نیرنگ خیال
لائبریرین
الیکشن کا امتحان ۔۔۔ چہرہ۔۔۔۔ مظہر برلاس
سورج،شام کے آنگن میں اترا تو میرا عظیم دوست بولا کہ ’’… انسان اپنی خوشی کی انتہا کااظہار بھنگڑے یارقص کے ذریعے کرتے ہیں‘‘۔ دانشور کی بات پہ سوچتا رہا کہ گیارہ مئی کے ہونے والے انتخابات کتنے عجیب تھے کہ جیتنے والے بھنگڑے بھی نہ ڈال سکے،فقط ایک تقریر پر اکتفا کیاگیا،گیارہ مئی کی شام ملک کے اکثر حصوں میں بھنگڑا نہیں احتجاج ہو رہا تھا۔ اگر جمہوریت نام کی چیز میں اکثریت کافیصلہ اہم ہوتا ہے تو پھر اکثریت تو محو احتجاج تھی، اکثریت تو دھاندلی کا شور کررہی تھی،اکثریت کے شور میں اک صدا یہ بھی تھی کہ یہ الیکشن ’’ آر اوز‘‘ کا الیکشن تھا ’’لوگ ہار گئے‘‘ ’’وہ ‘‘ جیت گئے … خاکسار کوانتخابات سے قبل معلوم ہوچکا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے سواسی لئے میں ’’جیو الیکشن سیل‘‘ میں لڑتا رہا۔ میں وہاں ادا کئے گئے الفاظ پر اب بھی قائم ہوں، جس جس کی ہار کا کہا تھا،اس پر اب بھی قائم ہوں مگر تصدیق تو ہو جائے۔ ’’الیکشن سیل‘‘ میں ایک خاص جماعت کو جتوانے پر تلے ہوئے بہت سے پھرتیلے افراد میری رائے کو حماقت سمجھتے رہے۔ ان کی تمام آراء کے منہ پر (کراچی کے ایک حلقے کے67پولنگ اسٹیشنوں کے77ہزار جعلی ووٹ) زوردار طمانچہ ہے ابھی تو بہت سا سفر باقی ہے انسان کو جانبدار نہیں حقائق پسند ہونا چاہئے،حقائق تو یہی تھے کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں اتنی بڑی دھاندلی کبھی نہیں ہوئی جتنی گیارہ مئی کو ہوئی۔ 11مئی کو جمہوریت کے نام پر پاکستانیوں کے ساتھ’’ فراڈ‘‘ کیا گیا۔ رہے فخرو بھائی تو ان کے بارے میں کیا کہوں؟ اگر اتنے ہی قابل فخر الیکشن تھے تو الیکشن کے فوری بعد فخرو بھائی اچانک رخصت کیوں ہو گئے؟بے بسی کااظہار کس طرف سے ہوا، اب سیاہی کے نام پر مذاق کون کررہا ہے؟
میرے کالم گواہ ہیں کہ یہ عاصی و خاطی گزشتہ چار پانچ مہینوں سے مسلسل چیخ رہا ہے کہ الیکشن میں تاریخی دھاندلی ہوئی مجھے متعدد مرتبہ کہا گیا کہ اب دھاندلی کا پیچھا چھوڑ دیں، اب تو حکومت قائم ہوگئی،اب تواتنے مہینے ہوگئے وغیرہ وغیرہ۔ عرض اتنی سی ہے کہ میں لفظوں کاسوداگر تو ہوں نہیں جو لکھتا ہوں پاکستان کی محبت میں لکھتا ہوں، کسی سیاستدان کی خوشنودی میری منشا کبھی نہیں رہی،خدائے لم یزل نے مجھے قلم عطا کررکھا ہے،قلم کی حرمت کی پاسداری کرتا ہوں اور اہل قلم کیلئے جو حدیث مبارکہ ہے وہ ہردم میرے ساتھ رہتی ہے۔ موقف پر اب بھی قائم ہوں کہ تاریخی دھاندلی ہوئی،پانی پھیرنے کیلئے دلائل گھڑے جارہے ہیں لیکن یہ کارزیاں ہے۔ظلم کے راج کو ہمیشہ شکست ہوتی ہے۔گیارہ مئی کوظلم ہوا تھا، الیکشن نہیں سلیکشن ہوئی تھی، دھاندلی اور ناانصافی ہوئی تھی۔
الیکشن کے بعد میں کراچی سے اسلام آباد لوٹتے ہی ایک انتہائی اہم فرد سے ملا تو اس نے کہا کہ ’’جس روز دس حلقوں کے انگوٹھے کے نشانات چیک ہوگئے‘ سارا الیکشن مشکوک ہوجائے گا…‘‘۔ اس نے مجھے بتایا کہ الیکشن سے قبل ہم نے فخرو بھائی سے پوچھا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں یعنی ووٹوں سے کہیں زیادہ بیلٹ پیپرز کیوں چھپوائے جارہے ہیں، بھائی نے اتنا کہا کہ ’’وقت کی ضرورت ہے‘‘۔ تازہ ترین یہ ہے کہ بگٹی کیس میں سپریم کورٹ سے مشرف کی ضمانت ہو گئی ہے بات پھر الیکشن کی کرتے ہیں کہ جہاں دھاندلی کے بعد سوائے ایک جماعت کے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس الیکشن پر عدم اعتماد کیا گویا گیارہ مئی کے الیکشن قوم کی اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے تو اس ڈرامے کا پول بہت پہلے کھول دیا تھا، اب عمران خان، ڈاکٹر قادری کاساتھ نہ دے کر پشیمان ہیں۔ الیکشن میں ہونے والی دھاندلی پر سب سے زیادہ شور بھی عمران خان کی پارٹی نے مچایا، دھرنے بھی دیئے مگر ایکسرسائز کافائدہ نہ ہوا بلکہ عمران خان کو صرف لفظ کی ادائیگی بھی مہنگی پڑی ۔
سوال بڑا اہم ہے کہ ایم کیوایم نے بھی کہا کہ دھاندلی ہوئی،مولانا فضل الرحمن اور اسفند یارولی نے بھی شکایت کی کہ دھاندلی ہوئی ہے،اختر مینگل تو اتنے رنجیدہ تھے کہ حلف کے لئے تیار ہی نہ تھے ۔چوہدری شجاعت حسین نے پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ نتائج توقعات کے برعکس ہیں۔ تمام جماعتیں شاکی ہیں مگر ایک جماعت نہیں۔ قصر صدرات سے لاہور پہنچنے پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا مگر ہم جمہوریت کیلئے خاموش رہے۔ عمران خان کہتے ہیں الیکشن قبول کیا، دھاندلی قبول نہیں،چوہدری شجاعت حسین کے تبصرے کاکوئی ثانی نہیں،ان کا کہنا ہے کہ اگر کراچی کے ایک حلقے کی طرح پورے حلقے چیک ہوگئے تونوے فیصد الیکشن جعلی ہوگا۔ ایک اور جگہ چوہدری شجاعت حسین نے نہلے پہ دہلا مارا ہے کہ ’’… ووٹوں کی جہاں بھی تصدیق ہوگی،نتیجہ کراچی جیسا نکلے گا…‘‘۔ ایک حلقے کی اتنی بڑی دھاندلی نے پورے انتخابی عمل کو مشکوک بنادیا ہے۔ اب یہ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالے،انگوٹھوں کے نشان چیک کرائیں تاکہ دودھ کادودھ اور پانی کاپانی الگ ہو جائے ۔خاص طور پر لاہور سمیت وسطی پنجاب اور کوئٹہ کے علاوہ کراچی کے حلقے اس عمل میں شامل کئے جائیں کیونکہ زیادہ شکایات انہی حلقوں سے متعلق ہیں،میڈیا نے جو ثبوت دکھائے تھے وہ بھی انہی علاقوں کے ہیں۔ اگر انگوٹھوں کی تصدیق کے عمل میں کوئی پریشانی لاحق ہو تو متعلقہ اداروں سے میری گزارش ہے کہ پاکستان کے نامور سپوت ڈاکٹر فاتح الدین آج کل پاکستان آئے ہوئے ہیں، ان سے بھرپور مددلی جاسکتی ہے کہ انہیں ایسے کاموں پر مہارت ہے۔یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ڈاکٹر فاتح الدین کون ہے؟
اس سلسلے میں عرض کرتا چلوں کہ عمرکوٹ سندھ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فاتح الدین وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے سائبرکرائمز اور ڈیجیٹل فورینسک میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ دنیا کے کئی اداروں کو تربیت دے چکے ہیں، ان کے کام کی ایک دنیا معترف ہے۔حال ہی میں انہوں نے سائؤتھ افریقہ کے سرکاری بنک سے ملین ڈالرز کے سائبر کرائم کی تفتیش کی اور ان کیلئے انفارمیشن سسٹم کی سیکورٹی کو یقینی بنایا۔
برطانیہ اور مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں انفارمیشن، نیٹ ورک سیکورٹی اور فورینسک میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے نیٹ ورک پر ہونے والے حملے (ڈسٹری بیوئڈ ڈینائل آف سروس) کاتوڑ اور تفتیش ڈاکٹر فاتح الدین ہی نے کی تھی ۔نادرا کے کیوسکس پر افغانیوں کے جعلی پاکستانی شناختی کارڈز بننے کی تفتیش ، نیشنل بنک آف پاکستان کے اے ٹی ایم اسکیم کی انویسٹی گیشن انہوں نے ہی کی۔ ایک منی چینجر کمپنی کے مقدمے میں کامیابی پر ڈاکٹر فاتح الدین کو تمغۂ امتیاز کیلئے نامزد کیا گیا۔ پاکستانی عدالتوں، پولیس اور خفیہ اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے خاص مقدمات کاحل ڈاکٹر فاتح الدین کے ذریعے ڈھونڈیں،ویسے اتنا مشکل کام کرنے کے باوجود وہ شاعری بھی کرتے ہیں ان کا شعر ہے کہ
اصل آئینہ فقط ریت مگر صورت کش
نور کس آنکھ کا ہے دیدۂ زنگار کے پاس
کالم کا ربط
تدوین: یونیکوڈ کالم شامل کیا گیا ہے۔ تاکہ تلاش میں سہولت رہے۔
آخری تدوین: