شمشاد
لائبریرین
مندرجہ ذیل پیغام اردو محفل کے رُکن اشفاق نیازی صاحب کی طرف سے ہے۔ کسی وجہ سے وہ خود اس زمرے میں پیغام پوسٹ نہیں کر سکے۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں یہ مراسلہ ان کی طرف سے اس زمرے میں پوسٹ کر دوں۔ مزید یہ کہ میری طرف سے اسے کسی بھی فریق کی جانبداری نہ سمجھا جائے۔
محترم شاكر صاحب۔ آپ كے فانٹس كي مہارت تو ديكھي تھي ليكن يہ دھاگہ اور آپكي مدلل تحريريں پڑھنے كے بعد ايمان تازہ ہوگيا۔ چند دن پہلے محترم عرفان صديقي كا حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايك كالم بعنوان "يہ معاملے ہيں نازك" پڑھا تھا۔ سارا دھاگہ پڑھنے اور باوجود كوشش كے اپنے آپ كو يہ كالم پوسٹ كرنے سے نہ روك سكا۔ چونكہ يہ ٣ اقساط ميں تھا اسلئے تھوڑا مختصر كر كے پيش ہے۔ اميد ہے كہ ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال طالبعلموں كي تشنگي دور نہيں ہوگي۔ اسلئے اگلي نشست ميں حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر چند احاديث كا حوالہ بھي پيش كرنے كي كوشش كروں گا۔ كالم ملاحظہ ہو۔
حیف اس پر جو انسانی زندگی کی حرمت کے بارے میں قرآن کی تعلیمات اور نبی کریم کے ارشادات کو پس پشت ڈال کر ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور صد حیف اُس پر جو نام نہاد روشن خیالی کے زعم میں ناموس رسالت جیسے معاملے کی حساسیت اور نزاکت کو نہیں سمجھتا اور احتیاط کے تقاضوں کو پامال کرتا ہے۔
جس طرح جان کی حرمت کا اصول غیر متنازعہ ہے اسی طرح اس امر کو بھی ایک لمحے کے لئے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہئے کہ محمد عربی کے ناموس کے معاملے کو عمومی تصورات کی عینک سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ وہ رشتہ ہے جسے کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ کسی کے عقیدے یا مسلک پر نشترزنی کرکے دل آزاری سے بھی بہت آگے کی بات ہے۔ جس کی بارگاہ ناز کی حضوری میں جنید بغدادی بایزید بسطامی جیسے جید بزرگان بھی حواس گنوا بیٹھیں اس کے ناموس کو این جی او اسٹائل میں بازاروں اور چوراہوں کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا۔ شاعر کہتا ہے۔
(اپنے دہن اور زبان کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے دھونے کے باجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مبارک ادا کرنا کمال درجے کی بے ادبی لگتا ہے۔)
کائنات میں ایسا کون ہے جس کے ذکر کی رفعت و بلندی کي ضمانت اللہ نے دی ہو؟ کون ہے جس کے بارے میں رب ذوالجلال کا حکم آیا ہو کہ اے اہل ایمان! اپنی آوازیں اس کی آواز سے اونچی نہ کرو مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتہ ہی نہ چلے۔ حُب رسول اجزائے ایمانی میں سے ہے اور جزو بھی ایسا جس میں بال برابر کمزوری انسان کے سارے اعمال حسنہ پر پانی پھیر دیتی ہے۔
پاکستان میں صرف ناموس رسالت ہی کا قانون نہیں‘ یہاں تو صدر کے ناموس‘ گورنر کے ناموس‘ پاکستانی پرچم کے ناموس‘ عدلیہ کے ناموس‘ فوج کے ناموس اور نہ جانے کس کس کے ناموس کے قوانین بھی موجود ہیں۔ صدر اور گورنر کے ”ناموس“ کو اتنا کڑا تحفظ دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ یا کرلیں‘ انہیں عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔ فوج کے ناموس کی بے حرمتی‘ کے جرم میں ہی بہت سے سياستدان برسوں جیل میں سڑتے رہے۔ عدلیہ اپنے ناموس پر خراش آنے کا محاسبہ خود کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ کیا یہ کالا قانون نہیں کہ صدر اور گورنر‘ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور اُنہیں کٹہرے میں نہ لایا جاسکے؟ کیا اسلامی ملک میں ایسا قانون ہونا چاہئے؟
جہاں بھانت بھانت کے ”کالے قوانین“ کی کارفرمائی ہو اور بڑے بڑے منصبدار اُن قوانین کو اپنے کرتوتوں کی پناہ گاہ بنائے بیٹھے ہوں‘ وہاں نہ جانے کیوں ان ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال چيلوں کی نظر میں ناموس رسالت‘ ہی کا قانون کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا ہے اور ان ڈسكو سكالرز اور لبرل فاشسٹوں نے مسلم قوم کے جذبہ و احساس کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسی مہم شروع كر ركھي ہے جو کروڑوں دلوں كو گھائل كر رہي ہے۔
اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ كافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت و عظمت سے کھیلنے کو ایک مشغلہ بنالیا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مکروہ واردات ہوتی رہتی ہے۔ سلمان رشدی اور تسلیم نسرین جیسے مکروہات کو انہوں نے ہیرو قرار دے کر تکریم و تعظیم کی مسندوں پر بٹھا رکھا ہے۔ اندرون ملک کسی غیر محتاط شخصیت کی طرف سے کسی ناروا عمل کا ردعمل اس لئے شدید ہوتا ہے کہ آتشکدہ پہلے ہی دہک رہا ہوتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو مجموعی تناظرمیں دیکھنا ہوگا۔ اگر یہاں انتہا پسندی اور جنون کی کارفرمائی ہے تو صرف داڑھیوں اور پگڑیوں تک محدود نہیں‘ وہ لبرل فاشسٹ بھی ذمہ دار ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام بلند کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ اور گز گز بھر لمبی زبانیں نکال کر انگارے اگلتے رہتے ہیں۔
بلاشبہ کسی جرم کو کسی دوسرے جرم کا جواز نہیں بنایا جاسکتا لیکن تانگے میں جتے گھوڑے کی طرح آنکھوں پہ کھوپے چڑھا کر صرف ایک ہی رُخ پہ دیکھنا بھی تو قرین انصاف نہیں۔ آنکھوں پہ کھوپے چڑھا لینے والی یک رخی سوچ کا المیہ یہ ہے کہ وہ کبھی صورت حال کا بے لاگ جائزہ نہیں لے سکتی۔ تقسیم کی لکیرگہری ہورہی ہے۔ روشن خیالی کا علمبردار‘ این جی او شعار لبرل طبقہ زیادہ زبان آور‘ زیادہ تعلیم یافتہ‘ زیادہ باوسیلہ‘ زیادہ خوشحال‘ زیادہ بااثر‘ بین الاقوامی رابطوں کے حوالے سے زیادہ بارسوخ‘ مغربی فکر سے زیادہ قریب اور میڈیا پر زیادہ حاوی ہے۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہنر سے بھی آشنا ہے اور اس کی تجوری بھی بھری ہوئی ہے۔ جدت پسندی‘ روشن خیالی اور ماڈرنزم کی دوڑ میں وہ سب کچھ روندتا ہوا آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر مذہب سے زبردست وابستگی رکھنے والی سادہ مزاج‘ نسبتاً تنگ دست اور اپنی تہذیبی اقدار سے محبت کرنے والی قوم کو مادر پدر آزاد گروہ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اُسے اس حقیقت کا بھی اندازہ ہے کہ مسلم قوم کا سب سے مضبوط گوشہ ”حُب رسول کریم “ہے۔ مغرب اپني توپیں اسی گوشہ پہ برساتا ہے اور ہمارا لبرل فاشسٹ طبقہ بھی مذہب سے براہ راست چھیڑ چھاڑ کرنے کي بجائے بڑی عیاری سے ناموس رسالت کے قانون پرضربیں لگاتا اور ہماری فصیل ایمان میں شگاف ڈالنا چاہتا ہے۔ انگریز نے بھی اسی حکمت عیار سے کام لیتے ہوئے قادیان میں جعلی نبوت کا بیج بویا تھا اور دل و جان سے اس کی پرورش کی تھی۔
لبرل سوشلسٹوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے خمیر اور ضمیر سے نابلد ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی معاملات کو اُن کی آنکھ سے دیکھے‘ اُن کے دماغ سے سوچے‘ اُن کے دل سے محسوس کرے‘ وہ کمال مہارت سے دوسروں کو وحشی‘ اجڈ‘ گنوار‘ جاہل‘ انتہا پسند‘قدامت پرست اور جانے کیا کیا کچھ قرار دے کر خود کو عقل و دانش کا مرقع سمجھنے لگتے ہیں۔ لبرل ازم کی مسند ارشاد پہ بیٹھے ہوئے وہ مفسر‘ محدث اور فقیہہ بھی بن جاتے ہیں۔
یہ ہے وہ گروہ جو نہیں جانتا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا رشتہ شماریات سے ماوریٰ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ قانون ناموس رسالت کو پیہم نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور بالخصوص غیر مسلموں کو ہدف بنایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں کون سا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ خود پیپلزپارٹی اب تک بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کا نام دیتی ہے۔ نواز شریف کو مشرف نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اپنی کٹھ پتلیوں سے عمر قید کی سزا دلوا دی تھی۔ اصلاح احوال مطلوب ہے تو پورے نظام قانون و انصاف کو معتبر بنایئے۔ صرف ناموس رسالت کے ضابطے کو ”کالا قانون“قرار دینے اور اٹھتے بیٹھتے اس کا تمسخر اڑانے سے صرف چنگاریاں ہی کاشت ہوں گی اور شعلے ہی اگیں گے۔
اس وقت تک‘ گزشتہ تیئس برس کے دوران‘ ناموس رسالت قانون کے تحت کل 964 مقدمات عدالتوں میں آئے۔ ان میں سے 479 کا تعلق مسلمانوں سے ‘340 کا احمدیوں‘ 119 کا عیسائیوں‘ 14 کا ہندؤں اور 12 کا دیگر سے تھا۔ تئیس برس کے دوران کسی ایک کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقدمات مضبوط نہ تھے اور یہ کہ قانون و انصاف نے اپنے تقاضوں سے روگردانی نہ کی۔ صرف یہی حقیقت اس قانون کی اہمیت اور افادیت کے لئے کافی ہے۔
==========================================================================================
محترم شاكر صاحب۔ آپ كے فانٹس كي مہارت تو ديكھي تھي ليكن يہ دھاگہ اور آپكي مدلل تحريريں پڑھنے كے بعد ايمان تازہ ہوگيا۔ چند دن پہلے محترم عرفان صديقي كا حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايك كالم بعنوان "يہ معاملے ہيں نازك" پڑھا تھا۔ سارا دھاگہ پڑھنے اور باوجود كوشش كے اپنے آپ كو يہ كالم پوسٹ كرنے سے نہ روك سكا۔ چونكہ يہ ٣ اقساط ميں تھا اسلئے تھوڑا مختصر كر كے پيش ہے۔ اميد ہے كہ ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال طالبعلموں كي تشنگي دور نہيں ہوگي۔ اسلئے اگلي نشست ميں حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر چند احاديث كا حوالہ بھي پيش كرنے كي كوشش كروں گا۔ كالم ملاحظہ ہو۔
حیف اس پر جو انسانی زندگی کی حرمت کے بارے میں قرآن کی تعلیمات اور نبی کریم کے ارشادات کو پس پشت ڈال کر ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور صد حیف اُس پر جو نام نہاد روشن خیالی کے زعم میں ناموس رسالت جیسے معاملے کی حساسیت اور نزاکت کو نہیں سمجھتا اور احتیاط کے تقاضوں کو پامال کرتا ہے۔
جس طرح جان کی حرمت کا اصول غیر متنازعہ ہے اسی طرح اس امر کو بھی ایک لمحے کے لئے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہئے کہ محمد عربی کے ناموس کے معاملے کو عمومی تصورات کی عینک سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ وہ رشتہ ہے جسے کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ کسی کے عقیدے یا مسلک پر نشترزنی کرکے دل آزاری سے بھی بہت آگے کی بات ہے۔ جس کی بارگاہ ناز کی حضوری میں جنید بغدادی بایزید بسطامی جیسے جید بزرگان بھی حواس گنوا بیٹھیں اس کے ناموس کو این جی او اسٹائل میں بازاروں اور چوراہوں کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا۔ شاعر کہتا ہے۔
ہزار باربشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام توگفتن کمال بے ادبیست
ہنوز نام توگفتن کمال بے ادبیست
(اپنے دہن اور زبان کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے دھونے کے باجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مبارک ادا کرنا کمال درجے کی بے ادبی لگتا ہے۔)
کائنات میں ایسا کون ہے جس کے ذکر کی رفعت و بلندی کي ضمانت اللہ نے دی ہو؟ کون ہے جس کے بارے میں رب ذوالجلال کا حکم آیا ہو کہ اے اہل ایمان! اپنی آوازیں اس کی آواز سے اونچی نہ کرو مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتہ ہی نہ چلے۔ حُب رسول اجزائے ایمانی میں سے ہے اور جزو بھی ایسا جس میں بال برابر کمزوری انسان کے سارے اعمال حسنہ پر پانی پھیر دیتی ہے۔
پاکستان میں صرف ناموس رسالت ہی کا قانون نہیں‘ یہاں تو صدر کے ناموس‘ گورنر کے ناموس‘ پاکستانی پرچم کے ناموس‘ عدلیہ کے ناموس‘ فوج کے ناموس اور نہ جانے کس کس کے ناموس کے قوانین بھی موجود ہیں۔ صدر اور گورنر کے ”ناموس“ کو اتنا کڑا تحفظ دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ یا کرلیں‘ انہیں عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔ فوج کے ناموس کی بے حرمتی‘ کے جرم میں ہی بہت سے سياستدان برسوں جیل میں سڑتے رہے۔ عدلیہ اپنے ناموس پر خراش آنے کا محاسبہ خود کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ کیا یہ کالا قانون نہیں کہ صدر اور گورنر‘ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور اُنہیں کٹہرے میں نہ لایا جاسکے؟ کیا اسلامی ملک میں ایسا قانون ہونا چاہئے؟
جہاں بھانت بھانت کے ”کالے قوانین“ کی کارفرمائی ہو اور بڑے بڑے منصبدار اُن قوانین کو اپنے کرتوتوں کی پناہ گاہ بنائے بیٹھے ہوں‘ وہاں نہ جانے کیوں ان ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال چيلوں کی نظر میں ناموس رسالت‘ ہی کا قانون کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا ہے اور ان ڈسكو سكالرز اور لبرل فاشسٹوں نے مسلم قوم کے جذبہ و احساس کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسی مہم شروع كر ركھي ہے جو کروڑوں دلوں كو گھائل كر رہي ہے۔
اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ كافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت و عظمت سے کھیلنے کو ایک مشغلہ بنالیا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مکروہ واردات ہوتی رہتی ہے۔ سلمان رشدی اور تسلیم نسرین جیسے مکروہات کو انہوں نے ہیرو قرار دے کر تکریم و تعظیم کی مسندوں پر بٹھا رکھا ہے۔ اندرون ملک کسی غیر محتاط شخصیت کی طرف سے کسی ناروا عمل کا ردعمل اس لئے شدید ہوتا ہے کہ آتشکدہ پہلے ہی دہک رہا ہوتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو مجموعی تناظرمیں دیکھنا ہوگا۔ اگر یہاں انتہا پسندی اور جنون کی کارفرمائی ہے تو صرف داڑھیوں اور پگڑیوں تک محدود نہیں‘ وہ لبرل فاشسٹ بھی ذمہ دار ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام بلند کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ اور گز گز بھر لمبی زبانیں نکال کر انگارے اگلتے رہتے ہیں۔
بلاشبہ کسی جرم کو کسی دوسرے جرم کا جواز نہیں بنایا جاسکتا لیکن تانگے میں جتے گھوڑے کی طرح آنکھوں پہ کھوپے چڑھا کر صرف ایک ہی رُخ پہ دیکھنا بھی تو قرین انصاف نہیں۔ آنکھوں پہ کھوپے چڑھا لینے والی یک رخی سوچ کا المیہ یہ ہے کہ وہ کبھی صورت حال کا بے لاگ جائزہ نہیں لے سکتی۔ تقسیم کی لکیرگہری ہورہی ہے۔ روشن خیالی کا علمبردار‘ این جی او شعار لبرل طبقہ زیادہ زبان آور‘ زیادہ تعلیم یافتہ‘ زیادہ باوسیلہ‘ زیادہ خوشحال‘ زیادہ بااثر‘ بین الاقوامی رابطوں کے حوالے سے زیادہ بارسوخ‘ مغربی فکر سے زیادہ قریب اور میڈیا پر زیادہ حاوی ہے۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہنر سے بھی آشنا ہے اور اس کی تجوری بھی بھری ہوئی ہے۔ جدت پسندی‘ روشن خیالی اور ماڈرنزم کی دوڑ میں وہ سب کچھ روندتا ہوا آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر مذہب سے زبردست وابستگی رکھنے والی سادہ مزاج‘ نسبتاً تنگ دست اور اپنی تہذیبی اقدار سے محبت کرنے والی قوم کو مادر پدر آزاد گروہ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اُسے اس حقیقت کا بھی اندازہ ہے کہ مسلم قوم کا سب سے مضبوط گوشہ ”حُب رسول کریم “ہے۔ مغرب اپني توپیں اسی گوشہ پہ برساتا ہے اور ہمارا لبرل فاشسٹ طبقہ بھی مذہب سے براہ راست چھیڑ چھاڑ کرنے کي بجائے بڑی عیاری سے ناموس رسالت کے قانون پرضربیں لگاتا اور ہماری فصیل ایمان میں شگاف ڈالنا چاہتا ہے۔ انگریز نے بھی اسی حکمت عیار سے کام لیتے ہوئے قادیان میں جعلی نبوت کا بیج بویا تھا اور دل و جان سے اس کی پرورش کی تھی۔
لبرل سوشلسٹوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے خمیر اور ضمیر سے نابلد ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی معاملات کو اُن کی آنکھ سے دیکھے‘ اُن کے دماغ سے سوچے‘ اُن کے دل سے محسوس کرے‘ وہ کمال مہارت سے دوسروں کو وحشی‘ اجڈ‘ گنوار‘ جاہل‘ انتہا پسند‘قدامت پرست اور جانے کیا کیا کچھ قرار دے کر خود کو عقل و دانش کا مرقع سمجھنے لگتے ہیں۔ لبرل ازم کی مسند ارشاد پہ بیٹھے ہوئے وہ مفسر‘ محدث اور فقیہہ بھی بن جاتے ہیں۔
یہ ہے وہ گروہ جو نہیں جانتا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا رشتہ شماریات سے ماوریٰ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ قانون ناموس رسالت کو پیہم نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور بالخصوص غیر مسلموں کو ہدف بنایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں کون سا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ خود پیپلزپارٹی اب تک بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کا نام دیتی ہے۔ نواز شریف کو مشرف نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اپنی کٹھ پتلیوں سے عمر قید کی سزا دلوا دی تھی۔ اصلاح احوال مطلوب ہے تو پورے نظام قانون و انصاف کو معتبر بنایئے۔ صرف ناموس رسالت کے ضابطے کو ”کالا قانون“قرار دینے اور اٹھتے بیٹھتے اس کا تمسخر اڑانے سے صرف چنگاریاں ہی کاشت ہوں گی اور شعلے ہی اگیں گے۔
اس وقت تک‘ گزشتہ تیئس برس کے دوران‘ ناموس رسالت قانون کے تحت کل 964 مقدمات عدالتوں میں آئے۔ ان میں سے 479 کا تعلق مسلمانوں سے ‘340 کا احمدیوں‘ 119 کا عیسائیوں‘ 14 کا ہندؤں اور 12 کا دیگر سے تھا۔ تئیس برس کے دوران کسی ایک کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقدمات مضبوط نہ تھے اور یہ کہ قانون و انصاف نے اپنے تقاضوں سے روگردانی نہ کی۔ صرف یہی حقیقت اس قانون کی اہمیت اور افادیت کے لئے کافی ہے۔