اتنے بڑے بڑے لوگوں نے تبصرہ کر دیا، کہنے کو کیا رہ گیا ہے
سلمت یداک احمد بھائی
بہت سادہ اور اچھی ÷گزل ہے احمد بھائی ۔ بہت خوب۔ اج نظر پڑی ۔بہت بہت داد۔۔۔۔تھا ،تھی، کہا، سنا، لگا۔ دیکھنا، ۔۔ کہاں تک ہندی الفاظ گنائے جائیں جو اردو میں شامل ہیں، بلکہ اردو کئ گرامر میں۔ مگر یہ الفاظ اردو کے خمیرمیں شامل ہو گئے ہیں۔ ’جیون‘ اس نوعیت کا لفظ نہیں، قبول کیا جا سکتا تھا لیکن بے فیض رفاقت جیسئ تراکیب کے ساتھ عجیب لگتا ہے
بہت سادہ اور اچھی ÷گزل ہے احمد بھائی ۔ بہت خوب۔ اج نظر پڑی ۔بہت بہت داد۔۔۔۔
کافی تب÷سرے بھی ھوئے ۔ جیون والی بات اعجاز بھائی کی اچھی لگی اگرچہ لفظ ہندی اردو کا ہی ہے جیسے جینا ویسے مرنا ۔ تاہم ۔ یہ لفظ جیون گانوں گیتوں اور فلمی نوعیت کے ماحول میں اس کثرت سے مستعمل ہوا کہ اس کی اپنی ادبی سجدیدگی متاثر ھو گئی ایسے میں فیض رفاقت سے ساتھ کچھ فصیح ترکیب ہی چست لگے گی ۔ ۔ ۔
مقطع کا ابلاغ بھی اتنا کمزور تونہیں کہ قاری کے ذہن پر زور ڈال رہا ہو البتہ انداز چست تر ہو تو اور بہتر ہو۔
احمد بھائی، عمدہ مزید فیہ!
آج جانے کیسے یہ لڑی نظر آ گئی اور ساتھ ہی یہ بھی علم ہوا کہ آپ تو کب کے پندرہ ہزاری ہو چکے ہیں۔۔۔ مبارکباد!
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا
نفرت کی تحریریں ہر سو لکھی تھیں
دیواروں پہ رنگ چڑھا تھا لوگوں کا
میں اُن کو، وہ مجھ کو دیکھ کے ڈرتے تھے
شہرِ ستم تھا، خوف بجا تھا لوگوں کا
کچھ لوگوں نے نفرت بوئی ،لوگوں میں
پھر سڑکوں پر خون بہا تھا لوگوں کا
ہنسنا بُھولے، ہنسی اُڑانا سیکھ لیا
پہلے کب یہ رنگ ہوا تھا لوگوں کا
احمد بھائی، لاجواب غزل کہی ہے۔
خوبصورت غزل
بہت خوبصورت۔ کیا تلخ تلخ حقیقتیں بیان کی ہیں آپ نے اس غزل میں اور اس قدر سادہ اور رواں انداز میں۔ عوامی شاعری کی ایک دلکش مثال۔ بہت خوب! داد ۔۔داد۔۔۔دعاؤں بھری داد۔
واہ وا کیا کہنے محمد احمد صاحب۔
واہ واہ! احمد بھائی ! کیا اچھے اشعار ہیں ! آج دوبارہ نظر سے گزری یہ غزل ۔ قندِ مکرر!
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا
خوبصورت شعر ہے !! کیا حقیقت بیان کی ہے ! سلامت رہیئے ۔
بہت خوب
سود و زیاں کے مشکیزے پر لڑتے تھے
دل کا دریا سوکھ گیا تھا لوگوں کا