میں نے کہا ہے کہ کوئی بھی حوالہ آپ کے اپنے استدلال اور عقل فہم کے ساتھ پیش ہو ۔ تاکہ کسی سے بحث کے دوران اندازہ ہو کہ کوئی کسی مقلد سے گفتگو کر رہا ہے یا کسی صاحب ِ فہم سے ۔
برادرم ظفری!
آپ کی بات اس حد تک بہت اچھی ہے کہ کوئی بھی حوالہ پیش کیا جائے تو اس کے ساتھ اپ کے اپنے استدلالات اور فہم وفراست نظر آرہی ہو، لیکن تقلید سے متعلق آپ کا رویہ کچھ بہتر نہیں آپ کے یہ الفاظ:
تاکہ کسی سے بحث کے دوران اندازہ ہو کہ کوئی کسی مقلد سے گفتگو کر رہا ہے یا کسی صاحب ِ فہم سے ۔
اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ آپ تقلید کرنے والوں کو فہم و فراست سے عاری جانتے ہیں آپ کا یہ رویہ انتہائی غیر محتاط اور کسی کی دل آزاری کا باعث ہو سکتا ہے، اب ذرا اس سلسلہ میں استدلال بھی ملاحظہ ہو:
اس دنیا میں کوئی ایسا شخص آپ مجھے دکھا سکتے ہیں جس کے گلے میں تقلید کا قلادہ نہ ہو؟
ہر شخص عقل دانش اور علم و فراست شکم مادر سے سے ساتھ نہیں لاتا،
پیدا ہونے کے بعد گود سے گور تک وہ شعوری اور لا شعوری طور پر تقلید کرتا رہتا ہے اور تقلید کا قلادہ ہمیشہ اس کے گلے میں پڑا رہتا ہے،
کوئی ماں باپ کی تقلید کر رہا ہے تو کوئی اپنے اساتدہ کی تقلید میں مصروف ہے
کوئی اپنے پسندیدہ ہیرو اورآئیڈیل جیسا بننے کی کوشش میں مصرف ہے، تو کوئی اپنے سیاسی و سماجی لیڈر کی اقتدا میں لگا ہوا ہے۔
کوئی نیکی کی طرف راغب ہوکر اولیا ٔ اللہ کی تقلید کر رہا ہےتو کوئی بدی کا نمائندہ بن کر شیطان کے چلیوں کی رہنمائی میں اپنا سفر زندگی طے کر رہا ہے، الغرض
جو لوگ غیر مقلد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی دراصل اس دعوی و نظریہ میں کسی نہ کسی کی تقلید کر رہے ہوتے ہیں،
صحت کے معاملہ میں حکیم اور ڈاکٹر سبھی بڑے بڑے امامان طب کی تقلید کر رہے ہیں، کوئی عام آدمی دوا تجویز کرے تو جان کا خطرہ لا حق ہو جاتا ہے،
بڑے بڑے ملکی ادارے اس لیے دیوالیہ ہو رہے ہیں کہ وہاں متعلقہ شعبہ کے ایکسپرٹ لوگوں کو سربراہ نہیں بنایا جا رہا،
ان اداروں کو بھی ایسے ہی صاحبان فہم و فراست تباہ کر رہے ہیں جو متعلقہ شعبے کے بارے میں تو کچھ نہیں جانتے لیکن عقل و شعور ان کے پاس وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے، چنانچہ انکے عقل و شعور کی یہ وفرت اپنی جیبیں بھرنے اور ذاتی مفادات کے تحفظ میں صرف ہوتی ہے اور نتیجہ کے طور پر ادارہ تباہ ہو جاتا ہے۔
یہی معاملہ اسلام کے ساتھ بھی در پیش ہے، کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر اپنے آپ کو نابغہ روزگار اسلامی مفکر سمجھ کر لوگوں کے دلوں اور ایمانوں میں نقب لگاتا ہے تو کوئی ڈینٹل سرجن اٹھ کر دین کی سرجری شروع کر دیتا ہے
ہمیں خوشی ہے کہ ہم مقلد ہیں اور ماہرین کی ماہرانہ رائے کو تسلیم کرتے ہیں، اگر ہمیں کہیں اطمینان قلبی نہیں ملتا تو کسی دوسرے ماہر اور ایکسپرٹ کی رائے سے استفادہ کر سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کوئی مالکی ہے تو کوئی حنفی، کوئی شافعی ہے تو کوئی حنبلی
تقلید کے بارے میں موجودہ ”دانش“ کا رویہ قابل افسوس ہے ۔ آخر تقلید کہتے کس کو ہیں؟ تقلید در اصل ایکسپرٹ اوپینین ( ماہرانہ رائے) کا نام ہی تو ہے جو ہمیں زندگی کے ہر شعبہ میں قبول ہے لیکن دین کے معاملہ میں ہم اس کو جہالت کے نام سے تعبیرکرتے ہیں،
کیا ہم میں سے کوئی فرد، یہ دعوی کر سکتا ہے کہ:
وہ قرآن ، حدیث، سیرت طیبہ کا کما حقہ احاطہ کر سکتا ہے،
کیا ہم سے میں کوئی علوم قرآنی اور علوم حدیث پر کامل دستگاہ رکھتا ہے،
کیا ہم میں سے کوئی عربی زبان و ادب، گرامر، منطق، علم رجال، اہل عرب کے رسم و رواج، اس زمانے کے سیاسی ثقافتی پس منظر، جاہلی ادب، اقوال آئمہ و فقہا سے کما حقہ آگاہ ہے،
ہماری حیثیت تو بس اتنی ہی ہے کہ ہم سردرد کی صورت میں ڈسپرین تو استعمال کر سکتے ہیں لیکن کسی بھی پیچیدہ بیماری کی صورت میں ہمیں ڈاکٹر کا مشورہ درکار ہو گا اور ڈاکٹر کی ہدایت پر بلا چون و چراں عمل کرنا ہوگا۔ ۔ ۔ اور
اگر ہمیں نسخہ تجویز کرنا ہی ہے تو ہمیں اس کے لیے کم از کم ایم بی بی ایس اور پھر اس کے بعد جنتا چاہے کسی خاص شعبہ میں تخصص حاصل کرنا ہوگا
بعینہ تقلید کا معاملہ بھی ہے، جس مسئلہ کو آپ پوری طرح نہیں سمجھ سکتے اس کے بارے میں علومی دینیہ کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے اور وہ اپنی فہم و فراست کے ساتھ جو مسئلہ کا حل بتائیں اس پرعمل کیا جاتا ہے، یہ علیحدہ بات کہ اس میں بھی خطا کا امکان بہرحال موجود ہوتا ہے
لیکن جب ایک معاملہ میں کئی سو سالوں تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں ماہرین ایک جیسی رائے رکھتے ہوں اور ایک ہی نسخہ تجویز کر رہے ہوں تو اس نسخہ کی صحت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا
آج کا ایک شخص اگر سینکڑوں سالوں کے تجربہ، اور علم کی روشنی میں متفقہ طور پر سامنے آنے والی رائے کو ”اجتماعی غلطی“ یا متفقہ غلطی کا نام دے تو اس کی فہم و فراست پر ماتم تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے دانش ور قرار نہیں دیا جا سکتا:
شاتم رسول کی سزا سے متعلق بھی پانچ رکنی عدالتی بینچ نے متعلقہ شعبہ کے ماہرین سے آرا طلب کی تھیں
فاض عدالت کے سامنے کئی روز تک ماہرین اسلامی علوم نے لا تعداد دلائل پیش کیے، فقہا، اور اکابرین اسلام سے تواتر اور تسلسل کے ساتھ اس قانوں کے حق میں ثبوت فراہم کیے، تب عدالت نے اس قانوں میں موجود عمر قید کی سزا کو موت سے تبدیل کیا۔
اگر کسی کو اس سلسلہ میں دلائل کی ضرورت ہے تو وہ فیڈرل شریعت کورٹ کی عدالتی کارروائی پڑھ لے، اس فیصلہ سے متعلق پی ایل ڈی کا مطالعہ کر لے، اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ عدالت یا پاکستان کی مقننہ سے اس قانون سازی میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ عدالت سے رجوع کرے اور اپنے دلائل دے اور اگر اپنی بات منوا سکتا ہے تو منوالے ۔