شمشاد
لائبریرین
صفحہ 255
حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو!
میں آپ سے ایک بات کہوں! میں نے بارہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے۔ میں زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے :
436- مجھے اگر آپ زندگی کی رہی سہی راحتوں سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تو صرف اس ایک چیز سے محروم کر دیجیے آپ کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ یہاں احمد نگر کے قید خانے میں اگر کسی چیز کا فقدان مجھے ہر شام محسوس ہوتا ہے تو وہ ریڈیو سیٹ کا فقدان ہے :
جس زمانے میں موسیقی کا اشتعال جاری تھا، طبیعت کی خودرفتگی اور محویت کے بعض ناقابل فراموش احوال پیش آئے۔ جو اگرچہ خود گزر گئے لیکن ہمیشہ کے لیےی دامنِ زندگی پر اپنا رنگ چھوڑ گئے۔ اسی زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا۔ اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کی پچھلی پہر شروع ہونے کو ہوتی (27) تو چاند پردہ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا۔ پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا۔ کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریب تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں :
حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو!
435- سینہ گرم نداری مطلب صحبتِ عشق
آتشے نیست چودر مجمرہ اَت، عُود مخر (24)
آتشے نیست چودر مجمرہ اَت، عُود مخر (24)
میں آپ سے ایک بات کہوں! میں نے بارہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے۔ میں زندگی کی احتیاجوں میں سے ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے :
436- مجھے اگر آپ زندگی کی رہی سہی راحتوں سے محروم کر دینا چاہتے ہیں تو صرف اس ایک چیز سے محروم کر دیجیے آپ کا مقصد پورا ہو جائے گا۔ یہاں احمد نگر کے قید خانے میں اگر کسی چیز کا فقدان مجھے ہر شام محسوس ہوتا ہے تو وہ ریڈیو سیٹ کا فقدان ہے :
جس زمانے میں موسیقی کا اشتعال جاری تھا، طبیعت کی خودرفتگی اور محویت کے بعض ناقابل فراموش احوال پیش آئے۔ جو اگرچہ خود گزر گئے لیکن ہمیشہ کے لیےی دامنِ زندگی پر اپنا رنگ چھوڑ گئے۔ اسی زمانے کا ایک واقعہ ہے کہ آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا۔ اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کی پچھلی پہر شروع ہونے کو ہوتی (27) تو چاند پردہ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا۔ پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہو جاتا۔ کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریب تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں :