جیہ
لائبریرین
اس سے پہلے کہ۔۔۔ فاتح کی ایک خوبصورت نظم ہے ۔ اس کی مزاحیہ تشریح پیش خدمت ہے
لیجئے جناب اس نظم کی مزاحیہ تشریح
اس سے پہلے کہ۔۔۔
عنوان سے ظاہر ہے کہ عشق میں ناکامیوں کے بعد شاعرِ موصوف دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ تو نظم سے معلوم ہوگا کہ یہ دھمکیاں قابل دست اندازئیِ پولیس ہیں کہ نہیں۔
اس سے پہلے کہ چاندنی ہو سیاہ
اس سے پہلے کہ آس بھی ہو تباہ
اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شاعر کو چند ماورائی طاقتیں حاصل ہیں جو کہ چاند کو ڈھانپ کر اس کی روشنی کو سیاہ کر سکتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا چاند کو کیسے ڈھانپتے ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال بیچ اس مسئلے کے یہ ہے کہ کھڑکیوں کے پردوں سے یہ کام لیا جائے گا۔ اور جب یہ سارا کام ہو جائے گا تو آس یعنی امید بھی آٹومیٹیکلی (یعنی خود بخود) ختم ہو جائے گی۔
اس سے پہلے کہ آرزو کھو جائے
اس سے پہلے کہ سانس گُم ہو جائے
دوسرے بند میں بھی دھمکیوں کا یہ سلسلہ فلسفیانہ انداز میں جاری ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ شاعر نے فلسفے کی ڈگری کس کالج لی ہے ۔ آیا وہ کالج ریکگنائزڈ بھی ہے؟ یا یہ ڈگری بھی ہمارے ممبرانِ اسمبلی کی ڈگریوں جیسی ہے۔ تو جناب یہاں آرزوؤں کے گم ہو جانے اور سانسوں کے چھڑ جانے ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ سانسوں کے بھی گم شدہ ہوجانے کا ذکر لطیف پیرائے میں کیا گیا ہے (یہ لطیف پیرایہ کیا چیز ہے یہ بات قابل تحقیق ہے!!!) آرزو اور سانس کیسے گم ہوتے ہیں اس کا ہمیں علم نہیں۔ غالب تو دل کے بھی گمشدہ ہونے سے انکاری ہے کہ دل کہاں کہ گم کیجئے ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ ہو ملال تمام
برف ہو جائیں یہ خیال تمام
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ ملالہ یوسفزئی کا کام تمام ہوجائے اور برف پڑنے سے خیالات نا دیدہ حالت سے دیدہ و دانستہ حالت پھر مایع اور آخر کار ٹھوس شکل اختیار کرکے برف بن جائے۔ اوہو یہ تو مجھے تسامح ہوا ہے یہ وہ والی ملالہ نہیں۔ یہ تو کسی ملال نامی آدمی کا ذکر ہے۔ بہر حال اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ شاعر کے ارادے ہرگز نیک نہیں۔
اس سے پہلے کہ ہو دمِ فریاد
راہیِ کوچۂ عدم آباد
اس شعر میں کسی اسٹریٹ کا ذکر ہے جو کہ عبد الحمید عدم نامی بادشاہ کے آباد کردہ شہر میں واقع ہے۔ اس شعر سے پتا چلتا ہے کہ شاعر کے خیالات پراگندہ ہیں یک دم دھمکیوں کو چھوڑ کر پلاٹ لینے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔
صبر کا سینہ چاک ہو جائے
قصۂ ہست پاک ہو جائے
یہاں پر پلاٹ خریدنے کا ارادہ کینسل کرکے پھر دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ اور چھریاں تیز کر کے کسی صابرہ نامی معشوقہ کو مجروح بلکہ مقتول کرنے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں۔ اور اس کے سامنے ہستی سے نیستی کا فلسفہ بگھارنے لگے ہیں۔
نگۂ التفات و ناز کرو
درِ اثبات ذات باز کرو
یہاں آکر پتا چل جاتا ہے کہ مقصود ان دھمکیوں سے کیا تھا۔ در اصل صابرہ کسی اور شخص سے آنکھ لڑا بیٹھی ہے اور ہمارے بے چارے شاعر کو گھاس نہیں ڈالتی ۔ وہ شخص ہمارے شاعر کی نظر میں رقیب ہے۔ حالانکہ اصل رقیب تو شاعر ہی ہے کیوں کہ یہ پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر دھمیکیوں پہ دھمکیاں دے رہا ہے۔ دوسرا مصرعہ اس کیٹگری میں آتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معنی شعر در بطن شاعر تو میری اس کی تشریح سے توبہ کہ میں شاعر کا بطن پھاڑ نہیں سکتی کیوں کہ میرا دل نازک ہے۔ شمشاد بھائی کو پتا ہے
رات کے آخری پہَر آ جاؤ
ہے محبت میں گر اثر، آ جاؤ
ہمممم اب جا کے پتا چلا کہ شاعر کی نیت ٹھیک نہیں وہ صابرہ کو ایسے وقت میں بلا رہا ہے جس وقت ناگفتہ بہ کاموں کے گواہ نہیں ملتے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس بات کو محبت کا نام دیا جا رہا ہے۔
فاتح بھائی سے معذرت۔۔ مطلوب اس سے قطع محبت نہیں مجھے۔ جویریہ
لیجئے جناب اس نظم کی مزاحیہ تشریح
اس سے پہلے کہ۔۔۔
عنوان سے ظاہر ہے کہ عشق میں ناکامیوں کے بعد شاعرِ موصوف دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ یہ تو نظم سے معلوم ہوگا کہ یہ دھمکیاں قابل دست اندازئیِ پولیس ہیں کہ نہیں۔
اس سے پہلے کہ چاندنی ہو سیاہ
اس سے پہلے کہ آس بھی ہو تباہ
اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے شاعر کو چند ماورائی طاقتیں حاصل ہیں جو کہ چاند کو ڈھانپ کر اس کی روشنی کو سیاہ کر سکتے ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا چاند کو کیسے ڈھانپتے ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال بیچ اس مسئلے کے یہ ہے کہ کھڑکیوں کے پردوں سے یہ کام لیا جائے گا۔ اور جب یہ سارا کام ہو جائے گا تو آس یعنی امید بھی آٹومیٹیکلی (یعنی خود بخود) ختم ہو جائے گی۔
اس سے پہلے کہ آرزو کھو جائے
اس سے پہلے کہ سانس گُم ہو جائے
دوسرے بند میں بھی دھمکیوں کا یہ سلسلہ فلسفیانہ انداز میں جاری ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ شاعر نے فلسفے کی ڈگری کس کالج لی ہے ۔ آیا وہ کالج ریکگنائزڈ بھی ہے؟ یا یہ ڈگری بھی ہمارے ممبرانِ اسمبلی کی ڈگریوں جیسی ہے۔ تو جناب یہاں آرزوؤں کے گم ہو جانے اور سانسوں کے چھڑ جانے ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ سانسوں کے بھی گم شدہ ہوجانے کا ذکر لطیف پیرائے میں کیا گیا ہے (یہ لطیف پیرایہ کیا چیز ہے یہ بات قابل تحقیق ہے!!!) آرزو اور سانس کیسے گم ہوتے ہیں اس کا ہمیں علم نہیں۔ غالب تو دل کے بھی گمشدہ ہونے سے انکاری ہے کہ دل کہاں کہ گم کیجئے ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ ہو ملال تمام
برف ہو جائیں یہ خیال تمام
اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس سے پہلے کہ ملالہ یوسفزئی کا کام تمام ہوجائے اور برف پڑنے سے خیالات نا دیدہ حالت سے دیدہ و دانستہ حالت پھر مایع اور آخر کار ٹھوس شکل اختیار کرکے برف بن جائے۔ اوہو یہ تو مجھے تسامح ہوا ہے یہ وہ والی ملالہ نہیں۔ یہ تو کسی ملال نامی آدمی کا ذکر ہے۔ بہر حال اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ شاعر کے ارادے ہرگز نیک نہیں۔
اس سے پہلے کہ ہو دمِ فریاد
راہیِ کوچۂ عدم آباد
اس شعر میں کسی اسٹریٹ کا ذکر ہے جو کہ عبد الحمید عدم نامی بادشاہ کے آباد کردہ شہر میں واقع ہے۔ اس شعر سے پتا چلتا ہے کہ شاعر کے خیالات پراگندہ ہیں یک دم دھمکیوں کو چھوڑ کر پلاٹ لینے کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔
صبر کا سینہ چاک ہو جائے
قصۂ ہست پاک ہو جائے
یہاں پر پلاٹ خریدنے کا ارادہ کینسل کرکے پھر دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔ اور چھریاں تیز کر کے کسی صابرہ نامی معشوقہ کو مجروح بلکہ مقتول کرنے کا ارادہ کر بیٹھے ہیں۔ اور اس کے سامنے ہستی سے نیستی کا فلسفہ بگھارنے لگے ہیں۔
نگۂ التفات و ناز کرو
درِ اثبات ذات باز کرو
یہاں آکر پتا چل جاتا ہے کہ مقصود ان دھمکیوں سے کیا تھا۔ در اصل صابرہ کسی اور شخص سے آنکھ لڑا بیٹھی ہے اور ہمارے بے چارے شاعر کو گھاس نہیں ڈالتی ۔ وہ شخص ہمارے شاعر کی نظر میں رقیب ہے۔ حالانکہ اصل رقیب تو شاعر ہی ہے کیوں کہ یہ پرائے پھڈے میں ٹانگ اڑا کر دھمیکیوں پہ دھمکیاں دے رہا ہے۔ دوسرا مصرعہ اس کیٹگری میں آتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ معنی شعر در بطن شاعر تو میری اس کی تشریح سے توبہ کہ میں شاعر کا بطن پھاڑ نہیں سکتی کیوں کہ میرا دل نازک ہے۔ شمشاد بھائی کو پتا ہے
رات کے آخری پہَر آ جاؤ
ہے محبت میں گر اثر، آ جاؤ
ہمممم اب جا کے پتا چلا کہ شاعر کی نیت ٹھیک نہیں وہ صابرہ کو ایسے وقت میں بلا رہا ہے جس وقت ناگفتہ بہ کاموں کے گواہ نہیں ملتے۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس بات کو محبت کا نام دیا جا رہا ہے۔
فاتح بھائی سے معذرت۔۔ مطلوب اس سے قطع محبت نہیں مجھے۔ جویریہ
آخری تدوین: