ثمینہ معیز
محفلین
یہ آرٹیکل میرا نہیں ہے بلکہ چند دنوں قبل میں دانیال ابیر سے بات کر رہی تھی تو اس میں تذکرہ عورت کی مذہبی اور سماجی حیثیت کا آیا تو اس پر بڑی زور دار بحث ہوئی اور اس کے بعد اس نے کہا کہ "آپی ان نام نہاد ملاؤں نے اور نام نہاد اماموں نے قرآن کو ایک کھیل بنا لیا ہے، میں قرآن سے یہ بات ثابت کردونگا کہ عورت اور مرد دونوں برابر ہیں۔ شاید آپ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ملا دین کے ٹھیکیدار ہیں تو یاد رکھئے یہ ملا صدقے کی روٹی پر پلنے والے وہ جاہل ہیں جنہوں نے اسلام میں برہمن ازم کو فروغ دیا ہے۔ قرآن بار بار تفکر کی دعوت دیتا ہے اور ہم اس تفکر کو محض کے لئے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں تو پھر ہمارا ایمان ان کے رحم کرم پر ہی رہے گا اور دنیا اور آخرت خراب ہوگی"
تو میرے پیارے ساتھیو ! میں بچپن سے اب تک جس شدید غلط فہمی کا شکار تھی اس ایک میل نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور اپنی آرا سے نوازیئے یہ محض ایک مذہبی میل یا بغاوت کا انداز نہیں ہے اس میں بڑی گہری سچائی ہے۔ اور اپنی دعاؤں میں دانیال ابیر کو ضرور یاد رکھئے گا وہ بیمار ہے۔ شکریہ
------------------------------ ---------------------------------------------------------------------------------------------
انسانوں کا ہر معاشرہ اپنے مخصوص اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ اوصاف اسے دوسرے معاشروں سے مخلتف یا ممتاز بناتے ہیں۔ معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل میں مرد و عورت دونوں کا حصہ اور اثر ہوا کرتا ہے۔ انسانی معاشروں کے کئی معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن معاشرہ پر چھاپ یا بالا دستی مرد کی نظر آتی ہے۔ مرد کا جسمانی طور پر عورت سے طاقتور ہونا یا معاشی جدوجہد میں نمایاں کردار، ایسے اہم عوامل ہیں جو اس کی بالا دستی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر عورت کسی طرح اپنی اور خاندان کی معاش کا بندوبست خود کرنے لگے تو جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود مرد کی حیثیت میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
مردانہ تسلط بعض نظریات ی طرح محض ایک نظریہ نہیں۔ بلکہ کئی نفسیاتی خواہشات کی طرح ایک شدید خواہش ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مرد نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے کبھی اپنی طاقت ، کبھی معاشرتی قوانین اور کبھی مذہبی عقائد کا بے دریغ سہارا لیا۔ قبل مسیح کے معاشروں میں مصر، یونان، بابل، ایران اور ہندوستان میںپروہتوں کی خواہشات کی تکمیل یا ہندو معاشرہ میں شوہر کے مرنے پراس کی بیوہ کو بھی چتا میں جلا ڈالنا اس کی چند مثالیں ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خطوں میں قائم معاشروں میں عورت کے بارے میں تقریبا یکساں تصورات ملتے ہیں۔ جن میں بالعموم عورت کو ناپاک، برائیوں کی طرف راغب کرنے والی، کمتر اور حقیر مخلوق قرار دیا جاتا رہا۔
ان منفی نظریات کے علی الرغم تمام الہامی مذاہب نے عورت کے انسانی وجود کا ایک حصہ قرار دے کر اس کی عزت و توقیر کا اعلان اور اس کے احترام کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں خاص طور پر دین ابراہیمی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلمات میں کہیں بھی عورت کے درجہ اور رتبہ میں کمی کا ذکر نہیں۔ لیکن ان پغبران علیہ السلام کے بعض پیروکاروں نے ان پر نازل ہونے والے الہامی پیغامات تک میں تحریف کر ڈالی۔ ایسے لوگ عورت کے بارے میں پغمبروں کی تعلیمات، ہدایات اور احکامات کو کیا خاطر میں لاتے۔ چنانچہ عورت کی بے حرمتی اور بے توقیری کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ چلتا رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ آغاز اسلام تک یہ سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری رہا۔
خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری نوع انسانی پر اللہ تعالی کا عظیم ترین احسان ہے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا محبوب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ یہ رحمت طبقہ نسواں پر بھی سایہ فگن ہوئی۔ اسلام نے مردوں کو یہ باور کروایا کہ عورت اور مرد دونوں آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالی کے نزدیک بہتری کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی ، زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسلام میں عورت کا احترام محض تذکرہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تبلیغ اور ریاست کے معاملات میں عورت کی عملی شمولیت نوع انسانی کے واضح سبق ہے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب عورت کو جسے اسلام نے عزت اور احترام کی رفعتیں عطا فرمائیں بعض لوگ یا بعض طبقات مرد کے مقابلے میں نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی گواہی کو ہر مقام پر نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح اور احکامات سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی آدھی سمجھی جائے گی۔ آپ قرآن کی ایک ایک آیت کو نہایت غور سے پڑھئے آپ کو اس ہدایت پر مبنی کوئی آیت پورے قرآن پاک میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔
تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے ؟
سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۲ میں اللہ تعالی نے قرض کی معاملہ میں احکامات عطا فرمائے ہیں ۔ سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن پاک کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس آیت میں کئی احکام بیان ہوئے ہیں۔ ایک حکم تو یہ ہے کہ جب ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ایک حکم یہ ہے کہ لکھنے والا پوری ذمہ داری کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ تحریر کرے۔ ایک حکم یہ ہے کہ اس معاملہ پر یعنی اس تحریری معاہدہ کے دو گواہ بنائے جائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دو مردوں کو گواہ بنا لیا جائے اور اگر ﴿اس موقع پر﴾ دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کر لو۔ ان لوگوں نے میں جن پر تم راضی ہو۔ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ﴿ایسا اس لئے ہے کہ﴾ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔
یہ ہے وہ آیت قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔
دنیا بھر کے نظام قوانین کو سامنے رکھا رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانین شہادت کے سامنے رکھئے۔ پاکستان مین رائج ہونے والے ایویڈنس ایکٹ ۱۸۷۲ یا مروجہ قانون شہادت آرڈیننس مروجہ ۱۹۸۴ کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانون شہادت میں یکسان ملے گی۔ کہ کسی واقعہ یا کسی معاملہ کو گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی گواہی جن الفاظ میں قلمبند کرواتا ہے وہ اس کی اصل گواہی کے طور پر لکھ لی جاتی ہے۔ جج کے سامنے اپنی زبان سے ایک مرتبہ الفاظ ادا کر لینے کے بعد گواہ کے پاس خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اپنا بیان تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہاں گواہی دینے کے دوران گواہ اپنی گزشتہ بات میں کوئی تبدیلی کروانا چاہے تو اسے رضاکارانہ طور پر تبدیلی کے زمرہ کے تحت علیحدہ سے لکھا جائے گا لیکن اس بات سے اس کی گواہی کی وقعت کم ہو جائے گی۔
دوسری طرف قرآن کے عطا کردہ قانونی نظام میں صرف مالی معاملات میں شہادت دیتے وقت عورت کو ایک بے مثال حق دیا گیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے بیان کے مندرجات تبدیل کروا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ حق مرد کو حاصل نہیں ہے۔
اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو تاکہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائےقرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیں بطور گواہ جج کے سامنے پیش ہونگی ۔ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے ترمیم کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔
دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے کہ اسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔
اس ایک آیت کے علاوہ جو صرف مالی معاملات پر گواہی کے بارے میں چند شرائط بیان کرتی ہے دیگر کسی جگہ بھی گواہی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ہے ۔ سورہ النساء کی آیت ۱۳۵ میں ہے
اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارے والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔یہاں گواہی کے لئے اہل ایمان کو کہا جارہا ہے۔ اہل ایمان میں مرد و عورت دونوں شامل نہیں ہیں ؟
سورہ مائدہ کی آیت ۱۰۶ میں گواہی کے لئے دو معتبر لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ پابندی نہیں بتائی گئی کہ ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتیں ۔ اب یہ دو معتبر لوگ دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں نہیں ہو سکتے ؟
صحابی رسول حضرت عقبہ بن حارٹ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خاتون غنیہ سے نکاح کر لیا۔ ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اور تمہاری منکوحہ دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیںہے نہ تم نے پہلے کبھی مجھ سے یہ بات کہی۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں سے معلوم کروایا انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس عورت نے عقبہ کو دودھ پلایا ہے۔ آخر کار حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ دودھ پلانے والی عورت تن تنہا یہ واقعہ بیان کر رہی تھی۔ دوسرا کوئی گواہ اس کی گواہی نہیں دے رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعت کے بارے میں اس عورت کا کہا تسلیم فرمایا۔ غنیہ کو عقبہ کی رضاعی بہن قراد دیا۔ عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے غنیہ کو چھوڑ دیا اور دوسری جگہ نکاح کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے کہیں بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو آدھا وجود تسلیم کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بھرپور عزت و احترام عطا فرمایا اور انہیں وہ حقوق عطا فرمائے جو آج سے سو سال قبل تک بھی غیر اسلامی معاشروں میں عورت کو حاصل نہ تھے۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا خلافت راشدہ ۔ اسلام کی تبلیغ ، اسلامی مملکت کے دفاع اور استحکام۔ ریاستی معاملات مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرہ کے مختلف شعبوں میں عظیم مسلم خوانین نے نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔
یہ شرف ایک عورت کو ۔ ۔ ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حاصل ہوا کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔
کیا اس گواہی کی حقانیت اور اس کے مکمل ہونے میں کسی کو کوئی شک ہو سکتا ہے ؟
اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ دو ہیں ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی کا ذریعہ احادیث ہیں اور احادیث کا بہت بڑا علم امت مسلمہ کو اپنی عظیم ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ذریعے حاصل ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں قرآن پاک کو تحریری شکل میں یکجا کر کے ایک نسخہ تیار کیا گیا۔ یہ مکمل قرآنی آیات کا پہلا نسخہ تھا۔ اسلامی ریاست کی جانب سے قرآن پاک کے اس پہلے تحریری نسخہ کو بطور امانت رکھوانے کےلئے کس ہسنی کا انتخاب کیا گیا ؟
ایک عورت کا ۔ ۔ ۔ ۔۔
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس یہ بطور امانت رکھوایا گیا۔
وہ کون ہستی ہے کہ جب لوگ مایوس ہو نے لگتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ اب ان کی دعا ضرور قبول ہوگی ۔ یہ خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔
اسلام کے تبلیغی ، ریاستی، تعلیمی ار روحانی معاملوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نظر میں انسان کا مطلب صرف مرد نہیں بلکہ مرد اور عورت ہیں۔ اسلام عورت کو کمتر یا نصف قرار نہیں دیتا ہے بلکہ عورت کے بارے میں مختلف منفی نظریات اور تصورات کی تردید کرتے ہوئے عورت کو مکمل احترام، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور سماج کے مختلف شعبوں اور روحانی شعبوں میں بھرپور شمولیت کے مواقع مکمل احترام اور تحفظ کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔
دعاؤں طالب
دانیال ابیر حسن
تو میرے پیارے ساتھیو ! میں بچپن سے اب تک جس شدید غلط فہمی کا شکار تھی اس ایک میل نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور اپنی آرا سے نوازیئے یہ محض ایک مذہبی میل یا بغاوت کا انداز نہیں ہے اس میں بڑی گہری سچائی ہے۔ اور اپنی دعاؤں میں دانیال ابیر کو ضرور یاد رکھئے گا وہ بیمار ہے۔ شکریہ
------------------------------ ---------------------------------------------------------------------------------------------
انسانوں کا ہر معاشرہ اپنے مخصوص اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ اوصاف اسے دوسرے معاشروں سے مخلتف یا ممتاز بناتے ہیں۔ معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل میں مرد و عورت دونوں کا حصہ اور اثر ہوا کرتا ہے۔ انسانی معاشروں کے کئی معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن معاشرہ پر چھاپ یا بالا دستی مرد کی نظر آتی ہے۔ مرد کا جسمانی طور پر عورت سے طاقتور ہونا یا معاشی جدوجہد میں نمایاں کردار، ایسے اہم عوامل ہیں جو اس کی بالا دستی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر عورت کسی طرح اپنی اور خاندان کی معاش کا بندوبست خود کرنے لگے تو جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود مرد کی حیثیت میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔
مردانہ تسلط بعض نظریات ی طرح محض ایک نظریہ نہیں۔ بلکہ کئی نفسیاتی خواہشات کی طرح ایک شدید خواہش ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مرد نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے کبھی اپنی طاقت ، کبھی معاشرتی قوانین اور کبھی مذہبی عقائد کا بے دریغ سہارا لیا۔ قبل مسیح کے معاشروں میں مصر، یونان، بابل، ایران اور ہندوستان میںپروہتوں کی خواہشات کی تکمیل یا ہندو معاشرہ میں شوہر کے مرنے پراس کی بیوہ کو بھی چتا میں جلا ڈالنا اس کی چند مثالیں ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خطوں میں قائم معاشروں میں عورت کے بارے میں تقریبا یکساں تصورات ملتے ہیں۔ جن میں بالعموم عورت کو ناپاک، برائیوں کی طرف راغب کرنے والی، کمتر اور حقیر مخلوق قرار دیا جاتا رہا۔
ان منفی نظریات کے علی الرغم تمام الہامی مذاہب نے عورت کے انسانی وجود کا ایک حصہ قرار دے کر اس کی عزت و توقیر کا اعلان اور اس کے احترام کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں خاص طور پر دین ابراہیمی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلمات میں کہیں بھی عورت کے درجہ اور رتبہ میں کمی کا ذکر نہیں۔ لیکن ان پغبران علیہ السلام کے بعض پیروکاروں نے ان پر نازل ہونے والے الہامی پیغامات تک میں تحریف کر ڈالی۔ ایسے لوگ عورت کے بارے میں پغمبروں کی تعلیمات، ہدایات اور احکامات کو کیا خاطر میں لاتے۔ چنانچہ عورت کی بے حرمتی اور بے توقیری کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ چلتا رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ آغاز اسلام تک یہ سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری رہا۔
خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری نوع انسانی پر اللہ تعالی کا عظیم ترین احسان ہے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا محبوب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ یہ رحمت طبقہ نسواں پر بھی سایہ فگن ہوئی۔ اسلام نے مردوں کو یہ باور کروایا کہ عورت اور مرد دونوں آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالی کے نزدیک بہتری کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی ، زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسلام میں عورت کا احترام محض تذکرہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تبلیغ اور ریاست کے معاملات میں عورت کی عملی شمولیت نوع انسانی کے واضح سبق ہے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب عورت کو جسے اسلام نے عزت اور احترام کی رفعتیں عطا فرمائیں بعض لوگ یا بعض طبقات مرد کے مقابلے میں نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی گواہی کو ہر مقام پر نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح اور احکامات سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی آدھی سمجھی جائے گی۔ آپ قرآن کی ایک ایک آیت کو نہایت غور سے پڑھئے آپ کو اس ہدایت پر مبنی کوئی آیت پورے قرآن پاک میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔
تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے ؟
سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۲ میں اللہ تعالی نے قرض کی معاملہ میں احکامات عطا فرمائے ہیں ۔ سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن پاک کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس آیت میں کئی احکام بیان ہوئے ہیں۔ ایک حکم تو یہ ہے کہ جب ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ایک حکم یہ ہے کہ لکھنے والا پوری ذمہ داری کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ تحریر کرے۔ ایک حکم یہ ہے کہ اس معاملہ پر یعنی اس تحریری معاہدہ کے دو گواہ بنائے جائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دو مردوں کو گواہ بنا لیا جائے اور اگر ﴿اس موقع پر﴾ دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کر لو۔ ان لوگوں نے میں جن پر تم راضی ہو۔ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ﴿ایسا اس لئے ہے کہ﴾ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔
یہ ہے وہ آیت قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔
دنیا بھر کے نظام قوانین کو سامنے رکھا رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانین شہادت کے سامنے رکھئے۔ پاکستان مین رائج ہونے والے ایویڈنس ایکٹ ۱۸۷۲ یا مروجہ قانون شہادت آرڈیننس مروجہ ۱۹۸۴ کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانون شہادت میں یکسان ملے گی۔ کہ کسی واقعہ یا کسی معاملہ کو گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی گواہی جن الفاظ میں قلمبند کرواتا ہے وہ اس کی اصل گواہی کے طور پر لکھ لی جاتی ہے۔ جج کے سامنے اپنی زبان سے ایک مرتبہ الفاظ ادا کر لینے کے بعد گواہ کے پاس خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اپنا بیان تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہاں گواہی دینے کے دوران گواہ اپنی گزشتہ بات میں کوئی تبدیلی کروانا چاہے تو اسے رضاکارانہ طور پر تبدیلی کے زمرہ کے تحت علیحدہ سے لکھا جائے گا لیکن اس بات سے اس کی گواہی کی وقعت کم ہو جائے گی۔
دوسری طرف قرآن کے عطا کردہ قانونی نظام میں صرف مالی معاملات میں شہادت دیتے وقت عورت کو ایک بے مثال حق دیا گیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے بیان کے مندرجات تبدیل کروا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ حق مرد کو حاصل نہیں ہے۔
اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو تاکہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائےقرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیں بطور گواہ جج کے سامنے پیش ہونگی ۔ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے ترمیم کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔
دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے کہ اسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔
اس ایک آیت کے علاوہ جو صرف مالی معاملات پر گواہی کے بارے میں چند شرائط بیان کرتی ہے دیگر کسی جگہ بھی گواہی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ہے ۔ سورہ النساء کی آیت ۱۳۵ میں ہے
اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارے والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔یہاں گواہی کے لئے اہل ایمان کو کہا جارہا ہے۔ اہل ایمان میں مرد و عورت دونوں شامل نہیں ہیں ؟
سورہ مائدہ کی آیت ۱۰۶ میں گواہی کے لئے دو معتبر لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ پابندی نہیں بتائی گئی کہ ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتیں ۔ اب یہ دو معتبر لوگ دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں نہیں ہو سکتے ؟
صحابی رسول حضرت عقبہ بن حارٹ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خاتون غنیہ سے نکاح کر لیا۔ ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اور تمہاری منکوحہ دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیںہے نہ تم نے پہلے کبھی مجھ سے یہ بات کہی۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں سے معلوم کروایا انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس عورت نے عقبہ کو دودھ پلایا ہے۔ آخر کار حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ دودھ پلانے والی عورت تن تنہا یہ واقعہ بیان کر رہی تھی۔ دوسرا کوئی گواہ اس کی گواہی نہیں دے رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعت کے بارے میں اس عورت کا کہا تسلیم فرمایا۔ غنیہ کو عقبہ کی رضاعی بہن قراد دیا۔ عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے غنیہ کو چھوڑ دیا اور دوسری جگہ نکاح کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے کہیں بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو آدھا وجود تسلیم کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بھرپور عزت و احترام عطا فرمایا اور انہیں وہ حقوق عطا فرمائے جو آج سے سو سال قبل تک بھی غیر اسلامی معاشروں میں عورت کو حاصل نہ تھے۔
دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا خلافت راشدہ ۔ اسلام کی تبلیغ ، اسلامی مملکت کے دفاع اور استحکام۔ ریاستی معاملات مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرہ کے مختلف شعبوں میں عظیم مسلم خوانین نے نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔
یہ شرف ایک عورت کو ۔ ۔ ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حاصل ہوا کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔
کیا اس گواہی کی حقانیت اور اس کے مکمل ہونے میں کسی کو کوئی شک ہو سکتا ہے ؟
اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ دو ہیں ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی کا ذریعہ احادیث ہیں اور احادیث کا بہت بڑا علم امت مسلمہ کو اپنی عظیم ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ذریعے حاصل ہوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں قرآن پاک کو تحریری شکل میں یکجا کر کے ایک نسخہ تیار کیا گیا۔ یہ مکمل قرآنی آیات کا پہلا نسخہ تھا۔ اسلامی ریاست کی جانب سے قرآن پاک کے اس پہلے تحریری نسخہ کو بطور امانت رکھوانے کےلئے کس ہسنی کا انتخاب کیا گیا ؟
ایک عورت کا ۔ ۔ ۔ ۔۔
ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس یہ بطور امانت رکھوایا گیا۔
وہ کون ہستی ہے کہ جب لوگ مایوس ہو نے لگتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ اب ان کی دعا ضرور قبول ہوگی ۔ یہ خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔
اسلام کے تبلیغی ، ریاستی، تعلیمی ار روحانی معاملوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نظر میں انسان کا مطلب صرف مرد نہیں بلکہ مرد اور عورت ہیں۔ اسلام عورت کو کمتر یا نصف قرار نہیں دیتا ہے بلکہ عورت کے بارے میں مختلف منفی نظریات اور تصورات کی تردید کرتے ہوئے عورت کو مکمل احترام، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور سماج کے مختلف شعبوں اور روحانی شعبوں میں بھرپور شمولیت کے مواقع مکمل احترام اور تحفظ کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔
دعاؤں طالب
دانیال ابیر حسن