محمداحمد
لائبریرین
خدا خدا کرنا اور خدا خدا کر کے
دونوں الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔
ذو معنی اشعار میں دونوں میں سے کوئی ایک معنی لیا جا سکتا ہے۔
خدا خدا کرنا اور خدا خدا کر کے
دونوں الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔
جیسے خدا خدا کرکے وہ ڈاکہ مارنے میں کامیاب ہو ہی گیا؟؟؟خدا خدا کر کے
یہ محاورہ ہے
جس کا مطلب ہے
بڑی مشکل سے
جیسے خدا خدا کرکے وہ ڈاکہ مارنے میں کامیاب ہو ہی گیا؟؟؟
یہ ہوا ناں دو معنوں والا شعر!!!کل جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی، خدا خدا کرکے
یہ ہوا ناں دو معنوں والا شعر!!!
واہ۔۔۔ کیا کہنے احمد بھائی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح شاندار۔۔۔ لاجوابجاگتے خواب مجھ سے کہتے ہیں
نیند کن وادیوں میں سوئی ہے
خود کلامی کی خُو نہیں جاتی
کچھ نہیں ہے تو شعر گوئی ہے
واہ۔۔۔ کیا کہنے احمد بھائی۔۔۔ ہمیشہ کی طرح شاندار۔۔۔ لاجواب
کیا بات ہے احمد بھائی ! بہت ہی خوب!!! چھوٹی زمین میں بڑی باتیں !
کیا اُنہیں حالِ دل بتا دوں میں
وہ جنہیں زعمِ اشک شوئی ہے
کیا اچھا کہا ہے ! زندہ باد!
میں تمھاری طرح نہ بن پایا
میں نے اپنی شناخت کھوئی ہے
------
خود کلامی کی خُو نہیں جاتی
کچھ نہیں ہے تو شعر گوئی ہے
بہت خوب -
دیکھیے آپ کی زمین میں ایک شعر میرا بھی ہوگیا:
بےتحاشا دروغ گوئی ہے
اہل نقد و نظر بھی کوئی ہے ؟
دیکھیے آپ کی زمین میں ایک شعر میرا بھی ہوگیا:
بےتحاشا دروغ گوئی ہے
اہل نقد و نظر بھی کوئی ہے ؟
ظہیر بھائی -حیرت ہوئی آپ کی بات پر -صاحب اور اہل کا فرق میری نظر میں ملکیت و اہلیت کا ہے -کچھ چیزیں ہمارے پاس ہوتی تو ہیں مگر ہم ان کے اہل نہیں ہوتے -صاحب اور اہل کے فرق کے لیے لطیفے کے طور پر ایک بات عرض کرتا ہوں کہ کچھ مرد اپنی اہلیہ کے صاحب تو ہوتے ہیں اہل نہیں ہوتے کیونکہ انھیں بیگم سے زیادہ حکیم کی ضرورت ہوتی ہے -یاسر بھائی ، کچھ ستم ظریفانہ سا شعر ہوگیا یہ تو ۔
اہلِ نظر اور اہلِ علم جمع کا صیغہ ہیں ۔ یہ کبھی واحد کے لئے استعمال نہیں ہوتے ۔ واحد کے لئے صاحبِ نظر اور صاحبِ علم مستعمل ہیں ۔
ظہیر بھائی -حیرت ہوئی آپ کی بات پر -صاحب اور اہل کا فرق میری نظر میں ملکیت و اہلیت کا ہے -کچھ چیزیں ہمارے پاس ہوتی تو ہیں مگر ہم ان کے اہل نہیں ہوتے -صاحب اور اہل کے فرق کے لیے لطیفے کے طور پر ایک بات عرض کرتا ہوں کہ کچھ مرد اپنی اہلیہ کے صاحب تو ہوتے ہیں اہل نہیں ہوتے کیونکہ انھیں بیگم سے زیادہ حکیم کی ضرورت ہوتی ہے -
فرہنگ آصفیہ صفحہ ٣٣٠ پر اگر آپ <اہل> کے معانی دیکھیں تو وہیں ایک مصرع بطور سند درج ہے جو میرے اس شعر کا حاصل ہے :
<اے اہل بزم کوئی تو بولو خدا لگی >
اس کے علاوہ یہ اسناد ہیں جن میں اہل نظر کو بطور واحد باندھا ہے :
اہل نظر کسو کو ہوتی ہے محرمیت
آنکھوں کے اندھے ہم تو مدت رہے حرم میں
----------------------------------میر تقی میر
ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں
یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے
------------------------------------ذوق
چہرے پہ سجا لایا ہوں میں دل کی صدائیں
دنیا میں کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں ہے
--------------------------------قتیل
آنکھ پڑتی ہے ہر اک اہل نظر کی تم پر
تم میں روپ اے گل و نسرین و سمن کس کا ہے
----------------------------------حالی
اہل دل کے بھی دو شعر دیکھ لیجیے :
اہل دل جان کے رکھتا ہے مجھے عشق بتنگ
کاشکے دل کے عوض کوئی ملا ہوتا سنگ
-------------------------------میر تقی میر
اہل دل گر جہاں سے اٹھتا ہے
اک جہاں جسم و جاں سے اٹھتا ہے
--------------------------------مصحفی