غُبارِ خاطر از مولانا ابُو الکلام آزاد

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 45

کی حالت ہو یا سفر کی، ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں، جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل و دماغ کی افسردگیا، کوئی حالت ہو لیکن اس وقت کی مسٰھائیاں افتادگانِ بسترِ الم سے کبھی تغافل نہیں کر سکتیں :

23- فیضے عجبے یافتم از صبح ببینید،
ایں جادہ روشن رہِ میخانہ نہ باشد (3)​

میں ایک کُوپے (4) میں سفر کر رہا ہوں۔ اِس میں چار کھڑکیاں ہیں؛ دو بند تھیں دو کُھلی تھیں۔ میں نے صبح اُٹھتے ہی دو بند بھی کھول دیں۔ اب ریل کی رفتار جتنی گرم ہوتی جاتی ہے اُتنی ہی ہوا کے جھونکوں کی خنکی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ جس بستر کرب پر ناخوشی (*) کی کلفتوں نے گرا دیا تھا، اُسی پر نسیم صبح گاہی کی چارہ فرمائیوں نے اب اُٹھا کے بٹھا دیا ہے۔ شاید کسی ایسی ہی رات کی صبح ہو گی، جب خواجہ شیراز کی زبان سے بے اختیار نکل گیا تھا : (5)

24- خوشش بادا نسیم صبح گاہی
کہ دردِ سب نشینان را دوا کرد​

ٹرین آج کل کے معمول کے مطابق بے وقت جا رہی ہے۔ جس منزل سے اس وقت تک گزر جانا تھا، ابھی تک اس کا کوئی سراغ دکھائی نہیں دیتا۔ سوچتا ہوں تو اس معاملہ خاص میں وقت کے معاملہ عام کی پوری تصویرنمایاں ہورہی ہے :

25- کس نمی گویدم از منزلِ آخر خبرے
صد بیاباں ہگوشت و دگرے درپیش است (6)​

رات ایک ایسی حالت میں کٹی جسے نہ تو اضطراب سے تعبیر کر سکتا ہوں، نہ سکون سے، آنکھ لگ جاتی تھی تو سکون تھا کھل جاتی تھی تو اضطراب تھا۔ گویا ساری رات دو متضاد خوابوں کے دیکھنے میں بسر ہو گئی۔ ایک تعمیر کی نقش آرائی کرتا تھا، دوسرا تخریب کی برہم زنی :

26- بیداری میانِ دو خواب ست زندگی،
گرد تخیل دو سراب ست زندگی

از لطمہء دو موج حبا بے دمیدہ است
یعنی طلسم نقش بر آب ست زندگی (7)​

-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(*) یہاں "ناخوشی" سے محض خوشی کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ فارسی کا "ناخوشی" مقصود ہے۔ فارسی میں بیماری کو ناخوشی کہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 46

تین بج کر چند منٹ گزرے تھے کہ آنکھ کھل گئی۔ صبح کی چائے کے لیے سفر میں یہ معمول رہتا ہے کہ رات کو عبد اللہ اسپرٹ کا چولہا اور پانی کی کیتلی، پانی بمقدار مطلوب (8) سے بھری ہوئی ٹیبل پر رکھ دیتا ہے۔ چائے دانی اس کے پہلو میں جگہ پاتی ہے کہ بحکم "وضع الشئی فی محلہ" یہی اس کا محلِ صحیح ہونا چاہیے مگر فنجان اور شکردانی کے لیے اُس کا قرب ضروری نہ ہوا کہ "وضے الشئی فی غیر محلہ" میں داخل ہو جاتا۔ اگر صبح رین بجے سے چار بجے کے اندر کوئی اسٹیشن آ جاتا ہے تو اکثر حالتوں میں عبد اللہ آ کر چائے دم دے دیتا ہے نہیں آتا تو پھر خود مجھے ہی اپنے دستِ شوق کی کامجویانہ سرگرمیاں کام میں لانی پڑتی ہیں۔ "اکثر حالتوں" کی قید اس لیے لگانی پڑی کہ تمام کلیوں کہ کلیہ بھی مستثنیات سے خالی نہیں ہے۔ بعض حالتوں میں گاڑی اسٹیشن پر رُک بھی جاتی ہے مگر عبد اللہ کی صورت نظر نہیں آتی۔ پھر جب نظر آتی ہے تو اس کی معذرتیں میری فکرِ کاوش آشنا کے لیے ایک دوسرا ہی مسئلہ پیدا کر دیتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ نسیم صبح گاہی کا ایک ہی عمل دو مختلف طبیعتوں کے لیے دو متضاد نتیجوں کا باعث ہو جاتا ہے۔ اس کی آمد مجھے بیدار کر دیتی ہے عبد اللہ اور سُلا دیتی ہے۔ آلارم کی ٹائم پیس (9) بھی اس کے سرہانے رہنے لگی پھر بھی نتائج کا اوسط تقریباً یکساں ہی رہا۔ معلوم نہیں آپ اس اشکال کا حل کیا تجویز کریں گے مگر مجھے شیخ شیراز کا بتلایا ہوا حل مل گیا ہے اور اس پر مطمئن ہو چکا ہوں :

27- باراں کہ در لطافتِ طبعش خلاف نیست
در باغ لالہ روید و در شور بوم خس (10)​

بہتر حال چائے کا سامان حسب معمول مُرتب اور آمادہ تھا۔ نہیں معلوم آج اسٹیشن کب آئے؟ اور آئے بھی تو اس کا اطمینان کیونکر ہو کہ عبد اللہ کی آمد کا قاعدہ کلیہ آج ہی بحالت استثناء نموعار نہ ہو گا؟ میں نے دیا سلائی اٹھائی اور چولھا روشن کر دیا۔ اب چائے پی رہا ہوں اور آپ کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔ مقصود اس تمام دراز نفسی سے اس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطبت کے لیے تقریبِ سخن ہاتھ آئے :

28- نفسے بیادِ تومی زنم، چہ عبارت وچہ معانیم (11)​

چائے بہت لطیف ہے۔ چین کی بہترین قسموں میں سے ہے۔ رنگ اس قدر ہلکا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 47

کہ واہمہ پر اس کی ہستی مشتبہ ہو جائے۔ گویا ابو نواس والی بات ہوئی کہ : (12)

29- رق الزجاج و رقَت الخمر
فتشابھا، فتشا کل الامر​

کیف اس قدر تُند کہ بلامبالغہ اُس کا ہر فنجان قاآنی کے رطلِ گراں کی یاد تازہ کر دے :

30- شاقی بدہ رطلِ گراں، زاں مے کہ دہقاں پرورد (13)​

شاید آپ کو معلوم نہیں کہ چائے کے باب میں میرے بعض اختیارات ہیں۔ میں نے چائے کی لطافت و شیرنی کو تمباکو کی تندی و تلخی سے ترکیب دے کر ایک کیفِ مرکب پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں چائے کے پہلے گھونٹ کے ساتھ ہی متصلاً ایک سگریٹ بھی سُلگا لیا کرتا ہوں۔ پھر اس ترکیب خاص کا نقش عمل یوں جماتا ہوں کہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد چائے کا ایک گھونٹ لوں گا اور متصلاً سگریٹ کا بھی ایک کش لیتا رہوں گا۔ عِلمی اصطلاح میں اس صورت حال کو "علی سبیل التوالی والتعاقب" کہیے۔ اس طرح اس عمل کی ہر کڑی چائے کے ایک گھونٹ اور سگریٹ کے ایک کش کے باہم امتزاج سے بتدریج ڈھلتی جاتی ہے اور سلسلہ کاردراز ہوتا رہتا ہے۔ مقدار کے حسن تناسب کا انضباط ملاحظہ ہو کہ ادھر فنجان آخری جُرعہ سے خالی ہوا ادھر تمباکوئے آتش زدہ نے سگریٹ کے آخری خطِ کشید تک پہنچ کر دم لیا۔ کہا کہوں، ان دو اجزائے تند و لطیف کی آمیزش سے کیف و سرور کا کیسا معتدل مزاج ترکیب پذیر ہو گیا ہے۔ جی چاہتا ہے، فیضی کے الفاظ مستعار لُوں :

31- اعتدال معانی ازمن پرس
کہ مزاجِ سخن شناختہ ام (14)​

آپ کہیں گے، چائے کی عادت بجائے خود ایک علت تھی۔ اس پر مزید علت ہائے نافر جام کا اضافہ کیوں کیا جائے؟ اس طرح کے معاملات میں امتزاج و ترکیب کا طریقہ کام میں لانا، علتوں پر علتیں بڑھانا، گویا حکایت بادہ و تریاک کو تازہ کرنا ہے۔ میں تسلیم کروں گا کہ یہ تمام خود ساختہ عادتیں بلاشبہ زندگی کی تلخیوں میں داخل ہیں لیکن کیا کہوں جب کبھی معاملہ کے اس پہلو پر غور کیا، طبیعت اس پر مطمئن نہ ہو سکی کہ زندگی کو غلطیوں سے یکسر
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 223

(20)

قلعہ احمد نگر
18 مارچ 1943ء

صدیق مکرم

کل جو کہانی شروع ہو ئی تھی، وہ ابھی ختم کہاں ہوئی؟ آیئے آج آپ کو اس "منطق الطیر" (1) کا ایک دوسرا باب سناؤں۔ معلوم نہیں، اگر آپ سنتے ہوتے تو شوق ظاہر کرتے یا اکتا جاتے؟ لیکن اپنی طبیعت کو دیکھتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے داستان سرائیوں سے تھکنا بالکل بھول گئی ہو۔ داستانیں جتنی پھیلتی جاتی ہیں، ذوقِ داستان سرائی بھی اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے۔

380- فرخندہ شبے باید و خوش مہتابے
تابا تو حکایت کنم از ہربابے (1)​

ان یارانِ سقف و محاریب میں اور مجھ میں اب خوف و تذبذب کا اک ہلکا سا پردہ حائل رہ گیا تھا چند دنوں میں وہ بھی اٹھ گیا۔

انہیں چھت سے صوفے پر اُترنے کے لیے چند درمیانی منزلوں کی ضرورت تھی۔ اب یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ پہلی منزل کا کام پنکھے کے دستوں سے لیتے اور دوسری کا میرے سر اور کاندھوں سے۔ باہر سے اُڑتے ہوئے کمرے میں آئے اور سیدھے اپنے گھونسلے میں پہنچ گئے۔ پھر وہاں سے سر نکال کر ہر طرف نظر دوڑائی اور پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔ پھر وہاں سے اڑے اور سیدھے پنکھے کے دستے پر پہنچ گئے۔ پھر دستے سے جو کودے، تو کبھی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 224

میرے سر کو اپنے قدموں کی جولا نگاہ بنایا، کبھی کاندھوں کو اپنے جلوس سے عزت بخشی۔ دیکھیے ان چڑیوں نے نہیں معلوم کتنے برسوں کے بعد مومن خان کی ترکیب بند یاد دلا دیا!

جولاں کو ہے اس کی قصدِ پامال
اے خاک! نوید سرفرازی (2)​

پہلی دفعہ تو اس ناگہانی نزول اجلال نے مجھے چونکا دیا تھا اور شرمندگی کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ چونک کر ہل گیا تھا۔ پھر قدرتی طور پر ان آشنایانِ زود گسل پر یہ ناقدر شناسی گراں گزری ہو گی۔ لیکن یہ جو کچھ ہوا محض ایک اضطراری سہو تھا۔ طبیعت فوراً متنبہ ہو گئی۔ اور پھر تو سر اور کاندھا کچھ ایسا بے حس ہو کر رہ گیا کہ منارہ کی چھتری کی جگہ بالا خانے کا کام دینے لگا۔ پنکھے سے اتر کر سیدھے کاندھے پر پہنچتے۔ کچھ دیر چہچہاتے اور پھر کُود کر صوفے پر پہنچ جاتے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ کاندھے پر سے جَست لگائی اور سر پر جا بیٹھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اتشی قندہاری نے اپنی آنکھوں کی کشتی بنائی تھی۔ بدایونی نے اس کا شعر نقل کیا ہے۔ (3)

381- سر شکم رفتہ رفتہ بے تو دریا شد، تماشا کن
بیا، در کشتی چشمم نشین و سیر دریا کن​

اور ہمارے سودا کو تامل ہوا تھا۔ (4)

آنکھوں میں دوں آئینہ رُو کو جگہ ولے
ٹپکا کرے ہے بسکہ یہ گھر، نم بہت ہے یاں​

لیکن میری زبان حال کو شیخ شیراز کی التجائے نیاز مستعار لینی پڑی : (5)

383- گربرسر و چشم من نشینی
نازت بگشم کہ ناز نینی​

جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو خیال ہوا اب ایک اور تجربہ بھی کیوں نہ کر لیا جائے؟ ایک صبح میں نے دانوں کا برتن کچھ نہیں رکھا، مہمانان باصفا بار بار آئے اور سفرہ ضیافت دکھائی نہیں دیا تو ادھر اُدھر چکر لگانے اور شور مچانے لگے۔ اب میں نے برتن نکال کے ہتھیلی پر رکھ لیا اور ہتھیلی صوفے پر رکھ دی۔ جونہی قلندر کی نظر پڑی۔ معاً جست لگائی اور ایک چکر لگا کے انگوٹھے پر آ کھڑا ہوا اور پھر تیزی کے ساتھ دانوں پر چونچ مارنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 225

لگا۔ اس تیزی میں کچھ تو طبع قلندرانہ کا قدرتی تقاضہ تھا اور کچھ یہ وجہ بھی ہو گی کہ دیر تک دانوں کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ چونچ کی تیز ضربوں سے دانے اُڑ اُڑ کر ڈھکنے سے باہر گرنے لگے۔ ایک دانہ انگلی کی جڑ کے پاس گر گیا، اس نے فوراً وہاں بھی ایک چونچ مار دی اور ایسی خارا شگاف ماری کہ کیا کہوں۔ اگر ان ستم پیشوں کے جور و جفا کا خوگر نہ ہو چکا ہوتا تو یقین کیجیے، بے اختیار منہ سے چیخ نکل جاتی۔

383- من کشتہ کرشمہ مژگان کہ برجگر
خنجر زد آن چناں کہ نگہ راخبر نہ شد (6)​

اب میں نے ہتھیلی برتن سمیت اُوپر اٹھا لی اور ہوا میں معلق کر دی۔ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ ایک دوسری چڑیا آئی۔ ابھی تھوڑی دیر کے بعد آپ کو معلوم ہو گا کہ اس کا نام موتی ہے۔ موتی نے ہتھیلی کے اُوپر ایک دو چکر لگائے اور نکل گئی گویا اندازہ کرنا چاہتی تھی اس جزیرہ پر اُترنے کے لیے محفوظ جگہ کون سی ہو گی۔ پھر دوبارہ آئی اور کہنی کے پاس اُتر کر سیدھی پہنچے تک پہنچ گئی اور پہنچے سے ہتھیلی کی خاکنائے پر اُتر کر بے تکان "منقار درازیاں" شروع کر دیں۔ اس میں کوئی دانہ قاب کے باہر گر گیا، تو چونچ کا ایک نشتر اس پر بھی لگا دیا۔ دیکھیے "دست درازی" کی ترکیب میں تصرف کر کے مجھے "مِنقار درازی" کی ترکیب وضع کرنی پڑی۔ جانتا ہوں کہ محاورات میں تصرفات کی گنجائش نہیں ہوتی، مگر کیا کیا جائے، سابقہ ایسے یارانِ کوتہ آستین سے آ پڑا، جو ہاتھ کی جگہ منہ سے "دراز دستیاں" کرتے ہیں۔

384- در از دستی ایں کوتہ آستیناں بیں! (7)​

لیکن اس آخری تجربے نے طبع کاوش پسند کو ایک دوسری ہی فکر میں ڈال دیا۔ ذوقِ عشق کی اس کوتاہی پر شرم آئی کہ ہتھیلی موجود ہے اور میں نامراد ٹین کے ڈھکنے پر ان منقاروں کی نشتر زنی ضائع کر رہا ہوں۔ میں نے دوسرے دن ٹین کا ڈھکنا ہٹا دیا۔ چاول کے دانے ہتھیلی پر رکھے اور ہتھیلی پھیلا کر صوفے پر رکھ دی۔ سب سے پہلے موتی آئی اور گردن اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی کہ آج ڈھکنا کیوں دکھائی نہیں دیتا! تو یہ اس بستی کی سب سے زیادہ خوبصورت چڑیا ہے۔ آج کل حسن کی نمائشوں میں خوبروئی اور دالآویزی کا جو فتنہ گر سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ اسے پورے ملک کی نسبت سے موسوم کر دیا کرتے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 226

ہیں۔ مثلاً کہیں گے مس انگلینڈ۔ مادی موازیل (Made Moiselle) فرانس (8)۔ گویا یاک حسین چہرے کے چمکنے سے سارے ملک و قوم کا چہرہ دمک اٹھتا ہے۔

385- کند خویش و تبار از تونازومی زیبد
بہ حسنِ یک تن اگر صدقبیلہ ناز کند!​

اگر یہ طریقہ موتی کے لیے کام میں لایا جائے تو اسے " مادام قلعہ احمد نگر " (9) سے موسوم کر سکتے ہیں۔

386- ایں نگاہیست کہ شایستہء دیدارے ہست (10)​

چھریرا بدن، نکلتی ہوئی گردن، مخروطی دُم، اور گول گول آنکھوں میں ایک عجیب طرح کا بولتا ہوا بھولا پن جب دانہ چگنے کے لیے آئے گی، تو ہر دانے پر میری طرف دیکھتی جائے گی۔ ہم دونوں کی زبانیں خاموش رہتی ہیں مگر نگاہیں گویا ہو گئی ہیں۔ وہ میری نگاہوں کی بولی سمجھنے لگی ہے، میں نے اس کی نگاہوں کو پڑھنا سیکھ لیا ہے۔ ہاوحشی یزدی نے ان معاملات کو کیا ڈوب کر کہا ہے۔ (11)

387- کرشمہ گرمِ سوال ست، لب مکن رنجہ
کہ احتیاج بہ پریسدن زبانی نیست​

بہر حال اس موقعہ پر بھی اس کی بے ساختہ نگاہوں نے مجھ سے کچھ کہا اور پھر بغیر کسی جھجک کے جست لگا کے انگوٹھے کی جڑ پر آ کھڑی ہوئی اور دانوں پر چونچ مارنا شروع کر دیا۔ یہ نہیں تھی، نشتر کی نوک تھی، جو اگر چاہتی تو ہتھیلی کے آرپار ہو جاتی مگر صرف چرکے لگا لگا کے رک جاتی تھی۔

388- یک ناوکِ کاری زکمان تو نخوردم
ہر زخمِ تو محتاج بہ زخمِ دگرم کرد، (12)​

ہر ہر مرتبہ گردن موڑ کے میری طرف دیکھتی بھی جاتی تھی۔ گویا پوچھ رہی تھی کہ درد تو نہیں رہا بھلا میں جاں باختہ لذتِ اَلم اس کا کیا جواب دیتا :

389- ایں سخن راچہ جواب است، تو ہم میدانی (13)​

مرزا صائب کا یہ شعر آپ کی نگاہوں سے گزرا ہو گا :
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 227

390- خویش را بر نوکِ مژگانِ ستم کیشاں زدم
آں قدر زخمے کہ دل میخواست در خنجر نہ بود (14)​

مُجھے اس میں اس قدر تصرف کرنا پڑا کہ مژگاں کی جگہ "مِنقار" کر دیا۔

391- خویش را بر نوکِ منقار ستم کیشاں زدم
آں قدر زخمے کہ دل میخواست در خنجر نہ بود (14)​

درد کا حال تو معلوم نہیں، مگر چونچ کی ہر ضرب جو پڑتی تھی، ہتھیلی کی سطح پر ایک گہرا زخم ڈال کے اٹھتی تھی۔

392- رسیدن ہائے منقارِ ہُما براستخواں غالب
پس از عمرے بیادم داد رسم و راہ پیکاں را (15)​

اس بستی کے اگر عام باشندوں سے قطع نظر کر لی جائے، تو خواص میں چند شخصیتیں خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ قلندر اور موتی سے آپ کی تقریب ہو چکی ہے، اب مختصراً ملا اور صوفی کا حال سن لیجیے۔ ایک چڑا بڑا ہی تنومند اور جھگڑالو ہے۔ جب دیکھو، زبان فرفر چل رہی ہے، اور سر اٹھا ہوا اور سینہ تنا ہوا رہتا ہے۔ جو بھی سامنے آ جائے، دو دو ہاتھ کیے بغیر نہیں رہے گا۔ کیا مجال کہ ہمسایہ کا کوئی چڑا اس محلہ کے اندر قدم رکھ سکے۔ کئی شہ زوروں نے ہمت دکھائی لیکن پہلے مقابلہ میں چت ہو گئے۔ جب کبھی فرش پر یارانِ شہر کی مجلس آراستہ ہوتی ہے، تو یہ سر و سینہ کو جنبش دیتا ہوا اور داہنے (16) بائیں نظر ڈالتا ہوا فوراً آ موجود ہوتا ہے، اور آتے ہی اُچک کر کسی بلند جگہ پہنچ جاتا ہے۔ پھر اپنے شیوہ خاص میں اس تسلسل کے ساتھ چوں چاں شروع کر دیتا ہے کہ ٹھیک ٹھیک قاآنی کے واعظکِ جامع کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے : (17)

393- وی واعظکے آمد در مسجد جامع
چوں برف ہمہ جامہ سپید از پاتا سر
چشمش بسوئے چپ و چشمش بسوئے راست
تاخود کے سلامے کند از منعم و مضطر
زانساں کہ خرامد بَہ رسَن مردِرَسَن باز​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 228

آہستہ خرامیدی و موزوں و مؤقر
فارغ نہ شدہ خلق زتسلیم و تشہد
برجست چو بوزینہ و نبشست بہ منبر
و انگہ بہ سر و گردن و ریش و لب و بینی
بس عشوہ بیا وردہ سخن کرد چنیں سر​

فرمائیے، اگر اس کا نام مُلا نہ رکھتا تو اور کیا رکھتا؟ ٹھیک اس کے برعکس ایک دوسرا چڑا ہے۔ تعرف الاشیاء باضدادہا۔ اُسے جب دیکھیے اپنی حالت میں گم اور خاموش ہے :

394- کاں را کہ کبر شد، خبرش باز نیامد (18)

بہت کیا، تو کبھی کبھار ایک ہلکی سے ناتمام چوں کی آواز نکال دی اور اس ناتمام چوں کا بھی انداز لفظ و سخن کا سا نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسی آواز ہوتی ہے، جیسے کوئی آدمی سر جھکائے اپنی حالت میں گم پڑا رہتا ہو، اور کبھی کبھی سر اٹھا کے "ہا" کر دیتا ہو :

395- تابو بیدرا شوی، نالہ کشیدم، ورنہ
عشق کا ریست کہ بے آہ و فغاں نیز کند (19)​

دوسرے چڑے اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں، گویا اس کی کم سخنی سے عاجز آ گئے ہیں۔ پھر بھی اس کی زبان کھلتی نہیں۔ البتہ نگاہوں پر کان لگائیے، تو ان کی صدائے خاموشی سنی جا سکتی ہے :

396- تو نظر بازنہ، ورنہ تغافل نگہ ست
تو زبان فہم نہ، ورنہ خموشی سخن ست (20)​

میں نے یہ حال دیکھا تو اس کا نام صوفی رکھ دیا اور واقعہ یہ ہے کہ یہ تلقب،

397- جامہ بود کہ برقامت او دوختہ بود! (30)​

صبح جب اس بستی کے تمام باشندے باہر نکلتے ہیں، تو برآمدہ اور میدان میں عجیب چہل پہل ہونے لگتی ہے۔ کوئی پُھول کے گملوں پر کُودتا پھرتا ہے۔ کوئی کروٹین کی شاخوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 229

میں جھولا جھولنے لگتا ہے۔ ایک جوڑے نے غسل کا تہیہ کیا اور اس انتظار میں رہا کہ کب پھولوں کے تختوں میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ جونہی پانی ڈالا گیا، فوراً حوض میں اُتر گیااور پروں کو تیزی کے ساتھ کھولنے اور بند کرنے لگا۔ ایک دوسرے جوڑے کو آس پاس پانی نہیں ملا تو فَتَیَمَمُؤا صَعِیدًا اطَیَباً (22) پڑھتا ہوا مٹی ہی میں نہانا شروع کر دیا۔ پہلے چونچ مار مار کے اتنی مٹی کھود ڈالی کہ سینے تک ڈوب سکے۔ پھر اس گڑھے میں بیٹھ کر اس طرح پاکوبیاں اور پرافشانیاں شروع کر دیں کہ گرد و خاک کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ کچھ فاصلہ پر ملا حسب معمول کسی حریف سے کشتی لڑنے میں مشغول ہے۔ ان کے لڑنے کی خود فروشیوں کا بھی عجیب حال ہوتا ہے :

لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار نہیں (23)​

یعنی ہاتھ کو دیکھیے تو ہتھیار سے یک قلم خالی ہے، بلکہ سرے سے ہاتھ ہے ہی نہیں :

دہن کا ذکر کیا، یاں سر ہی غائب ہے گریباں سے (24)​

مگر چونچ کو دیکھیے تو سارے ہتھیاروں کی کمی پوری کر رہی ہے۔ جوشِ غضب میں آ کر اس طرح ایک دوسرے سے گُتھ جائیں گے کہ ایک دوسرے سے تمیز کرنا دشوار ہو جائے گا۔ گویا "جدال سعدی با مدعی در بیان توانگری و درویشی" (25) کا نظر آنکھوں میں پھر جائے گا :

398- او درمن ومن در و فتادہ! (26)​

ہوا میں جب کُشتی لڑتے ہوئے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے ہیں، تو انہیں اس کا بھی ہوش نہیں رہتا کہ کہاں گر رہے ہیں۔ کئی مرتبہ میرے سر پر گر پڑے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ تھی میری گود میں آ کر پڑ گئے، میں ایک کو ایک ہاتھ سے، دوسرے کو دوسرے سے پکڑ لیا :

میرے دونوں ہاتھ نکلے کام کے (37)​

سارا جسم مُٹھی میں بند تھا۔ صرف گردنیں نکلی ہوئی تھیں۔ دل اس زور سے دھڑ دھڑ کر رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا۔ اب پھٹا، اب پھٹا۔ لیکن اس پر بھی ایک دوسرے کو چونچ مارنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 230

سے باز نہیں رہ سکتے تھے۔ جب میں نے مٹھیاں کھول دیں، تو پُھر سے اُڑ کر پنکھے کے دستے پر جا بیٹھے، اور دیر تک چوں چوں کرتے رہے۔ غالباً ایک دوسرے سے کہہ رہتے تھے کہ :

399- رسیدہ بود بلائے، ولے بخیر گزشت (28)

موتی کے گھونسلے سے ایک بچے کی آواز عرصہ سے آ رہی تھی۔ وہ جب دانوں پر چونچ مارتی، تو ایک دو دانوں سے زیادہ نہ لیتی اور فوراً گھونسلے کا رخ کرتی۔ وہاں اس کے پہنچتے ہی بچے کا شور شروع ہو جاتا۔ ایک دو سکینڈ کے بعد پھر آتی اور دانہ لے کر اُڑ جاتی۔ ایک مرتبہ میں نے گنا تو ایک منٹ کے اندر سات مرتبہ آئی گئی۔

جن علمائے علم الحیوان نے اس جنس کے پرندوں کے خصائص کا مطالعہ کیا ہے، ان کا بیان ہے کہ ایک چڑیا دن بھر کے اندر ڈھائی سو سے تین سو مرتبہ تک بچے کو غذا دیتی ہے، اور اگر دن بھر کی مجموعی مقدارِ غذا بچے کے جسم کے مقابلہ میں رکھی جائے تو اس کا حجم (Mass) کسی طرح بھی بچے کے جسمانی حجم سے کم نہ ہو گا۔ مگر بچوں کی قوتِ ہاضمہ اس تیزی سے کام کرتی رہتی ہے کہ اِدھر دانہ ان کے اندر گیا اُدھر تحلیل ہونا شروع ہو گیا۔ یہی وجہ ہےکہ پرندوں کے بچوں کے نشو و نما کا اوسط چار پایوں کے بچوں کے اوسط سے زیادہ ہوتا ہے، اور بہت تھوڑی مدت کے اندر وہ بلوغ تک پہنچ جاتے ہیں۔ موتی کی رفتارِ عمل سے مجھے اس بیان کی پوری تصدیق مل گئی۔

پھر جوں جوں بچوں کے پَر بڑھنے لگتے ہیں، وجدان کا فرشتہ آتا ہے اور ماں کے کان میں سرگوشیاں شروع کر دیتا ہے کہ اب انہیں اُرنے کا سبق سکھانا چاہیے۔ معلوم ہوتا ہے، موتی کے کانوں میں یہ سرگوشی شروع ہو گئی تھی۔ ایک دن صبح کیا دیکھتا ہوں، گھونسلے سے اُڑتی ہوئی اتری تو اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ادھوری پرواز کے پر و بال کے ساتھ نیچے گر گیا۔ موتی بار بار اس کے پاس جاتی اور اڑنے کا اشارہ کر کے اُوپر کی طرف اڑنے لگتی لیکن بچے میں اثر پذیری کی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی تھی؛ وہ پَر پھیلائے آنکھیں بند کیے، بے حس و حرکت پڑا تھا۔ میں نے اسے اٹھا کے دیکھا تو معلوم ہوا ابھی پَر پوری طرح بڑھے نہیں ہیں۔ گرنے کی چوٹ کا اثر بھی تازہ ہے، اس نے بے حال کر دیا ہے۔ بے اختیار نظیری کا شعری یاد آ گیا : (29)
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 231

400- بہ وصلش تارسم، صدبار برخاک افگند شوقم
کہ نوپرواز و شاخِ بلندے آشیاں دارم​

بہرحال اسے اٹھا کے دری پر رکھ دیا۔ موتی چاول کے ٹکڑے چن چن کر منہ میں لیتی اور اسے کھلا دیتی۔ وہ منہ کھولتے ہوئے چوں چوں کی ایک مدھر اور اکھڑی سی آواز نکال دیتا اور پھر دم بخود، آنکھیں بند کیے پڑا رہتا۔ پورا دن اسی حالت میں نکل گیا۔ دوسرے دن بھی اس کی حالت ویسی ہی رہی۔ ماں صبح سے لے کر شام تک برابر اُڑنے کی تلقین کرتی رہی، مگر اس پر کچھ ایسی مُردنی سے چھا گئی تھی کہ کوئی جواب نہیں ملتا۔ میرا خیال تھا کہ یہ اب بچے گا نہیں لیکن تیسرے دن صبح کو ایک عجیب معاملہ پیش آیا۔ دھوپ کی ایک لکیر کمرہ کے اندر دور تک چلی گئی تھی، یہ اس میں جا کر کھڑا ہو گیا تھا؛ پر گرے ہوئے، پاؤں مڑے ہوئے، آنکھیں حسب معمول بند تھیں۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ یکایک آنکھیں کھول کر ایک جھرجھری سے لے رہا ہے۔ پھر گردن آگے کر کے فضا کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر گرے ہوئے پروں کو سکیڑ کر ایک دو مرتبہ کھولا، بند کیا، اور پھر جو ایک مرتبہ جست لگا کر اڑا، تو بیک دفعہ تیر کی طرح میدان میں جا پہنچا اور پھر ہوائی کی طرح فضا میں اُڑ کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ یہ منظر اس درجہ عجیب اور غیر متوقع تھا کہ پہلے تو مجھے اپنی نگاہوں پر شبہ ہونے لگا، کہیں کسی دوسری چڑیا کو اڑتے دیکھ کر دھوکے میں نہ پڑ گیا ہوں، لیکن ایک واقعہ جو ظہور میں آ چکا تھا، اب اس میں شبہ کی گنجائش کہاں باقی رہی تھی؟ کہاں تو بے حالی اور درماندگی کی یہ حالت کہ دو دن تک ماں سر کھپاتی رہی، مگر زمین سے بالشت بھر بھی اُونچا نہ ہو سکا اور کہاں آسمان پیمائیوں کا یہ انقلاب انگیز جوش کہ پہلی ہی اُڑان میں عالم حدود و قیود کے سارے بندھن توڑ ڈالے اور فضا لامتناہی کی ناپیدا کنار وسعتوں میں گُم ہو گیا! کیا کہوں، اس منظر نے کیسی خود رفتگی کی حالت طاری کر دی تھی۔ بے اختیار یہ شعر زبان پر آ گیا تھا اور اس جوش و خروش کے ساتھ آیا تھا کہ ہمسائے چونک اُٹھے تھے :

401- نیروئے عشق بیں کہ دریں دشتِ بیکراں
گامے نرفتہ ایم و بپایاں رسیدہ ایم​

دراصل یہ کُچھ نہ تھا، زندگی کی کرشمہ سازیوں کا ایک معمولی سا تماشا تھا، جو ہمیشہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 232

ہماری انکھوں کے سامنے سے گزرتا رہتا ہے، مگر ہم اسے سمجھنا نہیں چاہتے۔ اس چڑیا کے بچے میں اڑنے کی استعداد ابھر چکی تھی۔ وہ اپنے کنج نشیمن سے نکل کر فضائے آسمانی کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا، مگر ابھی تک اس کی "خود شناسی" کا احساس بیدار نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنی حقیقت سے بے خبر تھا۔ ماں بار بار اشارے کرتی تھی، ہوا کی لہریں بار بار پروں کو چھوٹی ہوئی گزر جاتی تھیں، زندگی اور حرکت کا ہنگامہ ہر طرف سے آ آ بڑھاوے دیتا تھا، لیکن اس کے اندر کا چولہا کچھ اس طرح ٹھنڈا ہو رہا تھا کہ باہر کی کوئی گرمجوشی بھی اسے گرم نہیں کر سکتی تھی :

402- کلیم شکوہ ز توفیق چند، شرمت باد!
تو چوں برہ نہ نہی پائے، رہنما چہ کند (30)​

لیکن جونہی اس کی سوئی ہوئی "خود شناسی" جاگ اٹھی، اور اسے اِس حقیقیت کا عرفان حاصل ہو گیا کہ "میں اُڑنے والا پرند ہوں۔" اچانک قالبِ بے جان کی ہر چیز از سرِ نو جاندار بن گئی۔ وہی جسم زار جو بے طاقتی سے کھڑا نہیں ہو سکتا تھا، اب سروقد کھڑا تھا۔ وہی کانپتے ہوئے گھٹنے جو جسم کا بوجھ بھی سہا نہیں سکتے تھے، اب تن کر سیدھے ہو گئے تھے۔ وہی گرے ہوئے پَر جن میں زندگی کی کوئی تڑپ دکھائی نہین دیتی تھی، اب سمٹ سمٹ کر اپنے آپ کو تولنے لگے تھے۔ چشم زدن کے اندر جوشِ پرواز کی ایک برق وار تڑپ نے اس کا پورا جسم ہلا کر اچھال دیا۔ اور پھر جو دیکھا، تو درماندگی اور بے حالی کے سارے بندھن ٹوٹ چکے تھے، اور مرغِ ہمت، عقاب وار فضائے لامتناہی کی لاانتہائیوں کی پیمائش کر رہا تھا۔ و لِلہ در مَا قُل :

403- بال ہکشا و صفیر از شجرِ طوبٰی زن
حیف باشد چو تو مرغے کہ اسیرِ قُفسی! (31)​

گویا بے طاقتی سے توانائی، غفلت سے بیداری، بے پروبالی سے بلند پروازی، اور موت سے زندگی کا پورا انقلاب چشم زدن کے اندر ہو گیا۔ غور کیجیے، تو یہی ایک چشم زدن کا وقفہ زندگی کے پورے افسانہ کا خلاصہ ہے :

404- طے میشود ایں رہ بدر خشیدنِ برقے
مابے خبراں منتظرِ شمع و چراغیم (32)​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 233

اُڑنے کے سرو سامان میں سے کونسی چیز تھی جو اس نوگرفتارِ قفسِ حیات کے حصے میں نہیں آئی تھی؟ فطرت نے سارا سرو سامان کر کے اسے بھیجا تھا، اور ماں کے اشارے دمبدم گرم پروازی کے لیے ابھار رہے تھے۔ لیکن جب تک اس کے اندر کی "خود شناسی" بیدار نہیں ہوئی، اور اس حقیقت کا عرفان نہیں ہوا کہ وہ طائرِ بلند پرواز ہے، اس کے بال و پَر کا سارا سرو سامان بیکار رہا۔ ٹھیک اسی طرح انسان کے اندر کی "خود شناسی" بھی جب تک سوئی رہتی ہے، باہر کا کوئی ہنگامہ سعی اسے بیدار نہیں کر سکتا۔ لیکن جونہی اس کے اندر کا عرفان جاگ اٹھا، اور اسے معلوم ہو گیا، کہ اس کی چھپی ہوئی حقیقت کیا ہے، تو پھر چشم زدن کے اندر سارا انقلابِ ھال انجام پا جاتا ہے، اور ایک ہی جست میں حضیض خاک سے اڑ کر رفعتِ افلاک تک پہنچ جاتا ہے۔ خواجہ شیراز نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا : (33)

405- چہ گویمت کہ تمے خانہ دوش مستِ خراب
سروشِ عالمِ غیم چہ مژدہا داد است
کہ اے بلدن نظرِ، شاہباز سِدرہ نشیں!
نشیمنِ تو نہ ایں کنج محنت آباد است
تراز کنگرہ عرش میزنند صفیر
ندائمت کہ دریں دامگہ چہ افتاد است

ابو الکلام​
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 234

(21)

قلعہ احمد نگر
11 اپریل 1943ء

406- آنچہ دل از فکر آں می سوخت بیم ہجر بود
آخر از بے مہریِ گردوں بہ آں ہم ساختیم (1)​

صدیق مکرم

اس وقت صبح کے چار نہین بجے ہیں، بلکہ رات کا پچھلا حصہ شروع ہو رہا ہے۔ دس بجے حسب معمول بستر پر لیٹ گیا تھا۔ لیکن آنکھیں نیند سے آشنا نہین ہوئیں۔ ناچار اُٹھ بیٹھا، کمرہ مین آیا، روشنی کی اور اپنے اشغال میں ڈوب گیا۔ پھر خیال ہوا قلم اٹھاؤں اور کچھ دیر آپ سے باتیں کر کے جی کا بوجھ ہلکا کروں۔ اِن آٹھ مہینوں میں جو یہاں گزر چکے ہیں، یہ چھٹی رات ہے جو اس طرح گزر رہی ہے اور نہیں معلوم ابھی اور کتنی راتیں اسی طرح گزریں گی۔

407- دماغ برفلک و دل بہ پائے مہر بتاں
چگو نہ حرف زنم، دِل کُجا، دماغ کُجا (2)​

میری بیوی کی طبیعت کئی سال سے علیل تھی۔ 1941ء میں جب میں نینی جیل میں مقید تھا، تو اس خیال سے کہ میرے لیے تشویش خاطر کا موجب ہو گا مجھے اطلاع نہیں دی گئی۔ لیکن رہائی کے بعدمعلوم ہوا کہ یہ تمام زمانہ کم و بیش علالت کی حالت میں گزرا تھا۔ مجھے قید خانہ میں اس کے خطوط ملتے رہے۔ ان میں ساری باتیں ہوتی تھیں لیکن اپنی بیماری کا
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 235

کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ رہائی کے بعدڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا تو اس سب کی رائے تبدیلِ آب و ہوا کی ہوئی اور وہ رانچی چلی گئی۔ رانچی کے قیام سے بظاہر فائدہ ہوا تھا۔ جولائی میں واپس آئی تو صحت کی رونق چہرہ پر واپس آ رہی تھی۔

اس تمام زمانے میں میں زیادہ تر سفر میں رہا۔ وقت کے حالات اس تیزی سے بدل رہے تھے کہ کسی ایک منزل میں دم لینے کی مہلت ہی نہیں ملتی تھی۔ ایک منزل میں ابھی قدم پہنچا نہیں کہ دوسری منزل سامنے نمودار ہو گئی۔

408- صد بیاباں بگزشت و دگرے درپیش ست (3)​

جولائی کی آخری تاریخ تھی کہ میں تین ہفتہ کے بعد کلکتہ واپس ہوا۔ اور پھر چار دن کے بعد آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس بمبئی کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی طوفان آیا نہین تھا مگر طوفانی آثار ہر طرف اُمڈنے لگے تھے۔ حکومت کے ارادوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں مشہور ہو رہی تھیں۔ ایک افواہ جو خصوصیت کے ساتھ مشہور ہوئی یہ تھی کہ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ورکنگ کمیٹی کے تمام ممبروں کو گرفتار کر لیا جائے گا اور ہندوستان سے باہر کسی غیر معلوم مقام میں بھیج دیا جائے گا۔ *

یہ بات بھی کہی جاتی تھی کہ لڑائی کی غیر معمولی حالت نے حکومت کو غیر معمولی اختیارات دے دیئے ہیں اور وہ اِن سے ہر طرح کا کام لے سکتی ہے۔ اس طرح کے حالات پر مجھ سے زیادہ زلیخا (4) کی نظر رہا کرتی تھی اور اس نے وقت کی صورت حال کا پوری طرح اندازہ کر لیا تھا۔ ان چار دنوں کے اندر جو میں نے دو سفروں کے درمیان بسر کیے میں اس قدر کاموں میں مشغول رہا کہ ہمیں آپس میں بات چیت کرنے کا موقعہ بہت کم ملا۔ وہ میری طبیعت کی اُفتاد سے واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس طرح کے حالات میں میری خاموشی بڑھ جاتی ہے اور میں پسند نہیں
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-​
* گرفتاری کے بعد جو بیانات اخباروں میں آئے، ان سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ افواہیں بے اصل نہ تھیں۔ سکرٹری آف اسٹیٹ اور وائسرائے کی یہی رائے تھی کہ ہمیں گرفتار کر کے مشرقی افریقہ بھیج دیا جائے اور اس غرض سے بعض انتظامات کر بھی لیے گئے تھے لیکن پھر رائے بدل گئی؛ اور بالآخر طے پایا کہ قلعہ احمد نگر میں فوجی نگرانی کے ماتحت رکھا جائے اور ایسی سختیاں عمل میں لائی جائیں کہ ہندوستان سے باہر بھیجنے کا جو مقصد تھا، وہ یہیں حاصل ہو جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 251

اس زمانے میں مدرسہ عالیہ کے پرنسپل تھے اور ایرانی لہجہ میں فارسی بولنے کے بہت شائق تھے۔ یہ دیکھ کر کہ ایک کمسن لڑکا فارسی کی ایک قلمی کتاب کو غور و خوض سے مطالعہ کر رہا ہے، متعجب ہوئے اور مجھے سے فارسی میں پوچھا "یہ کس مصنف کی کتاب ہے؟" میں نے فارسی میں جواب دیا کہ سیف خاں کی کتاب ہے اور فن موسیقی میں ہے۔ انہوں نے کتاب میرے ہاتھ سے لے لی اور خود پڑھنے کی کوشش کی۔ پھر کہا کہ ہندوستان کا فن موسیقی بہت مشکل فن ہے۔ کیا توم اس کتاب کے مطالب سمجھ سکتے ہو؟ میں نے کہا جو کتاب بھی لکھی جاتی ہے، اسی لیے لکھی جاتی ہے کہ لوگ پڑھیں اور سمجھیں۔ میں اسے پڑھوں گا تو سمجھ لوں گا۔ انہوں نے ہنس کر کہا : تم اسے نہیں سمجھ سکتے، اگر سمجھ سکتے ہو تو مجھے اس صفحہ کا مطلب سمجھاؤ۔ انہوں نے جس صفحہ کی طرف اشارہ کیا تھا، اس میں مبادیات کی تقسیموں کا بیان تھا۔ میں نے الفاظ پڑھ لیے مگر مطلب کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا اور بالآخر کہنا پڑا کہ اس وقت اس کا مطلب بیان نہیں کر سکتا بغور مطالعہ کرنے کے بعد بیان کر سکوں گا۔

میں نے کتاب لے لی اور گھر آ کر اسے اول سے آخر تک پڑھ لیا لیکن معلوم ہوا کہ جب تک موسیقی کی مصطلحات پر عبور نہ ہو اور کسی ماہر فن سے اس کی مبادیات سمجھ نہ لی جائیں، کتاب کا مطلب سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ طبیعت طالب علمی کے زمانے میں اس بات کی خوگر ہو گئی تھی کہ جو کتاب بھی ہاتھ آئی، اس پر ایک نظر ڈالی اور تمام مطالب پر عبور ہو گیا۔ اب جو یہ رکاوٹ پیش آئی تو طبیعت کو سکت اولجھن ہوئی اور خیال ہوا کہ کسی واقف کار سے مدد لینی چاہیے لیکن مدد لی جائے تو کس سے لی جائے؟ خاندانی زندگی کے حالات ایسے تھے کہ اس کوچہ سے رسم و راہ رکھنے والوں کے ساتھ ملنا آسان نہ تھا۔ آخر خیال مسیتا خان کی طرف گیا۔ اس پیشہ کا یہی ایک آدمی تھا جس کی ہماری یہاں گزر تھی۔

اس مسیتا خاں کا حال بھی قابلِ ذکر ہے۔ یہ سونی پٹ ضلع انبالہ کا رہنے والا تھا اور پیشہ کا خاندانی گویا تھا۔ گانے کے فن میں اچھی استعداد بہم پہنچائی تھی اور دہلی اور جے پور کے استادوں سے تحصیل کی تھی۔ کلکتہ میں طوائفوں کی معلمی کیا کرتا تھا۔

تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے (11)​

یہ والد مرحوم کی خدمت میں بیعت کے لیے حاضر ہوا۔ ان کا قاعدہ تھا کہ اس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 252

طرح کے لوگوں کو مرید نہیں کرتے تھے لیکن اصلاح و توجہ کا دروازہ بند بھی نہیں کرتے۔ فرماتے، بغیر بیعت کے آتے رہو دیکھو خدا کو کیا منظور ہے۔ اکثر حالتوں میں ایسا ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد لوگ خود بکود اپنا پیشہ چھوڑ کر تائب ہو گئے۔ چنانچہ مسیتا خاں کو بھی یہی جواب ملا۔ والد مرحوم جمعہ کے دن وعظ کے بعد جامع مسجد سے مکان آتے تو پہلے کچھ دیر دیوان خانہ میں بیٹھتے، پھر اندر جاتے؛ خاص خاص مرید پالکی کے ساتھ چلتے ہوئے آ جاتے اور اپنی اپنی معروضات پیش کر کے رخصت ہو جاتے۔ مسیتا خاں بھی ہر جمعہ وعظ کے بعد حاضر ہوتا اور دور فرش کے کنارے دست بستہ کھڑا رہتا۔ کبھی والد مرحوم کی نظر پڑ جاتی تو پوچھ لیتے مسیتا خاں کیا حال ہے؟ عرض کرتا حضور کی نظرِ کرم کا امیدوار ہوں۔ فرماتے ہاں اپنے دل کی لگن میں لگے رہو۔ وہ بے اختیار ہو کر قدموں پر گر جاتا اور اپنے آنسوؤں کی جھڑی سے انہیں تر کر دیتا۔ ہا، ذوق نے کیا خوب کہا ہے : (12)

ہوئے ہیں تر گریہ ندامت اس قدر آستین و دامن
کہ میری تر دامنی کے آگے عرق عرق پاک دامنی ہے​

کبھی عرض کرتا : "رات کے دربار میں حاضری کا حکم ہو جائے۔" یعنی رات کی مجلس خاص میں جو مریدوں کی تعلیم و ارشاد کے لیے ہفتہ میں ایک بار منعقد ہوا کرتی تھی۔ اسے والد مرحوم ٹال جاتے مگر ان کے ٹالنے کا بھی ایک خاص طریقہ تھا؛ فرماتے : اچھی بات ہے دیکھو ساری باتیں اپنے وقت پر ہو رہیں گی۔" وہ جاں باختہ امید و بیم، اتنے ہی میں نہال ہو جاتا اور رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے گھر کی راہ لیتا۔ خواجہ حافظ ان معاملات کو کیا ڈوب کر کہہ گئے ہیں : (13)

431- بحاجب درِ خلوت سرائے خاص بگو
"فلاں زگوشہ نشینانِ خاکِ درگہِ ماست"​

لیکن بالآخر اس کا عجز و نیاز اور صدق طلب رنگ لائے بغیر نہ رہا۔ والد مرحوم نے اسے مرید کر لیا تھا اور حلقہ میں بیٹھنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ اسے بھی کچھ ایسی توفیق ملی کہ طوائفوں کی نوچیوں کی معلمی سے تائب ہو گیا اور ایک بنگالی زمیندار کی ملازمت پر قناعت کر لی۔ والد مرحوم کو میں نے ایک مرتبہ یہ کہتے سنا تھا کہ مسیتا خاں کا حال دیکھتا ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 253

تو پیر چنگی (14) کی حکایت یاد آ جاتی ہے یعنی مولانا روم والے پیر چنگی کی :

432- پیر چنگی کے بود مردِ خُدا
حبذا اے سرِ پنہاں، حبذا (15)​

بہر حال میرا خیال اسی مسیتا خاں کی طرف گیا اور اس سے اس معاملہ کا ذکر کیا۔ پہلے تو اسے کچھ حیرانی سی ہوئی لیکن پھر جب معاملہ پوری طرح سمجھ میں آ گیا تو بہت خوش ہوا کہ مرشد زادہ کی نظر توجہ اس کی طرف مبذول ہوئی ہے لیکن اب مشکل یہ پیش آئی کہ یہ تجویز عمل میں لائی جائے تو کیسے لائی جائے؟ گھر میں جہا ہدایہ اور مشکٰوۃ (16) کے پڑھنے والوں کا مجمع رہتا تھا، سارا گا ما کی سبق آموزیوں کا موقع نہ تھا اور دوسری جگہ بالالتزام جانا اشکال سے خالی نہ تھا۔ بہر حال اس مشل کا ایک حل نکال لیا گیا اور ایک رازدار مل گیا جس کے مکان مین نشست و برخاست کا انتظام ہو گیا۔ پہلے ہفتہ میں تین دن مقرر کیے تھے پھر روز سہ پہر کے وقت جانے لگا۔ مسیتا خاں پہلے سے وہاں موجود رہتا اور دو تین گھنٹے تک موسیقی کے علم و عمل کا مشغلہ جاری رہتا :

433- عشق می ورزم و امید کہ ایں فن شریف
چوں ہنر ہائے دگر موجبِ حرماں نشود! (17)​

مسیتا خاں نے تعلیم کا صرف ایک ہی ڈھنگ رٹا ہوا تھا جو اس فن کے استادوں کا عام طریقہ ہوتا ہے۔ وہی اس نے یہاں بھی چلایا، لیکن میں نے اسے روک دیا اور کوشش کی کہ اپنے طریقے پر معلومات مرتب کروں۔ موسیقی کے آلات میں زیادہ تر توجہ ستار پر ہوئی اور بہت جلد اس سے انگلیاں آشنا ہو گئیں۔ اب سوچتا ہوں تو حسرت ہوتی ہے کہ وہ بھی کیا زمانہ تھا اور طبیعت کے کیا کیا ولولے تھے۔ میری عمر سترہ برس سے زیادہ نہ ہو گی لیکن اُس وقت بھی طبیعت کی افتاد یہی تھی کہ جس میدان میں قدم اٹھائیے، پوری طرح اُٹھائیے اور جہاں تک راہ ملے بڑھتے ہی جائیے۔ کوئی کام بھی ہو لیکن طبیعت اس پر کبھی راضی نہیں ہوئی کہ اُدھورا کر کے چھوڑ دیا جائے۔ جس کوچہ میں بھی قدم اُٹھایا اسے پوری طرح چھان کر چھوڑا۔ ثواب کے کام کیے تو وہ بھی پوری طرح کیے، گناہ کے کام کیے تو انہیں بھی ادھورا نہ چھوڑا۔ رندی کا کوچہ ملا تھا تو اس میں بھی سب سے آگے رہے تھے، پارسائی کی راہ ملی تو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 254

میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ طبیعت کا تقاضا ہمیشہ یہی رہا کہ جہاں کہیں جایئے ناقصوں اور خام کاروں کی طرح نہ جائیے۔ رسم و راہ رکھیے تو راہ کے کاملوں سے رکھیے۔ شیخ علی حزیں نے میری زبانی کہا تھا :

434- تادسترسم بود، زدم چاک گریباں
شرمندگی از خرقہ پسمینہ نہ دارم (18)

چنانچہ اس کوچہ میں بھی قدم رکھا تو جہاں تک راہ مل سکی، قدم بڑھائے جانے میں کوتاہی نہیں کی۔ ستار کی مشق چار پانچ سال تک جاری رہی تھی۔ بین سے بھی انگلیاں ناآشنا نہیں رہیں لیکن زیادہ دلبستگی اس سے نہ ہو سکی۔ پھر اس کے بعد ایک وقت آیا کہ یہ مشغلہ یک قلم متروک ہو گیا اور اب تو گزرے ہوئے وقتوں کی صرف ایک کہانی باقی رہ گئی ہے۔ البتہ انگلی پر سے مضِصراب کا نشان بہت دنوں تک نہیں مٹا تھا :

اب جس جگہ کہ داغ ہے، یاں پہلے درد تھا! (19)​

اس عالم رنگ و بو میں ایک روش تو مکھی کی ہوئی کہ شہد پر بیٹھتی ہے تو اس طرح بیٹھتی ہے کہ پھر اٹھ نہیں سکتی :

کہ پاؤں توڑ کے بیٹھے ہیں پائے بند ترے (20)​

اور ایک بھنورے (21) کی ہوئی کہ ہر پھول پر بیٹھے، بو باس لی اور اُڑ گئے :

ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش کام ہوئے اور چل نکلے (22)​

چنانچہ زندگی کے چمنستان ہزار رنگ کا ایک پھول یہ بھی تھا۔ کچھ دیر کے لیے رُک کر بو باس لے لی اور آگے نکل گئے۔ مقصود اس اشتغال سے صرف یہ تھا کہ طبیعت اس کوچہ سے ناآشنا نہ رہے کیونکہ طبیعت کا توازن اور فکر کی لطافت بغیر موسیقی کی ممارست کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب ایک خاص حد تک یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر مزید اشتغال نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ موانع کار کے حکم میں داخل ہو گیا تھا۔ البتہ موسیقی کا ذوق اور تاثر جو دل کے ایک ایک ریسے میں رچ گیا تھا، دل سے نکالا نہیں جا سکتا تھا اور آج تک نہیں نکلا :

جاتی ہے کوئی کش مکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا (23)​
 
Top