ہمیں اپنے حقوق کے لئے کس طرح جنگ کرنی ہے.

بھائی آپکا نام بھی مجھے تو معلوم نہیں مگر میں یہ کہنا چاتا ہوں کہ یہ سب کرنے کے لیے آگہی کا ہونا بہت ضروری ہے اور آپکو علم ہے کہ ہماری کل آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ نہ صرف یہ کہ ان پڑھ ہے، میں دنیاوی تعلیم کی بات کر رہا ہوں ، بلکہ دینی علم سے بھی بے بہرہ ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہماری قوم کا ایک بڑا حصہ اپنے حقوق سے ہی آگاہ نہیں ہے تو حقوق کی جنگ کیا لڑے گا۔
 

راشد احمد

محفلین
میرانام راشد ہے۔
کون کہتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے نہیں۔ کیا ہمیں نہیں پتہ 2 جمع 2 چار ہوتے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہماری ضروریات کیا ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان کن مسائل کا شکار ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیں روٹی کپڑا مکان چاہئے۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ بھیڑئیے سیاستدان ہمارے ملک کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔اور یہ بھی پتہ ہے کہ ہم کن غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو رہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہماری زیادہ تر عوام پڑھی لکھی نہیں ہے۔ تعلیم انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔ لیکن ہمارا نوجوان طبقہ تو ان پڑھ نہیں۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی بے حس ہو چکے ہیں۔ان کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ کی بات ہی چھوڑ دیں۔

آپ ہی بتائیں‌کہ ہمارے سیاستدان جو اعلی منصب سنبھالے ہوئے ہیں‌غیر تعلیم یافتہ ہیں۔

ہمیں اس وقت ایک پختہ عزم اور مصمم ارادے کی ضرورت ہے پھر ہی ہم اپنا حق لے سکیں گے۔ اللہ تعالی نے ہمیں دماغ دیا ہے جس کی بدولت ہم تمیز کر سکتے ہیں کہ کون ہمارا خیر خواہے اور کون نہیں
 

طالوت

محفلین
حکمران عوام کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں نہ کہ عوام حکمران کے لیے ۔۔
اب ذرا بتائیے تو عوام انتخاب کس کا کریں ؟
شاید کسی نے صحیح کہا تھا کہ عوام اچھے کو ووٹ نہیں دیتے بلکہ کم برے کو ووٹ دیتے ہیں ۔
سارے ڈنڈا ڈولی کرتے ہیں عوام پر کہ خود کو سدھاریں خود کو سدھاریں ۔۔بھوکے پیٹ اور ننگے بدن والے کے لیے نہ تو کوئی اخلاقیات ہوتی ہیں اور نہ کوئی مذہب ۔۔ آپ چھ میٹر کی پگڑی باندھیں ، آپ مرسڈیز میں گھومیں ، آپ کے گھر پر سیمینز کا بڑا سا جنریٹر ہو ، آپ کے کتے بند ڈبوں کی خوارک کھائیں ، آپ علاج کے لیے آغا خان جائیں ، آپ کی حفاظت پر بیسویں سرکاری اہلکار ہوں ، اور آپ توقع کریں کہ وہ بھوکا ننگا ، غیر محفوظ ، بیمار شخص جس کی عزت نفس بھی باقی نہیں رہی ، آپ کو اخلاقیات اور اسلامیات پر عمل کرتا ہوا دکھائی دے ؟
یہ ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔
وسلام
 

راشد احمد

محفلین
طالوت بھائی!
مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اچھا لیڈر ہمیں ملتا ہی نہیں، لیڈر ہمیشہ عوام سے نکلتے ہیں۔ جو نکلتے ہیں وہ سب کچھ نگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم وزیر، بیوروکریٹس پیدا کر رہے ہیں لیڈر نہیں۔ بتائیں 61 سالوں میں کون اچھا لیڈر پیدا ہوا ہے۔ اگر کوئی اچھا لیڈر پیدا بھی ہوتا ہے تو عوام اسے لفٹ نہیں کراتی۔ لیکن ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہئے بقول علامہ اقبال
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

آج کل جس کے باس بہت کچھ کھانے کو ہے وہ ملک کو کھا رہا ہے۔ جس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں وہ اپنا خون جلا رہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس ملک میں الیکشن اچھے پن سے نہیں جاگیرداری نظام، غنڈہ گردی اور پیسے سے لڑا جاتا ہے۔ اس کے بعد برادری نظام کے تحت لڑا جاتا ہے۔ شریف اور ایماندار آدمی تو الیکشن کے پوسٹر تک نہیں چھپوا سکتا تو وہ الیکشن کیسے لڑے گا اور جیتے گا کیسے؟
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
ماشااللہ
عوام کا قصور کدھر سے ہے ۔۔ قصور بابا بلھے شاہ کا ہے ۔۔
جو کہہ گٰے کہ ۔۔
پی شراب کھا کباب تے بال ہڈاں دی اگ
بھن سٹ گھر رب دا ۔ اوس ٹھگا دے ٹھگ نوں تھگ
یا محترم علامہ اقبال جی کا
جو کہہ گٰے ہیں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
ہمارے لیے بحیثیت فرد کے اپنا آپ سدھارنا مشکل ہے ۔۔
اور آس لگاتے ہیں کہ اچھے حکمران مل جاٰٰییں ۔ آخر یہ حکمران یہ سیاستدان دان
پڑھے لکھے یا ان پڑھ سب فرد ہی توہیں ۔ اس پاکستان کے ۔اور فرد ہی جب بگڑا ہو تو درد کیسا۔
نایاب
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف تعلیم ہے۔ اور تعلیم بھی وہ جو شعور پیدا کرے کیونکہ میں نے بہت سارے پڑھے لکھے ان پڑھ بھی دیکھے ہیں۔ کہنے کو ڈگریاں لے رکھی ہیں لیکن برادری کے نظام سے باہر نہیں جانا، ذات پات کے پھندوں سے جان نہیں چھڑانی، تو ایسی تعلیم فائدے کی بجائے الٹا نقصان دے ہے۔
 

راشد احمد

محفلین
شمشاد بھائی!

آپ نے ٹھیک کہا، تعلیم ہی مسائل کا حل ہے لیکن ہمارا تعلیمی نظام ہمارے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل بڑھا دیتا ہے۔ آپ خود دیکھیں کہ پاکستان میں تین قسم کے تعلیمی نظام ہیں۔
1۔ اردو میڈیم جو سرکاری سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ جس میں اردو مضامین اور اسلامیات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور ان سکولوں میں غریبوں کے بچے ہی پڑھ سکتے ہیں۔اور ان سکولوں کے طلبا کو رٹا سسٹم پر لگایا جاتا ہے۔
2۔ انگلش میڈیم جو بیکن ہاوس، دی ایجوکیٹرز، کیتھڈرل سکول نمایاں ہیں جن میں صرف امرا، جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی اولادیں ہی پڑھ سکتی ہیں۔ ان سکولوں میں اسلامی مضامین، اردو کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
3۔ مدرسے۔ جن میں اسلامی مضامین کو اہمیت دی جاتی ہے جبکہ انگلش، کمپیوٹرسائنس، سائنس کے مضامین کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جبکہ بعض مدرسے فرقہ واریت، انتہا پسندی اور نفرت پھیلاتے ہیں۔

آپ خود بتائیں کہ ہمارے ہاں کوئی تعلیمی نظام مکمل نہیں ہے تو پھر ہم میں شعور کیسے آئے گا۔ یہ سب تعلیمی نظام غریب عوام کے طلبا میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں اور جب وہ تعلیم سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کوکوئی اچھی نوکری وغیرہ نہیں ملتی۔

اور باقی شعبوں کا بھی یہی حال ہے۔ آپ عدالتی نظام، سرکاری نظام، پولیس کا نظام، ہسپتالوں کا نظام دیکھ لیں۔ یہ سب نظام عوام کے لئے منصفانہ نہیں ہیں۔
 
ہمارا اصل مسلہ تعلیم نہیں‌بلکہ کرپشن ہے ۔۔۔۔۔۔۔جو ہر شعبہ میں ہے اور تعلیم میں بھی ۔۔۔۔۔اور افسو س کا مقام یہ ہے کہ ہمیں اب غلط اور صحٰیح کی پہچان ہی نہیں‌رہی۔۔۔۔۔۔کسی بھی سطح کی کر پشن پر حیرت کا اظہار کر نے والا ہمیں‌پاگل پاگل سا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
اردو انسٹی ٹیوٹ کی بات درست ہے۔ مسئلہ تعلیم کا نہیں عمل کا ہے۔ ہم تعلیم حاصل کرکے بھی اپنے ملک کیلئے بہت کم کام کر رہے ہیں۔
 

محمد نعمان

محفلین
میرانام راشد ہے۔
کون کہتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے نہیں۔ کیا ہمیں نہیں پتہ 2 جمع 2 چار ہوتے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہماری ضروریات کیا ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان کن مسائل کا شکار ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیں روٹی کپڑا مکان چاہئے۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ یہ بھیڑئیے سیاستدان ہمارے ملک کو نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔اور یہ بھی پتہ ہے کہ ہم کن غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال ہو رہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ ہماری زیادہ تر عوام پڑھی لکھی نہیں ہے۔ تعلیم انسان کو اچھے برے کی تمیز سکھاتی ہے۔ لیکن ہمارا نوجوان طبقہ تو ان پڑھ نہیں۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ بھی بے حس ہو چکے ہیں۔ان کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ کی بات ہی چھوڑ دیں۔

آپ ہی بتائیں‌کہ ہمارے سیاستدان جو اعلی منصب سنبھالے ہوئے ہیں‌غیر تعلیم یافتہ ہیں۔

ہمیں اس وقت ایک پختہ عزم اور مصمم ارادے کی ضرورت ہے پھر ہی ہم اپنا حق لے سکیں گے۔ اللہ تعالی نے ہمیں دماغ دیا ہے جس کی بدولت ہم تمیز کر سکتے ہیں کہ کون ہمارا خیر خواہے اور کون نہیں

بالکل تعلیم کی کمی کا مطلب ہی یہی ہے کہ آگہی نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدان کیاں پڑھے لکھے ہیں ۔۔سب نے تو کیسے تیسے ڈگریاں لے لی ہیں ، کئیوں کی جعلی ہیں اور جو قانون دان ہیں یا ایسے ہی اہم منصبوں پر فائز ہیں وہ تو ٹھیک طرح سے ہوں گے تعلیم یافتہ مگر کیا ان کا بنایا ہوا قانون پاس ہوتا ہے یا ان جاہل یا کم پڑھے لکھے سیاستدانوں کا جو اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں اور اپنی پسید کا قانان پاس کرواتے ہیں۔۔۔سب سیاستدان ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور جب بند کمرے میں جاتے ہین تو ہنستے ہین اس عوام پہ کہ کیسے بےوقوف بنایا ہوا ہے اس عوام کو۔۔۔۔
اور ان سازشی لوگوں کا کیا مقابلہ کیا جائے ۔۔۔کیا ہمیں نسابی کتابوں میں سازشی عناصر سے بچاؤ کی تربیت دی جاتی ہے یا وہی گھسا پٹا نصابی نظام چلا آ رہا ہے جو ہمیں تخلیقی صلاحیتوں سے دور کہیں اور لیے جا رہا ہے اور ہم وہی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم بس کسی طریقے سے امتحان میں اچھے نمبر لے لیں اور یہی سوچ ہمارے نظام تعلیم کی رہی سہی اچھائیوں کو بھی ختم کر ڈالتی ہے۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
"ڈاکٹر" عامر لیاقت
"ڈاکٹر" بابر اعوان
بات کو سمجھنے کے لیے یہ دو نام ہی کافی ہیں۔۔
وسلام
 

Ukashah

محفلین
میرا خیال ہے کہ اصل سے ہٹ‌ کر نقل کو لینا ہے ۔ عمل کے لیے تو اسلام کی تعلیمات ہمارے پاس موجود ہیں ۔۔ جو کہ مکمل تعلیمات ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم حالات کی بہتری کے لئے اسلامی تعلمیات اور روایات کو چھوڑ کر ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ۔ جمہوری نظام سے لے کر تعلیمی نظام تک سب یہود و نصارٰی سے امیورٹڈ ہے ۔ اسلامی تعلیمات تو ہیں ہی نہیں اس میں ۔ پھر حالات کیسے سدھریں گئے ۔ اگر کسی کے پاس کوئی اور فارمولا ہو تو پیش کرے ۔ میرے نزدیک جبتک اسلامی تعلیمات صحیح طور پر نافذ نہیں کی جاتی حالات کی بہتری کی امید نہ رکھیں ۔
 

طالوت

محفلین
اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کروانے سے پہلے ہمیں یہ طے کر لینا چاہیے کہ کون سی اسلامی تعلیمات ۔۔ اور جہاں تک بات ہے مغربی نظام تعلیم کو درآمد کرنے کی تو وہ تعلیم مغرب میں قرطبہ و بغداد کی بھی مرہون منت ہے ۔
وسلام
 

محمد نعمان

محفلین
میرا خیال ہے کہ اصل سے ہٹ‌ کر نقل کو لینا ہے ۔ عمل کے لیے تو اسلام کی تعلیمات ہمارے پاس موجود ہیں ۔۔ جو کہ مکمل تعلیمات ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم حالات کی بہتری کے لئے اسلامی تعلمیات اور روایات کو چھوڑ کر ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتے ہیں ۔ جمہوری نظام سے لے کر تعلیمی نظام تک سب یہود و نصارٰی سے امیورٹڈ ہے ۔ اسلامی تعلیمات تو ہیں ہی نہیں اس میں ۔ پھر حالات کیسے سدھریں گئے ۔ اگر کسی کے پاس کوئی اور فارمولا ہو تو پیش کرے ۔ میرے نزدیک جبتک اسلامی تعلیمات صحیح طور پر نافذ نہیں کی جاتی حالات کی بہتری کی امید نہ رکھیں ۔

پہلے تو یہ بتائیے کہ اسلامی تعلیمات کون اور کیسے نافذ کرے گا۔۔۔ہم سب ہی قرآن کو بھی مانتے ہیں اور رسول کو بھی۔۔۔۔۔۔۔مگر ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ ہم کسی ایک نقطے پر پہنچ ہی نہیں سکتے۔
 

Ukashah

محفلین
اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کروانے سے پہلے ہمیں یہ طے کر لینا چاہیے کہ کون سی اسلامی تعلیمات ۔۔ اور جہاں تک بات ہے مغربی نظام تعلیم کو درآمد کرنے کی تو وہ تعلیم مغرب میں قرطبہ و بغداد کی بھی مرہون منت ہے ۔
وسلام
جہاں تک بات ہے کہ کون سی تعلیمات تو مجھے نہیں معلوم آپ کی کیا مراد ہے ۔ جب میں نے کہا کہ مغرب سے امپورٹڈ ہے تو اس کا مطلب قرطبہ و بغداد نہیں ۔ یقننا وہ کھوکھلا تعلیمی نظام ہے جو کہ برصغیر میں رائج ہے ۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ برطانیہ میں یہی تعلیمی نظام رائج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔ خود تو وہ لوگ اس میدان میں ترقی کر گئے اور ہم اسی تعلیمی نظام دھکے کھا رہے ہیں ۔

ہلے تو یہ بتائیے کہ اسلامی تعلیمات کون اور کیسے نافذ کرے گا۔۔۔ہم سب ہی قرآن کو بھی مانتے ہیں اور رسول کو بھی۔۔۔۔۔۔۔مگر ہم اتنے بٹ چکے ہیں کہ ہم کسی ایک نقطے پر پہنچ ہی نہیں سکتے۔
بلکل صحیح کہا نعمان ۔ ہم فرقوں میں بٹ چکے ۔ میرے جیسے کم علم سے کوئی رائے لے تو میں یہی کہوں گا کہ جب قرآن میں ؀ اطیعواللہ اور اطیعوالرسول ؀ کا فارمولا دے دیا گیا ہے تو پھر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے ۔ جب اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اس کو باقی رکھنے کے لئے حل نہ بتایا ہو۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میرانام راشد ہے۔
کون کہتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے نہیں۔ کیا ہمیں نہیں پتہ 2 جمع 2 چار ہوتے ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ ہماری ضروریات کیا ہیں۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ پاکستان کن مسائل کا شکار ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمیں روٹی کپڑا مکان چاہئے۔
میرے بھائی آپکی تمام باتیں اپنی جگہ درست ہیں مگر نعمان بھائی نے جس بنیادی نقطہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ بھی بہت اہم ہے میری نظر میں مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم کیا جانتے اور کیا نہیں جانتے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم فقط اتنا ہی جانتے ہیں کہ انفرادی طور پر ہمیں کیا چاہیے نہ کہ بحیثت مجموعی یعنی ہم میں سے اکثریت کی سوچ اس کہ پیٹ سے آگے بڑھتی ہی نہیں تو اجتماعی شعور کیسے بیدار ہو ۔ ۔ ۔ ۔
 

راشد احمد

محفلین
میرے خیال میں اگر لوگوں کے روزگار اور بنیادی سہولیات کے مسائل حل ہو جائیں تو بہت سے مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے اور لوگوں میں شعور، اعتماد خود ہی آ جائے گا۔ اس لئے تو ہمارے حکمران عوام کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں تاکہ ان کو صرف اپنے پیٹ کی پڑی رہے اور ہم جو بھی غیر قانونی کام کریں ان کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے اور عوام دن رات صرف روٹی اور اپنے بچوں اور خاندان کی ضروریات کے لئے تگ ودو کرتے رہیں۔

عوام تو تب سڑکوں پر نکلیں گےجس دن ان کے پیٹ خالی ہوں گے

اس فقرے میں کتنی سچائی ہے؟
 

محمد نعمان

محفلین
میرے خیال میں اگر لوگوں کے روزگار اور بنیادی سہولیات کے مسائل حل ہو جائیں تو بہت سے مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے اور لوگوں میں شعور، اعتماد خود ہی آ جائے گا۔ اس لئے تو ہمارے حکمران عوام کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں تاکہ ان کو صرف اپنے پیٹ کی پڑی رہے اور ہم جو بھی غیر قانونی کام کریں ان کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے اور عوام دن رات صرف روٹی اور اپنے بچوں اور خاندان کی ضروریات کے لئے تگ ودو کرتے رہیں۔

عوام تو تب سڑکوں پر نکلیں گےجس دن ان کے پیٹ خالی ہوں گے

اس فقرے میں کتنی سچائی ہے؟

آپکی یہ بات ہی میرے مؤقف کی مکمل حمایت ہے کہ قصور حکمرانوں کا ہے
 
Top