محمداحمد
لائبریرین
گویا کہ موتی پرو دیے ۔۔سبحان اللہ
شکریہ۔
خوش رہیے۔
گویا کہ موتی پرو دیے ۔۔سبحان اللہ
بہت خوب احمد بھائی! کیا غزل ہے ! اکثر اشعار بہت ہی خوب ہیں ۔ بہت پسند آئے!
البتہ معذرت کے ساتھ ایک آدھ جگہ تبصرے کی جراءت کروں گی ۔
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
اس شعر کے دونوں مصرعے باہم مطابق نہیں لگے چنانچہ شعر ایک الجھا ہواتاثر چھوڑرہا ہے ۔ صحرا تو اجاڑ اور غیرآباد ہوتا ہے اس لئے لوگوں کا صحرا کہنا مناسب تصویر کشی نہیں لگی ۔
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا
میری دانست میں یہاں عاجز کا استعمال شعر کے معنوں میں کوئی اضافہ نہیں کر رہا ۔
دنیا سے عاجز یعنی دنیا سے تنگ آیا ہوا انسان خود کو گنوا کر لوگوں کے بارے میں فکر مند ہو رہا تھا ؟
شاید آپ اس پر مزید روشنی ڈال سکیں اور اس پہلو تک رہنمائی کرسکیں کہ جہاں اس ناچیز قاریہ کی نظر نہیں پہنچ رہی ۔
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
صحرا والا نکتہ اچھا اُٹھایا جناب احمد خود بتائیں گ۔ .. ویران لوگروں کی بستی ہم نے سنا ہے میرا خیال ہے شاعر کہنا چاہ رہا ہے میری زندگی اتنی اجاڑ ہے جتنی ویران لوگوں کی بستی. یہ مرا اخذ کردہ معانی ہے.
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا
اس میں تعقید لفظی اور معانی ہے میری ناقص رائے۔ خود سے عاجز
کرکے
نیچے
دنیا کو گنوا کر ..
محترم احمد گراں قدر شاعر ہیں. مس ہما نے بات کی میرا دھیان بحثیت قاری چلا گیا.
خوب غزل ہے احمد صاحب، کیا کہنے۔
خوب ہے غزل۔
عیب تنافر قبول کر بھی لیں تو مذکورہ شعر میں ’جیون‘ میں بھی عُجب ہے۔
بے فیض جیسے الفاظ کے درمیان ہندی لفظ کی موجودگی!
اور مقطع میں بھی ردیف کی مجبوری آ گئی ہے۔ ورنہ درست تو لوگوں کی سوچ ہونا تھا!!!
احمد بھائی کمال کر دیا ویسے تو ہر شعر ہی جانِ غزل ہے مگر:
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
نے گویا محفل لوٹ لی ہے۔
اچھی غزل ہے احمد بھائی۔ ماشا اللہ۔
تھا ،تھی، کہا، سنا، لگا۔ دیکھنا، ۔۔ کہاں تک ہندی الفاظ گنائے جائیں جو اردو میں شامل ہیں، بلکہ اردو کئ گرامر میں۔ مگر یہ الفاظ اردو کے خمیرمیں شامل ہو گئے ہیں۔ ’جیون‘ اس نوعیت کا لفظ نہیں، قبول کیا جا سکتا تھا لیکن بے فیض رفاقت جیسئ تراکیب کے ساتھ عجیب لگتا ہے
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
بہت بہت داد قبول ہو احمد بھائی۔ بہت خوب