مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی تاریخ آپ صلی اللہ الیہ وسلم کی یوم وفات کا بھی ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا ہم مبارک باد کہ سکتے ہیں
سوال: بارہ وفات کیا ہے ؟ اور اسے یہ نام کیوں دیا گیا ہے ؟
احمدرضا: دراصل اسے بارہ وفات کہنا ہی نہیں چاہئیے بلکہ اسے عید میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم“، “بارھویں شریف“، “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ کہنا چاہئیے کیونکہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو محبوب کبریا سیدالانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تھے اس لئے اسے بارھویں شریف کہتے ہیں، اور چونکہ لغوی اعتبار سے عید وہ دن ہوتا ہے کہ جس میں کسی صاحب فضل یا کسی بڑے واقعے کی یادگار منائی جاتی ہو (مصباح اللغات) اور یقیناً ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے زیادہ صاحب فضل شخصیت اور آپ کی ولادت مبارکہ سے زیادہ اہم واقعہ اور کون سا ہو گا ؟ لٰہذا اسے “عید میلادالنبی“ یا “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ بھی کہہ دیتے ہیں-
سوال: تو پھر اسے بارہ وفات کیوں کہتے ہیں ؟
احمدرضا: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وصال شریف بارہ ربیع الاول کو ہوا چنانچہ اس اعتبار سے اسے بارہ وفات کہہ دیتے ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ تایخ وصال “دو ربیع الاول“ ہے جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی بخاری شریف کی شرح “فتح الباری“ میں طویل بحث کے بعد ثابت کیا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہئیے کہ خود بھی اسے بارہ وفات کہنے سے پرہیز کریں اور اس عظیم الشان خوشی کے موقع کا یہ نام رکھنے سے دوسروں کو بھی محبت و شفقت کے ساتھ روکیں۔ کم از کم اپنے گھر والوں کو تو اس بارے میں ضرور سمجھانا چاہئیے۔
سوال: اس دن مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئیے ؟
احمدرضا: صرف اس دن ہی نہیں بلکہ ربیع النور کی پہلی تاریخ سے لے کر بارہ تک ان بارہ دنوں میں جتنا اور جس طرح بھی ممکن ہو ہر امتی کو چاہئیے کہ نور مجسم فخر بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کیلئے خوشی کے اظہار کے مختلف طریقے اپنائے مثلاً آپس میں مبارک باد دیں اپنے گھر دکان گلی محلہ اور مسجد کو قمقموں اور جھنڈوں سے سجائیں، اپنی سائیکل یا موٹر سائیکل یا کار وغیرہ پر بھی جھنڈے لگائیں، مٹھائیاں تقسیم کریں، دودھ شربت پلائیں، کھانا کھلائیں، دوردپاک کی کثرت کریں، اجتماعات منعقد کریں جس میں مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات و معجزات اور ولادت مبارکہ، کے واقعات بیان کئے جائیں، خوب خوب نعتیہ محافل قائم کریں، ہر قسم کے صغیرہ کبیرہ گناہ سے بچیں اور نیک امعال کی کثرت کی کوشش کریں اور خصوصاً بارہ تاریخ کو گھر کو خوب صاف ستھرا رکھیں، تازہ غسل کریں ہو سکے تو نئے کپڑے اور اگر استطاعت نہ ہو تو پرانے ہی مگر اچھی طرح دھو کر پہنیں، آنکھوں میں سرمہ لگائیں، خوب اچھی طرح عطر ملیں، طاقت اور قدرت ہو تو روزہ رکھیں اور اپنے علاقے میں نکلنے والے جلوس میں شرکت کرکے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہونے والی بےشمار رحمتوں اور برکتوں سے حصہ طلب فرمائیں۔
سوال: کیا یہ سب کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ؟
احمدرضا:دراصل اللہ تعالٰی نے ہمیں قرآن پاک میں اپنی نعمتوں کو ظاہر کرنے اور ان پر اظہار خوشی کا حکم فرمایا ہےچنانچہ سورہ الضحٰی میں ارشاد فرمایا “واما بنعمۃ ربک فحدث۔ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچہ کرو۔“ (پارہ 30 آیت11) اور سورہ یونس میں فرمان عالیشان ہے “قل بفضل اللہ وبرحمۃ فبذلک فلیفرحوا ط ھو خیر مما یجمعون ہ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔ ( پارہ11 آیت58 )
ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمت کا چرچا کرنے اور اس پر خوشی منانے کا صراحۃ حکم موجود ہے“ اور اس میں کسی کو بھی ہرگز ہرگز شک و انکار نہیں ہو سکتا کہ سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد، اللہ تعالٰی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ حکم قرآن کے مطابق اس نعمت کا بھی ہمیں خوب چرچا کرنا چاہئیے اور اس پر خوب خوب خوشیاں منانی چاہئیں اور اس اظہار خوشی کیلئے ہر وہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہونا چاہئیے کہ جسے شریعت نے منع نہ کیا ہو اور میں نے ابھی جو طریقے عرض کئے وہ تمام کے تمام جائز ہیں، ان میں سے کوئی بھی چیز شرعی لحاظ سے حرام و ممنوع نہیں۔
سوال: ان آیات میں خوشی و مسرت کے اظہار کے لئے کسی خاص وقت کی قید نہیں لگائی گئی تو پھر ہم ولادت کی خوشی کیلئے ربیع الاول کے بارہ دنوں کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں ؟
احمدرضا: مخصوص دنوں کو قلبی مسرت کے اظہار کے لئے منتخب کرنا بھی قرآن پاک کے حکم اور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا وذکرھم بایام اللہ اور انھیں اللہ عزوجل کے دن یاد دلا (پارہ 13 سورہ ابراہیم آیت5) اس آیت کریمہ کی تفسیر فرماتے ہوئے حضرت نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تفسیر خزائن العرفان میں ارشاد فرماتے ہیں “بعض مفسرین نے فرمایا کہ “ایام اللہ“ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر انعام فرمای جیسا کہ بنی اسرائیل کے لئے من و سلوٰی اتارنے کا دن اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن وغیرہ (خازن و مدارک و مفردات راغب) (پھر فرمایا) “ان ایام اللہ میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی “ولادت و معراج“ کے دن ہیں ان کی یادگار قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔“
اور دنوں کو عبادت وغیرہ کے ذریعے خاص کر لینا، سنت اسی طرح ہے کہ بخاری و مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ (یعنی دن محرم) کا روزہ رکھتے پایا دریافت فرمایا “یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو ؟“ عرض کی گئی “یہ عظمت والا دن ہے کہ اس میں موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالٰی نے نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا، لٰہذا موسٰی علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا، چنانچہ ہم بھی روزہ رکھتے ہیں “ (یہ سن کر مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے) ارشاد فرمایا کہ موسٰی علیہ السلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمھارے، ہم زیادہ حق دار ہیں و قریب ہیں“ چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی فرمای“ دیکھئے
اس حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ جس دن اللہ تعالٰی کے کسی انعام کا نزول ہوا، اسے عبادت کیلئے مخصوص کرنا حضرت موسٰی علیہ السلام کی اور آپ کی موافقت میں مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ کے حکم کی تعمیل میں صحابہء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بھی سنت مبارکہ ہے، چنانچہ ربیع النور شریف میں مولود مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے انعام کے حصول کے جواب میں مخلتف عبادات کا اختیار کرنا بھی یقیناً جائز اور باعث نزول رحمت ہے۔
سوال: جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ 12 ربیع الاول کو یوم وفات مانتے ہیں تو احتیاط تو اس میں ہے کہ ہم اس دن خوشیاں نہ منائیں کیونکہ اگر وہ بات بالفرض درست ہے تو وفات نبی کے دن خوشی منانا تو بہت بری بات ہے ؟
احمد رضا: پیارے اسلامی بھائیو! دینی مسائل کے حل کیلئے اپنی عقل استعمال کرنے سے پہلے اللہ تعالٰی اور اس کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرنا بےحد ضروری ہے کیونکہ کثیر مسائل ایسے ہیں کہ جن میں عقل کا فیصلہ کچھ اور ہوتا ہے جب کہ شریعت کا تقاضا اس کے مخالف نظر آتا ہے، ایسے موقع پر سعادت مندی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان پر “عقل کی آنکھیں بند کرکے“ عمل کریں اور اگر شیطان کسی قسم کا وسوسہ ڈالے تو اس سے فوراً یہ سوال کریں کہ بتا ہماری “عقل بڑی ہے یا اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا حکم ؟“ انشاءاللہ عزوجل شیطان فوراً بھاگ جائے گا اب اس مسئلے کے بارے میں عرض ہے کہ اگر بالفرض یہ یوم وفات نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بھی ہوتا، تب بھی ہمارے لئے شرعی لحاظ سے اس میں خوشی منانا جائز اور غم منانا ناجائز ہے کیونکہ شرعی قاعدہ قانون یہ ہے کہ شوہر کی وفات کے علاوہ کسی اور کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف شوہر کی موت پر بیوی کو چار مہینے دس دن سوگ منانے کا حکم ہے چنانچہ بخاری و مسلم میں ام المومنین ام حبیبہ اور ام المومنین زینب بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “جو عورت اللہ تعالٰی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے تو اسے یہ حلال نہیں کہ کسی میت پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے کہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ کرے۔“ معلوم ہوا کہ شوہر کے علاوہ کسی کی بھی وفات پر تین دن سے زائد غم منانا جائز نہیں چنانچہ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، آپ کی وفات پر بھی غم منانا یا سوگ کی علامت اختیار کرنا جائز نہیں ہونا چاہئیے اس کے برعکس چونکہ نعمت کے اظہار اور اس پر خوشی منانے والی آیات میں وقت کی کوئی قید نہیں چنانچہ ان کی رو سے اس دن خوشی منانا بالکل جائز ہے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہاں ایک نکتہ بیان کر دینا بھی نفع سے خالی نہ ہو گا کہ اگر کسی ایک ہی دن پیدائش نبی بھی ہو اور وصال نبی بھی تو ہمیں انعام کے حصول پر خوشی منانے کی اجازت تو ملتی ہے، لیکن غم منانے کا حکم کہیں نظر نہیں آتا۔ مثلاً سیدکونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “بہترین دن کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی اسی میں آپ نے وفات پائی اور اسی میں قیامت قائم ہوگی۔ (ابوداؤد و ترمذی) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ “جمعہ عید کا دن ہے اسے اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے۔“ (ابن ماجہ)
اب آپ غور فرمائیں کہ جمعہ حالانکہ یوم وفات بھی ہے لیکن اس کے باوجود مدنی مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے حکم سے اس دن کو ہمارے لئے عید کا دن قرار دیا ہے اور یقیناً عید کے دن خوشیاں منائی جاتی ہیں اور اس کے برعکس غم منانے کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ “ہمارے لئے اس دن خوشی منانی جائز اور غم منانے کا عقلی طور پر بھی کوئی جواز نہیں کیونکہ شہہ دوسرا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالٰی نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے لٰہذا اللہ عزوجل کے نبی (علیہم السلام) زندہ ہیں، روزی دیتے ہیں۔ (ابن ماجہ) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ کل نفس ذائقۃ الموت ( ہرجان کو موت چکھنی ہے) ( پارہ 4 سورہ آل عمران آیت185 ) کے ضابطے کے تحت انبیاء علیہم السلام کچھ دیر کیلئے وفات پاتے ہیں اور پھر اللہ تعالٰی کے حکم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتے ہیں اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں،
انبیاء کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اسی آن کے بعد ان کی حیات
مثل سابق وہی جسمانی ہے (حدائق بخشش)
اور جب تمام انبیاء علیہم السلام سمیت ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ بھی ثابت ہو گئی تو بارھویں پر غم منانے کی کون سی علت باقی رہ جاتی ہے ؟
جاوید: واقعی آپ نے ان جوابات کی روشنی میں تو چاہے بارہ تاریخ کو یوم ولادت یو یا یوم وفات، بہر صورت خوشی منانی تو جائز ہو سکتی ہے لیکن اظہار کسی بھی صورت میں جائز نہیں، اچھا اب ایک اہم سوال ہے۔