شمشاد
لائبریرین
صفحہ 45
کی حالت ہو یا سفر کی، ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں، جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل و دماغ کی افسردگیا، کوئی حالت ہو لیکن اس وقت کی مسٰھائیاں افتادگانِ بسترِ الم سے کبھی تغافل نہیں کر سکتیں :
میں ایک کُوپے (4) میں سفر کر رہا ہوں۔ اِس میں چار کھڑکیاں ہیں؛ دو بند تھیں دو کُھلی تھیں۔ میں نے صبح اُٹھتے ہی دو بند بھی کھول دیں۔ اب ریل کی رفتار جتنی گرم ہوتی جاتی ہے اُتنی ہی ہوا کے جھونکوں کی خنکی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ جس بستر کرب پر ناخوشی (*) کی کلفتوں نے گرا دیا تھا، اُسی پر نسیم صبح گاہی کی چارہ فرمائیوں نے اب اُٹھا کے بٹھا دیا ہے۔ شاید کسی ایسی ہی رات کی صبح ہو گی، جب خواجہ شیراز کی زبان سے بے اختیار نکل گیا تھا : (5)
ٹرین آج کل کے معمول کے مطابق بے وقت جا رہی ہے۔ جس منزل سے اس وقت تک گزر جانا تھا، ابھی تک اس کا کوئی سراغ دکھائی نہیں دیتا۔ سوچتا ہوں تو اس معاملہ خاص میں وقت کے معاملہ عام کی پوری تصویرنمایاں ہورہی ہے :
رات ایک ایسی حالت میں کٹی جسے نہ تو اضطراب سے تعبیر کر سکتا ہوں، نہ سکون سے، آنکھ لگ جاتی تھی تو سکون تھا کھل جاتی تھی تو اضطراب تھا۔ گویا ساری رات دو متضاد خوابوں کے دیکھنے میں بسر ہو گئی۔ ایک تعمیر کی نقش آرائی کرتا تھا، دوسرا تخریب کی برہم زنی :
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(*) یہاں "ناخوشی" سے محض خوشی کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ فارسی کا "ناخوشی" مقصود ہے۔ فارسی میں بیماری کو ناخوشی کہتے ہیں۔
کی حالت ہو یا سفر کی، ناخوشی کی کلفتیں ہوں یا دل آشوبی کی کاہشیں، جسم کی ناتوانیاں ہوں یا دل و دماغ کی افسردگیا، کوئی حالت ہو لیکن اس وقت کی مسٰھائیاں افتادگانِ بسترِ الم سے کبھی تغافل نہیں کر سکتیں :
23- فیضے عجبے یافتم از صبح ببینید،
ایں جادہ روشن رہِ میخانہ نہ باشد (3)
ایں جادہ روشن رہِ میخانہ نہ باشد (3)
میں ایک کُوپے (4) میں سفر کر رہا ہوں۔ اِس میں چار کھڑکیاں ہیں؛ دو بند تھیں دو کُھلی تھیں۔ میں نے صبح اُٹھتے ہی دو بند بھی کھول دیں۔ اب ریل کی رفتار جتنی گرم ہوتی جاتی ہے اُتنی ہی ہوا کے جھونکوں کی خنکی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ جس بستر کرب پر ناخوشی (*) کی کلفتوں نے گرا دیا تھا، اُسی پر نسیم صبح گاہی کی چارہ فرمائیوں نے اب اُٹھا کے بٹھا دیا ہے۔ شاید کسی ایسی ہی رات کی صبح ہو گی، جب خواجہ شیراز کی زبان سے بے اختیار نکل گیا تھا : (5)
24- خوشش بادا نسیم صبح گاہی
کہ دردِ سب نشینان را دوا کرد
کہ دردِ سب نشینان را دوا کرد
ٹرین آج کل کے معمول کے مطابق بے وقت جا رہی ہے۔ جس منزل سے اس وقت تک گزر جانا تھا، ابھی تک اس کا کوئی سراغ دکھائی نہیں دیتا۔ سوچتا ہوں تو اس معاملہ خاص میں وقت کے معاملہ عام کی پوری تصویرنمایاں ہورہی ہے :
25- کس نمی گویدم از منزلِ آخر خبرے
صد بیاباں ہگوشت و دگرے درپیش است (6)
صد بیاباں ہگوشت و دگرے درپیش است (6)
رات ایک ایسی حالت میں کٹی جسے نہ تو اضطراب سے تعبیر کر سکتا ہوں، نہ سکون سے، آنکھ لگ جاتی تھی تو سکون تھا کھل جاتی تھی تو اضطراب تھا۔ گویا ساری رات دو متضاد خوابوں کے دیکھنے میں بسر ہو گئی۔ ایک تعمیر کی نقش آرائی کرتا تھا، دوسرا تخریب کی برہم زنی :
26- بیداری میانِ دو خواب ست زندگی،
گرد تخیل دو سراب ست زندگی
از لطمہء دو موج حبا بے دمیدہ است
یعنی طلسم نقش بر آب ست زندگی (7)
گرد تخیل دو سراب ست زندگی
از لطمہء دو موج حبا بے دمیدہ است
یعنی طلسم نقش بر آب ست زندگی (7)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(*) یہاں "ناخوشی" سے محض خوشی کی نفی مقصود نہیں ہے بلکہ فارسی کا "ناخوشی" مقصود ہے۔ فارسی میں بیماری کو ناخوشی کہتے ہیں۔