غالب کے اڑیں گے پُرزے

۳۴۔ پیشِ خدمت ہے ایک رشوت خور افسر کی غزل

ایک رشوت خور افسر کی غزل
محمد خلیل الرحمٰن
دیکھنا قسمت جو میری جیب پھڑکی جائے ہے
جب شکار اپنا کوئی یوں سامنے آجائے ہے
شوق کی یہ لت کہ ہر حصے پہ یوں للچائے ہے
دِل کی وہ حالت کہ کچھ لینے سے گھبراجائے ہے
اپنی یہ عادت کہ مانگیں سب سے ہم یوں بے دھڑک
اور دینے والا رشوت نام سے شرمائے ہے
اتفاقاً آگیا دفتر کوئی اپنا شکار
میری ٹیبل پر وہ میرا حصہ رکھتا جائے ہے
ہوگیا رشوت کاعادی گر کوئی افسر کہیں
سیلری اس کی تو بس چائے میں ہی اُڑ جائے ہے
 
35۔ اب پیشَ خدمت ہے ایک نمکین غزل
ایک نمکین غزل
محمد خلیل الرحمٰن
کھیوڑے کی کان ہے ، زخموں کو تیرا چھیڑنا
گر کبھی اس شوق سے سالن میں تو کھاتا نمک
یاد ہیں ہم کو بھی وہ دن جب وفورِ شوق سے
دِل طلب کرتا تھا زخم اور وہ وہ چھڑکتا تھا نمک
میرے زخموں پر نمک پاشی ترا شیوہ رہا
ہر گھڑی تو ڈھونڈتا رہتا سمندر کا نمک
سنگ باری ہم پہ ہو شکوہ نہیں اے ہمنشیں
درد پتھر میں نہیں پر ھائے پتھر کا نمک
ہے گرانی کا یہ عالم الامان و الحفیظ
پھر بھی وہ خوش ہیں کہ ہے اس دور میں سستا نمک
 
واہ واہ واہ، کیا خوب اشعار ارشاد فرمائے
پوری نظم ہی کمال ہے لیکن یہ دو اشعار تو دل کو لگے، کیونکہ یہ آنکھوں دیکھا حال ہے۔
اپنی یہ عادت کہ مانگیں سب سے ہم یوں بے دھڑک
اور دینے والا رشوت نام سے شرمائے ہے
ہوگیا رشوت کاعادی گر کوئی افسر کہیں
سیلری اس کی تو بس چائے میں ہی اُڑ جائے ہے
 
محمد خلیل الرحمٰن صاحب
کیا خوب نمکین غزل ارشاد فرمائی، مزہ آگیا۔

آپ کی زمین میں ایک قطعہ ابھی ابھی بن گیا، اجازت ہو تو عرض کروں؟
اجازت مرحمت فرمانے کا شکریہ

تھی بزرگوں کی کبھی ترغیب سب کو لازمی
حق ادا کرنا ہے جس کے گھر کا ہو کھایا نمک

کون کرتا ہے نمک کا حق ادا اس دور میں
اُف، نصیبا! ہوگیا ہے اس قدر سستا نمک
 
محمد خلیل الرحمٰن صاحب
کیا خوب نمکین غزل ارشاد فرمائی، مزہ آگیا۔

آپ کی زمین میں ایک قطعہ ابھی ابھی بن گیا، اجازت ہو تو عرض کروں؟
اجازت مرحمت فرمانے کا شکریہ

تھی بزرگوں کی کبھی ترغیب سب کو لازمی
حق ادا کرنا ہے جس کے گھر کا ہو کھایا نمک

کون کرتا ہے نمک کا حق ادا اس دور میں
اُف، نصیبا! ہوگیا ہے اس قدر سستا نمک
امجد علی راجا بھائی پوری غزل ہونی چاہیے، صرف قطعے سے کام نہیں چلے گا۔:)
 
محمد خلیل الرحمن بھائی، آپ کی فرمائش پر قطعہ کے بعد غزل عرض ہے، اللہ کرے پسند آجائے۔

مفلسی کے دور میں اک گھر کا جو کھایا نمک
عمر اُس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک

باس کی بیٹی سے شادی کے لئے مجبور تھا
لے گیا آغوشِ الفت میں ہمیں کالا نمک

میرے آنے کی خوشی میں وہ تو پاگل ہو گئی
ڈال دی سالن میں چینی، کھیر میں ڈالا نمک

لنچ کا وعدہ تھا مجھ سے، لے گیا اس کو کزن
اس طرح ظالم نے زخموں پر مرے چھڑکا نمک

سالیوں نے سامنے رکھ دی تھی "مصری" کی پلیٹ
اور وہ مارے شرم کے کھا گیا سارا نمک

اس کو دے دے کر صدائیں میرا گلہ دُکھ گیا
اور غراروں کے لئے اس نے فقط پھینکا نمک

عاشقوں کو بھی قدر آ ہی گئی پھینٹی کے بعد
جب ٹکوروں کے لئے زخموں پہ تھا رکھا نمک
 
۳۶۔ اب پیشِ خدمت ہے ایک سیاسی غزل
ایک سیاسی غزل​
محمد خلیل الرحمٰن​
راجا رینٹل کے لیے یوں تو یہ سال اچھّا ہے​
ان کو ڈگری بھی ملے، یہ بھی خیال اچھّا ہے​
سب کو معلوم ہے ڈگری کی حقیقت یارو​
دِل کے خوش رکھنے کو ویسے یہ خیال اچھّا ہے​
ڈگریوں کی جنھیں بہتات نظر آتی ہے​
وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کا حال اچھّا ہے​
دِل میں راجا کی وقعت اور بھی بڑھ جاتی ہے​
اس طرح کا تو کسی میں ہو ، کمال اچھّا ہے​
ہائے راجا، مرے راجا، ترے واری جاؤں​
باغِ زردار کا تُو تازہ نہال اچھّاہے​
خطرہٗ جان تو ہے نیم حکیمی اُن کی​
کام ایسا ہے یہ جس کا کہ ’مآل‘ اچھّا ہے​
ڈگری ڈگری ہے وہ اصلی ہو یا جعلی ہو خلیلؔ​
وہ جو کہتے ہیں کہ ’’مفت آئے تو مال اچھّا ہے‘‘​
 

الف عین

لائبریرین
زبردست۔ یار کچھ اتا پتا معلوم ہو تو بتاؤ جہاں سے مفت میں جعلی ڈگریاں بٹتی ہیں۔ دو چار بڑھاپے میں ہم بھی بٹور لیں
 

الف عین

لائبریرین
ویسے یہ مصرع ذرا پٹری سے اتر گیا ہے
دِل میں راجا کی وقعت اور بھی بڑھ جاتی ہے
وقعت بر وزن فعلن یا ’کھٹ کھٹ‘ ہے، بر وزن ’ابے‘ نہیں (بقول ابن صفی)
 
37۔ آج پیشِ خدمت ہے گوریوں کی یاد میں ایک غزل
غزل​
محمد خلیل الرحمٰن​

گوریوں کے ملکوں میں زیست کا مزہ پایا​
واں پہ ہم نے اپنا دِل گم کیا ہوا پایا​
جرمنی کی شہزادی، سنگاپور کی ملکہ​
’’حسن کو تغافُل میں جرات آزما پایا‘‘​
ایک ڈچ حسینہ نے ہنس کے جب ہمیں دیکھا​
بس پگھل کے ہم نے بھی اپنا مدعا پایا​
یوں تو اِس ولایت میں لڑکیاں ہزاروں تھیں​
پٹ سکی نہ کوئی بھی، ہم نے یہ صلہ پایا​
شورِ پندِ بیوی کا ہم پہ خوف طاری تھا​
روز ہم نے خوابوں میں اُس کو دیکھتا پایا​
یورپی حسینوں کو ہم نے خوب دیکھا ، پر​
نامراد ہم لوٹے، عشقِ لادوا پایا​
گوریوں کی یادیں ہیں، بس خلیلؔ کیا کہیے​
’’آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا‘‘​
محمد یعقوب آسی، الف عین، محمد وارث، یوسف-2 ، کاشف عمران، امجد علی راجا، شمشاد ، فاتح
 

یوسف-2

محفلین
ڈگری ڈگری ہے وہ اصلی ہو یا جعلی ہو خلیلؔ​
وہ جو کہتے ہیں کہ ’’مفت آئے تو مال اچھّا ہے‘‘​
×××​
یوں تو اِس ولایت میں لڑکیاں ہزاروں تھیں​
پٹ سکی نہ کوئی بھی، ہم نے یہ صلہ پایا​
شورِ پندِ بیوی کا ہم پہ خوف طاری تھا​
روز ہم نے خوابوں میں اُس کو دیکھتا پایا​
کیا کہنے خلیل بھائی! بہت عمدہ اور زبردست۔ ابھی تک ڈچ حسیناؤں کے تصور میں کھوئے ہوئے ہیں۔ :p
 
گوریوں کے ملکوں میں زیست کا مزہ پایا
واں پہ ہم نے اپنا دِل گم کیا ہوا پایا

عمدہ ہے جناب محمد خلیل الرحمٰن صاحب۔
تاہم یہ عرض کرنا ہے کہ مزاحیہ شاعری کے پیچھے جو ’’گھمبیرتا‘‘ ہونی چاہئے، اُس کو گرفت میں لیجئے۔
بہت آداب۔
 
واہ واہ واہ، بہت خوب خلیل بھیا!
گوریوں کی یاد کیا غزل تحریر فرمائی ہے، لطف آگیا۔ خوش رہیں اور ہم سب کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں۔ صبح ہی صبح موڈ خوشگوار ہو گیا بھیا :)

اب اگر ملے موقع گوریوں سے ملنے کا
شاعری تمام اپنی برملا سنا دیجئے
فن کی قدر کرتی ہیں گوریاں بہت دل سے
شاعری کا میڈل سینے پہ پھر سجا دیجئے
نظم ایک انگلش میں لکھ کے یاد بھی کرلیں
ہاتھ تھام کر اس کا نظم گنگنا دیجئے
شاعروں کا گرویدہ اک جہان ہوتا ہے
شاعری کی طاقت دنیا کو پھر دکھا دیجئے
ہم تو نیک مقصد میں ساتھ آپ کا دیں گے
اور کچھ نہ کرپائے، دل سے ہم دعا دیں گے
 
Top