عورت کی گواہی آدھی ہوتی ہے ؟ ایک بہترین آرٹیکل

یہ آرٹیکل میرا نہیں ہے بلکہ چند دنوں قبل میں دانیال ابیر سے بات کر رہی تھی تو اس میں تذکرہ عورت کی مذہبی اور سماجی حیثیت کا آیا تو اس پر بڑی زور دار بحث ہوئی اور اس کے بعد اس نے کہا کہ "آپی ان نام نہاد ملاؤں نے اور نام نہاد اماموں نے قرآن کو ایک کھیل بنا لیا ہے، میں قرآن سے یہ بات ثابت کردونگا کہ عورت اور مرد دونوں برابر ہیں۔ شاید آپ یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ملا دین کے ٹھیکیدار ہیں تو یاد رکھئے یہ ملا صدقے کی روٹی پر پلنے والے وہ جاہل ہیں جنہوں نے اسلام میں برہمن ازم کو فروغ دیا ہے۔ قرآن بار بار تفکر کی دعوت دیتا ہے اور ہم اس تفکر کو محض کے لئے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں تو پھر ہمارا ایمان ان کے رحم کرم پر ہی رہے گا اور دنیا اور آخرت خراب ہوگی"

تو میرے پیارے ساتھیو ! میں بچپن سے اب تک جس شدید غلط فہمی کا شکار تھی اس ایک میل نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور اپنی آرا سے نوازیئے یہ محض ایک مذہبی میل یا بغاوت کا انداز نہیں ہے اس میں بڑی گہری سچائی ہے۔ اور اپنی دعاؤں میں دانیال ابیر کو ضرور یاد رکھئے گا وہ بیمار ہے۔ شکریہ

------------------------------ ---------------------------------------------------------------------------------------------


انسانوں کا ہر معاشرہ اپنے مخصوص اوصاف کا حامل ہوتا ہے۔ یہ اوصاف اسے دوسرے معاشروں سے مخلتف یا ممتاز بناتے ہیں۔ معاشرتی اقدار کی تعمیر و تشکیل میں مرد و عورت دونوں کا حصہ اور اثر ہوا کرتا ہے۔ انسانی معاشروں کے کئی معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہیں لیکن معاشرہ پر چھاپ یا بالا دستی مرد کی نظر آتی ہے۔ مرد کا جسمانی طور پر عورت سے طاقتور ہونا یا معاشی جدوجہد میں نمایاں کردار، ایسے اہم عوامل ہیں جو اس کی بالا دستی میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر عورت کسی طرح اپنی اور خاندان کی معاش کا بندوبست خود کرنے لگے تو جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کے باوجود مرد کی حیثیت میں نمایاں کمی ہوسکتی ہے۔

مردانہ تسلط بعض نظریات ی طرح محض ایک نظریہ نہیں۔ بلکہ کئی نفسیاتی خواہشات کی طرح ایک شدید خواہش ہے۔ ہزاروں سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مرد نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے کبھی اپنی طاقت ، کبھی معاشرتی قوانین اور کبھی مذہبی عقائد کا بے دریغ سہارا لیا۔ قبل مسیح کے معاشروں میں مصر، یونان، بابل، ایران اور ہندوستان میںپروہتوں کی خواہشات کی تکمیل یا ہندو معاشرہ میں شوہر کے مرنے پراس کی بیوہ کو بھی چتا میں جلا ڈالنا اس کی چند مثالیں ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف خطوں میں قائم معاشروں میں عورت کے بارے میں تقریبا یکساں تصورات ملتے ہیں۔ جن میں بالعموم عورت کو ناپاک، برائیوں کی طرف راغب کرنے والی، کمتر اور حقیر مخلوق قرار دیا جاتا رہا۔

ان منفی نظریات کے علی الرغم تمام الہامی مذاہب نے عورت کے انسانی وجود کا ایک حصہ قرار دے کر اس کی عزت و توقیر کا اعلان اور اس کے احترام کا حکم دیا۔ اس سلسلے میں خاص طور پر دین ابراہیمی کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلمات میں کہیں بھی عورت کے درجہ اور رتبہ میں کمی کا ذکر نہیں۔ لیکن ان پغبران علیہ السلام کے بعض پیروکاروں نے ان پر نازل ہونے والے الہامی پیغامات تک میں تحریف کر ڈالی۔ ایسے لوگ عورت کے بارے میں پغمبروں کی تعلیمات، ہدایات اور احکامات کو کیا خاطر میں لاتے۔ چنانچہ عورت کی بے حرمتی اور بے توقیری کا سلسلہ نہ صرف یہ کہ چلتا رہا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ آغاز اسلام تک یہ سلسلہ پوری شدت کے ساتھ جاری رہا۔

خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری نوع انسانی پر اللہ تعالی کا عظیم ترین احسان ہے۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا محبوب بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا۔ یہ رحمت طبقہ نسواں پر بھی سایہ فگن ہوئی۔ اسلام نے مردوں کو یہ باور کروایا کہ عورت اور مرد دونوں آدم کی اولاد ہیں۔ اللہ تعالی کے نزدیک بہتری کا معیار مرد یا عورت ہونا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ متقی ، زیادہ پرہیز گار ہے۔ اسلام میں عورت کا احترام محض تذکرہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تبلیغ اور ریاست کے معاملات میں عورت کی عملی شمولیت نوع انسانی کے واضح سبق ہے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب عورت کو جسے اسلام نے عزت اور احترام کی رفعتیں عطا فرمائیں بعض لوگ یا بعض طبقات مرد کے مقابلے میں نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی گواہی کو ہر مقام پر نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح اور احکامات سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی آدھی سمجھی جائے گی۔ آپ قرآن کی ایک ایک آیت کو نہایت غور سے پڑھئے آپ کو اس ہدایت پر مبنی کوئی آیت پورے قرآن پاک میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔

تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے ؟

سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۲ میں اللہ تعالی نے قرض کی معاملہ میں احکامات عطا فرمائے ہیں ۔ سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن پاک کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس آیت میں کئی احکام بیان ہوئے ہیں۔ ایک حکم تو یہ ہے کہ جب ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ایک حکم یہ ہے کہ لکھنے والا پوری ذمہ داری کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ تحریر کرے۔ ایک حکم یہ ہے کہ اس معاملہ پر یعنی اس تحریری معاہدہ کے دو گواہ بنائے جائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دو مردوں کو گواہ بنا لیا جائے اور اگر ﴿اس موقع پر﴾ دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کر لو۔ ان لوگوں نے میں جن پر تم راضی ہو۔ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ﴿ایسا اس لئے ہے کہ﴾ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔

یہ ہے وہ آیت قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔

دنیا بھر کے نظام قوانین کو سامنے رکھا رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانین شہادت کے سامنے رکھئے۔ پاکستان مین رائج ہونے والے ایویڈنس ایکٹ ۱۸۷۲ یا مروجہ قانون شہادت آرڈیننس مروجہ ۱۹۸۴ کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانون شہادت میں یکسان ملے گی۔ کہ کسی واقعہ یا کسی معاملہ کو گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی گواہی جن الفاظ میں قلمبند کرواتا ہے وہ اس کی اصل گواہی کے طور پر لکھ لی جاتی ہے۔ جج کے سامنے اپنی زبان سے ایک مرتبہ الفاظ ادا کر لینے کے بعد گواہ کے پاس خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اپنا بیان تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہاں گواہی دینے کے دوران گواہ اپنی گزشتہ بات میں کوئی تبدیلی کروانا چاہے تو اسے رضاکارانہ طور پر تبدیلی کے زمرہ کے تحت علیحدہ سے لکھا جائے گا لیکن اس بات سے اس کی گواہی کی وقعت کم ہو جائے گی۔

دوسری طرف قرآن کے عطا کردہ قانونی نظام میں صرف مالی معاملات میں شہادت دیتے وقت عورت کو ایک بے مثال حق دیا گیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے بیان کے مندرجات تبدیل کروا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ حق مرد کو حاصل نہیں ہے۔

اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو تاکہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائےقرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیں بطور گواہ جج کے سامنے پیش ہونگی ۔ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے ترمیم کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔

دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے کہ اسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔

اس ایک آیت کے علاوہ جو صرف مالی معاملات پر گواہی کے بارے میں چند شرائط بیان کرتی ہے دیگر کسی جگہ بھی گواہی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ہے ۔ سورہ النساء کی آیت ۱۳۵ میں ہے

اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارے والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔یہاں گواہی کے لئے اہل ایمان کو کہا جارہا ہے۔ اہل ایمان میں مرد و عورت دونوں شامل نہیں ہیں ؟

سورہ مائدہ کی آیت ۱۰۶ میں گواہی کے لئے دو معتبر لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ پابندی نہیں بتائی گئی کہ ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتیں ۔ اب یہ دو معتبر لوگ دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں نہیں ہو سکتے ؟

صحابی رسول حضرت عقبہ بن حارٹ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک خاتون غنیہ سے نکاح کر لیا۔ ایک عورت نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اور تمہاری منکوحہ دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیںہے نہ تم نے پہلے کبھی مجھ سے یہ بات کہی۔ پھر انہوں نے اپنی بیوی کے رشتہ داروں سے معلوم کروایا انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اس عورت نے عقبہ کو دودھ پلایا ہے۔ آخر کار حضرت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرہ بیان کیا۔ دودھ پلانے والی عورت تن تنہا یہ واقعہ بیان کر رہی تھی۔ دوسرا کوئی گواہ اس کی گواہی نہیں دے رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رضاعت کے بارے میں اس عورت کا کہا تسلیم فرمایا۔ غنیہ کو عقبہ کی رضاعی بہن قراد دیا۔ عقبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے غنیہ کو چھوڑ دیا اور دوسری جگہ نکاح کیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کے کہیں بھی اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو آدھا وجود تسلیم کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو بھرپور عزت و احترام عطا فرمایا اور انہیں وہ حقوق عطا فرمائے جو آج سے سو سال قبل تک بھی غیر اسلامی معاشروں میں عورت کو حاصل نہ تھے۔

دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو یا خلافت راشدہ ۔ اسلام کی تبلیغ ، اسلامی مملکت کے دفاع اور استحکام۔ ریاستی معاملات مسلمانوں کی تعلیم و تربیت اور معاشرہ کے مختلف شعبوں میں عظیم مسلم خوانین نے نہایت گراں قدر خدمات انجام دیں۔

یہ شرف ایک عورت کو ۔ ۔ ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حاصل ہوا کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔

کیا اس گواہی کی حقانیت اور اس کے مکمل ہونے میں کسی کو کوئی شک ہو سکتا ہے ؟

اسلامی قانون کے بنیادی ماخذ دو ہیں ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔ ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہی کا ذریعہ احادیث ہیں اور احادیث کا بہت بڑا علم امت مسلمہ کو اپنی عظیم ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ذریعے حاصل ہوا۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں قرآن پاک کو تحریری شکل میں یکجا کر کے ایک نسخہ تیار کیا گیا۔ یہ مکمل قرآنی آیات کا پہلا نسخہ تھا۔ اسلامی ریاست کی جانب سے قرآن پاک کے اس پہلے تحریری نسخہ کو بطور امانت رکھوانے کےلئے کس ہسنی کا انتخاب کیا گیا ؟

ایک عورت کا ۔ ۔ ۔ ۔۔

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس یہ بطور امانت رکھوایا گیا۔

وہ کون ہستی ہے کہ جب لوگ مایوس ہو نے لگتے ہیں تو اس یقین کے ساتھ ان کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں کہ اب ان کی دعا ضرور قبول ہوگی ۔ یہ خاتون جنت حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔

اسلام کے تبلیغی ، ریاستی، تعلیمی ار روحانی معاملوں میں خواتین کی بھرپور شمولیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ قرآن اور اسلام کی نظر میں انسان کا مطلب صرف مرد نہیں بلکہ مرد اور عورت ہیں۔ اسلام عورت کو کمتر یا نصف قرار نہیں دیتا ہے بلکہ عورت کے بارے میں مختلف منفی نظریات اور تصورات کی تردید کرتے ہوئے عورت کو مکمل احترام، اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال اور سماج کے مختلف شعبوں اور روحانی شعبوں میں بھرپور شمولیت کے مواقع مکمل احترام اور تحفظ کے ساتھ فراہم کرتا ہے۔

دعاؤں طالب
دانیال ابیر حسن
 

ابن جمال

محفلین
یہ موضوع تواس کا متقاضی ہے کہ ایک مکمل مقالہ لکھاجائے جوحوالوں کے ساتھ مزین ہو جواس بات کو ثابت کرے کہ عورت کی گواہی کو نصف سمجھنا یہ آج کے دور کی بات نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے چلاآرہاہے۔دوسرے اس تعلق سے بعض ذہنوں میں جوشبہات ہوتے ہیں کہ اس طرح توعورتوں کومردوں سے کمتر سمجھاگیاہے اس کوزائل کیاجائے۔
 

طالوت

محفلین
شکریہ ثمینہ ۔ مگر بد قسمتی سے ایسی باتیں ہمارے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتیں ۔ یہ معاملات صرف عورت کے معاملہ میں ہی نہیں بلکہ ہر اس معاملہ میں ہیں جہاں ملا ئیت نے ڈیرے جما رکھے ہیں ۔ ایسی ایسی بکواس تاویلات کی جاتی ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔نام نہاد مذہبی قصے ہوں (جنھیں میں افسانے یا الف لیلوی داستانیں کہا کرتا ہوں) یا عام قوانین ۔ قران کا ایسا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ توبہ ہی بھلی ۔ اور اس ہر طرہ یہ کہ جب قائل کرنے کو دلیل نہیں ہوتی تو منکر حدیث ، عقلیت پسند اور اعتزال وغیرہ کہہ کر ذلیل کیا جاتا ہے۔ کہ جی اس پر تو امت کا اجماع ہے۔ امت کی کچھ خبر نہیں اور اجماع کے شوشے !
وسلام
 
شکریہ ثمینہ ۔ مگر بد قسمتی سے ایسی باتیں ہمارے لوگوں کو ہضم نہیں ہوتیں ۔ یہ معاملات صرف عورت کے معاملہ میں ہی نہیں بلکہ ہر اس معاملہ میں ہیں جہاں ملا ئیت نے ڈیرے جما رکھے ہیں ۔ ایسی ایسی بکواس تاویلات کی جاتی ہیں کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔نام نہاد مذہبی قصے ہوں (جنھیں میں افسانے یا الف لیلوی داستانیں کہا کرتا ہوں) یا عام قوانین ۔ قران کا ایسا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ توبہ ہی بھلی ۔ اور اس ہر طرہ یہ کہ جب قائل کرنے کو دلیل نہیں ہوتی تو منکر حدیث ، عقلیت پسند اور اعتزال وغیرہ کہہ کر ذلیل کیا جاتا ہے۔ کہ جی اس پر تو امت کا اجماع ہے۔ امت کی کچھ خبر نہیں اور اجماع کے شوشے !
وسلام

طالوت آپ نے اتنے سخت کمنٹس ، قرآن و حدیث کی روشنی میں دانیال ابیر کے مقالے کی تصدیق کے بعد دیے ہیں یا صرف دانیال ابیر کی ہی طرح اپنی بھڑاس نکالی ہے؟
 

گرائیں

محفلین
شکریہ ثمینہ ، ایک معلوماتی تحریر تھی جو آپ نے ہمارے لئے نقل کی، تمام باتیں تو نہیں البتی مرکزی خیال سے میں بالکل متفق ہوں۔
 
لیکن یہاں پر کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ ایک گواہی کے لیے ایک عورت کا بیان کافی ہے،
قرآن کی جو آیات آپ نے پیش کیں ان کے مطابق مرد ایک اور عورتیں دو، ایک گواہی ثابت کرنے کے لیے
مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ ایک عورت گواہی دے سکتی ہے ، وہ تو آپ قرانی آیات سے ثابت نہیں کر پائے
اور اگر آپ ایسا ثابت نہیں کر سکتے تو آپ کو ایسے دینی مسائل سے چھیڑنے کی ضرورت نہیں
یہاں پر ایک شیخ صاحب، اس بات کے اوپر روشنی ڈال رہے ہیں کہ ایسا کیوںہے، اور وہ بھی سائنس کے قوانین کی روشنی میں، آپکی رہنمائی کے لیے یہاں رکھ رہا ہوں

 

دوست

محفلین
قرآن پر تفکر کبھی بھی ہوسکتا ہے۔ ہزار یا بارہ سو سال پہلے تفکر کرنے والوں نے اگر تشریح کی ہے تو وہ حرف آخر نہیں۔ قرآن اور صحیح حدیث کو لے کر کسی بھی زمانے میں کوئی بھی تفکر کرسکتا ہے۔ قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں ہمیں صرف مالی معاملات میں عورت کی آدھی گواہی کا ذکر ملتا ہے۔ اگر اس کو دوسرے شعبوں تک "پھیلایا" جاسکتا ہے تو دوسری طرف یہ بات بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ عورت کی‌آدھی گواہی خصوصٓا اور صرف مالی معاملات تک محدود ہے جبکہ مقدمات جیسے فوجداری مقدمات میں عورت کی گواہی کو پورا تسلیم کیا جائے گا۔ وہاں گواہ "بنائے" نہیں جاتے بلکہ "بن" جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے حیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ بھی ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہی صحابیات کی گواہی کو آدھا تسلیم کیا؟ یا یہ ہمارے مفکرین کی اپنی سوچ ہے؟ اگر یہ ان کی ہی سوچ ہے تو اس کو بدلا جاسکتا ہے۔ فقہ اسلام نہیں اسلام قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ فقہ زمان و مکان کا پابند ہے قرآن و سنت نہیں۔
 

طالوت

محفلین
طالوت آپ نے اتنے سخت کمنٹس ، قرآن و حدیث کی روشنی میں دانیال ابیر کے مقالے کی تصدیق کے بعد دیے ہیں یا صرف دانیال ابیر کی ہی طرح اپنی بھڑاس نکالی ہے؟
ابن حسن میرا نہیں خیال کہ مذکورہ آیت کو کسی طرح تروڑ مروڑ کر اپنی مرضی کی گئی ہے جو عموما کی جاتی ہے ۔ اور دل بھڑاس تو میں اکثر نکالتا رہتا ہوں ۔ آپ کے پاس اس کے مقابلے کچھ ہو تو پیش کریں ۔ مگر میں کسی حدیث کو قران پر حکم نہیں سمجھوں گا۔
ایک اچھی کوشش تھی قرآنی آیات پر اپنی (من مانی) تاویلات کو چسپاں کرنے کی ۔ ۔ ۔ ۔
لگتا ہے وہی اجماع امت آ رہا ہے ;) ویسے اس اجماع کی کوئی بنیاد ، حجت ہونے کی دلیل اور اس کے اصولوں پر بھی کبھی روشنی ڈالیں ۔ تاکہ مجھ سے کم علم پر یہ تو صاف ہو سکے کہ وہ کونسے معاملات ہیں جن پر امت کا اجماع ہے اور باقی پر کفر کے فتوے ۔
وسلام
 

طالوت

محفلین
لیکن یہاں پر کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ ایک گواہی کے لیے ایک عورت کا بیان کافی ہے،
قرآن کی جو آیات آپ نے پیش کیں ان کے مطابق مرد ایک اور عورتیں دو، ایک گواہی ثابت کرنے کے لیے
مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ ایک عورت گواہی دے سکتی ہے ، وہ تو آپ قرانی آیات سے ثابت نہیں کر پائے
اور اگر آپ ایسا ثابت نہیں کر سکتے تو آپ کو ایسے دینی مسائل سے چھیڑنے کی ضرورت نہیں
یہاں پر ایک شیخ صاحب، اس بات کے اوپر روشنی ڈال رہے ہیں کہ ایسا کیوںہے، اور وہ بھی سائنس کے قوانین کی روشنی میں، آپکی رہنمائی کے لیے یہاں رکھ رہا ہوں

شیخ صاحب یہ کہاں ثابت کر رہے ہیں کہ دو عورتوں کی گواہی ایک گواہی تصور کی جائے گی ؟ اور آپ بھی قرانی آیات سے یہ ثابت نہیں کر پا رہے ۔
کوئی ٹھوس دلیل ہو تو عنایت فرمائیں ۔ ورنہ کسی کو یہ نہ کہیں کہ مسائل نہ چھیڑو ۔ دین کسی کی ذاتی جاگیر تو ہے نہیں ہر ایک مسلم کا حق ہے کہ وہ اس پر تدبر و تفکر کرے اور اپنی رائے پیش کرے ۔ یہی تو ملائیت ہے جس پر احباب ناراض ہو جاتے ہیں ۔
وسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
لگتا ہے وہی اجماع امت آ رہا ہے ;) ویسے اس اجماع کی کوئی بنیاد ، حجت ہونے کی دلیل اور اس کے اصولوں پر بھی کبھی روشنی ڈالیں ۔ تاکہ مجھ سے کم علم پر یہ تو صاف ہو سکے کہ وہ کونسے معاملات ہیں جن پر امت کا اجماع ہے اور باقی پر کفر کے فتوے ۔
وسلام
پیاری امامہ کے پیارے تایا جان جب آپ کو قرآنی نصوص اور کسی واضح نص کی تاویل کرنے کے درمیان فرق نہیں معلوم، تو پھر آپ کے علم میں کوئی کیا اضافہ کرئے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ :grin:۔ ۔ ۔
 

dxbgraphics

محفلین
HTML:
دنیا بھر کے نظام قوانین کو سامنے رکھا رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانین شہادت کے سامنے رکھئے۔ پاکستان مین رائج ہونے والے ایویڈنس ایکٹ ۱۸۷۲ یا مروجہ قانون شہادت آرڈیننس مروجہ ۱۹۸۴ کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانون شہادت میں یکسان ملے گی

محترمہ جہاں آپ نے دنیا بھر کے قوانین کی یکسانیت کا ذکر کیا ہے یہ لارڈ میکالے کا کالا قانون کبھی بھی قرآن کے مقابلے میں کچھ معنی نہیں رکھتا۔ حقوق کے لحاظ سے یقینا اسلام نے عورت کو مرد کے برابر رکھا ہے لیکن مرد کو پھر بھی بعض معاملات میں برتری دی ہے۔ جو آپ کے یا لارڈ میکالے کے کہنے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
 
لیکن یہاں پر کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ ایک گواہی کے لیے ایک عورت کا بیان کافی ہے،
قرآن کی جو آیات آپ نے پیش کیں ان کے مطابق مرد ایک اور عورتیں دو، ایک گواہی ثابت کرنے کے لیے
مجھے سمجھ نہیں آرہا آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ ایک عورت گواہی دے سکتی ہے ، وہ تو آپ قرانی آیات سے ثابت نہیں کر پائے
اور اگر آپ ایسا ثابت نہیں کر سکتے تو آپ کو ایسے دینی مسائل سے چھیڑنے کی ضرورت نہیں
یہاں پر ایک شیخ صاحب، اس بات کے اوپر روشنی ڈال رہے ہیں کہ ایسا کیوںہے، اور وہ بھی سائنس کے قوانین کی روشنی میں، آپکی رہنمائی کے لیے یہاں رکھ رہا ہوں


یاسر بھیا ! شاید آپ نے تحریر کو بغور نہیں پڑھا ۔ ۔ ۔ آپ نے بھی وہی غلطی دہرائی جو صدیوں سے دہرائی جا رہی ہے۔

کیا صرف ایک شیخ ہی قرآن کو سمجھ سکتا ہے ؟

کیا میں اور آپ مسلمان نہیں ہیں ؟

کیا تفکر کا سارا ٹھیکہ ان ملاؤں کے سر ہے ؟

کیا ہماری قبر کا عذاب روز محشر یہ ملا اٹھائیں گے ؟

میرے پیارے بھائی ! یہ دیکھئے کہ اس آرٹیکل میں قرآن کیا کہہ رہا ہے ۔ اس کی آیات چلا چلا کر کیا کہہ رہی ہیں۔ اور پھر راقم تحریر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ سے بھی ثابت کر رہا ہے ۔ اس کے بعد خلفائے راشدین کے بھی حوالے دے رہا ہے۔

اور آپ ابھی تک شیخ کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ میرے بھیا جی ! قرآن کو آپ ثانوی درجہ دے رہے ہیں یا پھر مرد ہونے کے ناطے یہ سب کچھ ہضم کرنا مشکل ہو رہا ہے

لیکن آپ کے کہنے یا شیخ کے بیان کرنے سے قرآن کی صداقت، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسوہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کی پیروی تبدیل نہیں ہو سکتی

ذرا غور کیجئے جس عورت کو ناقص العقل کہا جاتاہے اسی ماں کا ایک ایک قطرہ لہو لیکر مرد پیدا ہوتا ہے، اور وہی خون چوس کر ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اگر عورت ناقض العقل ہے تو میرے بھائی مرد بھی تو ناقص العقل ہوا کیونکہ جنیاتی طور پر اس نالائق عورت کا خون چوس کر وہ پیدا ہوا ہے۔ اب رہ گئی بات سائینس کی تو میرے بھائی سائنس کی ننانوے فیصد تحقیق مفروضوں سے جنم لیتی ہیں جو بعد میں تبدیل ہو جاتی ہیں یا جن کا رد سامنے آجاتا ہے۔

مثال سگمنڈ فرائڈ کا فلسفہ ہے۔ جو اب رد ہو چکا ہے۔ اسکے بعد آنے والے فلسفے بھی رد ہوتے رہے ہیں۔ لیکن جو قرآن نے بیان کیا ہے اس پر سائنس تحقیق نہیں کر رہی ہے۔ مسجد کے دالان میں بیٹھا ہوا ملا روٹی توڑ رہا ہے یا سطحی معاملات پر بحث کر رہا ہے۔

کاش کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات
 
مقام افسوس ہے کہ ہم قرآن کو ثانوی درجے پر رکھ کر تفکر کرتے ہیں۔

بہت سارے احادیث کی بات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ قرآن کی ذمہ داری خود اللہ پاک نے لی ہے۔ یہ ناقابل تبدیل و ناقابل تردید ہے۔ قرآن کیا کہہ رہا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں۔ ایک بندہ قرآن کی سیدھی آیت کو سیدھے طریقے سے بیان کر رہا ہے، مثال سے ثابت کر رہا ہے لیکن اس پر یہ کہا جارہا ہے کہ آیت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔

میرے بھائیو ! عقل کے ناخن لیجئے کہ قرآن کی آیت کو توڑ مروڑ کر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہاں مطلب اپنی مرضی کا اخذ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن قرآن کی حقانیت و صداقت کو کیسے رد کرینگے۔

کب تک ملا کی ملائیت اور شیخ کی حجت میں اپنا ایمان برباد کرینگے ۔ قرآن نے جو کہہ دیا وہ حق بھی ہے اور سچ بھی ہے

دوست نے جو لکھا کہ قرآن میں تفکر کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات برحق ہے۔ کیونکہ کائنات میں جو تھا، جو ہے اور جو کچھ ہوگا اس سب کے راز اس الہامی کتاب میں رکھ دیئے گئے ہیں اور بار بار تفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ تو پھر تفکر کیجئے اور درست سمت میں سفر کیجئے
 
جی نہیں ، سب کو تفکیر کا حق حاصل ہے، اور رہنمائی کے لیے قرآن سب سے پہلے اور ملا بعد میں
لیکن قران کو سمجھنا اتنا آسان نہیں ہے، اور قرآن کا اردو ترجمہ کرنے والے بھی تو انسان ہی ہیں نا،
اور عربی زبان سے اردو میں ترجمہ ہوتے وقت مکمل مطلب اور مفہوم کا ترجمہ ہو جانا ممکن نہیں
مفہوم سمجھنے کے لیے بہترین طریقہ یہ ہے کہ عربی زبان سیکھی جائے۔
خیر اگر آپ کو یا کسی اور کو میری کوئی بات بری لگی تو معذرت خواہ ہوں۔
 

طالوت

محفلین
پیاری امامہ کے پیارے تایا جان جب آپ کو قرآنی نصوص اور کسی واضح نص کی تاویل کرنے کے درمیان فرق نہیں معلوم، تو پھر آپ کے علم میں کوئی کیا اضافہ کرئے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ :grin:۔ ۔ ۔
میں بڑی سنجیدگی سے اس علمی اضافے سے بچنا چاہتا ہوں ۔
وسلام
 

باذوق

محفلین
دانیال ابیر سے بذریعے ایمیل میرے ذاتی روابط رہے ہیں۔ لہذا ذاتی سطح پر اختلاف کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ میرا اختلاف نظریاتی اور اصولی ہوتا ہے۔
ویسے بھی دانیال نے یہی مضمون اردو مجلس پر یہاں پیش کیا تھا جس کا اپنی حد تک موثر مختصر جواب دے کر ہم کچھ ساتھی فارغ ہو چکے ہیں۔

تمام مسلمانوں کا ایمان ہے کہ قرآن اور حدیث (صحیح و حسن) میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ اول و ثانوی درجے کی بھی بات نہیں۔
شریعت دراصل قرآن و سنت کو ملا کر ہی بنتی ہے۔ علیحدہ علیحدہ اپنی مرضی کا مفہوم نکالنا ہو تو پھر قرآن کے اصول کے مطابق بآسانی مچھلی کو حرام قرار دیا جا سکتا ہے اور مَردوں کے سونا پہننے کو حلال کہا جا سکتا ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جس پر قرآن نازل ہو (صلی اللہ علیہ وسلم) وہ خود اگر کوئی تشریح کرے تو ایسی تشریح ثانوی درجہ اختیار کر جائے اور قرآن کو اپنی مرضی سے جو ہم سمجھیں ، ہمارا وہ "فہم" اولین درجے پر فائز ہو جائے ؟؟!
دوسروں کے خیالات کا مجھے پتا نہیں مگر کم سے کم میری نظر میں تو ایسی فکر ، قرآن کی ہی نہیں بلکہ صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بھی توہین ہے !!

متذکرہ بالا سارے آرٹیکل کے خلاف صرف یہی ایک فہمِ صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) کافی ہے :
[ARABIC]شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل[/ARABIC]
بخاری و مسلم و کتب سنن اربعہ

میرے علم کی حد تک ۔۔۔۔
شیعہ یا سنی مکاتبِ فکر کے کسی ایک بھی محدث ، فقیہہ ، عالم ، امام سے اس حدیث کا انکار ثابت نہیں ہے !
سوائے ان لوگوں کے جو فہمِ رسول (احادیثِ صحیحہ) کے مقابلے میں اپنے ذاتی "فہمِ قرآن" کی برتری کے قائل ہیں !!
 

باذوق

محفلین
ایک بندہ قرآن کی سیدھی آیت کو سیدھے طریقے سے بیان کر رہا ہے، مثال سے ثابت کر رہا ہے لیکن اس پر یہ کہا جارہا ہے کہ آیت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
کیا 14ویں صدی کے ایک بندہ کے "فہم" کو برحق ماننے کے لئے ہم ان تمام مبارک ہستیوں (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کے فہم کو نظرانداز کر دیں جنہوں نے براہ راست صاحبِ قرآن (صلی اللہ علیہ وسلم) سے قرآن کو سمجھا تھا اور جو ساری عمر یہی کہتے اور مانتے رہے کہ :
[ARABIC]شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل[/ARABIC]

اور ہاں وہ کون سی مثال ہے ؟؟
رضاعت والی ؟؟
آئیے ذرا اس آیت (البقرہ:282) کے اس فقرے کی تفسیر بھی دیکھ لیتے ہیں۔

معاف کیجئے گا ! جب ہر ایرا غیرا اٹھ کر ہم کو "سیدھے طریقے" سے قرآن سمجھانے کا دعویٰ کرنے لگے تو کیا برا ہے ذرا معروف مفسرین سے بھی دریافت کر لیا جائے کہ وہ اس آیت کی کیا تشریح کرتے ہیں؟
فتح القدیر ، امام شوکانی کی معروف تفسیر ہے۔ آپ علیہ الرحمة آیت کے اس فقرے ۔۔۔
[ARABIC]وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاء أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى[/ARABIC]
کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
[ARABIC]والمراد ممن ترضون دينهم، وعدالتهم، وفيه أن المرأتين في الشهادة برجل، وأنها لا تجوز شهادة النساء إلا مع الرجل لا وحدهنّ، إلا فيما لا يطلع عليه غيرهنّ للضرورة.[/ARABIC]
بحوالہ : التفسیر ڈاٹ کام / البقرہ:282 ، ص:3
یعنی جن کی دینداری اور عدالت پر تم مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کریم کی اس نص سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی کافی نہیں ، سوائے ان معاملات کے ، جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہو سکتا۔ (اردو ترجمہ: حافظ صلاح الدین یوسف)

ہمارے فاضل مفسر و مدبرِ محترم ذرا امام صاحب کی اس تشریح پر غور کریں اور پھر ہم کو بتائیں کہ دنیا کی کون ایسی عورت ہے جو کسی دوسری عورت کو گواہ بنا کر رضاعت کا عمل انجام دیتی ہے؟؟
ظاہر ہے کہ گواہی کا حکمِ قرآنی رضاعت کے معاملے کو استثنائی معاملہ قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ امام شوکانی نے کہا ہے کہ وہ معاملات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جن پر اکیلی عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہو سکتا۔

رہ گئی دوسری مثالیں ۔۔۔۔
ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی گواہی کیا دنیائے اسلام میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی واحد گواہی تھی کہ جس کو آدھی گواہی کہہ کر نہ مانا جائے؟ کیا ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی اور ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسالت کی گواہی نہیں دی تھی؟؟

اور ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس مصحف بطور امانت رکھوانے کا، گواہی سے کیا تعلق؟؟ کیا اس مصحف کے مصدقہ ہونے کی واحد گواہی تنہا ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ہی کی رہی ہے؟؟ کیا خلفائے راشدین نے اس مصحف کی صداقت کی گواہی نہیں دی تھی؟؟

عجیب بےتکی منطق ہے !

حافظ صلاح الدین یوسف نے تفسیر احسن البیان میں بالکل درست لکھا ہے کہ :
صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے تو اس میں عورت کے استخفاف اور فروتری کا اظہار نہیں ہے ، جیسا کہ لوگ باور کراتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک فطری کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر مبنی ہے۔
اور ۔۔۔۔ خود مخلوق کے خالق کی حکمت و مشیت کو کوئی تسلیم نہ کرے تو یہ ایک الگ بات ہے۔
بحوالہ : تفسیر احسن البیان ، البقرہ:282

دوستوں کی شہ پر مزید کچھ یوں ارشاد ہوتا ہے ۔۔۔۔
دوست نے جو لکھا کہ قرآن میں تفکر کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات برحق ہے۔ کیونکہ کائنات میں جو تھا، جو ہے اور جو کچھ ہوگا اس سب کے راز اس الہامی کتاب میں رکھ دیئے گئے ہیں اور بار بار تفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ تو پھر تفکر کیجئے اور درست سمت میں سفر کیجئے ۔۔۔۔
رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جب کسی موضوع پر ایک بات واضح کر کے بیان فرما دی ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
فرمانِ نبوی کے سامنے آنے کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کو حق ہے کہ اس "موضوع" پر تفکر کرے؟؟
تفکر کیوں کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے۔
تو جو لوگ نبی سے ثابت شدہ نتائج کو جاننے کے بعد بھی "تفکر" کا راگ الاپ رہے ہیں ، کیا وہ نبی کے تفکر کا انکار کرنا چاہتے ہیں؟؟
انکار تو کوئی بھی بندہ کھلے عام نہیں کرتا بلکہ ویسا ہی طریقہ اپناتا ہے جیسا کہ ہمارے معاشرے کے معزز روشن خیال مفکرین قرآن اپناتے رہے ہیں اور اپنا رہے ہیں !!
کاش کہ یہ معززین و مفکرین و مدبرین ، قرآن کو بھی کچھ سمجھ کر پڑھے ہوتے جو ببانگ دہل کہتا ہے :

[ARABIC]وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ[/ARABIC]
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے

اور یہی قرآن فرماتا ہے :
[ARABIC]فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُوْا فِىْ أنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا[/ARABIC]
تمہارے ربّ كى قسم يه كبھى مومن نہيں ہو سكتے جب تک اپنے باہمى اختلافات ميں آپ كو فيصلہ كرنے والا نه مان ليں- پھر جو كچه آپ فيصلہ كريں اس پر اپنے دلوں ميں كوئى تنگى بهى محسوس نه كريں بلكه دل و جان سے اسے تسليم كرليں-

اور اہل سنت کے ائمہ اربعہ تو ساری عمر یہ کہتے اور سمجھاتے رہے کہ :
لوگو! دین میں اپنی عقل سے بات کرنے سے بچو اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کو اپنے اوپر لازم کرلو، جو کوئی سنت سے ہٹا، وہ گمراہ ہو گیا۔

اور آج ہم کو یہ مفکرینِ قرآن سمجھا رہے ہیں کہ :
قرآن میں تفکر کیجئے اور درست سمت میں سفر کیجئے!
دین کو درست طور سمجھانے والے جن جن ائمہ دین کو جو چند احباب مل گانٹھ کر "ملا ، مولوی ، شیخ" کے لقب سے یاد کر رہے ہیں ، ذرا اپنے بھی گریبان میں جھانک لیں کہ وہ خود کیا کام انجام دے رہے ہیں اور کیوں ہمیں روک رہے ہیں کہ انہیں کوئی لقب نہ دیا جائے؟؟

اور مزید اس بات پر بھی کچھ "تفکر" فرمائیے کہ ۔۔۔۔
کیا قرآن میں صرف "تفکر" کا حکم ہے؟ اتباع و اطاعتِ نبی کا حکم نہیں ہے؟
کیا قرآن کا نزول صرف اس سبب ہوا ہے کہ بس اپنی مرضی کی آیت لے لی جائے اور جن آیات پر عمل مشکل ہو اسے چھوڑ دیا جائے؟
حالانکہ عقل کا استعمال یا تفکر کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود اﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے !
بلکہ اسکی تشریح اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے
جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے :
[ARABIC]فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ[/ARABIC]
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے
( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )

اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرنا چاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں!!
خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس کے متعلق عرصہ قبل تفصیل سے یہاں لکھا جا چکا ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم دوستو ! چاہتا تو نہیں تھا کہ سفاہت کے اس پلندے کا جواب دوں کہ جسے قرآن پاک پر فکری تدبر کے نام پر تعقل پرستی میں مبتلا ہوکر لکھا گیا ہے مگر اب جبکہ یہ ظاہر ہوچکا کے اس پلندے کو یہاں پر شئر کرنے کا اصل مقصد قرآن پاک پر فکری تدبر کی دعوت دینے سے زیادہ اپنی فطرتی عقل پرستی میں مبتلا ہوکر علمائے اسلام کہ (جنکی عظیم خدمات ہیں اس دین کی ترویج و اشاعت میں کے ) خلاف اپنی فطرتی بھڑاس نکالنا ہے تو ہم نے ضروری سمجھا کہ جہالت کے اس پلندے کا کچھ نہ کچھ تدارک ضرور کردیا جائے تاکہ ایسے قارئین کے جنکے دلوں میں اسلام ،قرآن اور علمائے اسلام کی محبت جاگزیں ہیں انکی دلبستگی کا سامان ہوسکے برخلاف انکے جو کہ مغرب زدہ زہنیت میں مبتلا ہوکر مادہ پرستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر اس قدر جری ہوچکے ہیں کہ اب قرآن پاک کو بھی اپنی فطری تعقل پرستی نشانہ ،علمائے اسلام کے نام پر بنا رہے ہیں اور مبلغ علمی اپنا اس قدر ہے کہ خود انہی علمائے کرام کے اردو تراجم سے قرآن پاک پر اپنے فکری تدبر کی بنیاد رکھتے ہیں حالانکہ صحابہ کرام زبان دان ہونے کے باوجود بھی ایک ایک لفظ کا معنٰی پوچھنے کے لیے صاحب قرآن سے رجوع کیا کرتے تھے مگر یہ ہیں کہ فقط لفظی اردو ترجمے کو پڑھ لینے کے بعد مفسر قرآن بننے کی سعی فرمارہے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ ۔
باقی پلندے کا جواب دینا تو خلط مبحث ہوگا سردست ہم فقط سورہ بقرہ کی آیت نمبر 282 کی رو سے عورت اور مرد کی گواہی پر بات کریں گے کہ جس آیت کو صاحب مضمون نے اپنی تعقل پرستی کا نشانہ بنایا ہے ۔ ۔ موصوف لکھتے ہیں کہ ۔ ۔




تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے ؟

سورہ بقرہ کی آیت ۱۸۲ میں اللہ تعالی نے قرض کی معاملہ میں احکامات عطا فرمائے ہیں ۔ سورہ بقرہ کی یہ آیت قرآن پاک کی سب سے طویل آیت ہے۔ اس آیت میں کئی احکام بیان ہوئے ہیں۔ ایک حکم تو یہ ہے کہ جب ادھار کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ ایک حکم یہ ہے کہ لکھنے والا پوری ذمہ داری کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ تحریر کرے۔ ایک حکم یہ ہے کہ اس معاملہ پر یعنی اس تحریری معاہدہ کے دو گواہ بنائے جائیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ دو مردوں کو گواہ بنا لیا جائے اور اگر ﴿اس موقع پر﴾ دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ کر لو۔ ان لوگوں نے میں جن پر تم راضی ہو۔ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ ﴿ایسا اس لئے ہے کہ﴾ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔

یہ ہے وہ آیت قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔
پھر دنیا بھر کے قوانین اور قرآن پاک کے قوانین کا تجزیہ کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں کہ ۔ ۔ ۔

دنیا بھر کے نظام قوانین کو سامنے رکھا رکھئے۔ دنیا بھر کے قوانین شہادت کے سامنے رکھئے۔ پاکستان مین رائج ہونے والے ایویڈنس ایکٹ ۱۸۷۲ یا مروجہ قانون شہادت آرڈیننس مروجہ ۱۹۸۴ کو سامنے رکھئے۔ ایک بات دنیا کے ہر قانونی نظام کے قانون شہادت میں یکسان ملے گی۔ کہ کسی واقعہ یا کسی معاملہ کو گواہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی گواہی جن الفاظ میں قلمبند کرواتا ہے وہ اس کی اصل گواہی کے طور پر لکھ لی جاتی ہے۔ جج کے سامنے اپنی زبان سے ایک مرتبہ الفاظ ادا کر لینے کے بعد گواہ کے پاس خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اپنا بیان تبدیل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ہاں گواہی دینے کے دوران گواہ اپنی گزشتہ بات میں کوئی تبدیلی کروانا چاہے تو اسے رضاکارانہ طور پر تبدیلی کے زمرہ کے تحت علیحدہ سے لکھا جائے گا لیکن اس بات سے اس کی گواہی کی وقعت کم ہو جائے گی۔

دوسری طرف قرآن کے عطا کردہ قانونی نظام میں صرف مالی معاملات میں شہادت دیتے وقت عورت کو ایک بے مثال حق دیا گیا ہے۔ وہ حق یہ ہے کہ اگر عورت چاہے تو اپنے بیان کے مندرجات تبدیل کروا سکتی ہے۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ حق مرد کو حاصل نہیں ہے۔
سب سے پہلے تو ہم سورہ بقرہ کی جو آیت موضوع سخن ہے اسکا وہ حصہ جو زیر بحث ہے اسکا عربی متن اور پھر اس کا اردو ترجمہ نقل کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ ۔ ۔
وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى ۔ ۔ ۔ ۔ [البقرة : 282]

۔ ۔ ۔ترجمہ:- اور اپنے لوگوں میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو (یعنی قابلِ اعتماد سمجھتے ہو) تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، [البقرة : 282]

یہاں پر قرآن پاک میں شاہد کا لفظ استعمال ہوا کہ جس کا مطلب ہوتا ہے گواہ اور تعدد گواہ کو بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے ایک مرد اور دو عورتوں کو تعین تعدد میں آپس میں باہم مقابل ٹھرایا ہے اور مرد کے مقابل ایک کا عدد اور عورتوں کے مقابل دو کے عدد کو فرماکر اس باب میں تعین تعدد عددی کی تخصیص فرمائی اور ایسا فرمانے کی حکمت اس قسم کے مخصوص معاملات میں تعداد تعدد کو (مرد وعورت کی فطری تخلیقی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے )وضع کرنا ہے کیونکہ اللہ پاک مالک و خالق ہے تمام مردوں اور عورتوں کا اور وہ ان کی ظاہر و پوشیدہ صلاحیتوں، عقل و شعور اور حفظ و اتقان کو خوب جاننے والا ہے ۔ نہ کے دنیا بھر کے نام نہاد قانونی ماہرین اور ان کا عقل پرستانہ نظام اس باب میں اللہ پاک سے بہتر نظام وضع کرسکتا ہے لہذا جب اس نے ایک مرد گواہ کے مقابلے میں بطور تعین عدد دو عورتوں کو گواہ ٹھرایا ہے تو کسی ایسے انسان کو، جو اللہ تعالیٰ کو خالق و مالک مانتا ہو، یا کم از کم اس کی ذات کا قائل ہو اسے اس واضح حکم الٰہی پر انکار یا اعتراض کی کیا جراءت ہے کہ وہ محض اپنی عقل پرستی میں مبتلا ہوکر قرآن پاک کی واضح آیت پر اپنی مان مانی تاویل کو چسپاں کرئے اور قرآن پاک میں واضح لفظ گواہ کی موجودگی کے باوجود دونوں عورتوں کی حیثیت بحیثیت گواہ ہونے میں تردد کرئے اور خواتین کے لیے دو کے عدد کو بطور تعین عدد مراد نہ لے بلکہ یہ کہتے ہوئے تعیین تعدد عدد کا انکار کردے کہ ۔ ۔
۔دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے ۔ ۔ ۔
ہم پوچھتے ہیں کہ اس کی دلیل کیا ہے اور اسلام نے یہ امتیازی حق عورتوں کو کیوں دیا ہے اور اس پر قرینہ کیا ہے اس آیت میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو تاکہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائےقرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیں بطور گواہ جج کے سامنے پیش ہونگی ۔ اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے ترمیم کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔

دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے کہ اسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔
یعنی کے بہت خوب قرآن تو دونوں عورتوں پر گواہ ہی کا اطلاق فرمائے اور آپ اپنی نام نہاد عقل کا سہارا لیکر یہ فرمائیں کہ ۔ ۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی
واہ واہ سبحان اللہ یعنی کیا کہنے ہیں آپ کے یعنی اللہ پاک نے خواتین کے معاملے میں گواہی کے عدد کی تعین کی جو حکمت بیان کی آپ نے اسی کا سہارا لیتے ہوئے ایک عورت کو مطلقا گواہ ہونے سے ہی خارج کردیا یعنی قرآن تو کہے کہ تم میں سے دو عوتیں گواہ ہوں اور آپ فرمائیں کہ نہیں یہاں گواہ ایک ہی عورت ہے جبکہ دوسری کا عدد فقط پہلی کو یاد دلانے کے لیے ہے اور دلیل آپ نے یہ دی ہے کہ دوسری کا مخاطب عدالت نہیں بلکہ وہی پہلی ہے اناللہ وانا الیہ راجعون ۔ ۔ اور ہم کہہ رہے ہیں کہ اسی یاد دلانے کو اللہ پاک نے بطور حکمت عورتوں کے باب میں تعین عدد کے بطور فرمایا ہے اور اس تعین عدد سے مراد دونوں ہی ہیں کہ دونوں ہی کمرہ عدالت میں پہلے اپنا اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گی کہ دونوں کو گواہ کہا گیا ہے اور واقعاتی شہادت کی گواہ ہونے کے بطور ان دونوں میں سے جو بھی بھول جائے گی اسکی دوسری اسے یاد دلا دے گی نہ کے عدالت فقط ایک سے گواہی لے گی اور دوسری کو بطور یاد دہندہ طلب کرئے گی ۔ ۔ ۔ ۔
رہی یہ بات کہ عورت کی گواہی تعین عدد کے باب میں مرد کی نسبت آدھی کیوں قرار دی گئی؟ اور اس کی کیا حکمت ومصلحت ہے؟ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اس کی حکمت خود قرآن کی اسی آیت میں بطور قرینہ موجود ہے ۔ ۔ چنانچہ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت میں صراحت و وضاحت کے ساتھ اس کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:

” أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى“ (البقرہ:۲۸۲)

ترجمہ: ”تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔“
یہاں دوسری کا عدد ایک کی دوسری میں بطور گواہ اور یاد دہندہ دونوں کو شامل ہے نہ کے فقط یاد دہندہ کے لیے یہاں دوسری کا لفظ وارد ہوا ہے ۔ ۔ ۔ اور اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ خواتین عدالتی چکروں کی متحمل نہیں ہوتی ان کی اصلی وضع گھر گرہستی اور گھریلو ذمہ داریوں کے نبھانے کے لئے ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ جب عورت عدالت اور مجمع عام میں جائے تو گھبرا جائے اور گواہی کا پورا معاملہ یا اس کے کچھ اجزاء اُسے بھول جائیں، اس لئے حکم ہوا کہ اس کے ساتھ دوسری خاتون بطور معاون گواہ رکھی جائے تاکہ اگر وہ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔ عورتیں عام طور پر مردوں کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہیں، ان کے دماغ میں رطوبت کا مادہ زیادہ ہوتاہے، اس لئے ان سے نسیان بھی زیادہ واقع ہوتا ہے، اور وہ بھول بھی جاتی ہیں، یہ ایک انسانی فطرت ہے، وگرنہ بعض عورتیں بڑی ذہین بھی ہوتی ہیں، اور بعض عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیت بخشی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ذہین بھی ثابت ہوتی ہیں، تاہم عام فطرت اوراکثریت کے اعتبار سے چونکہ عورت کا مزاج ”اعصابی“ ہوتا ہے، اس لئے وہ اکثر بھول جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دماغی کیفیت ہی ایسی بنائی ہے، لہٰذا دوعورتوں کو ایک مرد کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اور اسلام کا یہ منشاء ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لئے گواہی کا شفاف اور مؤثر نظام قائم کیا جائے اس لئے اسلام نے مردوں کو ہر حال میں گواہی دینے کا پابند بنایا جبکہ دوسری طرف عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کے فطری فرق کے پیش نظر اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا اور گواہی کو فرض کی بجائے ان کا حق قرار دیا۔اور اسی لئے اس کی شرائط بھی مختلف کر دیں یہاں مرد و عورت کے حقوق میں امتیاز مقصود نہیں بلکہ گواہی کے نظام کو مؤثر بنانا مقصود ہے حالانکہ بعض معاملات میں صرف عورتوں ہی کی گواہی معتبر ہوتی ہے جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
وہ مسائل جن میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہے
وہ مسائل جن سے مرد آگاہ نہیں ہو سکتے ان میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہوگی چاہے گواہی دینے والی ایک ہی عورت ہو :

تجوز شهادة المراة الواحد فيما لا يطلع عليه الرجال.

’’جن امور سے مرد مطلع نہیں ہوسکتے ان میں ایک عورت کی گواہی معتبر ہوگی۔‘‘

عبدالرزاق، المصنف، 7 : 484، رقم : 13978

تجوز شهادة المرأة الواحدة في الرضاع.

’’بچے کی رضاعت میں ایک عورت کی گواہی بھی معتبر ہے۔‘‘

عبدالرزاق، المصنف، 8 : 335، رقم : 15406

و يقبل في الولادة والبکارة والعيوب بالنساء في موضعٍ لا يطلع عليه الرجال شهادة امراة واحد.

’’ولادت اور عورتوں کے وہ معاملات جن سے مرد آگاہ نہیں ہوسکتے وہاں ایک عورت کی گواہی قبول کی جائے گی۔‘‘

مرغيناني، هداية، 2 : 154

ہم یہاں ان معاملات اور مسائل کو بیان کریں گے جن میں مردوں کی گواہی معتبر نہیں، بلکہ صرف عورت کی گواہی معتبر ہے ان مسائل میں علماء کا اتفاق ہے اور کوئی اختلافی رائے نہیں پائی جاتی :

(1) ولادت اور بچے کے رونے پر گواہی
اگر بچہ کی ولادت اور بچے کے رونے کے مسئلے میں کوئی نزاع واقع ہو جائے تو یہاں صرف عورت کی گواہی معتبر ہو گی مرد کی نہیں۔ اس لئے کہ یہ ان اُمور میں سے ہے جن پر اکثر اوقات مرد مطلع نہیں ہو سکتے۔ اس معاملے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائی کی تنہا گواہی جائز قرار دی ہے۔

(2) رضاعت
اسی طرح اگر رضاعت کے معاملے پر اختلاف ہو جائے اور معاملہ قاضی تک پہنچ جائے تو عورت کو یہ حق ہے کہ وہ گواہی دے کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جو عورت کے ساتھ خاص ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کی تنہا گواہی قبول کی جائے گی۔ اس لئے کہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث نے اُمِ یحییٰ بنت ابی اہاب سے نکاح کیا۔ تو سوداء لونڈی نے آ کر کہا کہ تم دونوں کو میں نے دودھ پلایا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُنہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

کيف و قد قيل ففارقها و نکحت زوجا غيره.

’’نکاح کیسے (قائم رہ سکتا ہے) اور گواہی دیدی گئی ہے۔ تو عقبہ نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور بنت ابی اہاب نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب إذا شهد شاهد، 2 : 934، رقم : 2497

(3) ماہواری پر گواہی
ماہواری (حیض) کے کسی بھی اختلاف پر بھی گواہی عورت ہی دے سکتی ہے۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق اور عزت و احترام کے اس تذکرے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی تہذیب کے اس مرحلے پر جب عورت کو جانوروں سے بھی بدتر تصور کیا جاتا تھا اور کسی عزت و تکریم کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو وہ حقوق عطا فرمائے جس سے اسے تقدس اور احترام پر مبنی سماجی و معاشرتی مقام نصیب ہوا۔ اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی یہ صرف اسلام کا عطاکردہ ضابطہ حیات ہے جہاں عورت کو تکریم اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت میسر آسکتی ہے۔
بشکریہ خواتین کے اسلامی حقوق از ڈاکٹر طاہر القادری
 
Top