عورت

نیلم

محفلین
حوا کی بیٹی اس دنیا میں سب سے بڑا اور حسین انعام ہے ، اسلئے ہر کوئی چاہتا ہے کہ یہ انعام اس کومل جائے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ مرد دنیا میں سب سے زیادہ عورت سے متاثر ہوا ۔ اس سے زیادہ اسے کوئی جنگ بھی متاثر نہ کرسکی ۔۔

ویسے حوا کی بیٹی نے مرد کو بڑے بڑے مسائل سے بچایا ہے ۔

وہ اس کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں اتنا مصروف رکھتی ہے کہ اس کے پاس وقت ہی نہیں رہتا کہ وہ بڑے بڑے مسئلوں کے بارے سوچ کر پریشان ہو ۔

مختلف علاقوں میں لوگ حوا کی بیٹی کے بارے مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ افریقی کہتے ہیں کہ دس عورتوں میں ایک روح ہوتی ہے ۔

انگلستان میں کہاوت ہے کہ عورت تیرا نام کمزوری ہے ، جبکہ ایرانی ، عورت کا دوسرا نام بیوفائی بتاتے ہیں ۔

حوا کی بیٹی غزل کا شعر ہے اور مرد نثر پارہ ۔

نثر پارہ ویسا ہی رہتا ہے جیسا ہوتا ہے ، مگر شعر کا مطلب ویسا ہوجاتا ہے ، جیسا پڑھنے والا چاہے ۔

حوا کی بیٹی ہر کسی پہ اعتبار کر لیتی ہے ، اسلئے ناقابل اعتبار ہے ۔

کہتے ہیں کہ جذبات مرد کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور عورت جذبات کے ہاتھ میں ۔

عورت اکثر جذباتی ہوکر زندگی کے فیصلے کرلیتی ہے اور پھر ساری عمر انھیں عقل سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے ۔

حسن ظن سے زیادہ حسن زن سے کام لیتی ہے ۔

اس کو وہی پسند ہے جو کہ اللہ پاک کو پسند ہے اور اللہ پاک کو اپنی تعریف سننا پسند ہے ۔

یوں بھی مرد کا عورت کی تعریف کرنا دراصل اپنی ہی پیدائش کا حق بجانب قرار دینا ہے ، ورنہ اس نے دل سے اسے آج تک بیوی ، باندی اور بیوہ کے سوا مقام نہیں دیا ، لیکن اللہ نے حوا کی بیٹی کو وہ رتبہ دیا ہے کہ اگر اللہ پاک کو زمیں پر کسی روپ میں آنا پڑے تو وہ یقیناً کسی مرد کی بجائے ماں کا روپ ہوگا ۔

شناخت پریڈ ، از ؛ ڈاکٹر یونس بٹ
 

نگار ف

محفلین
بِسْمِ اللَّ۔هِ الرَّحْمَ۔ٰنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ وَاتَّقُوا اللَّ۔هَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ ۚ إِنَّ اللَّ۔هَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴿سورة النساء-١﴾
انسانو! اس پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کا جوڑا بھی اسی کی جنس سے پیدا کیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد وعورت دنیا میں پھیلا دئیے ہیں اور اس خدا سے بھی ڈرو جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کی بے تعلقی سے بھی- اللہ تم سب کے اعمال کا نگراں ہے
 

یوسف-2

محفلین
اگر اللہ پاک کو زمیں پر کسی روپ میں آنا پڑے تو وہ یقیناً کسی مرد کی بجائے ماں کا روپ ہوگا ۔
شناخت پریڈ ، از ؛ ڈاکٹر یونس بٹ
ادیب و شاعر جب اپنی ”اوقات“ سے آگے نکلتے ہیں تو ان کے قلم سے ایسے ہی کفریہ کلمات نکلتے ہیں۔ یہ جملہ توہین الٰہی کے زمرے میں آتا ہے۔
سُوۡرَةُ الإخلاص: بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَ۔ٰنِ ٱلرَّحِيمِ
قُلۡ هُوَ ٱللَّهُ أَحَدٌ (١) ٱللَّهُ ٱلصَّمَدُ (٢) لَمۡ يَلِدۡ وَلَمۡ يُولَدۡ (٣) وَلَمۡ يَكُن لَّهُ ۥ ڪُفُوًا أَحَدٌ (٤)
And there is none co-equal or comparable unto Him
And there is none like unto Him
 

نگار ف

محفلین
ویسے لوگ ہر بات میں بحث کا پہلو ضرور نکال لیتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ﴿البقرة: ٣٠﴾
(اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ (جانشین) بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو (خلیفہ) بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ حالانکہ ہم تیری حمد و ثنائ کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس (پاکیزگی بیان) کرتے ہیں۔ فرمایا: یقینا میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یہ کام آپ خود ہی کرلوآپ بھی تو رائٹرہو:)
میراخیال ہےکوئی تعریف ڈھونڈنےسے بھی نہیں ملی:D
ساری دنیا کے رائٹرز نے آپکے اس بیان پر آپکو ادبی ذوق سے خالی قرار دے دینا ہے۔ :)
جو مجسم تعریف ہو اسکی تعریف کرنا اسکی شان کے منافی ہے۔ :ROFLMAO:
 

نگار ف

محفلین
لیجئے جناب پیشِ خدمت ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے مساوات کي طرف خاص توجہ دي ہے اور ہميں بھي متوجہ ہونا چاہئے ليکن خيال رہے کہ بعض لوگ بے سوچے سمجھے جذبات ميں آ کر افراط و تفريط کا شکار ہوجاتے ہيں اور مرد و عورت کے روحاني و جسماني فرق اور ان کي ذمہ داريوں کے اختلاف تک سے انکار کر بيٹھتے ہيں-
ہم جس چيز کا چاہيں انکار کريں تاہم اس حقيقت کا انکار نہيں کرسکتے کہ دو صنفوں ميں جسماني اور روحاني طور پر بہت فرق ہے، مختلف کتابوں ميں اس کي تفصيلات موجود ہيں ،يہاں اس کي تکرار کي ضرورت نہيں، خلاصہ يہ کہ عورت وجودِ انساني کي پيدائش کا ظرف ہے، نونہالوں کا رشد اسي کے دامن ميں ہوتا ہے، جيسے وہ جسماني طور پر آنے والي نسلوں کي پيدائش ، تربيت اور پرورش کے لئے پيدا کي گئي ہے اسي طرح روحاني طور پر بھي اسے عواطف ، احساسات اور جذبات کا زيادہ حصہ ديا گيا ہے -
ان وسيع اختلافات کے باوجود کيا يہ کہا جا سکتا ہے کہ مرد عورت کو تمام حالات ميں ہم قدم ہونا چاہئے اور تمام کاموں ميں سو فيصد مساوي ہونا چاہئے ؟!
کيا عدالت اور مساوات کے حاميوں کو معاشرے کے تقاضوں کے حوالے سے بات کرنا چاہئے ؟ کيا يہ عدالت نہيں ہے کہ ہر شخص اپني ذمہ داري پوري کرے اور اپنے وجود کي نعمتوں اور خوبيوں سے فيض ياب ہو؟ اس لئے کيا عورت کا ايسے کاموں ميں دخل اندازي کرنا جو اس کي روح اورجسم سے مناسبت نہيں رکھتے ، خلاف ِعدالت نہيں ہے!
يہي وہ مقام ہے جہاں ہم ديکھتے ہيں کہ اسلام جو عدالت کا طرفدار ہے کئي ايک اجتماعي کاموں ميں سختي يا زيادہ دقتِ نظروالے کاموں مثلاً گھر کے معاملات کي سر پرستي و غيرہ ميں مرد کو مقدم رکھتا ہے اور معاونت و کمک کا مقام عورت کے سپرد کر ديتا ہے -
ايک گھر اور ايک معاشرے کو منتظم ہونے کي ضرورت ہوتي ہے اور نظم و ضبط کا آخري مرحلہ ايک ہي شخص کے ذريعہ انجام پانا چاہئے ورنہ کشمکش اور بے نظمي پيدا ہو گي-
اگر تمام تعصبات سے بے نياز ہو کر غور کيا جائے تو يہ واضح ہو جائے گا کہ مرد کي ساخت کے پيش نظر ضروري ہے کہ گھر کي سر پرستي اس کے ذمہ کي جائے اور عورت اس کي معاون ہو، اگرچہ کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشي اختيار کرنے پرمُصر ہيں-
 
Top