حسان خان
لائبریرین
جنابِ «فُضولی» کے نعتیہ قصیدے «سو قصیدهسی» کی بیتِ ششُم:
اۏخشادا بیلمهز غُبارېنې مُحرِّر خطّینه
خامه تک باخماقدان ائنسه گؤزلرینه قاره سو
(محمد فضولی بغدادی)
کاتب اپنے [خطِ] غُبار کو تمہارے خطِ [مُو] سے مُشابِہ نہیں کر سکتا۔۔۔ خواہ نگاہ کرتے کرتے اُس کی چشموں میں قلم کی طرح سیاہ آب اُتر جائے۔
تشریح:
«غُبار» ایک رسم الخط کا بھی نام ہے، جس کی خاصیت یہ ہے کہ اُس کو بِسیار کُوچَک (چھوٹا) لِکھا جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے محبوبِ جواں کے چہرے پر تازہ اُگے کُوچک بالوں کو خطِ غُبار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ بیت میں شاعر محبوب سے (یا جنابِ پیغمبر سے) کہہ رہا ہے کہ اگر کاتب اپنے خطِ غُبار کو تمہارے چہرے کے کُوچک بالوں جیسا کرنا چاہے تو ہرگز ایسا نہیں کر سکتا، خواہ تمہارے چہرے پر مُسلسل نگاہ کرتے رہنے سے اُس کی چشموں میں سیاہ آب اُتر آئے اور وہ نابینا ہو جائے۔ فارس-تُرک ادبیات میں "آبِ سیاہ" اُس سیاہی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جس سے لِکھا جاتا ہے۔ شاعر اِس بیت میں غُبار، مُحرِّر، خامہ، خط، قاره سو (آبِ سیاه، سیاہی) جیسے الفاظ کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے صنعتِ مُراعات النظیر کو بروئے کار لایا ہے۔
قلم کی چشم میں سیاہ آب اُتر آنا یعنی قلم کی نوک میں سیاہی بھر جانا۔
چونکہ یہ ایک نعتیہ قصیدے کی تشبیب کا بیت ہے، لہٰذا گُمان کیا جا سکتا ہے کہ بیتِ ہٰذا میں شاعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ قلم پیغمبرِ گِرامی کے چہرے کی زیبائی کی توصیف کر پانے پر قادر نہیں ہے۔
جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Оxşada bilməz qübarini mühərrir xəttinə,
Xamə tək baxmaqdan ensə gözlərinə qarə su.
تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Ohşadabilmez gubârını muharrir hattuña
Hâme tek bahmakdan inse gözlerine kare su
اۏخشادا بیلمهز غُبارېنې مُحرِّر خطّینه
خامه تک باخماقدان ائنسه گؤزلرینه قاره سو
(محمد فضولی بغدادی)
کاتب اپنے [خطِ] غُبار کو تمہارے خطِ [مُو] سے مُشابِہ نہیں کر سکتا۔۔۔ خواہ نگاہ کرتے کرتے اُس کی چشموں میں قلم کی طرح سیاہ آب اُتر جائے۔
تشریح:
«غُبار» ایک رسم الخط کا بھی نام ہے، جس کی خاصیت یہ ہے کہ اُس کو بِسیار کُوچَک (چھوٹا) لِکھا جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے محبوبِ جواں کے چہرے پر تازہ اُگے کُوچک بالوں کو خطِ غُبار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ بیت میں شاعر محبوب سے (یا جنابِ پیغمبر سے) کہہ رہا ہے کہ اگر کاتب اپنے خطِ غُبار کو تمہارے چہرے کے کُوچک بالوں جیسا کرنا چاہے تو ہرگز ایسا نہیں کر سکتا، خواہ تمہارے چہرے پر مُسلسل نگاہ کرتے رہنے سے اُس کی چشموں میں سیاہ آب اُتر آئے اور وہ نابینا ہو جائے۔ فارس-تُرک ادبیات میں "آبِ سیاہ" اُس سیاہی کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے جس سے لِکھا جاتا ہے۔ شاعر اِس بیت میں غُبار، مُحرِّر، خامہ، خط، قاره سو (آبِ سیاه، سیاہی) جیسے الفاظ کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے صنعتِ مُراعات النظیر کو بروئے کار لایا ہے۔
قلم کی چشم میں سیاہ آب اُتر آنا یعنی قلم کی نوک میں سیاہی بھر جانا۔
چونکہ یہ ایک نعتیہ قصیدے کی تشبیب کا بیت ہے، لہٰذا گُمان کیا جا سکتا ہے کہ بیتِ ہٰذا میں شاعر یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ قلم پیغمبرِ گِرامی کے چہرے کی زیبائی کی توصیف کر پانے پر قادر نہیں ہے۔
جمہوریۂ آذربائجان کے لاطینی رسم الخط میں:
Оxşada bilməz qübarini mühərrir xəttinə,
Xamə tək baxmaqdan ensə gözlərinə qarə su.
تُرکیہ کے لاطینی رسم الخط میں:
Ohşadabilmez gubârını muharrir hattuña
Hâme tek bahmakdan inse gözlerine kare su