ستر سال گزار دیئے افسوس کرنے میں۔
چشم تصور سے اگر میں دیکھوں تو کچھ ایسے ہوگا:
پیدائش کے وقت:
نرس: ہائے اللہ کتنی پیاری بچی ہے۔ لیکن رو نہیں رہی۔ (ایک تھپڑ)
عینی (غصے سے نرس کو گھورتے ہوئے): بدتمیز! میں تو عالم افسوس میں گم سم ہوں اس لئے خاموش ہوں۔ ضروری تو نہیں کوئی سائنسی وجہ ہو نہ رونے کی۔
(لیکن نرس کے کانوں تک یہ بچگانہ آواز کیسے پہنچتی لہذا ایک اور تھپڑ جڑ تے ہوئے)
نرس: ارے رونا شروع کر بچی۔ پیدا ہونے کے بعد رونا ضروری بلکہ روایت بھی ہے۔
عینی: (داڑھ کچکچاتے ہوئے۔ دانت تو ابھی نہیں ہیں نا) کم بخت کیوں رلانے پہ تلی ہوئی ہے۔ نہیں رونا آرہا مجھے۔ بس افسوس ہورہا ہے۔ کیسی دنیا ہے آو تو روتے ہوئے آو۔ بھئی جس کو نہیں رونا آرہا تو وہ کیا کرے۔
عینی: (ساتھ آئے ہوئے فرشتے سے جو دنیا تک چھوڑنے آیا تھا ننھی پری کو) بھئی یہ کیا تماشا ہے۔ وہاں تو تم نے نہیں بتایا تھا کہ یہاں آتے ہی رونا ضروری ہے۔
فرشتہ: بھئی میں کیا کہہ سکتا ہوں یہ تو تم انسانوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ میری ڈیوٹی بحفاظت پہنچانے کی تھی اس لئے میں تو چلا اب۔ تم جانو یہ دنیا جانے۔
(ایک اور تھپڑ)
عینی: لگتا ہے رونا ہی پڑے گا ورنہ یہ کمینی تو مار مار کے گال لال کردے گی۔ اوں اوں اوں
نرس: شاباش یہ ہوئی نا بات۔
عینی: چلیں جائیں اب جان چھوڑیں آپ لوگوں کی رسم پوری کردی میں۔ اب مجھے افسوس کرنے دیں۔ یہ جگہ واقعی افسوس کرنے کے قابل ہے۔ آتے ہی سب سے پہلے روتو بن جاو اور پھر ساری زندگی بھی رو رو کر گزارو۔ اب میں اپنی ساری زندگی افسوس کرکے ہی گزاروں گی۔
اسکول میں داخلے کے وقت:
ارے بھئی ستر سالہ زندگی کے افسوس اس ایک مراسلے میں تو بیان نہیں کیے جاسکتے باقی پھر کسی دوسری عید پر۔