فارسی شاعری فارسی و تُرکی ابیات: تشریح کے ساتھ

حسان خان

لائبریرین
چونکہ تُرکی و اردو شاعری، ادبی و تاریخی لحاظ سے فارسی شاعری کی ذیلی شاخیں ہیں، یا کم از کم صدیوں تک فارسی ہی سے نشو و نما پا کر بلوغت و کمال تک پہنچی ہیں، لہٰذا تینوں شعری روایتوں میں مضامین کا اشتراک ہے، اِس لیے اگر کلاسیکی فارسی و تُرکی ابیات کو اردو میں ترجمہ کیا جائے، تو شعری مضامین و مفاہیم میں یگانگی و قرابت ہونے کے باعث اردو کا قاری، بشرطیکہ اردو کی کلاسیکی ادبی و شعری روایات سے کماحقُّہُ آگاہ ہو، فارسی و تُرکی شاعری میں ذرا اجنبیت و نامانوسی کا احساس نہیں کرتا اور اُس کو شاعری کا اکثر حصّہ تشریح طلب معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ تاہم، بعض اوقات فارسی و تُرکی شاعری کے مطالعے اور ترجمے کے دوران چند ایسے مقامات نظر آتے ہیں جہاں یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہاں صرف بیت کے ترجمے پر اکتفا کیا جائے تو اوسط قاری بیت کو کاملاً درک و فہم نہ کر پائے گا۔ کیونکہ اُن ابیات میں ایسی حکایات، اساطیر، اور تاریخی رُودادوں وغیرہ کی جانب اشارہ ہوتا ہے یا ایسی باریک و بعید تشبیہات و استعارات کا استعمال ہوتا ہے، جن سے کم افراد واقف ہوتے ہیں، یا جن سے آگاہی کے لیے قدیم ادبی و شعری و تاریخی کتابوں کا مطالعہ درکار ہوتا ہے، جس کی ہر قاری سے توقّع نہیں رکھی جا سکتی۔ لہٰذا ایسے مقامات پر میں ترجمے کے ساتھ تشریح کا بھی التزام کرتا ہوں تاکہ اُن دو زبانوں سے ناآشنا قاری اگر بیت کی زبان، لفظیات، اور نحو و ساخت سے کُل طور پر محظوظ نہیں ہو سکتا تو کم از کم بیت کا مفہوم اُس کے لیے ضرور قابلِ لذّت گیری ہو۔ ساتھ ہی امید بھی ہوتی ہے کہ یہ تشریحات قاری کے ادبی ذوق کے رُشد و بالیدگی کا باعث بنیں گی۔

میں اِس دھاگے میں وہ فارسی و تُرکی ابیات و اشعار یکجا کروں گا جن کے ترجمے کے ذیل میں مَیں نے تشریح، یا توضیحی تبصرہ و یاد دہانی لکھی ہو یا ترجمہ کی ہو۔ جو تشریحات و توضیحات میں نے کی ہیں، وہ میں نے اپنی فہم اور اپنی زبان دانی کے مطابق کی ہیں، لہٰذا وہ حرفِ آخر نہیں ہیں اور نہ یہ دعویٰ ہی ہے کہ اُن میں بیت کی تمام ممکنہ اَبعاد کا احاطہ کیا گیا ہے یا وہ خطا کے احتمال سے بری ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اؤیله یاقسېن بنی کیم آتشِ رنگارنگین
مُرغِ عنقا چېقا خاکِسترِ خاشاکیم‌دن

(شیخ غالب)
[اے محبوب!] تمہاری آتشِ رنگارنگ مجھے اِس طرح جلا ڈالے کہ میرے خس و خاشاک کی خاکِستر سے پرندۂ عنقا [بیرون] نکلے۔
× خاکِستر = راکھ

تشریح: اِس بیت میں اُن افسانوں کی جانب اشارہ ہے جن کے مطابق پرندۂ عنقا اپنی طویل عُمر کے اختتام پر خود کو خاشاک پر جلا دیتا ہے اور پھر حاصل ہونے والی خاکِستر سے بارِ دیگر طراوت و جوانی کے ساتھ سر بیرون نکالتا اور اپنی زندگی کے دورِ دیگر کا آغاز کرتا ہے۔ شاعر اپنے محبوب سے اِس چیز کا خواہش مند ہے کہ وہ اُس کو اپنے عشق کی رنگارنگ آتش میں اِس طرح جلا کر خاکِستر کر دے کہ عنقا کی مانند شاعر بھی خاکِستر ہو جانے کے بعد از سرِ نو مُتولّد ہو اور اپنی تازہ دم زندگی کا آغاز کرے۔

Öyle yaksın beni kim âteş-i reng-â-rengin
Mürg-i 'Anka çıka hâkister-i hâşâkimden
(Şeyh Galip)


× شاعر کا تعلق عثمانی سلطنت سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سخن تا در جھان باقی‌ست از معدومی آزادم
زبانِ گفتگوها بالِ پرواز است عنقا را

(بیدل دهلوی)
جب تک دنیا میں سخن باقی ہے میں معدومی سے آزاد و محفوظ ہوں۔۔۔ گفتگوؤں کی زبان عنقا کے لیے بالِ پرواز ہے۔

تشریح: عنقا اگرچہ ایک فرضی پرندہ ہے، لیکن جب کوئی اُس کا ذکر کرتا ہے تو ایسا ہی ہے کہ گویا وہ اپنی گفتگو سے عنقا کو پرواز کے لیے بال و پر عطا کر رہا ہو، کیونکہ اگر ہمیں اپنے پردۂ خیال پر عنقا پرواز کرتا ہوا نظر آتا ہے تو اُس کا سبب یہی ہے کہ مردُم اُس کی گفتگو کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے شاعر کو یقین ہے کہ جب تک جہاں میں سخن باقی ہے وہ نابودی اور معدومی سے محفوظ ہے کیونکہ لوگ اُس کے اشعار کی قرائت سے اُسے موجود رکھیں گے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سانما اؤلدۆرمز رقیبی یارۆن ای دل اۏلا مې
هیچ قېزېلباش پنجهٔ سلطان سلیم خان‌دان خلاص
(مآلی)
اے دل! [یہ] گمان مت کرو کہ رقیب کو تمہارا یار قتل نہیں کرے گا؛
کیا کوئی قِزِلباش، سلطان سلیم خان کے پنجے سے خلاص ہو سکتا ہے؟

تشریح: قِزِلباشوں نے شاہ اسماعیل صفوی کی قیادت میں چالدَران کے مقام پر عثمانی لشکر سے جنگ کی تھی، جس میں اُنہیں سلطان سلیم خان اوّل کے دستوں فیصلہ کُن شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ یہاں اُسی واقعے کی جانب اشارہ ہے۔ شاعر نے رقیب کو قِزِلباش، جبکہ یار کو سلطان سلیم سے تشبیہ دی ہے، اور اپنے دل کو تسلّی دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح سلطان سلیم کے پنجے سے کوئی قِزِلباش رہائی نہ پا سکا تھا، اُسی طرح یار بھی رقیب پر رحم نہیں کرے گا اور اُس کو قتل کر دے گا۔

Sanma öldürmez rakîbi yârün ey dil ola mı
Hîç Kızılbaş pençe-i Sultân Selîm Hândan halâs
(Me’âli)
 

حسان خان

لائبریرین
شامِ غم‌ده دل ایدر عشقوڭې عالَم‌لره فاش
که نهان ائیله‌ییمز شمعی زُجاجِ حلَبی

(بهشتی)
شامِ غم میں [میرا] دل تمہارے عشق کو دنیاؤں کے سامنے فاش کرتا ہے۔۔۔ کیونکہ شیشۂ حلَبی شمع کو پنہاں نہیں کر سکتا۔

تشریح: شامی شہر حلَب کے شیشے مشہور تھے۔ مندرجۂ بالا بیت میں شاعر کا خیال ہے کہ شیشۂ حلَبی اتنا زیادہ شفّاف ہوتا ہے کہ اُس میں شمع مخفی نہیں رہ سکتی، اور یہی کیفیت شاعر کے دل کی ہے کہ اُس میں محبوب کا عشق پنہاں نہیں رہ پاتا اور آشکار ہو جاتا ہے۔

Şâm-ı gamda dil ider 'ışkuñı âlemlere fâş
Ki nihân eyleyimez şem'i zücâc-ı Halebî

(Behiştî)
 

حسان خان

لائبریرین
وصلت اومانلار دویار مې آجېسېنې فرقتۆن
طالبِ گوهر اۏلانا بحرِ عُمّان تاتلودور

(نجاتی بیگ)
وصل کی آرزو کرنے والے کیا فراق کا درد اور تلخی محسوس کرتے ہیں؟ جو شخص طالبِ گوہر ہو اُس کے لیے بحرِ عُمّان لذیذ و دل پذیر ہے۔

(یعنی جس طرح طالبِ گوہر افراد بحرِ وسیع و عمیق کی صعوبتوں کو محسوس نہیں کرتے، بلکہ وہ اُن کی نظروں میں خوش مزہ ہو جاتی ہیں، اُسی طرح آرزومندانِ وصل کو فرقت کا درد و تلخی محسوس نہیں ہوتی۔)

Vuslat umanlar duyar mı acısını fürkatün
Tâlib-i gevher olana Bahr-i Ummân tatludur
 

حسان خان

لائبریرین
بو قطره قطره قان یاشوملا یۆزۆم
قېزېلباشېلا سان ایران زمین‌دۆر
(نظمی ادِرنه‌لی)
میرے اِن قطرہ قطرہ اشکِ خونیں کے ساتھ میرا چہرہ ایسا ہے گویا اپنے قِزِلباشوں کے ساتھ سرزمینِ ایران ہو۔

× قِزِلباش سر پر سُرخ کُلاہ پہنا کرتے تھے جو اُن کا امتیازی نشان تھا۔ شاعر نے اِسی لیے خود کے چہرے کو سرزمینِ ایران اور اُس پر بہنے والے اشک کے سُرخ قطروں کو قِزِلباشوں سے تشبیہ دی ہے۔

Bu katre katre kan yaşumla yüzüm
Kızılbaşıla san Îrân zemîndür
(Edirneli Nazmî)
 

حسان خان

لائبریرین
ائتمیشم لوحِ دِله تصویرِ زُلفِ یارېمې
بو سبب‌دن‌دۆر مُدام آهِ پریشان چکدۆگیم

(وحید قزوینی)
میں نے لوحِ دل پر اپنے یار کی زُلف کی تصویر کَشی کر دی ہے۔۔۔۔ یہ سبب ہے جو میں نے ہمیشہ آہِ پریشان کھینچی ہے۔

مصرعِ ثانی کا متبادل ترجمہ:
میں نے جو ہمیشہ آہِ پریشان کھینچی ہے، وہ اِس سبب سے ہے

(زُلفِ یار چونکہ 'پریشان' یعنی آشُفتہ و ژولیدہ اور بِکھری ہوئی ہوتی ہے، لہٰذا اُس کے باعث نکلنے والی آہ کو شاعر نے 'آہِ پریشان' کہا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ یہ جو میں مسلسل آہِ پریشاں کھینچتا ہوں، اُس کا سبب یہ ہے کہ میں نے اپنے لوحِ دل پر یار کی زُلفِ پریشاں کی تصویر کھینچ دی ہے، یعنی اُس کی زُلف کا عاشق ہو گیا ہوں۔)

Etmişəm lövhi-dilə təsviri-zülfi-yarımı,
Bu səbəbdəndür müdam ahi-pərişan çəkdügim.


× شاعر کا تعلق صفوی سلطنت سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
مُرغِ خیاله شه‌پرِ پروازدېر سؤزۆم
(جوری)
میرا سُخن مُرغِ خیال کے لیے شہپرِ پرواز ہے۔

تشریح: شاعر نے اپنے خیال و تفکّر کو پرندے سے تشبیہ دی ہے اور پھر کہا ہے کہ اُس کے سُخن سے اِس پرندۂ خیال کو پرواز کے لیے شہپر مل جاتے ہیں۔

Mürg-i hayâle şehper-i pervâzdır sözüm

(Cevrî)
 

حسان خان

لائبریرین
بود گویا طفلِ نورفتار شعرِ تازه‌ام
کز لبم تا رفت بیرون بر زبان‌ها اوفتاد

(غنی کشمیری)
میرا شعرِ تازہ گویا نیا چلنے والے بچّہ تھا کہ جیسے ہی میرے لب سے بیرون گیا، زبانوں پر گِر گیا (یعنی مشہور و رائج ہو گیا)۔

تشریح: مندرجۂ بالا بیت میں شاعر اپنی شاعری کی تازگی و نوی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں وَ اِسی لیے اُس کو نیا نیا چلنے والا بچّہ پُکارا ہے۔ اور جس طرح طفلِ نورفتار چلتے چلتے گِر جاتا ہے، اُسی طرح شاعر کہہ رہے ہیں لب سے بیرون آ کر اُن کی شاعری زبانوں پر گِر جاتی ہے یعنی مشہور و رائج ہو جاتی ہے۔ ذہن نشیں رہے کہ فارسی میں 'بر زبان اُفتادن' (زبان پر گِرنا) کِنایتاً مشہور ہونا وَ شہرت پانا یا زبانوں پر رائج ہو جانا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
× وَ = اور

× بیتِ ہٰذا کسی 'وہمی' تخلّص والے شاعر سے بھی منسوب نظر آئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قاآنی شیرازی اپنے ایک قصیدے میں کہتے ہیں:
به جایِ آب شعرِ من اگر برند در چمن
ز فکرِ آب و رنجِ تن رهند آبیارها

(قاآنی شیرازی)
اگر چمن میں آب کے بجائے میرے شعر لے جائے جائیں تو آبیار فکرِ آب اور تن کی تکلیف سے نجات پا جائیں۔
× آبیار = تقسیم کنندۂ آب

(انتخاب کنندہ و مترجم: اریب آغا)

تشریح: یعنی شاعر کہہ رہا ہے کہ میرے اشعار اِس قدر آبدار و تر و تازہ ہیں کہ چمن کی آبیاری کے لیے زحمتِ آب کھینچنے کی حاجت نہیں ہے، بلکہ اگر میرے اشعار کو وہاں لے جایا جائے تو چمن کی آبیاری بغیر کسی زحمت و رنج کے ہو جائے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
امیر علی شیر نوائی اپنے فارسی قصیدے 'تُحفة الافکار' میں اپنے اُستاد و مرشد عبدالرحمٰن جامی کی مدح میں فرماتے ہیں:
بِکرِ معنی حالتِ جان‌بخش اگر زادش چه دور

شد نبیره عیسیٰ آن کس را، که مریم دُختر است
(امیر علی‌شیر نوایی)
اگر اُن کی دوشیزۂ معنی نے حالتِ جاں بخش کو متولّد کیا ہے تو بعید نہیں ہے؛ جس شخص کی دُختر مریم ہے، اُس کا نواسہ عیسیٰ تھا۔

تشریح: باکِرہ اُس لڑکی کو کہتے ہیں جو دوشیزہ ہو اور جس نے ہنوز ازدواج نہ کیا ہو، اِسی سبب سے حضرتِ مریم (ع) کو باکِرہ پکارا جاتا ہے۔ از طرفِ دیگر، اُن کے پسر حضرتِ عیسیٰ (ع) اپنی معجزاتی حیات بخشی کے لیے مشہور ہیں۔ امیر علی شیر نوائی نے مندرجۂ بالا بیت میں عبدالرحمٰن جامی کے قلم و دہن سے نکلنے والے معنی و مضمون کو جامی کی دُختر تصوّر کیا ہے اور اُس کو اُس کی تازگی کے باعث مریمِ باکِرہ سے تشبیہ دی ہے اور اُس معنی و مضمون کو خواننے (پڑھنے) یا سننے کے بعد قاری و سامع میں ظاہر ہونے والے زندگی کے آثار کو کنایتاً حضرتِ مسیح بتایا ہے۔ اور پھر کہا ہے کہ اگر جامی کے معانی سے حالتِ جاں بخش وجود میں آتی ہے تو یہ کوئی باعثِ تعجب شے نہیں ہے، کیونکہ اگر کسی شخص کی دُختر مریم ہو تو یقیناً وہ عیسیٰ ہی کو متولدّ کرے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
سال‌ها باید که تا یک سنگِ اصلی ز آفتاب
لعل گردد در بدخشان یا عقیق اندر یمن

(سنایی غزنوی)
نورِ آفتاب سے [کسی] اصلی سنگ کو بدخشاں میں لعل یا یمن میں عقیق بننے کے لیے سالہا درکار ہیں۔
تشریح: قُدَماء کا باور تھا کہ نورِ افتاب میں سالوں تک رہنے سے سنگ قیمتی جواہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ نیز، بدخشاں کے لعل، اور یمن کے عقیق مشہور تھے۔ یہاں سنائی غزنوی کہہ رہے ہیں کہ کسی سنگ کو بدخشاں میں لعل، یا پھر یمن میں عقیق میں تبدیل ہو جانے کے لیے سالوں چاہیے ہوتے ہیں، تب جا کر ایسا ہوتا ہے

 

حسان خان

لائبریرین
از دبستانِ غمت طفلِ دلِ عینیِ زار
عید و آدینه به هم آمد و آزاد نشد
(صدرالدین عینی)

[اگرچہ] عید اور جُمعہ باہم آئے [لیکن پھر بھی] تمہارے مکتبِ غم سے عینیِ زار کا طفلِ دل آزاد نہ ہوا۔
× مکتب = اسکول

تشریح: عید اور جُمعہ تعطیل کے روز ہوتے ہیں اور بچّوں کو اُن روزوں میں مکتب نہیں جانا پڑتا۔ لیکن مندرجۂ بالا بیت میں شاعر اپنے محبوب کو مخاطَب کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ میرا طفلِ دل تمہارے غم کے مکتب میں ایسا گرفتار ہے کہ اِس بار عید اور جُمعہ کے ایک ساتھ آنے کے باوجود بھی میرے طفلِ دل کو آزادی نہ مل سکی۔ حالانکہ ایسے موقع پر ہر بچّے کو تعطیل مل جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خرد کمندی هوس‌شکار است، ورنه در چشمِ شوقِ مجنون
به جز غبارِ خیالِ لیلی کجاست آهُو درین بیابان
(بیدل دهلوی)

عقل، آرزو اور خواہشِ نفس کا شکار کرنے والی ایک کمند ہے۔ ورنہ اِس بیاباں میں مجنوں کی چشمِ شوق میں لیلیٰ کے خیال کے غبار کے بجز کوئی آہُو کہاں ہے؟

تشریح: لیلیٰ و مجنوں کی داستان میں ہے کہ آوارۂ بیاباں مجنون کو کسی شکاری کے دام میں ایک آہو نظر آیا تھا اور چشمِ آہو سے اُسے چشمِ لیلیٰ یاد آ گئی تھی، اور پس اُس نے شکاری سے آہو کو آزاد کرنے کی خواہش کی تھی۔ یہاں بیدل اُسی داستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ انسان کی عقل اُس کی اپنی آرزوؤں اور نفسانی خواہشوں ہی کا شکار کرتی ہے، یعنی اُس کی خود کی آرزوؤں ہی کو منعکس کرتی ہے۔ لہٰذا بیاباں میں مجنوں کو اپنی چشمِ شوق میں آہو نظر نہیں آیا تھا، بلکہ یہ لیلیٰ کے خیال کا غبار ہی تھا جو آہُو بن کر اُس کی نظروں میں ظاہر ہو گیا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سعد و نحسِ دهر بیدل کَی دهد تشویشِ ما
همچو طفلان کارِ ما با شنبه و آدینه نیست
(بیدل دهلوی)

اے بیدل! زمانے کی مبارک و منحوس [ساعتیں] ہمیں کب تشویش دیتی ہیں؟ ہمیں بچّوں کی طرح شنبہ اور جمعہ سے کام (یا سروکار) نہیں ہے۔

تشریح: 'شنبہ' ہفتے کے روز کو جبکہ 'آدینہ' جمعے کو کہتے ہیں۔ اسلامی ممالک میں جمعہ تعطیل کا روز ہوتا تھا، جبکہ روزِ شنبہ سے دوبارہ مکتبوں میں تدریسی سرگرمیوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ لہٰذا بچّوں کی نظر میں 'جمعہ' ایک مبارک روز، جبکہ 'شنبہ' پُرنحوست روز ہوتا تھا، اور وہ تمام ہفتے شنبہ و جمعہ کی فکر ہی میں رہتے تھے۔ بیدل کہہ رہے ہیں کہ ہمیں زمانے کی سعد و نحس ساعتوں اور ایّام سے کوئی پریشانی و تشویش نہیں ہوتی، کیونکہ ہم طفلِ مکتب نہیں ہیں کہ ہمیں روزِ شنبہ یا روزِ جمعہ سے سروکار ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه مغناطیس حل‌کرده‌ست یا رب خونِ نخچیرش
که پیکان یک قدم پیش است از سعیِ پرِ تیرش
(بیدل دهلوی)

یا رب! اُس کے شکار کے خون نے کیسا مقناطیس حل کیا ہے کہ پیکانِ تیر اُس کے تیر کے پر کی سعی سے ایک قدم آگے ہے۔

تشریح: شاعر کہہ رہا ہے کہ اِس شکار کا خون مقناطیسی خاصیت رکھتا ہے، اور اِس سبب سے، پیکانِ تیر اُس کے پر سے پیشتر شکار کی جانب جا رہا ہے۔ در حقیقت، یہاں شکار ہونے کا ایک طرح کا اشتیاق کار فرما ہے جو تیر کو خود کی جانب کھینچ رہا ہے۔
'پَیکان' تیر یا نیزے کے سِرے پر نصب فِلِزّی (دھاتی) نوک کو کہتے ہیں۔ مقناطیس چونکہ فِلِزّی چیزوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے، اور چونکہ شکار کی جانب آ رہے اِس تیر کا فِلِزّی پیکان، اُس کے پر سے پیش پیش ہے، اِس لیے شاعر نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے محبوب کے نخچیر کے خون کو مقناطیس کہا ہے۔
یا یہ کہیے کہ عاشق کو اپنے معشوق کے دستوں قتل ہونے کا اِس قدر اشتیاق ہے، کہ اُس کا خون یار کے پھینکے ہوئے تیر، خصوصاً اُس تیر کے پیکان کے لیے، مقناطیس بن گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کوه‌کن را چه غم از تلخیِ هجر است که نیست
غنچهٔ لاله کم از لعلِ لبِ شیرینش
(شوکت بخاری)

کوہکَن (فرہاد) کو تلخیِ ہجر کا کیا غم؟ کہ غنچۂ لالہ [معشوق] کے لعلِ لبِ شیریں (یا اُس کی شیریں کے لعلِ لب) سے کم نہیں ہے۔

تشریح:
'شیریں' کا معنی 'میٹھا' بھی ہے اور یہ فرہادِ کوہکن کی محبوبہ کا نام بھی تھا۔ لہٰذا مصرعِ ثانی کا دو طریقوں سے ترجمہ کرنا ممکن ہے:
۱) غُنچۂ لالہ اُس کے (یعنی محبوبہ کے) لعلِ لبِ شیریں سے کم نہیں ہے۔
۲) غُنچۂ لالہ اُس کی [محبوبہ] شیریں کے لبِ لعل سے کم نہیں ہے۔

'لعل' ایک سُرخ رنگی قیمتی سنگ کا نام ہے، اِس لیے لبِ معشوق کو اِس سنگ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اور چونکہ گُلِ لالہ کا غُنچہ بھی سُرخ رنگ کا ہوتا ہے اور دہنِ یار کی مانند تنگ ہوتا ہے، لہٰذا یہاں 'غُنچۂ لالہ' کو 'لعلِ لبِ شیریں' سے تشبیہ دی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ کوہوں پر اُگے غنچۂ لالہ کو دیکھ کر فرہادِ کوہکن اپنی تلخیِ ہجر فراموش کر دیتا ہے، کیونکہ اُسے لالہ کے گُلوں اور غُنچوں میں اپنی محبوبہ شیریں کے لب و دہن نظر آتے ہیں۔

فرہاد کو 'کوہکَن' یعنی کوہ کھودنے والا اِس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اُس سے پادشاہ نے وعدۂ دروغیں کیا تھا کہ اگر وہ کوہِ بیستوں کو کھود کر اُس سے جوئے شِیر نکال دے تو اُسے شیریں کا وصل نصیب ہو جائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز رُویش پرده‌هایِ دیده شد از بس که نورانی
نگاه از مشرقِ چشمم بُرون چون آفتاب آید
(شوکت بخاری)

اُس کے چہرے سے [میری] چشم کے پردے اِتنے زیادہ نورانی ہو گئے کہ نگاہ میرے مشرقِ چشم سے آفتاب کی طرح بیرون آتی ہے۔
تشریح: 'مشرق' خورشید کے طلوع کی جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ شاعر نے مصرعِ ثانی میں اپنی چشم کو 'مشرق' یعنی خورشید کے طلوع ہونے کی جگہ سے، جبکہ اپنی نگاہ کو آفتاب سے تشبیہ دی ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ محبوب کے پُرنور و تابناک چہرے کی دید سے میری چشم کے پردے بھی اِتنے زیادہ نورانی ہو گئے ہیں کہ میری چشم سے نگاہ ایسے بیرون آتی ہے، جیسے مشرق سے خورشید طلوع ہو رہا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
دیده از آتشِ دل غرقهٔ آب است مرا
کارِ این چشمه ز سرچشمه خراب است مرا
(خلیفۂ عثمانی سلطان سلیمان قانونی 'مُحِبّی')

میری چشم آتشِ دل کے سبب آب میں غرق ہے؛ میرے اِس چشمے کا کام سرچشمے سے خراب ہے۔
تشریح: 'سرچشمہ' اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے کوئی چشمہ زمین سے بیرون آتا اور جاری ہوتا ہے۔ شاعر نے اپنی چشم کو ایک چشمے اور اپنے دل کو سرچشمے سے تشبیہ دی ہے۔ پھر شاعر کہتا ہے کہ میرا چشمہ اپنے مبدأ و منبع اور اپنے آغاز ہی سے، یا اپنی جائے آغاز ہی کے سبب، خراب ہے۔
 
Top