عمار ابن ضیا
محفلین
ہزاروں لڑکیاں ایسی کہ ہر لڑکی پہ دم نکلے
سو ارماں ٹھرکیوں کے نکلے لیکن پھر بھی کم نکلے
محبت میں نہیں ہے فرق کوئی پہلی، دسویں کا
ہر اِک کو دیکھ کر جیتے ہیں اور ہر اِک پہ دم نکلے
نکلنا لاٹری کا یوں تو سنتے آئے ہیں لیکن
قیامت ہو جو اپنی بھی کبھی کوئی رقم نکلے
خدا کے واسطے پردہ نہ چہرے سے اُٹھا ظالم
کہیں ایسا نہ ہو عشاق کا صدمے سے دم نکلے
لگایا کرتے تھے پابندیاں ہر اِک پہ جو صاحب
حکومت سے وہی صاحب ٹھہر کے کالعدم نکلے
یقیں اپنے مٹاپے کا ہمیں کل آگیا عمار
جو اپنے کرتے سے لاکھوں جتن کے بعد نکلے
18 اپریل 2013ء