محمداحمد
لائبریرین
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیںخوب صورت شعر!
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
بہت شکریہ فرقان بھائی !
ایک شعر بھی آپ کو پسند آگیا ہمارے پیسے وصول ہو گئے۔
جیتے رہیے۔
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیںخوب صورت شعر!
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
بہت محبت ہے ظہیر بھائی آپ کی۔
آپ ایسے سخنور سے دادِ ہنر ملنا بڑے اعزاز کی بات ہے مجھ ایسے فقیر کے لئے۔
اللہ شاد آباد رکھے آپ کو۔
بہت محبت ہے آپ کی۔محمداحمد بھائی ، یہ حقیقت ہے کہ آپ کی اکثر غزلیں نہایت خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی ہیں ۔ ماشاءاللہ شاعری آپ کے مزاج میں ہے !! آج کل کچھ نیا کیوں نہیں لکھ رہے ؟
محفل میں میرا آنا جانا آج کل بہت کم ہوگیا ہے ۔ دن بھر کام کی قید میں رہتا ہوں اور پھر شام ڈھلے رہائی پاکر گھر میں بیگم کے زیرِ’’ نظر بند‘‘ ہوجاتا ہوں ۔
سوکن اور نین مٹکا ۔ احتیاط ہی بہتر ہے۔گھر میں چونکہ کمپیوٹر کو سوکن کا درجہ دیدیا گیا ہے چنانچہ اُس سے آنکھ مٹکا ذرا کم ہی ہوپاتا ہے ۔
انشاءاللہ عید کے بعد باقاعدہ حاضری کا ارادہ ہے ۔ دعاؤں میں یاد رکھئے ۔
واہ خوب ہے۔-غزل-
سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا
میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا
کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا
ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا
اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا
محمد احمدؔ
واہ واہ واہ۔۔۔۔ بہت خوب۔
حسبِ حال 😔
بہت شکریہ!واہ خوب ہے۔
احمد بھائی داد ہماری جانب سے
تیری غزل پر جمگھٹا تھا لوگوں کا
-غزل-
سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا
میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا
کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا
ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا
اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا
محمد احمدؔ
نہایت اعلیٰ غزل ہے، احمد صاحب ! کیا کہنے . ماشاء اللہ .-غزل-
سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا
دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا
میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا
کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا
ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا
اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا
دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا
محمد احمدؔ
ہر شعر عمدہ ،ہر شعر عالی ما شاء الله
نہایت اعلیٰ غزل ہے، احمد صاحب ! کیا کہنے . ماشاء اللہ .