شمشاد
لائبریرین
صفحہ 245
نہ رہا کہ ان اجل رسیدوں کو چند دن اور ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک ایک کر کے تمام کیاریاں اکھاڑ دالی گئیں۔ وہی ہاتھ جو کبھی اونچے ہو ہو کر ان کے سر و سینہ پر پانی بہاتے تھے، اب بے رحمی کے ساتھ ایک ایک ٹہنی توڑ مروڑ کر پھینک رہے تھے۔ جن درختوں کے پھولوں کا ایک ایک ورق حسن کا مرقع اور رعنائی کا پیکر تھا، اب جھلسی ہوئی جھاڑیوں اور روندی ہوئی گھانس کی طرح میدان کے ایک کونے میں ڈھیر ہو رہا تھا اور صرف اسی مصرف کا رہ گیا تھا کہ جس بے سروسامان کو جلانے کے لیے لکڑیاں میسر نہ آئیں، وہ انہی کو چولہے میں جھونک کر اپنی ہانڈی گرم کر لے۔
زندگی اور وجود کے جس گوشہ کے دیکھیے، قدرت کی کرشمہ سازیوں کے ایسے ہی تماشے نظر آئیں گے۔
انسانی زندگی کا بھی بعینہ یہی حال ہوا۔ سعی و عمل کا جو درخت پھل پھول لاتا ہے اس کی رکھوالی کی جاتی ہے۔ جو بیکار ہو جاتا ہے اسے چھانٹ دیا جاتا ہے۔
یہ قرآن کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے، جس میں کارخانہ ہستی کی اس اصل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز نافع ہوتی ہے، وہ باقی رکھی جاتی ہے؛ جو بے کار ہو گئی، وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔
نہ رہا کہ ان اجل رسیدوں کو چند دن اور ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک ایک کر کے تمام کیاریاں اکھاڑ دالی گئیں۔ وہی ہاتھ جو کبھی اونچے ہو ہو کر ان کے سر و سینہ پر پانی بہاتے تھے، اب بے رحمی کے ساتھ ایک ایک ٹہنی توڑ مروڑ کر پھینک رہے تھے۔ جن درختوں کے پھولوں کا ایک ایک ورق حسن کا مرقع اور رعنائی کا پیکر تھا، اب جھلسی ہوئی جھاڑیوں اور روندی ہوئی گھانس کی طرح میدان کے ایک کونے میں ڈھیر ہو رہا تھا اور صرف اسی مصرف کا رہ گیا تھا کہ جس بے سروسامان کو جلانے کے لیے لکڑیاں میسر نہ آئیں، وہ انہی کو چولہے میں جھونک کر اپنی ہانڈی گرم کر لے۔
گلگونہ عارض ہے، نہ ہے رنگِ حنا تو
اے خوں شدہ دل، تُو تو کسی کام نہ آیا (11)
اے خوں شدہ دل، تُو تو کسی کام نہ آیا (11)
زندگی اور وجود کے جس گوشہ کے دیکھیے، قدرت کی کرشمہ سازیوں کے ایسے ہی تماشے نظر آئیں گے۔
421- درین چمن کہ بہار و خزاں ہم آغوش ست
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش ست (12)
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش ست (12)
انسانی زندگی کا بھی بعینہ یہی حال ہوا۔ سعی و عمل کا جو درخت پھل پھول لاتا ہے اس کی رکھوالی کی جاتی ہے۔ جو بیکار ہو جاتا ہے اسے چھانٹ دیا جاتا ہے۔
"فاما الزبد فیلھب جفآءً و اما ما ینفعُ الناس فیمکث فی الارض * (13)
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-
یہ قرآن کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے، جس میں کارخانہ ہستی کی اس اصل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز نافع ہوتی ہے، وہ باقی رکھی جاتی ہے؛ جو بے کار ہو گئی، وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔