غم حسین علیہ السلام پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
کبھی کبھی نظر آتی ہے فتح باطل کی
خدا گواہ کہ وہ معتبر نہیں ہوتی

غمِ حسینؑ نہ ہوتا جو امنؔ کے دل میں
غمِ زمانہ سے اس کو مفر نہیں ہوتی

  • گوپی ناتھ امن لکھنوئ
 

سید رافع

محفلین

ہر ایک ذہن میں ہے کچھ نہ کچھ تصور حق
ہم اس تصور حق کو حسینؑ کہتے ہیں

فتنے یزیدیت کے جہاں بھی ہوں رونما
لازم ہے ہم پہ پیرویِ ابنِ بو ترابؓ

خدا تجھے عشق مصطفیؐ سے سرفراز کرے
غم حسینؓ کے سوا ہر غم سے بے نیاز کرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گوہر نظیر گوہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنت کی آرزو میں کہاں جا رہے ہیں لوگ
جنت تو کربلا میں منگا لی حسین نے

حسین تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
افتخار عارف صاحب

کام تھا نہ کرنے کا، آپؓ کس طرح کرتے

سلطانِ کربلا کو ہمارا سلام ہو۔۔
جانانِ مصطفیٰ ﷺ کو ہمارا سلام ہو۔۔

عباسِ نامدار ہیں زخموں سے چُور چُور،
اُس پیکرِ رِضا کو ہمارا سلام ہو۔۔

اکبر سے نوجوان بھی رن میں ہوئے شهید،
ہم شکلِ مصطفیٰ ﷺ کو ہمارا سلام ہو۔۔

بھائی بھتیجے بھانجے سب ہو گئے شہید،
ہر لالِ بےبہا کو ہمارا سلام ہو۔۔

اصغر کی ننھی جان پہ لاکھوں درود ہوں،
مظلوم و بے خطا کو ہمارا سلام ہو۔۔

ہو کر شہید قوم کی کشتی تیرا گئے،
اُمت کے ناخُدا کو ہمارا سلام ہو۔۔

ناصر ؔ ولائے شاہ میں کہتا ہے بار بار،
مہمانِ کربلا کو ہمارا سلام ہو۔۔

خدا تجھے عشق مصطفیٰﷺ سے سرفراز کرے

غم حسینؓ کے سوا ہر غم سے بے نیاز کرے

سبحان اللہ سبحان اللہ۔
 

سید رافع

محفلین
جینے کے واسطے تو سبھی چھوڑتے ہیں گھر
کچھ اور ہی طرح کی تھی ہجرت حسین کی

سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا
ہے کس قدر عجیب یہ جذبہ حسین کا

حسین کعبے سے جاتے ہیں کربلا کے لیے
خدا کے گھر سے ہیں جاتے مگر خدا کے لیے

جب ہاتھ قلم ہو چکے عباس جری کے
نوحہ حسین کرتے ہوئے یہ دشت میں پہنچے
سانسیں ابھی روں تھیں علمدار یہ بولے
محروم زیارت کا سلام اخیر ہے
اک آنکھ میں لہو ہے ، لگا اک میں تیرہے
آقا میرے مولا
میں کیسے اٹھوں آقا میرے ہاتھ نہیں ہیں
پاؤں نہیں چھو سکتا میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

آقا یہ غلامی کا صلہ کیسا دیا ہے
کس پیار سے سر آپ نے زانو پہ رکھا ہے
اٹھ کر سلام کرتا ، میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

گودی میں سکینہ کو اٹھاؤں گا میں کیسے
کس طرح نبھاؤں گا غلامی کے طریقے
میں اس سے ہوں شرمندہ، میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

جب زین سے زمیں کی طرف آنے لگا مولا
نہ کوئی مددگار تھا نہ کوئی سہارا
اس وقت خیال آیا میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

یہ نوحہ غازی سر مجلس جو رضا ہے
ریحان عزا کہتا ہے یہ معجزہ کیا ہے
یہ ہاتھ ہیں غازی کے میرے ہاتھ نہیں ہیں
میرے ہاتھ نہیں ہیں

(کلام: ریحان اعظمی)

لا الہ کے پڑھنے والو! لا الہ سے پوچھ لو
لا الہ تو بچ گیا، گھر لٹ گیا شبیر کا!

بغور سن لے زمانہ حسین ایسے تھے
بقا فنا کو بنایا حسین ایسے تھے
چھری کے نیچے وہ خالق سے پیار کی باتیں
اجل کو ہو گیا سکتہ حسین ایسے تھے

شہید لکھنوی

کوئی پوچھے گا اگر تہذیب سے راز سخن
وہ کہے گا یہ مہارت کربلا والوں سے ہے

یہ مجلسیں یہ محرم کسی سے خاص نہیں
محبتوں کو بڑھاؤ حسین سب کا ہے

اصغر علی

تاریخ چپ رہی تو لہو بولتا رہا
زندہ ہے عشق کرب و بلا سے حسین تک

ہزار سال ہوئے آنسوؤں کی نقدی سے
چکا رہی ہے یہ امت تیرا ادھار حسین

ڈاکٹر نعیم غازی

کاش کہ کوئی ایسا بھی کلام لکھتا کہ جو جوحسین نے حدیث میں کہا وہ شعر میں ڈھل جاتا! کافی، من لا یحضره الفقیہ، تہذیب الاحکام، الاستبصار سب کچھ شعر میں پگھل جاتا! کاش!
 

سید رافع

محفلین
رگوں میں خون شہیداں جو سرد ہو جاتا
تو رنگ سارے گلابوں کا زرد ہو جاتا
حسین تیرا لہو اس میں رچ گیا ورنہ
یہ خاک زار جہاں گرد گرد ہو جاتا

عبدالقادر تاباں

اے خاک بے بصر تیرامہماں ہوا ہے کون
جان بتول و لخت دل مصطفیٰ ہے کون

سچ پوچھیے تو اپنا تشخص اسی سے ہے
بے چہرگی کے دور میں چہرہ نما ہے کون

قاتل ہر ایک ظلم کا ہو اور قتیل بھی
ایک حسین ابن علی ہے دوسرا ہے کون

توصیف تبسم

نبی کا گھر ہے بڑا محترم سمجھتے تھے
زباں سمجھتے نہ تھے جو کج زمانوں کی
لہو میں ڈوب جا اے دیدہ نظار ا طلب
پڑی ہے خاک میں تصویر آسمانوں کی

سوالِ بیعتِ شمشیر پر جواز بہت
مگر جواب وہی معتبر حسین کا ہے

عارف افتخار

قرآن اور حسین برابر ہیں شان میں
دونوں کا رتبہ ایک ہے دونوں جہان میں
قرآں کلامِ پاک ہے شبیر نور ہے
دونوں جہاں میں دونوں کا یکساں ظہور ہے

دلو رام کوثری

نہیں آتا جنہیں راہِ حقیقت سے گزر جانا
حسین ابنِ علی سے سیکھ لیں وہ لوگ مر جانا

بہترین کلام! سبحان اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
خیال آب جو تھا یاد آگئے بھائی
نگاہ یاس ترائی سے جاکے ٹکرائی
زمیں لرز گئی غازی کی لاش تھرائی
تڑپ کے غیرت انسانیت یہ چلائی
ارے فرات کے کم ظرف و بد گہر پانی
نہ مل سکا علی اصغر کو ڈوب مر پانی

نسیم امرہووی
 

سیما علی

لائبریرین
پوچھا کہ عشق کیا ہے ہم نے کہا حسین
غم کس کے نام کا ہے ہم نے کہا حسین

تم ذکر کربلا سے روتے ہو کس لئے
دل میں تمہارے کیا ہے ہم نے کہا حسین

کہنے لگے وہ ہم سے کیا ہو گیا ہے تم کو
رنگ کس کا چڑھ گیا ہے ہم نے کہا حسین

دل کے ہر اک ورق پر لکھا حسین دیکھا
کیا روح کی غذا ہے ہم نے کہا حسین

جو لوگ جل رہے تھے ذکر حسین سن کر
سر ان کا جھک گیا ہے ہم نے کہا حسین

راہ یزید پر جو چلتے ہیں دوزخی ہیں
جنت کی راہ کیا ہے ہم نے کہا حسین

شایانؔ ہم سے پوچھو کیا شان کربلا ہے
کیا شان کربلا ہے ہم نے کہا حسین
خواجہ شایان حسن
 

سیما علی

لائبریرین
سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے
پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے
جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے
قتیل شفائی
 

سیما علی

لائبریرین
تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین
وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق
کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین
عبدالحمید عدم
 

سیما علی

لائبریرین
ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا
ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا
کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا
کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا
صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز
سنائی دی تھی
جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی
یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی
بازگشت ہے
اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا
سامان کیا جاتا ہے
اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا
جاتا ہے
تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے
اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا
سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا
اور اب برسوں بیت گئے ہیں
جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے
سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو
ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟
موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں
افتخار عارف
 

سیما علی

لائبریرین
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسین
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حسین
جوش ملیح آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
خطیب نوک سناں (امام حسین علیہ السلام)

شبیرؑ کربلا کی حکومت کا تاجدار
وَحدت مِزاج ، دُوش نَبوت کا شَہسوار
ہے جس کی ٹھوکروں میں خُدائی کا اِقتَدار
جس کے گداگروں سے ہَراساں ہے روزگار
 

جاسمن

لائبریرین
پوچھنا یہ ہے کہ اے ناقدِشبیر(ع) بتا
اہلِ خانہ کو کوئ جنگ پہ لے جاتا ہے؟
گر نہ تائیدِ خداوند ہو شامل اِس میں
کون یوں لشکرِ اغیار کے ہاتھ آتا ہے؟
اعتبارساجد
 

سیما علی

لائبریرین
زبانِ خامه چه گوید ز ماجرایِ حسین
غمِ حسین نداند به جز خدایِ حسین
(ملا حسن آرانی داعی)

زبانِ خامہ ماجرائے حسین(علیہ سلام) کے بارے میں اور کیا کہے۔حسین(علیہ سلام) کے خدا کے سوا کوئی بھی غمِ حسین نہیں جانتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہمہ شب انتظارِ صبحِ وصال
شب نہیں زندگی گزاری ہے

فیصلے کا ہے ایک پل ورنہ
سوچنے کو تو عمر ساری ہے

دو قدم رہ گیا ہے خیمہِ شاہ
حر پہ یہ وقت کتنا بھاری ہے
نصیر ترابی
 
Top