استادِ محترم ۔۔۔
پہلی بات کہ آپ نے کعبے کے غلاف میں چھپنے والوں کو قتل کرنے کے جس واقعے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سزائیں کب دیں تھیں ۔ وہ مکمل واقعہ کیا تھا اور وہ کونسا موقع تھا ۔ ؟
دوسرا یہ کہ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ معافی کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو پھر سزا کا دینے کا اختیار ایک عام مسلمان کو کیونکر دیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ سزا بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ کسی کو اس کی سب سے بڑی نعمت یعنی زندگی سے محروم کردینے کی سزا ہے ۔ امید ہے آپ اس پر کوئی مفصل جواب دیکر اپنے اس طالبعلم کو ہمیشہ کی طرح مطمئن کریں گے ۔ اور اس پر کوئی سیر حاصل حقائق سامنے آسکیں گے ۔
عزیزم ظفری! آپ کی جانب سےعمدہ سوالات اٹھانے پر مجھے خوشی ہو رہی ہے یقینا موضوع کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کے ذہن میں بھی یہ سوالات اٹھے ہونگے
پہلا سوال ۔۔ ۔ ۔ جن مردوں اور عورتوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ انہیں غلاف کعبہ میں بھی قتل کر دیا جائے ، سے متعلق ہے اس کے بارے میں مختصرا یہ کہوں گا کہ یہ لوگ نہ صرف ارتداد کے مرتکب ہوئے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخیوں اور اہانتوں میں مصروف رہتے اور اللہ اور اسکے رسول کی ایذا رسانی میں پیش پیش ۔۔ ۔ یہ فتح مکہ کا موقع تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جب رحمت عالم نے عفو و درگزر کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر ابدالآباد تک نہیں مل سکے گی آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا:
”لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم اطلقأ “ ( آج تم پر کچھ ملامت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو) البدایہ والنہایہ
لیکن اس عام معافی سے چار مردوں اور دو عورتوں ۔۔ ۔ ۔ ایک اور روایت کے مطابق گیارہ مردوں اورچھ عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا اور ان کے بارے میں حکم دیا کہ:
”اقتلوھم وان وجدتموھم متعلقین باستار الکعبہ“ (انہیں قتل کردو اگرچہ وہ کعبہ کے غلاف سے چمٹے ہوئے بھی پائے جائیں) ۔۔ ۔ سنن نسائی، کتاب المحاربہ
قابل غور بات ہے ۔ ۔ ۔ کہ: خانہ کعبہ بیت الحرام ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کی حدود میں جوں تک مارنا درست نہیں لیکن ان مردوں اور عوتوں کے گناہ کی شدت اور جرم کی نا قابل معافی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے خون سے غلاف کعبہ کو رنگین کر دیے جانے میں بھی کوئی قباحت نہ جانی گئی بلکہ اس کو اباحت کے زمرہ میں رکھا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان مردوں اور عورتوں میں سے کچھ تو قتل کر دیے گئے، جن میں سے ایک دو تو ایسے تھے جو فی الواقعہ خانہ کعبہ میں غلاف کعبہ کے اندر بغرض پناہ چھپے لیکن وہیں واصل جہنم کر دیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ کچھ کو بعد میں معاف کر دیا گیا
دوسرا سوال : ”کہ
معافی کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو پھر سزا کا دینے کا اختیار ایک عام مسلمان کو کیونکر دیا جاسکتا ہے ۔“
اس سوال کا جواب دو اور دو چار کی طرح بالکل صاف ستھرا ہے
جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو وہ تو ایک قرآنی قانون ہے جس کے ہم پابند ہیں (اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سزا کے نفاذ کا اہتمام کرے)
جہاں تک معافی کا تعلق ہے اور یہ اگر بات پوچھی جائے کہ معافی کا اختیار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی ہے اور دوسروں کو کیوں نہیں تو یہ ایک سیدھی سادھی بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اگر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ”زید“ کو گالی دے کر اسے رنج پہنچاؤں اور اس کی دل آزاری کروں
تو ۔۔ ۔ ۔ ”بکر“ کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ ”زید“ کی مرضی کے بغیر مجھے معاف کر دے اور زید کی حق تلفی کرے
یہ حق تو زید کا ہی ہے ۔ ۔ ۔ وہ چاہے تو اپنے ذاتی حق میں تصرف کر کے مجھے معاف کر دے اور چاہے تو معاف نہ کرے۔ ۔ ۔ اور اگر زید مجھے معاف نہیں کرتا تو پھر تو مجھے اللہ بھی معاف نہیں کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر میں ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جو انہی مردوں میں سے ایک کے متعلق ہے جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس واقعہ سے بات بالکل واضح اور روشن ہو جائے گی۔
عبداللہ بن ابی سرح
=============
یہ شخص خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رضاعی(دودھ شریک) بھائی تھا اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں اس کو مصر کا گورنر بھی بنایا گیا تھا۔ اس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ھجرت بھی کی تھی لیکن بعد میں مرتد اور مشرک ھو کر قریش مکہ کے ساتھ جا ملا تھا
اس کے ارتداد کا قصہ یہ ہے:
یہ چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لیے اس سے کتابت وحی کا کام بھی لیا جاتا تھا ۔۔ ۔ ۔
ایک روز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آیات املا کروا رہے تھے تو جب آپ کسی آیت کے آخر میں پہنچے تو
جیسے کسی اچھے شعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ شاعر پہلا مصرعہ پڑھ لیتا ہے اور ابھی اس نے دوسرامصرعہ آدھا ہی پڑھا ہوتا ہے لیکن سامع اپنے ذوق سلیم اور اس شعر کے فنی محاسن کی بنا پر دوسرے مصرعہ کا باقی ماندہ حصہ شاعر کے پڑھنے سے پہلے ہی بوجھ لیتا ہے، جان لیتا ہے
بالکل ایسے ہی جب املا کرائی جانے والی آیت تکمیل کے قریب تھی تو اس کے آخری دو تین الفاظ خود بخود عبداللہ ابن ابی سرح کی زبان پر جاری ہو گئے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ بھی املا کرا دیے اور فرمایا ۔ ۔ ۔ ہاں ایسے ہی ہے لکھ لو
شیطان ملعون موقع کی تاک میں تھا
اس نے فورا ابن ابی سرح کے ذہن میں یہ بات ڈال دی
لو جی ۔ ۔ ۔ یہ قرآن تو ایسے ہی مرتب ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ جو کچھ میں نے پڑھا وہ بھی املا کرا دیا ۔ ۔ ۔ خدا جانے ان آیات اور سورتوں کے باقی حصے کہاں کہاں سے اٹھائے گئے ہونگے
وہ وہاں سے اٹھا اور ارتداد کا راستہ اپنایا
پھر کیا تھا اس نے نہایت زور و شور سے یہ پراپگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ
میں محمد کے قرآن کی حقیقت جان چکا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں تو وہ باتین بھی لکھ دی جاتی ہیں جو خالص میرے ذہن کی اختراع ہوتی ہیں
گویا مجھ پر بھی محمد کی طرح وحی نازل ہوتی ہے
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کتابت وحی کے دوران میں نے بہت ساری باتین اپنی طرف سے بھی قرآن میں داخل کر دی ہیں اس طرح وہ اپنے بیانات سے قرآن کی الہامی حیثیت کو مشکوک بناتا اور صاحب قرآن کی تذلیل و توہین میں کوشاں رہتا
وہ یہ بھی کہا کرتا کہ : میں نے حضرت محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایسی کاری ضرب لگائی ھے جیسی میں چاھتا تھا۔
وہ ہر وقت رسول اللہ کی گستاخی اور اہانت میں مصروف رہتا
وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ میں عنقریب ایک ایسا ہی قرآن پیش کرونگا جیسا محمد کے پاس ہے۔
قرآن مجید نے سورہ انعام میں اس کے کفر کا اس طرح اعلان فرمایا ھے:
< وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْہِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ ۔>
اس سے بڑھ کر کون ظالم ھو گا جو خدا پر جھوٹ اور افتراء پر دازی کرے اورکھے کہ ھمارے پاس وحی آئی ھے حا لانکہ اس کے پاس کو ئی وحی وغیرہ نھیں آئی یا وہ یہ دعوی کرے کہ جیسا خدا وند عالم نے قرآن نازل کیا ھے میں بھی ایسا قرآن عنقریب نازل کئے دیتا ھوں۔
جب مکہ فتح ھو گیا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ اس(ملعون)کا خون مباح ھے اگرچہ یہ خانہ کعبہ کے غلاف میں ھی کیوں نہ چھپا ھو۔
عبداللہ ابن ابی سرح یہ حکم سن کر رو پوش ہو گیا اور کا فی عرصہ تک مختلف قبائل میں روپوشی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ ۔ ۔ پھر اس نے اپنے رضاعی بھائی حصرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم دلی اور اپنے اقربا سے محبت رکھنےکی خصوصیت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ یہ حضرت عثمان کے پاس چلا گیا اور مقصد بیان کیا کہ کسی طرح اس کو معافی دلوا دی جائے۔ حضرت عثمان نے اپنی رحم دلی کی وجہ سے رات اسے پناہ دی اور صبح ایک چادر اوڑھا کر دربار رسالت میں لے گئے تاکہ راستہ میں شناخت نہ کر لیا جائے اور قتل نہ کر دیا جائے۔
جب حضرت عثمان نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے لئے امان مانگی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی دیر تک خاموش رھے اور توقف فرمایا۔
حتی کہ دوسری اور تیسری بار امان طلب کی گئی،
لیکن آپ خاموش رہے اور توقف فرماتے رہے
پھر کافی توقف کے بعد فرمایا ہاں اسے امان دی جاتی ہے۔
جب حضرت عثمان چلے گئے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مجلس میں حاضر صحابہ سے ارشاد فرمایا:
میں نے اتنی دیر خاموشی اختیار کی اور متوقف رہا
تم میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ عبداللہ ابن ابی سرح کی خبر لیتا، اور اپنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دیتا، کیا تم لوگوں کو اس کے قتل کے بارے میں میرا حکم معلوم نہ تھا۔
صحابہ نے عرض کی: حضور آپ کے دربار میں امان کی درخواست دائر ہو چکی تھی ہماری کیا مجال کہ ہم آپ کی موجودگی میں آپ کے فیصلہ کرنے سے پہلے کچھ کرتے ۔ ۔ ۔ اور ہمیں کیا خبر تھی کہ آپ توقف کیوں فرما رہے تھے ۔ ۔ ۔ ہمیں آپ کے دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ۔۔ ۔ ۔ سرکار اگر آپ صرف ایک جنبش ابرو سے اشارہ فرمادیتے ۔ ۔ ۔ تو ہم نے اس کا کام تمام کر دینا تھا
آپ نے جوابا فرمایا:
ایک نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بظاہر خاموش رہے لیکن آنکھ کے اشارے سے کسی کے قتل کا حکم دے
==============
سبحان اللہ العظیم،
اس واقع سے تین نتائج اخذ ہوئے:
اولا: رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمة اللعالمینی، آپنے اپنے ذاتی حق میں تصرف فرماتے ہوئے اس کو معاف فرما دیا اور امان دے دی ۔
ثانیاً: آپ نے مسلمانوں کو اس قانون اور اس کی سزا کے بارے میں جتا بھی دیا کہ اس کے قتل کے سلسلہ میں میرا پہلا حکم تمہارے سامنے تھا، جب میں توقف کر رہا تھا تو تمہیں چاہیئے تھا کہ تم اس حکم پر عمل درآمد کر دیتے
ثالثا: اصحاب رسول کا رویہ، کہ وہ اپنے سربراہ اور قاید کی موجودگی میں اپنے آپ کو فیصلہ کرنے کا مجاز نہ جانتے تھے اور معاف کرنے یا نہ کرنے کا حق صرو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہی تسلیم کرتے تھے
برادرم ظفری!
میرا خیال ہے کہ اس واقعہ کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ معاف کرنے کا حق صرف نبی کو ہے اور سزا دینے کا حکم ہمارے لیے
یہ سزا کون دے گا، کیا ہر مسلمان انفرادی طور پر یہ سزا دے سکتا ہے یا اس کے لیے ریاستی طور پر قانون ہونا چاہیئے اور اس قانون کی عملداری کو کیوں یقینی بنایا جانا چاہیئے تاکہ لوگ اپنے اپنے طور پر انفرادی امور نہ انجام دینے لگیں بلکہ اس سلسلہ میں ریاست اور عدلیہ کے ذمہ داران اپنے فرائض کو نباہیں
قانون ہمیسہ تب ہی ہاتھ میں لیا جاتا ہے جب وہ بے فیض اور بے ثمر ہو جائے، جب قانون کے رکھوالے قانون شکنی کرنے لگیں اور انہیں قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے تو، جمہور کا اشتعال تو فطری سی بات ہوگی، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ میں ریاست اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ انفرادی طور پر رد عمل دیکھنے میں نہ آئے۔
ان تمام باتوں پر میں سب سے آخر میں بات کرونگا لیکن اس سے پہلے مزید کچھ سوالات اور نکتوں پر بات کی جائے گی تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہے
ابھی سلسلہ تحریر جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔