غامدی نے ناموس رسالت قانون کو خلاف اسلام قرار دے دیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
مندرجہ ذیل پیغام اردو محفل کے رُکن اشفاق نیازی صاحب کی طرف سے ہے۔ کسی وجہ سے وہ خود اس زمرے میں پیغام پوسٹ نہیں کر سکے۔ انہوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں یہ مراسلہ ان کی طرف سے اس زمرے میں پوسٹ کر دوں۔ مزید یہ کہ میری طرف سے اسے کسی بھی فریق کی جانبداری نہ سمجھا جائے۔
==========================================================================================​

محترم شاكر صاحب۔ آپ كے فانٹس كي مہارت تو ديكھي تھي ليكن يہ دھاگہ اور آپكي مدلل تحريريں پڑھنے كے بعد ايمان تازہ ہوگيا۔ چند دن پہلے محترم عرفان صديقي كا حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايك كالم بعنوان "يہ معاملے ہيں نازك" پڑھا تھا۔ سارا دھاگہ پڑھنے اور باوجود كوشش كے اپنے آپ كو يہ كالم پوسٹ كرنے سے نہ روك سكا۔ چونكہ يہ ٣ اقساط ميں تھا اسلئے تھوڑا مختصر كر كے پيش ہے۔ اميد ہے كہ ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال طالبعلموں كي تشنگي دور نہيں ہوگي۔ اسلئے اگلي نشست ميں حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر چند احاديث كا حوالہ بھي پيش كرنے كي كوشش كروں گا۔ كالم ملاحظہ ہو۔

حیف اس پر جو انسانی زندگی کی حرمت کے بارے میں قرآن کی تعلیمات اور نبی کریم کے ارشادات کو پس پشت ڈال کر ریاست کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور صد حیف اُس پر جو نام نہاد روشن خیالی کے زعم میں ناموس رسالت جیسے معاملے کی حساسیت اور نزاکت کو نہیں سمجھتا اور احتیاط کے تقاضوں کو پامال کرتا ہے۔

جس طرح جان کی حرمت کا اصول غیر متنازعہ ہے اسی طرح اس امر کو بھی ایک لمحے کے لئے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہئے کہ محمد عربی کے ناموس کے معاملے کو عمومی تصورات کی عینک سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ وہ رشتہ ہے جسے کوئی نام دیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہ کسی کے عقیدے یا مسلک پر نشترزنی کرکے دل آزاری سے بھی بہت آگے کی بات ہے۔ جس کی بارگاہ ناز کی حضوری میں جنید بغدادی بایزید بسطامی جیسے جید بزرگان بھی حواس گنوا بیٹھیں اس کے ناموس کو این جی او اسٹائل میں بازاروں اور چوراہوں کا موضوع نہیں بنایا جاسکتا۔ شاعر کہتا ہے۔

ہزار باربشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام توگفتن کمال بے ادبیست​

(اپنے دہن اور زبان کو ہزاروں بار مشک و گلاب سے دھونے کے باجود آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام مبارک ادا کرنا کمال درجے کی بے ادبی لگتا ہے۔)

کائنات میں ایسا کون ہے جس کے ذکر کی رفعت و بلندی کي ضمانت اللہ نے دی ہو؟ کون ہے جس کے بارے میں رب ذوالجلال کا حکم آیا ہو کہ اے اہل ایمان! اپنی آوازیں اس کی آواز سے اونچی نہ کرو مبادا تمہارے سارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتہ ہی نہ چلے۔ حُب رسول اجزائے ایمانی میں سے ہے اور جزو بھی ایسا جس میں بال برابر کمزوری انسان کے سارے اعمال حسنہ پر پانی پھیر دیتی ہے۔

پاکستان میں صرف ناموس رسالت ہی کا قانون نہیں‘ یہاں تو صدر کے ناموس‘ گورنر کے ناموس‘ پاکستانی پرچم کے ناموس‘ عدلیہ کے ناموس‘ فوج کے ناموس اور نہ جانے کس کس کے ناموس کے قوانین بھی موجود ہیں۔ صدر اور گورنر کے ”ناموس“ کو اتنا کڑا تحفظ دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ یا کرلیں‘ انہیں عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔ فوج کے ناموس کی بے حرمتی‘ کے جرم میں ہی بہت سے سياستدان برسوں جیل میں سڑتے رہے۔ عدلیہ اپنے ناموس پر خراش آنے کا محاسبہ خود کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ کیا یہ کالا قانون نہیں کہ صدر اور گورنر‘ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور اُنہیں کٹہرے میں نہ لایا جاسکے؟ کیا اسلامی ملک میں ایسا قانون ہونا چاہئے؟

جہاں بھانت بھانت کے ”کالے قوانین“ کی کارفرمائی ہو اور بڑے بڑے منصبدار اُن قوانین کو اپنے کرتوتوں کی پناہ گاہ بنائے بیٹھے ہوں‘ وہاں نہ جانے کیوں ان ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال چيلوں کی نظر میں ناموس رسالت‘ ہی کا قانون کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا ہے اور ان ڈسكو سكالرز اور لبرل فاشسٹوں نے مسلم قوم کے جذبہ و احساس کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسی مہم شروع كر ركھي ہے جو کروڑوں دلوں كو گھائل كر رہي ہے۔

اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ كافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حرمت و عظمت سے کھیلنے کو ایک مشغلہ بنالیا ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی مکروہ واردات ہوتی رہتی ہے۔ سلمان رشدی اور تسلیم نسرین جیسے مکروہات کو انہوں نے ہیرو قرار دے کر تکریم و تعظیم کی مسندوں پر بٹھا رکھا ہے۔ اندرون ملک کسی غیر محتاط شخصیت کی طرف سے کسی ناروا عمل کا ردعمل اس لئے شدید ہوتا ہے کہ آتشکدہ پہلے ہی دہک رہا ہوتا ہے۔ اس ساری صورت حال کو مجموعی تناظرمیں دیکھنا ہوگا۔ اگر یہاں انتہا پسندی اور جنون کی کارفرمائی ہے تو صرف داڑھیوں اور پگڑیوں تک محدود نہیں‘ وہ لبرل فاشسٹ بھی ذمہ دار ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مقام بلند کا شعور ہی نہیں رکھتے۔ اور گز گز بھر لمبی زبانیں نکال کر انگارے اگلتے رہتے ہیں۔

بلاشبہ کسی جرم کو کسی دوسرے جرم کا جواز نہیں بنایا جاسکتا لیکن تانگے میں جتے گھوڑے کی طرح آنکھوں پہ کھوپے چڑھا کر صرف ایک ہی رُخ پہ دیکھنا بھی تو قرین انصاف نہیں۔ آنکھوں پہ کھوپے چڑھا لینے والی یک رخی سوچ کا المیہ یہ ہے کہ وہ کبھی صورت حال کا بے لاگ جائزہ نہیں لے سکتی۔ تقسیم کی لکیرگہری ہورہی ہے۔ روشن خیالی کا علمبردار‘ این جی او شعار لبرل طبقہ زیادہ زبان آور‘ زیادہ تعلیم یافتہ‘ زیادہ باوسیلہ‘ زیادہ خوشحال‘ زیادہ بااثر‘ بین الاقوامی رابطوں کے حوالے سے زیادہ بارسوخ‘ مغربی فکر سے زیادہ قریب اور میڈیا پر زیادہ حاوی ہے۔ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہنر سے بھی آشنا ہے اور اس کی تجوری بھی بھری ہوئی ہے۔ جدت پسندی‘ روشن خیالی اور ماڈرنزم کی دوڑ میں وہ سب کچھ روندتا ہوا آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر مذہب سے زبردست وابستگی رکھنے والی سادہ مزاج‘ نسبتاً تنگ دست اور اپنی تہذیبی اقدار سے محبت کرنے والی قوم کو مادر پدر آزاد گروہ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اُسے اس حقیقت کا بھی اندازہ ہے کہ مسلم قوم کا سب سے مضبوط گوشہ ”حُب رسول کریم “ہے۔ مغرب اپني توپیں اسی گوشہ پہ برساتا ہے اور ہمارا لبرل فاشسٹ طبقہ بھی مذہب سے براہ راست چھیڑ چھاڑ کرنے کي بجائے بڑی عیاری سے ناموس رسالت کے قانون پرضربیں لگاتا اور ہماری فصیل ایمان میں شگاف ڈالنا چاہتا ہے۔ انگریز نے بھی اسی حکمت عیار سے کام لیتے ہوئے قادیان میں جعلی نبوت کا بیج بویا تھا اور دل و جان سے اس کی پرورش کی تھی۔

لبرل سوشلسٹوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام کے خمیر اور ضمیر سے نابلد ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہر پاکستانی معاملات کو اُن کی آنکھ سے دیکھے‘ اُن کے دماغ سے سوچے‘ اُن کے دل سے محسوس کرے‘ وہ کمال مہارت سے دوسروں کو وحشی‘ اجڈ‘ گنوار‘ جاہل‘ انتہا پسند‘قدامت پرست اور جانے کیا کیا کچھ قرار دے کر خود کو عقل و دانش کا مرقع سمجھنے لگتے ہیں۔ لبرل ازم کی مسند ارشاد پہ بیٹھے ہوئے وہ مفسر‘ محدث اور فقیہہ بھی بن جاتے ہیں۔

یہ ہے وہ گروہ جو نہیں جانتا کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عقیدت و محبت کا رشتہ شماریات سے ماوریٰ ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ قانون ناموس رسالت کو پیہم نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور بالخصوص غیر مسلموں کو ہدف بنایاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں کون سا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ خود پیپلزپارٹی اب تک بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کا نام دیتی ہے۔ نواز شریف کو مشرف نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اپنی کٹھ پتلیوں سے عمر قید کی سزا دلوا دی تھی۔ اصلاح احوال مطلوب ہے تو پورے نظام قانون و انصاف کو معتبر بنایئے۔ صرف ناموس رسالت کے ضابطے کو ”کالا قانون“قرار دینے اور اٹھتے بیٹھتے اس کا تمسخر اڑانے سے صرف چنگاریاں ہی کاشت ہوں گی اور شعلے ہی اگیں گے۔

اس وقت تک‘ گزشتہ تیئس برس کے دوران‘ ناموس رسالت قانون کے تحت کل 964 مقدمات عدالتوں میں آئے۔ ان میں سے 479 کا تعلق مسلمانوں سے ‘340 کا احمدیوں‘ 119 کا عیسائیوں‘ 14 کا ہندؤں اور 12 کا دیگر سے تھا۔ تئیس برس کے دوران کسی ایک کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مقدمات مضبوط نہ تھے اور یہ کہ قانون و انصاف نے اپنے تقاضوں سے روگردانی نہ کی۔ صرف یہی حقیقت اس قانون کی اہمیت اور افادیت کے لئے کافی ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محترم شاكر صاحب۔ آپ كے فانٹس كي مہارت تو ديكھي تھي ليكن يہ دھاگہ اور آپكي مدلل تحريريں پڑھنے كے بعد ايمان تازہ ہوگيا۔ چند دن پہلے محترم عرفان صديقي كا حب رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم پر ايك كالم بعنوان "يہ معاملے ہيں نازك" پڑھا تھا۔ سارا دھاگہ پڑھنے اور باوجود كوشش كے اپنے آپ كو يہ كالم پوسٹ كرنے سے نہ روك سكا۔
کالم ملاحظہ ہو:
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔

پاکستان میں صرف ناموس رسالت ہی کا قانون نہیں‘ یہاں تو صدر کے ناموس‘ گورنر کے ناموس‘ پاکستانی پرچم کے ناموس‘ عدلیہ کے ناموس‘ فوج کے ناموس اور نہ جانے کس کس کے ناموس کے قوانین بھی موجود ہیں۔ صدر اور گورنر کے ”ناموس“ کو اتنا کڑا تحفظ دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ یا کرلیں‘ انہیں عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔ فوج کے ناموس کی بے حرمتی‘ کے جرم میں ہی بہت سے سياستدان برسوں جیل میں سڑتے رہے۔ عدلیہ اپنے ناموس پر خراش آنے کا محاسبہ خود کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ کیا یہ کالا قانون نہیں کہ صدر اور گورنر‘ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور اُنہیں کٹہرے میں نہ لایا جاسکے؟ کیا اسلامی ملک میں ایسا قانون ہونا چاہئے؟

جہاں بھانت بھانت کے ”کالے قوانین“ کی کارفرمائی ہو اور بڑے بڑے منصبدار اُن قوانین کو اپنے کرتوتوں کی پناہ گاہ بنائے بیٹھے ہوں‘ وہاں نہ جانے کیوں ان ماڈرن سكالرز اور ان كے روشن خيال چيلوں کی نظر میں ناموس رسالت‘ ہی کا قانون کانٹے کی طرح کیوں کھٹکتا ہے اور ان ڈسكو سكالرز اور لبرل فاشسٹوں نے مسلم قوم کے جذبہ و احساس کی پرواہ کئے بغیر ایک ایسی مہم شروع كر ركھي ہے جو کروڑوں دلوں كو گھائل كر رہي ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ہمارے ہاں کون سا قانون ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ خود پیپلزپارٹی اب تک بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کا نام دیتی ہے۔ نواز شریف کو مشرف نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت اپنی کٹھ پتلیوں سے عمر قید کی سزا دلوا دی تھی۔ اصلاح احوال مطلوب ہے تو پورے نظام قانون و انصاف کو معتبر بنایئے۔ صرف ناموس رسالت کے ضابطے کو ”کالا قانون“قرار دینے اور اٹھتے بیٹھتے اس کا تمسخر اڑانے سے صرف چنگاریاں ہی کاشت ہوں گی اور شعلے ہی اگیں گے۔
شمشاد آپ کا شکریہ! اور محترم اشفاق نیازی آپ کی محبت اور عنایت کی شکر گزاری کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ اجرکم عنداللہ ورسولہ الکریم۔
عرفان صدیقی صاحب کی تحریر کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا چلا گیا۔ ۔ ۔ اور زبان حال سے گویا ہے کہ ”جا این جاست“ در اصل یہی وہ نکات ہیں جو نام نہاد روشن خیال اور ماڈرن سکالرز اور ان کے بد نہاد و پر فساد چیلوں کی بدنیتی کو بے نقاب کرتے ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ”ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین“ اگر یہ صرف انسانی جان کی حرمت پر بات کریں اور دنیا بھر میں رائج مختلف قوانین میں سزائے موت کو ختم کرنے کی بات کریں تو شاید ان کی بات کا کوئی جواز تسلیم کیا جائے، لیکن جہاں دنیا بھر میں مختلف جرائم کےاندر سزائے موت موجود ہے وہاں صرف ناموس رسول کے قانون کے سلسلہ میں”انسانی جان کی حرمت“ اور کسی کو ”زندگی جیسی نعمت عظمی سے محروم کرنے“ کا رونا رویا جائے اور باقی قوانین کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے تو پھر اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض اسلام دشمنی ہے،بد نیتی ہے اور کج فکری ہے۔
 

سویدا

محفلین
دل سے دعا ہے کہ اللہ شاکر القادری صاحب ، اشفاق نیازی صاحب اور عرفان صدیقی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میری درخواست ہوگی کہ اس طرح فورم کے قواعد کو بائی پاس نہ کیا جائے۔ شکریہ۔
قواعد و ضوابط

آداب
اردو ویب محفل انتظامیہ کی طرف سے تمام ارکان کو خوش آمدید۔ محفل پر پیغامات ارسال کرنے سے پہلے تمام اراکین کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ مندرجہ ذیل قواعد و ضوابط کا مطالعہ کر لیں تا کہ مستقبل میں کسی قسم کا کوئی ابہام پیدا نہ ہو۔

  • ارکان ایسا کوئی مواد ارسال کرنے سے گریز کریں جس سے دوسروں کی دل آزاری کا خدشہ ہو۔
  • کسی بھی قسم کی لغو گفتگو، دھمکی آمیز پیغامات اور گالی گلوچ کی قطعی اجازت نہیں۔
  • اگر آپ کسی کی رائے سے متفق نہیں ہیں تو اس کا جواب دیتے وقت اعلی ظرفی کا مظاہرہ کریں اور ذاتیات پر حملہ مت کریں۔
  • تمام دیگر ارکان کی عزت کا خیال ہر وقت دھیان میں رکھیں۔
  • ایسا کوئی مواد جو کاپی رائٹ کے تحت آتا ہو، کو محفل میں ارسال مت کریں۔
  • ایسا کوئی مواد جس سے کسی گروہ، مذہب ، فرقے ، قوم یا ملک کی دل آزاری کا پہلو نکلتا ہو، کو ارسال مت کریں۔
  • اردو محفل کا کوئی مذہب یا عقیدہ نہیں ہے۔ یہاں مسلمان، ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی، atheist، احمدی، مورمن، بہائی، agnostic، وکا (wicca) یا کوئی اور سب welcome ہیں۔ تمیز اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر کوئی اپنے عقیدے اور مذہب پر یہاں بات کر سکتا ہے۔
  • چونکہ اردو محفل پر عموماً اظہارِ رائے کی آزادی ہے اس لئے یہاں پوسٹ ہونے والے نظریات کو محفل کے نظریات نہ سمجھیں بلکہ صرف اس رکن کے جس نے وہ پوسٹ کی ہو۔
  • کسی جاری گفتگو کے دوران ایسے روابط ارسال کرنے سے پرہیز کریں جن کا گفتگو سے تعلق نہ ہو۔
  • بحث برائے بحث سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کریں کیونکہ اس سے ناراضگی پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
  • ایسا کوئی پیغام یا مضمون جسے آپ اس محفل کے شایانِ شان نہ پائیں، بجائے اس پر خود سرزنش کے، انتظامیہ کو اس سے آگاہ کریں۔
  • براہ کرم کسی قسم کی ذاتی معلومات جیسے کہ اپنا پتا یا فون نمبر ارسال مت کریں جس سے تمام لوگوں کی اس تک رسائی ممکن ہو سکے۔ اگر آپ اپنی معلومات کا تبادلہ کسی دوسرے رکن کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں تو ذاتی پیغامات کا استعمال کریں۔
  • اردو ویب کی انتظامیہ (ناظمین اور منتظمین) کو کسی پیغام میں ردوبدل اور اسے حذف کرنے کا پورا پورا اختیار ہے۔ اور اس بارے میں وہ کسی کو جوابدہ نہیں سوائے انتظامیہ کے۔ اگر آپ محسوس کریں کہ کسی ناظم نے آپ سے زیادتی کی ہے تو آپ ناظم اعلی نبیل، آصف یا زکریا کو اس سے آگاہ کریں۔
  • اگر کوئی رکن قوائد کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تو اس کو انتظامیہ کا کوئی رکن تنبیہ کر سکتا ہے، اس کے باوجود اگر متعلقہ رکن باز نہیں آیا تو اس پر جزوقتی پابندی جو کہ دو ہفتہ کی میعاد پر محیط ہو سکتی ہے یا مکمل پابندی لگائی جا سکتی ہے۔



اللہ تعالی غامدی صاحب کو اپنی حفاظت میں رکھیں۔ آمین۔ یہاں اسلام کے ٹھیکے دار منافق ملا جس کو مرضی کافر قرار دے دیں انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور بہتر ہوگا کہ امت اور جسارت جیسے چیتھڑے اخباروں کے تراشے یہاں پوسٹ کرنے کا سلسلہ بھی ختم کیا جائے۔

نبیل بھائی ابتدا تو یہیں سے ہوئی۔ میرا خیال ہے اس سے زیادہ سخت الفاظ تو کسی نے استعمال نہیں کیے ۔ کیا یہاں بھی صدر اور گورنر کے استثنا کا قانون موجود ہے:)
 

فخرنوید

محفلین
نبیل بھائی ابتدا تو یہیں سے ہوئی۔ میرا خیال ہے اس سے زیادہ سخت الفاظ تو کسی نے استعمال نہیں کیے ۔ کیا یہاں بھی صدر اور گورنر کے استثنا کا قانون موجود ہے:)

میں نے یہاں اکثر دیکھا ہے کہ ایڈمن حضرات اپنے قوانین اپنے لئے نرم کر لیتے ہیں۔ اور کسی کو قابو کرنے کے لئے بھی قانون کو مروڑ لیتے ہیں۔
 
نبیل بھائی ابتدا تو یہیں سے ہوئی۔ میرا خیال ہے اس سے زیادہ سخت الفاظ تو کسی نے استعمال نہیں کیے ۔ کیا یہاں بھی صدر اور گورنر کے استثنا کا قانون موجود ہے:)
جناب شاکر القادری صاحب مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ سیکولر ذہنیت کے بندوں کو ادھر کھلی چھوٹ ہے آپ اس لنک http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?32640-گورنر-پنجاب-سلمان-تاثیر-کا-قتل/page4پر پوسٹ نمبر 37 چیک کریں جس کا حوالہ میں نیچے دے رہا ہوں۔
ذلیل خوار تو اللہ تعالیٰ نے پاکستان اور پاکستانیوں کو بالخصوص اور عصر حاضر کے مسلمانوں کو بالعموم کررکھا ہے دنیا بھر میں ، اقوام عالم میں۔
بے شک اللہ کی طرف سے بھیجی گئی یہ ذلت برحق ہے۔
جب میں نے اس بندے کو جواب دیا تو نبیل نے مجھے وارننگ جاری کردی جب کہ وہ شخص جس نے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص ذلیل کہا اس کو کچھ بھی نہ کہا اور اس بات کا منہ بولتا ثبوت اس کا بیان ہے جو کہ ابھی تک ریکارڈ پر مؤجود ہے اور ان کو کچھ اس لیئے نہیں کہا جاتا ہے کیونکہ ان لوگوں یعنی سیکولر ذہنیت کے لوگوں کو بالعموم اور یورپین نیشنیلٹی ہولڈرز کو بالخصوص استثناء حاصل ہے:)
 
میری درخواست ہوگی کہ اس طرح فورم کے قواعد کو بائی پاس نہ کیا جائے۔ شکریہ۔

اس پیغام کا مطلب جو ہم نے سمجھا تھا وہ یہ تھا کہ موصوف "اشفاق نیازی" صاحب غالباً پیغامات کی تعداد کم ہونے کی بنا پر اس زمرے میں پوسٹ کر پانے سے قاصر ہیں لہٰذا انہوں نے اپنی بات پہونچانے کے لئے شمشاد بھائی کے ذاتی پیغام کو ذریعہ بنایا۔ جو ایک طرح کا بائی پاس ہے اور دوسرے اراکین جو ان زمروں میں کسی بھی سبب پوسٹ کرنے کے اہل نہیں وہ اس پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ہوں گے کیوں کہ ان کے پاس بھی ان کی سوچ کے مطابق کئی موضوعات پر مدلل باتیں ہوں گی لکھنے کو پر ان کے ہاتھ محفل کے قواعد کے باعث رکے ہوئے ہیں۔

جہاں تک سوال ہے جانبداری کا تو اس کے بارے میں ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ اردو محفل فورم مجموعی طور پر جانبدار نہیں ہے۔ واضح رہے کہ محفل صرف منتظمین ہی نہیں بلکہ سبھی اراکین کے مجموعے کا نام ہے۔ ہاں یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ ہر شخص کا ایک مخصوص انداز فکر ہوتا ہے پھر خواہ وہ عام رکن ہو یا ایڈمن۔ اور یہی چیز آئیڈیل غیر جانبداری کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہے جو کہ بالکل فطری بات ہے۔ لیکن الحمد للہ اردو محفل کی انتظامیہ میں کئی مکاتب فکر اور مختلف رائے رکھنے ولے احباب شامل ہیں جن میں یوروپین، امریکی، خلیجی، ہندوستانی اور خالص پاکستانی بھی موجود ہیں۔ یہاں خالص سے ہماری مراد ایسے احباب سے ہے جنھوں نے بیرون ملک کا کبھی سفر نہیں کیا چہ جائیکہ رہائش پذیر ہونا۔ اور یقین مانیں کہ منتظمین ایک دوسرے سے نہ صرف مشورہ کرتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر تنبیہ بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کی پیغامات حذف بھی کرتے ہیں۔ غیر مناسب اقدامات اٹھانے پر اس کی جواب طلبی بھی ہوتی ہے اور اس عمل سے کوئی بھی منتظم مبرا نہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ فطری شخصی جانبداری کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے زیادہ مناسب طریقہ سے کوئی غیر جانبدارانہ نظام تیار کیا جا سکتا ہے۔

کئی دفعہ مصروفیات یا عدم دلچسپی کے باعث سبھی منتظمین کو سبھی باتوں کا علم نہیں ہو پاتا اس لئے بعض دفعہ باہمی مواخذہ کا یہ نظام جھول کا شکار ہو سکتا ہے۔ اور ہم اس کے لئے بارہا احباب سے گذارش کر چکے ہیں کہ تکلیف دہ اور غیر مناسب پیغامات کی رپورٹنگ واضح سبب کے ساتھ ضرور کیا کریں اس سے منتظمین کے متوجہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ رپورٹ کردہ تمام پیغامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالا ہی جائے لیکن کم از کم اس طرح آپسی مشاورت کے ذریعہ منتظمین ایک فیصلے تک پہونچ سکتے ہیں۔

ایک اور درخواست ہے کہ کسی بھی شخص کو خواہ وہ عام محفلین ہوں، مدیر یا منتظم، اگر ان کے خلاف کوئی بات ذہن میں ہو اور اس پر ان کی جواب طلبی چاہیں تو بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ذاتی پیغامات یا کسی اور پرائیویٹ چینل پر بات رکھیں اس طرح معذرت خواہی یا غلطی تسلیم کرنا بھی سہل ہوتا ہے اور اگر کوئی جواز ہو تو وہ بھی بتانا آسان ہوتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ جبکہ پبلک فورم میں کسی پر بھی کھلے الفاظ میں طنز و تشنیع یا جواب طلبی عموماً ہتک عزت اور ضد جیسے فطری اسباب کے چلتے انتہائی تلخ انجام کا شکار ہوتی ہے۔

ہم نے یہ تمام باتیں اپنی ذاتی سوچ کے مطابق کہی ہیں۔ یہ کسی طور دوسرے منتظمین پر اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہیں ہیں۔ احباب نے جن کو چیلینج کیا ہے اگر وہ مناسب اور ضروری سمجھیں گے تو اپنی صفائی میں کچھ ضرور کہیں گے۔

ہمیں امید ہے کہ اس موضوع کا پاس کرتے ہوئے اصل گفتگو کو جاری رکھا جائے گا۔ اور ایسے سوالات آراء و شکایات کے زمرے کے لئے اٹھا رکھے جائیں گے۔
 

رانا

محفلین
جب میں نے اس بندے کو جواب دیا تو نبیل نے مجھے وارننگ جاری کردی جب کہ وہ شخص جس نے مسلمانوں کو بالعموم اور پاکستانیوں کو بالخصوص ذلیل کہا اس کو کچھ بھی نہ کہا اور اس بات کا منہ بولتا ثبوت اس کا بیان ہے جو کہ ابھی تک ریکارڈ پر مؤجود ہے اور ان کو کچھ اس لیئے نہیں کہا جاتا ہے کیونکہ ان لوگوں یعنی سیکولر ذہنیت کے لوگوں کو بالعموم اور یورپین نیشنیلٹی ہولڈرز کو بالخصوص استثناء حاصل ہے:)

روحانی بابا! عثمان نے واقعی غلطی کی جو اسطرح کی بات نثر میں کردی مگر بےچارہ مجبور ہے اسے شاعری نہیں آتی ورنہ یہی بات اگر وہ شاعری کی زبان میں کرتا تو آپ نے اسے سر آنکھوں پر بٹھانا تھا۔ عجیب منطق ہے ایک ہی بات نثرمیں بُری میں شاعری میں مستند۔ ذرا موازنہ کریں اقبال کے اورعثمان کے الفاظ کا، کیا فرق ہے دونوں میں:

ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں
اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو
بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر


کیا فرق ہے دونوں میں؟ لیکن آپ کہہ دیں گے کہ اقبال نے بھی غلط کہا۔ جبکہ مسلم امت کی بے توقیری اور بے وقعتی دیکھ کر ہرمسلمان کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور زبان پر یہ نوحے آہی جاتے ہیں۔ لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ خدانخواستہ وہ بھی غیروں کی طرح برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ غیروں کے کہنے میں اور اپنوں کے کہنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک نافرمان بیٹے کو باپ خود سخت سست کہہ لیتا ہے لیکن کوئی دوسرا کہے تو اس سے لڑنے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اس کے پیچھے محبت کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے نہ کہ توہین کا۔
 
رانا جی گفتگو کے دوران الفاظ کا چناؤ ہی تو تہذیب یا مہذب ہونے کی عکاسی کرتا ہے ورنہ اگر آپ کے گھر کوئی مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنے کے بعد یعنی جب وہ کھانا کھا چکے تو آپ اس کو اس طرح کہیں:
جناب آپ سیر ہوچکے ہیں
اوئے کھانا پیٹ کا دوزخ بھر گیا ہے یا مزید ایندھن لاؤں
پھر اس کے تاثرات نوٹ کرکے بتائیے گا۔۔۔۔شکریہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
نبیل بھائی ابتدا تو یہیں سے ہوئی۔ میرا خیال ہے اس سے زیادہ سخت الفاظ تو کسی نے استعمال نہیں کیے ۔ کیا یہاں بھی صدر اور گورنر کے استثنا کا قانون موجود ہے:)

شاکرالقادری صاحب، آپ میرے بزرگ اور محترم دوست ہیں، اور آپ کا احترام کے باعث ہی میں نے خاموشی اختیار رکھی ہے۔ آپ مجھے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ آپ کا یہ غیر ضروری جارحانہ رویہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ جہاں تک فورم کے قواعد کو بائی پاس کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت ابن سعید کر چکے ہیں۔ فورم کے کچھ زمرہ جات میں پوسٹ کرنے کے لیے پیغامات کی تعداد کی ایک حد مقرر ہے اور ہم نے کبھی بھی اس حد کو نرم نہیں کیا ہے۔ اگر ناظمین ہی دوسرے اراکین کی پراکسی بننے لگ جائیں تو اس طرح وہ اپنے اور دوسروں کے لیے مشکل ہی پیدا کریں گے۔ اور جہاں تک میری اس تھریڈ میں پہلی پوسٹ کا تعلق ہے تو میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ غامدی صاحب کو اپنی حفاظت میں رکھیں۔ ویسے بھی یہ دھاگہ ایک سپیم پوسٹ کی پیداوار ہے جسے آن سائٹ حذف کر دیا جانا چاہیے تھا۔ آپ کو غامدی صاحب کے لیے دعا کرنے یا امت اور جسارت پرتنقید کرنے پر غصہ آیا ہے تو میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔

جہاں تک روحانی اور اس قسم کے دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو اس قسم کی گھٹیا ذہنیت کا جواب دینا میں پسند نہیں کرتا ہوں۔ بہتر ہوگا کہ وہ سکون سے فورم پر وقت گزاریں۔ یہ جو وارننگ کا تمغہ سینے پر سجائے پھر رہا ہے وہ کوئی بڑی بہادری نہیں ہے۔
والسلام
 

شمشاد

لائبریرین
میں یہ بھی کر سکتا تھا کہ وہ پیغام میں اپنے نام سے ہی پوسٹ کر دیتا تو کسی کو کیا خبر ہوتی۔ لیکن میں کسی کا کریڈٹ نہیں لینا چاہتا تھا۔ وہ پیغام چونکہ اس دھاگے کی مناسبت سے تھا، اور انتہائی مناسب کالم تھا اس لیے میں اپنے آپ کو پوسٹ کرنے سے نہ روک سکا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شمشاد بھائی، بہتر تو یہ ہے کہ اگر کسی نے بات کرنی ہے تو خود سے پوسٹ کرے۔ یا پھر عرفان صدیقی صاحب کو یہاں بلا لیں تاکہ ان سے بات کر لی جائے۔ دوسروں کے کالم کاپی پیسٹ کرنا کونسا کارنامہ ہوتا ہے؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شاکرالقادری صاحب، آپ میرے بزرگ اور محترم دوست ہیں، اور آپ کا احترام کے باعث ہی میں نے خاموشی اختیار رکھی ہے۔ آپ مجھے کئی سالوں سے جانتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کی کتنی عزت کرتا ہوں۔ آپ کا یہ غیر ضروری جارحانہ رویہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ جہاں تک فورم کے قواعد کو بائی پاس کرنے کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت ابن سعید کر چکے ہیں۔ فورم کے کچھ زمرہ جات میں پوسٹ کرنے کے لیے پیغامات کی تعداد کی ایک حد مقرر ہے اور ہم نے کبھی بھی اس حد کو نرم نہیں کیا ہے۔ اگر ناظمین ہی دوسرے اراکین کی پراکسی بننے لگ جائیں تو اس طرح وہ اپنے اور دوسروں کے لیے مشکل ہی پیدا کریں گے۔ اور جہاں تک میری اس تھریڈ میں پہلی پوسٹ کا تعلق ہے تو میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ وہ غامدی صاحب کو اپنی حفاظت میں رکھیں۔ ویسے بھی یہ دھاگہ ایک سپیم پوسٹ کی پیداوار ہے جسے آن سائٹ حذف کر دیا جانا چاہیے تھا۔ آپ کو غامدی صاحب کے لیے دعا کرنے یا امت اور جسارت پرتنقید کرنے پر غصہ آیا ہے تو میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔

جہاں تک روحانی اور اس قسم کے دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو اس قسم کی گھٹیا ذہنیت کا جواب دینا میں پسند نہیں کرتا ہوں۔ بہتر ہوگا کہ وہ سکون سے فورم پر وقت گزاریں۔ یہ جو وارننگ کا تمغہ سینے پر سجائے پھر رہا ہے وہ کوئی بڑی بہادری نہیں ہے۔
والسلام
نبیل! اللہ کریم آپ کو اجر خیر دے، میں آپ کا دل و جان سے احترام بھی کرتا ہوں اور میرا ہر بن مو آپ کا شکر گزار بھی ہے، مجھے آپ کی جانب سے جو تعاون و رہنماری حاصل رہی ہے میں اس کا القلم پر بھی اور یہاں پر بھی بر ملا اظہار کرتا ہوں، میں نے ہمیشہ اردو محفل کو اپنا پہلا گھر سمجھا ہے اور اس لحاظ سے میری زیادہ تر سرگرمی یہاں پر ہی رہتی ہے میں حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ محفل پرکسی قسم کے مناظرہ سے دور ہی رہوں، لیکن اس تھریڈ میں مجھے بات کرنا پڑی، اس کو آپ یوں سمجھ لیجئے کہ میری دانست میں میں اگر اس موضوع پر گفتگو میں حصہ نہ لیتا تو شاید میں اپنے ضمیر کے سامنے تا قیامت شرمندہ و خجل رہتا، اس لیے جہاں تک ممکن ہوا میں نے شائستگی کے ساتھ علمی اور دلائل پر مبنی گفتگو جاری رکھی، جب تک ابن سعید بھائی کی طرف سے فورم کے قوانین کو بائی پاس کرنے کی وضاحت نہ آئی تھی تب تک میں اپنے آپ میں خجالت محسوس کر رہا تھا کہ شاید میرے الفاظ میں سے کوئی آپ کو ناگوار گزرا ہو، سو میں نے ہلکے پھلکے انداز میں ایک عدد مسکراہٹ کے ساتھ شکایت کر ڈالی، اور میری شکایت اپنے تئیں اس لیے بجا تھی کہ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ محفل پر مناظروں کے دوران لوگ ایک دوسرے کو بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور میں نے تو ایسی کوئی حد کراس نہ کی تھی۔ بہر حال ابن سعید کی وضاحت کے بعد مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بعض اوقات انسان کو غلط فہمی بھی ہہو جاتی ہے سو میری اس غلط فہمی کو نظر انداز کر دیجئے، روحانی بابا یا دوسرے لوگوں کی بات میں نہیں کرتا مجھے تو اپنی بات کرنا ہے اور میں اپنے محسن کو ناراض کرنے والے لوگوں میں سے نہیں ہوں اسلیے میری معذرت قبول کیجئے، آپ سے معذرت خواہی پر نہ تو مجھے کوئی شرمندگی ہے اور نہ ہی میری عزت نفس مجروح ہو گی، میں ہمیشہ کی طرح آپ کا دعا گو ہوں اور رہونگا میرا محفل سے اٹوٹ رشتہ ہے اور یہاں تو میں آتا ہی رہونگا
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی، بہتر تو یہ ہے کہ اگر کسی نے بات کرنی ہے تو خود سے پوسٹ کرے۔ یا پھر عرفان صدیقی صاحب کو یہاں بلا لیں تاکہ ان سے بات کر لی جائے۔ دوسروں کے کالم کاپی پیسٹ کرنا کونسا کارنامہ ہوتا ہے؟

یہاں تو بہت سے اراکین کالم نقل کر کے چسپاں کرتے ہیں، بلکہ زمرہ بھی موجود ہے، اب کتنے کالم نگاروں کو یہاں بلائیں گے؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
آپ نے شاید دھیان نہیں کیا ہے۔ یہاں کوئی ایسا زمرہ موجود نہیں ہے جہاں کالم کاپی پیسٹ کیے جائیں۔ البتہ آپ کے کالم فورم میں طبع زاد کالم پوسٹ کیے جا سکتے ہیں، اور اس کے لیے بھی پیغامات کی حد موجود ہے۔ اور کالم شئیر کرنے کا بہتر طریقہ اس کا اقتباس پیش کرکے اس ربط فراہم کرنا ہے۔ اس کی کئی مرتبہ وضاحت کی جا چکی ہے۔ دوسرے کیا نذیر ناجی اور کیا عرفان صدیقی، سبھی اپنے مفادات کے تحت دانش فروشی کا کام کر رہے ہیں۔

ایک اور گزارش کیے دیتا ہوں۔ اگر کسی کو غامدی صاحب سے کوئی علمی اختلاف ہے تو اسے شائستگی کی حد تک محدود رکھیں اور اس کے اظہار میں اپنا لہجہ بھی معتدل رکھیں۔شکریہ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اب اس دھاگہ کو بند ہی کر دیا جانا چاہیئے، ویسے بھی غامدی صاحب کے اس نظریہ کے خلاف کافی دلائل دیے جا چکے ہیں اور ظفری جو کہ سوالات اٹھا رہے تھے وہ بھی موجود نہیں ہیں۔ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک مجھ سے براہ راست کوئی اس دھاگے میں سوال نہیں کرے گا میں یہاں پر کچھ پوسٹ نہیں کرونگا، لیکن چند معروضات ضرور عرض کروں گا اس موضوع میں جوبحث ہوئی اس میں جن جن شرکأ نے حصہ لیا ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جو محض یہاں جذبات بھڑکانے اور انتشار پھیلانے کی غرض سے ایک ایک یا دو دو لائینیں لکھ کر چلے گئے ان کے پاس نہ تو دلائل تھے اور نہ ہی کوئی منطق، محض شرارت آمیز جملے تھے جو وہ لکھ گئے، مجھے خوشی ہوگی اگر انتظامیہ ایسے مراسلوں پر توجہ دے مثال کے طور پر اسی موضوع کا مراسلہ نمبر 13 جو کہabdullah007 صاحب نے ارسال کیا ہے۔
جو دلائل یہاں پر دئے گئے ان کے مطابق:

  • قرآن کریم میں حرمت و ناموس رسالت کاقانون موجود ہے سورہ احزاب کی آیات 57 تا 62 جنکی تفسیر و تشریح میں تمام متقدمین اور متاخرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ گستاخان رسول کے بارے میں نازل ہوئی ہیں
  • عبداللہ بن ابی سرح کے وقعہ سے واضح ہوا کہ گو کہ نبی کریم نے اس کی جانب سے بار بار امان طلب کرنے پر کافی توقف کے بعد امان تو دے دی لیکن آپ نے یہ وضاحت بھی فرمادی کہ میں نےاس قدر توقف محض اس لیے کیا تھا کہ کوئی اٹھ کر اس کا کام تمام کر دے، اس واقعہ یہ نبی اکرم کے معاف کر دینے کا حق اور جرم کی نوعیت و سزا دونوں کا اسبات ہوتا ہے
  • یہ بات بھی دلائل کے ساتھ سامنے آئے کہ امت مسلمہ ہر دو میں اس بات پر متفق رہی ہے اور اسی کو اجماع کا نام دیا جاتا ہے اور نبی اکرم کا یہ ارشاد بھی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت کے تمام طبقے کسی غلط بات پر جمع نہیں ہو سکتے
  • یہ بات آج بھی عملی طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ امت کے تمام طبقات باوجود شدید اختلافات کے اس مسئلہ پر متحدو متفق ہیں اور ڈیڑھ ہزار سال سے تواتر کے ساتھ ہونے والے اجماع کا مظاہرہ آج کھلی آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
  • یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی 99 فیصد جمہور اس قانون کی حامی ہے
  • یہ بات بھی ثابت ہو چکی کہ شورائی نظام کے تحت وجود میں آنے والے قوانین کو شریعت تحفظ دیتی ہے اگر وہ اسلامی اصولوں کے خلاف نہ ہوں
  • یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ دنیا بھر میں مختلف جرائم میں موت کی سزا دی جا رہی ہے
  • یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ خود بائبل میں تو ہین انبیا کا قانون موجود ہے
  • اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ ہر ملک اور ریاست کے آئین اور قانون کے خلاف بات کرنا بغاوت کا جرم مانا جاتا ہے اور اس کی سزا اکثر و بیشتر ممالک میں موت ہے
  • یہ بات بھی کہی جا چکی ہے کہ تاج برطانیہ کی حرمت کا قانون بھی موجود ہے
  • لہذا
ان تمام باتوں کے اثبات کے بعد محض توہین رسالت کے قانون کے خلاف اپنی دانش و حکمت کا مظاہر کرنا اور باقی ”کالے قوانین“ سے پردہ پوشی کرنا کچھ مخصوص مقاصد کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس قانوں کو ختم کر نا یا اس سزا کو تبدیل کرنا انتہائی غیر مناسب ہوگا

  • البتہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس قانون کے تحت کسی بے گناہ کو سزا نہ ہو مزید قانون سازی کر لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں
میں اپنے ان اختتامی جملوں کے ساتھ اپنے دلائل کو ختم کر رہا ہوں اور اب اسی صورت میں کوئی بات کرونگا جب مجھ سے براہ راست کوئی سوال ہوگا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
شکریہ شاکرالقادری صاحب۔ اگر کل تک ظفری نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو پھر میں ہی اس تھریڈ کو مقفل کر دوں گا۔
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ شاکرالقادری صاحب۔ اگر کل تک ظفری نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تو پھر میں ہی اس تھریڈ کو مقفل کر دوں گا۔

نبیل بھائی ! بات بہت واضع ہے ۔ موضوع غامدی صاحب کے حوالے سے سے تھا ۔ انہوں نے اس آئینی قانون پر تنقید کی ہے ۔ ان کا منشاء بھی یہی تھا کہ ناموسِ رسالت کے بارے میں جو کچھ بھی ہم سے ہوسکتا ہے ہم کریں گے ۔ مگر جس طرح یہ قانون اپنی اصطلاح میں موجود ہے ۔ اور اس کے اطلاق پر جس طرح کی پیچیدگیاں ہو رہیں ہیں ۔ اس سے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آئینی قانون میں کہیں ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں ۔ ایسے جرائم میں ملزم کا اقرار بہت اہم ہوتا ہے ۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہے ۔ اور پھر میں نے مسٹر فرانسس کے اعداد وشمار بھی اپنی پوسٹ نمبر 85 میں پوسٹ کیئے کہ مسئلہ کہاں ہورہا ہے ۔ لوگ اس قانون کے اطلاقی اصول میں بھی قرآن وسنت کو لیکر آگئے ۔
قصہ مختصر یہ کہ جب آپ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ جس نے اس قانون پر تنقید کی ہے ۔ اس کی کوئی بات نہیں سننی ، کوئی استدلال ، کوئی دلائل کسی ثبوت کا جواب نہیں دینا ۔ اور جو اس اہم نکتے کو سمجھنے کی کوشش کرے جس کی غامدی صاحب صاحب نے اشارہ کیا ۔ وہ بھی لعنت و مطلعون ٹہرے ۔ تو پھر کیسی بحث ۔ ؟ آپ نے دلائل اور ثبوت کے انبار لگا دیئے ۔ جب کوئی اور دوسری طرف سے کھڑا ہوکر اپنے دلائل اور استدلال تو دینا دور کی بات صرف تمہید ہی باندھے تو اس کو یہ کہہ کر کہ آپ غامدی کے پیروکار ہیں ۔ اس کی ہر بات رد کردیں تو پھر ایسی بحث کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
غامدی صاحب کے ایک ہونہار شاگرد نے ہی توہینِ رسالت پر ایک پُر سیر مضمون لکھا تھا ۔ اور بہت ہی سیر حاصل دلائل دیئے تھے ۔ ان کا بھی یہی منشاء تھا۔ جو یہاں لوگ فرما رہے ہیں ۔ مگر یہاں جس طرح بحث کے تسلسل کو توڑا گیا ۔ اور اپنی بات “ اپنے انداز “ میں تھوپنے کی کوشش کی گئی ۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسی صورتحال میں وہ مضمون میں یہاں پوسٹ کرنے کے قابل ہے ۔
تقلید کے حوالے سے میں نے اپنا نکتہِ نظر بیان کیا تھا ۔ مگر اس کا جواب مجھے بلکل ایک نئے فہم میں ملا ۔ جبکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ جو میں نے کہا اور اس کے جواب میں کس بھی طور کسی قسم کی مماثلت نہیں ہے ۔ جب آپ کسی کی بات سمجھ ہی نہیں رہے تو پھر بحث کیسی ۔ بقول آبی ٹوکول ( عابد بھائی ) :
یہاں پر ہر کسی کو بلکہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو فلاسفر بننے کا شوق ہے لہذا وہ کسی بھی دقیق سے دقیق تر بلکہ خالصتا علمی و قانونی و فقہی معاملات میں اپنی تانگ اڑانا تمام اہم فرائض سے بھی اہم گردانتا ہے ۔
اس سے آگے کا جملہ انہوں نے اخلاقاِ لکھا ہے ۔ ( جو میں نے کوٹ نہیں کیا ) ۔ ورنہ وہ اپنی بات ختم کرچکے تھے ۔
سو بہتر ہے اس دھاگے کو مقفل ہی کردیں کہ ایسی صورت میں بحث کسی بھی طور جاری رکھی نہیں جاسکتی ۔
والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
نبیل بھائی ! بات بہت واضع ہے ۔ موضوع غامدی صاحب کے حوالے سے سے تھا ۔ انہوں نے اس آئینی قانون پر تنقید کی ہے ۔ ان کا منشاء بھی یہی تھا کہ ناموسِ رسالت کے بارے میں جو کچھ بھی ہم سے ہوسکتا ہے ہم کریں گے ۔ مگر جس طرح یہ قانون اپنی اصطلاح میں موجود ہے ۔ اور اس کے اطلاق پر جس طرح کی پیچیدگیاں ہو رہیں ہیں ۔ اس سے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آئینی قانون میں کہیں ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں ۔ ایسے جرائم میں ملزم کا اقرار بہت اہم ہوتا ہے ۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہے ۔ اور پھر میں نے مسٹر فرانسس کے اعداد وشمار بھی اپنی پوسٹ نمبر 85 میں پوسٹ کیئے کہ مسئلہ کہاں ہورہا ہے ۔ لوگ اس قانون کے اطلاقی اصول میں بھی قرآن وسنت کو لیکر آگئے ۔

السلام علیکم ظفری بھائی ! معذرت کہ ساتھ عرض کروں گا کہ میں نے محترم غامدی صاغب کو اس موضوع پر پڑھا تو نہیں ہے البتہ سنا بہت ہے مختلف ٹی وی چینلز کہ حوالہ سے ۔ ۔ ۔ آپ فرما رہے ہیں کہ انھوں نے اس قانون کی آئینی حیثیت نیز اس کے نفاذ کہ اندر جو پیچیدگیاں ہیں فقط انکے حوالہ سے تنقید کی ہے تو عرض ہے کہ میرے بھائی ایسا نہیں ہے اگر فقط ایسا ہی ہوتا تو ہمیں محترم غامدی صاحب سے کوئی اختلاف نہ ہوتا بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انھے تو اس قانون کے باقاعدہ قانون ہونے پر ہی اعتراض ہے اور اسکی امت مسلمہ میں جو متفق علیہ حیثیت بطور سزائے موت ہے کہ وہ تو سرے اسکا ہی انکار کردیتے ہیں بلکہ وہ تو چند ایک فقہی اقوالات کو لیکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فقہائے امت نے اس قانون کو باقاعدہ قانون کی حیثیت سے آج تک کہیں بیان ہی نہیں کیا تبھی تو آپ کی شئر کردہ ویڈیو میں وہ اس قانون کا مسئلہ ارتداد کہ “ تَتِمَّہ “ کہ بطور پیش کرنا فقہاء کی طرف منسوب کرتے ہیں میرے بھائی آپ کے علم اگر ایسے شرعی دلائل ہیں کہ جن سے یہ ثابت ہو کہ علم شریعت میں اس قانون کی سزا قتل نہیں تو آپ بلا شبہ فکر غامدی سے اخذ کرتے ہوئے اسے اپنے الفاظ میں یہان پیش کریں ان شاء اللہ احسن پیرائے میں گفتگو کی جائے گی ہم آپ پر واضح کریں گے کہ کس طرح سے خود غامدی صاحب کہ خود اپنے اصولوں سے ہی قانون توہین رسالت کا بطور حد کہ نافذ کیا جانا ہے ہی معتبر ٹھرتا ہے والسلام ۔ ۔ ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top