غزل - (2024 - 10 - 18)

غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
ایک پاکستانی ڈرامے (زرد پتوں کا بن ) میں غزل سن کر یہ کوشش کی ہے۔کیا عروضی اعتبار سے یہ غزل درست ہے؟ اگر درست ہے تو اس میں قافیہ اور ردیف کیا ہیں؟ میرے خیال میں نہ ردیف ہے اور نہ سے پہلے اور بعد میں قافیہ۔ کیا ایسا ہی ہے؟ قافیہ کا اس طرح استعمال کیا کوئی خاص ترکیب ہے؟
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے

لگائی گئی ہے جو مہندی شگن کی
مرے ہاتھ پر رنگ لائے نہ لائے

اگر ہو اجازت ترے ہاتھ چھُو لوں
ملن کی گھڑی پھر یہ آئے نہ آئے

ہمیشہ سے عادی ہے وہ نفرتوں کا
محبت اُسے راس آئے نہ آئے

بڑا بے مروت ہے سلطانِ خوباں
ترس وہ فقیروں پہ کھائے نہ کھائے

پسند اپنی اپنی ہے خورشید سب کی
محبت مری اُس کو بھائے نہ بھائے
 

صریر

محفلین
غزل پیش ِخدمت ہے۔محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
ایک پاکستانی ڈرامے (زرد پتوں کا بن ) میں غزل سن کر یہ کوشش کی ہے۔کیا عروضی اعتبار سے یہ غزل درست ہے؟ اگر درست ہے تو اس میں قافیہ اور ردیف کیا ہیں؟ میرے خیال میں نہ ردیف ہے اور نہ سے پہلے اور بعد میں قافیہ۔ کیا ایسا ہی ہے؟ قافیہ کا اس طرح استعمال کیا کوئی خاص ترکیب ہے؟
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے

لگائی گئی ہے جو مہندی شگن کی
مرے ہاتھ پر رنگ لائے نہ لائے

اگر ہو اجازت ترے ہاتھ چھُو لوں
ملن کی گھڑی پھر یہ آئے نہ آئے

ہمیشہ سے عادی ہے وہ نفرتوں کا
محبت اُسے راس آئے نہ آئے

بڑا بے مروت ہے سلطانِ خوباں
ترس وہ فقیروں پہ کھائے نہ کھائے

پسند اپنی اپنی ہے خورشید سب کی
محبت مری اُس کو بھائے نہ بھائے
یہ تو اساتذہ ہی بہتر بتا سکیں گے، کہ غزل میں یہ فارمیٹ قابل قبول ہے کہ نہیں۔ لیکن آپ نے اسے بخوبی برتا ہے ۔ مصرعے میں قافیے کی تکرار سے،‌نغمگی تو پیدا ہورہی ہے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین

الف عین

لائبریرین
یہ غزل غیر مردف اور ذو قافیتین ہے۔
کہہ سکتے ہیں، لیکن نظم محض اس کا نہیں ہے، بلکہ محاورے کا استعمال ہے، جیسے ہو نہ ہو، رہے نہ رہے،
ردیف قافیے کے اعتبار سے محض ایک ہی قافیہ سے بھی غزل درست کہی جا سکتی ہے، غیر مردف۔
مطلع البتہ واضح نہیں، ترے عرش ہو ( خدا سے خطاب)، یا تری عرش( کسی انسان سے خطاب)، اور نا مکمل اس لحاظ سے ہے کہ یہ نہیں بتایاگیا کہ ایسا ہو نہ ہو، تو کیا ہو!
باقی اشعار درست لگ رہے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مطلع البتہ واضح نہیں، ترے عرش ہو ( خدا سے خطاب)، یا تری عرش( کسی انسان سے خطاب)، اور نا مکمل اس لحاظ سے ہے کہ یہ نہیں بتایاگیا کہ ایسا ہو نہ ہو، تو کیا ہو!
یہ بھی بتائیے گا کہ عرش پر بہتر ہے یا عرش تک۔
 
ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے
یہ بھی بتائیے گا کہ عرش پر بہتر ہے یا عرش تک۔
شکریہ بھائی محمد عبدالرؤوف صاحب! یہ سوال میرے ذہن میں بھی ہے - استادِ محترم اس پر رائے دیں گے۔
ویسے مجھے دونوں درست لگتے ہیں۔
 
ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے

'تِرے' کو 'مِری' کیا جا سکتا ہے۔
جناب صریر صاحب ! بہت نوازش۔ جیسا کہ استادِ محترم نےبھی فرمایاکہ ترے عرش ( خدا کے عرش پر آہ جائے نہ جائے۔ اور اگلا مصرعہ بتا رہا ہے کہ مری آہ کا ہی ذکر ہے) اور اگر مری کہیں گے تو(امری آہ عرش پر جائے نہ جائے)۔
پہلے میں نےمری ہی سوچا تھا مگر پھر ذہن میں آیا کہ دونوں مصرعوں میں مری اور مرے کی تکرار ہوجائے گی۔
کہہ سکتے ہیں، لیکن نظم محض اس کا نہیں ہے، بلکہ محاورے کا استعمال ہے، جیسے ہو نہ ہو، رہے نہ رہے،
ردیف قافیے کے اعتبار سے محض ایک ہی قافیہ سے بھی غزل درست کہی جا سکتی ہے، غیر مردف۔
ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے

مطلع البتہ واضح نہیں، ترے عرش ہو ( خدا سے خطاب)، یا تری عرش( کسی انسان سے خطاب)، اور نا مکمل اس لحاظ سے ہے کہ یہ نہیں بتایاگیا کہ ایسا ہو نہ ہو، تو کیا ہو!
محترم استاد الف عین صاحب! توجہ فرمانے کاشکریہ۔
قافیہ ردیف میں ہی دونوں کا ذکر موجود ہے کہ آہ عرش پر جائے نہ جائے اور اگلا مصرعہ کہ رہا ہے کہ چین پائے نہ پائے۔یعنی اگرآہ جائے گی تو چین ملے گا نہیں جائے گی تو چین نہیں ملے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
پھر نہ کی تکرار کو کیا کہا جائے گا؟
کیونکہ آپ نے کہا کہ یہ غیر مردف غزل ہے۔
دو قوافی کے درمیان ایک لفظ مشترک ضرور ہے لیکن اسے ردیف نہیں کہا جا سکتا، کہ مصرع کے اختتام پر نہیں ہے۔
قافیہ ردیف میں ہی دونوں کا ذکر موجود ہے کہ آہ عرش پر جائے نہ جائے اور اگلا مصرعہ کہ رہا ہے کہ چین پائے نہ پائے۔یعنی اگرآہ جائے گی تو چین ملے گا نہیں جائے گی تو چین نہیں ملے گا۔
مجھے تو یہ مطلب نکلتا نہیں لگا۔ مجھے دونوں مصرعوں میں دونوں شرطیہ لگتی ہیں، جواب شرط غائب
 
قافیہ ردیف میں ہی دونوں کا ذکر موجود ہے کہ آہ عرش پر جائے نہ جائے اور اگلا مصرعہ کہ رہا ہے کہ چین پائے نہ پائے۔یعنی اگرآہ جائے گی تو چین ملے گا نہیں جائے گی تو چین نہیں ملے گا۔
مجھے تو یہ مطلب نکلتا نہیں لگا۔ مجھے دونوں مصرعوں میں دونوں شرطیہ لگتی ہیں، جواب شرط غائب
سر الف عین صاحب!
دعا عرش پر میری جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے
یا
ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
سزا بےرُخی کی وہ پائے نہ پائے
یا
سزا ہر ستم کی وہ پائے نہ پائے
یا
مری عرش پر آہ جائے نہ جائے
ترا جوش میں قہر آئے نہ آئے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میں سمجھتا ہوں کہ مطلع بہر حال مبہم ہی رہے گا، کہ دونوں مصرعوں میں جائے نہ جائے/پائے نہ پائے تو رکھنا ہی پڑے گا، پھر معنی کسب کرنا مشکل ہی ہے۔ اس لئے اب یہی مناسب ہے کہ اصل مطلع کو ہی قبول کر لیا جائے، اور اس کے سقم کو ہی دور کیا جائے ۔ جو یہ صورت ہی بہتر ہے
دعا عرش پر میری جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے
 
مری عرش تک آہ جائے نہ جائے
خدا جانے دل چین پائے نہ پائے
شَگُن کی لگی اُس کے ہاتھوں میں مہندی
کسے ہے پتا رنگ لائے نہ لائے
تجھے دیکھ لوں چھو کے چاہے مجھے پھر
یقیں تیرے آنے کا آئے نہ آئے
ملی نفرتوں کے جہاں میں جو تجھ سے
وہ چاہت مجھے راس آئے نہ آئے
’’بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے‘‘
کوئی اِن سے دھوکا نہ کھائے نہ کھائے
’’پسند اپنی اپنی ۔۔۔۔۔۔۔۔خیال اپنا اپنا‘‘
ترے دل کو خورؔشید بھائے نہ بھائے
 
آخری تدوین:
دعا عرش پر میری جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے

میں سمجھتا ہوں کہ مطلع بہر حال مبہم ہی رہے گا، کہ دونوں مصرعوں میں جائے نہ جائے/پائے نہ پائے تو رکھنا ہی پڑے گا، پھر معنی کسب کرنا مشکل ہی ہے۔ اس لئے اب یہی مناسب ہے کہ اصل مطلع کو ہی قبول کر لیا جائے، اور اس کے سقم کو ہی دور کیا جائے ۔ جو یہ صورت ہی بہتر ہے
سر الف عین صاحب قبولیت کے لیے شکریہ!
ترے عرش پر آہ جائے نہ جائے
مرا دل کبھی چین پائے نہ پائے
'تِرے' کو 'مِری' کیا جا سکتا ہے۔
جناب صریر صاحب! شکریے کے ساتھ
ترے کو بدل دیا ہے ۔
 
Top