غامدی نے ناموس رسالت قانون کو خلاف اسلام قرار دے دیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

دوست

محفلین
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین پر پھر سے غور کرنے سے ڈرتے ہیں۔ شش شش کہہ کر، ان کے رتبے اور فضیلت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قریب ہونے کا ڈراوا دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ دین کے ذرائع ان کے پاس بھی وہی تھے جو آج ہمارے پاس ہیں۔ عقل و علم ان کے پاس بھی تھا جو آج ہمارے پاس بھی ہے۔ زمانہ ان کا وہ نہیں تھا جو آج ہمارا ہے۔ اس دور کے تقاضے اور تھے، آج کے تقاضے نئے اجماع اور اجتہاد کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ جو کہ ہو نہیں سکتا، چونکہ جو بندہ پچھلوں کے استدلال سے مختلف بات کرے گا وہ روشن خیال (روشن خیال کو گالی سمجھا جائے)، ناقص القعل، ناقص الایمان اور دشمن اسلام ہے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہ خطہ دینے سے پہلے کم از کم آپ کچھ اپنے قابلیت کے بارے میں تو بتادیتے ۔ تاکہ صحیح طور پر میں آپ کے مقلد ہونے کردار ادا کرسکتا ۔ ویسے ایک روحانی بابا تو پہلے سے محفل میں موجود ہیں ۔ آپ کو کیا کہا جائے یہ آپ کے اگلے جواب کی روشنی میں سوچا جائے گا ۔ ;)

مزے کی بات یہ ہے کہ میں غامدی صاحب کے بارے میں اعتراضات کا جواز مانگتا ہوں ۔ لوگ مفتی منیب الرحمن بن جاتے ہیں ۔ یعنی سیدھا لعنت و طعن ۔ میرا خیال ہے بغلیں جھانکتے تو اچھا ہوتا ۔
لعن طعن لا حول ولا قوۃ الا باللہ

بڑی چھیتی غصہ کرگئے اوہ وڈیوووووو !
حالانکہ میرے اس مراسلہ سے پہلے کم از کم مجھے یہ خوش فہمی ضرور تھی کہ آپ مجھے اچھے سے جانتے ہیں جہاں تک مجھے یاد پڑتا رجم کہ اسلامی سزا ہونے یا نہ ہونے کہ موضوع پر یہیں محفل پر آپ سے اچھی خاصی مراسلت رہ چکی ہے خیر اب جب آپ غصہ ہی کرگئے ہیں تو بندہ کیا کرسکتا ہے حالانکہ میں نے کوئی لعن طعن نہیں کی اگر کسی صاحب فہم کو ہامری عبارت میں لعن طعن نظر آئی تو ازرائے کرم مطلع کیجیئے بندہ معافی کا خواستگار ہوگا وگرنہ جناب والا کرتا دھرتا ہیں جو چاہیں آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے اجی ہم نے تو محض آپ سے آپ کے وہ نادر اصول دریافت کرنا چاہے تھے کہ جنکی بنیاد پر کسی بھی دینی معاملہ میں جناب والا کی شخصیت کو مقلد محض سے مجتہد مطلق کا درجہ عطا ہوتا ہے اب اسی پر جناب والا غصہ کرگئے تو ایسے میں کیا کیا جاسکتا ہے اور اوپر سے مجھ غریب کا غصہ محترم مفتی منیب الرحمان صاحب پر نکال دیا اور بقول اپنے ہی مفتی صاحب والا کردار بھی ادا کردیا ۔ ۔والسلام
 

فاتح

لائبریرین
یہاں ایک مرتبہ پھر علمی گفتگو بحث برائے بحث بنتی نظر آ رہی ہے۔
کیا اسے دوبارہ علمی گفتگو کا رنگ دیا جا سکتا ہے یعنی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے بغیر اور غامدی صاحب یا کسی بھی صاحب کے ارشادات کی بجائے خالصتاً اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کی روشنی میں اس مسئے کو پرکھا جا سکے۔
 

ظفری

لائبریرین
یہاں ایک مرتبہ پھر علمی گفتگو بحث برائے بحث بنتی نظر آ رہی ہے۔
کیا اسے دوبارہ علمی گفتگو کا رنگ دیا جا سکتا ہے یعنی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے بغیر اور غامدی صاحب یا کسی بھی صاحب کے ارشادات کی بجائے خالصتاً اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات کی روشنی میں اس مسئے کو پرکھا جا سکے۔
بھائی ۔۔۔۔۔ بہت مشکل ہے ۔ ہم میں وہ ظرف نہیں ہے کہ کسی کے اختلاف کو عملی طور پر لے سکیں ۔ دین جو مکمل طور پر صرف استدلال کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں یہ اہم جز سرے سے ہی نکال دیا گیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کن بنیادوں پر لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا ۔ شاید لوگ بھول گئے ہیں ۔ انہیں تلوار اور قتل کے سوا دین کی اشاعت و ترویح کا کوئی اور ذریعہ نظر ہی نہیں آتا ۔

آبی ٹوکول جی :
میں نے آپ کی بات کا جواب دیا تو صرف ہلٹر بازی پیدا ہوگی اور کچھ نہیں ۔ ویسے بھی اب سے بحث پر کچھ کہنے کو بچا ہی نہیں ۔
بائی دے وے میں غصہ میں ہرگز نہیں تھا ۔ شاید میں نے آپ کو اس پوسٹ میں آنکھ صحیح طور پر نہیں ماری تھی ۔ لجیئے ایک بار ۔۔۔۔۔ ;)
 

ظفری

لائبریرین
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین پر پھر سے غور کرنے سے ڈرتے ہیں۔ شش شش کہہ کر، ان کے رتبے اور فضیلت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قریب ہونے کا ڈراوا دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ دین کے ذرائع ان کے پاس بھی وہی تھے جو آج ہمارے پاس ہیں۔ عقل و علم ان کے پاس بھی تھا جو آج ہمارے پاس بھی ہے۔ زمانہ ان کا وہ نہیں تھا جو آج ہمارا ہے۔ اس دور کے تقاضے اور تھے، آج کے تقاضے نئے اجماع اور اجتہاد کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ جو کہ ہو نہیں سکتا، چونکہ جو بندہ پچھلوں کے استدلال سے مختلف بات کرے گا وہ روشن خیال (روشن خیال کو گالی سمجھا جائے)، ناقص القعل، ناقص الایمان اور دشمن اسلام ہے۔

شاکر ! اس ساری بحث کا سب سے اہم نکتہ کیا ہے ۔؟ جس کی طرف ابھی تک کسی کا دھیان ہی نہیں گیا ۔ یا یوں سمجھ میں کسی نے دھیان دینے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ یہ ساری بحث ایک خاص موضوع پر ہو رہی ہے ۔ جس کا عنوان ہے ۔ “ غامدی نے ناموس رسالت قانون کو خلاف اسلام قرار دے دیا “ ۔ ٹھیک ۔۔۔۔

اس بحث کا ماخذ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ غامدی صاحب نے کس طرح ایک آئینی قانون ( ناموسِ رسالت ) کو خلافِ اسلام قرار دیا ۔ چنانچہ سب سے پہلے تو آپ صاحبِ اعتراض کے اس نکتہ کی طرف آتے۔ جس پر انہوں نے اس قانون کو خلافِ اسلام قرار دیا ۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک فتنہ انگیز اخبار کی خبر کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں ۔ ( مگر قرائین یہی ثابت کررہے ہیں کہ زیادہ تر یہ اختلاف غامدی صاحب سے روایتی دشمنی کا سبب ہیں ) ۔ خیر ۔۔۔ ہم نے صاحب ِ اعتراض کے اس موقف کو جاننے کی کوشش نہیں کہ اصل میں ان کا موقف اس بیان کے سلسلے میں کیا ہے ۔ ؟ ( ایک وجہ تو میں بتا چکاہوں کہ لوگ ان کے 21 صدی کی خیالات و نظریات کو 12 سو سال کے نظریات اور اجماع پر قندز لگانے سے تعبیر کرتے ہیں ) ۔ اب غور کیا جائے تو غامدی صاحب کا سارا نکتہِ اعتراض اسی آئینی قانون پر ہے ۔ جو اس میں ملک میں اپنی چند بڑی خامیوں کی وجہ سے ایک مسئلہ بن چکا ہے ۔ جس کے بارے میں غامدی صاحب کا کہنا یہ ہے کہ یہ قانون نہ تو قرآن و سنت کے مطابق ہے ۔ اور نہ ہی فہقاء کی آراء پر قائم ہے ۔ یہ سب سے اہم نکتہ ہے ۔ لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کے بارے میں تحقیق کی جائے کہ 1986 سے لیکر 1991 تک اس میں کیا کیا ترامیم ہوئیں کہ ایک دم سے توہینِ رسالت کے مقدمات کی تعداد میں غیر معمولی طور پر اضافہ ہوگیا ۔ جبکہ 1927 سے لیکر 1986 تک اس قسم کی مقدمات شاذو نادر ہی سننے میں آتے تھے اور پھر جب اس قانون میں موت کی سزا مقرر ہوئی تو پھر اس قسم کے مقدمات تقریباً روز ہی خبروں کی زینت بننے لگے ۔ اس پر تحقیق کی جائے تو بہت سی باتیں عیاں ہوتیں ہیں ۔ جن میں سب سے پہلے تو ایک ہے کہ اس قانون کا آئینی نام “ ناموسِ رسالت کا قانون “ ہے ہی نہیں ۔ بلکہ انگلش کے لفظ “ Blasphamy Law “ پر مبنی ہے ۔ انگلش لغت میں دیکھا جائے تو کسی بھی طور اس کا مطلب یہ نکلتا ہی نہیں ۔ جو عموماً ہمارے ہاں اس اصطلاح میں استعمال کیا جا رہا ہے ۔ بلکہ یہ وہ قانون ہے جو انگریزوں نے 1869 میں متعارف کروایا ۔ جو 295 کے نام سے مشہور ہوا ۔ اس میں پہلی ترمیم 1927 میں آئی جب راج پال قتل ہوا ۔ اس کے بعد 1930 میں 295 A کا اجراء ہوا ۔ جس میں سزا تین سال مقرر تھی ۔ کیونکہ اس قانون کی اساس ہی اسی انگلش کے لفظ کی اصطلاح میں تھی ۔ ( یعنی کسی کے مذہبی جذبات کو مجروع کرنے یا کسی مذہب کے بانی پر کسی قسم کے توہین آمیز جملوں سے لوگوں کو روکنا مقصود تھا ) ۔ یہاں ایک بات بھی غور طلب ہے کہ 1927 کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی نے بھی کسی قسم کی گستاخی نہیں کی ۔ حتی کے پاکستان بننے کے بعد بھی ۔ ماسوائے قادیانیوں کے سلسلے میں ۔ وہ بھی مذہبی جذبات مجروع کرنے سے متلعق تھے ناں کہ توہین ِرسالت سے متعلق ۔ پھر پاکستان بننے کے بعد اس قانون کو ضیاء کے دور میں 295 B اور 295 C کے طور پر متعارف کروایا گیا ۔ جہاں سے ساری پیچیدگیاں پیدا ہوئیں ہیں ۔

جوزف فرانسس ( نیشنل ڈائریکٹر CLAAS ) کے مطابق انہوں نے 112 مقدمات کی نگرانی کی ہے ۔ جس میں سے 80 مقدمات ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ سے خارج ہوئے ہیں ۔ یعنی جن لوگوں پر اس “ قانون “ کے تحت جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے ۔ انہیں عدالت نے باعزت طور پر بری کیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام جھوٹے مقدمات میں ملوث لوگ 8 سے 9 سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے اسیر رہے ہیں ۔ اگر یہ سب ہائی کورٹ سے بری ہوئے تو کیا یہ سوال ذہن میں نہیں پیدا ہوتا کہ یہ سب کس جرم میں اتنے عرصے جیل میں پڑے رہے ۔ یہ اسٹیٹ کی ذمہ داری تھی اور ہے کہ اس قانون کا اطلاق کے بارے میں تحقیق کرے کہ ایسا کیوں ممکن ہوا کہ اس قانون کو اس درجے غلط طور پر استعمال کیا گیا ۔ ( اس میں سارے غیر مسلم نہیں ہیں ) ۔ فرانسس کے مطابق میں علماء سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور دیکھیں کہ اس تمام مقدمات کے حقائق کیا ہیں ۔ ؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس قانون کو غلط استعمال کرتے ہوئے اب تک عدالت اور جیلوں میں 34 لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے ۔ جن کا کوئی قصور بھی نہیں تھا ۔ کیا ان 34 لوگوں کے قاتلوں کو کوئی سزا دی گئی ہے ۔ ؟ ان کے مطابق ایک جج نے ایک ملزم پر شواہد ثابت نہ ہونے پر رہا کردیا ۔ جس پر اس جج کو اس کے چمبر میں قتل کردیا گیا ۔ ان کے مطابق ایک ایسی غیر مسلم عورت کو صرف اس بات پر اس قانون کے تحت 25 سال کی سزا دی گئی جس نے قرآن کو چھو لیا تھا ۔ نہ صرف اس عورت کو سزا دی گئی ۔ بلکہ اس کے شوہر کو بھی اس بناء پر 25 سال کے لیئے جیل بھیج دیدیا گیا ۔ وہ اس خطار کار عورت کا شوہر تھا ۔ سارا مسئلہ اس قانون کے شق 295 بی اور 295 سی سے پیدا ہو رہا ہے ۔ اسی طرف غامدی صاحب کا اشارہ تھا کہ یہ قانون اصلاً اپنی اصطلاح میں غلط ہے ۔ اس پر پھر تحقیق ہونی چاہیئے ۔ ان تمام اعداد و شمار اور اوپر کی مثالوں سے یہ بات واضع ہے کہ اس کا اطلاق بھی غلط ہو رہا ہے ۔ اور ان کے مطابق یہ صورتحال اس لیئے پیدا ہو رہی ہے کہ یہ قانون قرآن وسنت اور فہقاء کے رائے سے بلکل مختلف ہے ۔ لہذا غامدی صاحب نے اس آئینی قانون کو اپنے بیان کا سبب بنایا ہے ناکہ توہینِ رسالت کے قانون کو ۔
نوٹ : مجھے موقع دیا جاتا تو میں ان کے ایک شاگرد کا یہاں مقالہ پوسٹ کرتا ۔ جس میں انہوں نے توہین رسالت پر کافی سیر بحث کی ہے ۔ جس سے توہینِ رسالت کے قانون کے حوالے سے کچھ دوستوں کے غامدی صاحب کے بارے میں کچھ غلطیوں کا سدباب کا امکان پیدا ہوتا ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین پر پھر سے غور کرنے سے ڈرتے ہیں۔ شش شش کہہ کر، ان کے رتبے اور فضیلت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قریب ہونے کا ڈراوا دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ دین کے ذرائع ان کے پاس بھی وہی تھے جو آج ہمارے پاس ہیں۔ عقل و علم ان کے پاس بھی تھا جو آج ہمارے پاس بھی ہے۔ زمانہ ان کا وہ نہیں تھا جو آج ہمارا ہے۔ اس دور کے تقاضے اور تھے، آج کے تقاضے نئے اجماع اور اجتہاد کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ جو کہ ہو نہیں سکتا، چونکہ جو بندہ پچھلوں کے استدلال سے مختلف بات کرے گا وہ روشن خیال (روشن خیال کو گالی سمجھا جائے)، ناقص القعل، ناقص الایمان اور دشمن اسلام ہے۔
دوست : اگرچہ اجتہاد کے موضوع پر میرا مطالعہ نہیں ہے لیکن اتنی بات عرض کر دوں کہ اجتہاد کی بھی شرائط ہیں اور ایک شخص کے تفردات جو امت مسلمہ کے مجموعی تعامل کی نفی کرتے ہوں اور وہ رائے جو قدیم و جدید دور کے علمائے راسخین کی اجتماعی رائے کو یکسر نظر انداز کر کے قائم کی گئی ہو اور جس میں باہمی علمی مشاورت کا عنصر مفقود ہو ، وہ ہر گز اجتہاد کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
استادِ محترم ۔۔۔ ایک بار پھر گستاخی معاف ۔۔۔۔ جب تک میری بات آپ صحیح طور پر نہیں سمجھیں گے ۔ پیچیدگیاں پیدا ہوتیں رہیں گی ۔ اسی بناء پر میں نے اپنی سب سے پہلی پوسٹ میں اس رحجان کی طرف تمہید باندھی تھی ۔ تقلید اور مقلد کے حوالے سے میرا یہ استدلال ہے ۔

“ تقلید سے مراد یہ ہے کہ آدمی یہ فیصلہ کرلے کہ اس نے ہر صورت میں فلاں آدمی کی بات ماننی ہے اور اس پر غور نہیں کرنا کہ ، آیا اس کی بات صحیح ہے یا غلط یعنی بات کو دلیل کی بنیاد پر سمجھنے کے بجائے یہ فیصلہ کرلیناہے کہ بس یہ عالم جو بھی بات فرمائے گا میں تو اسی کو مانوں گا۔اس رویے کے نتیجے میں ظاہر ہے شخصیت پرستی اور فرقہ پرستی کو ہواملتی ہے ۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ درست نہیں ہے۔طالب علم اور مقلد میں فرق یہ ہوتاہے کہ طالب علم اگرچہ اپنی رائے خود نہیں بناتاوہ کسی عالم کی رائے ہی کو مانتاہے لیکن اسے پہلے سمجھتاہے اور پھر اس کو میرٹ پر ماننے یانہ ماننے کا فیصلہ کرتاہے جبکہ مقلد عالم کی بات کو محض شخصیت کی بنیاد پر مانتاہے یا رد کرتاہے۔ “
میرا خیال ہے کہ اس زیادہ میں اپنی بات کسی اور بہتر انداز سے پیش کرنے سے قطعی قاصر ہوں ۔ سو اس کے لیئے پیشگی معافی کا خواستگار ہوں ۔
ارے بھائی گستاخی کی کونسی بات ہے ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے آپ کے ہر استدلال سے میں کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں، میرے ذہن میں کچھ نئے دریچے وا ہوتے ہیں اور فکر افروزی کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ کسی مقلد کے لیے ہرگز ضروری نہیں کہ وہ کسی فرد واحد کی تقلید کرے، یا جیسا کہ ”ایک مکتبہ فکر کا یہ نظریہ ہے کہ تقلید ایک ہی شخص کی کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی اس کی تقلید سے نکل کر کسی اور عالم یا مجتہد کی تقلید کرے گا تو اس کے سارے اعمال اکارت جائیں گے“ ہمارے ہاں اس قسم کی اندھی تقلید کا کوئی جواز نہیں اگر کوئی ”حنفی“ ہے تو وہ غالب معاملات میں امام ابو حنیفہ کا مقلد ہے لیکن اگر امام ابو حنیفہ کے ہاں کسی مسئلہ کا حل موجود نہ ہو، یا انہوں نے کوئی ایسی صورت بتائی ہو جو کہ معروضی حالات و واقعات کے مطابق ممکن العمل نہ ہو تو بغیر کسی حیل و حجت کے دوسرے آئمہ فقہار کی طرف رجوع کر لیا جاتا ہے اور اس خاص معاملہ میں ان کی بتائی گئی صورت حال کو اپنا لیا جاتاہے، جیسا کہ ”مفقوداخبر شوہر“ کا معاملہ ہے کہ مفقود الخبر کی بیوی کتنے عرصہ تک مفقود الخبر کا انتظار کرے اور اس کے بعد وہ دوسرے نکاح کے لیے آزاد ہو جائے، اس معاملہ میں امام ابو حنیفہ کی رائے چونکہ بہت سخت ہے اس لیے موجودہ صورت حالات میں افغانستان کی جنگ کے اندر ہزاروں مفقود الخبر شوہروں کی بیواؤں کو علما نے امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کے برعکس دوسرے آئمہ کے اجتہاد کے مطابق نکاح کرنے کی اجازت دے دی۔ اسی طرح ایک اور مثال دینا چاہوں گا:
محمد تغلق کے دور حکومت میں جب نظام الدین اولیأ پر سماع سننے کے بارے میں اعتراضات کیے گئے تو بادشاہ نے ایک مجلس میں نظام الدین اولیا کو جوابدہی کے لیے بلایا لیکن نظام الدین اولیا سے سوال کرنے کے لیے علما کی پوری کونسل موجود تھی علما اور نظام الدین اولیا میں جو مکالمہ ہوا وہ آپ بھی سنیے:
علمأ: کیا آپ مسلمان ہیں؟
نظام: الحمد للہ میں مسلمان ہوں
علما: آپ مقلد ہیں یا غیر مقلد؟
نظام: میں عمومی معاملات میں مقلد ہوں لیکن چوکہ میں تمام تر علوم دینیہ سے آگاہ ہوں اور درجہ افتا و اجتہاد پر فائز ہوں اس لیے بعض معاملات میں تقلید نہیں بھی کرتا جیسا کہ با جماعت نماز میں سورہ فاتحہ کی تلاوت وغیرہم
علما: آپ عمومی معاملات میں کس کی تقلید کرتے ہیں؟
نظام: امام ابو حنیفہ کی
علما: معلوم ہوا ہے کہ آپ سماع کے قائل ہیں اور گانا سنتے ہیں کیا یہ درست ہے؟
نظام: جی ہاں
علما: اس بارے میں آپ کے پاس کیا دلیل ہے؟
نظام: ”نظام الدین اولیا نے چند مشہور احادیث پیش کر دیں جن سے سماع کا جواز ثابت ہوتا تھا
علما: اس بارے میں آپ امام ابو حنیفہ کا کوئی قول پیش کریں کیونکہ آپ ان کے مقلد ہیں
نظام: ”من قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آوردم، و تو قول ابو حنیفہ می طلبی، پیش قول رسول، قول ابو حنیفہ چہ مقام دارد“ یعنی میں نے قول رسول پیش کیا ہے اور تم مجھ سے قول ابو حنیفہ طلب کرتے ہو، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول کے سامنے ابو حنیفہ کے قول کی کیا حیثیت)
جناب یہ ہے ہماری تقلید کا معیار، لیکن ابوحنیفہ کے قول کو میرٹ پر پرکھنے کے لیے اور ان سے اختلاف کرنے کے لیےنظام الدین اولیا جیسے صاحبان علم و فضل کی ضرورت ہے، ما و شما کی حیثیت ہی کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے شاگردو امام ابو یوسف وغیرہ نے بھی ان سے اختلاف کیا ہے لیکن ان کی علمی حیثیت بھی پیش نظر رہے، اگر میں گورنمنٹ ڈگری کالج اٹک سے چار جماعتیں پرھ کر فورا ابو حنیفہ پر اعتراضات وارد کرنے لگ جاؤں تو میری حیثیت ایسے ہی ہو گی جیسے گھوڑوں کی نعل بندی ہوتی دیکھ کر کوئی مینڈک بھی اپنی ٹانگ آگے بڑھا دے کہ میں نے بھی نعل لگوانے ہیں::)
 

الف نظامی

لائبریرین
عام طور پر یہ پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ 295- C غیر مسلم افراد کو تنگ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اگر حقائق کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو عملا ایسا نظر نہیں آتا۔ 1986 سے لیکر 2009 تک اس قانون کے حوالہ سے پاکستان میں کل 964 مقدمات زیرِ سماعت آئے جن میں 479 کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ 340 کا تعلق احمدیوں سے ، 119 کا تعلق عیسائیوں سے ، 14 کا تعلق ہندوں سے اور 12 کا تعلق دیگر مذاہب و مسالک کے پیروکاروں سے ہے۔ ان تمام مقدمات میں اس قانون کے تحت عملا کسی کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی۔
ہمیں اس حقیقت سے انکار نہیں کہ لوگ اس دفعہ کو بعض اوقت اپنی ذاتی دشمنی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس مملکت میں آئین و قانون کی کسی اور دفعہ یا شق کو ایسے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا؟ اگر حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں تو دفعہ 302 کے نصف سے زائد مقدمات جھوٹے درج کروائے جاتے ہیں۔ ان مقدمات کے عوض ہمارے نامور وکلاء پر رزق کے دروازے کھلتے ہیں اور وہ حظ لے کر مظلوموں کے رزق پر ہاتھ صاف کرتے ہیں لیکن کبھی یہ واویلا سننے میں نہیں آیا کہ متذکرہ دفعہ کو آئین سے نکال دیا جائے لیکن جب بھی نزلہ گرتا ہے تو 295-c پر۔
یاد رکھو! ہمارے ملک میں اس وقت تک اس دفعہ کے تحت غیر مسلمون کے خلاف جو مقدمات درج ہوئے ہیں ان میں اسے اکثریت ایسے مقدمات کی ہے جن کے کرداروں نے یہ حرکت محض اس لیے کی کہ اس کی پاداش میں وہ غیر مسلم اقوام کی ہمدردیاں حاصل کریں گے اور تحفظ کے نام پر بیرونی ممالک کے ویزے حاصل کر کے اپنی معیشت سنوارنے میں کامیاب ہوں گے۔ 1995 میں گوجرانوالا کے رحمت مسیح اور سلامت مسیح کے مقدمات اس حقیقت پر شاہد عادل ہیں۔ اسلام اپنی ریاست کی حدود میں رہنے والے غیر مسلموں کے جملہ حقوق کی پاسداری کرتا ہے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری قبول کرتا ہے لیکن انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان کے نبی معظم صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی گستاخی کا ارتکاب کریں اور وہ برداشت کر لے۔ موجودہ مقدمہ جس کا تعلق ننکانہ کے مضافاقی گاوں اٹانوالی کی رہائشی آسیہ سے ہے ، ابھی زیریں عدالتوں میں زیر سماعت ہے جس کے لیے اعلی عدالتوں سے اپیل کے لیے مواقع موجود ہیں ۔ ہمارے ملک کی عدلیہ اس وقت نہ صرف مکمل آزاد ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں کے محاسبہ کے حوالے سے اقتدار کے ایوانوں میں پریشانیوں کا بھی باعث ہے۔ اس سے قطعا توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی بھی بے گناہ کو صرف اس لیے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دے گی کہ وہ غیر مسلم ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بعض سر کردہ افراد اور غیر مسلم لابیوں نے آسیہ کے مقدمہ کو پس پشت ڈال کر اس کا قانونی دفاع کرنے کے بجائے اپنی ساری توجہ اسلام اور اہل اسلام کو بدنام کرنے پر مرکوز کر رکھی ہے اور ہمارے الیکڑانک میڈیا نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے کئی نام نہاد مفکرین کو اسلام کی تشریح کرنے کی ذمہ داری سونپ رکھی ہے۔ ایسے ماحول میں حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سچے عاشقوں کا فرض منصبی ہے کہ وہ میدان عمل میں نکلیں۔ جس جس محاذ سے اسلام کے ازلی اور ابدی اصولوں پر یلغار کی جارہی ہے اپنی علمی قوت اور حسن عمل سے اس کا دفاع کریں۔ عظمت مصطفی اور مقام مصطفی کا تقاضا ہے کہ دوستی اور دشمنی کا سب سے بڑا معیار اللہ تعالی اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رضا ہو۔ کسی بھی انسان کو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ، اپنی ذاتی نارضگی کی بنیاد پر مقدمات میں رگیدنا نہ پہلے غلامان مصطفی کا شیوہ رہا اور نہ اب ہونا چاہیے۔
از سر دلبراں ، ماہنامہ ضیائے حرم جنوری 2011
 

رانا

محفلین
محترم شاکرالقادری صاحب! ابو لہب کے بارے میں تو آپ نے کہہ دیا کہ وہ گستاخی اس وقت کی ہے جب اسلام کمزوری کی حالت میں تھا۔ لیکن قتل کی سزا دینے کے لئے علما اس کو بطور دلیل کیوں پیش کرتے ہیں۔ کیا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ قرآن میں توہین رسالت کی سزا اسطرح بتائی گئی ہے کہ ابولہب توہین کے بعد کوئی 15 سال زندہ رہا۔ مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد بھی تقریبآ 2 سال زندہ رہا اور جب مرا تو طاعون سے یا بعض روایتوں کے مطابق بھیڑیوں یا شیر کے حملہ سے۔ لیکن اسلامی ریاست قائم ہونے کے دو سال بعد بھی وہ قتل نہ ہوا۔ اس طرح قرآن سے ثابت ہوگیا کہ توہین کی سزا قتل ہے؟؟؟ ناچیز آپ کی نظر میں ناسمجھ اور نادان ہی سہی لیکن آپ ہی سمجھا دیں کہ اس طرح قتل کی سزا کسطرح ثابت ہوگئی؟ یا یہ کسطرح ثابت ہوگیا کہ خدا نے کیونکہ ناراضگی کا اظہار کیا ہے تو مسلمان پر سزا دینا واجب ہوگیا۔ اگر ثابت ہوتا ہے تو صرف یہ کہ توہین رسالت کے مجرم کو خدا خود سزا دے گا۔ قرآن میں تو یہود و نصاری و تکذیب کرنے والوں کے لئے بھی سزا کا ذکر ہے تو کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ سزائیں بھی مسلمان اپنے ہاتھ میں لے لیں؟

پھر آپ نے کہا کہ مکہ میں توہین کے مجرموں کو سزا اس لئے نہیں دی جاسکتی تھی کہ مسلمان کمزوری کی حالت میں تھے۔ لیکن اس بات کا جواب ضرور دیں کہ مدینہ میں توآپ ہی نے تسلیم کر لیا کہ اسلامی ریاست قائم ہوگئی تھی وہاں کتنے منافقین اور یہود اس کی زد میں آئے؟ عبداللہ بن سلول نے توہین کی تو مدینہ میں ریاست قائم ہونے کے بعد کی۔ کس نے اس کو قتل کیا؟ وہ الفاظ آج بھی قرآن میں پڑھیں جو اس نے کہے تھے اور خود اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا وہ توہین کے زمرے میں نہیں آتے تھے؟ کئی صحابہ نے یہاں تک کہ خود اسکے بیٹے نے قتل کی اجازت مانگی لیکن آپ نے کسی کو اجازت نہیں دی بلکہ اس کی طبعی موت کے بعد اسکا جنازہ بھی پڑھایا۔

آپ کی اس بات سے مجھے سو فیصد اتفاق ہے کہ قرآن کے بتدریج نازل ہونے میں حکمت تھی۔ لیکن نماز والی جس آیت کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ شراب حرام ہونے کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ تو گزارش ہے کہ قران کی کوئی آیت یا حکم منسوخ نہیں۔ یہی تو قرآن کا اعجاز ہے کہ جو آیت بھی کسی خاص موقع کے لئے بھی نازل کی گئی اس میں بھی ایسا معجزہ اللہ نے رکھا کہ وہ اس موقع کے علاوہ بھی رہتی دنیا کے لئے زمانے کے لحاظ سے اپنے نئے مفاہیم سمجھاتی رہتی ہے۔ اسی آیت میں جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا اطلاق صرف نشہ پرہی نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسی حالت جس میں انسان اپنے حواس میں اسطرح نہ رہے کہ اسے پتہ ہی نہ ہو کہ کیا پڑھ رہا ہے پر اسکا اطلاق ہوتا ہے۔ اس لئے یہ منسوخ نہیں آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جسطرح پہلے تھی۔ یہ بات موضوع سے متعلق نہیں تھی لیکن لوگوں کے لئے غلط فہمی کا موجب بن سکتی تھی کہ شائد قرآن میں بھی کچھ آیتیں یا احکام ایسے ہیں جو صرف تلاوت کے کام آتے ہیں ورنہ اصل میں وہ منسوخ ہیں۔ قرآن کا ایک نقطہ بھی قیامت تک کے لئے منسوخ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وضاحت کرنا ضروری سمجھا۔

آپ نے ذکر کیا کہ معافی کا سرٹیفکیٹ آپ نے نہیں بلکہ رسول کریم نے خود دیا تھا۔ یہاں آپ بات کو سمجھ ہی نہیں سکے کہ کیا کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب آپ لوگ اپنے حق میں دلائل دیتے ہوئے توہین کے اکا دکا واقعات ایسے بیان کرتے ہیں جن میں سزا کا تعلق اصل میں کسی دوسرے جرم سے تھا لیکن آپ یہ فرض کرتے ہیں کہ وہاں توہین ہی کارفرما تھی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توہین کا اسکے علاوہ کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ جبکہ آپ ذرا غور کریں کہ توہین کی سزا قتل کے حق میں جتنے واقعات آپ بیان کرتے ہیں ان میں سے اکثر میں توہین کے علاوہ دوسرے جرائم کا ارتکاب ہوا ہوتا ہے اور اگر کوئی ایسا واقعہ مل بھی جائے جس میں صرف توہین ہی کا پہلو نظر آئے تو وہ اصول حدیث کی تحقیق کے معیار پر ہی پورا نہیں اترتا۔ اب اپنی حیثیت اس معاملے میں خود ہی دیکھ لیں کہ معاف کرنے کے واقعات بے شمار ہیں لیکن سزا کے جو خالص توہین کے سبب ہو کتنے واقعات ہیں خود ہی موازنہ کرلیں کہ اگر دلائل سے ہی ماننا ہے تو کیوں نہ کثرت کو مانا جائے۔ توہین کی سزا میں قتل بیس تیس ہوئے ہونگے چلیں سو لگالیں۔ لیکن صرف فتح مکہ پر ہزاروں کو معاف کیا گیا اور مدینہ میں منافقین اور یہود کی تعداد بھی معمولی نہ تھی وہ سب بھی کم از کم توہین کی کسی سزا کے نیچے نہیں آئے۔ اب انصاف کی رو سے دیکھ لیں کہ معافی کے واقعات کو سزا کے واقعات سے کوئی دور کی بھی نسبت ہے؟ وہ بھی ایسی صورت میں جبکہ سزا کے جو چند گنتی کے ہیں ان میں بھی اکثر میں سزا دوسرے جرائم میں دی گئی اور جو باقی بجے ان میں سے کئی روایتیں ہی صحیح کے درجے سے گری ہوئی ہیں۔

ایک بات کی وضاحت اب بھی باقی ہے کہ کیا وجہ کہ ہزاروں کی توہین کو فتح مکہ کے موقع پر معاف کیا گیا لیکن چند کے قتل کا حکم دیا گیا۔ کیا ان دونوں فریقوں کی توہین میں کوئی فرق تھا؟ اور اس بات کی بھی کوئی سند نہیں دی جاتی کہ خود بخود یہ کہاں سے فرض کر لیا گیا کہ رسول نے تو معاف کرنے کا اسوہ دیا ہے لیکن امتی اس اسوہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔

اب ایک اور بات کی بھی ذرا وضاحت کردیں کہ توہین کا قانون بنانے کے حق میں تو آپ ہیں لیکن توہین کو Define کسی نے نہیں کیا؟ کیا یہ اس قانون سے تمسخر نہیں کہ توہین کا قانون تو بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کی تعریف کرنا نہیں چاہتے کہ توہین میں کیا کیا باتیں داخل ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ توہین کو آپ ڈیفائن کرہی نہیں سکتے۔ یہ بھی توہین ہے کہ آپ کے نام کو بگاڑا جائے، یہ بھی توہین ہے کہ آپ کے عزیزوں اور اہل بیت کو دکھ دیا جائے، یہ بھی توہین ہے کہ آپ کے منہ پر کھڑے ہو کر آپ کی تکذیب کی جائے، یہ بھی توہین ہے کہ کوئی آپ پر ایمان لائے اور آپ کے احکامات کو پیٹھ پیچھے پھینک دے جس کا ارتکاب آج آپ کو ہر جگہ مسلمان ہی کرتے نظر آتے ہیں۔ بیٹا باپ کا حکم نہ مانے تو یہ توہین سمجھی جاتی ہے کہ بیٹے نے باپ کا احترام نہیں کیا لیکن روحانی باپ جو اس سے بھی بڑھ کر ہے اسکی یہ توہین مسلسل ہر جگہ کی جاتی ہے۔ اگر کوئی رسول کو سچا نہ سمجھے تو کیا توہین نہیں؟ جس کے دائرے میں تمام غیر مسلم آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین کے تو لاتعداد پہلو ہیں اسی لئے نہ قرآن نے اسکو Define کیا اور نہ ہی اکی سزا کو انسانوں کے اختیار میں رکھا جیسا کہ فرمایا کہ ان تمسخر کرنے والوں کے لئے ہم ہی کافی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی اپنے پیارے رسول کومتنازعہ شخصیت نہیں بنانا چاہتا۔ اللہ تعالی نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق توہین کے حوالے سے کہانیاں مرتب ہوں۔ واقعات اچھالے جائیں ریکارڈ اور فائلیں جمع کی جائیں کیونکہ یہ سب امور توہین کے تدارک کی بجائے توہین میں اضافہ اور اسکی اشاعت پر منتج ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالی کو اپنے رسول کی بابت یہ پسند نہیں اسی لئے توہین کےمجرم سے وہ خود نپٹتا آیا ہے۔ کیا کوئی عالم یہ پسند کرے گا کہ اسکی بیٹی یا ماں یا بہن یا باپ کے متعلق توہین کا واقعہ سرزد ہوجائے تو کوئی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ پہلے اس واقعہ کو محلے کے لاوڈ اسپیکر پر اچھالا جائے پر اس کی رپورٹنگ اخبارات میں ہو پھر اخبارات سے چل کر ٹی وی پر وہ واقعہ بیان کیا جائے پھر عدالتوں میں وہ زیر بحث لایا جائے پھر گواہوں کی زبان سے دہرایا جائے۔ جج صاحبان اس کو سن سن کر پرکھتے رہیں کہ یہ کہا گیا تھا یا نہیں اور پھر ساری دنیا کے ذرایع ابلاغ میں اسکی تشہیر ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسا شخص تو بڑا بے غیرت ہوگا جو اپنے ماں باپ یا بیوی یا بہن یا بیٹی کے بارے میں واقعات کو اچھالنے کی اجازت دے۔ لیکن رسول کے نام پر جو غیرت دکھائی جاتی ہے وہ اسکے بالکل برعکس ہے۔ رسول کی ذات کے خلاف ایک بے ہودہ اور نامراد شخص کے لکھے ہوئے لفظ یا اسکی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کو پہلے لاوڈ اسپیکر پر اچھالتے اور دہراتے ہیں پھر عوام کے گھر گھر تک اس آگ کو پہنچاتے ہیں پھر سڑکوں چوکوں پر نعرے لگا کر جلوس کے ذریعہ ان الفاظ کو اچھالتے ہیں پھر وہ عدالت کے ریکارڈ پر لاتے ہیں پولیس کی کاروائی میں وہ الفاظ دہرائے جاتے ہیں سچے جھوٹے گواہوں سے وہ الفاظ دہرائے جاتے ہیں۔ عدالت کے ریکارڈ میں سجائے جاتے ہیں پھر ساری دنیا کے میڈیا پر وہ الفاظ پھیلتے ہیں۔ اس کا نام غیرت رسول رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم جو دائمی شریعت ہے اس میں اس بات کو کھولنے کی اجازت نہیں دی گئی اور بڑی بھیانک بدسلوکیاں بعض نامراد انسان رسول پاک کی ذات سے کرتے تھے لیکن حضور نے اس پر قانون سازی نہ کرکے اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے سلا دیا مگر آج اسلام کے داعی رسول پاک کو توہین اور تذلیل کو ساری دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اور اسکا نام اسلامی غیرت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر دو عیسائی نوجوانوں نے ایک بار توہین کی تو ساری دنیا میں یہ ہنگامہ پھیلا اور دنیا بھر میں اس مسئلہ کی تذلیل کرنے کے بعد وہ دونوں سرکاری حفاظت میں بیرون ملک پہنچادیئے گئے۔ کیا اس سے یہ بہتر نہ تھا کہ اس واقعہ کو اچھالنے کی بجائے کوئی عالم ان دونوں کو پیار محبت سے سمجھاتا کہ جس عظیم ہستی کی تم توہین کررہے ہو وہ تو سراپا رحمت ہستی ہے انسانیت کی ہمدردی اور خیر خواہی لے کر وہ وجود آیا تھا اسکی بے ادبی اور بے قدری کرنا جائز نہیں۔ لیکن اسکے برعکس روئے نے سوائے دنیا میں اسلام کا تماشہ بنانے کے کچھ نہیں کیا۔ (نوٹ یہ آخری پیرا محترم ابو البیان صاحب کے ایک مضمون سے اخذ کرکے لکھا گیا ہے اور راقم کو اس سے پورا اتفاق ہے)۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
استادِ محترم ! آپ بجا فرما رہے ہیں ۔ مگر ۔۔۔۔ ہم ( ہم سب ) نے اس وقت تو قرآن و سنت کے احکامات پر ہی اپنے راستے مختلف سمتوں میں ڈال دیئے ہیں ۔ جو دین کا ماخذ اور سب سے مستند دین کو سمجھنے کا ذریعہ ہے ۔ پھر عمل صحابہ، تابعین تبع تابعین، اولیائے امت، فقہا، محدثین اور پندرہ سو سالہ اجتماعی فکر کا سوچنا تو دور کی بات ہے ۔ لیکن ایک غور طلب بات ہے کہ جس طرح صحابہِ کرام ، تابعین تبع تابعین، اولیائے امت، فقہا، محدثین نے پندرہ سو سال پہلے اجماع کیا تھا کہ آج کےدور میں تمام علماء کیا یہ کام نہیں کرسکتے ۔ قرآن و سنت پر تو کوئی اپنے رائے دینے کا تو سوچ ہی نہیں سکتا، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ بعد کے لوگوں سے کہیں کسی بات کو نہ سمجھنے کا امکان رہ گیا ہو ۔ اگر وہ ہماری طرح انسان نہیں تھے ( کم از کم آج کل علماء کرام کی طرح ) تو پھر ان کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینا چاہیئے ۔ اگر ایسا نہیں ہے اور کوئی بڑے ادب سے ان سے اختلاف کرتا ہے تو کم از کم اس کی اعتراض کا کوئی عملی جواز بھی ہونا چاہیئے ۔ یہاں تو بات فوراً لعنت و طعن پر آجاتی ہے ۔
ہم ( ہم سب ) نے اس وقت تو قرآن و سنت کے احکامات پر ہی ۔ ۔ ۔ ۔۔ کیا خوب یاد دلایا آپ نے قرآن و سنت کی اصطلاح کے بارے میں جو کہ بار بار یہاں استعمال ہو رہی ہے برادر مکرم مناسب ہوگا کہ جیسے آپ نے تقلید کی تعریف بیان کی ہے اسی طرح”سنت“ کی تعریف بھی بیان کر دیں جائے، کیونکہ ”فکر غامدی” کے مطابق سنت کے مفاہیم کچھ اور ہی ہیں اور انہوں نے اس سلسلہ میں وقعی اپنے (اور ہمارے) راستے مختلف سمتوں میں ڈال دیئے ہیں، کیا 1998 سے لیکر 2010 تک انکی جانب سے27 سنتوں کی 3 مرتبہ ترمیم شدہ فہرست جو جاری کی گئی ہے وہ آپ کی نظر سے گذری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟

لیکن ایک غور طلب بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجماع کے بارے میں آپ نے سوال اٹھایا۔ ۔۔ ۔ شاید آپ یہاں اجتہاد کا لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے جہاں آپ نے اجماع لکھ دیا، یاد رہے کہ اجتہاد اور بات ہے اور اجماع الگ معاملہ ہے ”اجماع“ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ پوری امت کا ایک رائے پر جمع ہو جانا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات خلاف عقل و دانش ہے کہ ہر دور میں ہر زمانے میں امت مسلمہ ایک خاص مسئلہ کے بارے میں ”کسی غلط رائے“ پر جمع ہو جائے میں یہی بات بار بار سمجھانا چاہتا ہوں، بہت سارے مسائل کے اندر امت میں اختلاف رہا ہے لیکن زیر بحث قانون کے بارے میں نہ تو صحابہ کے زمانہ میں کسی کو اختلاف تھا اور نہ ہی اس کے مابعد کے زمانوں میں علمائے امت نے اس بارے میں کوئی اختلاف کیا، اور آج بھی یہی صورت حال ہے کہ مختلف مسالک، اور فرقے اس ایک مخصوص قانون پر متحد و متفق ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن نام نہاد دانشور۔ ۔ ۔ ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اس معاملہ پر یہ امت کیوں متفق ہے، دوسرے مسائل کی طرح اس معاملہ میں جوتم پیزار کیوں نہیں ہو رہی،
کیا قرآن کریم اہل کتاب سے مخاطب ہوکر یہ نہیں کہتا:
”اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے“
جب اہل کتاب کو ”مشترکہ فکر“ کی جانب بلایا جا رہا ہے تو بین المسالک اختلاف کے باجود مقام شکر ہے کہ ہمارے ہاں کے تمام مسالک کسی ایک فکریعنی ”توہین رسالت“ پر علمی اور فکری اتحاد و یگانگت کا مظاہر کر رہے ہیں، اور اس رسول کی حرمت کے نام پر سب ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوگئے ہیں جو ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا“ کا درس لے کر آیا تھا۔ ۔ ۔الحمد للہ آج توہین رسالت کا قانون ”حبل اللہ“ کی حیثیت اختیارکر گیا ہے جس پر پوری امت متحد و متفق ہے
جبکہ اجتہاد دیگر چیز ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جب دور جدید کے مسائل کے پیش نظر ائمہ اور فقہا کے مرتب کردہ ذخیرہ میں سے کچھ نہ ملے تو علماکی کونسل جدید تقاضوں کے پیش نظر اجتہاد کر سکتی ہے اور اس اجتہاد میں بھی قرآن و سنت کے کسی بنیادیاصول کو مد نظر رکھا جائے گا، بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے کیا جانے والا اجتہاد، اجتہاد نہیں بلکہ شیطانی سازش قرار پائے گی۔

چلیں میں اس تھیم کے مطابق ہی اپنے دلائل اور استدلال پیش کرتا ۔ مگر کیا اس تھیم کا کوئی عملی اور عقلی جواب نہیں موجود تھا ۔ کہ اس تھیم کو ایک خاص مکتبِ فکر سے جوڑ دیا گیا ۔ میں کہہ چکا ہوں کہ جن اختلاف کا پہلو ہر کسی کے نکتہِ نظر میں پایا جاتا ہے ۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ سب باٹا کی شوز کی طرح فیکڑی سے بن کر نکلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمائش اور امتحان کے لیئے پیدا کیا ہے ۔ اور سارے اسکیم کا دارومدار اسی عقل و فہم سے ہے ۔ جس پر ہم ایک دوسرے پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ آج غامدی صاحب کے طرز فکر کو ایک الگ رنگ دیا جاتا ہے ۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جن تابعین تبع تابعین، اولیائے امت، فقہا، محدثین اور پندرہ سو سالہ اجماع کی بات ہم کررہے ہیں ۔ وہاں کتنے مکتب ِ فکر موجود تھے ۔ آج بھی کتنے مکتبِ فکر جو اجماع کر چکے ہیں ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے بھی گریزاں ہیں ۔ حتی کی صحابہ کرام کے دور میں بھی اختلافات رواں رہے ۔ پہلے خلیفہ کے انتخاب میں ہی انصار الگ ہوگئے ۔ اس کے بعد کے دورِ خلافت میں کیا ہوا ۔ ؟
قرآن و سنت کے بعد اگر کوئی کسی کی رائے اور اجماع کی بات کرے گا تو وہاں اختلاف لازمی سامنے آئے گا ۔ اب اگر کوئی کسی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سامنے والا راہِ راست سے بھٹکا ہوا ہے تو اس کو قائل کرے ۔ صرف انگلیاں اٹھانے سے کام نہیں چلے گا ناں محترم شاکر صاحب ۔ علمی بحث میں دلائل ، استدلال اور ثبوت ہی سب کچھ ہوتے ہیں ۔ جس کے قوی ہونگے لوگ اس کی بات مان لیں گے ۔ ورنہ کس پر فتوی لگا کر اس پر بحث سے اجتناب کرنا کیا معنی رکھتا ہے سوائے اس کے اس کے دلائل کے جواب میں کوئی ٹھوس استدلال نہیں ۔ قادیانیوں اور دیگر لوگوں کی طرح غامدی صاحب بھی چھپ کرکسی نئے دین کی تعریف کر رہے ہوتے تو بات سمجھ بھی آتی تھی ۔ مگر وہ شخص سب کے جھتے میں گھس کر جو بات کرتا ہے ۔ اس پر پھر فتوی کسنے والوں کی گھیگی بند ہوجاتی ہے ۔ چونکہ آپ کا سب بڑا اعتراض ہی غامدی صاحب کی ذات ہے اس لیئے میں یہ ساری بات انہی کے حوالے سے کر رہا ہوں ۔ ان شاء اللہ جلد ہی ان کی کچھ وڈیو میں یہاں لگاؤں گا ۔ جن میں ان کے منکرِ حدیث ، دین میں افراتفری پھیلانے کے الزامات پر غور کرنے کی دعوت دوں گا ۔ اور دیکھیں سب مکتب ِ فکر سے انہوں نے مکالمہ کیا ہے ۔ جن سے آپ ، دیگر اور ہم سب وابستہ ہیں ۔ منیب الرحمن کا جواب ہی سب لوگوں کے اس عمل کی تائید کردیتا ہے ۔ جس کے بارے میں بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ جب آدمی کے پاس عقلی اور علمی دلیل ختم ہوجاتی ہےتو پھر ذاتیات پر آجاتا ہے ۔
برادر ظفی آپ کا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہوتا جا رہا ہے، اور لگتا ہے کہ بقول آپ کے ”شخصیت پرستی“ ضرب کاری لگا چکی ہے، اب آپ براہ راست ”فکر غامدی“ کے پرچارک کے طور پر سامنے آ رہے ہیں ۔ خیر۔ ۔ ۔ ۔! مجھے تسلیم کہ دور صحابہ میں بھی اختلاف رہا۔ ۔ ۔ خلیفہ اول کے چناؤ کے وقت اس کی ابتدا ہوئی اور بعد میں کربلا کے مقام پر انتہا ہو گئی ۔ ۔ ۔ لیکن کیا یہ اختلاف ” توہین رسالت“ کے قانون کے بارے میں تھا یا خلافت اور حق خلافت کے بارے میں تھا،
برادرم اب آپ خود اپنی بات کی زد میں آتے جا رہے ہیں کہ جب کسی کے پاس ”عقلی اور علمی دلیل ختم ہوجاتی ہےتو پھر ذاتیات پر آجاتا ہے“ توہین رسالت پر پوری امت کے اجماع و اتحاد جوکہ ظاہر ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تھا کے خلاف کوئی دلیل نہ ملی تو مسئلہ خلافت کو بیچ میں گھسیٹ لیا اور بقول خود آپ کے ”ہمیشہ کی طرح یہ دھاگہ بھی ہلڑ بازی کا شکار ہوگیا “ کیونکہ خلافت کے مسئلہ پر بات ہوئی تو یہاں شیعہ سنی مناظرے شروع ہو جائیں گے اورموجودہ قانون پر گفتگو اسی ہلڑ بازی کا شکار ہو جائے گی، ہمارے نام نہاد روشن خیال طبقہ کا شروع ہی سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ ایسے مسائل کو زیر بحث لایا جائے جس سے اسلامی قوتین انتشار و افتراق کا شکار ہو جائیں، بھئی پاکستان میں اور بھی بہت سارے قوانین ہیں جن میں موت کی سزا دی جاتی ہے ان پر روشن خیال طبقہ کیوں بات نہیں کرتا:
آئین پاکستان، اور پاکستانی کی ریاست کے خلاف تحریر تقریر کے جرم میں بھی تو سزائے موت ہے
اس میں ان کو کیوں اعتراض نہیں ہوتا کہ کسی کو”زندگی جیسی عظیم نعمت سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے“ یہ کالا قانون ہے اس کو ختم کرو
اس طبقہ کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ ان تمام اساسوں اور بنیادوں کو ہلا کر رکھ دو جن پر امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے ذرہ برابر امکانات بھی موجود ہوں
این خیال است و محال است و جنون
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دین پر پھر سے غور کرنے سے ڈرتے ہیں۔ شش شش کہہ کر، ان کے رتبے اور فضیلت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قریب ہونے کا ڈراوا دے کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ دین کے ذرائع ان کے پاس بھی وہی تھے جو آج ہمارے پاس ہیں۔ عقل و علم ان کے پاس بھی تھا جو آج ہمارے پاس بھی ہے۔ زمانہ ان کا وہ نہیں تھا جو آج ہمارا ہے۔ اس دور کے تقاضے اور تھے، آج کے تقاضے نئے اجماع اور اجتہاد کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ جو کہ ہو نہیں سکتا، چونکہ جو بندہ پچھلوں کے استدلال سے مختلف بات کرے گا وہ روشن خیال (روشن خیال کو گالی سمجھا جائے)، ناقص القعل، ناقص الایمان اور دشمن اسلام ہے۔

اس سے بونگی اور بودی دلیل میں نے کبھی نہیں سنی
ان کے پاس بھی دین کی وہی ذرائع تھے جو آج ہمارے پاس ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا للعجب
صحابہ کرام، آئمہ اہل بیت کے پاس خدا کے نبی تھے ۔۔۔۔۔ اور انکی مجلسوں میں جبریل خدا کا پیغام لے کر آیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ خود شارح قرآن ان کے درمیان ان کے مسائل حل کرنے کے لیے موجود ہوتے تھے۔ ۔ ۔ تابعین براہ راست رسول خدا سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے شاگرد تھے
اس لیے جو زمانہ نبوی میں ہوا وہ سب سے افضل اور جو انکے زمانہ سے متصل علی حسب درجہ وہ بھی افضل
اگر اتنی ہی خواہش ہے تو کیا رکاوٹ ہے، کوئی قادیانی مدعی نبوت کی طرح مزید نبی اختراع کر لیجئے، کوئی فرشتہ از قسم ”ٹیچی ٹیچی“ ایجاد کر لیجئے جو وحی بھی لے آیا کرے، اور الہامات مرزا کی طرح کوئی قرآن بھی لکھ لیجئے، صحابی اور تابعی بھی بنا لیجئے ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اجماع کی نوبت بھی آجائے گی اور اجتہادبھی ہو جائے گا
 

رانا

محفلین
یہاں گفتگو میں تلخی کا عنصر شامل ہوتا جارہا ہے جبکہ مقصد صرف یہ تھا کہ دونوں طرف کے اظہار خیال سے کسی نتیجہ پر پہنچنے میں مدد مل سکے لیکن اب تقریبآ ہرمراسلہ ہی تلخی کا عنصر لئے نظر آرہا ہے۔ اور آثار سے لگتا نہیں کہ بات اب کچھ مفید رنگ میں آگے بڑھ سکے۔ اس قانون کے حق میں بات کرنے والے بھی محبت رسول کی وجہ سے ہی اس کو نافذ کرانا چاہتے ہیں اور جو اس کے خلاف ہیں وہ بھی محبت رسول میں ہی اسکے خلاف ہیں کہ اپنے پیارے رسول کی ذات کوتماشہ نہیں بننے دینا چاہتے۔ پھر تلخی پیدا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن اگر ایسا ہی چلنا ہے تو اس دھاگے سے تو خدا حافظ ۔ کسی اور دھاگے میں ملیں گے۔
 

دوست

محفلین
یہاں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت النبی ﷺ مراد نہیں بلکہ ایک صدی ہجری سے لے کر پندرھویں صدی ہجری کے وہ علماء ہیں جن کے پاس جبریل نہیں صرف رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے حالات کتابوں اور روایتوں کے ذریعے پہنچے۔ اور جن کی رائے کے بارے میں آج اجماع امت کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔
اور معذرت کے ساتھ امت کا اس بات پر اجماع کہ توہین رسالت کی سزا موت ہے، اگر ہوتا تو آج یہ بحث نہ ہورہی ہوتی۔ یہ بحث اس بات کی دلیل ہے کہ کچھ مسائل موجود ہیں جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔
مجھے تو حیرت صرف اس بات پر ہے کہ پوری دنیا میں ایک مسلمان ملک یعنی پاکستان میں ہی یہ ڈراما لگتا ہے اور کسی ملک میں ایسا کبھی نہ ہوا۔ ملائیشا، انڈونیشیا میں ہم سے زیادہ اقلیتیں رہتی ہیں وہاں کبھی نہ توہین رسالت ہوئی۔
اور ہماری ذلالت کی انتہا یہ کہ ان الفاظ کو ہر سٹیج پر دوہراتے ہیں، شرم سے گڑ کیوں نہیں جاتے ان الفاظ کو دوہراتے ہوئے جو کسی ظالم کے منہ سے پتا نہیں غصے کی حالت میں نکل گئے تھے، اور ہم ان کو دوہرائے چلے جاتے ہیں، یہ بھی تو توہین رسالت ہے۔ اور جھوٹے مقدمات کا کیا؟ ایک مُسلا دوسرے کے خلاف یہ مقدمہ بنوا دے جو جھوٹا ہو تو اس جھوٹے مقدمے کی سزا کیا؟ موت کیوں نہیں، یہ بھی تو توہین رسالت ہے۔
پر سائیں ہمارا زور صرف اتنا ہے کہ اسلام آنے کے چودہ سو سال کے بعد ایک آمر وقت، نام نہاد امیر المومنین، جس کو مرنے کے بعد کفن بھی نصیب نہ ہوا، اپنے آقاؤں کے ہاتھ ہی مارا گیا، اس کی کی گئی دو ترامیم کو ہم نے قرآن و حدیث سے اوپر رکھ ڈالا۔ اور اس پر بات کرنے والے کو کلاشنکوف کے زور سے چپ کراڈالا۔ اور ہم اسلام کو ہر زمانے کا مذہب کہتے ہیں۔
کیا کہنے۔
 

دوست

محفلین
میرا خیال ہے کہ بات شائستگی کی حدود سے نکل گئی ہے، اس دھاگے سے ان سبسکرائب ہی کروانا پڑے گا۔
 
میرا خیال ہے کہ بات شائستگی کی حدود سے نکل گئی ہے، اس دھاگے سے ان سبسکرائب ہی کروانا پڑے گا۔
دوست!
میں اس تھریڈ میں نہیں دخل دینا چاہتا۔ صرف یہ کہنا ہے کہ بحث جن کے درمیان ں ہونی چاہیے ان کی کچھ خصوصیات اور مرتبے ہونے چاہیں۔ ہر ابے تبے کو یہ حساس بحث سوٹ نہیں کرتی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایمان غارت ہوجائے خدانہ خواستہ۔
بہتر ہے کہ پاکستان کا قائم کردہ اسلامی نظریاتی کونسل اس پر رپورٹ تیار کرے ۔ وہ کونسل جید علما پر مشتمل ہو۔ یہ نہیں کہ فورم کے نتھو خیرے یا کسی غیر ملکی طاقت کے تنخواہ دار ٹی وی پر ٹائیں ٹائیں کریں۔
 

ahsan_gold

محفلین
39952d1295677294-news-22jan2011ghamdi-gif

میں ایک مسلمان ھوں-
اور بعد اللہ کے اپنے پیارے آقا حضرت محمدِ عربی، میں میری اولاد میرے ماں باپ آپ پر قربان اُس ذات کو احترام کے قابل سمجھتا ھوں اور دل سے مانتا ھوں-
بحیثیت ایک اسلام کی تاریخ کے طالب علم کے مطابق اور اپنے علم جتنا بھی اسلام کے متعلق ھے اُس کے مطابق غامدی صاحب کو اپنے معقف میں ٹھیک سمجھتا ھوں-اور اس قانون کو جو انسان کا بنایا ھوا ھے اوا جس کو علماء اور بعض نادان (اللہ کی پناہ) لوگ قرآن کا قانون سمجھتے ھیں کوغلط اور قرآن ، سنت ، صحیع احادیث سے متصدم سمجھتا ھوں------
 

آبی ٹوکول

محفلین
السلام علیکم !
میری اکثر فورمز پر احباب کہ ساتھ اس مسئلہ میں گفتگو رہی لہذا جن جن کو بھی میں نے اس قانون کہ مخالف پایا ان سب میں ایک قدر یہ مشترک پائی کہ اعتراض تو قانون توہین رسالت پر بحیثیت قانون کہ کرتے ہیں اور اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہیں مگر دلائل دیتے وقت بجائے قرآن وسنت کہ محض اپنی مجرد عقل سے کام لیتے ہیں نیز قانون میں بجائے قرآن و سنت کہ حوالہ سے کسی سُقم کو بیان کرنے کہ اس قانون کی پاکستان کی تعزیراتی دفعات کہ تحت جو تاریخ ہے اسی کو ماخذ قانون گردانتے ہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا اعتراض و دعوٰی تو قانون توہین رسالت پر بحیثیت قانون کہ غیر اسلامی قانون ہونے کا ہے مگر جب دلائل کی باری آتی ہے تو ان لوگوں کا مبلغ علمی یہ ہے کہ تنفیذ قانون کو ہی اصل قانون سمجھتے ہوئے اس کا ناطہ ایک آمر سے بحیثیت ماخذ قانون کہ جوڑ دیتے ہیں اور یوں قرآں وسنت سے براہ راست اخذ کردہ خالصتا ایک اسلامی اور قدیم قانون کی کسی اسلامی ملک میں سن تنفی۔ذ کے اعتبار سے جدید حیثیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دے دیتے ہیں کوئی کہتا پھرتا ہے کہ یہ قانون ایک آمر نے نافذ کیا اس لیے واجب الاطاعت نہیں کوئی اپنی الگ ہانکتا ہے کہ پاکستان میں ایسے کیا سرخاب کہ پر لگے ہیں جو فقط یہاں یہ قانون نافذ و زیر بحث ہے ؟؟؟
اجی ہم ایک بات عرض کیئے دیتے ہیں کہ پاکستان میں اور کوئی سرخاب کہ پر لگے ہوں یا نہ لگے ہوں مگر ایک بات تو صاف ہے کہ یہاں پر ہر کسی کو بلکہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو فلاسفر بننے کا شوق ہے لہذا وہ کسی بھی دقیق سے دقیق تر بلکہ خالصتا علمی و قانونی و فقہی معاملات میں اپنی تانگ اڑانا تمام اہم فرائض سے بھی اہم گردانتا ہے سو یہی وجہ ہے یہاں پر یہ قانون بیچارہ بھی ہم سب کہ ہاتھوں درگت بنوا رہا ہے ۔ ۔ ۔خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ۔ ۔ ۔

اب ان حضرات کو کون سمجھائے کہ کسی بھی قانون کی تنفیذ اور کسی بھی قانون کا بطور قانون
اخذ و استنباط کیا جانا دو مختلف باتیں ہیں اگر ضیاء کہ دور میں ایک اچھا کام “ مرحلہ تنفیذ “ کو پہنچ چکا تو کیا ہم فقط اس وجہ سے اس اچھائی کا انکار کردیں گے کہ اسکی تنفیذ ایک آمر کہ دور میں ہوئی ؟؟؟
اگر یہی کرائیٹیریہ ہے تو پھر جس جس آمر نے جو جو اچھائیاں کسی بھی صورت میں کی ہیں ان سب کا بائیکاٹ کردو ۔ ۔
اوہ خدا کہ بندو یہ قانون براہ راست قرآن و سنت سے اخذ کردہ ہے مسئلہ فقط اتنا ہے کہ ضیاء دور میں اس قانون کی تنفیذ کا باقاعدہ آغاز ہوا اور ضیاء دور میں جو اس کی تنفیذ ہوئی وہ بھی مکمل اسلامی نہیں تھی اسی لیے بعد میں 1991 میں نواز شریف دور میں ایک بار پھر عدالتی حکم کہ تحت اسکو مکمل اسلامی صورت میں نافذ کیا گیا۔
ایک بار پھر عرض کردوں جتنے بھی اسلامی قوانین بصورت معاملات، حدود و عقوبات و تعزیرات ہیں ان سب کہ اصل ماخذ قرآن و سنت ہی ہیں لہزا انکے بحیثیت قانون ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہاں اگر کوئی اختلاف ہو تو وہ ان میں سے بعض قوانین کی اخذ و استنباط کہ مراحل میں فہم انسانی کہ اعتبار سے ہوسکتا ہے لہذا اگر کسی قانون میں ایسا ہوجائے تو پھر ترجیح جو ہوگی وہ جمہور کہ فہم و استنباط کو ہوگی نہ کہ تفردات پر مبنی کسی شخصی فہم کو۔

پھر یاد رہے کہ اگر کوئی بھی اسلامی قانون کسی اسلامی ریاست میں نافذ ہے تو اپنے نفاذ کی تاریخ سے پہلے اور بعد ہر دو صورتوں میں وہ (قانون) اسلامی ہی رہے گا اور اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بھی اسلامی حدود و قیود بصورت قانون نافذ نہیں تو تب بھی وہ قوانین اپنی حیثیت میں اسلامی ہی رہیں گے جبکہ وہ ملک انکو تنفیذ نہ کرنے کہ معاملے میں فسق و فجور کا مرتکب ہوگا اور وہاں کہ حکمران عوامی اطاعت کا حق کھو دیں گے ۔۔۔۔
آخر میں ایک بات کی مزید وضاحت کردوں کہ قانون توہین رسالت میں بحیثیت قانون کوئی سُقم نہیں کیونکہ اس پر ملت اسلامیہ کہ تمام مکاتب فکر کا اتفاق ہے اگر کہیں اشکالات ہیں تو وہ قرآن وسنت پر مبنی نہیں بلکہ لوگوں کی ذاتی سمجھ بوجھ اور عقول و فہم کا شاخسانہ ہیں البتہ ہاں پاکستان میں نافذ دیگر سینکڑوں تعزیراتی قوانین کی طرح اس قانون توہین رسالت کی تنفیذ مؤثر نہیں ہے سو اس حوالہ سے جتنے بھی اشکالات اور سُْقم ہیں انکو ہم بھی درست کرنے کہ قائل ہیں لہذا ہم بارہا عرض گذار رہ چکے ہیں کہ قانون توہین رسالت کی مؤثر تنفیذ کے حوالہ سے جسقدر بھی پیحیدگیاں ہیں ان سب کو دور کیا جانا چاہیے لہذا آئین و قانون پاکستان میں ایسی ترامیم کی جانی چاہیں کہ جنکہ زریعہ سے نہ صرف اس قانون بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ایسے تمام قوانین کہ جنکی غلط تنفیذ کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے کو مؤثر طریق سے رفع کیا جاسکے لہذا قانون توہین رسالت میں جو بھی ترامیم ہوں وہ قانون کی تنفیذ کہ حوالہ سے ہوں نہ کہ مطلقا قانون میں کوئی ترمیم کی جائے ۔السلام
 
کیا بات ہے ناشائستگی کی ہا ہا ہا۔۔۔۔۔۔
جب بات کو دلیل اور استدلال سے ثابت نہ کیا جا سکے تو پھر ناشائستگی کا بہانہ نہایت موزوں ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
”ایک مکتبہ فکر کا یہ نظریہ ہے کہ تقلید ایک ہی شخص کی کی جا سکتی ہے اور اگر کوئی اس کی تقلید سے نکل کر کسی اور عالم یا مجتہد کی تقلید کرے گا تو اس کے سارے اعمال اکارت جائیں گے“ :)
میرے مراسلہ کے مقتبسہ بالا حصہ پر محفل کے ایک معزز رکن نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے ذاتی پیغام کے ذریعہ وضاحت ارسال فرمائی ہے جو کہ یہاں دے رہا ہوں:
شاید آپ کو احساس نہ رہا کہ اسطرح کے الفاظ استعمال کر کے آپ کسی فرقہ کی ناراضگی کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
اہلِ تشیع میں بھی ایک کثیر تعداد غیر مقلدین کی ہے۔ پر جو لوگ تقلید کرتے ہیں انکا استدلال یہ ہے کہ جب بھی کوئی دینی مسئلہ پیش آئے تو اسکو قران سے سمجھنا چاہئے پر ہر شخص قران نہیں سمجھ سکتا تو اسکے بارے میں احادیث سے رجوع کیا جائے ۔ پر اب اگر کوئی نیا مسئلہ نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق پیدا ہوجائے تو کیا کیا جائے دوسرے ہر شخص نہ تو علم الحدیث کا ماہر ہوسکتا ہے نہ ہی علم الرجال کا کیونکہ اس طرح ہر شخص کو ساری ہی احادیث کا مطالعہ کرنا پڑے گا سارے راویانِ حدیث کے احوال پڑھنے ہونگے ظاہر ہے اتنا وقت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا کیونکہ اکثر لوگ ایسے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں کہ اگر اپنا سارا دن دین کی تعلیم پر خرچ کریں تو کھائیں کمائیں کیا اور اگر ہر شخص ہی عالمِ دین مفسر محدث بن گیا تو دوسرے کام کون کرے گا۔جسطرح ہر شخص اپنے علاج کیلئے خود ڈاکٹر نہیں بن سکتا اسکو لازمی کسی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوتا ہے اسی لئے ہر شخص اتنا بڑا عالم نہیں بن سکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر شخص کسی ایسے بڑے عالم کی تقلید کرے جس کو وہ دنیا کا سب سے بہترین عالم تصور کرتا ہو
گو کہ جس طرح اہل تسنن میں مختلف الخیال گروہ موجود ہیں اسی طرح اہل تشیع میں بھی مختلف فکر کے حامل لوگ موجود ہوتے ہیں، میں نے یہاں کسی ایک فرقہ کو نامزد نہیں کیا تھا اور بخدا نہ ہی میرا مقصد کسی کی دل آزاری تھی میں نے تو تقلید کے کے بارے میں ایک مکتبہ فکر کا موقف دیا تھا، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ اس وقت انتشار و افتراق کی متحمل نہیں ہو سکتی اس لیے مجھے ان صاحب کی وضاحت قبول کرنے میں ذرہ برابر تامل نہیں اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میرے ان الفاظ سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں ان سے معذرت کا طالب ہوں، اگر میرے ان الفظ کو مراسلہ سے حذف کر کے میرے مراسلہ کو پڑھا جائے تو بھی مراسلہ کے مفہوم پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
والسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top