پہلی سرخ رنگ میںمقید میں آپ کے جملے سے متفق ہوں ۔
مگرمیں بحث کو اس کی مرکزی حیثیت پر رکھتے ہوئے آپ کی بات کا جواب دینا چاہوں گا کہ آپ کی باقی باتیں سوائے گروہی اختلاف کے سوا کچھ نہیں ۔
آپ دلیل کی منبع یہ حدیث ہے ۔
شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ :
عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے ۔
آپ نے یہ حدیث کوٹ کردی ہے ۔ اور وا شگاف الفاظ میں اعلان بھی کردیا کہ اس حدیث کے الفاظ بلکل واضع ہیں ۔ مگر آپ نے اس بات کی وضاحت کی زحمت گوارا نہیں کہ اس حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد کس تناظر میں فرمایا ۔ ہم جیسے طالب علم یہ بات جانتے ہیں کہ جس طرح کسی بھی آیت کو کوٹ کرکے اس کے اصل مفہوم تک نہیں پہنچا جاسکتا کہ اس سے پہلے اس آیت کا سیاق و سباق دیکھنا پڑتا ہے کہ اس آیت کے مقام پر قرآن کہاں کھڑا ہے ۔ اور اس کا پس منظر کیا ہے ۔ بلکل اسی طرح کسی بھی احادیث کو سمجھنے کے لیئے بھی یہ طریقہ درکار ہوگا ۔
پوری حدیث کا متن کچھ اس طرح ہے ۔
اليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان عقلها. اليس اذا حاضت لم تصل ولم تصم؟ قلن بلی، قال فذلك من نقصان دينها. (بخاری، رقم ٢٩٣)
''کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے آدھی نہیں ہے؟ خواتین نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اس کی عقل کا ناقص ہونا ہے۔ کیا حیض کی حالت میں اس کے لیے نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہوتا؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ فرمایا کہ یہ اس کے دین کا ناقص ہونا ہے۔
روایت کے الفاظ سے واضح ہے کہ اس میں ابتداء ً اور مستقلاً کوئی حکم بیان نہیں کیا جا رہا ، بلکہ سورہ بقرہ (٢)کی آیت ٢٨٢ میں بیان ہونے والی ہدایت ہی کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ آیت میں ،
سماجی معاملات اور تجارتی وکاروباری قضیوں میں خواتین کے تجربہ اور ممارست کی کمی کے تناظر میں احتیاطاً دو عورتوں کو گواہ بنا لینے کی ہدایت کی گئی ہے
تاکہ اگر ان میں سے ایک الجھاؤ یا کنفیوژن کا شکار ہو تو دوسری خاتون اس کا سہارا بن سکے۔ ظاہر ہے کہ اگر روایت میں اسی ہدایت کی طرف اشارہ ہے تو اسے آیت سے الگ کر کے اس سے کوئی مستقل قانونی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا ۔ چنانچہ اس روایت سے کسی قانون یا حکم کا اجراء ہوگیا ۔ یہ بات سیاق و سباق سے واضع ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔