ہجوم ِ رنگ و بو میں سوزِ غم کو بھول جاتا ہوں
چٹکتا ہے کوئی غنچہ تو میں بھی مسکراتا ہوں
وہاں بھی اک تغافل ہے یہاں بھی بے نیازی ہے
وہ مجھ کو آزماتے ہیں میں انکو آزماتا ہوں
ہنستے ہوئے چہروں کو نہ سمجھو غم سے آزاد ہیں
ہزاروں دکھ چھپے ہوتے ہیں ایک ہلکی سی مسکان میں
ٹوٹا دل،مرجھائے ہونٹ پھر بھی ہنستے رہتے ہیں
یہی تو خوبی ہوتی ہے ٹوٹے بکھرے انسان میں
اگر کچھ قیمتی لمحے نکل آئیں کسی صورت
چلو اس دل کی خاطر ہم بھی کوئی کام کر جائیں
کئی شامیں گنوا دی ہیں غمِ حالات میں ہم نے
تمہارے نام اک سندر سہانی شام کر جائیں
جنہوں نے ہار کبھی نہیں دیکھی ہوتی عمر بھر
ایسوں کو تو چھوٹی سی اک مات رُلا دیتی ہے
غموں سے تو کچھ اور بھی بڑھ جاتا ہے ضبط ہمارا
ہاں ناصح البتہ خوشیوں کی بہتات رُلا دیتی ہے