سلام - “مگر رسم عزا کچھ کم نہیں ہے”
فضا کچھ سازگار اس دم نہیں ہے
مگر شمعِ عزا مدھم نہیں ہے
کوئی گوشہ نہیں ایسا زمیں پر
شہ دیں کا جہاں پرغم نہیں ہے
کوئی اشکِ غمِ شہ کے علاوہ
غمِ دنیا ترا مرہم نہیں ہے
نشانِ سینہ کوبی مٹ بھی جائیں
عزاداروں کا مٹتا غم نہیں ہے
سنبھل کر منہ شگافی کیجئے گا
عبادت ہے مری ماتم نہیں ہے
پلٹتاہے ہواؤں کے رخوں کو
جو جھک جائے یہ وہ پرچم نہیں ہے
بہت ہیں سورما لشکر میں شہ کے
مگر اصغر کسی سے کم نہیں ہے
اٹھائیں آہ کیسے لاشِ اکبر
کمر میں شاہ کی اب دم نہیں ہے
ہے ثابت ناقہ صالح کی حرمت
مگر اصغر کی حرمت کم نہیں ہے
دعائیں کس طرح مقبول ہونگی
جو تیری آنکھ ہی پرنم نہیں ہے
یہ نذرانہ حضورِ شاہ ذاکرؔ
لحد کے واسطے کچھ کم نہیں ہے
ولی رضا حیدری ذاکرؔ