غزل ۔ سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا ۔ محمد احمدؔ

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت محبت ہے ظہیر بھائی آپ کی۔

آپ ایسے سخنور سے دادِ ہنر ملنا بڑے اعزاز کی بات ہے مجھ ایسے فقیر کے لئے۔

اللہ شاد آباد رکھے آپ کو۔

محمداحمد بھائی ، یہ حقیقت ہے کہ آپ کی اکثر غزلیں نہایت خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی ہیں ۔ ماشاءاللہ شاعری آپ کے مزاج میں ہے !! آج کل کچھ نیا کیوں نہیں لکھ رہے ؟! جب کچھ پوسٹ کریں تو ازراہِ کرم مجھے ٹیگ کردیا کریں ۔ محفل میں میرا آنا جانا آج کل بہت کم ہوگیا ہے ۔ دن بھر کام کی قید میں رہتا ہوں اور پھر شام ڈھلے رہائی پاکر گھر میں بیگم کے زیرِ’’ نظر بند‘‘ ہوجاتا ہوں ۔ :):):) گھر میں چونکہ کمپیوٹر کو سوکن کا درجہ دیدیا گیا ہے چنانچہ اُس سے آنکھ مٹکا ذرا کم ہی ہوپاتا ہے ۔ :D
انشاءاللہ عید کے بعد باقاعدہ حاضری کا ارادہ ہے ۔ دعاؤں میں یاد رکھئے ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محمداحمد بھائی ، یہ حقیقت ہے کہ آپ کی اکثر غزلیں نہایت خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی ہیں ۔ ماشاءاللہ شاعری آپ کے مزاج میں ہے !! آج کل کچھ نیا کیوں نہیں لکھ رہے ؟
بہت محبت ہے آپ کی۔

نیا کچھ نہیں لکھ رہا۔ اس کے لئے یہی کہہ سکتا ہوں کہ کچھ لکھنے کی توفیق نہیں مل رہی۔ :)

محفل میں میرا آنا جانا آج کل بہت کم ہوگیا ہے ۔ دن بھر کام کی قید میں رہتا ہوں اور پھر شام ڈھلے رہائی پاکر گھر میں بیگم کے زیرِ’’ نظر بند‘‘ ہوجاتا ہوں ۔ :):):)
:) :) :)
گھر میں چونکہ کمپیوٹر کو سوکن کا درجہ دیدیا گیا ہے چنانچہ اُس سے آنکھ مٹکا ذرا کم ہی ہوپاتا ہے ۔
سوکن اور نین مٹکا ۔ احتیاط ہی بہتر ہے۔ :)
:D
انشاءاللہ عید کے بعد باقاعدہ حاضری کا ارادہ ہے ۔ دعاؤں میں یاد رکھئے ۔

انشاءاللہ۔

جب جب فرصت ملے آجایا کیجے۔ :)
 

امین شارق

محفلین
-غزل-

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ
واہ خوب ہے۔
احمد بھائی داد ہماری جانب سے
تیری غزل پر جمگھٹا تھا لوگوں کا
 

یاسر شاہ

محفلین
-غزل-

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ
 
-غزل-

سڑکوں پر اِک سیلِ بلا تھا لوگوں کا
میں تنہا تھا، اِس میں کیا تھا لوگوں کا

دنیا تھی بے فیض رِفاقت کی بستی
جیون کیا تھا ،اِک صحرا تھا لوگوں کا

سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا

میں پہنچا تو میرا نام فضا میں تھا
ہنستے ہنستے رنگ اُڑا تھا لوگوں کا

نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا

میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا

کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا

ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا

اب جو کہیں تو کس کو باور آئے گا
مہر و مروّت طور رہا تھا لوگوں کا

دنیا میں تھا احمدؔ، دنیا سے عاجز
خود کو گنوا کر سوچ رہا تھا لوگوں کا

محمد احمدؔ
نہایت اعلیٰ غزل ہے، احمد صاحب ! کیا کہنے . ماشاء اللہ .
 
Top