فارسی شاعری فارسی و تُرکی ابیات: تشریح کے ساتھ

حسان خان

لائبریرین
زان سرِ زُلف و دهان دل خون شده‌ست
خون شود، چون دال پیوندد به میم
(کمال خُجندی)

اُس زُلف کے سِرے اور دہن سے [میرا] دل خون ہو گیا ہے۔۔۔ جب دال مِیم کے ساتھ پیوست ہوتا ہے تو خون بن جاتا ہے۔

تشریح: زُلفِ معشوق کو اُس کے خَم، اور دہنِ معشوق کو اُس کی تنگی کے باعث بالترتیب 'دال' اور 'مِیم' سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ 'دال' اور 'میم' جب باہم متّصل ہوتے ہیں تو 'دم' بنتا ہے جو عربی زبان میں 'خون' کو کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه سود از ناله کاندر چشمِ بختت
ز نفخِ صور بیداری نیاید
(خاقانی شروانی)

نالے سے کیا فائدہ؟ کہ تمہارے بخت کی چشم تو نفخِ صُور سے [بھی] بیدار نہیں ہو گی۔
× نَفْخ/نَفْخَه = پھونک، دم

تشریح: یعنی نالے سے تمہاری بدبختی خوش بختی میں تبدیل نہیں ہو جائے گی، لہٰذا اُس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کہ تمہارا بختِ خوابیدہ تو ایسا ہے اگر صور پھونکا جائے، کہ جس سے ہر مردہ بیدار ہو جائے گا، تو بھی اُس میں بیداری کے آثار ظاہر نہیں ہوں گے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رُموزِ قطره جز دریا کسی دیگر چه می‌داند؟
دلت در دست و از من حالِ دل پُرسیدنت نازم
(بیدل دهلوی)
قطرے کے رموز کو دریا کے سوا کوئی دیگر کیا جانے گا؟ دل کے تمہارے دست میں ہوتے ہوئے تمہارے مجھ سے حالِ دل پوچھنے پر مجھے ناز ہے [اور میں آفریں کہتا ہوں]۔

تشریح: "وقتی دلِ مرا برده‌ای و آن را در دست داری، دیگر احوالِ دل پرسیدن چه معنی دارد؟ آن دل که در دستِ توست، همانندِ قطره‌ای که به دریا وصل شده باشد. پس تو خود رموزِ آن را بهتر می‌دانی."
ترجمہ: جب تم میرا دل ہتھیا چکے ہو اور وہ تمہارے دست میں ہے تو پھر احوالِ دل پوچھنا کیا معنی رکھتا ہے؟ وہ دل کہ تمہارے دست میں ہے، اُس قطرے کی مانند ہے جو دریا سے وصل ہو چکا ہو۔ پس تم خود اُس کے رموز کو بہتر جانتے ہو۔
(شارح: محمد کاظم کاظمی، از افغانستان)
 

حسان خان

لائبریرین
صفایِ رویِ عرَق‌ناکِ یار را نازم
که صلح داده به هم آفتاب و شبنم را
(اوجی نظیری)
یار کے عرَق ناک چہرے کی صفا پر آفریں! کہ اُس نے آفتاب و شبنم میں باہم صلح کرا دی ہے۔
تشریح: شاعر نے چہرۂ یار کی صفا و پاکیزگی کو نورِ خورشید یا خورشید سے تشبیہ دی ہے، جبکہ اُس چہرے پر موجود عرَق کو شبنم کی مانند ٹھہرایا ہے۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ اگرچہ خورشید کے طلوع کے بعد شبنم بخار بن کر معدوم ہو جاتی ہے، لیکن خورشید جیسے چہرۂ یار پر شبنم جیسے عرَق کا ہونا اِس چیز کا حاکی ہے کہ یار کے چہرۂ عرَق ناک کی پاکیزگی نے آفتاب و شبنم کے مابین صلح کرا دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خاتَمِ مُلکِ سلیمان است علم
جمله عالَم صورت و جان است علم
(مولانا جلال‌الدین رومی)


تشریح: علم به منزلهٔ نگینِ انگشتریِ سلیمانِ نبی (ع) است. یعنی همان طور که طبقِ روایات شوکت و قدرتِ سلیمان (ع) به انگشتری‌اش بسته بود و بدان وسیله بر جنّ و اِنس و دیو و پری حکم می‌راند، علمِ باطنی و حقیقی نیز اگر بر قلبی نقش بندد، آن کس بر همهٔ موجوداتِ جهان حاکم شود. چرا که جھان به منزلهٔ کالبد است، و علمِ باطنی به منزلهٔ روح و جانِ آن."

ترجمہ: علم سلیمانِ نبی (ع) کی انگشتری کے نگین کی مانند ہے۔ یعنی جس طرح روایات کے مطابق سلیمان (ع) کی شوکت و قدرت اُن کی انگشتری سے وابستہ تھی اور وہ اُس کے وسیلے سے جن و اِنس و دیو و پری پر حکمرانی کرتے تھے، اُسی طرح اگر علمِ باطنی و حقیقی بھی کسی شخص کے قلب پر نقش باندھ لے تو وہ شخص ہمۂ موجوداتِ جہا‌ں پر حاکم ہو جائے۔ کیونکہ جہان قالب کی طرح ہے، اور علمِ باطنی اُس کی روح و جان کی طرح۔

[شارح: سیّد یونس اِستَرَوشنی]
ماخذ
 

حسان خان

لائبریرین
کاهلان را جز لَگَدکوبِ حوادث چاره نیست
می‌کند مالیدگی سُستیِ اعضا را علاج
(ملا محمد سعید اشرف مازندرانی)

کاہلوں کو بجز حوادث کی لَگَدکوبی کے چارہ نہیں ہے؛ مالش [ہی] سُستیِ اعضا کا علاج کرتی ہے۔

× لَگَد = لات
× لَگَدکوبی = لاتوں سے ضرب مارنے یا پامال کرنے کا عمل

تشریح: جب اعضاء پر سُستی طاری ہو تو سُستی دور کرنے کے لیے اعضاء کی مالش کرائی جاتی ہے۔ شاعر اِس بات کی مثال دیتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ چونکہ کاہل افراد بھی سُستی کا شکار ہیں، اِس لیے اُنہیں حوادثِ زمانہ کی لاتوں کی ضربیں کھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ شاعر نے حادثات کی لَگَدکوبی کو مالش سے تشبیہ دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
تفاوت در نقاب و حسن جز نامی نمی‌باشد
خوشا آیینهٔ صافی که لیلیٰ دید محمل را
(بیدل دهلوی)

نقاب اور حُسن میں ایک نام کے سوا کوئی فرق نہیں ہے۔ اُس پاک صاف آئینے پر آفریں ہے کہ جس نے محمل کو لیلیٰ دیکھا۔
تشریح: بیدل کہتے ہیں کہ خواہ حُسنِ مُطلق پنہاں ہو یا آشکار، ذرا فرق نہیں پڑتا اور اگر کوئی تفاوت ہے بھی تو وہ ظاہرِ امر میں ہے۔ اُس عاشق کے حال پر آفریں ہے جو اپنی باطنی چشم سے ہر چیز میں معشوق کا پرتَو دیکھتا ہے، اور اِسی باطنی چشم سے دیکھنے کے باعث نگاہِ مجنوں میں محمل لیلیٰ ہی ہے اور دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سعد اگر خوانی، چه حاصل طینتِ منحوس را؟
همچنان مسخ است اگر بوزینه میمون می‌شود
(بیدل دهلوی)


ترجمہ: اگر تم سعد (یعنی مبارک) کہہ کر (بھی) پکارو تو اس سے منحوس فطرت کو کیا فائدہ ہے؟۔۔۔ اگر بندر میمون بن جائے (یعنی اگر میمون کے نام سے پکارا جائے) تب بھی وہ اُسی طرح مسخ رہے گا۔
میمون = ۱. بندر ۲. مبارک، خجستہ

تشریح: بیدل نے لفظ میمون کے ایہام سے استفادہ کیا ہے۔ کہتا ہے کہ اگر بندر میمون (بمعنی سعد و مبارک) بھی بن جائے، تب بھی اُس کے حال میں کوئی فرق نہیں آئے گا، کیونکہ وہ قبل کی طرح میمون (بمعنی بندر) ہی رہے گا۔
ضمناً، یہ کہنہ شاعری کی اُن اندک مثالوں میں سے ہے جہاں میں نے لفظ 'میمون' کو بندر کے معنی میں، یعنی اُسی معنی میں کہ جو اس وقت ایران میں رائج ہے، دیکھا ہے۔ ورنہ 'میمون' زیادہ تر 'مبارک' کے معنی میں مستعمل رہا ہے اور اس جانور کو 'بوزینہ' یا کچھ اور کہا جاتا تھا۔
(شارح: محمد کاظم کاظمی)
 

حسان خان

لائبریرین
زاهد تو هم برافروز شمعِ غرورِ طاعت
رحمت درین شبستان پروانهٔ گناه است

(بیدل دهلوی)

ترجمہ: اے زاہد! تم بھی اپنی غرورِ اطاعت کی شمع روشن کر لو۔۔۔ اس شبستان میں رحمت گناہ کا اجازت نامہ ہے۔

تشریح: شاعروں نے زاہد کے مقابل بیشتر دفعہ، اپنے گناہوں کی توجیہ کے لیے، رحمتِ خداوند کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی حوالے سے یہاں بیدل زاہد کے عصیان و گناہ کی بھی توجیہ کر رہا ہے اور اُسے قابلِ قبول دیکھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ آخرکار جب رحمتِ خداوند موجود ہے تو یہ رحمت زاہد کے کیوں لیے نہ ہو؟ اگر یہ طے ہے کہ خدا ہمارے گناہوں کو بخشے گا تو پھر وہ اُس کے گناہِ غرور کو بھی بخش دے گا۔ یہاں ایک قسم کا تساہلِ رندانہ موجود ہے۔
اس شعر میں 'اجازت نامے' کے معنی میں لفظ 'پروانہ' بھی قابلِ توجہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیدل نے لفظ 'پروانے' میں موجود ایہام سے بھی کام لیا ہے، یعنی اس لفظ کو اپنے دوسرے معنی میں 'شمع' اور 'شبستان' سے مربوط کیا ہے۔ در حقیقت یہاں برافروز، شمع، شبستان اور پروانے کے درمِیان مراعات النظیر ہے۔

(شارح: محمد کاظم کاظمی)
 

حسان خان

لائبریرین
بهار آمد، تو هم ای زاهدِ بی‌درد، تزویری!
چمن گل، شیشه قلقل، یار مستی، من جنون کردم
(بیدل دهلوی)


ترجمہ: موسمِ بہار آ گیا۔۔۔ (جس کے باعث) چمن میں گُل کھِل گئے، شیشے نے قُلقُل کی آواز کی، یار نے مستی دکھائی اور میں نے جنون اپنا لیا۔۔۔ اب اے بے درد زاہد، تم بھی کوئی ریاکاری کرو!

تشریح: زاہد سے ہمیشہ اس بات کی توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ ریاکاری و تزویر سے دور رہے گا، لیکن بیدل کا یہاں گویا یہ باور ہے کہ یہ ریاکاری اب زاہد کی ذاتی صفات کا جز بن چکی ہے۔ پس اب کہ جب چمن میں گُل شگفتہ ہو رہے ہیں، شیشہ قُلقُل کر رہا ہے، یار مستی کر رہا ہے، اور شاعر جنوں۔۔۔؛ یعنی جس وقت کہ درحقیقت تمام وجودی مظاہر اپنی اصلی قابلیتوں کا اظہار کر رہے ہیں، زاہد کو بھی اپنی ریاکاری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس شعر میں ایک قسم کا طنز پنہاں ہے۔
اس نکتے کی یاد دہانی ضروری ہے کہ یہ 'تزویری!' اصل میں 'تزویری بکن' کی جگہ پر استعمال ہوا ہے۔ بیدل نے اس طرح کے امری بیانات کا بِسیار استعمال کیا ہے۔
(شارح: محمد کاظم کاظمی)
 

حسان خان

لائبریرین
غم دئڲیل جسمیمده گر سنگِ ملامت زخمی وار
شحنهٔ بازارِ سودایم بو زیوردیر مانا

(محمد فضولی بغدادی)
اگر میرے جسم پر سنگِ ملامت کا زخم موجود ہے تو غم نہیں ہے؛ میں بازارِ عشق کا داروغہ ہوں [اور] یہ میرے لیے زیور ہے۔

Qəm degil, cismimdə gər səngi-məlamət zəxmi var
Şəhneyi-bazari-sevdayəm, bu zivərdir mana


تُرکیہ کے ادبیات شناس مرحوم علی نہاد تارلان نے محمد فضولی بغدادی کی مندرجۂ بالا بیت کی تشریح یہ کی ہے:
"اگر میرے وجود میں سنگِ ملامت کا زخم موجود ہو تو غم نہیں ہے، میں ذرا ناراحت نہیں ہوتا۔ کیونکہ میں عشق کے بازار کا رئیسِ عسس ہوں۔ یہ میرے لیے ایک زیور ہے۔ عشق کے باعث اپنے اوپر ہونے والی ملامتوں کو ایک زیور شمار کیا ہے۔
رئیسِ عسس کو بازار میں اشیاء بیچنے والے پسند نہیں کرتے۔ ہمیشہ اُس کو ملامت کرتے ہیں۔ لیکن یہ ملامتیں رئیسِ عسس کے لیے ایک اعزاز ہیں۔ اِن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے فرض کو درست طریقے سے ایفاء کر رہا ہے۔ وہ اِن ملامتوں پر فخر کرتا ہے۔
شاعر بھی بازارِ عشق کا رئیسِ عسس ہے۔ وہاں وہ کسی بھی حیلے کو میدان میں آنے کا موقع نہیں دیتا۔ عشق کے جو بھی اُصول و آداب ہیں وہ اُنہیں بجا لاتا ہے۔"
× عسس = پاسبان، داروغہ، شبگرد
 

حسان خان

لائبریرین
دشت توتماق عادتین قۏیموشدو مجنون عشق‌ده
شُهرهٔ شهر اۏلماغېن رسمین من ائتدیم اِختراع

(محمد فضولی بغدادی)
عشق میں بیابان کا رُخ کرنے کی عادت مجنوں نے ڈالی تھی۔۔۔ [لیکن] شُہرۂ شہر (یعنی شہر میں مشہور و بدنام) ہونے کی رسم کو میں نے اِختراع کیا ہے۔

تشریح: شاعر مجنون پر طنز کرتے ہوئے اور خود کو اُس سے برتر بتاتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ مجنوں نے حالتِ عشق میں شہر کو تَرک کر کے صحرا و بیابان کا رُخ کر لینے کی روایت کا آغاز کیا تھا، جہاں پر دیوانگی اور مجنونیت کرنا آسان ہے، کیونکہ وہاں انسان زندگی نہیں کرتے جو مجنوں‌ کو سنگِ ملامت کا نشانہ بنا سکیں۔ لیکن میں نے انسانوں کے درمیان شہر میں مشہور و بدنام ہونے کی رسم اِختراع کی ہے، جو کئی درجے زیادہ مشکل ہے۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Dəşt tutmaq adətin qoymuşdu Məcnun eşqdə,
Şöhreyi-şəhr olmağın rəsmin mən etdim ixtira’.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Deşt tutmak âdetin koymuştu Mecnun aşkta
Şöhre-i şehr olmağın resmin ben ettim ihtirâ’
 

حسان خان

لائبریرین
اۏلسا استعدادِ عارف قابلِ ادراکِ وحْی
امرِ حق اِرسالېنا هر ذرّه‌دیر بیر جبرئیل

(محمد فضولی بغدادی)
اگر عارف کی استعداد وحی کے اِدراک کی قابلیت رکھتی ہو تو امرِ حق کے اِرسال کے لیے ہر ذرّہ ایک جبرئیل ہے۔

تُرکیہ کے ادبیات شناس علی نِہاد تارلان شرحِ دیوانِ فضولی میں اِس بیت کی شرح میں لکھتے ہیں:
"کائنات میں ہر ذرّہ جنابِ حق تعالیٰ کی ہستی پر شاہد ہے۔ اور جبرئیل کی مانند حق تعالیٰ کے امر و حُکم کو عارف تک پہنچاتا ہے۔ لیکن فقط عارف کا اِدراکِ وحی کی قابلیت رکھنے والا ہونا ضروری ہے۔"

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Olsa iste’dadi-arif qabili-idraki-vəhy,
Əmri-həq irsalına hər zərrədir bir Cəbrəil.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Olsa isti’dâd-i ârif kâbil-i idrâk-i vahy
Emr-i Hak irsâline her zerredir bir Cebre’îl
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان سُلیمان قانونی عثمانی کی مدح میں کہے گئے قصیدے کی ایک بیت میں محمد فضولی بغدادی فرماتے ہیں:
قېل فضولی مدحین اۏل شاهېن که باغِ مدحینین
بُلبُلۆ اۏلوردو بولسا قُدرتِ گُفتار گُل

(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! اُس شاہ کی مدح کرو کہ گُل جس کے باغِ مدحت کا بُلبُل ہو جاتا، اگر اُس (گُل) کو قُدرتِ گُفتار مِلتی۔

تشریح: بُلبُل گُل کا عاشق ہوتا ہے اور گُل کے لیے نغمہ سرائی کرتا ہے، جبکہ گُل اپنے اِس عاشقِ مدّاح کے نغمے و قصیدے سُنتا ہے۔ فضولی کہہ رہے ہیں کہ شاہ کی شخصیت ایسی والا و زیبا ہے کہ گُل کو اگر قُدرتِ گُفتار مِل جاتی تو وہ شاہ کی مِدحت کے باغ میں آ کر بُلبُل بن جاتا اور شاہ کے لیے قصیدے کہتا۔ لہذا، اے فضولی، تمہیں چاہیے کہ تم ایسے شاہ کی مدح کرو۔

جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Qıl, Füzuli, mədhin ol şahın ki, bağı-mədhinin
Bülbülü olurdu, bulsa qüdrəti-güftar gül.


تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Kıl Fuzûli medhin ol Şâh’ın ki bâğ-i medhinin
Bülbülü olurdu bulsa kuvvet-i güftâr gül


× تُرکیہ کے مأخذ میں 'قُدرتِ گُفتار' کی بجائے 'قوّتِ گُفتار' نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اسپِ تازی زیرِ پالان گشته مجروح و ضعیف
طوقِ زر در گردنِ خر شد نمی‌دانم چرا

(عایشه دُرّانی)
اسپِ عربی پالان کے زیر میں مجروح و ضعیف ہو گیا ہے، [جبکہ] خر کی گردن میں‌ طوقِ زرّیں آ گیا [ہے]۔۔۔ میں نہیں جانتی کیوں؟

تشریح: عربی اسْپوں (گھوڑوں) کو اسپوں کی اعلیٰ ترین نسل مانا جاتا ہے۔ جبکہ خر کو اُس کے مقابلے میں کمتر حیثیت والا سمجھا جاتا ہے۔ شاعرہ زمانے اور مُعاشرے کی پریشان حالی کا ذکر اور شِکوَہ کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ جو نجیب و اصیل اسپِ عربی تھا وہ تو لاغر و مجروح و کمزور کھڑا ہے، یعنی زمانے کی ناقدردانی کا شکار ہے، جبکہ دیگر جانب خر کی گردن میں زر سے بنا طوق موجود ہے۔ یعنی اب خروں کی عربی اسپوں سے بیشتر تعظیم کی جا رہی ہے۔ شاعرہ بیت کے آخر میں لاعلمی و حیرانی ظاہر کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ اُن کو اِس کا سبب نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔ اِس اظہارِ لاعلمی میں بھی ہم عصر زمانے کے بے ترتیب و درہم ہونے کی ایک شکایت محسوس ہوتی ہے۔
'پالان' باربردار جانوروں کی پُشت پر رکھے جانی والی گدّی کو کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چېخدې رحمِ شاخ‌دان طِفلِ شرَف‌افزایِ گُل
گلدی مریم‌دن ظُهورا حضرتِ عیسایِ گُل

(مولانا میرزا نصرالله بیگ شیروانی 'دیده')
بطنِ شاخ سے طِفلِ شرف افزائے گُل بیرون نکل گیا۔۔۔ مریم سے حضرتِ عیسائے گُل ظہور میں آ گیا۔

× رَحِم/رَحْم = بطن، بچّہ دانی | طِفل = بچّہ | شرَف افزا = شرَف میں اضافہ کرنے والا

تشریح: شاعر نے مصرعِ اول میں بہار کی آمد پر شاخوں پر گُلوں کے کِھلنے کا ذکر کرتے ہوئے شاخ کو ایک نوزائیدہ مادر اور گُل کو ایک باعثِ شرف و آبرو نومولود بچّے کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شاخ کے بطن سے طِفل گُل بیرون آ گیا، یعنی شاخ پر گُل شُکوفا ہو گئے۔ مصرعِ ثانی میں شاعر نے تمثیلاً شاخ کو حضرتِ مریم اور گُل کو اُن کے پِسرِ ارجمند حضرتِ عیسیٰ سے تشبیہ دے کر کہا ہے کہ حضرتِ مریم جیسی شاخ سے حضرتِ عیسیٰ جیسا گُل ظُہور میں آ گیا۔ یعنی شاعر کے نزدیک فصلِ بہار میں شاخ پر گُل کا نِکلنا ایسا ہے گویا حضرتِ مریم کے رحِم سے حضرتِ عیسی ظُہور میں آ گئے ہوں۔

Çıhdı rahm-i şâhdan tıfl-i şeref-efzâ-yı gül
Geldi Meryem’den zuhûra Hazret-i ‘Îsâ-yı gül
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نوروز درآمد و برآورد
هر گنج که در زمین دفین است

(ادیب صابر تِرمِذی)
نوروز داخل ہو گیا، اور زمین میں جو بھی خزانہ مدفون تھا، اُس کو وہ بالا لے آیا۔

تشریح:
عیسوی تقویم کے مطابق ہر سال ۲۰-۲۱ مارچ کو خورشید بُرجِ حَمَل میں داخل ہوتا ہے جس کو موسمِ بہار کا آغاز سمجھا جاتا ہے، اور اِسی آمدِ بہار کی خوشی میں اور فصلِ بہار کے استقبال میں ہر سال اِس روز 'نوروز' نامی جشن اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ایران و افغانستان میں سرکاری سطح پر رائج شمسی ہجری تقویم کے سالِ نو کی ابتداء بھی اِسی 'نوروز' کے روز ہوتی ہے۔
شاعر نے یہ بیت وصفِ آغازِ بہار میں کہی ہے۔ بہار کی آمد سے قبل تک زمین خُشکیدہ، اور اُس کی سرسبزی مفقود ہوتی ہے۔ شاعر نے سبزے اور گیاہ و درخت کو زمین کے خزانوں سے تشبیہ دی ہے اور اُس کی نگاہ میں زمین کی بے سبزی ایسی ہے گویا زمین کا خزانہ زمین کے اندر مدفون ہو۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ جب نوروز داخل ہوا تو وہ زمین کے تمام خزانوں کو بالا و بیرون لے آیا، یعنی نوروز نے زمین کو دوبارہ سرسبز کر دیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تابشِ مَی که رُخِ یارِ دل‌افروزا گله
بنزر اۏل عیدِ صفابخشا که نوروزا گله

(احمد پاشا)
چہرۂ یارِ دل افروز پر آنے والی تابشِ شراب اُس عیدِ صفابخش سے مشابہت رکھتی ہے کہ جو نوروز [کے موقع] پر آئے۔

Tâbiş-i mey ki ruh-ı yâr-ı dil-efrûza gele
Benzer ol îd-i safa-bahşa ki nev-rûza gele


تشریح: عید اور نوروز دونوں مبارک و شاد ایّام ہیں، اِس لیے اگر کسی سال دونوں روز ایک ہی تاریخ میں بیک وقت واقع ہو جائیں تو خوشیاں دوچند ہو جاتی ہیں۔ اُسی طرح اگر یار کے چہرے پر، جو خود ہی دل افروز ہے، اگر نوشیدنِ شراب سے رونقی و تابندگی آ جائے تو یہ ایسا ہے کہ گویا عید اور نوروز نے باہم آ کر نورٌ علیٰ نور کر دیا ہے۔ شاعر نے یار کے رُخ کو نوروز سے، اور اُس پر آنے والی تابشِ شراب کو عید سے تشبیہ دی ہے۔
یہ فارسی بیت دیکھیے:
مبارک رُویِ تو با آن جمالِ بیش ز اندازه
بِدان نوروز می‌مانَد که اندر روزِ عید اُفتد
(امیر حسن سجزی دهلوی)

تمہارا مبارک چہرہ اُس بیش از حد حُسن کے ساتھ ایسی نوروز کی مانند ہے کہ جو عید کے روز واقع ہوتی ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
دُویی در کیشِ از خود رفتگان کُفر است ای زاهد
من و محوِ صنم گشتن تو و یادِ خدا کردن

(بیدل دهلوی)
اے زاہد! جو افراد خود سے بے خبر ہوں اُن کے دین میں دُوئی و ثنَویت کُفر ہے۔۔۔ میں صنم میں محو و نیست ہوتا ہوں [جبکہ] تم خُدا کی یاد کرتے ہو۔

تشریح: 'از خود رفته' اُس شخص کو کہتے ہیں جو خود کی ذات سے بے خبر و بے ہوش ہو اور مندرجۂ بالا بیت میں یہ اُس شخص کے لیے استعمال ہوا ہے جو خود کی ذات کو تَرک کر کے محبوب میں زائل ہو گیا ہو۔ دیگر مُتصوِّف شاعروں کی طرح بیدل بھی 'از خود رفتگی' کو توحیدِ حقیقی کے لیے ایک اہم شرط سمجھتے ہیں۔ 'کِیش' فارسی میں 'دین' کا مترادف لفظ ہے، جبکہ 'دُوئی' کا معنی 'دوگانگی' ہے اور یہاں خدائے یگانہ کے وجود کے سوا کسی دیگر چیز کے وجود کا معتقد ہونے کے مفہوم میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ بیدل، از خود رفتگاں کے کِیش و دین میں 'دُوئی' کو جائز نہیں جانتے، بلکہ اُس کو کُفر جانتے ہیں۔ وہ زاہد پر اِستہزا کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اے زاہد، تم ہمیشہ خدا کو یاد کرتے اور خود کو خدا سے جدا تصوُّر کرتے ہو، لیکن میں سعی کرتا ہوں کہ محض یاد کرنے کی بجائے میں خود کو صنم میں محو و نابود کر لوں۔ اے زاہد تم خود کو خدا سے جدا دیکھتے ہو، جو ہم از خود رفتَگاں کی نظر میں کُفر ہے، جبکہ میں خود کو اُس میں کاملاً محو دیکھتا ہوں، اور یہی ہماری نظر میں اصل و حقیقتِ ایمان و توحید ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سرت ار به چرخ ساید نخوری فریبِ عزّت
که همان کفِ غُباری به هوا رسیده باشی

(بیدل دهلوی)
تمہارا سر اگر فلک تک پہنچ جائے، [تو بھی] عزّت کا فریب مت کھانا۔۔۔ کہ تم تو وہی کفِ غُبار ہو، [خواہ] ہوا پر پہنچ جاؤ۔

تشریح: برآمدن از نردبانِ آسمان و قدم زدن بر بلندایِ چرخ، ماهیتِ انسان را تغییر نمی‌دهد و غبار اگر به هوا نیز رسیده باشد ماهیتِ اصلیِ آن دگرگونی نمی‌پذیرد و همان غباری است که بوده‌است.
(شارح: عبدالبشیر فکرت بخشی)

ترجمہ: آسمان کے نَردَبان (سیڑھی) سے بالا آ جانا اور چرخ کی بلندیوں پر قدم رکھ دینا انسان کی ماہیت کو تبدیل نہیں کر دیتا اور غبار اگر ہوا تک بھی پہنچ جائے تو اُس کی ماہیتِ اصلی میں تغیُّر نہیں آتا اور وہ وہی غُبار رہتا ہے کہ جو تھا۔
 
آخری تدوین:
Top