میں کٹ مروں گا میں جان دے دوں گا حرفِ حق پر
کہ فخرہے مجھ کو میری نسبت حسین سے ہے
لفظوں کو حریت کے مفاہیم دے دیے
ارزاں ہوئی ہے خوںٍ کی گرانی حسین سے
میں با وضو جو کبھی نیند اوڑھ لیتا ہوں
تمام شب مری آنکھوں میں جاگتا ہے حسین
تشنہ لبی میں صبر و رضا ضبط و حوصلہ
کیا کیا لبِ فرات نہ سیکھا حسین سے
تاروں سے بڑھ کے روشنی ذرّوں میں ہے کمال
ہے دشتِ کربلا میں اجالا حسین سے
(محمد اشرف کمال)