محدثین کرام کا اس امت پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے سبائی مورخوں اور راویوں کے جھوٹ سے نجات دلانے کو جس طرح انتھک محنت کی اور متعدد فن ایجاد کئے اور کھرے کھوٹے کو الگ کرنے میں جس قدر کاوشیں کی ہیں آج جب میں دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں بلکہ سچ کہوں تو اس قدر سلسلوں میں میرا سر بھی چکرا کر رہ جاتا ہے کہ ان اللہ کے بندوں نے اپنی عمریں کس قدر تعمیری سلسلوں میں صرف کر دیں اللہ رب العزت انھیں یقینا اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ کہ انھوں کذابوں اور یہودیوں و نصرانیوں کی روحانی پیروؤں کے منہ پر ایسے طمانچے مارے ہیں کہ آج بھی جب کبھی ان کا ذکر کیا جائے تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں ۔
مگر باوجود اس تمام تر محنت کے وہ بھی انسان تھے اور بھول چوک خطا و غلطی جذبات محبت و نفرت ان کے ساتھ تھی ۔ اسلئے ان کی اس محنت کو حرف آخر نہ تو تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے وہ تمام روایات وحی کا درجہ پا سکتی ہیں ۔ بلکہ ان کے ایجاد کردہ یہ فن طے کردہ یہ سارے اصول جن کے بانیوں میں سے میری ماں سیدہ عائشہ صدیقہ بھی ہیں بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ سلسلہ بخاری و مسلم یا دیگر آئمہ کے بعد رک نہیں گیا بلکہ آج بھی ہم انھیں اصولوں کو یا اس کے علاوہ بھی ہم کچھ طے کر سکیں تو ان کو بھی بروئے کار لا کر مزید چھان پھٹک کر سکتے ہیں ۔ خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ کسی ایک راوی کو کچھ محدثین سچا اور کچھ جھوٹا کہیں تو یہ بات اور بھی تقویت پاتی ہے کہ ہمیں اس جمود کا شکار ہونے کی بجائے اس سلسلے میں مزید کام کرنا چاہیے تاکہ ہم مخالفین کے منہ بند کس سکیں ۔ مگر افسوس کہ ہمارے احباب صحہ ستہ کا نام سنتے ہی اسے آیات کا درجہ دینا شروع کر دیتے ہیں اور غالبا یہ جرات امام اوزاعی نے کی تھی کہ حدیثوں کو قران پر حاکم قرار دے دیا ۔ اب اس قدر ظن کو قران جو ایک قطعی اور حتمی شئے ہے کہ کیسے مقابل قررار دیا جا سکتا ہے ۔
اور محدثین کی یہ تمام کوششیں اور امام بخاری کی لاکھوں حدیثوں میں سے چند ہزار کا انتخاب بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس زمانے میں اقوال رسول کے نام پر کیا کیا بدمعاشیاں کی گئیں ۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کے بعد بھی یہ جاری نہ رہی ہوں یا محدثین نے کہیں غلطی نہ کھائی ہو۔ علاوہ ازیں امام اعظم ابو حنیفہ نے بھی اپنے علم کو کتابوں میں نہیں سمیٹا اور فقہ میں جس طرح اجتہاد کے وہ قائل تھے اور ان کے معاملوں میں وقت کی نزاکت اور روایات کا رد جس طرح نظر آتا ہے وہ بھی اپنے اندر نہ صرف سبق رکھتا ہے بلکہ بہت سی راہیں متعین کرتا ہے ۔ اور پھر امام موصوف نے اپنی زندگی میں اپنا فقہ مدون نہیں کیا یہ بعد میں ان کے شاگردوں امام یوسف اور امام محمد کا کام ہے تو میں تو سمجھتا ہوں کہ امام اعظم کی یہ ساری کاوش اسلئے رہی ہو گی تاکہ لوگ ان کے فقہی مسائل کو حرف آخر نہ جان لیں ۔
مگر بعد کے حضرات نے اسے بطور سرمایہ یا بطور مقابلہ محفوظ کیا جس سے اٹھ کر بات کرنا ہم آج آئمہ کی توہین یا اسلام کا انکار سمجھنے لگے ہیں ۔
بھائی طالوت !
معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اقتباس کردہ سارا مواد ۔۔۔ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ تقریباً وہی ہے جو ایک زمانے سے ایک مخصوص مکتبِ فکر پیش کرتا آیا ہے جس میں جو جو اہم نام شامل ہیں ان کا ذکر ایک مقالے میں
یہاں پیش ہوا تھا ، البتہ فہرست میں حبیب الرحمٰن کاندھلوی کا نام چھوٹ گیا ہے۔
بھائی ، مجھے ان نظریات سے اختلاف ہے جن سے آپ اتفاق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے کج بحثی شروع کر دوں یا اپنے موقف کی برتری آپ سے قبول کروانے کے لئے لٹھ لے کر پیچھے پڑوں۔
دراصل یہ اس قدر وسیع موضوع ہے کہ ایک طویل عرصہ سے مباحث جاری ہیں۔
وقت کی اور فرصت کی کمی ہے ورنہ میرا تو ارادہ رہا ہے کہ اس موضوع پر جتنے مباحث اب تک ہوئے ہیں بلاگ کی شکل میں کسی ایک جگہ انہیں جمع کر دوں کہ اکثر اوقات ایک ہی بات بار بار دہرانی پڑتی ہے۔
کسی موضوع سے متعلق دیانت داری یوں ہوتی ہے کہ دونوں طرف کے نقطہ ہائے نظر کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔ میں طلوع اسلام کے لٹریچر سے لے کر آج کے غامدی صاحب کے مضامین بھی پڑھتا ہوں اور پھر ان کے مخالفین کا ردّ بھی۔ یوں کچھ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اگر آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں تو پھر کچھ کتابوں کے نام دینا چاہوں گا ، انہیں پڑھئے گا۔