غُبارِ خاطر از مولانا ابُو الکلام آزاد

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 245

نہ رہا کہ ان اجل رسیدوں کو چند دن اور ان کی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک ایک کر کے تمام کیاریاں اکھاڑ دالی گئیں۔ وہی ہاتھ جو کبھی اونچے ہو ہو کر ان کے سر و سینہ پر پانی بہاتے تھے، اب بے رحمی کے ساتھ ایک ایک ٹہنی توڑ مروڑ کر پھینک رہے تھے۔ جن درختوں کے پھولوں کا ایک ایک ورق حسن کا مرقع اور رعنائی کا پیکر تھا، اب جھلسی ہوئی جھاڑیوں اور روندی ہوئی گھانس کی طرح میدان کے ایک کونے میں ڈھیر ہو رہا تھا اور صرف اسی مصرف کا رہ گیا تھا کہ جس بے سروسامان کو جلانے کے لیے لکڑیاں میسر نہ آئیں، وہ انہی کو چولہے میں جھونک کر اپنی ہانڈی گرم کر لے۔

گلگونہ عارض ہے، نہ ہے رنگِ حنا تو
اے خوں شدہ دل، تُو تو کسی کام نہ آیا (11)​

زندگی اور وجود کے جس گوشہ کے دیکھیے، قدرت کی کرشمہ سازیوں کے ایسے ہی تماشے نظر آئیں گے۔

421- درین چمن کہ بہار و خزاں ہم آغوش ست
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش ست (12)​

انسانی زندگی کا بھی بعینہ یہی حال ہوا۔ سعی و عمل کا جو درخت پھل پھول لاتا ہے اس کی رکھوالی کی جاتی ہے۔ جو بیکار ہو جاتا ہے اسے چھانٹ دیا جاتا ہے۔

"فاما الزبد فیلھب جفآءً و اما ما ینفعُ الناس فیمکث فی الارض * (13)
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-​

یہ قرآن کی ایک آیت کا ٹکڑا ہے، جس میں کارخانہ ہستی کی اس اصل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو چیز نافع ہوتی ہے، وہ باقی رکھی جاتی ہے؛ جو بے کار ہو گئی، وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 246

(23)

قلعہ احمد نگر
15 جون 1943ء

صدیق مکرم

عرب کے فلسفی ابو العلاء معزی نے زمانہ کا پورا پھیلاؤ تین دنوں کے اندر سمیٹ دیا تھا: کل جو گزر چکا؛ آج جو گزر رہا ہے؛ کل جو آنے والا ہے:

422- ثلاثۃ ایام، ھی الدھر کلہ
وما ھن، الامس و الیوم و الغد
وما القمر الا واحد غیر انہ
یغیب و یاتی بالضیاء المجدد (1)​

لیکن تین زمانوں کی تقسیم میں نقص یہ تھا کہ جسے ہم "حال" کہتے ہیں، وہ فی الحقیقت ہے کہاں؟ یہاں وقت کی جو احساس بھی ہمیں میسر ہے وہ یا تو "ماضی" کی نوعیت رکھتا ہے یا مستقبل کی، اور انہی دونوں زمانوں کا ایک اضافی تسلسل ہے، جسے ہم "حال" کے نام سے پکارنے لگتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ "ماضی" اور "مستقبل" کے علاوہ وقت کی ایک تیسری نوعیت بھی ہمارے سامنے آتی رہتی ہے لیکن وہ اس تیزی کے ساتھ آتی اور نکل جاتی ہے کہ ہم اسے پکڑ نہیں سکتے۔ ہم اس کا پیچھا کرتے ہیں، لیکن ادھر ہم نے پیچھا کرنے کا خیال کیا، اور ادھر اس نے اپنی نوعیت بدل ڈالی۔ اب یا تو ہمارے سامنے "ماضی" ہے جو جا چکا ہے، یا "مستقبل" ہے جو ابھی آیا ہی نہیں۔ لیکن خود "حال" کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 247

دیتا۔ جس وقت کا ہم نے پیچھا کرنا چاہا تھا وہ "حال" تھا اور جو ہمارے پکڑ میں آیا ہے وہ "ماضی" ہے۔

نکل چکا ہے وہ کوسوں دیارِ حرماں سے (2)​

شاید یہی وجہ ہے کہ ابو طالب کلیم کو انسانی زندگی کی پوری مدت دو دن سے زیادہ نظر نہیں آئی :

423- بدنامی حیات ودِ روزے نبود بیش
واں ہم کلیم باتو چگوئیم، چساں گزشت
یک روز صرفِ بستنِ دل شد بایں وآں
روزے دگر بکندنِ دل زین و آں گزشت (3)​

ایک عرب شاعر نے یہی مطلب زیادہ ایجاز و بلاغت کے ساتھ ادا کیا ہے :

424- و معنی یساعدنا الوصال و دھرنا
یومان، یوم لویٰ و یوم صدود​

اور اگر حقیقت حال کو اور زیادہ نزدیک ہو کر دیکھیے تو واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کی پوری مدت ایک صبح شام سے زیادہ نہیں۔ صبح آنکھیں کُھلیں، دوپہر امید و ہیم میں گزری، رات آئی تو پھر آنکھیں بند تھیں۔ لَم یلبثُوا اِلاغشیۃ او ضُحاھا۔

425- شورے شد و ازخوابِ عدم چشم کشودیم
دیدیم کہ باقی سب شب فتنہ، غنودیم (5)​

لیکن پھر غور کیجیئے اسی ایک صبح شام کے بسر کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے، کتنے صحراؤں کو طے کرنا پڑتا ہے؛ کتنے سمندروں کو لانگنا پڑتا ہے؛ کتنی چوٹیوں پر سے کودنا پڑتا ہے؟ پھر آتش و پنبہ کا افسانہ ہے، برق و خرمن کی کہانی ہے :

426- دریں چمن کہ ہوا داغِ شبنم آرائی ست
تسلے بہزار اضطراب می بافند (6)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 248

(24)

قلعہ احمد نگر
16 ستمبر 1943ء

صدیق مکرم

بچے ربڑ کے رنگین غباروں سے بہت خوش ہوتے ہیں، مُجھے بھی بچپنے میں ان کا بڑا شوق تھا۔ والد مرحوم کے مرِیدوں میں ایک شخص غلام رحمٰن تھا، جو انگریزی ٹوپیوں کے بنانے کا کاروبار کرتا تھا۔ وہ مجھے یہ غبارے لا کر دیا کرتا اور میں اس سے بہت ہل گیا تھا۔ یہ غبارے ویسے ہی ہوتے ہیں، جیسے منہ سے پھونکنے کے ہوتے ہیں لیکن ان میں گیس بھر دی جاتی ہے اور وہ انہیں اوپر کی طرف اڑائے رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ مجھے خیال ہوا اسے چھید کے دیکھنا چاہیے اندر سے کیا نکلتا ہے؟ سہسرام کی ایک مغلانی امانی نام ہمارے گھر میں سلائی کا کام کیا کرتی تھی۔ میں نے امانی کے سلائی کے بکس میں سے ایک سوئی نکالی اور غبارے میں چبھو دی۔ اس واقعہ پر سینتالیس (47) برس گزر چکے لیکن اس وقت بھی خیال کرتا ہوں تو اس سنسنی کا اثر صاف صاف دماغ میں محسوس ہونے لگتا ہے جو اس وقت اچانک گیس کے نکلنے اور ایک لمبی "سی" کی سی آواز پیدا ہونے سے مجھ پر طاری ہو گئی تھی۔ گیس باہر نکلنے کے لیے کچھ ایسی بے تاب تھی کہ سوئی کا ذرا سا چھید پاتے ہی فوراً فوارہ کی طرح مضطربانہ اچھلی اور دو تین سیکنڈ بھی ابھی نہیں گزرے تھے کہ غبارہ خالی ہو کے سکٹر گیا اور زمین پر گر گیا۔

یقین کیجیے، آج کل بعینہ ایسا ہی حال اپنے سینہ کا بھی محسوس کر رہا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 249

غبارے کی طرح اس میں بھی کوئی پُرجوش عنصر ہے جو بھر گیا ہے اور نکلنے کے لیے بیتاب ہے۔ اگر کوئی ہاتھ ایک سوئی اٹھا کر چبھو دے تو مجھے یقین ہے اس میں سے بھی ویسا ہی جوش اُمنڈ کر اچھلے گا جیسا غبارہ سے ایک مضطرب چیخ کے ساتھ اُچھلا تھا :

427- شدآں کہ اہلِ نظر بر کنارہ می رفتند
ہزار گونہ سخن بردہان و لب خاموش
ببانگ چنگ بگوئیم آں حکایت ہا !
کہ از نہفتنِ آں دیگِ سینہ می زد جوش (1)​

کل رات ایک عجیب طرح کی حالت پیش آئی۔ کچھ دیر کے لیے ایسا محسوس ہونے لگا کہ سوئی چبھ رہی ہے اور شاید دل کی بھاپ پانی بن کر بہنا شروع ہو جائے لیکن یہ محض ایک سانحہ تھا، جو آیا اور گزر گیا اور طبیعت پھر بند کی بند رہ گئی۔ دیگ نے جوش کھایا لیکن پھوٹ کر بہہ نہ سکی۔

ضعف سے گریہ مبدل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا ! (2)​

میرے ساتھ لاسلکی کا ایک سفری (پورٹیبل) سیٹ سفر میں رہا کرتا تھا۔ جب بمبئی میں گرفتار کر کے یہاں لایا گیا تو سامان کے ساتھ وہ بھی آ گیا۔ لیکن جب سامان قلعہ کے اندر لایا گیا تو اس میں سیٹ نہیں تھا۔ معلوم ہوا کہ باہر روک لیا گیا ہے۔ جیلر سے پوچھا تو اُسن نے کہا کمانڈنگ آفیسر کے حکم سے روکا گیا ہے اور اب گورنمنٹ سے اس بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ بہر حال جب یہاں اخباروں کا آنا روک دیا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ لاسلکی کے سیٹ کی اجازت کیونکر دی جا سکتی تھی؟ تین ہفتہ کے بعد اخبار کی روک تو اٹھ گئی مگر سیٹ پھر بھی نہیں دیا گیا۔ وہ چیتہ خاں کے آفس میں مقفل پڑا رہا۔ اب میں نے چیتہ خاں کو دے دیا ہے کہ اپنے بنگلہ میں لگا کر کام میں لائے، کیونکہ اب وہ جس بنگلہ میں منتقل ہوا ہے، اس میں لاسلکی سیٹ نہیں ہے۔

لیکن آج کل کوئی فوجی افسر ہمارے احاطہ کے قریب قلعہ میں فروکش ہے، اس کے پاس لاسلکی سیٹ ہے۔ کبھی کبھی اس کی آواز یہاں بھی آ نکلتی ہے۔ کل رات بہت صاف
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 250

آنے لگی تھی۔ غالباً بی بی سی کا پروگرام تھا اور کوئی وایولین (Violin) بجانے والا کمال دکھا رہا تھا۔ لَے ایسی تھی، جیسی کہ (Mendelssohn) (3) کے مشہور قطعہ " نغمہ بغیر لفظ" (سوانگس ود آؤٹ ورڈز) کی سننے میں آئی تھی :

428- حدیثِ عشق کہ از حرف و صوت مستغنی ست
بہ نالہ دف ولَے در خروش و ولولہ بود! (4)​

ناگہاں ایک مغنیہ خوش لہجہ کی صدائے درد انگیز اُٹھی اور اس نے ساز کے زیر و بم کے ساتھ مل کر وہ عالم پیدا کر دیا جس کی طرف خواجہ شیراز نے اشارہ کیا ہے۔

429- چہ راہ می زندایں مطرب مقام شناس
کہ درمیانِ غزل قولِ آشنا آورد (5)​

پہلے طبیعت پر ایک فوری اثر پڑا، ایسا محسوس ہوا، جیسے پھوڑا پھوٹنے لگا ہے لیکن یہ حالت چند لمحوں سے زیادہ نہیں رہی۔ پھر دیکھا تو بدستور انقباضِ خاطر واپس آ گیا تھا :

230- یا مگر کاوشِ آن نشترِ مژگاں کم شد
یا کہ خود زخمِ مرا لذتِ آزار نماند (6)​

شاید آپ کو معلوم نہیں کہ ایک زمانے میں مجھے فنِ موسیقی کے مطالعہ اور مشق کا بھی شوق رہ چکا ہے۔ اس کا اشتعال کئی سال تک جاری رہا تھا۔ ابتدا اس کی یوں ہوئی کہ 1905ء میں جب تعلم سے فارغ ہو چکا تھا اور طلباء کو پڑھانے میں مشغول تھا تو کتابوں کا شوق مجھے اکثر ایک کتب فروش خدا بخش کے یہاں لے جایا کرتا تھا جس نے ویلزلی اسٹریٹ میں مدرسہ کالج کے سامنے دکان لے رکھی تھی اور زیادہ تر عربی اور فارسی کی قلمی کتابوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا کرتا تھا۔ ایک دن اس نے فقیر اللہ سیف (7) خاں کی راگ درپن کا ایک نہایت خوش خط اور مصور نسخہ مجھے دکھایا اور کہا کہ یہ کتاب فن موسیقی میں ہے۔ سیف خاں عالمگیری عہد کا ایک امیر تھا اور ہندوستان کی موسیقی کے علم و عمل کا ماہر تھا۔ اس نے سنسکرت کی ایک کتاب کا فارسی میں ترجمہ کیا جو راگ درپن کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ نسخہ جو خدا بخش کے ہاتھ لگا تھا آصف جاہ (8) کے لڑکے ناصر جنگ (9) شہید کے کتب خانہ کا تھا اور نہایت اہتمام کے ساتھ مرتب کیا گیا تھا۔ میں ابھی اس کا دیباچہ دیکھ رہا تھا کہ مسٹر ڈینسن راس (10) آ گئے جو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 48

معصوم بنا دیا جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس روزگارِ خراب میں زندگی کو زندگی بنائے رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ غلطیاں بھی ضرور کرنی چاہییں :

32- پیرِ ماگفت خطا درقلم صنع نہ رفت
آفریں بر نظر پاک خطا پوشش باد (15)​

غور کیجیے وہ زندگی ہی کیا ہوئی جس کے دامنِ خشک کو کوئی غلطی تر نہ کر سکے؟ وہ چال ہی کیا جو لڑکھڑاہٹ سے یکسر معصوم ہو؟

33- تو و قطعِ منازلہا، من و یک لغزش پائے (16)​

اور پھر اگر غور و فکر کا ایک قدم اور آگے بڑھائیے تو سارا معاملہ بالآخر وہی جا کر ختم ہو جائے گا جہاں کبھی عارف شیراز نے اسے دیکھا تھا :

34- بیا کہ رونق ایں کارخانہ کم نہ شود
ززُہد ہم چوتوئی یا بفسق ہم چومنی (17)​

اور اگر پُوچھیے کہ پھر کامرانی عمل کا معیار کیا ہوا۔ اگر یہ آلودگیاں راہ میں مخل نہ سمجھی گئیں تو اس کا جواب وہی ہے جو عرفاء طریق نے ہمیشہ دیا ہے :

35- ترکِ ہمہ گیر و آشنائے ہمہ باش (18)

یعنی ترک و اختیار دونوں کا نقش عمل اس طرح ایک ساتھ بٹھائیے کہ آلودگیاں دامن تر کریں مگر دامن پکڑ نہ سکیں۔ اس راہ میں کانٹوں کا دامن سے الجھنا مخل نہیں ہوتا، دامن گیر ہونا مخل ہوتا ہے۔ کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائے۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجیے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب چاہا، اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہے۔

تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں (19)​

یہاں کامرانی سود و زیاں کی کاوش میں نہیں ہے بلکہ سُود و زیاں سے آسودہ حال رہنے میں ہے۔ نہ تو تردامنی کی گرانی محسوس کیجیئے نہ خشک دامنی کی سُبک سری؛ نہ آلودہ دامنی پر پریشان حالی ہو، نہ پاک دامنی پر سرگرانی :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 49

ہم سمندر باش وہم ماہی کہ در اقلیمِ عشق
روئے دریا سلسبیل وقعرِ دریا آتش ست (20)​

آپ کو ایک واقعہ سناؤں۔ شاید رشتہ سخن کی ایک گرہ اس سے کھل جائے۔ 1921ء میں جب مجھے گرفتار کیا گیا تو مجھے معلوم تھا کہ قید خانہ میں تمباکو کے استعمال کی اجازت نہیں۔ مکان سے جب چلنے لگا تو ٹیبل پر سگریٹ کیس دھرا تھا۔ عادت کے زیر اثر پہلے ہاتھ بڑھا کہ اسے جیب میں رکھ لوں، پھر صورتِ حال کا احساس ہوا تو رُک گیا لیکن پولیس کمشنر نے جو گرفتاری کا وارنٹ لے کر آیا تھا، بہ اصرار کہا کہ ضرور جیب میں رکھ لو۔ میں نے رکھ لیا۔ اس میں دس سگریٹ تھے۔ ایک کمشنر پولیس کے آفس میں پیا، دوسرا راستہ میں سلگایا، دو ساتھیوں کو پیش کیے۔ چھ باقی رہ گئے تھے کہ پریسیڈنسی جیل علی پور پہنچا۔ جیل کے دفتر سے جب اندر جانے لگا تو خیال ہوا اس جیب کے وبال سے سبک جیب ہو کر اندر قدم رکھوں تو بہتر ہے۔ میں نے کیس نکالا اور مع سگریٹوں کے جیلر کی نذر کر دیا اور پھر اس دن سے لے کر دو برس تک سگریٹ کے ذائقہ سے کام و دہن آشنا نہیں ہوا۔ ساتھیوں میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جن کے پاس سگریٹ کے ذخیرے موجود رہتے تھے اور قید خانہ کا احتساب عمداً چشم پوشی کرتا تھا۔ بعض شرب الیہود * کی طریقہ کام میں لاتے تھے :

شرب الیہود کرتے ہیں نصرانیوں میں ہم (21)​

بعضوں کی جراتِ رندانہ اس قید و بند کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ :

ولا تسقنی سراً فقد امکن الجھر **​

پر عمل کرتے تھے۔ مجھے یہ حال معلوم تھا مگر اپنی (24) توبہ اضطرار پر کبھی پشیمان نہیں ہوا۔ کئی مرتبہ گھر سے سگریٹ کے ڈبے آئے اور میں نے دوسروں کے حوالے کر دیئے :

37- خوشم کہ توبہ من نرخِ بادہ ارزاں کرد (25)​

سرگزشت کا اصلی واقعہ اب سُنیے۔ جس دن علی الصباح مجھے رہا کیا گیا تو قید خانہ کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ نے اپنا سگریٹ کیس نکالا اور ازراہِ تواضع مجھے بھی پیش کیا۔ یقین کیجیے جس درجہ عزم کے ساتھ دو سال پہلے سگریٹ ترک کیا تھا اتنے ہی درجہ کی آمادگی
 

موجو

لائبریرین
’’صفحہ 201‘‘
رہتی ہے۔ انہوں‌نے یہ دقیق نکتہ سنایا کہ اگر پھولوں کے پودوں‌کو حیوانی خون سے سینچا جائے، تو اُن میں‌نباتاتی درجہ سے بلند ہوکر حیوانی درجہ میں‌قدم رکھنے کا ولولہ پیدا ہوجائے گا اور ہفتوں کی راہ دنوں میں طے کرنے لگیں گے۔ لیکن آج کل جبکہ جنگ کی وجہ سے آدمیوں‌کو خون کی ضرورت پیش آگئی ہے؛ اس کے بینک کھل رہے ہیں، بھلا درختوں کے لیے کون اپنا خون دینے کے لیے تیار ہوگا۔ ایک دوسرے صاحب نے کہا، یہاں‌قلعہ کے فوجی میس (mess) (29) میں‌روز مرغیاں‌ذبح کی جاتی ہیں۔ ان کا خون جڑوں میں‌کیوں نہ ڈالا جائے؟ اس پر مجھے ارتجالآ ایک شعر سوجھ گیا۔ حالانکہ شعر کہنے کی عادت مدتیں ہوئیں بھلا چکا ہوں:
کلیوں میں‌اہتزاز ہے پروازَ‌حسن کی،
سینچا تھا کس نے باغ کو بلبل کے خون سے(30)
اگر مرغی کی جگہ بلبل کر دیجیے تو خیال بندوں کی طرز کا اچھا خاصہ شعر ہوجائے گا۔
غنچوں‌میں‌اہتزاز ہے پروازِ حُسن کی،
سینچا تھا کس نے باغ کو بلبل کے خون سے(30)
شعر سن کر آصف علی (31) صاحب کے شاعرانہ ولولے جاگہ اُٹھے ۔ انہوں‌نے اس زمین میں‌غزل کہنی شروع کردی، لیکن پھر شکایت کرنے لگے کہ قافیہ تنگ ہے۔ میں‌نے کہا ویسے بھی یہاں‌قافیہ تنگ ہی ہورہا ہے۔
دیکھیے! سمند فکر کی وحشت خرامی بار بار جادہ سخن سے ہٹنا چاہتی ہے اور میں‌چونک چونک کر باگ کھینچنے لگتا ہوں۔ جو بات کہنی چاہتا تھاوہ یہ کہ ستمبر اور کتوبر میں‌بیج ڈالے گئے۔ دسمبر (32) کے شروع ہوتے ہی سارے میدان کی صورت بدل گئی اور جنوری آئی تو اس عالم میں‌آئی کہ ہر گوشہ مالن کی جھولی تھا ہر تختہ گل فروش کا ہاتھ تھا گویا:
کنوں‌کہ درچمن آمد گل از عدم بوجود
بنفشہ در قدم او نہاد سر بسجود
333
بہ باغ تازہ کن آئین دینَ‌زردشتی
کنوں کہ لالہ ہوا فروخت آتشَ‌نمرود
 

موجو

لائبریرین
’’صفحہ 202‘‘
زدستِ شاہد سمیں‌عذار عیسیٰ دوم
شارب نوش درہاکن حدیثِ عاد و ثموت (33)
کا عالم طاری ہوگیا۔ لیکن آئین زردشتی کے تازہ کرنے کا سامان یہاں‌کہاں تھا؟‌اور شائد سیمیں عذار کے انفاس عیسوی کی اعجاز فرمائیاں کہاں‌میسر آسکتی تھیں؟‌سو اس کی کمی عالم تصور کی جولانیوں‌سے پوری کی گئی۔ زمانہ کی تنگ مائیگی جس قدر کوتاہیاں‌کرتی رہتی ہے، فکرِ فراخ حوصلہ کی آسودگیاں اتنی ہی بڑھتی جاتی ہیں:‌
334
چوں دستِ مابہ دامنِ و صلش نی می رسد
پائے طلب شکستہ بداماں نشستہ ایم (34)
وقت کی رعایت سے اکثر پھول موسمی تھے۔ چالیس سے زیادہ قسمیں گنی جاسکتی تھیں۔ سب سے پہلے مارنینگ گلوری (Morning Glory) نے اس خرابہ بے رنگ کو اپنی گل شگفتگیوں‌سے رنگین کیا۔ جب صبح کے وقت آسمان پر سورج کی کرنیں‌مسکرانے لگتیں تو زمین پر مورنینگ گلوری کی کلیاں‌کھل کھلا کر ہنسنا شروع کردیتیں۔ ابو طالب کلیم کو کیا خوب تمثیل سوجھی تھی۔
335
شیرینی تبسم ہر غنچہ را مپرس
در شیر صبح خندہ گلہا شکر گزاشت
کوئی پھول یا قوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی۔ کسی پھول پر گنگا جمنی کی قلمکاری کی گئی تھی۔ کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ رنگ کی چھپائی ہورہی تھی۔ بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑ گئی تھیں‌کہ خیال ہوتا تھا، صناع قدرت کو مؤقلم میں رنگ زیادہ بھر گیا ہوگا۔ صاف کرنے کے لیے جٹکنا پڑا اور اس کی چھینٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں:
تکلف سے بَری ہے حسنِ ذاتی،
قبائے گل میں‌گُل بوٹا کہاں ہے؟(36)
’’گلوری‘‘ کا اردو ترجمہ کیجیے تو بات بنتی نہیں۔ ’’اجلالِ صبح‘‘ وغیرہ کہہ سکتے ہیں لیکن ذوق سلیم حرف گیری کرتا ہے۔ اس لیے ما مرنینگ گلوری کو ’’بہارِصبح‘‘ کے نام سے پکارتا ہوں:
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 266

جاتا تھا اسی طرح موسیقی کی تحصیل کا بھی اہتمام کیا جاتا۔ ملک کے ہر حصہ سے باکمالانِ فن کی مانگ آتی تھی اور دیلی ، آگرہ، لاہور اور احمد آباد کے گویے بڑی بڑی تنخواہوں پر اُمراء اور شُرفا کے گھروں میں ملازم رکھے جاتے تھے۔ جو نوجوان تکمیلِ علم کے لیے بڑی شہروں میں آتے، وہ وہاں کے عالموں اور مدرسوں کے ساتھ وہاں کے باکمالانِ موسیقی کو بھی ڈھونڈتے اور پھر ان کے حلقہ تعلیم میں زانوائے تحصیل تہہ کرتے۔ دکن میں احمد نگر، بیجا پور اور برہان پور کے اہل فن مشہور تھے۔ دوآبہ میں دہلی اور آگرہ کے اور پنجاب میں لاہور، سیالکوٹ اور جھنگ کے۔

اس علد میں ایران اور توران سے جو افاضل و اشراف آتے وہ ہندوستانی موسیقی کے فہم و مناسبت کی ضرورت فوراً محسوس کر لیتے تھے اور چند سال بھی گزرنے نہیں پاتے کہ اس کے مقا شناس بن جاتے تھے۔ محمد قاسم (95) فرشتہ صاحبِ تاریخ کا باپ مازندران سے آ کر احمد نگر میں مقیم ہوا تھا اور فرشتہ کی ولادت مازندران کی تھی لیکن اسے ہندوستانی موسیقی سے اس قدر شغف ہوا کہ اس موضوع پر ایک پوری کتاب تصنیف کر دی۔ یہ کتاب میرے کتب خانہ میں موجود ہے۔ علاء المل تونی (96) جو جلوسِ شاہجہانی کے ساتویں سال ہندوستان آیا اور فاضل خاں کے خطاب سے مخاطب ہوا اور پھر اورنگ زیب کے عہد میں عہدہ وزارت پر فائز ہوا ہندوستانی موسیقی کا ایسا ماہر سمجھا جاتا تھا کہ وقت کے اساتذہ اس سے استفاضہ کرتے تھے۔

اس عہد کے کتنے ہی مقدس علماء ہیں جن کے حالات پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ گو موسیقی کے اشتعال سے دامن بچائے رہے لیکن فن کے ماہر اور نکتہ شناس تھے۔ ملا مبارک کے حالات میں خصوصیت کے ساتھ اس کی تصریح ملتی ہے کہ ہندوستانی موسیقی کا عالم و ماہر تھا۔ اکبر نے اسے تان سین کا گانا سنایا تو صرف اتنی داد ملی کہ "ہاں گا لیتا ہے"! (97)

ملا عبد القادر بدایونی (98) جیسا متشرع اور متصلب شخص بھی بین بجانے میں پوری مہارت رکھتا تھا اور فیضی نے ضروری سمجھا تھا کہ اکبر کی خدمت میں اسکی سفارش کرتے ہوئے اس مشاقی کا ذکر کر دے (99)۔ علامہ سعد اللہ شہجہانی (100) جن کی فضیلت علمی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 267

اور ثقاہت طبع کا تمام معاصر اعتراف کرتے ہیں، موسیقی اور سنگیت کی ہر شاغ پر نظر رکھتے تھے اور ماہرانہ رائے دے سکتے تھے۔ ان کے استاد ملا عبد السلام لاہوری (101) تھے۔ ان کے حلقہ درس کی عالمگیریوں نے سمرقند اور بخارا تک کو مسخر کر لیا تھا اور جب شاہجہان نے شہزادوں کی تعلیم کے لیے تمام علمائے مملکت پر نظر ڈالی تھی تو نظرِ انتخاب نے انہی کی سفارش کی تھی۔ لیکن ان کے ذوقِ موسیقی کا یہ حال تھا کہ جس طرح "ہدایہ" اور "بزودی" کے مقامات حل کیا کرتے تھے اسی طرح موسیقی کی مشکلات بھی حل کر دیا کرتے تھے۔ شیخ معالی خاں (101) جو ملا طاہر پٹنی (103) محدث گجرات کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور قاضی القضاۃ شیخ عبد الوہاب (104) گجراتی کے پوتے تھے، ان کے حالات میں صاحب مآثر الامراء نے لکھا ہے کہ موسیقی کے شیفتہ اور اس کی باریکیوں کے دقیقہ سنج تھے۔ ملا شفیعائے یزدی (105) مخاطب بہ دانشمند خاں کہ سرآمد علمائے عصر تھا اور شاہجہان کے دربار میں اس کا مباحثہ ملا عبد الحکیم (106) سیالکوٹی سے معلوم و مشہور ہے، ہندوستان آتے ہی ہندوستانی موسیقی میں ایسا باخبر ہو گیا کہ وقت کے باکمالانِ فن کو اُس کے فضل و کمال کا اعتراف کرنا پٹرا۔ حکیم برنیر فرنساوی (107) صاحب سفر نامہ ہند اسی دانشمند خان کی سرکار میں ملازم تھا اور غالباً اسی کی صحبت کا یہ نتیجہ تھا کہ حکمائے فرنگ کا اسے ہم مشرب لکھا گیا ہے۔ شیخ علاؤالدین (108) جو اپنے عہد کے مشہور صوفی گزرے ہیں اور جن کی ایک غزل سماع کی مجلسوں میں بکثرت گائی جاتی ہے : (109)

454۔ نہ دانم آں گلِ رعنا چہ رنگ و بودارد
کہ مُرغ ہر چمنے گفتگوئے اُو دارد

نشاطِ بادہ پرستاں بہ منتہیٰ برسید
ہنوز ساقیِ ما ہادہ در سبو دارد​

ان کے حالات میں سب سے لکھتے ہیں کہ ہندوستانی موسیقی کے ماہر اور آلاتِ موسیقی کے غیر معمولی مشاق تھے۔

شیخ جمالی (110) صاحب سیر العارفین (111) اور اُن کے لڑکے شیخ گدائی، (112) دونوں کا فنِ موسیقی میں توغل معلوم ہے۔ دور آخر میں مرزا مظہرِ جانجاناں (113) اور خواجہ میر درد (114)
 

موجو

لائبریرین
ص 201
شعر سن کر آصف علی (31) صاحب کے شاعرانہ ولولے جاگ اُٹھے۔ انہوں نے اس زمین میں غزل کہنی شروع کردی، لیکن پھر شکایت کرنے لگے کہ قافیہ تنگ ہے۔ میں نے کہا ویسے بھی یہاں قفیہ تنگ ہی ہورہا ہے۔
دیکھیے! سمند فکر کی وحشت خرامی بار بار جادہ سخن سے ہٹنا چاہتی ہے اور میں چونک چونک کر باگ کھینچنے لگتا ہوں۔ جو بات کہنی چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ستمبر اور اکتوبر میں بیج ڈالے گئے دسمبر(32) کے شروع ہوتے ہی سارے میدان کی صورت بدل گئی اور جنوری آئی تو اس عالم میں آئی کہ ہر گوشپہ مالن کی جھولی تھا ہر تختہ گل فروش کا ہاتھ تھا گویا:
کنوں کہ در چمن آمد گل از عدم بوجود
بنفشہ در قدم او نہاد سر بسجود
(333)
بہ باغ تازہ کن آئین دین زردشتی
کنوں کہ لالہ برا فروخت آتشِ نمرود
ص 202
زدستِ شاید سیمیں عذار عیسیٰ دوم
شارب نوش ورہا کن حدیثِ عاد و ثمود (33)
کا عالم طاری ہوگیا۔ لیکن آئین زردشتی کے تاشہ کرنے کا سامان یہاں کہاں تھا؟ اور شاہد سیمیں عذار کے انفاس عیسوی کی اعجاز فرمائیاں کہاں میسر آسکتی تھیں؟ سو اس کی کمی عالم تصور کی جولانیوں سے پوری کی گئی۔ زمانہ کی تنگ مائیگی جس قدر کوتاہیاں کرتی رہتی ہے، فکرِفراخ حوصلہ کی اسودگیاں اتنی ہی بڑھتی جاتی ہیں:
(334) چوں دستِ مابہ دامنِ وصلش نہ می رسد
پائے طلب شکستہ بداماں نشستہ ایم (34)
وقت کی رعایت سے اکثر پھول موسمی تھے۔ چالس سے زیادہ قسمیں گنی جاسکتی تھیں۔ سب سے پہلے مارنینگ گلوری (Morning Glory) نےا س خرابہ بے رنگ کو اپنی گل شگفتگیوںن سے رنگین کیا۔ جب صبح کے وقت آسمان پر سورج کی کرنیں مسکرانے لگتیں تو زمین پر مورنینگ گلوری کی کلیاں کھل کھلا ہنسنا شروع کردیتیں۔ ابو طالب کلیم کو کیا خوب تمثیل سوجھی تھی۔ (35)
335) شیرینئی تبسم ہر غنچہ را مپرس
درشیر صبح خندہ گلہا شکر گزاشت
کوئی پھول یاقوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی۔ کسی پھول پر گنگا جمنی کی قلمکاری کی گئی تھی۔ کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ رنگ کی چھپائی ہورہی تھی۔ بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑ گئی تھیں کہ خیال ہوتا تھا، صناعِ قدر کے مُو قلم میں رنگ زیادہ بھر گیا۔ صاف کرنے کے لیے جھٹکنا پڑا اور اس کی چھینٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں:
تکلف سے بَری ہے حسنِ ذاتی،
قبائے گل میں گُل بوٹا کہاں ہے؟ (36)
"گلوری" کا اردو ترجمہ کیجیے تو بات بنتی نہیں۔ " اجلالِ صبح" وغیرہ کہہ سکتے ہیں لیکن ذوق سلیم حرف گیری کرتا ہے۔ اس لیے میں مارنینگ گلوری کو " بہار صبح" کے نام سے پکارتا ہوں:
 

موجو

لائبریرین
ص 202
زدستِ شاید سیمیں عذار عیسیٰ دوم
شارب نوش ورہا کن حدیثِ عاد و ثمود (33)
کا عالم طاری ہوگیا۔ لیکن آئین زردشتی کے تاشہ کرنے کا سامان یہاں کہاں تھا؟ اور شاہد سیمیں عذار کے انفاس عیسوی کی اعجاز فرمائیاں کہاں میسر آسکتی تھیں؟ سو اس کی کمی عالم تصور کی جولانیوں سے پوری کی گئی۔ زمانہ کی تنگ مائیگی جس قدر کوتاہیاں کرتی رہتی ہے، فکرِفراخ حوصلہ کی اسودگیاں اتنی ہی بڑھتی جاتی ہیں:
(334) چوں دستِ مابہ دامنِ وصلش نہ می رسد
پائے طلب شکستہ بداماں نشستہ ایم (34)
وقت کی رعایت سے اکثر پھول موسمی تھے۔ چالس سے زیادہ قسمیں گنی جاسکتی تھیں۔ سب سے پہلے مارنینگ گلوری (Morning Glory) نےا س خرابہ بے رنگ کو اپنی گل شگفتگیوںن سے رنگین کیا۔ جب صبح کے وقت آسمان پر سورج کی کرنیں مسکرانے لگتیں تو زمین پر مورنینگ گلوری کی کلیاں کھل کھلا ہنسنا شروع کردیتیں۔ ابو طالب کلیم کو کیا خوب تمثیل سوجھی تھی۔ (35)
335) شیرینئی تبسم ہر غنچہ را مپرس
درشیر صبح خندہ گلہا شکر گزاشت
کوئی پھول یاقوت کا کٹورا تھا، کوئی نیلم کی پیالی تھی۔ کسی پھول پر گنگا جمنی کی قلمکاری کی گئی تھی۔ کسی پر چھینٹ کی طرح رنگ رنگ کی چھپائی ہورہی تھی۔ بعض پھولوں پر رنگ کی بوندیں اس طرح پڑ گئی تھیں کہ خیال ہوتا تھا، صناعِ قدر کے مُو قلم میں رنگ زیادہ بھر گیا۔ صاف کرنے کے لیے جھٹکنا پڑا اور اس کی چھینٹیں قبائے گل کے دامن پر پڑ گئیں:
تکلف سے بَری ہے حسنِ ذاتی،
قبائے گل میں گُل بوٹا کہاں ہے؟ (36)
"گلوری" کا اردو ترجمہ کیجیے تو بات بنتی نہیں۔ " اجلالِ صبح" وغیرہ کہہ سکتے ہیں لیکن ذوق سلیم حرف گیری کرتا ہے۔ اس لیے میں مارنینگ گلوری کو " بہار صبح" کے نام سے پکارتا ہوں:
ص 203
یہ وقت ہے شگفتن گلہائے ناز کا (37)
"بہار صبح" کی بیلیں برآمدے کی چھت تک پہنچا کر پھر اندر کی طرف پھیلادی گئی تھیں۔ چند دنوں بعد نظر اٹھائی تو ساری چھت پر پھولوں سے لدی ہوئی شاخیں پھیل گئی تھیں، لیکن لوگ پھولوں کی سیج بچھاتے ہیں اور اپنی کروٹوں سے اسے پامال کر تے رہتے ہیں۔ ہمارے حصّے میں کانٹوں کا فرش آیا تو ہم نے اپنی پھولوں کی سیج بستر سے اٹھاکر چھت پر اُلٹ دی۔ تلوؤں کے کانٹے چنتے رہتے ہیں مگر ن گاہ ہمیشہ اوپر کی طرف رہتی ہے
گزرچکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی! (38)
سامنے دو تختوں میں زینیا (Zinnia) کے پھول رنگ برنگ کے صافے باندھے نمودار ہوگئے۔ زینیا کے پھول کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ یہ بڑے زینیا کے پھول تھے۔ ان کے صافوں کی لپٹ اتنی مرتّب اور مدوّر واقع ہوئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا،، کسی مشّاق دستار بند نے قالب پر چڑھا کر پیچوں کی ایک سلوٹ نکال دی ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی گئی صافوں کی ضخامت بھی بڑھتی گئی اور پھر تو ایسا معلوم ہونے لگا، جیسے پہر داروں کی صفیں رنگ برنگ کی پگڑیاں باندھے کھڑی ہیں اور زندانیانِ قلعہ کی طرح اس باغِ نورستہ کی بھی پاسبانی ہورہی ہے۔
(336) کہ بلبلاں ہمہ مستند و باغباں تنہا (39)
ان تختوں کے درمیان گُلِ خطمی یعنی ہالی ہاک (Holly Hock) کا حلقہ تھا یہ رنگ برنگ کے وائن گلاس٭ }قدیم ایرانی میں ظروف میں "پیمانہ" اسی قسم کا ظرف تھا، جس طرح کا آج کل " وائن گلاس" ہوتا ہے، لیکن اگر پیمانہ کہیے تو کسی کی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ناچار " وائن گلاس" کہنا پڑتا ہے۔{ ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے۔ ہر شاخ اتنے گلاس سنبھالے ہوئی تھی کہ دل اندیشہ ناک رہتا، کہیں ایسا نہ ہو، ہوا کے جھونکوں کی ٹھوکر لگے اور گلاس گر کر چُور چُور ہوجائیں، دانش مشہدی نے غالباً انہی پھولوں کی ایک شاخ دیکھ کر کہا تھا: (40)
(337) دیدہ ام شاخِ گلے برخویش می پیچم کہ کاش
می تو انستم بہ یک دست ایں قدر ساغر گرفت
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 89، ریختہ 117

(11)

قلعۂ احمد نگر
12 اکتوبر 1942ء
صدیق مکرم

آج غالباً صبح عید ہے۔ عید کی تبریک آپ تک پہنچا نہیں سکتا، البتہ آپ کو مخاطب تصور کر کے صفحۂ کاغذ پر نقش کر سکتا ہوں :

اے غائب از نظر کہ شدی ہمنشین دل
می گویمت دعا و ثنامی فرستمت
در راہِ دوست مرحلۂ قُرب و بُعد نیست
می بنیمت عیان و دُعا می فرستمت

اپنی حالت کیا لکھوں :

خمیازہ سنج تہمت عیشِ رمیدہ ایم
مے آں قدر نہ بود کہ رنج خمار بُرد

معلوم نہیں، ایک خاص طرح کے ذہنی واردہ کی حالت کا آپ کو تجربہ ہوا ہے یا نہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی بات برسوں تک حافظہ میں تازہ نہیںہوتی، گویاکسی کونے میں سو رہی ہے۔ پھر کسی وقت اچانک اس طرح جاگ اٹھے گی، جیسے اسی وقت دماغ نے کواڑ کھول کر اندر لے لیا ہو۔ اشعار و مطالب کی یادداشت میں اس طرح کی واردات اکثر پیش آتی رہتی ہیں۔ تیس چالیس برس بیشتر کے مطالعہ کو نقوش کبھی اچانک اس طرح ابھر آئیں گے کہ معلوم ہو گا، ابھی ابھی کتاب دیکھ اُٹھا ہوں۔


صفحہ کتاب90، ریختہ 118

مضمون کے ساتھ کتاب یاد آ جاتی ہے، کتاب کے ساتھ جلد، جلد کے ساتھ صفحہ، اور صفحہ کے ساتھ یہ تعین کہ مضمون ابتدائی سطروں میں تھا، یا درمیانی سطروں میں، یا آخری سطروں میں؛ نیز صفحہ کا رُخ کہ دہنی طرف کا تھا، یا بائیں طرف کا۔ ابھی تھوڑی دیر ہوئی، حسب معمول سو کر اٹھا تو بغیر کسی ظاہری مُناسبت اور تحریک کے یہ شعر خود بخود زبان پر طاری تھا :

کم لذتم و قتمیم افزوں ز شمارست
گویی ثمر پیشتر از باغِ وجودم! (2)

ساتھ ہی یاد آ گیا کہ شعر حکی صدر اے شیرازی کا ہے جو اواخرِ عہد اکبری میں ہندوستان آیا اور شاہ جہان کے عہد تک زندہ رہا اور آفتاب عالمتاب (3) میں نظر سے گذرا تھا۔ غالباً بائیں طرف کے صفحہ میں اور صفحہ کی ابتدائی سطروں میں، آفتاب عالمتاب دیکھے ہوئے کم سے کم تیس برس ہو گئے ہوں گے؟ پھر اتفاق نہیں ہوا کہ اُسے کھولا ہو۔

غور فرمائیے، کیا عمدہ مثال دی ہے! آپ نے اکثر بے فصل کے میوے کھائے ہوں گے، مثلاً جاڑوں میں آم۔ چونکہ بے فصل کی چیز ہوتی ہے، نایاب اور تحفہ سمجھی جاتی ہے؛ لوگ بڑی بڑی قیمتیں دے کر خریدتے ہیں، اور دوستوں کو بطور تحفہ کے بھیجتے ہیں۔ لیکن جو علت اس کی تحفگی اور گرانی کی ہوئی، وہی بے لذتی کی بھی ہو گئی۔ کھائیے تو مزہ نہیں ملتا۔ اور مزہ ملے تو کیسے ملے! جو موسم ابھی نہیں آیا، اُس کا میوہ ناوقت پیدا ہو گیا۔ یہ زمین کی غلط اندیشی تھی کہ وقت کی پابندی بھول گئی، اور اس غلط اندیشی کی پاداش ضروری ہے کہ میوہ کے حصے میں آئے۔ تاہم چونکہ چیز کمیاب ہوتی ہے، اس لیے بیمزہ ہونے پر بھی بیقدر نہیں ہو جاتی۔ کھانے والوں کو مزہ نہیں ملتا؛ پھر بھی زیادہ سے زیادہ قیمت دے کر خریدیں گے اور کہیں گے، یہ جنسِ نایاب جتنی بھی گراں ہو، ارزاں ہے!


صفحہ کتاب 91، ریختہ 119

غور کیجیے، تو انسان کا افکار و اعمال کی دنیا کا بھی یہی حال ہے۔ یہاں صرف موسم کے درخت ہی نہیں اُگتے، موسم کے دماغ بھی اُگا کرتے ہیں۔ اور پھر جس طرح یہاں کا ہر فضائی موسم اپنے مزاج کی ایک خاص نوعیت رکھتا ہے، اور اسی کے مطابق اس کی تمام پیداوار ظہور میں آتی رہتی ہے۔ اسی طرح وقت کا ہر دماغی موسم بھی اپنا ایک خاص معنوی مزاج رکھتا ہے اور ضروری ہے کہ اسی کے مطابق طبیعتیں اور ذہنیتیں ظہور میں آئیں۔ لیکن چونکہ یہاں فطرت کی یکسانیوں اور ہم آہنگیوں کی طرح اس کی گاہ گاہ کی ناہمواریاں بھی ہوئیں اور یہاں کا کوئی قانون اپنے فلتات اور شواذ سے خالی نہیں، اس لیے کبھی کبھی ایسا بھی ہونے لگتا ہے کہ ناوقت کے پھلوں کی طرح ناوقت کی طبیعتیں ظہور میں آ جاتی ہیں۔ اسے کارخانۂ نشو و نما کے کاروبار کا نقص کہیے، یا زمانہ کی غلط اندیشیِ وقت (Anachronism)، لیکن بہر حال ایسا ہوتا ضرور ہے۔ ایسی ناوقت کی طبیعتیں جب کبھی ظہور میں آئیں گی، تو ناوقت کے پھلوں کی طرح موسم کے لیے اجنبی ہوں گی۔ نہ تو وہ وقت کا ساتھ دے سکیں گی، نہ وقت ان کے ساتھ میل کھا سکے گا۔ تاہم چونکہ اُن کی نمود میں ایک طرح کی غرابت ہوتی ہے، اس لیے ناوقت کی چیز ہونے پر بھی بے قدر نہیں ہو جاتیں۔ لوگوں کو مزہ ملے یا نہ لے، لیکن ان کی گراں قیمتی کا اعتراف ضرور کریں گے۔ صد راے شیرازی کی دقتِ تخیل نے اسی صورتِ حال کا سراغ لگایا، اور دو مصرعوں میں ایک بڑی کہانی سنا دی۔

یہ شعر دُہراتے ہوئے مجھے خیال ہوا، میرا اور زمانہ کا باہمی معاملہ بھی شاید کچھ ایسی ہی نوعیت کا ہوا۔ طبیعت کی بے میل افتاد فکر و عمل کے کسی گوشے میں بھی وقت اور موسم کے پیچھے چل نہ سکی۔ اسے وجود کا نقص کہیے۔ لیکن یہ ایک ایسا نقص تھا، جو اول روز سے طبیعت اپنے ساتھ لائی تھی، اور اس لیے وقت کی کوئی خارجی تاثیر اسے بدل نہیں سکتی تھی۔ زمانہ جو قدرتی طور پر موسمی چیزوں کا دلدادہ ہوتا ہے، اس وقت کے پھل میں کیا لذت


صفحہ کتاب 92، ریختہ 120

پا سکتا تھا! لوگ کھاتے ہیں، تو مزہ نہیں ملتا۔ تاہم اس بیمزگی پر بھی اپنی قیمت ہمیشہ گراں ہی رہی۔ لوگ جانتے ہیں کہ مزہ ملے نہ ملے، مگر یہ جنس ارزاں نہیں ہو سکتی!

متاعِ من کہ نصیبش مباد ارزانی 4

بازار میں ہمیشہ وہی جنس رکھی جاتی ہے، جس کی مانگ ہوتی ہے۔ اور چونکہ مانگ ہوتی ہے، اس لیے ہر ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے اور ہر آنکھ اسے قبول کرتی ہے، مگر میرا معاملہ اس سے بالکل اُلٹا رہا۔ جس جنس کی بھی عام مانگ ہوئی، میری دکان میں جگہ نہ پا سکی۔ لوگ زمانہ کے روز بازار میں ایسی چیزیں ڈھونڈھ کر لائیں گے، جن کا رواج عام ہو؛ میں نےہمیشہ ایسی جنس ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر جمع کی جس کا کہیں رواج نہ ہو۔ اوروں کے لیے پسند و انتخاب کی جو علت ہوئی، وہی میرے لیے ترک و اعراض کی علت بن گئی۔ انہوں نے دکانوں میں ایسا سامان سجایا جس کے لیے سب کے ہاتھ بڑھیں۔ میں نے کوئی چیز ایسی رکھی ہی نہیں جس کے لیے سب کے ہاتھ بڑھ سکیں :

قماشِ دست ردِ شہر و دِہ زمن مطلب
متاعِ من ہمہ دریائی ست یا کانی 5

لوگ بازار میں دکان لگاتے ہیں تو ایسی جگہ ڈھونڈھ کر لگاتے ہیں جہاں خریداروں کی بھیڑ لگتی ہو۔ میں نے جس دن اپنی دکان لگائی، تو ایسی جگہ ڈھونڈھ کر لگائی جہاں کم سے کم گاہکوں کا گزر ہو سکے :

در کُوے ما شکستہ دلی می خرند و بس
بازارِ خود فروشی ازاں سُوے دیگرست 6

مذہب میں، ادب میں، سیاست میں، فکر و نظر کی عام راہوں میں جس طرف بھی نکلنا پڑا، اکیلا ہی نکلنا پڑا؛ کسی راہ میں بھی وقت کے قافلوں کا ساتھ نہ دے سکا۔


صفحہ کتاب 93، ریختہ 121

بارفیقانِ ز خود رفتہ سفر دست نداد
سیرِ صحرائے جنوں حیف کہ تنہا کردیم! 7

جس راہ میں بھی قدم اٹھایا، وقت کی منزلوں سے اتنا دُور ہوتا گیا کہ جب مُڑ کے دیکھا، تو گردِ راہ کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا؛ اور یہ گرد بھی اپنی ہی تیز رفتاری کی اُڑائی ہوئی تھی؛

آں نیست کہ من ہم نفساں را بگزارم
باآبلہ پا یاں چہ کنم، قافلہ تیز ست! 8

اس تیز رفتاری سے تلووں میں چھالے پڑ گئے۔ لیکن عجب نہیں، راہ کےکچھ خس و خاشاک بھی صاف ہو گئے ہوں:

خارہا از اثرِ گرمی رفتارم سوخت
منتے بر قدم را ہردان ست مرا 9

اب اس وقت رشتہء فکر کی گرہ کھل گئی ہے، تو یہ توقع نہ رکھیے کہ اسے جلد لپیٹ سکوں گا :

ایں رشتہ بہ انگشت نہ پیچی کہ درازست 10

زندگی میں بہت سے حالات ایسے پیش آئے، جو عام حالات میں کم پیش آتے ہیں؛ لیکن معاملہ کا ایک پہلو ایسا ہے، جو ہمیشہ میرے لیے ایک معمہ رہا اور شاید دوسروں کے لیے بھی رہے۔ انسان اپنی ساری باتوں میں حالات کی مخلوق اور گرد و پش کے مؤثرات کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ مؤثرات اکثر صورتوں میں آشکارا ہوتے ہیں اور سطح پر سے دیکھ لیے جا سکتے ہیں۔ بعض صورتوں میں مخفی ہوتے ہیں اور تہ میں اتر کر انہیں ڈھونڈھنا پڑتا ہے، تاہم سُراغ ہر حال میں مل جاتا ہے؛ نسل، خاندان، صحبت، تعلیم و تربیت، ان مؤثرات کے عنصری سر چشمے ہیں :


صفحہ کتاب 94، ریختہ 122

عن المرءِ لا تسئل، وَسل عن قرینہ

لیکن اس اعتبار سے اپنی زندگی کے ابتدائی حالات پر نظر ڈالتا ہوں، تو بڑی حیرانی میں پڑ جاتا ہوں۔ فکر و طبیعت کی کتنی ہی بنیادی تبدیلیاں ہیں، جن کا کوئی خارجی سرچشمہ دکھائی نہیں دیتا، اور جو گرد و پیش کے تمام مؤثرات سے کسی طرح بھی جوڑے نہیں جا سکتے۔ کتنی ہی باتیں ہیں جو حالات و مؤثرات کے خلاف ظہور میں آئیں۔ کتنی ہی ہیں کہ ان کا ظہور سر تا سر متضاد شکلوں میں ہوا دونوں صورتوں میں معاملہ ایک عجیب افسانہ سے کم نہیں :

فریادِ حافظ ایں ہمہ آخر بہ ہرزہ نیست
ہم قصۂ عجیب و حدیثے غریب ہست 12

جہاں تک طبعیت کی سیرت اور عادات و خصائل کا تعلق ہے، میں اپنی خاندانی اور نسلی وراثت سے بیخبر نہیں ہوں۔ ہر انسان کی اخلاقی اور معاشرتی صورت کا قالب نسل و خاندان کی مٹی سے بنتا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ میری عادات و خصائل کی مورتی بھی اسی مٹی سے بنی۔ ہر خاندان اپنی روایتی زندگی کی ایک انفرادیت پیدا کر لیتا ہے اور وہ نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔ میں صاف محسوس کرتا ہوں کہ اس روزیتی زندگی کے اثرات میرے خمیر میں رَچ گئے ہیں اور میں اُن کی پکڑ سے باہر نہیں جا سکتا۔ میری عادات و خصائل، چال ڈھال، طور طریقہ، امیال و اذواق – سب کے اندر خاندان کا ہاتھ صاف صاف دکھائی دے رہا ہے۔ یہ خاندانی زندگی کی روایتیں مجھے میرے ددھیال اور ننھیال، دونوں سلسلوں سے ملیں؛ اور دونوں پر صدیوں کی قدامت اور تسلسل کی مہریں لگی ہوئی تھیں؛ وہ بہرحال میرے حصے میں آنی تھیں، ان کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں میری خواہش اور پسند کو کوئی دخل نہ تھا۔ لیکن یہاں سوال عادات و خصائل کا نہیں ہے، افکار و عقائد کا ہے؛ اور جب اس اعتبار سے


صفحہ کتاب 95، ریختہ 123

اپنی حالت کا جائزہ لیتا ہوں، تو خاندان، تعلیم، ابتدائی گرد و پیش – کوئی گوشہ بھی میل کھاتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ فکری مؤثرات کے جتنے بھی احوال و ظروف (Environments) ہو سکتے ہیں، اُن میں سے ایک ایک کو اپنے سامنے لاتا ہوں اور اُن میں اپنے آپ کو ڈھونڈھتا ہوں، مگر مجھے اپنا سُراغ کہیں نہیں ملتا!

میں نے ہوش سنبھالتے ہی ایسے بزرگوں کو اپنے سامنے پایا جو عقائد و افکار میں اپنا ایک خاص مسلک رکتھے تھے اور اس میں اس درجہ سخت اور بے لچک تھے کہ بال برابر بھی اِدھر اُدھر ہونا کفر و زندقہ تصور کرتے تھے۔ میں نے بچپن سے اپنے خاندان کی جو روایتیں سنیں، وہ بھی سر تا سر اسی رنگ میں ڈوبی ہوئی تھیں، اور میرا دماغی ورژہ اس تصلب اور جمود سے بوجھل تھا۔ میری تعلیم ایسے گرد و پیش میں ہوئی، جو چاروں طرف سے قدامت پرستی اور تقلید کی چار دیواری میں گھرا ہوا تھا اور باہر کی مخالف ہواؤں کا وہاں تک گذر ہی نہ تھا۔ والد مرحوم نے پہلے اچھی طرح ٹھونک بجا کے دیکھ لیا تھا کہ ان کے معیار عقائد و فکر پر پورے پورے اتر سکتے ہیں۔ اور یہ معیار اس درجہ تنگ اور سختے تھا کہ ان کے معاصروں میں سے خال خال اشخاص ہی کی وہاں تک رسائی ہو سکتی تھی۔ پس ظاہر ہے کہ اس دروازہ سے بھی کسی نئی ہوا کے گذرنے کا امکان نہ تھا۔ جہاں تک زمانے کے فکری انقلابات کا تعلق ہے، میرے خاندان کی دنیا وقت کی راہوں سے اور درجہ دُور واقع ہوئی تھی کہ ان راہوں کی کوئی صدا وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی، اور اس اعتبار سے گویا سو برس پہلے کے ہندوستان میں میں زندگی بسر کر رہا تھا۔ ابتدائی صحبتوں کو انسانی دماغ کا سانچا ڈھالنے میں بہت دھل ہوتا ہے۔ لیکن میری سوسائٹی اوائل عمر میں گھر کی چار دیواری کے اندر محدود رہی، اور گھر کے


صفحہ کتاب 96، ریختہ 124

عزیزوں اور بزرگوں کے علاوہ اگر کوئی دوسرا گروہ ملا بھی تو خاندان کے معتقدوں اور مریدوں کا گروہ تھا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں چومتے اور ہاتھ باندھے کھڑے رہتے؛ یا رجعت قہقری کے کرے پیچھے ہٹتے، اور دُور مؤدب ہو کر بیٹھ جاتے۔ یہ فضا صورتِ حال میں تبدیلی پیدا کرنے کی جگہ اور زیادہ اُسے گہری کرتی رہتی۔ والد مرحوم کے مُریدوں میں ایک بڑی تعداد علماء اور انگریزی تعلیم یافتہ اشخاص کی بھی تھی۔ دیوان خانہ میں اکثر ان کا مجمع رہتا، مگر یہ پورا مجمع بھی سر تا سر اسی خاندانی رنگ میں رنگا ہوا تھا؛ کسی دوسرے رنگ کی وہاں جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔

علاوہ بریں مرید اور معتقد جب کبھی مجھ سے ملتے تھے، تو مجھے مرشد زادہ سمجھ کر منتظر رہتے تھے کہ مجھ سے کچھ سنیں؛ وہ مجھے سنانے کی گستاخانہ جرأت کب کر سکتے تھے!

انگریزی تعلیم کی ضرورت کا تو یہاں کسی کو وہم و گمان بھی نہیں گزر سکتا تھا۔ لیکن کم از کم یہ تو ہو سکتا تھا کہ قدیم تعلیم کے مدرسوں میں سے کسی مدرسہ سے واسطہ پڑتا۔ مدرسہ کی تعلیمی زندگی گھر کی چار دیواری کے گوشۂ تنگ سے زیادہ وسعت رکھتی ہے اور اس لیے طبیعت کو کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے، لیکن والد مرحوم یہ بھی گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ کلکتہ کے سرکاری مدرسہ عالیہ کی تعلیم ان کی نظروں میں کوئی وقعت نہیں رکھتی تھی اور فی الحقیقت قابلِ وقعت تھی بھی نہیں؛ اور کلکتہ سے باہر بھیجنا انہیں گوارا نہ تھا۔ انہوں نے یہی طریقہ اختیار کیا کہ خود تعلیم دیں۔ یا بعض خاص اساتذہ کے قیام کا انتظام کر کے ان سے تعلیم دلائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں تک تعلیمی زمانہ کا تعلق ہے، گھر کی چار دیواری سے باہر قدم نکالنے کا موقع ملا ہی نہیں۔ بلا شبہ اس کے بعد قدم کُھلے اور ہندوستان سے باہر تک پہنچے۔ لیکن یہ بعد کے واقعات ہیں، جب کہ طالب علمی کا زمانہ بسر ہو چکا تھا اور میں ے اپنی نئی راہیں ڈھونڈھ نکالی


صفحہ کتاب 97، ریختہ 125

تھیں۔میری عمر کا وہ زمانہ جسے باقاعدہ طالب علمی کا زمانہ کہا جا سکتا ہے، چودہ پندرہ برس کی عمر سے آگے نہیں بڑھا۔

پھر خود اس تعلیم کا حال کیا تھا جس کی تحصیل میں تمام ابتدائی زمانہ بسر ہوا! اس کا جواب اگر اختصار کے ساتھ بھی دیا جائے، تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہو جائیں! اور آپ کے لیے تفصیل ضروری نیہں۔ ایک ایسا فرسودہ نظام تعلیم کے اعتبار سے ناقص، مضامین کے اعتبار سے ناقص، انتخابِ کتب کے اعتبار سے ناقص، درس و املا کے اسلوب کے اعتبار سے ناقص۔ اگر فنون آلیہ کو الگ کر دیا جائے، تو درسِ نظامیہ میں بنیادی موضوع دو ہی رہ جاتے ہیں؛ علومِ دینیہ اور معقولات۔ علوم دینیہ کی تعلیم جن کتابوں کے درس میں منحصر رہ گئی ہے، اس سے اُن کتابوں کے مطالب و عبارت کا علم حاصل ہو جاتا ہو، لیکن خود ان علوم میں کوئی مجتہدانہ بصیرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ معقولات سے اگر منطق الگ کر دی جائے، تو پھر جو کچھ باقی رہ جاتا ہے، اس کی علمی قدر و قیمت اس سے زیادہ کچھ نہیں 13 کہ تاریخ فلسفۂ قدیم کے ایک خاص عہد کی ذہنی کاوشوں کی یادگار ہے، حال آنکہ علم کی دنیا اس عہد سے صدیوں آگے بڑھ چکی۔ فنونِ ریاضیہ جس قدر پڑھائے جاتے ہیں، وہ موجودہ عہد کی ریاضیات کے مقابلہ میں بمنزلہ صفر کے ہیں، اور وہ بھی عام طور پر نہیں پڑھائے جاتے؛ میں نے اپنے شوق سے پڑھا تھا۔ جامعِ ازہر قاہرہ کے نصاب تعلیم کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ ہندوستان میں متاخرین کی کتبِ معقولات کو فروغ ہوا۔ وہاں اتنی وسعت بھی پیدا نہ ہو سکی :

اے طبلِ بلدن بانگ، درباطن ہیچ! 14

سید جمال الدین اسد آبادی 15 نےجب مصر میں کتبِ حکمت کا درس دینا شروع کیا تھا تو بڑی جستجو سے چند کتابیں وہاں مل سکی تھیں، اور علمائے ازہر ان کتابوں کے


صفحہ کتاب 98، ریختہ 126

ناموں سے بھی آشنا نہ تھے۔ بلا شبہ اب ازہرؔ کا نظامِ تعلیم بہت کچھ اصلاح پا چکا ہے؛ لیکن جس زمانہ کا میں ذکر کر رہا ہوں، اس وقت تک اصلاح کو کئی سعی کامیاب نہیں ہوئی تھی، اور شیخ محمد عبدہ 16 مرحوم نے مایوس ہو کر ایک نئی سرکاری درسگاہ دارالعلوم کی بنیاد ڈالی تھی۔

فرض کیجیے، میرے قدم اسی منزل میں رک گئے ہوتے، اور علم و نظر کی جو راہیں آگے چل کر ڈھونڈھی گئیں، ان کی لگن پیدا نہ ہوئی ہوتی، تو میرا کیا حال ہوتا؛ ظاہر ہے کہ تعلیم کا ابتدائی سرمایہ مجھے ایک جامد اور ناآشناے حقیقت دماغ سے زیادہ اور کچھ نہیں دے سکتا تھا۔

تعلیم کی جو رفتار عام طور پر رہا کرتی ہے، میرا معاملہ اس سے مختلف رہا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1900 میں جب میری عمر بارہ تیرہ برس سے زیادہ نہ تھی، میں فارسی کی تعلیم سے فارغ اور عربی کی مبادیات سے گزر چکا تھا اور شرح ملا اور قطبی وغیرہ کے دور میں تھا۔ میرے ساتھیوں میں میرے مرحوم بھائی 17 مجھ سے عمر میں دو برس بڑے تے، باقی اور جتنے تھے، ان کی عمریں بیس اکیس برس سے کم نہ ہوں گی۔ والد مرحوم کا طریقِ تعلیم یہ تھا کہ ہر علم میں سے پہلے کوئی ایک مختصر متن حفظ کر لینا ضرورتی سمجھتے تھے۔ فرماتے تھے کہ شاہ ولی اللہ 18 (رحمۃ اللہ علیہ) کے خاندان کا طریقِ تعلیم ایسا ہی تھا۔ چنانچہ اُس زمانے میں، میں نے فقہ اکبر، تہذیب، خلاصۂ کیدانی و غیر ہا بر زبان حفظ کر لی تھیں، اور اپنے بروقت استحضار اور اقتباسات سے نہ صرف طالب علموں کو بلکہ مولویوں کو بھی حیران کر دیا کرتا تھا، وہ مجھے گیارہ بارہ برس کا لڑکا سمجھ کر بہت اُڑتے، تو میزان و منشعبؔ کے سوالات کرتے۔ میں انہیں منطق کے قضیوں اور اصول کی تعریفوں میں لے جا کر ہکا بکا کر دیتا۔ اس طریقہ کے فائدہ میں کلام نہیں۔ آج تک اُن متون کا ایک ایک لفظ حافظہ میں محفوظ ہے۔ خلاصۂ کیدانی کو لوح کا شعر تک بھولا نہیں؛ کسی


صفحہ کتاب 99، ریختہ 127

افغانی "ملانے" کے دانی "اور کیدانی" کی تُک بندی کی تھی؛

تو طریق صلوٰۃ کے دانی
گرنہ خوانی خلاصہ کیدانی

کتابوں کے درسی تحصیل کی مدت بھی عام رفتار سے بہت کم رہا کرتی تھی۔ اساتذہ میری تیز رفتاریوں سے پہلے جھنجھلاتے، پھر پریشان ہوتے، پھر مہربان ہو کر جرأت افزائی کرنے لگتے۔ جب کسی کتاب کا نیا دور شروع ہوتا، تو باہر کے چند طلبا بھی شریک ہو جاتے۔ لیکن ابھی چند دن بھی گذرنے نہ پاتے کہ میرا سبق دوسروں سے الگ ہو جاتا، کیونکہ وہ میری رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے تھے۔ میری معقولات کے ایک اُستاد لوگوں سے کہا کرتے تھے : "چھوٹے حضرت مجھے آج کل صدرا سنایا کرتے ہیں اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مجھ سے درس لیتے ہیں۔"

1903ء میں کہ عمر کا پندرھواں سال شروع ہوا تھا، میں درس نظامیہ کی تعلیم سے فارغ ہو چکا تھا اور والد مرحمو کی ایما 19 سے چند مزید کتابیں بھی نکال لی تھیں، چونکہ تعلیم کے باب میں قدیم خیال یہ تھا کہ جب تک پڑھا ہوا پڑھایا نہ جائے، استعداد پختہ نہیں ہوتی، اس لیے فاتحہ فراغ کی مجلس ہی میں طلبا کا ایک حلقہ میرے سپرد کر دیا گیا؛ اور ان کے مصارفِ قیام کے والد مرحوم کفیل ہو گئے۔ میں نے تکمیلِ فن کے لیے طب شروع کر دی تھی۔ خود قانونؔ پڑھتا تھا اور طلبا کو مطول، میر زاہدؔ اور ہدایہؔ وغیرہ کا درس دیتا تھا۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ابھی پندرہ برس سے زیادہ عمر نہیں ہوئی تھی کہ طبیعت کا سکون ہلنا شروع ہو گیا تھا، اور شک و شبہہ کے کانٹے دل میں چھبنے لگے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جو آوازیں چاروں طرف سنائی دے رہی ہیں، ان کے علاوہ بھی کچھ اور ہونا چاہیے؛ اور علم و حقیقت کی دنیا صرف اتنی ہی نہیں ہے، جتنی سامنے آ کھڑی ہوئی ہے۔


صفحہ کتاب 100، ریختہ 127

یہ چُبھن عمر کے ساتھ ساتھ برابر بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ چند برسوں کے اندر عقائد و افکار کی وہ تمام بنیادیں؛ جو خاندان، تعلیم اور گرد و پیش نے چُنی تھیں، بہ یک دفعہ متزلزل ہو گئیں؛ اور پھر وقت آیا کہ اس ہلتی ہوئی دیوار کو خود اپنے ہاتھوں ڈھا کر اس کی جگہ نئی دیواریں چننی پڑیں :

ہیچ گہ ذوقِ طلب از جستجو بازم نہ داشت
دا نہ می چیدم در آں روزے کہ خرمن داشتم 20

انسانی کی دماغی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی روک، اس کے تقلیدی عقائد ہیں۔ اسے کوئی طاقت اس طرح جکڑ بند نہیں کر دے سکتی، جس طرح تقلیدی عقائد کی زنجیریں کر دیا کرتی ہیں۔ وہ ان زنجیروں کو توڑ نہیں سکتا، اس لیے کہ توڑنا چاہتا ہی نہیں۔ وہ انہیں زیور کی طرح محبوب رکھتا ہے۔ ہر عقیدہ، ہر عمل، ہر نقطۂ نگاہ جو اسے خاندانی روایات اور ابتدائی تعلیم و صحبت کے ہاتھوں میں مل گیا ہے۔ اُس کے لیے ایک مقدس ورثہ ہے، وہ اس ورثہ کی حفاظت کرے گا، مگر اُسے چھونے کی جرأت نہیں کرے گا۔ بسا اوقات موروثی عقائد کی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ تعلیم اور گرد و پیش کا اثر بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا۔ تعلیم دماغ پر ایک نیا رنگ چڑھا دے گی، لیکن اُس کی بناوت کے اندر نہیں اُترے گی۔ بناوٹ کے اندر ہمیشہ نسل، خاندان اور صدیوں کی متوارث روایات ہی کا ہاتھ کام کرتا رہے گا۔

میری تعلیم خاندان کے موروثی عقائد کے خلاف نہ تھی کہ اس راہ سے کوئی کشمکش پیدا ہوتی؛ وہ سرتا سر اُسی رنگ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ جو مؤثرات نسل اور خاندان نے مہیا کر دیئے تھے، تعلیم نے انہیں اور زیادہ تیز کرنا چاہا اور گرد و پیش نے انہیں اور زیادہ سہارے دیے۔ تاہم یہ کیا بات ہے کہ شک کا سب سے پہلا کانٹا جو خود بخود دل میں چُبھا، وہ اسی تقلید کے خلاف تھا؛ میں نہیں جانتا تھا کہ کیوں، مگر بارہا یہی سوال سامنے


صفحہ کتاب 101، ریختہ 129

اُبھرنے لگا تھا کہ اعتقاد کی بنیاد علم و نظر پر ہونی چاہیے، تقلید اور توارث پر کیوں ہو! یہ گویا دیوار کی بنیادی اینٹوں کا ہل جانا تھا، کیونکہ موروثی اور روایتی عقائد کی پوری دیوار صرف تقلید ہی کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے؛ جب بنیاد ہل گئی، تو پھر دیوار کب کھڑی رہ سکتی تھی! کچھ دنوں تک طبیعت کی درماندگیاں سہارے دیتی رہیں، لیکن بہت جلد معلوم ہو گیا کہ اب کوئی سہارا بھی اس گرتی ہوئی دیوار کو سنبھال نہیں سکتا :

ازاں کہ پیرویِ خلق گمرہی آرد
نمی ردیم برا ہے کہ کارواں رفتست 21

شک کی یہی چُبھن تھی جو تمام آنے والے یقینوں کے لیے دلیل راہ بنی۔ بلا شبہہ اس نے پچھلے سرمایوں سے تہی دست کر دیا تھا، مگر نئے سرمایوں کے حصول کی لگن بھی لگا دی تھی۔ اس بالآخر اسی کی رہنمائی تھی جس نے یقین اور طمانیت کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیا۔ گویا جس علت نے بیمار کیا تھا، وہ بالآخر داروے شفا بھی ثابت ہوئی:

دردہا دادی و درمانی ہنوز 22

ہر چند سراغ لگانا چاہتا ہوں کہ یہ کانٹا کہاں سے اُڑا تھا کہ تیر کی طرح دل میں ترازو ہو گیا، مگر کوئی پتا نہیں لگتا، کوئی تعلیل کام نہیں دیتی :

چہ مستی است نہ دانم کہ رُوبما آورد
کِہ بود ساقی و ایں بادہ از کجا آورد 23

بلا شبہہ آگے چل کر کئی حالات ایسے پیش آئے، جنہوں نے اس کانٹے کی چُبھن اور زیادہ گہری کر دی، لیکن اُس وقت تو کسی خارجی محرک کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی تھی۔ اور ہوش و آگہی کی عمر ہی نہ تھی کہ باہر کے مؤثرات کے لیے دل و دماغ کے دروازے کُھل سکتے۔ یہ تو وہ حال ہوا کہ :


صفحہ کتاب 102، ریختہ 130

اتانی ھواھا، قبل ان اعرف الھویٰ
قصادف قلبا فارغاً فتمکنا 24

یہی زمانہ ہے جب پیرزادگی اور نسلی بزرگی کی زندگی بھی مجھے خود بخود چُبھنے لگی، اور معتقدوں اور مریدوں کی پرستاریوں سے طبیعت کو ایک گونہ توحش ہونے لگا۔ میں اس کی کوئی خاص وجہ اس وقت محسوس نہیں کرتا تھا، مگر طبیعت کا ایک قدرتی تقاضہ تھا جو ان باتوں کے خلاف لے جا رہا تھا :

بُوے آن دُور کہ اِمسال بہ ہمسایہ رسید
ز آتشے بود کہ درخانۂ من پار گرفت 25

سوال یہ ہے کہ تمام حالات اور مؤثرات کے خلاف طبیعت کی یہ افتاد کیونکر بنی اور کہاں سے آئی؟ خاندان عقائد و افکار کا جو سانچا ڈھالنا چاہتا تھا، نہ ڈھال سکا۔ تعلیم جس طرف لے جانا چاہتی تھی، نہ لے جا سکی۔ حلقۂ صحبت و اثرات 26 کا جو تقاضہ تھا، پورا نہ ہوا۔ اس عالمِ اسباب میں ہر حالت کا دامن کسی نہ کسی علت سے بندھا ہوتا ہے۔ آخر اس رشتہ کا بھی تو کوئی سرا ملنا چاہیے! واقعہ یہ ہے کہ نہیں ملتا۔ ممکن ہے یہ میری نظر کی کوتاہی ہو، اور کوئی دوسری دقیقہ سنج نگاہ حالات کا مطالعہ کرے، تو کوئی نہ کوئی محرک ڈھونڈھ نکالے؛ مگر مجھے تو تک کر دوسری ہی طرف دیکھنا پڑا:

کارِزلفِ تست مشک افشانی، اما عاشقاں
مصلحت را تہمتے بر آہوے چیں بستہ اند 27

جس نامراد ہستی کو چودہ برس کی عمر میں زمانہ کی آغوش سے اس طرح چھین لیا گیا ہو، وہ اگر کچھ عرصہ کےلیے شاہرہ عام سے گم ہو کر آوارۂ دشتِ وحشت نہ ہوتی، تو اور کیا ہوتا! ایک عرصہ تک طرح طرح کی سرگردانیوں میں نشانِ راہ گم رہا؛ نہ مقصد کی خبر مل سکی نہ منزل کی؛


صفحہ کتاب 103، ریختہ 131

سگِ آستانم، اما ہمہ شب قلادہ خایم
کہ سرِ شکار دارم، نہ ہو اے پاسبانی
عجب ست، گرنہ باشد خضرے بہ جُستجویم
کہ فتادہ ام بہ ظلمت چوزلال زندگانی 28

لیکن جس ہاتھ نے زمانہ کی آغوش سے کھینچا تھا، بالآخر اُسی نے دشت نوردیوں کی تمام بیراہ رویوں میں رہنمائی بھی کی اور اگرچہ قدم قدم پر ٹھوکروں سے دو چار ہونا پڑا، اور چپہ چپہ پر رکاوٹوں سے اُلجھنا پڑا، مگر طلب ہمیشہ آگے ہی کی طرف بڑھائے لے گئی اور جستجو نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ درمیانی منزلوں میں رک کر دم لے لے۔ بالآخر دم لیا تو اس وقت لیا، جب منزل مقصود سامنے جلوہ گر تھی، اور اس کی گردِ راہ سے چشمِ تمنائی روشن ہو رہی تھی :

بہ وصلش تا رسم، صد بار برخاک افگند شوقم
کہ نو پروازم و شاخِ بلندے آشیاں دارم 29

چوبیس برس کی عمر میں جب کہ لوگ عشرتِ شباب کی سرمستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں، میں اپنی دشت نوردیاں ختم کے تلووں کے کانٹے چُن رہا تھا۔

در بیاباں گر بہ شوقِ کعبہ خواہی زد قدم
سرزنشہا گر کندخارِ مغیلاں، غم مخور! 30

گویا اس معاملے میں بھی اپنی چال زمانہ سے اُلٹی ہی رہی۔ لوگ زندگی کے جس مرحلے میں کمر باندھتے ہیں، میں کھول رہا تھا :

کام تھے عشق میں بہت، پر میرؔ!
ہم تو فارغ ہوئے شتابی سے 31

اُس وقت سے لے کر آج تک کہ کاروانِ باد رفتارِ عمر منزلِ خمسین سے بھی گزر چکا،


صفحہ کتاب 104، ریختہ 132

فکر و عمل کے بہت سے میدان نمودار ہوئے اور اپنی راہ پیمائیوں کے نقوش جابجا بنانے پڑے۔ وقت یا تو انہیں مٹا دے گا جیسا کہ ہمیشہ مٹاتا رہا ہے، یا محفوظ رکھے گا جیسا کہ ہمیشہ محفوظ رکھتا آیا ہے :

آیینہ نقش بندِ طلسم خیال نیست
تصویر خود بلوحِ دگر می کشیم ما! 32

یہاں زندگی بسر کرنے کے دو ہی طریقے تھے جنہیں ابو طالب کلیمؔ نے دو مصرعوں میں بتلا دیا ہے :

طبعے بہم رساں کہ بسازی بعد لمے
یا ہمتے کہ از سرِ عالم تواں گزشت 33

پہلا طریقہ اختیار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس کی طبیعت ہی نہیں لایا تھا؛ ناچار دوسرا اختیار کرنا پڑا:

کار مشکل بود، ما بر خویش آساں کردہ ایم! 34

جو نامراد یہ دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں، وہ نہ تو راہ کی مشکلوں اور رکاوٹوں سے ناآشنا ہوتے ہیں، نہ اپنی ناتوانیوں اور درماندگیوں سے بیخبر ہوتے ہیں؛ تاہم وہ قدم اٹھا دیتے ہیں، کیونکہ قدم اٹھائے بغیر رہ نہیں سکتے۔ زمانہ اپنی ساری ناموافقتوں اور بے امتیازیوں کے ساتھ بار بار سامنے آتا ہے، اور طبیعت کی خلفتی درمانگیاں قدم قدم پر دامنِ عزم و ہمت سے اُلجھنا چاہتی ہیں، تاہم اُن کا سفر جاری رہتا ہے۔ وہ زمانہ کے پیچھے نہیں چل سکتے تھے، لیکن زمانہ کے اوپر سے گزر جا سکتے تھے، اور بالآخر بے نیازانہ گزر جاتے ہیں :

وقتِ عرفی خوش، کہ نکشودند گر در بر رخش
بر درِ نکشودہ ساکن شد، درِ دیگر نہ زد! 35


صفحہ کتاب 105، ریختہ 133

اب صبحِ عید نے اپنے چہرہ سے صبحِ صادق کا ہلکا نقاب بھی اُلٹ دیا ہے اور بے حجابانہ مسکرا رہی ہے :

اک نگارِ آتشیں رُخ، سر کُھلا 36

میں اب آپ کو اور زیادہ اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش نہیں کروں گا کیونکہ صبح عید کی اس جلوہ نمائی کا آپ کو جواب دینا ہے۔ کئی سال ہوئے، ایک مکتوبِ گرامی میں شبہائے رمضان کی "عنبرین چائے" کا ذکر آیا تھا۔ بے محل نہ ہو گا اگر اس کے جُرعہ ہاے پیہم سے قبلِ صلٰوۃ عید افطار کیجیے کہ عید الفطر میں تعجیل مسنون ہوئی اور عید اضحی 37 میں تاخیر38 :

عیدست و نشاط و طرب و زمزمہ عام ست
مے نوش، گنہ برمن اگر بادہ حرام است!
از روزہ اگر کوفتۂ، بادہ روا گیر
این مسئلہ حل گشت ز ساقی کہ امام است! 39

ابُو الکلام
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 273، ریختہ 301

سازندہ ہا کہ پیش خود جمع کردہ بو، نظیر نداشتند۔" قریب قریب یہی الفاظ ہوں گے۔ حافظہ سے لکھ رہا ہوں اور کتاب دیکھے ہوئے سالہا سال گذر گئے 120۔ زین خان کوکا کا علوم درسیہ میں شغف معلوم ہے۔ پنجاب کی صوبیداری کے زمانے میں بھی اس نے درس و تدریسِ علوم کا مشغلہ بالالتزام جاری رکھا تھا، لیکن اُس کے حالات میں بھی سب لکھتے ہیں، کہ "بکبت و راگ شغفے داشت، دسازہا بکمالِ حسن و خوبی مینواخت 121"۔ اس کا لڑکا مغل خان بھی اس باب میں اپنے بات کا جانشین 122 تھا۔ خان کلان میر محمد جو شمس الدین اتکہ کا بھائی تھا، موسیقی ہند کے علم ومہارت میں ممتاز سمجھا جاتا تھا 123۔ مرزا غازی خان بن جانی بیگ حاکمِ سندھ و قندھار کی نسبت سب لکھتے ہیں کہ نغمہ پردازی، طبنور نوازی اور تمام سازوں کے بجانے میں بے نظیر تھا 124۔ ملا مرشدؔ یزدجردی نے اسی کی مدح میں یہ رباعی کہی تھی 125 :

گر نغمۂ سازت بسکُوں می آید
رمزے ست بگویمت کہ چوں می آید
اس بسکہ بگرد زخمہ ات می گردد
پیچیدہ زطبنور بروں می آید

خانِ زماں میر خلیل 126 نے جو یمین الدولہ آصف خان کا داماد تھا، اس فن مین ایسی مہارت بہم پہنچائی تھی، کہ لوگ اپنے اختلافات اُس کے آگے فیصلہ کے لیے پیش کرتے۔ سرس بائی 127 جو شہزادہ مراد بخش کی محبوبہ تھی، خیالؔ گانے میں اپنے جواب نہیں رکھتی تھی؛ مگر خود شہزادہ کی فن دانی کا مرتبہ اتنا بلند تھا کہ اس کی شاگردی پر ناز کرتی۔ اورنگ زیب نے جب مراد کو قید کیا تو سرس بائی بھی تیار ہو گئی کہ اُس کے ساتھ قید و بند کی سختیاں گوارا کرے۔ چنانچہ مراد کے ساتھ قلعۂ گوالیار میں عرصہ تک محبوس رہی۔ 128

مرزا عیسٰے خاں ترخاں 129 جس نے جانی بیگ کی وفات کے بعد سندھ میں بڑی شورش برپا کی تھی، نخمہ سنجی اور ساز نوازی میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔

اب اس وقت حافظہ کی گرہیں کھلنے لگی ہیں، تو بیشمار واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ شہزادہ خرم کی ماں، مان متی 130 جو راجہ اودے سنگھ کی بیٹی تھی، جب جہانگیر کے محل میں آئی، تو اُس کے


صفحہ کتاب 274، ریختہ 302

گانے کا محل میں شہرہ ہوا۔ جہانگیر چونکہ خود ماہرِ فن تھا، اس لیے اُس نے امتحان لیا ور جب دیکھاکہ امتحان میں پوری اُتری تو بہت خوش ہوا، اور خوش آواز خواصوں کی ایک حلقہ اُس کے سپرد کر دیا کہ اپنی تعلیم و تربیت سے انہیں تیار کرے۔ خود خرم یعنی شاہجہان کے ذوق و مناسبتِ فن کا یہ حال تھا کہ تان سین کا جانشین لال خان 131 اس کا نام لے کر کان پکڑتا تھا۔ دھرؔپد میں شاہجہان کے رسُوخِ ذوق کا مؤرخوں نے خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نظام الملک آصف جاہ 132 کے لڑکے ناصر جنگ شہید 133 کو موسیقی کے شوق نے سنسکرت زبان کی تحصیل کا شوق دلایا، تاکہ کلاسیکل موسیقی کی قدیم کتابوں کا براہِ راست مطالعہ کر سکے۔ اس کے حالات میں صاحب شہادت نامہ لکھتے ہیں کہ زبانِ سنسکرت سے واقف اور موسیقی اور سنگیت میں ماہر تھا۔

اس عہد میں ایک ایک امیر کی فیاضیاں ترقیِ فن کے لیے شاہانہ فیاضیوں سے کم نہیں ہوتی تھیں، شیخ سلیک چشتی 134 کو پوتا اسلام خان 135 جب جہانگیر کے عہد میں بنگال کا صوبیدار ہوا، تو اس کی سرکار میں اسی ہزار روپیہ ماہوار راگ اور رقص کے طائفوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ صاحب مآثر الامرا لکھتے ہیں 136 کہ اُس کے دسترخوان پر ایک ہزار لنگریاں (1) کمال تکلف و اہتمام سے دونوں وقت چُنی جاتی تھیں، مگر خود اس کا یہ حال تھا کہ جوار کی روٹی اور ساٹھی کا خشکہ ساگ کے ساتھ کھاتا اور کسی دوسرے کھانے میں ہاتھ نہ ڈالتا۔ یہ بھی لکھا ہے 137 ہے کہ وہ عمر بھر جامۂ خاصہ کے نیچے گاڑھے کا کرتا پہنتا رہا اور پگڑی کے نیچے بھی گاڑھے کی طاقیہ (2) اوڑھتا۔

اورنگ زیب کی فقیہانہ تقشف سے اگرچہ فنونِ لطیفہ کی گرم بازاری سرد پڑ گئی، مگر یہ جو کچھ ہوا،
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) "لنگری" لکڑی کی روغن کی ہوئی سینی کو کہتے ہیں، جو لکڑی کے طشت کی طرح بہت بڑی ہوتی تھی، اور ایک مسلم گوشفندِ بریاں اس میں رکھا جا سکتا تھا۔
(2) "طاقیہ" ہلکی ٹوپی کو کہتے تھے، جو گھر میں سر پر رکھ لیتے۔ آج کل بھی عرب میں اس ٹوپی کو طاقیہ ہی کہتے ہیں


صفحہ کتاب 275، ریختہ 303

صرف دربارِ شاہی تک محدود تھا۔ پچھلی آب پاشیوں نے ملک کے ہر گوشہ میں جو نہریں رواں کر دی تھیں، وہ اتنی تنک مایہ نہ تھیں کہ شاہی سرپرستی کا رُخ پھرتے ہی خشک ہونا شروع ہو جاتیں۔ بلا شبہہ عالمگیری عہد میں شاہی سرکار کے کارخانے بند ہو گئے تھے، لیکن ملک کے ہزاروں لاکھوں گھروں کے کارخانے کون بند کر سکتا تھا! میں نے اس مکتوب کی ابردا میں فارسی کتاب راگ درپن کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب فقیر اللہ سیف خان 138 نے مرتب کی تھی جو اسی عالمگیری عہد کا ایک امیر اور ناصر علی سر ہندی کا ممدوح تھا۔ شیر خان لودھی صاحبِ مراۃ الخیال بھی اسی عہد میں تھا، جس نے ایرانی موسیقی اور ہندوستانی موسیقی، دونوں میں دستگاہ پیدا کی اور پھر دونوں پر ایک مبسوط کتاب لکھی۔ تذکرہ مراۃؔ الخیال میں بھی ایک فصل موسیقی پر لکھی ہے اور اپنے ذوقِ فن کا ذکر کیا ہے۔ موسیقی پر اس کی کتاب میری نظر سے گذر چکی ہے۔ اس کا ایک خوشخط نسخہ رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال کے کتب خانہ میں موجود ہے۔

اس سلسلہ میں خود اورنگ زیب کی زندگی کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔

برہان پور کے حوالی میں ایک بستی زین آباد کے نام سے بس گئی تھی۔ اسی زین آباد کی رہنے والی ایک مغینہ تھی جو "زین آبادی" کے نام سے مشہور ہوئی اور اس کے نغمہ و حسن کی تیر افگینوں نے اورنگ زیب کو زمانۂ شہزادگی میں زخمی کیا۔ صاحبِ مآثر الامرا نے اس واقعہ کا ذکر کرتے 140 ہوئے کیا خوب شعر لکھا ہے :

عجب گیرندہ دامے بود در عاشق رہائی ہا
نگاہِ آشناے یار پیش از آشنائی ہا 141

اورنگ زیب کے اس معاشقہ کی داستان بڑی ہی دلچسپ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ اولولعزمیوں کی طلب نے اسے لوہے اور پتھر کا بنا دیا تھا، لیکن ایک زمانہ میں گوشت و پوست کا آدمی بھی رہ چکا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ


صفحہ کتاب 276، ریختہ 304

گزر چکی ہے یہ فصلِ بہار ہم پر بھی

ابھی تھوڑی دیر ہوئی، ہم یمین الدولہ کے داماد میر خلیل خان زمان کا تذکرہ کر رہے تھے، اس خان زمان کی بیوی اورنگ زیب کی خالہ ہوتی تھی، ایک دن اورنگ زیب برہان پور کے باغ آہو خانہ میں چہل قدمی کر رہا تھا، اور خان زمان کی بیوی یعنی اس کی خالہ بھی اپنی خواصوں کے ساتھ سیر کے لیے آئی ہوئی تھی۔ خواصوں میں ایک خواص زینؔ آبادی تھی جو نغمہ سنجی میں سحر کار اور شیوۂ دلربائی و رعنائی میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ سیر و تفریح کرتے ہوئے یہ پورا مجمع ایک درخت کے سایے میں سے گزرا، جس کی شاخوں میں آم لٹک رہے تھے۔ جونہی مجمع درخت کے نیچے پہنچا، زین آبادی نے نہ تو شہزادہ کی موجودگی کا کچھ پاس لحاظ کیا، نہ اس کی خالہ کا، بیباکانہ اچھلی، اور ایک شاخِ بلند سے ایک پھل توڑ لیا۔ خان زمان کی بیوی پر یہ شوخی گراں گزری اور اس نے ملامت کی، تو زین آبادی نے ایک غلط انداز نظر شہزادہ پر ڈالی اور پشواز سنبھالتے ہوئے آگے نکل گئی۔ یہ ایک غلط انداز نظر کچھ ایسی قیامت کی تھی کہ اس نے شہزادہ کا کام تمام کر دیا، اور صبر و قرار نے خدا حافظ کہا :

بالا بلند عشوہ گر سروِ نازِ من
کوتاہ کرد قصۂ زہدِ دراز من 143

صاحب مآثر الامرا نے لکھا ہے کہ "بکمالِ ابرام و سماجت زین آبادیؔ را از خالۂ محترمۂ خود گرفت۔ با آں ہمہ زہد خشک و تفقہ بُحت، شیفتہ و دلدادۂ اُدشد۔ قدحِ شراب بدستِ خود پُر کردہ می داد۔ گویند روزے زین آبادیؔ ہم قدحِ بادہ پُر کردہ، بدستِ شہزادہ داد و تکلیفِ شُرب نمود۔" یعنی بُری منت و الحاح کر کے اپنی خالہ سے زینؔ آبادی کو حاصل کیا اور باوجود اُس زہد خشک اور خالص تفقہ کے جس کے لیے اُس عہد میں بھی مشہور ہو چکا تھا، اس کے عشق و شیفتگی میں اس درجہ بے قابو ہو گیا کہ اپنے ہاتھ سے شراب کا پیالہ بھر بھر کر پیش کرتا اور عالمِ نشہ و سرور کی رعنائیاں دیکھتا۔ کہتے ہیں کہ ایک دن زین آبادی نے


صفحہ کتاب 277، ریختہ 305

اپنےہاتھ سے جام لبریز کر کے اورنگ زیب کو دیا اور اصرار کیا کہ لبوں سے لگا لے۔ دیکھیے عرفیؔ کا ایک شعر کیا موقع سے یاد آ گیا ہے، اور کیا چسپاں ہوا ہے :

ساقی توئی و سادہ دلی بیں کہ شیخِ شہر
بادر نمی کند کہ ملک مے گسار شد 145

شہزادہ نے ہر چند عجز و نیاز کے ساتھ التجائیں کیں کہ میرے عشق و دل باختگی کا امتحان اس جام کے پینے پر موقوف نہ رکھو!

مٔے حاجت نیست مستیم را
در چشم تو خمار باقیست 146

لیکن اس عیار کو رحم نہ آیا :

ہنوز ایمان و دل بسیار غارت کر دنی دارد
مسلمانی میاموزآں دو چشمِ نا مسلماں را! 147

ناچار شہزادہ نے ارادہ کیا کہ پیالہ منہ سےلگا لے۔ گویا ولقد ہمت بہ و ھم بھا کو پوری رُوداد پیش آ گئی۔

عشقش خبر ز عالمِ مدہوشی آورد
اہلِ صلاح رابقدح نوشی آورد 149

لیکن جونہی اس فسونساز نے دیکھا کہ شہزادہ بے بس ہو کر پینے کےلیے آمادہ ہو گیا ہے، فوراً پیالہ اس کے لبوں سے کھینچ لیا اور کہا، "غرض امتحانِ عشق بود، نہ کہ تلخ کامیِ شما:" 150

این جورِ دیگرست کہ آزارِ عاشقاں
چنداں نمی کند کہ بہ آزار خُو کنند! 151

رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ شاہجہان تک خبریں پہنچنے لگیں اور وقائع نویسوں 152 کے فردوں میں بھی اس کی تفصیلات آنےلگیں۔ دارا شکوہ 153 نے اس حکایت کو اپنی سعایت


صفحہ کتاب 278، ریختہ 306

و غمازی کا دست مایہ بنایا۔ وہ باپ کو بار بار توجہ دلاتا، "ببینید، ایں مزورِ ریائی چہ صلاح و تقویٰ ساختہ است 154؟" فیضیؔ نے کیا خوب کہا ہے : 155

چہ دست مے بُری اے تیغ عشق اگر دادست
ببُر زبان ملامت گرِ زلیخا را!

نہیں معلوم، اس قضیہ کا غنچہ کیونکر گل کرتا، لیکن قضا و قدر نے خود ہی فیصلہ کر دیا، یعنی عین عروجِ شباب میں زین آبادی کا انتقال ہو گیا۔ اورنگ آباد میں بڑے تالاب کے کنارے اس کا مقبرہ آج تک موجود ہے :

خود رفتہ ایم و کنجِ مزارے گرفتہ ایم
تابارِ دوشِ کس نشود استخوان ما 156

آپ نے عاقل خان رازی کے حال میں یہ واقعہ پڑھا ہو گا کہ زمانۂ شہزادگی میں اورنگ کو ایک پرستارِ خاص کی موت سے سخت صدمہ پہنچا تھا، لیک اُسی دن شکار کے اہتمام کا حکم دیا گیا۔ اس بات پر وابستگانِ دولت کو تعجب ہوا کہ سوگواری کی حالت میں سیر و تفریح اور شکار کا کیا موقع تھا! جب اورنگ زیب شکار کے لیے محل سے نکلا، تو عاقل خانے کہ میر عسکر تھا، تنہائی کا موقعہ نکال کر عرض کیا، "اس غم و اندوہ کی حالت میں شکار کے لیے نکلنا کسی ایسی ہی مصلحت پر مبنی ہو گا، جس تک ہم ظاہر بینوں کی نگا ہ نہیں پہنچ سکتی۔" اورنگ زیب نے جواب میں یہ شعر پڑھا :

نالہ ہائے خانگی دل را تسلی بخش نیست
در بیاباں می تواں فریاد خاطر خواہ کرد

اس پر عاقل خان کی زبان سے بے ساختہ یہ شعر نکل گیا :

عشق چہ آساں نمود، آہ چہ دشوار بود
ہجرچہ دشوار بود، یار چہ آساں گرفت!


صفحہ کتاب 279، ریختہ 307

اورنگ زیب پر رقت کا عالم طاری ہو گیا۔ دریافت کیا کہ یہ شعر کس کا ہے؟ عاقل خان نے کہا: اس شخص کا ہے، جو نہیں چاہتا کہ اپنے آپ کو زمرۂ شعرا میں محسوب کرائے۔ اورنگ زیب سمجھ گیا کہ خود عاقل خان کا ہے۔ بہت تعریف کی اور اُس دن اُس کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی 157۔ اس حکایت میں جس "پرستانِ خاص" کی موت کا ذکر آیا ہے، اس سے مقصود اپنے یہی "زین آبادی " ہے۔

صاحب مآثر الامرا نے خان زمان کے حال میں لکھا ہے کہ فن موسیقی میں پوری مہارت رکھتا تھا، اور کاروبارِ منصب کے انہماک کے ساتھ راگ و رنگ کی مشغولتیں بھی برابر جاری رہتی تھیں۔ پری چہرگانِ خوش آواز اور مغنیاتِ عشوہ طراز اس کی سرکار میں ہمیشہ جمع رہتی تھیں۔ انہیں میں "زین آبادی" بھی تھی جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کی مدخولہ تھہ 158۔

خود اورنگ زیب بھی موسیقی کے فن سے بے خبر نہ تھا، کیونکہ تمام شہزادوں کی طرح اس نے بھی اس کی تحصیل کی ہو گی۔ البتہ آگے چل کر اس کی طبیعت کی افتاد نے دوسری راہ اختیار کی، اس لیے اس کے اشتغال و ذوق سے کنارہ کش ہو گیا، اور سلطنت پر قبضہ پانے کے بعد تو سرے سے یہ کارخانہ ہی بند کر دیا۔ گویوں نے موسیقی کا جنازہ نکالا، تو اس نے کہا: "اس طرح دفن کرنا کہ پھر قبر سے نہ اٹھ سکے 159۔" لیکن اورنگ زیب کے سارے منصوبوں کی طرح سلطنت کا یہ پرہیزی مزاج بھی زیادہ دنوں تک نہ چل سکا، اور اس کی زندگی کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جس طرح انگلستن میں پیورٹین 160 (Puritan) عہد کی خشک مزابیاں اعادۂ حال کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھیں، اسی طرح یہاں بھی اورنگ زیب کی آنکھ بند ہوتے ہی سلطنت کا مزاج پھر لوٹ آیا۔ فرخ سیر 161 اور محمد شاہ 162 محدث بلگرامی نے فرخ سیر کی شادی کی تبریک میں جو مثنوی لکھی ہے، اس سے اس عہد کی عشرت مزاجیوں کا اندازہ کیا جا سکتا ہے 164۔

ہندوستان کے قدمائے فن نے موسیقی اور رقص کی ایک خاص قسم ایسی قرار دی ہے،


صفحہ کتاب 280، ریختہ 308

جس کی نسبت ان کا خیال تھا کہ صحرائی جانوروں کو بے خود کر کے رام کرنے میں خصوصیت کے ساتھ مؤثر ہے۔ اکبر کے زمانے میں رقض اور گانے کی یہ قسم شکارِ قمرغہ کے سر و سامان میں داخل ہوئی اور اس کے طائفے باکمالانِ فن کی نگرانی میں تیار کرائے گئے۔ آنند رام مخلص 165 نے مرأۃ المصطلحات میں اس طریقِ شکار کی بعض دلچسپ تفصیلات لکھی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ جب شکارِ قمرغہ کا اہتمام کیا جاتا تھا، تو یہ طائفے شکار گاہ میں بھیج دیتے جاتے تھے، اور رقص و سرود شروع کر دیتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد آہستہ آہستہ چاروں طرف سے ہرن سر نکالنے لگتے اور پھر رقص و سرود کی محویت انہیں بالکل طائفے کے قریب پہنچا دیتی۔ جہانگیر نے ایک مرتبہ شکارِ قمرغہ کا قصد کیا، اور اسی رقص و سرود کا جال بچھایا۔ جب ہرنوں کے غول ہر طرف سے نکل کر سامنے آ کھڑے ہوئے تو نور جہان کی زبان پر بے اختیار امیر خسروؔ کا یہ شعر طاری ہو گیا :

ہمہ آہوانِ صحرا سرِ خود نہادہ برکف
بہ اُمیدِ آں کہ روزے بشکار خواہی آمد

یہ شعر سُن کر جہانگیر کی غیرت مردمی نے گوارہ نہ کیا کہ شکار کے لیے ہاتھ اُٹھائے؛ دل گرفتہ واپس آ گیا۔

یہ خیال کہ جانور گانے سے متاثر ہوتے ہیں، دنیا کی تمام قوموں کی قدیمی روایتوں میں پایا جاتا ہے۔ تورات میں 166 ہے کہ حضرتِ داؤد کی نغمہ سرائی پرندوں کو بے خود کر دیتی تھی۔ یونانی روایات مین بھی ایک سے زیادہ اشخاص کی نسبت ایسا ہی عقیدہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ہندوستان کے قدمائے فن نے تو اسے ایک مسلمہ حقیقت مان کر اپنے بیشمار عملیات کی بنیادیں اسی عقیدہ پر استوار کی تھیں۔ سانپ، گھوڑے اور اونٹ کا تاثر عام طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔ حُدی کی لے اگر رک جاتی ہے، تو محمل کی تیز رفتاری بھی رُک جاتی ہے :

حُدی را تیز تر میخواں چوں محمل را گران بینی 167


صفحہ کتاب 281، ریختہ 309

البیرونی نے کتاب الہند میں راگ کے ذریعے شکار کرنے کے طریقوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ خود اپنا مشاہدہ نقل کرتا ہے کہ شکاری نے ہرن کو ہاتھ سےپکڑ لیا تھا، اور ہرن میں بھاگنے کی قوت باقی نہیں رہی تھی۔ وہ ہندوؤں کا یہ قول بھی نقل کرتا ہے کہ اگر ایک شخص اس کام میں پوری طرح ماہر ہو، تو اُسے ہاتھ بڑھا کر پکڑنے کی بھی ضرورت پیش نہ آئے؛ وہ صید کو جس طرف لے جانا چاہے، صرف اپنے راگ کے زور سے لگائے لے جائے۔ پھر لکھتا ہے، جانوروں کی اس محویت و تسخیر کو عوام تعویذ گنڈے کا اثر سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ محض گانے کی تاثیر ہے۔ پھر ایک دوسرے مقام میں جہاں جزیرۂ سرندیپ کا ذکر کیا ہے، لکھتا ہے، یہاں بندر بہت ہیں۔ ہندوؤں میں مشہور ہے کہ اگر کوئی مسافر اُن کے غول میں پھنس جائے اور رامائن کے وہ اشعار جو ہنومانؔ کی مدح میں لکھے گئے ہیں، پڑھنے لگے، تو بندر اس کے مطیع ہو جائیں گے اور اسے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا۔ پھر کہتا ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کی تہہ میں بھی وہی گانے کی تاثیر کام کرتی ہو گی۔ یعنی رامائن کے اشعار کے مطالب کا یہ اثر نہ ہو گا، اشعار کی لے اور نغمہ سرایی کی تاثیر ہو گی۔ پہلی تصریح غالباً اُس باب میں ہے جو فی ذکر علوم لھم کا سرۃ الاجنحۃ علی افق الجھل کے عنوان سے ہے، اور دوسرے تصریح اس کے بعد کے باب میں ملے گی جو فی معارف شتی من بلاد ھم و انھارہم کے عنوان سےلکھا ہے۔

لیکن یہ عجیب بات ہے کہ زمانۂ حال کا علم الحیوان اس خیال کی واقعیت تسلیم نہیں کرتا۔ اور تاثرات کے مشاہدات کو دوسری علتوں پر معمول کرتا ہے۔ سانپ کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ اس میں سرے سے سماعت کا حاسہ ہی نہیں ہے۔

والہ داغسانی صاحب 158 ریاض الشعرا، قزلباش خاں امیدؔ 169، میر مُعز فطرتؔ موسوی 170، مؤتمنؔ الدولہ اسحاق خان شو ستری 171، یہ سب تازہ ولایت ایرانی تھے، لیکن ہندوستان کے صحبتوں سے آشنا ہوتے ہی انہوں نے محسوس کیا کہ موسیقی ہند سے واقفیت


صفحہ کتاب 282، ریختہ 310

پیدا کیے بغیر اپنی دانش و شایستگی کی مسند نہیں سنبھال سکتے، اس لیے اس کی تحصیل ناگزیر ہے۔ قزلباش خان اُمید کی مجالسِ طرب کا حال قاضی محمد (صادق) خان 172 اختر نے اپنے مکاتیب میں لکھا ہے، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس فن میں کسی درجہ دستگاہ اسے حاصل ہو گئی تھی 173۔ شیخ علی حزیں 174 ایرانی موسیقی سے پوری طرح باخبر تھے، لیکن ہندوستان میں انہوں نے ہندوستانی موسیقی کی بھی تحصیل کی۔ پٹنہ کے قیام کے زمانے میں ان کا یہ دستور تھا کہ ہفتہ کے دو دن موسیقی کی صحبت کے لیے مخصوص کر دیے تھے؛ شہر کے باکمال حاضر ہوتے اور فن کی باریکیوں کے نمونے پیش کرتے۔

اودھ کی نوابی کے دورمیں تفصل حسین خان علامہ 175 کے علم و فضل کی بڑی شہرت ہوئی؛ شوستری صاحب 176 تحفتہ العالم کلکتہ 177 میں ان سے ملا تھا، جب وہ اودھ کی سفارت کے منصب پر مامور تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ تمام علومِ عقلیہ کے ساتھ موسیقی مین بھی درجۂ اجتہاد رکھتے ہیں؛ اور شوق و ذوق کا یہ حال ہے کہ جب تک ساز پر راگ چھیڑا نہیں جاتا، ان کی آنکھیں نیند سے آشنا نہیں ہوتیں۔ ایک ماہر فن سازندہ صرف اس کام کے لیے ملازم ہے کہ شب کو خوابگاہ میں خواب آور گیت چھیڑ دیا کرے۔

لکھنؤ کے علماء فرنگی محل میں بحر العلوم کی نسبت اُن کے بعض معاصروں نے لکھا ہے کہ فنِ موسیقی میں ان کا رسوخ عام طور پر مسلم تھا 180۔

البتہ یہ ظاہر ہے کہ قوموں کے عروج و ترقی کے زمانے میں جو اشتعال تحسینِ فکر اور تہذیبِ طبع کا باعث ہوتا ہے، وہی دورِ تنزل میں فکر کے لیے آفت اور طبیعت کے لیے مہلکہ بن جاتا ہے۔ ایک ہی چیز حسنِ استعمال اور اعتدالِ عمل سے فضل و کمال کا زیور ہوتی ہے، اور سوء استعمال اور افراط و تفریطِ عمل سے بد اخلاقی اور صد عیبی کا دھبہ بن جاتی ہے۔ موسیقی کا ایک شوق تو اکبر 181 کو تھا کہ اپنی یلغاروں کے بعد جب کمر کھولتا، تو مجلسِ سماع و نشاط سے اُن کی تھکن مٹاتا؛ اور پھر ایک شوق محمد شاہ رنگیلے کو تھا کہ جب تک محل کی عورتیں اسے دھکیل دھکیل کر پردہ سے باہر نہ


صفحہ کتاب 283، ریختہ 311

کر دیتیں، دیوان خانہ میں قدم نہیں رکھتا۔ صفدر جنگ 182 جب دیوان کی مہمات سے تھک جاتا، تو موسیقی کے باکمالوں کو باریاب کرتا۔ اسی کی نسل میں واجد علی شاہ 183 کا یہ حال تھا کہ جب طبلہ بجاتے بجاتے تھک جاتا، تو تازہ دم ہونے کے لیے اپنے وزیر علی نقی کا باریابی کا موقع دیتا۔ موسیقی کا شوق دونوں کو تھا، مگر دونوں کی حالتوں میں جو فرق تھا، وہ محتاجِ بیان نہیں۔

سارت مشرقۃً و سوتُ مغربا
شتان بین مشرقِ و مغرب

اس بات کی عام طور پر شہرت ہو گئی ہے کہ اسلام کا دینی مزاج فنونِ لطیفہ کے خلاف ہے۔ اور موسیقی محرماتِ شرعیہ میں داخل ہے۔ حال آنکہ اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ فقہا نے سدِ وسائل کے خیال سے اس بارے میں تشدد کیا؛ اور یہ تشدد بھی بابِ قضا سے تھا، نہ کہ بابِ تشریع سے۔ قضا کا میدان نہایت وسیع ہے؛ ہر چیز جو سوء استعمال سے کسی مفسدہ کا وسیلہ بن جائے قضاءَ رو کی جا سکتی ہے؛ لیکن اس سے تشریع کا حکمِ اصلی اپنی جگہ سے نہیں ہل جا سکتا؛ قُل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیبات من الرزق 185؟ لیکن یہ مبحث میں یہاں نہیں چھیڑنا چاہتا، یہاں جس زاویۂ نگاہ سے معاملہ پر نظر ڈالی جا رہی ہے۔ وہ دوسرا ہے :

مومنؔ! آ، کیشِ محبت میں کہ سب کچھ ہے روا
حسرتِ حُرمت صہبا و مزامیر نہ کھینچ! 186

دیکھیے، بات کیا کہنی چاہتا تھا اور کہاں سے کہاں جا پڑا؟ اب لکھنے کے بعد صفحوں پر نمبر لگائے، تو معلوم ہوا کہ فلسکیپ کے چھبیس صفحے سیاہ ہو چکے ہیں۔ بہر حال اب قلم روکتا ہوں۔

حرفِ نامنظورِ دل، یک حرف ہم بیش ست و بس
معنیِ دلخواہ گر صد نسخہ باشد، ہم کم ست 187
 

محمد عمر

لائبریرین
124

نام نہاد تشبیہ ہی بہتر ہے، کیونکہ یہاں تصوّر کے لیے ایک ٹھکانا تو باقی رہتا ہے؟ تمہاری سلب و نفی کی کاوشوں کے بعد تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا!

ہندوستان کے اونپشیدوں نے ذاتِ مطلق کو ذاتِ متّصف میں اُتارتے ہوئے جن تنزّلات کا نقشہ کھینچا ہے، مسلمان صوفیوں نے اس کی تعبیر ”احدیّت“ اور ”واحدانیت“ کے مراتب میں دیکھی۔ ”احدیّت“ کا مرتبہ یکتائی محض کا ہوا، لیکن ”وحدانیت“ کی جگہ اوّل کی ہوئی، اور اوّلیت کا مرتبہ چاہتا ہے کہ دوسرا، تیسرا، چوتھا بھی ہو۔ کنت کنزا مخفیا فاجبت ان اعرف فخلقت الخلق 26 حدیثِ قدسی نہیں ہے، مگر جس کسی کا بھی قول ہے، اس میں شک نہیں کہ ایک بڑے ہی گہرے تفکّر کی خبر دیتا ہے:

دل کُشتہ یکتائی حسن است، وگرنہ

در پیش تو آئینہ شکستن ہنرے بود 27

ترجمان القرآن جلد اوّل میں یہ ضمن تفسیر سورہ فاتحہ، اور جلد دوم میں نہ ضمن تفسیر و لاا تصر بو اللہ الامثال 29 اس محبث کی طرف اشارات کیے گئے ہیں، اور محبث ایسا ہے کہ اگر پھیلایا جائے، تو بہت دور تک پھیل سکتا ہے۔

تلقينِ درس اہلِ نظر یک اشارر ست

کردم اشارتے و مکرّر نمی کنم 30

اس سلسلے میں ایک اور مقام بھی نمایاں ہوتا ہے اور اس کی وسعت بھی ہمیں دور دور تک پہنچا دیتی ہے۔ اگر یہاں مادّہ کے سوا اور کچھ نہیں ہے تو پھر مرتبۂ انسانی میں اُبھرنے والی وہ قوّت، جسے ہم فکر و ادراک کے نام سے پُکارتے ہیں کیا ہے؟ کس انگیٹھی سے چنگاری اُڑی؟ یہ کیا ہے جو ہم میں جوہر پیدا کر دیتی ہے کہ خود مادّہ کی حقیقت میں غور و خوض کرنے لگتے ہیں اور اس پر طرح طرح کے احکام لگاتے ہیں؟ یہ سچ ہے کہ موجودات کی ہر چیز کی طرح یہ بھی بتدریج اس درجہ تک پہنچا۔ وہ عرصہ تک نباتات میں سوتا رہا

125

حیوانات میں کروٹ بدلنے لگا، اور پھر انسانیت کے مرتنہ میں پہنچ کر جاگ اُٹھا، لیکن صورتِ حال کا یہ علم ہمیں اس گتھی کے سلجھانے میں کچھ مدد نہیں دیتا۔ یہ بیج فوراً بار لے آیا ہو، یا مدّتوں کے نشو و ارتقا کے بعد اس درجہ تک پہنچا ہو، بہرحال مرتبۂ انسانیت کا جوہر و خلاصہ ہے اور اپنی نمو و حقیقت میں تمام مجمعِ موجودات سے اپنی جگہ الگ اور بالا تر رکھتا ہے۔ یہی مقام ہے جہاں پہنچ کر انسان حیوانیت کی پچھلی کڑیوں سے جدا ہو گیا اور کسی آیندہ کڑی تک مرتفع ہونے کی استعداد اس کے اندر سے سر اٹھائے لگی۔ وہ زمین کی حکمرانی کے تخت پر بیٹھ کر جب اوپر کی طرف نظر اٹھاتا ہے، تو فضا کے تمام اجرام اُسے اس طرح دکھائی دینے لگتے ہیں، جیسے وہ بھی صرف اسی کی کار برآریوں کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وہ ان کی بھی پیمائش کرتا ہے، اور ان کے خواص و افعال پر بھی حکم لگاتا ہے۔ اسے کارخانۂ قدرت کی لا انتہائیوں کے مقابلہ میں اپنی درماندگیوں کا قدم قدم پر اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ لیکن درماندگیوں کے اس احساس سے اس کی سعی و طلب کی امنگیں پژمردہ نہیں ہو جاتیں، بلکہ اور زیادہ شگفتگیوں کے ساتھ ابھرنے لگتی ہیں اور اسے اور زیادہ بلندیوں کی طرف اڑا لے جانا چاہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فکر و ادراک کی یہ فضائے لامتناہی جو انسان کو اپنی آغوش پرواز میں لیے ہوئے گزر رہی ہے، کیا ہے؟ کیا اس کے جواب میں اس قدر کہہ دینا کافی ہو گا کہ یہ محض ایک اندھی بہری قوّت ہے، جو اپنے طبعی خواص اور طبعی احوال و ظروف سے ترقّی کرتی ہوئی فکر و ادراک کا شعلۂ جوانی بن گئی! جو لوگ مادیّت کے دائرے سے باہر دیکھنے کے عادی نہیں ہیں، وہ بھی اس کی جرأت بہت کم کر سکے کہ اس سوال کا جواب بلا تامّل اثبات میں دے دیں۔

میں بھی اس انقلاب کی طرف اشارہ کرنا نہیں چاہتا جو بیسویں صدی کے آخری میں رُونما ہونا شروع ہوا، اور جس نے بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی کلاسیکل طبیعیات کے تمام

126

بنیادی مسلّمات یک قلم متزلزل کر دیے۔ میں ابھی اُس سے الگ رہ کر ایک عام نقطۂ نگاہ سے مسئلہ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔

اور پھر خود وہ صورتِ حال جسے ہم نشو و ارتقا Evolution) ) سے تعبیر کرتے ہیں، کیا ہے؟ اور کیوں ہے؟ کیا وہ ایک خاص رُخ کی طرف انگلی اٹھائے اشارہ نہیں کر رہی ہے؟ ہم نے سینکڑوں برس کی سُراغرسانیوں کے بعد حقیقت معلوم کی کہ تمام موجوداتِ ہستی آج جس شکل و نوعیت میں پائی جاتی ہیں، بہ بیک دفعۂ ظہور میں نہیں آ گئیں۔ یعنی کسی براہِ راست تخلیقی عمل نے انہیں ایک شکل و نوعیت نہیں دے دی، بلکہ ایک تدریجی تغیّر کا عالمی قانون یہاں کام کرتا رہا ہے، اور اس کی اطاعت و انقیاد میں ہر چیز درجہ بدرجہ بڑھتی رہتی ہے اور ایک ایسی آہستہ چال سے جسے ہم فلکی اعداد و شمار کی مدّتوں سے بھی مشکل انداز میں لا سکتے ہیں، نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتی چلی آتی ہے۔ ذرّات سے لے کر اجرامِ سماوی تک، سب نے اسی قانونِ تغیّر و تحوّل کے ماتحت اپنی موجودہ شکل و نوعیت کا جامہ پہنا ہے۔ یہی نیچے سے اوپر کی طرف چڑھتی ہوئی رفتارِ فطرت ہے جسے ہم ”نشو و ارتقاء“ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، یعنی ایک معیّن، طے شدہ، ہم آہنگ اور منظّم، ارتقائی تقاضہ ہے جو تمام کارخان& ہستی پر چھایا ہوا ہے اور اُسے کسی خاص رُخ کی طرف اٹھائے اور بڑھائے لے جا رہا ہے۔ ہر نچلی کڑی بتدریج اپنے سے اوپر کی کڑی کا درجہ پیدا کرے گی، اور ہر اوپر کا درجہ نچلے درجہ کی رفتارِ حال پر ایک خاص اثر ڈالتے ہوئے اسے ایک خاص سانچے میں ڈھالتا رہے گا۔ یہ ارتقائی صورتِ حال خود توضیحی (Self Explanatory) نہیں ہے، اپنی ایک توضیح چاہتی ہے۔ لیکن کوئی مادّی توضیح ہمیں ملتی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں صورتِ حال ایسی ہی ہوئی کہ یہاں ایک ارتقائی تقاضا موجود ہو، اور وہ ہر تخلیقی ظہور کو نچلی حالتوں سے اٹھاتا ہوا بلند تر درجوں کی طرف بڑھائے لے جائے؟

127

کیوں فطرتِ وجود میں رفعت طلبیوں کا ایسا تقاضا پیدا ہوا کہ سلسلۂ اجسام کی ایک مرّتب سیڑھی نیچے سے اوپر تک اُٹھتی ہوئی چلی گئی، جس کا ہر درجہ اپنے ما سبق سے اوپر مگر اپنے ما بعد سے نیچے پیدا ہوا ہے؟ کیا یہ صورت حال بغیر کسی معنی اور حقیقت کے ہے؟ کیا یہ سیڑھی بغیر کسی بالا خانہ کی موجودگی کے بن گئی اور یہاں کوئی بامِ رفعت نہیں جس تک یہ ہمیں پہنچانا چاہتی ہو؟

یاراں خبرد ہید کہ این جلوہ گاہِ کیست؟ 31

زمانۂ حال کے علمائے علم الحیات میں پروفیسر لائیڈ مارگن(Lloyd Morgan) نے اس مسئلہ کا علم الحیاتی (Biological) نقطۂ خیال سے گہرا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن بالآخر اسے بھی اسی نتیجہ تک پہنچنا پڑا کہ اس صورتِ حال کی کوئی مادّی توضیح نہیں کی جا سکتی۔ وہ لکھتا ہے کہ جو حاصلات (Resultants) یہاں کام کر رہی ہیں، ہم ان کی توضیح اس اعتبار سے تو کر سکتے ہیں کہ انہیں موجودہ احوال و ظروف کا نتیجہ قرار دیں، لیکن ارتقائی تقاضا کا فجائی طور (Emergence) جس طرح اُبھرتا رہا ہے، مثلاً زندگی کی نمود، ذہن و ادراک کی جلوہ طرازی، ذہنی شخصیت اور معنوی انفرادیت کا ڈھلاؤ، ان کی کوئی توضیع بغیر اس کے نہیں کی جا سکتی کہ ایک الہیٰ قوّت کی کار فرمائی یہاں تسلیم کر لی جائے۔ ہمیں صورتِ حال بالآخر مجبور کر دیتی ہے کہ فطرتِ کائنات میں ایک تخلیقی اصل (Creative Principle) کی کارفرمائی کے اعتقاد سے گریز نہ کریں۔ ایک ایسی تخلیق اصل جو اس کارخانۂ ظرف و زماں میں ایک لازماں (Timeless) حقیقت ہے۔

حقائقِ ہستی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ایک خاص بات فوراً ہمارے سامنے اُبھرنے لگتی ہے۔ یہاں فطرت کا ہر نظام کچھ اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ جب تک اُسے اُس کی سطح سے بلند ہو کر نہ دیکھا جائے، اُس کی حقیقت بے نقاب نہیں ہو سکتی،

128

یعنی فطرت کے ہر منظر کو دیکھنے کے لیے ہمیں ایک ایسا مقامِ نظر پیدا کرنا پڑتا ہے جو خود اُس سے بلند تر جگہ پر واقع ہے۔ عالمِ طبیعیات کے غوامض علم الحیاتی (Biological) عالم میں کھُلتے ہیں؛ علم الحیاتی غومض نفسیاتی (Psychological) عالم میں نمایاں ہوتے ہیں؛ نفسیاتی غوامض کے لیے ہمیں منطقی بحث و تحلیل کے عالم میں آنا پڑتا ہے، لیکن منطقی بحث و تحلیل کے معمّوں کو کس مقام سے دیکھا جائے؟ اس سے اوپر بھی کوئی مقامِ نظر ہے یا نہیں، جو حقیقت کی کسی آخری منزل تک ہمیں پہنچا دے سکتا ہو؟

ہمیں ماننا پڑنا ہے کہ اس سے اوپر بھی ایک مقامِ نظر ہے، لیکن وہ اس سے بلند تر ہے کہ عقلی نظر و تعلیل سے اس کی نقش آرائی کی جا سکے۔ وہ ماورائے محسوسات (Supra Sensible) ہے، اگرچہ محسوسات سے معارض نہیں۔ وہ ایک ایسی آگ ہے، جو دیکھی نہیں جا سکتی؛ البتّہ اس کی گرمی سے ہاتھ تاپ لے جا سکتے ہیں۔ وَ من لم یذق لم یدر: 32

تو نظر باز نہ، ورنہ تغافل نگہ ست

تو زبان فہم نہ، ورنہ خموشی سخن ست 33

کائنات ساکن نہیں ہے، متحرک ہے؛ اور ایک خاص رُخ پر بنتی اور سنورتی ہوئی بڑھی چلی جا رہی ہے۔ اس کا اندرونی تقاضہ ہر گوشہ میں تعمیر و تکمیل ہے۔ اگر کائنات کی اس عالمگیر ارتقائی رفتار کی کوئی مادّی توضیع ہمیں نہیں ملتی، تو ہم غلطی پر نہیں ہو سکتے، اگر اس معمّہ کا حل روحانی حقائق میں ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ مادّہ کی نوعیت کے بارے میں اٹھارویں اور انیسویں صدی نے جو عقائد پیدا کیے تھے، وہ اس صدی کے شروع ہوتے ہی ہلنا شروع ہو گئے، اور اب یکسر منہدم ہو چکے ہیں۔ اب ٹھوس مادّہ کی جگہ مجرّد قوّت نے

129

لے لی ہے، اور الکٹرون (Electron) کے خواص و افعال اور سالمات کے اعدادی و شماری انضباط کے مباحثے نے معاملہ کو سائنس کے دائرہ سے نکال کر پھر فلسفہ کے صحرا میں گم کر دیا ہے۔ سائنس کو اپنی خارجیّت (Objective) کے علم و انضباط کا جو یقین 34 تھا، وہ اب یکسر متزلزل ہو چکا، اور علم پھر داخلی ذہنیت (Subjective) کے اُسی ذہنی اور کلّیاتی مقام پر واپس لوٹ رہا ہے، جہاں سے نشأتِ جدیدہ کے دَور کے بعد اُس نے نئی مسافرت کے قدم اُٹھائے تھے۔ لیکن میں ابھی یہ داستان نہیں چھیڑوں گا کیونکہ بجائے خود یہ ایک مستقل مبحث ہے۔

یہ سچ ہے کہ یہ راہ محض استدلالی ذریعۂ علم سے طے نہیں کی جا سکتی۔ یہاں کی اصلی روشنی کشف و مشاہدہ کی روشنی ہے۔ لیکن اگر ہم کشف و مشاہدہ کے عالم کی خبر نہیں رکھنی چاہتے، جب بھی حقیقت کی نشانیاں اپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں؛ اور اگر غور کریں، تو خود ہماری ہستی ہی سر تا سر نشانِ راہ ہے۔ و لقد احسن من قال:

خلقے نشانِ دوست طلب می کنند و باز

از دوست غافل اندبچندیں نشان کہ ہست 36

ابو الکلام
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 204، ریختہ 232

صاحب کو توجہ دلائی کہ سننا بُلبل کی آواز آ رہی ہے۔ ایک دوسرے صاحب جو صحن میں ٹہل رہے تھے، کچھ دیر کے لیے رُک گئے اور کان لگا کر سنتے رہے۔ پھر بولے کہ ہاں قلعہ میں کوئی چھکڑ جا رہا ہے، اس کے پہیوں کی آواز آ رہی ہے۔ سبحان اللہ! سماع کی دقتِ امتیاز دیکھیے؛ بلبل کی نواؤں اور چھکڑے کے پہیوں کی ریں ریں میں یہاں کوئی فرق محسوس نہیں ہوت:

ہماے گو، مفگن سایۂ شرف ہرگز 55
دراں دیار کہ طوطی کم از زغن باشد

خدارا انصاف کیجیے، اگر دو ایسے کان ایک قفس میں بند کر دیئے جائیں کہ ایک میں تو بلبل کی نوائیں بسی ہوں، دوسرے میں چھکڑے کے پہیوں کی ریں ریں، تو آپ اسے کیا کہیں گے :

نوائے بُلبُلت اے گُل! کجا پسند افتد
کہ گوش ہوش بہ مُرغانِ ہرزہ گوداری 56

اصل یہ ہے کہ ہر ملک کی فضا طبیعتوں میں ایک خاص طرح کا طبعی ذوق پیدا کر دیا کرتی ہے۔ ہندوستان کا عام طبعی ذوق بلبل کی نواؤں سے آشنا نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ ملک کی فضا دوسری طرح کی صداؤں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کے پرندوں کی شہرت طوطا اور مینا کے پروں سے اُڑی اور دنیا کے عجائب میں سے شمار کی گئی

شکر شکن شوند ہمہ طُوطیان ہند
زیں قند پارسی کہ بہ بنگا کہ می رود 57

بلبل کی جگہ یہاں کوئل کی صدائیں شاعری کے کام آئیں، اور اس میں شک نہیں کہ اس کی کُوک درد آشنا دلوں کو غم و الم کی چیخوں سے کم محسوس نہیں ہوتی۔ 58

بُلبل کی نواؤں کا ذوق تو ایران کے حصے میں آیا ہے۔ موسم بہار میں باغ و صحرا ہی نہیں


صفحہ کتاب 205، ریختہ 233

بلکہ ہر گھر کا پائیں باغ ن کی نواؤں سے گونج اُٹھتا ہے۔ بچے جُھولے میں اُن کی لوریاں سنتے سنتے سو جائیں گے اور مائیں اشارہ کر کے بتلائیں گی کہ دیکھ یہ بُلبُل ہے، جو تجھے اپنی کہانی سنا رہی ہے۔ جنوب سے شمال کی طرف جس قدر بڑھتے جائیں، یہ افسوں فطرت بھی زیادہ عام اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ایک شخص نے شیراز یا قزوین کے گل گشتوں کی سیر نہ کی ہو، وہ سمجھ نہیں سکتا کہ حافظ کی زبان سے یہ شعر کس عالم میں ٹپکے تھے : 59

بلبل بہ شاخِ سرو بہ گل بانگِ پہلوی
میخواند دوش درسِ مقاماتِ معنوی
یعنی بیا کہ آتشِ موسیٰ نمود گل
تا از درخت نکتۂ تحقیق بشنوی
مرغانِ باغ قافیہ سنجند و بذلہ گو
تا خواجہ مے کورد بہ غزلہاے پہلوی

یہ جو کہا کہ مُرغانِ باغ قافیہ سنجی کرتے ہیں، تو یہ مبالغہ نہیں ہے، واقعہ ہے ۔ میں ے ایران کے چمن زاروں میں ہزار کو قافیہ سنجی کرتے ہوئے خود سنا ہے۔ ٹھہر ٹھہر کے لے بدلتی جائے گی، اور ہر لے ایک ہی طرح کے اُتار پر ختم ہو گی۔ جو سننے میں ٹھیک ٹھیک شعروں کے قوافی کی طرح متوازن اور متجانس محسوس ہوں گے۔ گھنٹوں سنتے رہیے، ان قافیوں کا تسلسل ٹوٹنے والا نہیں؛ آواز جب ٹوٹے گی، ایک ہی قافیہ پر ٹوٹے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ نوائے بلبل بہشتِ بہار کا ملکوتی ترانہ ہے۔ جو ملک اس بہشت سے محروم ہے، وہ اس ترانے کے ذوق سے بھی محروم ہے۔ گرم ملکوں کو اس عالم کی کیا خبر! زمستان کی برفباری اور پت جھڑ کے بعد جب موسم کا رُخ پلٹنے لگتا ہے، اور بہار اپنی ساری رعنائیوں اور جلوہ فرشیوں کے ساتھ باغ و صحرا پر چھا جاتی ہے، تو اُس وقت برف کی بے رحمیوں سے ٹھٹھری ہوئی دنیا یکایک محسوس کرنے لگتی ہے کہ اب موت کی افسردگیوں کی جگہ زندگی کی سرگرمیوں کی ایک نئی دنیا نمودار ہو گئی۔ انسان اپنے جسم کے


صفحہ کتاب 206، ریختہ 234

اندر دیکھتا ہے، تو زندگی کا تازہ خون ایک ایک رگ کے اندر اُبلتا دکھائی دیتا ہے۔ اپنے سےباہر دیکھتا ہے، تو فضا کا ایک ایک ذرہ عیش و نشاطِ ہستی کی سرمستیوں میں رقص کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ آسمان و زمین کی ہر چیز جو کل تک محرومیوں کی سوگواری اور افسردگیوں کی جانکاہی تھی، آج آنکھیں کھولیے، تو حُسن کی عشوہ طرازی ہے۔ کان لگائیے، تو نغمہ کی جان نوازی ہے۔ سونگھیے، تو سر تا سر بُو کی عطر بیزی ہے :

صبا بہ تہنیت پیر مے فروش آمد
کہ موسمِ طرب و عیش و نائے و نوش آمد
ہوا مسیح نفس گشت و باد نافہ کُشا
درخت سبز شد و مُرغ در خروش آمد
تنور لالہ چناں بر فروخت بادِ بہار
کہ غنچہ غرقِ عرق گشت و گل بجوش آمد 60

عین جوش و سرمستی کی ان عالمگیریوں میں بلبل کے مستانہ ترانوں کی گت شروع ہو جاتی ہے اور یہ نغمہ سراے بہشتی اس محویت اور خود رفتگی کے ساتھ گانے لگتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، خود سازِ فطرت کے تاروں سے نغمے نکلنے لگے۔ اس وقت انسانی احساسات میں جو 61 تہلکہ مچنے لگتا ہے، ممکن نہیں کہ حرف و صوت سے اُن کی تعبیر آشنا ہو سکے۔ شاعر پہلے مضطرب ہو گا کہ اس عالم کی تصویر کھینچ دے؛ جب نہیں کھیچ سکے گا، تو پھر خود اُس کی تصویر بن جائے گا۔ وہ رنگ و بو اور نغمے کے اس سمندر کو پہلے کنارہ پر کھڑے ہو کر دیکھے گا، پھر کود پڑے گا، اور خود اپنی ہستی کو بھی اُسی کی ایک موج بنا دے گا :

بیا تا گل بر افشا نیم دمے در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشگا فیم و طرحِ نود را ندزیم
چوں دردست ست رددے خوش، بن مُطرب سرو دے خوش
کہ دست افشاں غزل خونیم و پاکو باں سر اندازیم 62

ہندوستان میں صرف کشمیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس عالم کی ایک جھل دیکھی جا سکتی ہے۔ اسی لیے فیضی کو کہنا پڑا تھا :


صفحہ کتاب 207، ریختہ 235

ہزار قافلۂ شوق میکشد شبگیر
کہ بارِ عیش کُشاید بخطہ شمیر 63

لیکن فسوس ہے لوگوں کو پھل کھانے کا شوق ہوا، عالمِ بہار کی جنت نگاہیوں کا شوق نہ ہوا۔ کشمیر جائیں گے بھی، تو بہار کے موسم میں نہیں، بارش کے بعد پھلوں کے موسم میں۔ معلوم نہیں، دنیا اپنی ہر بات میں اتنی شکم پرست کیوں ہو گئی ہے، حال آنکہ انسان کو معدہ کے ساتھ دل و دماغ بھی دیا گیا تھا!

ہندوستان کے پہاڑوں میں پہاڑی بلبل کا ترنم نینی تال اور کانغرہ میں زیادہ سُنا جا سکتا ہے؛ مسوری اور شملہ کی چٹانی فضا اس کےلیے کافی کشش پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ ہندوستان میں عام طور پر چار قسم کی بلبلیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خوشنوا قسم وہ ہے، جس کے چہرے کے دونوں طرف سفید بُوٹے ہوتے ہیں، اور اس لیے آج کل نیچرل ہسٹری کی تقسیم میں اسے وہائٹ پیگڈ (White Cheeked) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ شیاما کو اگرچہ عام طور پر بلبل نہیں سمجھا جاتا لیکن اسے بھی میدانی سر زمینوں کا بلبل ہی تصور کرنا چاہیے؛ مغربی یوپی اور پنجاب میں اس کی متعدد قسمیں پائی جاتی ہیں۔

اس وقت تک بلبل کے تین جوڑے یہاں دکھائی دیے ہیں۔ تینوں معمولی پہاڑی قسم کے ہیں، جنہیں انگریزی میں (White Whiskered) کے نام سے پکارتے ہیں۔ ایک نے تو پھول کی ایک بیل میں آشیانہ بھی بنا لیا ہے۔ دوپہر کو پہلے بالکل خاموشی رہے گی، پھر جونہی میں کچھ دیر لیٹنے کے بعد اٹھوں گا اور لکھنے کے لیے بیٹھوں گا، معاً اُن کی نوائیں شروع ہو جائیں گی؛ گویا اُنہیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہی وقت ہے، جب ایک ہمصفیر اپنے دل و جگر کے زخموں کی پٹیاں کھولتا ہے، اس لیے نالہ و فریاد کے پیہم چرکے لگانا شروع کر دیں۔ میرا وہی حال ہوا، جو عربی کے


صفحہ کتاب 208، ریختہ 236

ایک شاعر کا ہوا تھا :

و مما شجانی اننی کُنتُ نائماً
اُعلل من برد بطیب انتنسم
الیٰ ان رعت و رقاءِ مِن غُسنِ أیکۃ
تررد مُیکاھا بحُسن الترنم
فلو قبل مُبکاھا بکیتُ صبابۃ
بُسعدیٰ، شفیتُ النفس قبل التندم
ولٰکن بکتُ تبلی، فھیج لِی البُکاء
بکاھا، فُقلتُ ألفضلُ للمُتقدِم (1) 64
************************************************************************************
(1) اور جس بات نے مجھے غمگین کیا، وہ یہ ہے کہ جب میں سو رہا تھا اور میٹھی نیند کے مزے لے رہا تھا، تو اچانک ایک خوش آواز پرند نے درختوں کے جھنڈ میں ترانہ سخجی شروع کر دی۔ اس کی رونے کی آواز اپنے ترنم کی خوبی میں آپ ہی اپنی مثال تھی۔ اگر اس کے رونے سے پہلے میں نے سُعدی کے عشق میں چند آنسو بہا دیے ہوتے، تو میرے حصے میں شرمندگی نہ آتی۔ مگر واقع یہ ہے کہ میں ایسا نہ کر سکا، اور یہ اُس پرند کا رونا تھا، جس سے میرے اندر بھی گریہ و زاری کا جوش اُمنڈ آیا۔ پس مجھے شرمندگی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑا کہ بلا شبہہ یہاں فضیلت اسی کے لیے ہوئی، جس نے پہلا قدم اٹھایا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ ریختہ ۔141

مل جاتاہے۔ گویا اس معمہ کے حل کی ساری روح ان چند لفظوں کے اندر سمٹی ہوئی تھی۔ جونہی یہ سامنے آئے، معمہ معمہ نہ رہا، ایک معنی خیز داستان بن گیا۔ پھر جونہی یہ الفاظ سامنے سے ہٹنے لگتے ہیں، تمام معانی اور اشارات غائب ہوجاتےہیں۔ اور ایک خنک اور بیجان چیستان باقی رہ جاتی ہے۔

اگر جسم میں روح بولتی ہے اور لفظ میں معنی ابھرتا ہے، تو حقائقِ ہستی کے اجسام بھی اپنے اندر کوئی روح معنی رکھتے ہیں ۔ یہ حقیقت کہ معمۂ ہستی کے بے معنی اور بیجان جسم میں صرف اسی ایک حل سے روح معنی پیدا ہو سکتی ہے، ہمیں مجبور کر دیتی ہے کہ اس کو حل تسلیم کرلیں۔

اگر کوئی ارادہ و مقصد پردے کے پیچھے نہیں ہے، تو یہاں تاریکی کے سوا اور کچھ نہیں ہے؛ لیکن ایک ارادہ اور مقصد کام کر رہا ہے، تو پھر جو کچھ بھی ہے، روشنی ہی روشنی ہے۔ ہماری فطرت میں روشنی کی طلب ہے، ہم اندھیتے میں کھوئے جانے کی جگہ روشنی میں چلنے کی طلب رکھتے ہیں۔ اور ہمیں یہاں روشنی کی راہ صرف اسی ایک حل سے مل سکتی ہے۔
فطرت کائنات میں ایک مکمل مثال (Pattern) کی نموداری ہے۔ ایسی مثال، جو عظیم بھی ہے اور جمالی (Aesthitic) بھی۔ اس کی رظمت ہمیں مرعوب کرتی ہے۔ اس کا جمال ہم میں محویت پیدا کرتا ہے۔ پھر کیا ہم فرض کرلیں کہ فطرت کی یہ نمود بغیر کسی مدرک (Intelligent) قوت کے کام کر رہی ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ فرض کرلیں، مگر نہیں کر سکتے۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ایسا فرض کرنا ہماری دماغی خودکشی ہوگی۔

اگر غور کیجیے، تو اس حل پر یقین کرتے ہوئے ہم اسی طریق نظر سے کام لینا چاہتےہیں، جو ریاضیات کے اعدادی اور پیمائشی حقائق سے ہمارے دماغوں میں کام کرتا رہتا ہے۔ ہم کسی عددی اور پیمائشی الجھاؤ کا حل صرف اسی حل کو تسلیم کریں گے، جس کے ملتے ہی

صفحہ 142

الجھاؤ دور ہو جائے۔ الجھاؤ کا دور ہوجانا ہی حل کی صحت کی اٹل دلیل ہوتی ہے۔ بلاشبہ دونوں صورتوں میں الجھاؤ اور حل کی نوعیت ایک طرح کی نہیں ہوتی؛ اعدادی مسائل میں الکھاؤ عددی ہوتا ہے، یہاں عقلی ہے۔ وہاں عددی حل عددی حقائق کا یقین پیدا کرتا ہے، یہاں عقلی حل عقلی اذعان کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ تا ہم طریق نظر کا سانچا دونوں جگہ ایک ہی طرح کا ہوا؛ دونوں راہیں ایک ہی طرح کھلتی اور ایک ہی طرح بند ہوتی ہیں۔
اگر کہا جائے، حل کی طلب ہم اس لیے محسوس کرتے ہیں کہ اپنے محسوسات و تعقل کے محدود دائرے میں اس کے عادی ہو گئے ہیں؛ اور اگر اس حل کے سوا اور کسی حل سے ہمیں تشفی نہیں ملتی، تو تو یہ بھی اسی لیے ہے کہ ہم حقیقت تولنے کے لیے اپنے محسوسات کا ہی ترازو ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں۔ تو اس کا جواب بھی صاف ہے۔ ہم اپنے آپ کو اپنے فکر و نظر کے دائرے سے باہر نہیں لے جاسکتے۔ ہم مجبور ہیں کہ اسی کے اندر رہ کر سوچیں اور حکم لگائیں۔ اور یہ جو ہم کہہ رہے ہیں کہ "ہم مجبور ہیں کہ سوچیں اور حکم لگائیں" تو:

ایں سخن نیز بہ اندازۂ ادراک من است -21

مسئلہ کا ایک اور پہلو بھی ہے، جو اگر غور کریں تو فوراً ہمارے سامنے نمایاں ہو جائے گا۔
انسان کے حیوانی وجود نے مرتبۂ انسانیت میں پہنچ کر نشوو ارتقا کی تمام پچھلی منزلیں بہت پیچھے چھوڑ دی ہیں، اور بلندی کے ایک ایسے ارفع مقام تک پہنچ گیا ہے، جو اسے کرۂ ارضی کی تمام مخلوقات سے ممتاز کردیتا ہے ۔ اب اسے اپنی لامحدود ترقیوں کے لیے ایک لا محدود بلندی کا نصب اکعین چاہیئے، جو اسے برابر اوپر ہی کی طرف کھینچتا رہے۔ اس کے اندر بلند سے بلند تر ہوتے رہنے کی طلب ہمیشہ ابلتی رہتی ہے، اور وہ اونچی سے اونچی بلندی تک اڑ کر بھی رکنا نہیں چاہتی۔

صفحہ 143

اس کی نگاہیں ہمیشہ اوپر ہی کی طرف لگی رہتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ لامحدود بلندیوں کا نصب العین کیاہو سکتا ہے؟ ہمیں بلا تامل تسلیم کر لینا پڑے گا کہ خدا کی ہستی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ ہستی اس کے سامنے سے ہٹ جائے، تو پھر اس کے لیے اوپر کی طرف دیکھنے کے لیے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔
کرۂ ارضی کی موجودات میں جتنی چیزیں ہیں، سن انسان کے نچلے درجے کی ہیں ؛ وہ ان کی طرف نظر نہیں اٹھا سکتا۔ اس کے اوپر اجرام سماوی کی موجودات پھیلی ہوئی ہیں، لیکن ان میں بھی کوئی ہستی ایسی نہیں جو اس کے لیے نصب العین بن سکے۔ وہ چمکتے ہوئے ستاروں سے عشق نہیں کر سکتا۔ سورج اس کے جسم کو گرمی بخشتا ہے۔ لیکن اس کی مخفی قوتوں کی امنگوں کو گرم نہیں کر سکتا۔ ستارے اس کی اندھیری راتوں میں قندیلیں روشن کر دیتے ہیں، لیکن اس کے دل و دماغ کے نہاں خانہ کو روشن نہیں کر سکتے۔ پھر وہ کون سی ہستی ہے جس کی طرف وہ اپنی بلند پروازیوں کے لیے نظر اٹھا سکتا ہے؟

یہاں اس کے چاروں طرف پستیاں ہی پستیاں ہیں، جو اسے انسانیت کی بلندی سے پھر حیوانیت کی پستیوں کی طرف لے جانا چاہتی ہیں، حالانکہ وہ اوپر کی طرف اڑنا چاہتا ہے۔ وہ عناصر کے درجے سے بلند ہو کر نباتاتی زندگی کے درجے میں آیا۔ بناتات سے بلند ہو کر حیوانی زندگی کے درجہ میں پہنچا؛ پھر حیوانیت کے درجے سے اڑ کر انسانیت کی شاخ بلند پر اپنا آشیانہ بنایا۔
اب وہ اس بلندی سے پھر نیچے کی طرف نہیں دیکھ سکتا، اگر چہ حیوانیت کی پستی اسے برابر نیچے کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ وہ فضا کی لا انتہا بلندیوں کی طرف آنکھ اٹھا تا ہے:

نہ باندازۂ بازوست کمندم، ہیہات
ورنہ با گوشۂ بامیم سروکارے ہست -22۔

صفحہ 144

اسے بلندیں، لامحدود بلندیوں کا ایک بام رفعت چاہیے ۔ جس کی طرف وہ برابر دیکھتا رہے، اور جو اسے ہر دم بلند سے بلند تر ہعتے رہنے کا اشارہ کرتا رہے:

ترا زکنگرۂ عرش می زنند صفیر
ندانمت کہ دریں دامگہ چہ افتاد است -23-

اس حقیقت کو ایک جرمن فلسفی ریحل (Rihel) نے ان لفظوں میں ادا کیا تھا: " انسان تن کر سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک کوئی ایسی چیز اس کے سامنے نہ ہو جو اس سے بلند تر ہے۔ ؛ وہ کسی بلند چیز کے دیکھنے ہی کے لیے سر اوپر کر سکتا ہے۔"

بلندی کا یہ نصب العین اخدا کی ہستی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اگر یہ بلندی اس کے سامنے سے ہٹ جائے، تو پھر اسے نیچے کی طرف دیکھنے کے لیے جھکنا پڑے گا۔ اور جونہی اس نے نیچے کی طرف دیکھا، انسانیت کی بلندی پستی میں گرنے لگے گی۔
یہی صورت حلا ہے، جو ہمیں یقین دلاتی ہے کہ خدا کی ہستی کا عقیدہ انسان کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب ہے، اور چونکہ طفطری تقاضے کا جواب ہے، اس کیے اس کی جگہ انسان کے اندر پہلے سے موجود ہونی چاہیے ، بعد کی بنائی ہوئی بات نہیں ہوئی۔ -24- زندگی کے ہر گوشے میں انسان کے فطری تقاضے ہیں۔ فطرت نے فطری تقاضوں کے فطری جواب دیے ہیں اور دونوں کا دامن ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیا ہےکہ اب اس کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، دونوں میں سے کون پہلے طہور میں آیا تھا؛ تقاضے پہلے پیدا ہوئے تھے یا ان کے جوابوں نے پہلے سر اٹھایا تھا! چنانچہ جب ہم کوئی فطری تقاضا محسوس کرتے ہیں تو ہمیں پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ اس کا جواب بھی ضرور موجود ہو گا۔ اس حقیقت میں ہمیں کبھی شبہ نہیں ہوتا۔

صفحہ 145

مثلا! ہم دیکھتے ہیں انسان کی بچہ کی دماغی نشوونما اور اس کی قوت محاکات کے ابھرنے کے لیے مثالوں اور نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے؛ وہ مثالوں اور نومونوں کے بغیر ہی اپنی فطری قوتوں کو ان کی اصلی چال نہیں چلا سکتا۔ -25- حتی کہ بات کرنا بھی نہیں سیکھ سکتا، جو اس کے مرتبۂ انسانیت کا بنیادی وصف ہے؛ اور چونکہ یہ اس کی فطری طلب ہے، اس لیت ضروری تھا کہ خود فطرت ہی نے اسے اول روز سے اس کا جواب بھی مہیا کر دیا ہوتا۔ چنانچہ یہ جواب پہلے "ماں" کی ہستی میں ابھرتا ہے، پھر "باپ" کے منمونے میں سر اٹھاتا ہے۔ پھر روز بروز اپنا دامن پھیلاتا جاتا ہے۔ اب غور کیجیے کہ اس صورت حال کا یقین کس طرح ہمارے دماغوں میں بسا ہوا ہے! ہم کبھی اس میں شک کر ہی نہیں سکتے۔ ہمارے دماغوں میں یہ سوال اٹھتا ہی نہیں کہ بچے کے لیے والدین کا نمونہ ابتدا ہی سے کام دیتا آیا ہےیا بعد کو انسانی بناوٹ نے پیدا کیا ہے! کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک فطری مطالبہ ہےاور فطرت کے تمام مطالبے جبھی سر اٹھاتے ہیں ، جب اس کے جواب کا بھی سروسامان مہیا ہوتا ہے۔
ٹھیک اسی طرح اگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی دماغ کی نشوو نما ایک خاص درجہ تک پہنچ کر ان تمام نمونوں سے آگے بڑھ جاتی ہے جو اس کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں اور اپنے عروج اور ارتقا جاری رکھنے کے لیے اوپر کی طرف دیکھنے کے لیے مجبور ہو جاتی ہے، تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ اس کی ہستی کا ایک فطری مطالبہ ہے۔ اور اگر فطری مطالبہ ہے تو اس کا فطری جواب بھی خود اس کی پستی کے اندر ہی موجود ہو، اور اس کے ہوش و خرد نے آنکھیں کھولتے ہی اسے اپنے سامنے دیکھ لیا ہو۔ یہ جواب کیا ہو سکتا ہے؟ جس قدر جستجو کرتے ہیں ، خدا کی ہستی کے سوا اور کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ آسٹریلیا کے وحشی قبائل سے لے کر تاریخی عہد کے متمدن انسانوں تک کوئی بھی اس تصور کی امنگ سے خالی نہیں رہا۔ رگ وید کے زمزموں کا فکری مواد اس وقت بننا

صفحہ 146

شروع ہوا تھا جب تایخ کی صبح بھی پوری طرح طلوع نہیں ہوئی تھی۔ اور حیتوں (Hittites -27- ) عیلامیوں نے جب اپنے تعبدانہ تصورات کے نقش و نگار بنائے تھے، تو انسانی تمدن کی طفولیت نے ابھی ابھی آنکھیں کھولی تھیں۔ مصریوں نے ولادت مسیح سے ہزاروں سال پہلے اپنے خدا کو طرح طرح کے ناموں سے پکارا ، اور کالڈیا کے صنعت گروں نے مٹی کی پکی ہوئی اینٹوں ہر حمد ثنا کے وہ ترانے کندہ کیے، جو گزری ہوئی قوموں سے انہیں ورثے میں ملے تھے:

درہیچ پردہ نیست ، نہ باشد نوائے تو
عالم پراست از تو و خالیست جائے تو

ابو الفضل -31- نے عبادت گاہ کشمیر کے لیے کیا خوب کتبہ تجویز کیا؛ " الٰہی ، بہ ہر خانہ کہ می نگرم جویائے تو اندو بہ ہرزبان کہ می شنوم، گویائے تو"

اے تیر غمت را دل عشاق نشانہ
خلقے بہ تو مشغول و تو غائب زمیانہ
گہ معتکف دیرم و گہ ساکن کعبہ
یعنی کہ ترا می طلبم خانہ بہ خانہ -32-

ابولکلام
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 147

قلعہء احمد نگر
۱۸ اکتوبر ۱۹۴۲ء

صدیق مکرّم
کل کا مکتوب کاغذ پر ختم ہو چکا تھا، لیکن دماغ میں ختم نہیں ہوا تھا۔ اس وقت قلم اٹھایا تو پھر خیالات اسی رُخ پر بڑھنے لگے ۔
غور فکرکی یہی منزل ہے جو ہمیں ایک دوسری حقیقت کی طرف بھی متوّجہ کردیتی ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ انسان خدا کے ماوراے تعقّل اورغیر شخصی تصّور پر قانغ نہ ره سکا اورکسی نہ کسی شکل میں اپنے فکر و احساسات کے مطابق ایک شخصی تصوّر پیدا کرتا رہا؟ میں ”شخصی“ تصور اُس معنی میں بول رہا ہوں؛ جس معنی میں"پرسنل گاڈ“ (Personal God) کی اصطلاح بولی جاتی ہے۔ شخصی تصّور کے مختلف مدارج ہیں؛ ابتدائی درجہ تو شخصِ محض کا ہوتا ہے، جو صرف شخصیت کا اثبات کرنا ہے، لیکن پھر آگے چل کر یہ شخصیت خاص خاص صفتوں اور فعالیتوں کا جامہ پہن لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جامہ ناگزیر کیوں ہوا؟ اس کی علّت بھی یہی ہے کہ انسان کی فطرت کو بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے ، اور اس کی ضرورت کی پیاس بغیرایک مشخّص اورعلائق نواز تصور کے بجھ نہیں سکتی۔ حقیقت کچھ ہی ہو، لیکن یہ تصّور جب کبھی اُس کے سامنے آئیگا، تو تشخّص کی ایک نقاب چہره پرضرور ڈال لیگا ۔ یہ نقاب کبھی بھاری رہی کبھی ہلکی ہو گئی، کبھی ڈرانے والی رہی، کبھی لُبھانے والی بن گئی؛ لیکن کبھی چہرے سے اتری نہیں اور یہیں سے ہمارے دیدہ صورت پرست کی

صفحہ نمبر 148

ساری درماندگیاں شروع ہوگئیں:
برچہرہ حقیقت اگر ماند پردهء
جرمِ نگاهِ دیدہء صورت پرستِ ماست
دنیا میں وحدت الوجود (Pantheism) کے عقیدہ کا سب سے قدیم سرچشمہ ہندوستان ہے۔ غالباً یونان اور اسکندریہ میں بھی یہیں سے یہ عقیدہ پہنچا، اور مذہب افلاطونِ جدید (Neo- Platonism ) نے (جسے غلطی سے عربوں نے افلا طون کا مذہب خیال کیا تھا) اس پر اپنی اشراقی عمارتیں استوار کیں۔ یہ عقیدہ حقیقت کے تصور کو ہر طرح کے تصّوری تشخصات سے منزّہ کر کے ایک کامل مطلق اوربحُت تصّور قائم کردیتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ صفات متشکل نہیں ہو سکتیں، اور اگر ہوتی بھی ہیں، تو تعینات اور مظاہر کے اعتبار سے، نہ کہ ذات مطلق کی ہستی کے اعتبار سے۔ اس عقيدے کا روشناس اُس کی ذات کے بارے میں بجز اس کے ”ہے“ اور کچھ نہیں سکتا، یہاں تک کہ اشارہ بھی نہیں کرسکتا. اگر ہم اہنے اشارات کی پرچھائیں بھی اس پر پڑنے دہتے ہیں تو ذات مطلق، مطلق نہیں رہتی، تشخّص او حدود کے غبار سے آلودہ ہو جا تی ہے ۔ با با افغانی نے دو مصرعوں کے اندر سب کچھ کہہ دیا ہے:

مشکل حکا یتیست کہ ہر زره عینِ اُوست
امّا نمی تواں کہ اشارت باُو کنند ۳
یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے اوپنشیدوں نے نفی صفات کی راہ اختیار کی اور تنزیہ کی ”نیتی نیتی“ کو بہت دور تک لے گئے۔ ۔لیکن پھر دیکھیے، اسی ہندوستان کو اپنی پیاس اس طرح بجھانی پڑی کہ نہ صرف برہما(ذاتِ مطلق) کوایشور (ذاتِ متّصف و مشخّص) کی نمود میں دیکھنے لگے، بلکہ پتھر کی مورتیاں بھی تراش کر سامنے رکھ لیں کہ دل کے اٹکاؤ کا کوئی تو ٹھکانہ سامنے رہے:

صفحہ 149


کرے کیا کعبہ میں جو سرِّ تبخانہ سے آگاہ ہے
یہاں تو کوئی صورت بھی ہے، واں اللہ ہی اللہ ہے۴

یہودیوں نے خدا کو ایک قاہروجابر شہنشاہ کی صورت میں دیکھا ، اور اسرائیل کے گھرانے سے اس کا رشتہ ایسا ہوا جیسا ایک غیور شوہر کا اپنی چہیتی ۵ بیوی کے ساتھ ہوتا ہے۔ شوہر اپنی بیوی کی ساری خطائیں معاف کر دیگا، مگر اس کی بیوفائی کبھی معاف نہیں کریگا، کیونکہ اس کی غیرت گواہ نہیں کرتی کہ اس کی محبّت کے ساتھ کسی دوسرے کی محبّت بھی شریک ہو۔ إن الله لا یَغفُر اَن یُشَرکَ بِه وَیَغفِرُ مَا رُونَ ذالِکَ َلمَن یَشَاءُ۔ چنانچہ تورات کے احکا م عشرہ میں ایک حکم یہ تھا: ” تو کسی چیز کی مورتی نہ بنائیو، نہ اس کے آگے جھکیو ، کیونکہ میں خداوند تیرا خدا ایک غیور خدا ہوں۔“ لیکن پھر زمانہ جوں جوں بڑھتا گیا، یہ تصّور بھی زیادہ وسعت اور رقّت پید اکرتا گیا۔ یہاں تک کہ یسعیا [ہ] Isaiah) ؂ ثانی کے زمانے میں اُس تصور کی بنیادیں پڑنے لگیں جو آگے چل کر مسیحی تصور کی شکل اختیار کرنے والا تھا ۔ چنانچہ مسیحیت نےشوہر کی جگہ باپ؂۲ کو دیکھا کیونکہ باپ اپنے بچوں کے لیے سر تا سر رحم و شفقت اور یک قلم عفو در گذر ہوتا ہے:
۱؂ انيسوین صدی میں بائبل کے نقد و تدبّر کا جو مسلک ”انتقاِ اعلیٰ “ کے نام سے اختیار کیا گیا تھا ، اس کے بعض فیصلے آج تک طے شدہ سمجھے جا تے ہیں؛ از آنجملہ یہ کہ یسعيا ه نبی کے نام سے جوصحیفہ موجود ہے، وہ تین مختلف مصنّفوں نے تین مختلف زمانوں میں مرتّب کیا ہو گا۔ باب اوّل سے باب ۳۹ تک ایک مصنف کا کلام ہے، باب ۴۰ سے باب ۵۵ آیت ۱۳ تک دوسرے مصنف کا، اور اس کے بعد کا آخری حصّہ تیسرے کا۔ ان تینوں مصنّفوں کوامتیاز کے لیے یسعيا ْہ اول، ثانی اور ثالث سے موسوم کیا جا تا ہے ۔
۲؂ ہندو تصور نے باپ کی جگہ ماں کی تمثیل اختیار کی تھی، کیونکہ ماں کی محبت باپ کی محبت سے بھی زیادہ گہری اورغیرمتزلزل ہوتی ہے۔


صفحہ 150

من بدکنم وتو بد مکافات دہی
پس فرق میانِ من و تو چیست بگو۸
اسلام نے اپنے عقیدہ کی بنیاد سرتاسر تنزیر پر رکھی ہے۔ لَیسَ کَمِثلِہِ شئ ۹ میں تشبیہ کی ایسی عام اور قطعی نفی کر دی کہ ہمارے تصوری تشخّص کے لیے کچھ بھی نہیں رہا لَا تَضربُو ِللہِ الاُمثَالَ ۱۰ نے تمثیلوں کے سارے دروازے بند کر دیے۔ لَا تُدرِکُہُ الَا بصَارُ ۱۱ اور لَن تَرانِی وَلَكِن اُنظُراِلی الجبَلِ ۱۲ نے ادراک حقیقت کی کوئی اُمید باقی نہ چھوڑی:

زبان ببند و نظر باز کن کہ منعِ کلیم
اشارت از ادب آموزی تقاضائي ست ۱۳
تاہم انسان کے نظّاره تصّور کے لیے اسے بھی صفات کی ایک صورت آرائی کرنی ہی پڑی اورتنزیہ مطلق نےصفاتی تشخّص کا جامہ پہن لیا وَللہِ الَاسماءُ الحُسنیٰ فَادعُوہُ بِھَا ۱۴ اور صرف اتنے پر ہی معاملہ نہیں رُکا ، جا بجا مجازات کے جھروکے بھی کھولنے۔ پڑے بَل یَدَاہُ مَبسُوطَتَانِ ۱۵ یَدُاللہِ فَوقَ اَیدیھِم ۱۶ اور مَارَمَیت اِذ رَمَیتَ وَلکِنَّ اللہَ رَمیٰ ۱۷ اور الرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ اِستَویٰ ۱۸ اور اَنّ رَبَّکَ لَبِاالمِرصَاد۱۹ اور کُلَّ یَوم ھُوَا فِی شَانِ ۲۰:

ہرچند ہو مشاہدہ حق میں گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۲۱
اس سے معلوم ہوا کہ بلندی کے ایک نصب العین کی طلب انسان کی فطرت کی طلب ہے اور وہ بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہوسکتی، جوکسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے اور سامنے جبھی آسکتا ہے کہ اس کے مطلق اور غیر مشخّص چہرہ پر کوئی نہ کونی نقاب تشخص کی پڑ گئی ہو:

صٖفحہ 151


آہ ازاں حوصلہء تنگ و ازاں حسنِ بلند
کہ ولم را گلہ از حسرت ِ دیدار تو نیست۲۲
غیر صفاتی تصوّر کو انسانی دماغ پکڑ نہیں سکتا، اور طلب اُسے ایسے مطلوب کی ہوئی، جو اس کی پکڑ میں آ سکے۔ وہ ایک ایسا جلوہء محبوبی چاہتا ہے، جس میں اس کا دل اٹک سکے، جس کے حسنِ گریزاں کے پیچھے والہانہ دوڑ سکے، جس کا دامنِ کبریائی پکڑنے کے لیئےاپنا دستِ عجزونیاز بڑھا سکے، جس کے ساتھ رازونیازِ محبّت کی راتیں بسر کر سکے، جو اگرچہ زیادہ سے زیادہ بلندی پر ہو، لیکن پھر بھی اسے ہر دم جھانک لگائے تانک رہا ہو لہ اِنَّ رَبَّکَ لَباالمَرصَاد ۱؂ا ور وَاِذَا اَسئَلَک عِبادِی عَنِّی فَاِنّیٰ قَرِیبُ اُجِیبُ دَعوَۃَ الدَّاعِ اِذاَ دَعَانِ۲؂۔
درپردہ برہمہ کس پردہ می دری
باہر کسی وباتو کسے را وصال نیست
غیر صفاتی تصّورِ محض نفی و سلب ہوتا ہے، مگر صفاتی تصور نفیِ تشبّہ کے ساتھ ایک ایجابی صورت بھی متشکل کر دیتا ہے۔ اسی لیئے یہاں صفات کی نقش آرائیاں ناگزیر ہوئیں، اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں علمائے سلف اور اصحابِ حدیث نے تفویض کا مسلک اختیار کیا اور تاویلِ صفات سے گریزاں رہے اور اِسی بِنا پر انھوں نے جہمیہ کے انکارِ صفات کو تعطّل سے تعبیر کیا اور معتزلہ و متکلّمین کی تاویلوں میں بھی تعطیل کی بُو سونگھنے لگے۔ متعکلمین نے اصحابِ حدیث کو تشّبہ اور تجسُّم ( Anthropolomorphism) کا الزام دیا تھا، مگر وہ کہتے تھے، تمہارے تعطّل سے تو ہمارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱؂ بلا شبہ تیرا پروردگار تجھے ہر دم جھانک لگائے تاک رہا ہے۔
۲؂ اے پیغمبر ! جب میری نسبت میرے بندے تجھ سے دریافت کریں تو( اُن سے کہہ دے) میں ان سے دُور کب ہوں؟ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top