غزل ۔ سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب احمد بھائی! کیا غزل ہے ! اکثر اشعار بہت ہی خوب ہیں ۔ بہت پسند آئے!

شکریہ۔ :)

البتہ معذرت کے ساتھ ایک آدھ جگہ تبصرے کی جراءت کروں گی ۔

معذرت کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ غزل پیش ہی اسی لئے کی جاتی ہے کہ اُس پر بات کی جائے۔ :)

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

اس شعر کے دونوں مصرعے باہم مطابق نہیں لگے چنانچہ شعر ایک الجھا ہواتاثر چھوڑرہا ہے ۔ صحرا تو اجاڑ اور غیرآباد ہوتا ہے اس لئے لوگوں کا صحرا کہنا مناسب تصویر کشی نہیں لگی ۔

یہاں خیال کچھ اس طرح تھا کہ "یہ دنیا ایک ایسی بستی ہے جہاں سے کسی کو کچھ نہیں ملتا یعنی بے فیض بستی ہے، یا یوں کہہ لیں کہ اس دنیا کے باسیوں سے کسی فیض ملنے کی توقع نہیں ہے۔ اور یہ جو ایک اژدھام ہے لوگوں کا اس کی مثال ایک صحرا کی سے ہے۔ جس طرح صحرا بے فیض ہوتا ہے اور صحرا میں محض تشنگی و سرابوں کے کچھ میسر نہیں آتا، ویسے ہی بے فیض یہ لوگ بھی ہیں ٰ(جن سے زندگی میں واسطہ پڑا ہے)۔"

یہ تو تھا خیال۔ ممکن ہے کہ شعر میں خیال کا ابلاغ بھر پور طریقے سے نہ ہو پایا ہو۔ :)
 

آوازِ دوست

محفلین
احمد بھائی کمال کر دیا ویسے تو ہر شعر ہی جانِ غزل ہے مگر:
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
نے گویا محفل لوٹ لی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

میری دانست میں یہاں عاجز کا استعمال شعر کے معنوں میں کوئی اضافہ نہیں کر رہا ۔

یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ کیا صرف دنیا میں ہونا ہی دنیا سے عاجز ہونے کے لئے کافی ہے؟

ایک شخص اگر دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے تنگ ہے تو جب تک وہ صراحتاً نہیں بتائے گا کہ وہ دنیا سے عاجز ہے، لوگ کیسے سمجھیں گے؟

دنیا سے عاجز یعنی دنیا سے تنگ آیا ہوا انسان خود کو گنوا کر لوگوں کے بارے میں فکر مند ہو رہا تھا ؟

خیال تو یہ تھا کہ "ایک طرف تو میں دنیا سے اس قدر بے زار ہوں۔ لیکن دوسری طرف اپنا آپ بھول کر انہی لوگوں کے بارے میں سوچے جا رہا ہوں۔"

یہاں پھر وہی بات کہوں گا کہ ممکن ہے کہ شعر میں خیال کے ابلاغ میں کچھ کسر رہ گئی ہو۔

شاید آپ اس پر مزید روشنی ڈال سکیں اور اس پہلو تک رہنمائی کرسکیں کہ جہاں اس ناچیز قاریہ کی نظر نہیں پہنچ رہی ۔

اس سے زیادہ روشنی 'ناچیز شاعر' کے ہاں بھی دستیاب نہیں ہے، سو گزارا چلائیے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

صحرا والا نکتہ اچھا اُٹھایا جناب احمد خود بتائیں گ۔ .. ویران لوگروں کی بستی ہم نے سنا ہے میرا خیال ہے شاعر کہنا چاہ رہا ہے میری زندگی اتنی اجاڑ ہے جتنی ویران لوگوں کی بستی. یہ مرا اخذ کردہ معانی ہے.

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا


اس میں تعقید لفظی اور معانی ہے میری ناقص رائے۔ خود سے عاجز
کرکے
نیچے
دنیا کو گنوا کر ..
محترم احمد گراں قدر شاعر ہیں. مس ہما نے بات کی میرا دھیان بحثیت قاری چلا گیا.

اس بارے میں جو جواب میں نے ہما صاحبہ کو لکھے ہیں وہی آپ بھی دیکھ لیجے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین

بہت شکریہ۔

آپ کی محبت ہے۔

عیب تنافر قبول کر بھی لیں تو مذکورہ شعر میں ’جیون‘ میں بھی عُجب ہے۔

یہ بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اگر آپ کچھ وضاحت کر سکیں۔

بے فیض جیسے الفاظ کے درمیان ہندی لفظ کی موجودگی!

بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہندی الفاظ سے کیسے بچا جائے۔ اردو کا تو ڈھانچہ ہی ہندی پر استوار ہے۔ کا، کی، تھا، تھی اور بے شمار لازمی الفاظ ہندی زبان کے ہی ہیں۔

جیسے مذکورہ شعر میں صرف چار لفظ عربی کے ہیں اور باقی سب لفظ (تھی، کی ، بستی، جیون، کیا ،تھا، اِک، لوگوں، کا) ہندی کے ہی ہیں۔ جب اس قدر لفظ ہندی کے شامل ہیں تو ایک "جیون" کے لفظ میں ایسی کیا بات ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ اس سلسلے میں رہنمائی کی درخواست ہے۔

اور مقطع میں بھی ردیف کی مجبوری آ گئی ہے۔ ورنہ درست تو لوگوں کی سوچ ہونا تھا!!!

یہاں مقصود "لوگوں کی سوچ" نہیں تھی۔ بلکہ جیسے ہم کہتے ہیں کہ "میں تمھارا سوچ کر چپ ہوگیا" یعنی تمھارے بارے میں سوچ کر چپ ہوگیا۔ اسی طرح یہاں بھی "سوچ رہا تھا لوگوں کا" سے مراد یہ تھی کہ میں لوگوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔

مثال کے طور پر حسن مسعود کا یہ شعر دیکھیے:

میں اس کا سوچ کے اپنے بدن میں لوٹ آیا
وہ سانحہ جو مرے بعد ہونے والا تھا

---

آخر میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ کہ آپ نے خاکسار کی معمولی کاوش کو اہمیت دی اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔
 

الف عین

لائبریرین
تھا ،تھی، کہا، سنا، لگا۔ دیکھنا، ۔۔ کہاں تک ہندی الفاظ گنائے جائیں جو اردو میں شامل ہیں، بلکہ اردو کئ گرامر میں۔ مگر یہ الفاظ اردو کے خمیرمیں شامل ہو گئے ہیں۔ ’جیون‘ اس نوعیت کا لفظ نہیں، قبول کیا جا سکتا تھا لیکن بے فیض رفاقت جیسئ تراکیب کے ساتھ عجیب لگتا ہے
 

محمداحمد

لائبریرین
تھا ،تھی، کہا، سنا، لگا۔ دیکھنا، ۔۔ کہاں تک ہندی الفاظ گنائے جائیں جو اردو میں شامل ہیں، بلکہ اردو کئ گرامر میں۔ مگر یہ الفاظ اردو کے خمیرمیں شامل ہو گئے ہیں۔ ’جیون‘ اس نوعیت کا لفظ نہیں، قبول کیا جا سکتا تھا لیکن بے فیض رفاقت جیسئ تراکیب کے ساتھ عجیب لگتا ہے

جی!

سمجھ گیا۔

شکریہ۔
 
Top