فارسی شاعری فارسی و تُرکی ابیات: تشریح کے ساتھ

حسان خان

لائبریرین
نیست جز خِجلَت از احباب تهی‌دستان را
بید را جز عَرَقِ بید نباشد ثمری

(واعظ قزوینی)
تہی دستوں کو احباب سے شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوتا؛ بید کا عَرَقِ بید کے سوا کوئی ثمر نہیں ہے۔
× بید ایک بے ثمر درخت ہے، اِسی لیے شاعر نے اُسے تہی دست شمار کیا ہے، لیکن اِس کے باوجود اُس میں سے عَرَق ضرور نکلتا ہے، جسے شاعر نے تہی دستی کی شرمندگی کے باعث نکلنے والے پسینے سے تعبیر کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
از تپش‌های پرِ پروانه می‌آید به گوش
کاشنای شمع را بیرونِ محفل آتش است

(بیدل دهلوی)
پروانے کے پر کی تپشوں سے سنائی دیتا ہے (یعنی معلوم ہوتا ہے) کہ آشنائے شمع کو بیرونِ محفل آتش ہے۔

اِس شعر کا مضمون واضح نہیں ہے، لیکن جو مفہوم میرے ذہن میں متشکل ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ پروانہ، کہ شمع کا آشنا ہے، اپنی محفل یعنی شمع کے باہر مضطرب ہے اور اُس کے پروں کی پُراضطراب تپش و لرزش کی آواز سے شاعر کو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ پروانہ وصالِ شمع کے بغیر گویا آتش میں جل رہا ہے اور اپنی محفل میں ورود کے لیے بے تاب ہے۔ یعنی اگر کوئی دیگر ہوتا تو وہ شمع کے نزدیک آنے پر جلتا، لیکن شمع کا عاشق پروانہ شمع سے دوری کے باعث جل رہا ہے۔
پس نوشت: یہ مفہوم بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ شاعر نے پروانے کے پر کی تپشوں سے یہ عمومی نتیجہ نکالا ہے کہ جو کوئی بھی شمع کا آشنا ہو، وہ محفل سے باہر اضطراب کی حالت میں سوزاں رہتا ہے، یا یہ کہ بیرونِ محفل اُس کے لیے آتش کی مانند ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
یوسفِ حُسنِ رُخت گر مجلس‌آرایی کند
مجمعِ آشفتگان عشقِ زلیخایی کند

(ملّا وجهی)
اگر تمہارے چہرے کے حُسن کا یوسف مجلس آرائی کرے تو [تمہارے] آشفتگاں کا مجمع زلیخائی عشق کرنے لگے۔
شرح: محبوب کے چہرے کے حسُن کو حضرت یوسف سے تشبیہ دے کر یہ کہا گیا ہے کہ اگر وہ کسی مجلس میں جلوہ نما ہو کر مجلس کی آرائش کا سبب بن جائے تو اُسے دیکھ کر اُس کے عاشقوں کی انجمن اُسی طرح دل باختہ و شیفتہ ہو جائے جس طرح زلیخا حضرت یوسف کی دل باختہ تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
عاشقان جامِ فرح آن گه کَشند
که به دستِ خویش خوبانْشان کُشند

(مولانا جلال‌الدین رومی)

"عاشقان زمانی جامِ شادمانی سر می‌کَشند، که معشوقانِ آنان ایشان را به دستِ خود بکُشند. یعنی آنان را از هستیِ موهوم برهانند."
ترجمہ: "عاشقاں اُس وقت جامِ شادمانی نوش کرتے ہیں کہ جب اُن کے معشوقاں اُن کو اپنے دست سے قتل کر دیں۔ یعنی اُن کو ہستیِ موہوم سے رہائی دلا دیں۔"

[شارح: سیّد یونس اِستَرَوشنی]

"عشاق تو اُس وقت خوش ہوتے ہیں کہ اُن کے معشوق اپنے ہاتھ سے اُن کو قتل کر ڈالیں (مطلب یہ کہ طالبانِ الٰہی اُس وقت مسرور ہوتے ہیں جبکہ شیوخِ کاملین کہ اُن کے محبوب ہیں ریاضتِ شاقّہ بتلا کر اُن کے نفسانی تقاضوں کو فنا کر ڈالیں)۔"

[مترجم و شارح: مولانا اشرف علی تھانوی]
 

حسان خان

لائبریرین
۱۳۳۵ھ میں پادشاہِ روس نِیکُلا ثانی کی معزولی کے موقع پر مرحوم ادیب پیشاوری نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا:
خروشی برآمد ز پطروگراد
که شه اشک‌ریزان ز تخت اوفتاد

ترجمہ: پطروگراد سے ایک بانگ بلند ہوئی کہ شاہ اشک بہاتے ہوئے تخت سے گر گیا۔

حسابِ ابجد کے رُو سے 'تخت' کا عدد ۱۴۰۰ بنتا ہے۔ شاعر نے لفظِ 'شه' میں حرفِ 'ش' کے تین نقطوں کو تین اشک کے قطروں سے تشبیہ دی ہے جو پادشاہ کی اشک ریزی کے باعث تختِ سلطنت کے سقوط کے ساتھ خود بھی زمین پر بہہ گئے ہیں، لہٰذا 'شه' کے نقطے حذف کرنے کے بعد صرف 'سه' باقی رہ جاتا ہے، جس کا مجموعِ عدد ۶۵ ہے۔ تخت سے گرنے کے مفہوم کے تحت اگر لفظِ 'سه' کے عددِ ابجد کو لفظِ 'تخت' کے عددِ ابجد سے مِنہا کر دیا جائے تو ۱۳۳۵ کا نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے جو پادشاہِ روس کی معزولی کا سال ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خونِ ناحق‌کُشتگانت را غرامت دادمی
تیغ بر دست ار به فردایِ حسابت دیدمی
(فروغی بسطامی)

اگر میں تمہیں فردائے قیامت میں تیغ بہ دست دیکھ لیتا تو میں تمہارے ناحق مارے ہوؤں کے قتل کا تاوان و کفّارہ دے دیتا۔
شاعر شاید اپنے محبوبِ ستم پیشہ سے یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ اے کاش مہیں تمہیں بہ روزِ حساب بھی دست میں تیغ لیے ہوئے اور خوں ریزی پر آمادہ دیکھوں۔ اگر ایسا ہوا تو میں خوں بہا کے طور پر تمہارے تمام ناحق مارے ہوؤں کے کفّارے میں قتل ہونا پسند کروں گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
فطرت از رُویِ ادب اظهارِ نادانی کند
ورنه یونان بُرده‌اند خاکسترِ درواز را

(فطرت دروازی)
'فطرت' از رُوئے ادب اظہارِ نادانی کرتا ہے، ورنہ درواز کی خاکِستر کو [بھی] یُونان لے جایا گیا ہے۔

تشریح: 'درواز' حالیہ تاجِکستان کے ایک خِطّے کا نام ہے، جہاں سے 'فطرت دروازی' کا تعلق تھا۔ جبکہ کِشورِ یُونان کو دانائی و حِکمت کا دیار مانا جاتا تھا۔ شاعر اِس افتخار آمیز بیت میں کہہ رہا ہے کہ اگر میں اظہارِ نادانی کرتا ہوں تو وہ صرف دیگروں کے ادب و احترام کے باعث ہے، ورنہ میرا تعلق جس خِطّے سے ہے وہاں کی تو خاکِستر (راکھ) کو بھی یہ شرَف حاصل ہے کہ اُس کو تبرُّکاً یُونان لے جایا جاتا رہا ہے۔ جب خاکِسترِ درواز ہی اِتنی مُحترم و بُلند قدر ہے تو شاعرِ درواز کی دانائی کا عالَم کیا ہو گا؟
 

حسان خان

لائبریرین
غُبارِ عَجزِ من و دامنِ خطِ تسلیم
ز پا فُتادگی از جاده سر نمی‌تابد

(بیدل دهلوی)
میری ناتوانی کا غبار ہے اور جادۂ تسلیم کا دامن ہے۔۔۔۔ خستگی و واماندگی راہ سے سر نہیں موڑتی۔

تشریح: میری ناتوانی کا غُبار ہمیشہ تسلیم کی راہ کے دامن پر رہتا ہے، یعنی غُبار جیسا مَیں ناتواں شخص ہمیشہ تسلیم و اطاعت کی راہ اپنائے رکھتا ہوں۔ یہی میری راہ ہے اور میں اِس راہ سے سر نہیں موڑوں گا، کیونکہ زمین پر گِرا ہونا اور خستگی و ماندگی و ضَعف و ناتوانی اپنی مُعیّن راہ سے سرتابی نہیں کرتی۔ یعنی جو شخص زمین پر اُفتادہ ہو اور خستہ و ماندہ و ضعیف ہو وہ جادے (راہ) کو تَرک نہیں کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
کرد عالَم را بهشتِ نقد تحویلِ حمَل
در جهان نوروز برگشت و بهارم برنگشت

(میر غلام‌علی آزاد بلگرامی)
بُرجِ حمَل میں مُنتقلی نے عالَم کو بہشتِ حاضر و موجود کر دیا۔۔۔ دنیا میں نوروز واپس آ گئی، [لیکن] میری بہار واپس نہ آئی!

تشریح: جس وقت خورشید بُرجِ حمَل میں داخل ہوتا ہے تو وہ شمسی سالِ نَو اور فصلِ بہار کے آغاز کا نُقطہ مانا جاتا ہے، اور اُس روز ہر سال جشنِ نوروز منایا جاتا ہے۔ شاعر حسرت کے ساتھ یہ کہہ رہا ہے کہ اگرچہ نوروز کی آمدِ دوبارہ سے عالَم مثلِ بہشت ہو گیا ہے اور ہر جا نوبہار اپنی رعنائی دِکھا رہی ہے، لیکن حَیف کہ میرا محبوب، کہ میرے لیے وہ ہی میری بہار ہے، اِس نوروز کی واپسی پر بھی واپس نہ آیا۔ دنیا کی بہار آ گئی، لیکن میری بہار نہ آئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
شَکَرخند ائیله‌ین‌ده نئیله‌سۆن عُشّاق ایلن یا رب
که آجې سؤزلر ایله‌ن جان ویرۆر لعلِ شَکَربارېن

(صائب تبریزی)
یا رب! اُس [محبوب] کا لعلِ [لبِ] شَکَربار تو تلخ سُخنوں کے ساتھ جان عطا کرتا ہے۔۔۔ تو وہ جس وقت شَکَرخَند (شیریں تبسُّم) کرے گا تو عُشّاق کے ساتھ کیا کرے گا؟

Şəkərxənd eyləyəndə neyləsün üşşaq ilən ya Rəb
Ki acı sözlər ilən can virür lə'li-şəkərbarın


تشریح: معشوق خواہ وفا کرے، خواہ جفا کرے، عاشقوں کے لیے دونوں ہی چیزیں مرغوب ہوتی ہیں، اور دونوں ہی کو وہ باعثِ لُطف محسوس کرتے ہیں۔ فارسی شعری روایت میں محبوب کے لبوں کو جاں بخشی کے باعث مسیحا سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ اپنے دم سے یا اپنی گُفتار سے مُردگاں کو بھی حیاتِ نو عطا کر دیتے ہیں۔ محبوب خواہ محبّت کا حَرف نہ کہے، عاشقوں کو فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ تو اپنے محبوب کے لبوں سے تلخ گُفتاری اور دُشنام گوئی سننے کے بھی مُشتاق رہتے ہیں، اور اُس کو اپنے لیے سعادت مندی سمجھتے ہیں۔ مندرجۂ بالا بیت میں صائب تبریزی حیرانی ظاہر کرتے ہوئے خُدا سے پُرسِش کر رہے ہیں کہ جب اُن کے محبوب کے شَکَر برسانے والے لب اپنے تلخ سُخنوں کے ساتھ ہی عاشقوں کو جان دے دیتے ہیں تو جب وہ شیریں طرز سے مُتبسِّم ہو گا تو عُشّاق کا کیا حال کرے گا؟

× مصرعِ اول کے متن میں 'یا رب' کی بجائے 'یاری' بھی نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تُرکی همه تُرکی کند، تاجیک تاجیکی کند
من ساعتی تُرکی شوم، یک لحظه تاجیکی شوم

(مولانا جلال‌الدین رومی)
کوئی تُرک ہمیشہ تُرکی کرتا ہے (یعنی تُرکوں کی طرح عمل کرتا ہے)، اور تاجیک [ہمیشہ] تاجیکی کرتا ہے (یعنی تاجیکوں کی طرح عمل کرتا ہے)۔۔۔ [جبکہ] میں کسی ساعت تُرک ہو جاتا ہوں، اور کسی لحظہ تاجیک ہو جاتا ہوں۔

تشریح: بیتِ ہٰذا میں 'تاجیک' سے فارسی گویان مُراد ہیں۔ میری نظر میں مولانا رُومی اِس بیت میں کہہ رہے ہیں کہ مجھ کو تُرکوں یا تاجیکوں (فارسی گویوں) میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ کیونکہ عام تُرکان صرف تُرکوں کی طرح عمل کرتے ہیں اور عام تاجیکوں کا عمل بھی صرف تاجیکوں کی طرح ہوتا ہے۔ لیکن میں تو گاہے تُرک ہو جاتا ہوں، اور گاہے تاجیک بن جاتا ہوں۔ 'تُرکی' اور 'تاجیکی' سے بالترتیب 'جنگجوئی' اور 'نرمی' بھی مُراد ہو سکتی ہے، کیونکہ تُرکان اپنی جنگجوئی اور شہامت و دلیری کی وجہ سے مشہور تھے، جبکہ اُن کے مقابلے میں فارسی گویان مُتمدِّن شہرنشینی کی وجہ سے نرمی و صُلح جوئی پر مائل تھے۔
یہ تو بہر حال وہ مفہوم تھا جو اِس بیت سے مُستفاد ہوتا ہے، لیکن یہاں میں ایک چیزِ دیگر بھی کہنا چاہتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ مولانا رُومی کسی 'ایرانی'، 'تاجیکی'، 'فارسی' یا اِن جیسی کسی دیگر 'ملّت' یا کسی 'مُلک' سے تعلق نہیں رکھتے تھے، اور بے شک جو ایرانی، تاجک، یا افغان قوم پرست مولانا رُومی کو اپنی تنگ قوم پرستی کا تختۂ مشق بنا کر اُن کو دورِ جدید کی اختراع کردہ ملّتوں اور مُلکوں میں محدود کرنا چاہتے ہیں، وہ مولانا رُومی پر بِسیار ظُلم کرتے ہیں۔ لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ مولانا رُومی کی زبان فارسی تھی، اور اُن کی شاعری و ادبی میراث فارسی میں ہے۔ تُرکیہ میں جو یہ تصوُّر رائج ہے کہ وہ ایک تُرک اور تُرکی گو تھے، تاریخی لحاظ سے بالکل نادرست و بے اساس ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشق تا دستِ نوازش بر سرِ دوشم کشید
زال شد صائب اگر رُستم مُقابل شد مرا

(صائب تبریزی)
اے صائب! عشق نے جب سے میرے شانے پر دستِ نوازش پھیرا [ہے]، اگر میرے مُقابل میں 'رُستم' [جیسا کوئی قوی تن] آیا تو وہ [بھی] 'زال' ہو گیا۔

تشریح: شاہنامۂ فردوسی کے عظیم تہرین پہلوان و قہرَمان رُستم کے پدر کا نام 'زال' تھا۔ فارسی میں زال اُس شخص کو کہتے ہیں جس کے چہرے اور سر پر بال سفید ہوں، یا پھر یہ کسی شخصِ پِیر کے لیے استعمال ہوتا تھا (خصوصاً پِیرزَنوں کے لیے)۔ شاعری میں چونکہ دُنیا کو ایک زنِ پِیر کے طور پر تصوُّر کیا جاتا ہے، اِس لیے اُس کو بھی کئی بار 'زال' کہہ کر پُکارا گیا ہے۔ رُستم کے پدر کا نام 'زال' اِس لیے رکھا گیا تھا، کیونکہ جب وہ دنیا میں آیا تھا تو اُس کے جسم کے سارے بال سفید تھے۔ (لیکن صرف اُس کے بال سفید تھے، ورنہ وہ خود بھی جوانی میں ایک تنومند پہلوان تھا۔) صائب تبریزی کہہ رہے ہیں کہ عاشق ہو جانے اور عشق کی سرپستی میں آ جانے کے بعد سے میرے مُقابل میں رُستم جیسے قوی تن پہلوان بھی کچھ نہیں ہیں، اور میرے رُوبرو آ کر وہ مثلِ رُستم افراد بھی کسی ناتواں پیرمَرد میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
× قہرَمان = ہِیرو
× پِیر = بوڑھا/بوڑھی
× پِیرمَرد = بوڑھا، بوڑھا مرد
× پِیرزَن = بوڑھی، بوڑھی عورت
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
از آبِ دیده صد ره طوفانِ نوح دیدم
وز لوحِ سینه نقشت هرگز نگشت زایل

(حافظ شیرازی)
میں نے [اپنے] آبِ چشم کے باعث صد بار طوفانِ نوح دیکھا، [لیکن میرے] سینے کی لوح سے تمہارا نقش ہرگز زائل نہ ہوا۔

"یعنی بعد از آن که از مرتبهٔ قربت، روی به بادیهٔ غربت آوردم، و قدم از صومعهٔ شادکامی بیرون نهاده، ساکنِ غمکدهٔ بدنامی شدم، از آبِ دیده و گریهٔ چشم، صد ره و مرتبه طوفانِ نوح دیدم. اما صد شکر که از لوحِ سینهٔ من نقشِ خیال، و مثالِ جمالِ تو هرگز نگشت زایل؛ و الّا در دیده[ای] که آب طغیان کند و طوفانی نماید، نقش نمی‌ماند."

(ماخذ: شرحِ عرفانیِ غزل‌هایِ حافظ، ابوالحسن عبدالرحمان ختمی لاهوری، مجلّدِ سوم، ص ۲۱۰۱)

ترجمہ: "یعنی قربت کے مرتبے سے دوری کے صحرا کی جانب رخ کر لینے، اور شادکامی کی خانقاہ سے قدم بیرون رکھ کر بدنامی کے غم کدے میں ساکن ہو جانے کے بعد، میں نے آبِ دیدہ اور گریۂ چشم کے باعث صد بار و مرتبہ طوفانِ نوح دیکھا۔ لیکن صد شکر کہ میرے سینے کی لوح سے تمہارے خیال کا نقش اور تمہارے جمال کی تصویر ہرگز زائل نہ ہوئی؛ وگرنہ کسی چشم میں جب آب طُغیان و طوفان کرتا ہے تو نقش باقی نہیں رہتا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
نوعروس اۏلدو یینه برف ایله آغارمېش ایکن
یئتیشۆپ یوسفِ نوروزا زلیخایِ چمن

(ذاتی)
درحالیکہ زُلیخائے چمن برف سے سفید (پِیر) ہو چکی تھی، جب وہ یوسفِ نَوروز کے پاس پہنچی تو دوبارہ نوعَروس ہو گئی۔

Nev-arûs oldu yine berf ile ağarmış iken
Yetişüp Yûsuf-ı nev-rûza Zelîhâ-yı çemen


تشریح: عُثمانی شاعر «ذاتی» نے مندرجۂ بالا تُرکی بیت میں چمن کو زُلیخا سے، جبکہ ایرانی سالِ نو اور موسمِ بہار کے روزِ اول «نَوروز» کو حضرتِ یوسف سے تشبیہ دی ہے، اور کہا ہے کہ اگرچہ زُلیخائے چمن موسمِ سرما کے دوران برف سے ڈھکے ہونے کی وجہ سے سفید بالوں والی پِیر (بوڑھی) عورت بن چکی تھی، لیکن جب حضرتِ یوسف جیسا نوروز اُس کے نزدیک آیا تو وہ دوبارہ جوان ہو گئی اور اِک نئی عَروس (دُلہن) میں تبدیل ہو گئی۔ یہاں اُن روایات کی جانب تلمیحاً اشارہ ہے جن کے مطابق جب زُلیخا حُسن و جوانی کا زمانہ گُذار کر اور حضرتِ یوسف کے عشق و فراق میں سوزاں و گُدازاں رہ رہ کر پِیر و سالخوردہ ہو گئی تھی، تو اُس کو ایک روز حضرتِ یوسف دوبارہ نظر آئے تھے جن کو زُلیخا کی اِس حالتِ زار پر رحم آیا تھا اور اُن کی دعا سے وہ پھر جوان ہو گئی تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
این زبانِ پارسی گنجینهٔ فرهنگِ ماست
وز سرِ گنجینه باید دُور کردن مُوش و مار

(علام‌علی رعدی آذرَخشی)
یہ زبانِ فارسی ہماری ثقافت کا گنجینہ ہے، اور گنجینے کے نزد سے چوہے اور سانپ کو دُور کرنا لازم ہے۔

تشریح: یعنی یہ زبانِ فارسی ہماری ثقافت کا مخزن ہے، یعنی ہماری جُملہ ثقافت و ہماری کُل روایات اِس زبانِ فارسی کے اندر موجود ہیں، اور اِس زبان نے ہمارے تمدُّن و ہماری گُذشتہ تاریخ کو ایک گنجینے کی مانند محفوظ رکھا ہوا ہے، اور جس طرح کسی عام خزانے کے پاس سے مُوذی چیزوں کو دُور کرنا ضروری ہوتا ہے، اُسی طرح ہم کو اِس گنجینۂ زبانِ فارسی سے بھی مُوذی و ضررآور چیزوں کو دُور کرنا لازم ہے، مبادا یہ شریر و مُوذی جانور و اشیاء ہماری زبان کے خزانے کو مخدوش و معیوب کر دیں۔ «مُوش و مار» (چُوہا و سانپ) سے شاید زبانِ فارسی کے دُشمنوں وَ بدخواہوں کی جانب اشارہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جهان‌آرا جهان ایچینده‌دۆر، آرایې بیلمه‌زلر
اۏ ماهی‌لر که دریا ایچره‌دۆر، دریایې بیلمه‌زلر

(خیالی بیگ)
جہان کی آرائش کرنے والا جہان کے اندر ہے، [مردُم] اُس کو تلاش نہیں کر پاتے۔۔۔ جو مچھلیاں بحر کے اندر ہیں، وہ بحر کو نہیں جانتیں۔

Cihān-ārā cihān içindədür, arayı bilməzlər!
O māhîlər ki dəryā içrədür, dəryāyı bilməzlər!


تشریح:
"بیت میں تصوُّف کی اساس کو بیان کیا گیا ہے: مُتصوِّفوں کے مطابق خدا، وُجودِ مُطلَق ہے اور اُس کے سوا کوئی ہستی نہیں ہے؛ تمام کائنات، حیوانات، نباتات و اشیاء خدا کی ذات کا جلوہ و عکس ہیں۔ تصوُّف میں [اِس] بُنیادی اُصول کو "لا موجود الا اللہ" (خدا کے سوا کوئی ہستی نہیں ہے) "کے سُخن میں خُلاصہ کیا گیا ہے۔"
(تُرکی سے ترجمہ شُدہ)
مأخذ

"شاعر تصوُّف کے عقائد پر تکیہ کرتے ہوئے اِس بیت میں بیان کر رہا ہے کہ اللہ کائنات میں اپنی تمام تخلیق کردہ اشیاء میں ظاہر ہوتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اللہ کو دیکھنے اور جاننے کے لیے کائنات کی جانب نگاہ کرنا کافی ہے۔ کیونکہ ہر شَے اُس کی ہستی کی ایک دلیل ہے۔ لیکن، اُس کے لیے ایسی چشم لازم ہے جو شَے کا ایسا ہونا دیکھے۔ غافلوں کی چشمیں اِس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ وہ جہان کے اللہ سے پُر ہونے کو فہم نہیں کر سکتے؛ اُسی طرح جس طرح بحر میں زندگی کرنے والی مچھلیاں بحر کی حقیقت کو نہیں جانتیں۔"
(تُرکی سے ترجمہ شُدہ)
مأخذ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز فوتِ مطلبِ جُزئی مشو غمین که فلک
ستاره می‌برَد و آفتاب می‌آرد

(صائب تبریزی)
[کسی] جُزئی و کُوچک مُراد کے، دست سے ضائع ہو جانے پر غمگین مت ہوؤ کیونکہ فلک ستارہ لے کر جاتا ہے اور خورشید لاتا ہے۔
× کُوچَک = چھوٹا/چھوٹی

عُثمانی مُؤلّف «محمد خُلوصی» نے اپنی تألیف «مُجَوهراتِ صائبِ تبریزی» (۱۹۱۵ء) میں مندرجۂ بالا بیت کی یہ تشریح کی تھی:

"عزیزیم! اوفاجېق بیر مطلَبېن عدمِ حُصولۆندن دۏلایې مأیوس و مُکدّر اۏلما! اعظَمېنا مُنتظِر اۏل! چۆنکه فلک‌ده یېلدېز غایب اۏلونجا آفتاب طُلوع ائدییۏر. سن ده تجلِّیاتا مُنتظِر، ظُهُوراتا تابِع اۏل!"

میرے عزیز! کسی بِسیار کُوچک مطلوب و مُراد کے عدمِ حُصول کے باعث مایوس و ملول مت ہوؤ! اُس سے برتر و عظیم تر کے مُنتظِر ہوؤ! کیونکہ فلک پر ستارے کے غائب ہونے پر آفتاب طُلوع کرتا ہے۔ تم بھی تجلّیات کے مُنتظِر، ظُہُورات کے تابِع رہو!


 

حسان خان

لائبریرین
لوحِ عالَم‌دن یودوم اشک ایله مجنون آدې‌نې
ای فضولی من دخی عالَم‌ده بیر آد ائیله‌رم

(محمد فضولی بغدادی)
میں نے اشک کے ذریعے لَوحِ عالَم سے مجنون کے نام کو دھو ڈالا (محو کر دیا)۔۔۔ اے فُضولی! میں بھی عالَم میں ایک نام کروں گا۔
(یعنی مجنون کا نام مِٹا کر اب لوحِ عالَم پر میں اپنا نام ثبت کروں گا۔)

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Lövhi-aləmdən yudum əşk ilə Məcnun adını,
Ey Füzuli, mən dəxi aləmdə bir ad eylərəm.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Levh-i âlemden yudum eşk ile Mecnûn adını
Ey Fuzûli ben dahi âlemde bir ad eylerim


تُرکِیَوی ادیب مرحوم «علی نِہاد تارلان» نے جنابِ «فُضولی بغدادی» کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کی یہ تشریح کی تھی:
میں نے عالَم کے صفحے سے اپنے اشکوں کے ذریعے مجنون کے نام کو محو کر دیا۔ اے فضولی، میں بھی اِس طریقے سے عالَم میں مجنون کی طرح اِک شُہرت کا مالک بنوں گا۔
مجنون کا نام عالَم کے صفحے پر سیاہی کے ذریعے لِکھا گیا تھا۔ قدیم سیاہیاں آب کے ذریعے محو ہو جاتی تھیں۔ فضولی بھی مجنون کے نام کو اشک کے ذریعے محو کر کے اُس کی جگہ پر اپنا نام لِکھ رہا ہے۔
«ایک نام کروں گا» یعنی ایک شُہرت کماؤں گا، علاوہ بریں، اِس کا مفہوم یہ بھی ہے کہ اُس کی جگہ پر ایک نام، اپنا نام لِکھوں گا۔
عالَم کے صفحے سے کسی نام کو محو کرنے کے لیے کس قدر اشک بہانا لازم ہے! فُضولی اِس بیت میں یہ بھی بتا رہا ہے کہ اُس نے بِسیار زیاد اشک بہائے ہیں، اور یہ بھی بیان کر رہا ہے کہ وہ مجنون سے برتر عاشق ہے۔

(تُرکی سے ترجمہ شدہ)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مثنویِ مولانا رُومی سے چند ابیات:
صد هزاران سال ابلیسِ لعین
بود ز ابدال و امیر المؤمنین
پنجه زد با آدم از نازی که داشت
گشت رسوا همچو سَرگین وقتِ چاشت
[پنجه با مردان مزن ای بُوالْهَوَس
برتر از سلطان چه می‌رانی فرَس]

(مولانا جلال‌الدین رومی)
اِبلیسِ لعین صد ہزاروں سال تک ابدال میں سے تھا اور امیر المؤمنین تھا۔ [لیکن] اُس کو جو غرور و تکبُّر تھا، اُس کے باعث اُس نے آدم سے پنجہ لڑایا، [اور نتیجتاً] وہ چاشت کے وقت کے گوبر کی مانند رُسوا ہو گیا۔ اے [شخصِ] بُوالْہَوَس! مردانِ [خدا] کے ساتھ پنجہ مت لڑاؤ!۔۔۔ سُلطان سے برتر و تیزتر تم اسْپ کس لیے دوڑاتے ہو؟

======================

محمد تقی جعفری نے اپنی کتاب «تفسیر و نقد و تحلیلِ مثنویِ جلال‌الدین محمّد بلخی» میں مندرجۂ بالا ابیات کی یوں تشریح کی ہے:

"نمی‌بینید که صدها هزار سال شیطان لعین جزء اولیاء‌الله بود، هنگامی که امتحانی پیش آمد و به او دستور داده شد که به آدم سجده کند، چگونه رسوا گشت؟ هرگز در اندیشهٔ آن مباشید که با برگزیدگان خدا پنجه درافکنید، زیرا - به سقوط شما خواهد انجامید."

ترجمہ:
"کیا آپ نہیں دیکھتے کہ شیطانِ لعین صدہا ہزار سال تک اولیاء اللہ کے زُمرے میں سے تھا، [لیکن] جس وقت ایک امتحان پیش آیا اور اُس کو حُکم دیا گیا کہ وہ آدم کو سجدہ کرے، تو وہ کیسے رُسوا ہو گیا؟ ہرگز اِس فکر میں نہ رہیے کہ آپ برگُزیدگانِ خدا کے ساتھ پنجہ لڑائیں گے، کیونکہ اِس کا انجام آپ کا سُقوط ہو گا۔"

× مندرجۂ بالا فارسی ابیات میں سے بیتِ ثالث صرف چند ایک نُسخوں میں نظر آئی ہے، اِس لیے اُس کو مُربّع قَوسین میں لکھا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
وهْم ایله‌ن سؤیله‌ر دلِ مجروح پَیکانېن سؤزۆن
احتیاط ایله‌ن ایچه‌ر هر کیم‌ده اۏلسا یاره سو

(محمد فضولی بغدادی)
دلِ زخمی [تمہارے] تیر کی نوک کے بارے میں خوف کے ساتھ سُخن کرتا (بولتا) ہے۔۔۔ جو بھی شخص زخمی ہو وہ احتیاط کے ساتھ آب پِیتا ہے۔

تشریح:
«پَیکان» تیر کی آہنی نوک کو کہتے ہیں، اور اِس سے احتمالاً معشوق کی مِژگاں مُراد ہیں۔ یعنی عاشق کا دلِ مجروح معشوق کی مِژگاں کے بارے میں خوف و لرز کے ساتھ سُخن کہتا ہے۔ ایک قدیم طِبّی باور یہ تھا "مجروح کو آب نہیں پِینا چاہیے، کیونکہ آب پِینا مجروح کی موت کا باعث بن جاتا ہے"۔ زخمی حالت میں آب پِینے میں احتیاط اُسی باعث کی جاتی تھی۔ اور فُضولی نے اُسی طِبّی باور پر اِستِناد کرتے ہوئے عاشق کے دلِ مجروح کے طرزِ عمل کی یہ توجیہہ کی ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Vəhm ilən söylər dili-məcruh peykanın sözün,
Ehtiyat ilən içər hər kimdə оlsa yarə, su.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Vehm ilen söyler dil-i mecrûh peykânuñ sözin
İhtiyât ilen içer her kimde olsa yare su
 
Top