استادِ محترم ! آپ بجا فرما رہے ہیں ۔ مگر ۔۔۔۔ ہم ( ہم سب ) نے اس وقت تو قرآن و سنت کے احکامات پر ہی اپنے راستے مختلف سمتوں میں ڈال دیئے ہیں ۔ جو دین کا ماخذ اور سب سے مستند دین کو سمجھنے کا ذریعہ ہے ۔ پھر عمل صحابہ، تابعین تبع تابعین، اولیائے امت، فقہا، محدثین اور پندرہ سو سالہ اجتماعی فکر کا سوچنا تو دور کی بات ہے ۔ لیکن ایک غور طلب بات ہے کہ جس طرح صحابہِ کرام ، تابعین تبع تابعین، اولیائے امت، فقہا، محدثین نے پندرہ سو سال پہلے اجماع کیا تھا کہ آج کےدور میں تمام علماء کیا یہ کام نہیں کرسکتے ۔ قرآن و سنت پر تو کوئی اپنے رائے دینے کا تو سوچ ہی نہیں سکتا، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ بعد کے لوگوں سے کہیں کسی بات کو نہ سمجھنے کا امکان رہ گیا ہو ۔ اگر وہ ہماری طرح انسان نہیں تھے ( کم از کم آج کل علماء کرام کی طرح ) تو پھر ان کی بات پر آنکھ بند کرکے یقین کرلینا چاہیئے ۔ اگر ایسا نہیں ہے اور کوئی بڑے ادب سے ان سے اختلاف کرتا ہے تو کم از کم اس کی اعتراض کا کوئی عملی جواز بھی ہونا چاہیئے ۔ یہاں تو بات فوراً لعنت و طعن پر آجاتی ہے ۔
ہم ( ہم سب ) نے اس وقت تو قرآن و سنت کے احکامات پر ہی ۔ ۔ ۔ ۔۔ کیا خوب یاد دلایا آپ نے قرآن و سنت کی اصطلاح کے بارے میں جو کہ بار بار یہاں استعمال ہو رہی ہے برادر مکرم مناسب ہوگا کہ جیسے آپ نے تقلید کی تعریف بیان کی ہے اسی طرح”سنت“ کی تعریف بھی بیان کر دیں جائے، کیونکہ ”فکر غامدی” کے مطابق سنت کے مفاہیم کچھ اور ہی ہیں اور انہوں نے اس سلسلہ میں وقعی
اپنے (اور ہمارے) راستے مختلف سمتوں میں ڈال دیئے ہیں، کیا 1998 سے لیکر 2010 تک انکی جانب سے27 سنتوں کی 3 مرتبہ ترمیم شدہ فہرست جو جاری کی گئی ہے وہ آپ کی نظر سے گذری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟
لیکن ایک غور طلب بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجماع کے بارے میں آپ نے سوال اٹھایا۔ ۔۔ ۔ شاید آپ یہاں اجتہاد کا لفظ استعمال کرنا چاہتے تھے جہاں آپ نے اجماع لکھ دیا، یاد رہے کہ اجتہاد اور بات ہے اور اجماع الگ معاملہ ہے ”اجماع“ کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ پوری امت کا ایک رائے پر جمع ہو جانا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بات خلاف عقل و دانش ہے کہ ہر دور میں ہر زمانے میں امت مسلمہ ایک خاص مسئلہ کے بارے میں ”کسی غلط رائے“ پر جمع ہو جائے میں یہی بات بار بار سمجھانا چاہتا ہوں، بہت سارے مسائل کے اندر امت میں اختلاف رہا ہے لیکن زیر بحث قانون کے بارے میں نہ تو صحابہ کے زمانہ میں کسی کو اختلاف تھا اور نہ ہی اس کے مابعد کے زمانوں میں علمائے امت نے اس بارے میں کوئی اختلاف کیا، اور آج بھی یہی صورت حال ہے کہ مختلف مسالک، اور فرقے اس ایک مخصوص قانون پر متحد و متفق ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن نام نہاد دانشور۔ ۔ ۔ ۔ یہ چاہتے ہیں کہ اس معاملہ پر یہ امت کیوں متفق ہے، دوسرے مسائل کی طرح اس معاملہ میں جوتم پیزار کیوں نہیں ہو رہی،
کیا قرآن کریم اہل کتاب سے مخاطب ہوکر یہ نہیں کہتا:
”اے اہل کتاب آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے“
جب اہل کتاب کو ”مشترکہ فکر“ کی جانب بلایا جا رہا ہے تو بین المسالک اختلاف کے باجود مقام شکر ہے کہ ہمارے ہاں کے تمام مسالک کسی ایک فکریعنی ”توہین رسالت“ پر علمی اور فکری اتحاد و یگانگت کا مظاہر کر رہے ہیں، اور اس رسول کی حرمت کے نام پر سب ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوگئے ہیں جو ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعا“ کا درس لے کر آیا تھا۔ ۔ ۔الحمد للہ آج توہین رسالت کا قانون ”حبل اللہ“ کی حیثیت اختیارکر گیا ہے جس پر پوری امت متحد و متفق ہے
جبکہ اجتہاد دیگر چیز ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جب دور جدید کے مسائل کے پیش نظر ائمہ اور فقہا کے مرتب کردہ ذخیرہ میں سے کچھ نہ ملے تو علماکی کونسل جدید تقاضوں کے پیش نظر اجتہاد کر سکتی ہے اور اس اجتہاد میں بھی قرآن و سنت کے کسی بنیادیاصول کو مد نظر رکھا جائے گا، بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے کیا جانے والا اجتہاد، اجتہاد نہیں بلکہ شیطانی سازش قرار پائے گی۔
چلیں میں اس تھیم کے مطابق ہی اپنے دلائل اور استدلال پیش کرتا ۔ مگر کیا اس تھیم کا کوئی عملی اور عقلی جواب نہیں موجود تھا ۔ کہ اس تھیم کو ایک خاص مکتبِ فکر سے جوڑ دیا گیا ۔ میں کہہ چکا ہوں کہ جن اختلاف کا پہلو ہر کسی کے نکتہِ نظر میں پایا جاتا ہے ۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ سب باٹا کی شوز کی طرح فیکڑی سے بن کر نکلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزمائش اور امتحان کے لیئے پیدا کیا ہے ۔ اور سارے اسکیم کا دارومدار اسی عقل و فہم سے ہے ۔ جس پر ہم ایک دوسرے پر اعتراضات کرتے ہیں ۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ آج غامدی صاحب کے طرز فکر کو ایک الگ رنگ دیا جاتا ہے ۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ جن تابعین تبع تابعین، اولیائے امت، فقہا، محدثین اور پندرہ سو سالہ اجماع کی بات ہم کررہے ہیں ۔ وہاں کتنے مکتب ِ فکر موجود تھے ۔ آج بھی کتنے مکتبِ فکر جو اجماع کر چکے ہیں ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے بھی گریزاں ہیں ۔ حتی کی صحابہ کرام کے دور میں بھی اختلافات رواں رہے ۔ پہلے خلیفہ کے انتخاب میں ہی انصار الگ ہوگئے ۔ اس کے بعد کے دورِ خلافت میں کیا ہوا ۔ ؟
قرآن و سنت کے بعد اگر کوئی کسی کی رائے اور اجماع کی بات کرے گا تو وہاں اختلاف لازمی سامنے آئے گا ۔ اب اگر کوئی کسی مکتب ِ فکر سے تعلق رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ سامنے والا راہِ راست سے بھٹکا ہوا ہے تو اس کو قائل کرے ۔ صرف انگلیاں اٹھانے سے کام نہیں چلے گا ناں محترم شاکر صاحب ۔ علمی بحث میں دلائل ، استدلال اور ثبوت ہی سب کچھ ہوتے ہیں ۔ جس کے قوی ہونگے لوگ اس کی بات مان لیں گے ۔ ورنہ کس پر فتوی لگا کر اس پر بحث سے اجتناب کرنا کیا معنی رکھتا ہے سوائے اس کے اس کے دلائل کے جواب میں کوئی ٹھوس استدلال نہیں ۔ قادیانیوں اور دیگر لوگوں کی طرح غامدی صاحب بھی چھپ کرکسی نئے دین کی تعریف کر رہے ہوتے تو بات سمجھ بھی آتی تھی ۔ مگر وہ شخص سب کے جھتے میں گھس کر جو بات کرتا ہے ۔ اس پر پھر فتوی کسنے والوں کی گھیگی بند ہوجاتی ہے ۔ چونکہ آپ کا سب بڑا اعتراض ہی غامدی صاحب کی ذات ہے اس لیئے میں یہ ساری بات انہی کے حوالے سے کر رہا ہوں ۔ ان شاء اللہ جلد ہی ان کی کچھ وڈیو میں یہاں لگاؤں گا ۔ جن میں ان کے منکرِ حدیث ، دین میں افراتفری پھیلانے کے الزامات پر غور کرنے کی دعوت دوں گا ۔ اور دیکھیں سب مکتب ِ فکر سے انہوں نے مکالمہ کیا ہے ۔ جن سے آپ ، دیگر اور ہم سب وابستہ ہیں ۔ منیب الرحمن کا جواب ہی سب لوگوں کے اس عمل کی تائید کردیتا ہے ۔ جس کے بارے میں بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ جب آدمی کے پاس عقلی اور علمی دلیل ختم ہوجاتی ہےتو پھر ذاتیات پر آجاتا ہے ۔
برادر ظفی آپ کا لہجہ کچھ زیادہ ہی تلخ ہوتا جا رہا ہے، اور لگتا ہے کہ بقول آپ کے ”شخصیت پرستی“ ضرب کاری لگا چکی ہے، اب آپ براہ راست ”فکر غامدی“ کے پرچارک کے طور پر سامنے آ رہے ہیں ۔ خیر۔ ۔ ۔ ۔! مجھے تسلیم کہ دور صحابہ میں بھی اختلاف رہا۔ ۔ ۔ خلیفہ اول کے چناؤ کے وقت اس کی ابتدا ہوئی اور بعد میں کربلا کے مقام پر انتہا ہو گئی ۔ ۔ ۔ لیکن کیا یہ اختلاف ” توہین رسالت“ کے قانون کے بارے میں تھا یا خلافت اور حق خلافت کے بارے میں تھا،
برادرم اب آپ خود اپنی بات کی زد میں آتے جا رہے ہیں کہ جب کسی کے پاس ”عقلی اور علمی دلیل ختم ہوجاتی ہےتو پھر ذاتیات پر آجاتا ہے“ توہین رسالت پر پوری امت کے اجماع و اتحاد جوکہ ظاہر ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تھا کے خلاف کوئی دلیل نہ ملی تو مسئلہ خلافت کو بیچ میں گھسیٹ لیا اور بقول خود آپ کے ”ہمیشہ کی طرح یہ دھاگہ بھی ہلڑ بازی کا شکار ہوگیا “ کیونکہ خلافت کے مسئلہ پر بات ہوئی تو یہاں شیعہ سنی مناظرے شروع ہو جائیں گے اورموجودہ قانون پر گفتگو اسی ہلڑ بازی کا شکار ہو جائے گی، ہمارے نام نہاد روشن خیال طبقہ کا شروع ہی سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ ایسے مسائل کو زیر بحث لایا جائے جس سے اسلامی قوتین انتشار و افتراق کا شکار ہو جائیں، بھئی پاکستان میں اور بھی بہت سارے قوانین ہیں جن میں موت کی سزا دی جاتی ہے ان پر روشن خیال طبقہ کیوں بات نہیں کرتا:
آئین پاکستان، اور پاکستانی کی ریاست کے خلاف تحریر تقریر کے جرم میں بھی تو سزائے موت ہے
اس میں ان کو کیوں اعتراض نہیں ہوتا کہ کسی کو”زندگی جیسی عظیم نعمت سے محروم کیوں کیا جا رہا ہے“ یہ کالا قانون ہے اس کو ختم کرو
اس طبقہ کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ ان تمام اساسوں اور بنیادوں کو ہلا کر رکھ دو جن پر امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے ذرہ برابر امکانات بھی موجود ہوں
این خیال است و محال است و جنون