غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
ہوائے کوفہ نامہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمہ صبر و رضا میں زندہ ہیں
لو ہاتھ اہل صبر و رضا نے کٹا دیے
اب ظلم سوچتا ہے کہ بیعت کہاں سے لائے
عرفان صد یقی
 

سیما علی

لائبریرین
نشہ چودہ سو برس کا نہیں جاتا ساقی
ایسا میخانہ نظر ہی نہیں آتا ساقی
کربلا والوں کی تقدیر میں خالص تھی شراب
پانی ملتا بھی کہاں تھا کہ ملا تا ساقی
استاد قمر جلالوی
 

سیما علی

لائبریرین
مصطفی کے گھر کی مدت کی رضا دے دی گئی
شکر ہے مجھ کو بہائے بے بہا دے دی گئی
حق کے شیداؤں کی مدحت روز مرہ تھا مرا
سو مجھے توفیق ذکر کر بلا دے دی گئی
سراج اجملی
 

سیما علی

لائبریرین
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام
السلام یا حسین السلام یا حسین

جن کا جھولا فرشتے جھلاتے رہے
لوریاں دے کے نوری سلاتے رہے
جن پہ سفّاک خنجر چلاتے رہے
جن کو کاندھوں پہ آقابٹھاتے رہے

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام

جس کا نانا دو عالم کا مختار ہے
جو جوانانِ جنّت کے سردار ہے
جس کا سر دشت میں زیرِ تلوار ہے
جو سراپائے محبوبِ غفّار ہے

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام

جن کو دھوکے سے کوفے بلایا گیا
جن کو بیٹھے بٹھائے ستایا گیا
جن کے بچوں کو پیاسے رولایا گیا
جن کے گردن پہ خنجر چلایا گیا

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام

جس نے حق کربلا میں ادا کردیا
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
گھر کا گھر سپرد خدا کر دیا
جس نے امّت کی خاطر فدا کردیا

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام

جس کو دوشِ نبی پر بیٹھایا گیا
جس کا جنت سے جوڑا منگایا گیا
جس کے بیٹے کو قیدی بنایا گیا
جس کو تیروں سے چھلنی کرایا گیا

اس حسینؑ ابنِ حیدر پہ لاکھوں سلام
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام

کر چکا وہ ادیب اپنے حجت تمام
لے کے ﷲ اور اپنے نانا کا نام
کوفیوں کو سنایا خدا کا کلام
اور فدا ہو گیا جانِ خیرالانام

اس حسین ابن حیدر پہ لاکھوں سلام
میرے حسین تجھے سلام میرے حسین تجھے سلام

السلام یا حسین السلام یا حسین
السلام یا حسین السلام یا حسین

✍🏻 *ادیب رائے پوری*
 

سیما علی

لائبریرین
این حسین (ع) کیست کہ عالم ہمہ دیوانہ اوست
این چہ شمعی است کہ عالم ہمہ پروانہ اوست

وقت کے یزید نے تو حسین (ع) والوں کی آواز دبانے کی کوشش کی تھی، تاہم وہ خود تو صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود حسین (ع) کی یاد آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی۔
 

سیما علی

لائبریرین

ابو یزید یحییٰ بن زید علوی کا کہنا ہے :میرے والد ابو تمام نے محمد بن حمید طائی کے سلسلہ میں کہا ہے کہ انھوں نے تمام اشعار امام حسین کی شان میں کہے ہیں:​

وقد کان فوت الموت سهلاً فردّه
اليه ِ الحفاظ المُرُّ وَالخُلُقُ الْوَعْرُ​

وَنَفْسُ تعافُ الضَّيمَ حتیّٰ کأنّه
هو الکُفرُ يومَ الرَّوْعِ أَو دُونَه الکُفرُ​

فَأَثبت فی مستنقعِ الموتِ رِجْلَه
وَقَالَ لَها مِنْ تَحْتِ أَخمصکِ الحشْرُ​

تردّیٰ ثِيابَ الموْتِ حُمْراً فَمَا اَتیٰ
لَهااللَّيلُ اِلَّاوهی من سُنْدُسٍ خُضْرُ (١)​

”آپ کے لئے مارے جانے سے بچنا آسان تھا لیکن آپ نے اس سے انکار کردیا ۔​

آپ نے نہایت مشکل کے ساتھ دین اسلام کی حفاظت کی ،اور خوش اخلاقی کے ساتھ بچایا۔​

آپ کا نفس ذلت قبول کرنے پرآمادہ نہ ہوا آپ کے نزدیک ذلت قبول کرناکفر یا کفر کی منزل میں تھا۔”​

آپ نے خندہ پیشانی سے شہادت کا استقبال کیا۔​

آپ نے سرخ موت کا لباس پہنا جبکہ یہ لباس بعد میں سبز رنگ میں تبدیل ہوگیا۔”​

 

سیما علی

لائبریرین
پیر نصیر الدین نصیر کا کلام
شَبّیرؓ نے دْشمَن سے صَدقہ تَو نہ مانگا تھا
دو گْھونٹ ہی مانگے تھے دَریا تَو نہ مانگا تھا
نَنّھے علی اصغر کو دو گْھونٹ کی حاجَت تھی
مَعصْوم نے تِیروں کا تْحفَہ تَو نہ مانگا تھا
پانی ہی تَو مانگا تھا ہر پیاسے کا جو حَق ہے
عباسؓ نے کْچھ حَق زہراؓ تَو نہ مانگا تھا
ٹَکرائے تھے فاسِق سے اِسلام بَچانے کو
مولاؓ نے حَکْومَت میں حِصَّہ تَو نہ مانگا تھا
جابِر کی اِطاعَت کو تَسلِیم نہیں کَرتے
اِک بات اْٹھائی تھی قَبضَہ تَو نہ مانگا تھا
کِس جْرم پہ زَنجِیریں بِیمار کو پہنائی
سَجّاد نے بابا کا بَدلہ تَو نہ مانگا تھا
جَب نَعَشِ حْسینؓ اْٹھی طیبہ سے نِدا آئی
تَبلِیغ کا یہ تْم سے ثَمرا تَو نہ مانگا تھا
حَقدار پہ غاصِب نے بے وجہ سِتَم توڑے
بَیعَت ہی نہیں کی تھی کْوفَہ تَو نہ مانگا تھا
تھا رْتبَہ اْنہیں حاصِل پہلے ہی اِمامَت کا
آلِ ابْو طالب نے عْہدَہ تَو نہ مانگا تھا
یہ صبر ہی کام آیا کَربَل میں نواسے کے
اللہ سے نانا نے بیجا تَو نہ مانگا تھا
کھینچی گئی کیوں چادَر پِھر سَر سے نصیر آخِر
زینبؓ نے سْکینہ کا جْھمکا تَو نہ مانگا تھا۔
 

سیما علی

لائبریرین
حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا
بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو
غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا
سبط علی صبا
 

سیما علی

لائبریرین
کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے
روشنی اب کے سوا آتی ہے

ساعتِ علم و خبر سے پہلے
منزلِ کرب و بلا آتی ہے

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا
شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

گریہ و گرد کا ہنگام نہیں
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے

پھر سرِ خاکِ شہیداں ثروت
پھول رکھنے کو ہوا آتی ہے
ثروت حسین
 

سیما علی

لائبریرین
فکر حق سودوزیاں کاشت نہیں کرسکتی
کربلا تاج کو برداشت نہیں کرسکتی

کوئی کہہ دے یہ حکومت کے نگہ بانوں سے
کربلا اک ابدی جنگ ہے سلطانوں سے
جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
بارَد چہ؟ خوں! کہ؟ دیدہ! چساں؟ روز و شب! چرا؟
از غم! کدام غم؟ غمِ سلطانِ کربلا
(کیا برس رہا ہے؟ خون! کون برسا رہا ہے؟ آنکھ۔ کیسے؟ روز و شب! کیوں؟ غم کے مارے! کون سا غم؟ سلطانِ کربلا کا غم)
نامش چہ بُد؟ حسین، زِ نژادِ کہ؟ از علی
مامش چہ بود؟ فاطمہ، جدش کہ؟ مصطفیٰ
(اُس کا نام کیا تھا؟ حسین۔ کس کی نژاد سے؟ علی کی۔ اُس کی ماں کون تھی؟ فاطمہ۔ اُس کا جد کون تھا؟ مصطفیٰ
حکیم قاآنی شیرازی
 

سیما علی

لائبریرین
آئی ہے شب قتل حسین ابن علی کی
رخصت ہے سحر عترت والاے نبی کی
کٹ جائے گی سب آل رسول عربی کی
برہم ہی ہوئی جان لو صحبت یہ کبھی کی
میر تقی میر
 

سیما علی

لائبریرین
بخدا فارسِ میدانِ تہور تھا حُرؔ
ایک دو لاکھ سواروں میں بہادر تھا حُرؔ
نارِ دوزخ سے ابوذرؔ کی طرح حُر تھا حُرؔ
گوہرِ تاجِ سرِ عرش ہو، وہ دُر تھا حُرؔ
ڈھونڈھ لی راہِ خدا کام بھی کیا نیک ہوا
پاک طینت تھی تو انجام بھی کیا نیک ہوا
میر انیس
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ایک کربلا نہیں ہے فسانہ حسین کا
ہر ایک زندہ دل ہے ٹھکانہ حسین کا

وہ شاہ ہے،بادشاہ ہے،شہنشاہ ہے دین کا
ہوتا نہیں ہے ختم زمانہ حسین کا
 

سیما علی

لائبریرین
جب عاشوراء کی شامِ ناشاد آئی
لکھ مرثیہ! یہ دل سے فریاد آئی
پر ایک قدم بھی یہ قلم چل نہ سکا
جب زین العابدینؑ کی یاد آئی

وجاہت حسین الحنفی حافظؔ
 

سیما علی

لائبریرین
زہرا کے لال، تیرے چمن کو مرا سلام
تیری ہر اک اُداس بہن کو مرا سلام
عباس کی جبیں کی شکن کو مرا سلام
چھلنی بدن کو سُرخ کفن کو مرا سلام

صدمہ ترا بہت ہے شہ مشرقین کو
پُرسہ میں دے رہا ہوں اِمام حسین علیہ السلام کو
 
آخری تدوین:
Top