غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
حیدر سا بہادر کوئی ہوگا نہ ہوا ہے
ہاں حضرتِ عباس کو کہیے تو بجا ہے

ان کو بھی وہی زور وہی رعب ملا ہے
یہ ایک شرف شیرِ خدا سے بھی سوا ہے

سقّائی کا عہدہ تو علی کو نہ ملا تھا
لیکن کوئی سقّا کہیں پیاسا نہ سنا تھا
نسیم امرہووی
 

سیما علی

لائبریرین
قمرِ بنی ہاشم کا لقب مل گیا
یعنی ہاشمیوں کا چاند۔
ہمارے جناب عباس علمدار علیہ السلام
میرے عباس کا شبیر کے پیچھے چلنا
شمس شبیر ہے، عباس قمر لگتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
میر انیس اسے اس طرح رقم کر گئے
آئینۂ تصویر ِ ید اللہ ہے عباس ع
شبّیر تو خورشید ہے اور ماہ ہے عباس
 

سیما علی

لائبریرین
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے

شمشیر بہ کف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو

مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
کلام : میر انیس

ہم صورتِ محبوبِ خدا تھے علی اکبر
شوکت میں شہِ عقدہ کشا تھے علی اکبر

شپیر کی پیری کے عصا تھے علی اکبر
اور بانو کی آنکھوں کی ضیا تھے علی اکبر

جلوہ رخِ پرنور پہ تھا نورِ نبی کا
روشن تھا گھر اس ماہ سے زہرا و علی کا

محبوبِ دلِ خلق ہے شپیر کا جانی
سب ایک زباں تھے کہ یہ ہے یوسفِ ثانی

جن لوگوں نے دیکھی تھی محمدﷺ کی جوانی
کہتے تھے زہے خامۂ قدرت کی روانی

ایسا تو حسیں غرب سے تا شرق نہیں ہے
احمدﷺ میں اور اس میں سرِ مو فرق نہیں ہے
 

سیما علی

لائبریرین
کس کا عَلَم حسین ؑکے منبر کی زیب ہے
کسی جنتی کی مشک سے کوثر کی زیب ہے

لشکر ہے اُس کی زیب وہ لشکر کی زیب ہے
چہرے کی فرد مالکِ دفتر کی زیب ہے

رفعت علم کی کہتی ہے ہر عقل مند سے
سقے پہ پڑھ درود صدائے بلند سے
مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین
رو کر پکارے عترتِ اطہار، الوداع!
عباس الوداع، اے علم دار الوداع

اے زیبِ پہلوئے شہِ ابرار! الوداع!
اے نام دارِ حیدرِ کرار، الوداع!

جعفر کی روح آپ کے لاشے پہ روئے گی
ہے ہے اب اس علم کی زیارت نہ ہوئے گی

زینب نے بڑھ کے کان میں سقے کے کچھ کہا
سنتے ہی بہرِ سجدہ جھکا ابنِ مرتضیٰ

زینب سے پوچھنے لگیں رانڈیں جدا جدا
ہم سے بھی کہہ دو، بھائی سے ارشاد کیا کیا؟

بانچھیں خوشی سے کھل گئیں اس باتمیز کی
بولو! قسم حسین کی جانِ عزیز کی

رو کر کہا یہ زینبِ عالی مقام نے
ام البنین پھرتی ہے آنکھوں کے سامنے

یثرب سے جب کہ کوچ کیا تھا امام نے
کی تھی سفارش اِن کی یہ اُس نیک نام نے

جب مشک یہ اٹھائیں سبک دوش کیجیو
میری طرف سے دودھ مرا بخش دیجیو

لوگو گواہ رہیو کہ تم سب کے سامنے
اُن کا سخن ادا کیا مجھ تشنہ کام نے

کھوئے حواس بیبیوں کے اِس کلام نے
پردہ اٹھایا بازوئے شاہِ انام نے

جھک کر ہلال برجِ فلک سے نکل گیا
نورِ نگاہ تھا کہ پلک سے نکل گیا

عباس جب کہ جانبِ باغِ جناں چلے
شانے پہ لاکھ شان سے رکھ کر نشاں چلے

زوجہ نے پوچھا: اے مرے والی، کہاں چلے؟
بولے: جہاں سے اب نہ پھریں گے، وہاں چلے

مرزا دبیر
 

سیما علی

لائبریرین

راکبِ دوشِ رسول ﷺ​

بہر آن شہزادۂ خیر الملل
دوش ختم المرسلین نعم الجمل

بہترین امت (امتِ مسلمہ) کے اس شہزادے (حسین علیہ السلام )کے لیے حضور (ﷺ) ختم المرسلین کا دوش مبارک سواری تھی، اور کیا اچھی سواری تھی۔ (رموزِ بے خودی)
 

سیما علی

لائبریرین
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

رسم شبیری، وہ رسم ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں ادا کی یعنی حق کا ساتھ اور باطل کی مخالفت،باطل کے خلاف آواز بلند کرنا اور سب کچھ لٹانا۔ فقر خانقاہی مراد موجودہ پیری مریدی ہے اور فقط اندوہ و دلگیری سے مراد صرف رنج و ملال ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
عباس نامور کے لہو سے دُھلا ہوا
اب بھی حسینیت کا علم ہے کھلا ہوا
اس کے بعد کچھ بند ملاحظہ ہوں۔
یہ صبح انقلاب کی جو آج کل ہے ضو
یہ جو مچل رہی ہے صبا پھٹ رہی ہے پو
یہ جو چراغ ظلم کی تھرا رہی ہے لو
در پردہ یہ حسینؑ کے انفاس کی ہے رو
حق کے چھڑے ہوئے ہیں جو یہ ساز دوستو
یہ بھی اسی جری کی ہے آواز دوستو
پھر حق ہے آفتاب لب بام اے حسین ؑ
پھر بزم آب وگل میں ہے کہرام اے حسینؑ
پھر زندگی ہے سست و سبک گام اے حسینؑ
پھر حریت ہے مورد الزام اے حسینؑ
ذوق فساد ولولہ شر لیے ہوئے
پھر عصر نو کے شمر ہیں خنجر لیے ہوئے
مجروح پھر ہے عدل و مساوات کا شعار
اس بیسویں صدی میں ہے پھر طرفہ انتشار
پھر نائب یزید ہیں دنیا کے شہر یار
پھر کربلائے نو سے ہے نوع بشر دوچار
اے زندگی جلال شہ مشرقین دے
اس تازہ کربلا کو بھی عزم حسینؑ دے
جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
آو انھی کے ذکر سے روشن فضا کریں
یہ سامنے`اجل کے بھی ذکر خدا کریں
انکو ھر اک دعا کے لیے واسطہ کریں
قائم انھی کے غم سے ھر اک سلسلہ کریں
در ھے انھی کے گھر کا در جنت نعیم
ھوتی ھے ختم آکے یہاں راہ مستقیم

صفدر ہمدانی
 

سیما علی

لائبریرین

کیا بتاوں میں زینبؑ کی کیا شان ہے۔
کل ایماں کے ایمان کا مان ہے۔​

اس کے خطبے خطابت کے سردار ہیں
اس کے نانا شریعت کے سردار ہیں
باپ اور ماں شرافت کے سردار ہیں۔
دو بڑے بھائی جنت کے سردارؑ ہیں۔
چھوٹا بھائی وفاوں کا سلطانؑ ہے۔
۔ کیا بتاوں میں زینب۔کی کیا شان ہے

۔ بے عبا ہے یہ ہی فخر آل عباؑ
بے ردائی ہے اس کی وفا کی ردا
اس کا ممنون ہے دو جہاں کا خدا
اس کے بارے میں کہتی ہے خود کربلا

محسن دین پر تیرا احسان ہے
۔ کیا بتاوں میں زینبؑ۔کی کیا شان ہے

۔ کوئی عظمت میں ان سے زیادہ نہیں
ان کے گھر سے بھی گھر کوئی اعلی نہیں
ان کا نوکر ہوں میں کوئی مجھ سا نہیں
خلد کی کوئی گوہر کو پرواہ نہیں
خلد تو قصر زینبؑ کا دالان ہے۔۔
۔ کیا بتاوں میں زینبؑ۔کی کیا شان ہے
 

سیما علی

لائبریرین
آیاتِ حق کی چھاؤں میں عصمت کا پھول تھیں
زینب کہیں علی تھیں کہیں پر بتول تھیں

اسلام کا سرمایہ ء تسکین ہے زینب
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب

حیدر کے خدوخال کی تزئین ہے زینب
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب

یہ گلشنِ عصمت کی وہ معصوم کلی ہے
تطہیر میں زہرا ہے تو تیور میں علی ہے۔
محسن نقوی
 
میں ہار جاؤں گا ہر دور میں یزید وں سے
اگر حسین کے دامن میں خود کو نہ رکھوں
خدا گواہ ہے مرنے میں خیر کچھ بھی نہیں
گران کی راہ سے ہٹ کرحضوریاں رکھوں
میں کسطرح سے کہوں میں نبی کا پیرو ہوں
جواپنے دل میں اسی در سے دوریاں رکھوں

فیصل عظیم فیصل
 
آخری تدوین:
Top