محترم ظفری بھائی ، آپ نے اپنے مراسلے کی شروعات ہی ان الفاظ سے کی تھی :عورت کی گواہی کے حوالے سے آپ پورا قرآن پڑھ جایئے ۔ پورے حدیث کے ذخیرے کو دیکھ لیجیئے ۔ گواہی کے معاملے میں کہیں بھی کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ اس کو قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ جس بات کو اللہ نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا ۔ جس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی گفتگو نہیں فرمائی ۔
آیت کا سیاق و سباق اور انداز بیاں ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ اس سے ایسا کوئی تصور اخذ کیا جائے جس سے عورت، مرد کے مقابلے میں کسی بھی پہلو سے کم تر قرار پائے۔
میرے بھائی ! یہ تصور ہی کون مسلمان کرتا ہے کہ شریعت میں دی گئی اس وضاحتآیت کا سیاق و سباق اور انداز بیاں ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ اس سے ایسا کوئی تصور اخذ کیا جائے جس سے عورت، مرد کے مقابلے میں کسی بھی پہلو سے کم تر قرار پائے۔
السلام علیکم ظفری بھائی سب سے پہلے تو آپ کو یہاں دوبارہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی میری طرفسے آپکو محفل میں دوبارہ آمد بہت بہت مبارک ہو ۔ ۔ ۔اب چلتے ہیں اصل قضیہ کی طرف ۔ ۔ ۔عورت کی گواہی سے متعلق یہ بحث جس نہج پر جاری ہے اس سے تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سن لیتے ہیں ، پڑھ لیتے ہیں مگر مطالعہ نہیں کرتے ۔ اور پھر ہم کوئی بھی بحث ازخود نتیجے یا پھر اپنے مکتبِ فکر کے کسی عالم کے فرمان کے تناظر میں کرتے ہیں ۔پھر اس فرمان کو حتمی درجہ یا حتمی حکم قرار دیدتے ہیں ۔ اور اس پر کسی بھی قیمت پر کوئی دلائل ، استدلال اور ثبوت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی اس پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ یہ عمومی رویہ بن چکا ہے ۔ جس کی شکایت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ خیر ۔۔۔۔
بالکل یہی بات میرے بھائی ہم بھی یہی عرض کرنا چاہتے تھے کہ جب کسی معاملے میں اللہ ا ور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ آجائے تو اس پر راضی برضا ہوجانا عین ایمان ہے نہ کہ ایک واضح حکم کی طرح طرح کی تاویلات کرنا ۔ ۔ ۔جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک واضع حکم قرآن و سنت اور حدیث میں موجود ہے تو اس پر سرخم تسلیم کرنا ایک مسلمان کا فرض بن جاتا ہے ۔اور اللہ کے حکم کے بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی فرمان پر عمل کرنا بھی عین ایمان کا حصہ ہے
معاف کرنا بھائی آپ کی یہ بات خود محتاج دلیل ہے کیونکہ اسلام نے گواہ کے لیے جس قدر پابندیاں عائد کی ہیں اتنی شاید ہی کسی اور قانون میں پائی جاتی ہوں مثال کے طور پر حدزنا کے باب میں چار گواہوں کا ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے جیسا کہ سورۃ النسآء کی آیت نمبر 15 میں فرمایا گیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان پر اپنے لوگوں میں سے چار مردوں کی گواہی طلب کرو، ۔ ۔ ۔ ۔اب یہاں پر اسلامی قانون کے مطابق حد زنا کو جاری کرنے کے لیے گواہی کے باب میں ایک مخصوص تعداد کو بیان کیا گیا ہے یعنی چار گواہوں کی گواہی کو لازمی ٹھرایا گیا لہزا اگر تین گواہ ہوں تو پھر بھی حد جاری نہیں کی جاسکتی ۔ ۔ اسکے علاوہ اسلام نے ایک گواہ پر متعدد زمے داریاں عائد کی ہیں مثلا اسلامی شریعت کی رو سے ایک گواہ کا گواہی کے لیے پیش ہونا گویا ایک دینی فریضہ انجام دینا ہے۔ چنانچہ سچی گواہی کو فرض کفایہ شمار کیا گیا ہے۔ اور گواہی کے چھپانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے لہٰذا گواہی کو چھپانا یا گواہی سے انکار کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ”جب گواہی کے لیے بلایا جائے تو حاضری سے انکار نہ کرو۔“ (البقرہ۔ آیت 282)عورت کی گواہی کے حوالے سے آپ پورا قرآن پڑھ جایئے ۔ پورے حدیث کے ذخیرے کو دیکھ لیجیئے ۔ گواہی کے معاملے میں کہیں بھی کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ اس کو قاضی کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔
آپ نے بالکل بجا فرمایا ظفری بھائی کہ جو بات براہ راست قرآن میں کسی کو نہ ملے تو پھر سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اگر وہاں سے بھی براہ راست نہ ملے تو پھر مجتھدین کو اجتہاد کا حق ہے اور وہ بھی تمسک قرآن والسنہ کرتے ہوئے لہزا اس ضمن میں جو آیت زیر بحث ہے اس میں تعدد گواہ بھی موجود ہے اورخالص اس معاملے میں مرد و عورت کی جنسی اور فطری خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین کے باب میں أَن تَضِلَّ إحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى کی علت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ پاک نے خواتین کی گواہی کو تعین عدد کے معاملے میں مخصوص فرمایا ہے ۔ ۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے کہ جس میں ہمیں قرآن و سنت سے براہ راست کوئی حکم نہ ملتا ہو ۔ ۔ ۔جس بات کو اللہ نے قرآن مجید میں نہیں فرمایا ۔ جس پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی گفتگو نہیں فرمائی ۔ تواس کے بعد فقہا کی بات رہ جاتی ہے ۔ جس پر آپ اور میں گفتگو کرسکتے ہیں ۔ صرف اللہ اور ا سکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے ۔ جس پر ہمیں سرِ خم تسلیم کرنا ہے ۔
ظفری بھائی اس ساری بحث میں اگر آُپ نے ہماری معروضات کا بغور مطالعہ کیا ہوتا تو آپ کو مزید یہ تاویلات کرنے کی ضرور ہی پیش نہ آتی یاد رہے کہ سورہ بقرہ کی اس آیت میں ہمارا صاحب مضمون سے فقط اختلاف ہی عقلی تاویلات کی بنیاد پر تھا اسی لیے ہم نے اپنے دلائل میں کسی بھی معتبر تفسیر کے حوالہ کی بجائے فقط عقلی دلائل و اعتراضات نقل کیے ۔ ۔ ۔سورہ بقرہ کی جس آیت کو منبع بناکر عورت کی گواہی سے متعلق جو ساری بات کہی جاتی ہے ۔ اس کا تعلق نہ تو واقعاتی گواہی سے ہے اور نہ ہی اس کا عدالتی گواہی سے کوئی تعلق بنتا ہے ۔ بلکہ اس آیت میں جو بات کہی گئی اس میں واضع ہے کہ ہم جب کوئی معاملہ کرنے لگے تو ہمیں گواہ " بنانے " ہیں ۔اصل میں یہ وہ صورتحال ہے جس کا سورہ بقرہ کی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے ۔ وہاں نہ تو کسی قسم کی جرائم کی گواہی کا ذکر موجود ہے اور نہ ہی واقعاتی گواہی زیرِ بحث ہے ۔ اگر وہاں یہ مسئلہ زیرِ بحث آتا ہے کہ تمہارے سامنے کوئی مسئلہ ، جھگڑا پیش آگیا ہے تو تمہیں کیسے گواہ "طلب " کرنے ہیں ۔ اگر یہ صورتحال ہوتی تو قرآن کی آیت اس طرح شروع نہیں ہوتی کہ " تم جب لین دین کا کوئی معاملہ کرنے لگو تو اس طرح کے گواہ " بناؤ " ۔ بلکہ وہ یوں شروع ہوتی کہ "تم جب لین دین کا کوئی معاملہ کرنے لگو تو اس طرح کے گواہ " طلب " کرو ۔ "
۔قرآن مجید کے بارے میں بھی یہ بات جان لینا چاہیئے کہ وہ صرف عدالتی معاملات کو ہی بیان کرنے نہیں آیا بلکہ اس کا اصل مقصد ہمارے " نفوس " کا تزکیہ کرنا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن عدالتی قوانین بھی بیان کرتا ہے مگر یہاں اس کا یہ موضوع نہیں ہے ۔ اس آیت میں وہ یہ ہدایت دے رہا ہے کہ ہم کو جھگڑوں اور نزعات سے بچنے کے لیئے کیا اقدامات کرنے چاہئیں ۔ اس میں سب سے پہلی یہ بات کہی ہے کہ جب آپس میں کوئی لین دین کا معاملہ کرو تو اسکو لکھ لو ، اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ جب تم گواہ بنارہے ہو ، تمہارے پاس اختیار موجود ہے ۔ کوئی مشکل پیش نہیں ہے تو مردوں کو گواہ بناؤ ۔ یہاں انتخاب ہمارے پاس ہے ۔ کیونکہ گھر کی چہار دیواری میں رہنے والی عورت کو گواہ بناکر عدالت میں پیش کرنا کیا معنی رکھتا ہے ۔ پھر قرآن نے ہدایت فرمائی کہ اگر دو مرد گواہ دستیاب نہیں ہیں اور کسی عورت کو ہی گواہ بنانا پڑ رہا ہے تو اس عورت کیساتھ ایک عورت اور ہونا چاہیئے جو اس کی تقویت کا باعث بنے کہ جب یہ عورت گھر کی چہار دیواری سے نکل کر عدالتی مجمع کے سامنے کھڑی ہو تو کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکا ر نہ ہو ۔ اور لین دین کے جو معاملہ تصفیے کے لیئے پیش ہوا ہے وہ کہیں کسی جھگڑے کا شکار نہ ہوجائے
میرے بھائی یہاں آپکا پوری آیت نقل کرنا بھی ہمارے مدعا کے ہرگز مخالف نہیں جبکہ آپ خود بھی ہمارا مدعا اوپر اپنے ان الفاظ کے ساتھ تسلیم فرماچکے ہیں کہ ۔ ۔آبی ٹوکول سے گذارش ہے کہ آدھی سورہ یا کسی آیت کو کوٹ کرنے کے بجائے وہ پوری سورہ کو کوٹ کریں تاکہ اس آیت کا سیاق و سباق واضع طور پر سامنے آسکے ۔
مثال کے طور پر
اگر دو مرد گواہ دستیاب نہیں ہیں اور کسی عورت کو ہی گواہ بنانا پڑ رہا ہے تو اس عورت کیساتھ ایک عورت اور ہونا چاہیئے جو اس کی تقویت کا باعث بنے کہ جب یہ عورت گھر کی چہار دیواری سے نکل کر عدالتی مجمع کے سامنے کھڑی ہو تو کسی قسم کی ہچکچاہٹ کا شکا ر نہ ہو
۔اس طرح اصل سیاق و سباق پس منظر میں چلا گیا ہے اور آبی ٹوکول کے کوٹ والے ترجمہ کی شروعات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ' اس آیت میں اللہ نے ہر معاملے میں عورت کی گواہی کو دو عورتوں سے مشروط کردیا ہے
شکریہ باذوق ، میں یہ تو نہیں کہتا کہ میں نے تمام کتب پڑھ لی ہیں ۔ البتہ سلفی حضرات میں سے ایک آدھ کتاب پڑھی تھی مگر افسوس کے اعتراضات کے جواب بات بڑے سطحی انداز میں دئیے گئے تھے ۔ اگر آپ چند ایک مستندترین کتب فراہم کر سکیں تو میں ضرور پڑھوں گا۔بھائی طالوت !
معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ اقتباس کردہ سارا مواد ۔۔۔ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ تقریباً وہی ہے جو ایک زمانے سے ایک مخصوص مکتبِ فکر پیش کرتا آیا ہے جس میں جو جو اہم نام شامل ہیں ان کا ذکر ایک مقالے میں یہاں پیش ہوا تھا ، البتہ فہرست میں حبیب الرحمٰن کاندھلوی کا نام چھوٹ گیا ہے۔
بھائی ، مجھے ان نظریات سے اختلاف ہے جن سے آپ اتفاق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ سے کج بحثی شروع کر دوں یا اپنے موقف کی برتری آپ سے قبول کروانے کے لئے لٹھ لے کر پیچھے پڑوں۔
دراصل یہ اس قدر وسیع موضوع ہے کہ ایک طویل عرصہ سے مباحث جاری ہیں۔
وقت کی اور فرصت کی کمی ہے ورنہ میرا تو ارادہ رہا ہے کہ اس موضوع پر جتنے مباحث اب تک ہوئے ہیں بلاگ کی شکل میں کسی ایک جگہ انہیں جمع کر دوں کہ اکثر اوقات ایک ہی بات بار بار دہرانی پڑتی ہے۔
کسی موضوع سے متعلق دیانت داری یوں ہوتی ہے کہ دونوں طرف کے نقطہ ہائے نظر کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے۔ میں طلوع اسلام کے لٹریچر سے لے کر آج کے غامدی صاحب کے مضامین بھی پڑھتا ہوں اور پھر ان کے مخالفین کا ردّ بھی۔ یوں کچھ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اگر آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں تو پھر کچھ کتابوں کے نام دینا چاہوں گا ، انہیں پڑھئے گا۔
واہ واہ باذوق بھائی میرے دل اور منہ کی باتیں چھین لیں یقینا میں یہ سب باتیں اتنے اچھے پیرائے دل نشیں انداز اور مستحسن طریقے سے نہیں کرسکتا تھا جزاک اللہ بھائیاب آئیے کچھ امیر عبدالباسط صاحب کے اس جملے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے :
میرے بھائی ! یہ تصور ہی کون مسلمان کرتا ہے کہ شریعت میں دی گئی اس وضاحت
[arabic]شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل[/arabic] (بخاری و مسلم)
سے مرد کے مقابلے میں عورت کی کمتری ظاہر ہوتی ہے؟؟ یا عورت کسی پہلو سے کمتر قرار پاتی ہے؟؟
جبکہ اسی عورت کے لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کا بیان ہے:
ماں کے قدموں تلے جنت ہے (سنن نسائی ، الصحیحہ للالبانی)
اور ماں ہی کی فضیلت کے اظہار کے لئے مسلسل تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "تیری ماں" ، "تیری ماں" ، "تیری ماں" کے الفاظ ادا کئے ، پھر بعد میں "باپ" کا تذکرہ کیا۔
کیا یہ مرد پر عورت کی فضیلت کی نشانی نہیں؟؟
بات دراصل صرف اتنی ہے کہ ہمارے مغرب زدہ اذہان اس اندھے فلسفے سے مرعوب ہیں جو عورت کو بازار میں مرد کے شانہ بشانہ ٹھہرا کر ایک تو فطرت کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور دوسرے اپنا فلسفہ زبردستی ہمارے سر تھوپنا چاہتا ہے۔ورنہ ذرا سا اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت پر غور کر لیا جائے تو نصف گواہی والے اس معاملے میں بھی عورت کے لئے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی آسانی صاف نظر آتی ہے۔
کیا گواہی دینا "حق" ہے یا "فریضہ / ذمہ داری" ہے؟؟
ظاہر سی بات ہے کہ گواہی دینا ایک فریضہ اور ذمہ داری ہے۔ اور یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق طے شدہ ہے۔ اصول و ضوابط شریعت میں واضح کئے جا چکے ہیں کہ کہاں کہاں کمی ہوگی کہاں زیادتی۔
جیسا کہ رویت ھلال کے لئے ایک عادل و صادق مسلمان مرد کی گواہی بھی کافی ہے اور زنا کی شہادت کے لئے چار مسلمان مردوں کی گواہی لازم ہوگی اور عورتوں کے بعض مخصوص معاملات میں صرف اکیلی عورت کی گواہی کافی ہوگی۔
لہٰذا اگر بعض افراد کی گواہی عدالت میں قبول نہیں کی جاتی یا کم قبول کی جاتی ہے تو گویا یہ ان کی ذمہ داری اور فریضہ کا آسان ہونا ہے نہ کہ ان کے حقوق کو ضائع کرنا ۔
اور بالکل اسی طرح اگر اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کسی معاملے میں دو عورتوں کی گواہی کو مقرر کر دیا ہے تو وہ اللہ کی پوشیدہ حکمت اور عورت کی فطرتِ سلیمہ کے عین مطابق ہے۔ اس اصول کے حوالے سے عورتوں کی پستی یا مرد کے مقابلے میں ان کی کمتری کو ہرگز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
ورنہ ۔۔۔۔۔۔
یہ بالکل ویسے ہی بات ہوگی جیسے کہ سب کو معلوم ہے کہ انسان ، پرندوں کی طرح اُڑ نہیں سکتا
اب اگر کوئی صاحب اُٹھ کر کہہ دیں کہ چونکہ انسان اُڑ نہیں سکتا لہذا پرندوں کے مقابلے میں انسان کمتر ہے !!
تو سوچئے کہ ایسے فلسفے کو ہمارے آج کے دانشور کس نظر سے ملاحظہ فرمائیں گے ؟؟
آخر میں ۔۔۔۔۔۔
میں اس غیردرست فکر کا ازالہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو کہ میرے بعض مباحث کے حوالے سے عموماً غلط نقطہ نظر سے دیکھا / سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
* یہ جو میری تربیت و شخصیت و مقام کی بات ہے ، اس کے پیچھے اس عورت کا ہاتھ ہے جس کی اولاد ہونے کا مجھے شرف حاصل ہے
* حصول رزق کی خاطر دورِ طالب علمی کی میری جو جستجو تھی اس کی کامیابیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لئے راتوں راتوں میں ان عورتوں کی محنت و شفقت شامل ہے جن کے بھائی ہونے کا شرف مجھے حاصل ہے
* عائلی ، اجتماعی و معاشرتی زندگی مناسب ڈھنگ اور اعتدال ، عدل و انصاف سے گزارنے کی تربیت و حوصلہ دلانے کی جو انتہائی اہم ذمہ داری ایک عورت میرے لئے نبھاتی ہے ، اس کا شوہر ہونے کا فخر مجھے حاصل ہے
* مسائل جہانبانی و ملازمت سے تھک کر گھر لوٹنے پر دل کا سرور اور نظر کا سکون جو عورت ذات مہیا کرتی ہے ان پیاری اور معصوم سی بیٹیوں کے باپ ہونے کا خوشگوار احساس مجھے حاصل ہے !!
حضرت رابعہ بصریہ نے فرمایا تھا ۔۔۔
کسی عورت کو آج تک نبی نہیں بنایا گیا۔ بےشک یہ اللہ کا نظام ہے۔ لیکن ۔۔۔۔ انبیاء کو کس نے جنم دیا؟
عورت نے !!
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیرباپ کے پیدا ہوئے ، لیکن بغیر ماں کے آج تک کوئی پیدا نہیں ہوا !!
اے عورت !!
کہ تُو ۔۔۔۔ جو ایک ماں ہے ، ایک بیٹی ہے ، ایک بہن ہے ، ایک بیوی ہے ۔۔۔
تجھے سلام ، ہزاروں سلام ۔۔۔۔ !!
کوئی پانچ سال قبل میں نے یہ تحریر اردوپیجز پر لگائی تھی :
اے عورت ۔۔۔ تجھے سلام !!
جسے یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
تصحیح کا شکریہ بھائی۔واہ واہ بازوق بھائی بہت عمدہ تحریر تھی بس ایک تصحیح ضروری تھی آپنے کہا
حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے پر بغیر ماں کہ کوئی پیدا نہیں ہوا شائد آپ حضرت آدم علیہ السلام کو بھول گئے
واہ واہ بازوق بھائی بہت عمدہ تحریر تھی بس ایک تصحیح ضروری تھی آپنے کہا
حضرت عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے پر بغیر ماں کہ کوئی پیدا نہیں ہوا شائد آپ حضرت آدم علیہ السلام کو بھول گئے
ہاں کچھ ایسی ہی بات ہے۔ کیونکہ جو حدیث میں نے سُنی تھی اسکے مطابق بھی اللہ جل شانہ ُ کو یہ پسند نہیں کہ اسکا بندہ اسکی طرح کی تخلیق کرنے کی کوشش کرے۔اور قیامت کے دن اس بت تراش یا مصور کو کہا جائے گا کہ وہ اپنی بنائی ہوئی اس تصویر یا بت میں روح ڈالے،جو وہ نہیںکر سکے گا۔ پھر وہی تصویر یا بت ہی اُسے عذاب کریگا ۔شاید اسی لئے مجسمہ سازوں کو لعن طعن کیا جاتا ہے کہ پروردگار نے اصل میں سب سے پہلے مجسمہ (پُتلا) بنایا تھا ۔ اس لئے اس کی اس صفت میں کوئی شریک نہیں ہو سکتا
وسلام
اسلام میں عورت کا احترام محض تذکرہ نہیں ہے بلکہ اسلام کی تبلیغ اور ریاست کے معاملات میں عورت کی عملی شمولیت نوع انسانی کے واضح سبق ہے۔ بڑی حیرت ہوتی ہے جب عورت کو جسے اسلام نے عزت اور احترام کی رفعتیں عطا فرمائیں بعض لوگ یا بعض طبقات مرد کے مقابلے میں نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی گواہی کو ہر مقام پر نصف قراد دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات اسلامی تعلیمات کی روح اور احکامات سے کسی بھی طرح مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ قرآن پاک میں کہیں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ ایک عورت کی گواہی آدھی سمجھی جائے گی۔ آپ قرآن کی ایک ایک آیت کو نہایت غور سے پڑھئے آپ کو اس ہدایت پر مبنی کوئی آیت پورے قرآن پاک میں کہیں بھی نہیں ملے گی۔
تو پھر عورت کی آدھی گواہی کی بات کہاں سے آئی ہے ؟
یہ ہے وہ آیت قرآنی جسے عورت کی گواہی کو نصف قرار دینے والے لوگ اپنے لئے بطور دلیل بیان کرتے ہیں۔
اور بنا لیا کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ان لوگوں میں جن پر تم راضی ہو ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنالو تاکہ اگر ایک کوئی بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے
قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق مالی معاملات میں دو عورتیں بطور گواہ جج کے سامنے پیش ہونگی ۔
اگر ایک عورت بات بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے گی۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ دوسری گواہ جج کے سامنے اپنی گواہی ریکارڈ کروائے گی بلکہ یہ واضح ہے کہ دوسری عورت پہلی عورت کو ہی مخاطب کرے گی اور اسے یاد دلائے گی کہ مالی معاملہ اس طرح نہیں اس طرح ہوا تھا۔ اس آیت کی رو سے حاصل ہونے والے حق کے تحت یاد دلائے جانے پر پہلی عورت جج کے سامنے اپنا ترمیم شدہ بیان دے گی۔ لیکن یہ ترمیم شدہ بیان پہلے بیان کے ترمیم کے تحت نہیں بلکہ اصل بیان کے طور پر ہی ریکارڈ ہوگا۔
دنیا کے کسی قانونی نظام میں یہ حق نہ مرد کو حاصل ہے نہ عورت کو کہ گواہی کے وقت اپنا بیان تبدیل کر سکے۔ لیکن اسلام نے مالی معاملات میں گواہی دیتے وقت عورت کو یہ بے مثال حق دیا ہے کہ اسے بھول چوک کی رعایت دی گئی ہے۔
اس ایک آیت کے علاوہ جو صرف مالی معاملات پر گواہی کے بارے میں چند شرائط بیان کرتی ہے دیگر کسی جگہ بھی گواہی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی گئی ہے ۔ سورہ النساء کی آیت ۱۳۵ میں ہے
اے ایمان والو، انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لئے سچی گواہی دو خواہ اس میں تمہارے والدین اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔یہاں گواہی کے لئے اہل ایمان کو کہا جارہا ہے۔ اہل ایمان میں مرد و عورت دونوں شامل نہیں ہیں ؟
سورہ مائدہ کی آیت ۱۰۶ میں گواہی کے لئے دو معتبر لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں یہ پابندی نہیں بتائی گئی کہ ایک معتبر مرد اور دو معتبر عورتیں ۔ اب یہ دو معتبر لوگ دو مرد یا ایک مرد اور ایک عورت یا دو عورتیں نہیں ہو سکتے ؟
یہ شرف ایک عورت کو ۔ ۔ ۔ ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حاصل ہوا کہ آپ نے سب سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی۔
دانیال ابیر حسن
اور جان لیجئے کہ عورتوں کی "آدھی" گواہی کا اصرار کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے لالچ، بے ایمانی ، دھونس اور دباؤ کا سد باب کرنے کے لئے ان پر دو عدد عورتوں کو نگراں بنایا۔
[ARABIC]شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل[/ARABIC]
حدیث کے الفاظ بالکل صاف صاف بیان کر رہے ہیں کہ : عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف ہے!
یہ حدیث صرف ایک کتابِ حدیث میں درج ہوتی تو پھر بھی کسی کے لئے "مطالعے کی کمی" کہا جا سکتا مگر مسئلہ یہی ہے کہ یہ حدیث صحیحین کے علاوہ درج ذیل 10 کتبِ احادیث میں درج ہے :
1۔ ابوداؤد ، باب الدليل على زيادة الاِيمان ونقصانه
2۔ ترمذی ، باب ما جاء في استكمال الايمان وزيادته ونقصانه
3۔ ابن ماجہ ، باب فتنة النساء
4۔ مسند احمد ، جلد:2
5۔ صحیح ابن خزیمہ ، باب اسقاط فرض الصلاة عن الحائض ايام حيضها
6۔ سنن دارمی ، باب الحائض تسمع السجدة فلا تسجد
7۔ سنن بیھقی کبری ، باب الحائض تفطر فى شهر رمضان كتاب الصوم
8۔ ابن حبان ، ذكر الزجر للنساء عن اكثار اللعن واكفار العشير
9۔ مستدرک الحاکم ، جلد:4
10۔ مجمع الزوائد ، باب الصدقة على الاقارب وصدقة المراة على زوجها
بالکل بے بنیاد ہے اور حدیث کی روشنی میں غلط ہے۔ اسی طرح آپ نے قرآنی آیات کے جو تشریح اپنی مرضی سے کی ہے، بالکل بے معنی لگ رہی ہے۔چونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عورت کی گواہی آدھی نہیں ہے
پیاری بہن، آپ کو اور دانیال ابیر حسن کو اس ہر جملے پر سلام اور ان آیات اور ان کی تفاسیر کو یہاں شئیر کرنے پر آپ دونوں کو اور آپ کا ساتھ دینے والوں کو ہر جملے پر سلام۔
دوستو ، احبابو اور ساتھیو،
قرآن نے مالی معاملات پر دو عورتوں کی گواہی جن لوگوں کے نزدیک "آدھی" رکھی ہے وہ آج بھی اس کو مانتے ہیں یہ وہ گروہ ہے جس کو ان کی مال کی لالچ ، اور عورتوں پر دھونس اور دباؤ کے لئے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہ ضروری تھا کہ لالچی ، بد خواہ، عیار اور عورتوں کو دھونس دے کر دبانے والے افراد پر دو عورتیں نگراں رکھی جائیںتاکہ اگر یہ ایک کو دبا لیں اور اس دباؤ کے خوف سے ایک خاتوں مجبوراً ---- میں بھول گئی ---- کے پردے میں چھپنے کی کوشش کرے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔ یہ نکتہ بھی آپ بھائی دانیال ابیر حسن تک پہنچا دیجئے۔
اور جان لیجئے کہ عورتوں کی "آدھی" گواہی کا اصرار کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کے لالچ، بے ایمانی ، دھونس اور دباؤ کا سد باب کرنے کے لئے ان پر دو عدد عورتوں کو نگراں بنایا۔
تعزیری گواہی کی ایک بہترین مثال :
24:4[arabic] وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ [/arabic]
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں پھر چار گواہ پیش نہ کر سکیں تو تم انہیں (سزائے قذف کے طور پر) اسّی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ بدکردار ہیں
بغور پڑھئیے۔ کہ اس تعزیری صورت میں یہاںچار گواہوں کی شرط ہے۔ یہاں دو مرد اور چار عورتوں کی شرط نہیں ہے۔ یا 3 مرد اور 2 عورتوں کا یا پھر ایک مرد اور 6 عورتوں کا یا 8 عورتوں کی شرط نہیں ۔
اس سے بھائی دانیال ابیر حسن کے نکات کو صد فی صد تقویت ملتی ہے کہ دو عورتوںکی شرط صرف اور صرف مالی معاملات کے لئے ہے۔ آپ کو میرا ایک آرٹیکل اسی فورم پر مل جائے گا جس میں میں نے بھی اس معاملے کی وضاحت کی ہے۔
تو پھر آپ کی شئیر کردہ آیت پر بھائی دانیال ابیر حسن کا غور و فکر کی مخالفت کرنے والوں نے یہ آیت کیوں نہیں پیش کی؟
اس کی وجہ ہے،
یہ لوگ ایک مخصوص طبقہ کے ذہن سے سوچتے ہیں اس طبقہ لے لئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ
[arabic]2:174 إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلاً أُولَ۔ئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَ يُكَلِّمُهُمُ اللّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [/arabic]
بیشک جو لوگ چُھپاتے ہیں اس کو جو نازل کیا ہے اللہ نے اپنی کتاب میں اور لیتے ہیں اس کے بدلے تھوڑا سا فائیدہ یہ لوگ نہیں بھرتے اپنے پیٹ میں مگر آگ اور نہیں بات کرے گا ان سے اللہ روزِ قیامت اور نہ پاک کرے گا ان کو اوران کے لیے ہے درناک عذاب۔
کیا آپ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہاں کچھ لوگوں نے قانون شہادت کی ایک اہم آیت کو مہینوں چھپا کر رکھا اور قرآن کی پہلی آیت کے درست ترجمہ کی مخالفت کرتے رہے۔ وہ لوگ اللہ تعالی کے اس فرمان میں اپنا مستقبل دیکھ سکتے ہیں۔
چونکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عورت کی گواہی آدھی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے نہایت نرم الفاظ میں --- مستقبل کے سودوں کے معاہدوں پر ---- بے ایمانوں کا سد باب دو عورتون کو نگراں بنا کر کیا ہے ۔ اس ثبوت کے بعد بھی یہ ظلم ہوگا کہ میں قانون شہادت پر مزید ایک آیات آپ سے شئیر نہ کروں تاکہ یہ معاملہ یقینی طور پر مظبوط ہوجائے۔
5:106 [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ [/arabic]
اے ایمان والو! گواہی (کا ضابطہ) تمہارے درمیان جب قریب آپہنچے تم میں سے کسی کی موت، بوقت وصیّت (اس طرح ہے کہ گواہ بنالو) دو صاحبِ عدل شخص اپنوں میں سے یا دو دوسرے تمہارے اغیار (غیر مُسلموں) میں سے اگر تم سفر میں ہو اور آپڑے تم پر مصیبت موت کی۔ تو روک لو اُن دونوں کو نماز کے بعد سو قسم کھائیں یہ دونوں اللہ کی، اگر تم کو شُبہ پڑے (ان پر) (اور کہیں کہ) نہیں حاصل کریں گے ہم گواہی کے بدلے مالی فائدہ اگرچہ ہو کوئی ہمارا قرابت دار اور ہم نہیں چھپائیں گے اللہ کی گواہی۔ اگر ایسا کریں تو بے شک ہم گنہگاروں میں سے ہوں گے ۔
پھر بغور پڑھئیے: دو عدد اشخاص ۔۔۔ کیا ان دو عدد اشخاص کو ایک مرد کی جگہ دو عدد عورتوں سے تبدیل کیا گیا ہے؟
مالیاتی معاملہ میں ملاء کا اجماع کس طور قابل اعتبار ہوسکتا ہے؟ ان آیات سے ظاہر ہے۔
اس موقع پر ، ان لوگوں سے جو جان بوجھ کر مہینوں اللہ تعالی کی آیات کو چھپاتے رہے اور عورت کی دیگر معاملات میں واحد گواہی سے انکار بھی کرتے رہے ، ان سے اللہ تعالی کے یہ فرمان شئیر کروں گا:
2:41 [arabic]وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَّإِيَّايَ فَاتَّقُونِ [/arabic]
اور ایمان لاؤ اس (کتاب) پر جو نازل کی ہے میں نے، جو تصدیق کررہی ہے ان (کتابوں) کی جو تمہارے پاس موجود ہیں اور نہ بنو تم ہی سب سے اوّل منکر اس کے اور مت بیچو میری آیات کو تھوڑی سی اجرت پر اور میرے غضب سے بچو۔
16:95 [arabic]وَلاَ تَشْتَرُواْ بِعَهْدِ اللّهِ ثَمَنًا قَلِيلاً إِنَّمَا عِندَ اللّهِ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [/arabic]
اور اللہ کے عہد حقیر سے اجر (یعنی معمولی دنیوی مال و دولت) کے عوض مت بیچ ڈالا کرو، بیشک جو (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم (اس راز کو) جانتے ہو
والسلام
میںجانتا ہوں کہ آپ احادیث کی کتب اور انکی تدوین کے خلاف بہت بولتے ہیں اور یوں محض اپنی مطلب کی تعلیمات کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔
تو پھر صاف لگتا ہے کہ آپ نے اس آیت کا مطلب اپنی مرضی سے ہی نکال لیا ہے اور حدیث کو بالکل پس پشت ڈال دیا ہے۔ آپ کا یہ فیصلہ
کا مطلب تو یہ بن رہا ہے کہ وہ تمام علماٗ جنہوں نے اس حدیث کو تحقیق کے ساتھ اپنی کتابوں میں نقل کیا دشمنانِ اسلام تھے؟آپ نے جو حدیث پیش کی، اس کے بارے میں آپ سے سوال:
آپ کے پاس کیا وجہ ہے کہ آپ کہہ سکیں کہ دشمناں اسلام نے یہ روایت رسول اکرم سے منسوب نہیں کی۔ جبکہ یہ مکمل طور پر قرآن کے مکمل قانون شہادت کے مخالف ہے۔ کیا قرآن کے بعد آئی ہوئی ان کتب پر من و عن ایمان رکھنا ہے ؟ یعنی ان کتب کا درجہ کیا - لا ریب فیہ --- کا ہے؟
اگر ان کتب پر من و عن ایمان نہیںرکھنا ہے تو پھر آپ کے پاس کیا دلیل ہے یا ثبوت ہے کہ رسول اکرم سے منسوب شدہ یہ روایت درست ہے؟
یہاں آپ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں
معاملہ: جب تم کسی مقررہ مدت تک کے لئے آپس میں قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو،
کتنے گواہ: پھر اگر دونوں مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں (یہ) ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرتے ہو
مقصد دو عورتوں کا: تاکہ ان دو میں سے ایک عورت بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو جب بھی (گواہی کے لئے) بلایا جائے وہ انکار نہ کریں،
دست بدست کی صورت میں : سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں،
ان میں ایک عورت کو کسی مخالفت یا جھگڑے کی صورت میں منصف بنانے کی ہدائیت موجود ہے گواہی کی نہیں، کیونکہ گواہ وہ ہوتا ہے جو کسی معاہدے یا واقعہ کے متعلق معلومات رکھتا ہے۔ جبکہ یہاں انصاف کروانے کی بات کی جارہی ہے۔سورۃ النسآء:4 , آیت:35 [arabic]وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا [/arabic]
اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے
سورۃ المآئدۃ:5 , آیت:106 [arabic]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلاَةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لاَ نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَى وَلاَ نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ [/arabic]
اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کی موت آئے تو وصیت کرتے وقت تمہارے درمیان گواہی (کے لئے) تم میں سے دو عادل شخص ہوں یا تمہارے غیروں میں سے (کوئی) دوسرے دو شخص ہوں اگر تم ملک میں سفر کر رہے ہو پھر (اسی حال میں) تمہیں موت کی مصیبت آپہنچے تو تم ان دونوں کو نماز کے بعد روک لو، اگر تمہیں (ان پر) شک گزرے تو وہ دونوں اللہ کی قَسمیں کھائیں کہ ہم اس کے عوض کوئی قیمت حاصل نہیں کریں گے خواہ کوئی (کتنا ہی) قرابت دار ہو اور نہ ہم اللہ کی (مقرر کردہ) گواہی کو چھپائیں گے (اگر چھپائیں تو) ہم اسی وقت گناہگاروں میں ہو جائیں گے
کیا یہاں دو مردوں اور چار عورتوںکی گواہی نظر آتی ہے؟ نہیں تو پھر قرآن حکیم پر غور فرمائیے۔
سورۃ المآئدۃ:5 , آیت:107 [arabic]فَإِنْ عُثِرَ عَلَى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يِقُومَانُ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِن شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ [/arabic]
پھر اگر اس (بات) کی اطلاع ہو جائے کہ وہ دونوں (صحیح گواہی چھپانے کے باعث) گناہ کے سزاوار ہو گئے ہیں تو ان کی جگہ دو اور (گواہ) ان لوگوں میں سے کھڑے ہو جائیں جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے (وہ میت کے زیادہ قرابت دار ہوں) پھر وہ اللہ کی قَسم کھائیں کہ بیشک ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے اور ہم (حق سے) تجاوز نہیں کر رہے، (اگر ایسا کریں تو) ہم اسی وقت ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔
جی ہاں، معانی تو آپ کی مرضی کے نہیں ہیں مگر اسکی تشریح آپ اپنی مرضی کی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس مراسلہ میں قرآنی آیات پر غور فرمائیے۔ یہ معانی میری مرضی کے نہیں ہیں۔
آپ نے لکھا :
آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں نے جو بھی معانی فراہم کئے ہیں وہ مستند مترجمین کے معانی ہیں نہ کہ میری پسند کے معانی۔ گویا آپ نے جھوٹا الزام تراشا۔
اگر آپ مجھے قسم کھا کر کہہ دیں کہ آپ کا ان کتب روایات پر ایمان ہے ---- یا پھر ---- آپ کے پاس 1200 سال قدیم کتب روایات کا اصلی نسخے ہیں بشرط کہ وہ رسول اکرم کی موجودگی میں لکھے گئے ہوں جس طرح قرآن حکیم لکھاگیا تھا۔ تو میں کتب روایات کے مستند ہونے کو ماننے کے لئے تیار ہوں۔ گویا یہ بھی آپ نے جھوٹا الزام تراشا۔
آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کے کلام کو آپ جھٹلا نہیں سکتے لہذا آپ معاملے پر توجہ نہیں دیتے بلکہ جس شخص نے آپ کی توجہ اس معاملہ پر دلائی ہے اس پر جھوٹے الزام تراشتے ہیں۔
میں بہت مشکو ر ہوں آپ کی طرف سے عزت و محبت کے اظہار پر، مگر محترم، اگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بے بنیاد طریقے اور محض اپنی ذاتی منطق کی بنیاد پر کوئی جھٹلائے گا، تو میں حرمت نبویؐ کی طرف رہوں گا اور اس شخص کی عزت کرنا میرے لئے مشکل ہوگا جو علمائے دین اور صحیح احادیث کو شمنانِ اسلام کی سازش قرار دیتا ہو۔کوشش کیجئے کہ آپ اللہ تعالی کی کتاب سے ان نکات میں سے کچھ بھی غلظ ثابت کرسکیں۔
آپ سے استدعا:
آپ دیکھئے کہ اس سارے مراسلہ میں میری توجہ اس حدیث ، اس کے متن اور اس کے مخالف فراہم کردہ قرآں حکیم کی آیات پر رہی ہیں ۔۔ آپ نے توجہ دلائی اس کا شکریہ۔ میری توجہ کا مرکز آپ نہیں ہیں۔ آپ سے اختلاف کسی طور بھی آپ کی عزت و محبت دل میں کم نہیں کرتا۔ آپ ان آیات پر توجہ فرمائیے اور ان کی روشنی میں ان روایات کو دیکھنے کی کوشش کیجئے۔ صحیح روایت قرآن کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ ل
ہذا آپ سے استدعا ہے کہ میرے پیش کردہ معاملات پر توجہ فرمائیے اور ان کے درست یا غلط ہونے پر خلوص سے معلومات فراہم کیجئے۔ یا پھر قرآن حکیم کی آیات پر ایمان لے آئیے
آپ خود فرما دیجئے کہ اگر کتب روایات کو ہم پس پشت ڈال دیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو قرآنی احکامات کو از خود کر کے دکھایا، بتایا یا کسی اور کے کرنے پر خاموش رہے، یا منع نہیں کیا، کہا سے پتا چلے گا۔ قرآن میں یہ سب کچھ نہیں اور نہ ہی آپ کبھی اپنی پوری زندگی میں ثابت کر سکتے ہیں۔ (القلم پر ایک پرانی بحث آج بھی موجود ہے )
سب سے پہلے تو میں آپ کی گفتگومیں شدت سے یہ بات محسوس کر رہا ہوں کہ آپ عورت کی "گواہی" اور عورت کے "مقام" کو ملا رہے ہیں، جبکہ یہ دونوں بالکل بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ عورت کے مقام کے بارے میں جو نظریات دین اسلام نے پیش کئے ہیں وہ کسی اور مذھب میں نہیں ملتے۔
آپ نے یہاں بھی ایک مبہم بات کی ہے کہ میں ---- اپنی بات ثابت نہیں - کرسک رہا ہوں۔آپ عورت کے مقام سے متعلقہ آیات کو عورت کی گواہی والے معاملے کے ساتھ لگا کر اپنی بات ثابت نہیں کرسک رہے۔
یہاں بھی آُ نے اپنے الفاظ ضائع کئے ہیں۔ عورت کا مرتبہ اور عزت میں قرآن سے ثابت کرچکا ہوں اور عورت کی گواہی کا پورا ہونا تمام معاملات میں ثابت ہے۔ صرف ایک کے بھول جانے پر دوسری یاد دلائے گی۔ اگر پہلی نہیں بھولی تو پھر دوسری کی کوئی ضرورت نہیں۔عورت کے مقام پر کسی کو کوئی شک و شبھات نہیں ہونے چاہئیں کہ دین اسلام میں عورت کو جو عزت و مرتبہ عطا کیا گیا ہے، وہ کسی اور مذھب میں نہیں ہے۔
دوسری اہم بات واضح کر دوں کہ قرآن میں عورت کی آدھی گواہی والا معاملہ صرف مالی معاملات اور لین دین کے معاملات سے متعلق ہے
اگر آپ قرآن کی آیات میں تحریف کرنے والی روایات کو رسول اکرم سے منسوب کرنے والوں کو دوست سمجھتے ہیں --- تو اس میں بندہ کچھ نہیںکرسکتا ---- آپ کو اپنے خیال رکھنے کا حق ہے۔آپ کے اس سوال:
کا مطلب تو یہ بن رہا ہے کہ وہ تمام علماٗ جنہوں نے اس حدیث کو تحقیق کے ساتھ اپنی کتابوں میں نقل کیا دشمنانِ اسلام تھے؟
تو یہ بتائیے کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہ حدیث دشمنان اسلام نے نبئی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کر دی؟ اور آپ کے خیال میں باقی تمام اتنی بڑی تعداد کے علماٗ شائید بے وقوف تھے جو اس حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں مدون کرتے چلے گئے؟
اگر ایک بات آپ کی سمجھ سے بالاتر ہو تو فوراً اسے دشمنان اسلام کی سازش قرار دینا انتہائی درجے کی بےوقوفی ہے۔ مگر خیرآپ تو حدیث کو مانتے ہیں نہیں تو تحقیق کس منہ سے کریں گے۔
غلطی کرے اور دوسری اس کو یاد کرادے، یہ اس آیت میں بالکل نہیں ہے۔ آپ جاگتے ہوئے خواب دیکھ رہے ہیں بھائی۔یہ حدیث تو کہیں سے بھی قرآن کی کسی آئیت کے خلاف نہیں ہے، جب کہ قرآن میں یہ بات واضح ہے کہ مالی معاملات اور لین دین کے معاملات میں جب گواہ کرنے لگو تو اگر ایک مرد نہ ملے تو دو عورتوں کو گواہ کر لو، کیوں، تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اُسے یاد کروا دے، یا اگر ایک غلطی کرے تو دوسری اسے صحیح کروا دے۔
جی مرد بھی بھول سکتا ہے اور عورت بھی بھول سکتی ہے۔ اسی طرح مرد بھی مر سکتا ہے اور عورت بھی مر سکتی ہے۔ یا پھر ان کا دماغ کا کچھ حصہ متاثر ہوسکتا ہے۔ اس نکتہ کی کسی بھی قانون مین اور قرآنی قانون میں کوئی اہمیت نہیں۔ اس لئے کے ---- مستقبل کے سودے کی دستاویز موجود ہے --- گواہوں کی عدم موجودگی میں جج اس بات کا تصفیہ کرتا ہے کہ معاہدے کے کن نکات پر آپس میں ڈسپیوٹ یعنی اختلاف ہے۔ اس کا فیصلہ پھر جج کرتا ہے۔ گواہان کی عدم موجودگی۔ یہ ایک بالکل مختلف صورتحال ہے ۔ یہاں صرف اس نکتہ کو اجاگر کیا گیا ہے کہ اگر ایک گواہ عورت جو بھولی نہیں ہے (جو کہ عموماً لالچ اور دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے) اس کو دوسری عورت یاد دلادے کہ ارے تم اس بات کی گواہ تھیں۔اب اپ میرے ایک سوال کا جواب دیں:
دو خواتین کی گواہی کی صورت میں اس چیز کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ ایک مرد گواہ بھول نہیں سکتا یا غلطی نہیں کرسکتا؟ کہ اگر وہ بھول گیا تو پھر اُسے کون یاد کروائے گایا اگر وہ غلطی کر گیا تو اُس کی تصحیح کون کروائے گا؟ ظاہر ہے اس صورت میں ان عورتوں میں سے ہی کوئی ایک یا دونوں اسکی تصحیح کروا سکیں گی نا؟ یہ بات شائیدقرآن نے زیر بحث نہیں کی یہاں۔
حالانکہ مالی معاملات میں قرآن میں (سورۃ البقرۃ:2 , آیت:282) ایسے معاملات کو لکھ لینے کا اور گواہ کر لینے کا حکم موجود ہے اور اگر معاملے کے اصول و ضوابط (شرائط وغیرہ) لکھی گئیں ہوں، تو پھر خواتین کے بھولنے سے شائید کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے تھا نا؟ مگر پھر بھی مرد نہ ملنے کی صورت میں دو خواتین کا حُکم؟ ایک کیوں نہیں؟بھول تو مرد بھی سکتا ہے؟
ایسا بالکل نہیں ہے۔ مستقبل کے سودے کے معاہدے کا لکھا جانا اور اس پر دو عدد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتیں تاکہ ایک دوسری کو یاد دلادے کہ وہ گواہ تھی۔۔۔ یہ لازم کیا گیا ہے۔ آپ اس آیت کو بغور پڑھئیے۔مگر جہاں دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو یا کسی اور وجہ سے لکھی نہ گئی ہو تو گواہ ہوتے ہیں تصدیق کرکے لئے۔اور تصدیق کے لئے دو عورتوں کی گواہی کا حُکم دیا گیا ۔
حکم یعنی منصف مقرر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس بات کے گواہ ہوں کے طلاق کی کاروائی جاری تھی۔ یہ دونوں گواہ مرد ہوں یا عورت، دونوں کی گواہی برابر ہے۔ یہ نکتہ ہے اس آیت کا۔باقی جو آیات آپ پیش کر رہے ہیں :
ان میں ایک عورت کو کسی مخالفت یا جھگڑے کی صورت میں منصف بنانے کی ہدائیت موجود ہے گواہی کی نہیں، کیونکہ گواہ وہ ہوتا ہے جو کسی معاہدے یا واقعہ کے متعلق معلومات رکھتا ہے۔ جبکہ یہاں انصاف کروانے کی بات کی جارہی ہے۔
موت اور طلاق کی وجہ سے ہونے ولا اختلاف ایک دیوانی معاملہ ہے۔ ان آیات کی مدد سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ جب تعزیراتی معاملہ نہ ہو بلکہ دیوانی معاملہ ہو تو پھر کتنے گواہ چاہئیے ہیں؟؟ اگر یہ گواہ مرد کی جگہ عورتیں ہوں تو کیا تعداد بدل جائے گی؟ نہیں ۔۔۔ گواہی سب کی برابر ہے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ عورت کی گواہی بھی مرد کی گواہی کے برابر ہے ، پھر آپ ایک غیرمستند کتاب کی مبہم روایت سے قرآن کو غلط ثابت کررہے ہیں؟آپ نے یہ جوآیات آپ نےپیش کی ہے:
میں اسکے بعد کی آئیت بھی یہاں لکھنا چاہوں گا:
سورۃ المآئدۃ:5 , آیت:108
ذَلِكَ أَدْنَى أَن يَأْتُواْ بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُواْ أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللّهَ وَاسْمَعُواْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
ترجمہ: یہ (طریقہ) اس بات سے قریب تر ہے کہ لوگ صحیح طور پر گواہی ادا کریں یا اس بات سے خوفزدہ ہوں کہ (غلط گواہی کی صورت میں) ان کی قَسموں کے بعد (وہی) قَسمیں (زیادہ قریبی ورثاء کی طرف) لوٹائی جائیں گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور (اس کے احکام کو غور سے) سنا کرو، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔
(ترجمہ: ڈاکٹر طاہرالقادری)
غور کریں تو یہ ایک مضمون ہے قرآن میں ان حالات میں جب موت کا وقت آپ پہنچےاور جب وصیت لکھوانے کاوقت نہ ہو، جیسے انسان نزع کی حالت چلا جاتا ہے۔ اور یہ حالت سفر میں بھی آسکتی ہے یا کہیں اور، بہرحال، اس ایمرجنسی کی صورت میں فوری طور وصیت لکھوانے کی بجائے "قَسم " کی بنیاد پر دو اشخاص کو گواہ بنا لیا جاتا ہے۔
اب اس معاملےکے حالات، لین دین اور مالی معاملات جن میں باقاعدہ دستاویز لکھ کر دو مرد یا ایک مرد اور دوخواتین کو گواہ کیا جارہا ہو، کے حالات سے کوئی تقابلہ نہیں ہے اسی لئے یہاں نہ تو دستاویز لکھنے کی قید لگائی گئی نہ ہی خواتین یا مرد حضرات کی گواہی والے معاملے کی، بس دو حضرات ہوں اور قسم کھا لیں۔ مگر یہ بات صرف ایمرجنسی(یعنی یہاں نزع یا موت کی حالت کے قریب پہنچ جانے کی حالت) تک محدود ہے۔
اس بات کے بے تکے ہونے کا احساس آپ کو بھی ہے شکر ہے۔ویسے تو میں یہاں یہ سوال بھی اُٹھا سکتا ہوں کہ اگر دو حضرات نہ ملیں تو قرآن کا کیا حُکم ہے۔مثلاً آپ صرف ایک دوست کے ساتھ سفر کر رہے ہیں اور موت کی حالت آجاتی ہے اور علاقہ بھی ایسا ہو کہ کوئی اور بندہ نہ ملے، پھر کیا کریں گے؟
مگر شائید یہ بحث کا رُخ بدل دے گا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے عورت کی آدھی گواہی اس سے متعلقہ اور کیسز میں ہے۔ اور صحیح حدیث کبھی قرآن سے ٹکراتی نہیں ہے ، تبھی اتنے بزرگان دین (جنہیں آپ دشمنان اسلام سے وابسطہ کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں)نے اسے اپنی کتب میں تحریر کیا ہے
قرآن حکیم سے مختلف معاملات میں شہادت یعنی گواہی کے اصول فراہم کئے ہیں ۔ جو کہ ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آتے ہیں۔ میرا اپنا بیان صرف توجہ دلانے تک محدود ہے۔ صرف اس پر جس پر میرا اور آپ کا مشترکہ ایمان ہے۔جی ہاں، معانی تو آپ کی مرضی کے نہیں ہیں مگر اسکی تشریح آپ اپنی مرضی کی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اور جیسا کہ میں نے اوپر بیان بھی کیا ہے کہ ایک قسم کے حالات کو دوسری قسم کے حالات کے احکام کے ساتھ ملا کر صرف اپنے مطلب کی بات کی جا رہی ہے جب کہ قرآن و حدیث میں احکام، حالات اور اصول و ضوابط بہت واضح ہیں۔
رق ریزی جن لوگوں نے کی وہ اپنے لئے کی۔ میں صف اس پر ایمان رکھتا ہوں جس پر ایمان رکھنے کا حکم اللہ تعالی اور اس کے نبی اکرم نے دیا ہے۔ ان کتب روایات پر میرا ایمان نہیں اور ان کے درست ہونے کی کوئی دلیل اور ثبوت میرے پاس نہیں ہے ماسوائے قرآن حکیم کے۔ جو کچھ قرآن حکیم کے اصولوں پر پورا اترتا ہے وہ مجھے کسی بھی روایت میں قابل قبول ہے۔یہ ۱۲۰۰ سال قدیم روایات والی بات کر کے تو آپ ایک طرح سے بہت سی احادیث کو جھٹلا رہے ہیں جنہیں بڑے بڑے محدثین اکرام نے دن رات کے عرق ریزی کے بعد جمع کیا، تحقیق کی اور کتابی شکل دی۔ اور اگر کتب روایات غلط ہیں تو بہت سے دینی معاملات ایسے ہیں جن کے طریقہء کار قرآن میں موجود نہیں ہیں، بلکہ نبی کریم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے وہ طریقے ملتے ہیں۔ اور یوں آپ ایک اور پرانی بحث کو شروع کر دیں گے۔
میری بے بنیاد منطق کی بنیاد جن اھادیث نبوی پر ہے وہ احادیث آپ کی نذر اگلے مراسلے میں کررہا ہوں۔ دیکھتا ہوں کہ آپ خود کتنی احادیث کو قبول کرتے ہیں؟رہ گئی بات قسم کھانے کی تو بھائی میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ، نبوت پر ایمان رکھتا ہوں چاہے کتب روایات سے اسکا پتہ چلے ۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے کہ علماء کرام کی تحقیق انہیں کسی بھی روایت کے صحیح ہونے یا ضعیف ہونے یا غلط ہونے کی بحث میں الجھا دیتی ہے۔
مگر آپ کی بے بنیاد منطق جسے کے مطابق کتب روایات غلط لگ رہی ہیں اور اس سے پہلے دشمنان اسلام والی بات تو سراسر غلط ہے۔
آپ خود فرما دیجئے کہ اگر کتب روایات کو ہم پس پشت ڈال دیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو قرآنی احکامات کو از خود کر کے دکھایا، بتایا یا کسی اور کے کرنے پر خاموش رہے، یا منع نہیں کیا، کہا سے پتا چلے گا۔ قرآن میں یہ سب کچھ نہیں اور نہ ہی آپ کبھی اپنی پوری زندگی میں ثابت کر سکتے ہیں۔ (القلم پر ایک پرانی بحث آج بھی موجود ہے )
میں نے تو کوئی تشریح ہی نہیں کی، صرف اور صرف معانی پیش کئے ہیں۔اللہ تعالٰی کی کتاب میں کچھ بھی غلط نہیں ہے، مگر آپ کی تشریحات اور سمجھ میں معاملات غلط ہو گئے ہیں۔ ( اور میرے بھی غلط ہو سکتے ہیں)۔
علمائے دین اپنی عاقبت کے کود ذمہ دار ہیں اور میں اپنی عاقبت کا خود ذمہ دار ہوں۔ لیکن آپ علماء دین کے پردے مین کبھی بھی اللہ تعالی کو قائیل نہیں کرسکیں گے کہ یہ تو اس کتاب میں لکھا تھا جو کہ ایک غیر مستند کتاب تھی، جس کی درستگی کی کوئی دلیل آپ کے پاس نہیں تھی اور جس پر ایمان کا حکم کسی نے بھی نہیں دیا تھا۔میں بہت مشکو ر ہوں آپ کی طرف سے عزت و محبت کے اظہار پر، مگر محترم، اگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بے بنیاد طریقے اور محض اپنی ذاتی منطق کی بنیاد پر کوئی جھٹلائے گا، تو میں حرمت نبوی کی طرف رہوں گا اور اس شخص کی عزت کرنا میرے لئے مشکل ہوگا جو علمائے دین اور صحیح احادیث کو شمنانِ اسلام کی سازش قرار دیتا ہو۔