فتنہ انکارِ حدیث، ایک جائزہ

قسیم حیدر

محفلین
حدیث کے بارے میں اٹھائے جانے والے اہم شبہات کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔ اس موضوع پر مختف دھاگوں میں جو دھما چوکڑی مچی ہے اس کی بجائے بہتر تھا کہ علمِ حدیث کے کسی استاد کو تلاش کر کے ان کے سامنے یہ سوالات رکھے جاتے لیکن افسوس کہ دین کا علم جنسِ بازار بن کر رہ گیا ہے۔ ہر آدمی دین پر طبع آزمائی کرنے کی کوشش کرتا ہے خواہ علم و عمل سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔ حدیث پڑھنے یا پرکھنے کا شوق ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اِس فن کی باقاعدہ تعلم حاصل کی جائے۔ محدثین کے اصولوں سے واقفیت پیدا کرے۔ متعلقہ حدیث کے بارے میں ماہرینِ فن کی تشریح سے واقفیت حاصل کرے۔ لیکن اس کے لیے وہ طریقہ کار بہرحال مناسب نہیں ہے جو یہاں اپنایا گیا ہے۔
کتابتِ حدیث کی ممانعت؟
"بخاری شریف اور حدیثِ رسول صلعم کے متعلق کچھ معلومات میں" لکھا گیا ہے::
‏"حدثنا ‏ ‏ھداب بن خالد الازدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏ھمام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏ابي سعيد الخدري ‏ ‏ان رسول اللہ ‏ ‏صلى اللہ عليہ وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏ھمام ‏ ‏احسبہ قال متعمدا ‏ ‏فليتبوا ‏ ‏مقعدہ من النار
ترجمہ : ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ اور نہ لو (لکھو)، اور جس نے مجھ سے کچھ اور لکھا علاوہ قرآن کے تو اس کو چاہئیے کہ وہ اسے تلف کردے۔ اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اور وہ جس نے مجھ (رسول صلعم) سےکو کوئی نا درست بات منسوب کی --- اور حمام نے کہا ، کہ انہوں نے 'جان بوجھ' کر بھی کہا -- تو اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔"
اس حدیث کے متن کا سادہ ترجمہ دیکھیے:
"مجھ سے کچھ نہ لکھو، اور جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ اور کچھ لکھا ہو وہ اسے مٹا دے، اور میری حدیث بیان کرو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا ۔۔ہمام نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے "جان بوجھ کر" کے الفاظ بھی کہتے تھے۔۔تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"
میں نہیں سمجھ سکا کہ
" وحدثوا عني ولا حرج"
کا ترجمہ
" اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں"
کس قاعدے سے کیا گیا ہے۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو عربی متن میں "و لا" کی جگہ "بانہ" یا اس سے ملتا جلتا کوئی لفظ ہونا چاہیے تھا۔
حدیث کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہو رہا تھا تو عام لوگ قرآن اور حدیث میں امتیاز نہ کر سکتے تھے تب یہ حکم دیا گیا کہ قرآنِ کریم کی آیات لکھی جائیں اور حدیث زبانی بیان کی جائے تا کہ دونوں کا فرق قائم رہے۔ زبانی روایت کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ حکمًا فرمایا کہ "مجھے سے حدیث بیان کرو" اور ساتھ یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ "جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"۔ قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھنے کی یہ ممانعت وقتی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ابوشاہ یمنی صحابی کو حدیث لکھ کر دے دیں۔ اس واقعے کے بعد ممانعت کا حکم اگر دیا گیا ہو تو اس سے آگاہ فرمائیے۔ اسی موقع پر سوا لاکھ صحابہ کے بھرے مجمع میں ناقہ پر سوار ہر کر اعلان فرمایا تھا کہ:
"اللہ تعالیٰ اس بندے کو تروتازہ رکھے جس نے میرے اقوال سنے پھر انہیں یاد کر کے محفوظ کیا پھر اس شخص کو پہنچایا جس نے میرے یہ اقوال نہیں سنے۔"(ترمذی۔ کتاب العلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین دین کا حصہ ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا یَنَطِقُ عَنِ الھَوی اِن ھُوَ اِلا وَحی یُوحٰی (النجم 3۔4)
"وہ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو اُن پر نازل کی جا رہی ہے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انبیاء و رسل اور تمام اولادِ آدم کے سردار ہیں ان کی حدیث کو دین کا درجہ کیوں حاصل نہ ہو گا جبکہ سابقہ امتوں میں بھی انبیاء اور رسل کے فرامین کو وحی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ فرعون کی ہلاکت کی وجہ تورات کا نہیں موسٰی علیہ السلام کے فرامین کا انکار تھا۔ تورات تو اس کے غرق ہونے کے بعد نازل ہوئی تھی۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا اَھْلَكْنَا الْقُرُونَ الْاُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَھدًى وَرَحْمَۃ لَّعَلَّھمْ يَتَذَكَّرُونَ (القصص۔43)

"پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم موسٰی (علیہ السلام) کو تورات عطا کی۔"
لہٰذا صحابہ کرام اور اسلافِ امت کے ساتھ بڑی بدگمانی ہو گی کہ انہوں نے دین کے اس اہم حصے کو محفوظ کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور وقتی ممانعت کو قطعی سمجھ کر حدیث لکھنے سے باز رہے۔
کتابتِ حدیث کی مختصر تاریخ
یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام کے دور سے لے کر ائمہ محدثین کے دور تک متواتر حدیث کی کتابت ہوتی رہی ہے۔
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں جو تحریری مجموعے مرتب کیے گئے ان میں صحیفہ صادقہ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص)، صحیفہ عمر رضی اللہ عنہ، صحیفہ علی رضی اللہ عنہ، صحیفہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ، خطبہ حجۃ الوداع، مسند ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، صحیفہ ہمام بن منبہ، صحیفہ بشیر بن نہیک، صحیفہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کی مرویات جو ان کے شاگرد عروہ بن زبیر نے لکھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات جنہیں سعید بن زبیر تابعی نے مرتب کیا، صحیفہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ، رسالہ سمرہ بن جندب، صحیفہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسالہ سعد بن عبادہ انصاری وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ مجموعے تھے جن میں سے بیشتر صحابہ کرام نے خود لکھے یا لکھوائے۔ اگر منعِ کتابتِ حدیث والی حدیث کا حکم عام تھا تو کیا یہ سب صحابہ (معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نافرمان ہو گئے تھے؟
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا کارنامہ
99 ھ میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر حدیث کو جمع کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمارے پاس پہلے سے لکھی ہوئی موجود ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کا تحریری مجموعہ انہیں اپنے والد عبدالعزیز بن مروان (م 86ھ) کی وراثت سے ملا تھا۔ عمربن عبد العزیز نے مختلف دیار و امصار میں فرمان جاری کیے اور بارہ ماہر محدثین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جن کی کمیٹی کے سربراہ ابن شہاب زہری تھے۔ ان بارہ اشخاص نے الگ الگ مجموعے مرتب کیے اور انہیں دارالخلافہ بھیج دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بکھری ہوئی احادیث جمع ہو گئیں اور بعد میں آنے والے محدثین نے ان تحریری مجموعوں کو اپنی تصانیف میں ضم کر لیا۔
موطا امام مالک اور دوسری اہم تصانیف
اس کے بعد بھی حدیث کی کتابت جاری رہی اور مختلف مجموعے مرتب ہوئے۔ امام مالک کی موطا کی تالیف کا دور 130ھ سے شروع ہو کر 141 ھ پر ختم ہوتا ہے۔ یہی حال دوسری تصانیف کا ہے۔ ذیل میں ان کتابوں کے نام اور ان کے مولفین کے سال وفات دیے جاتے ہیں جسے دیکھنے سے واضح ہو جائے گا کہ اس پورے عرصے میں کبھی بھی ایسا دور نہیں گزرا جب حدیث نہ لکھی جاتی رہی ہو۔
جامع ابن جریج (وفات150ھ)، مسند امام ابوحنیفہ (150ھ)، جامع امام اوزاعی (157ھ)، جامع سفیان ثوری (161ھ)، جامع ابن المبارک (181ھ)، کتاب الخراج امام ابو یوسف (182ھ)، کتاب الآثار امام محمد بن حسن شیبانی (189ھ)،
اس دور میں مندرجہ ذیل مسانید مرتب کی گئیں۔
مسند امام شافعی (204ھ)، مسند البزاز حماد بن سلمہ بن دینار بصری (197ھ) مسند امام موسٰی بن جعفر کاظم (183ھ)، مسند ابوسفیان وکیع بن جراح (197ھ) وغیرہ۔
اس تفصیل کے بعد اس دعوے کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے کہ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد تک صحیح احادیث کا کوئی مجموعہ امت کے پاس موجود نہ تھا"؟ صحابہ کے تحریری مجموعوں کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ان کے بعد تابعین کے پاس جو تحریری مجموعے تھے ان کا شمار بھی مشکل ہے اور تابعین کا دور ختم نہیں ہوا تھا کہ سات عدد مسانید جن کا ذکر ہو چکا ہے منظر عام پر آ گئیں اسی زمانے میں موطا امام مالک کی تکمیل ہوئی جو صحت اور جامعیت کے اعتبار سے کتب ستہ میں شمار ہوتی ہے جبکہ صحیح البخاری 233ھ سے پہلے منظر عام پر آ چکی تھی، کیونکہ امام بخاری نے یہ کتاب امام یحیٰی بن معین، علی بن المدینی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ پر پیش کی تھی جن کے سال وفات بالترتیب 234ھ، 233ھ، اور 240 ھ ہیں۔
کتابت کے علاوہ حفظِ حدیث کا بھی عام رواج تھا۔ عربوں کے بے مثال حافظے نے حدیث کی حفاظت میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ایک مستقل موضوع ہے۔
کتب احادیث میں غلطیوں کی نشاندہی
دوسرا اعتراض ہے کہ کتب حدیث کی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے 90 صفحات کی کتاب چاہیے۔ غلطیوں سے مراد اگر ضعیف اور موضوع روایات کی نشاندہی ہے تو یہ کام محدیثین کر چکے ہیں۔ تازہ ترین کام علامہ ناصر الدین البانی کی "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ" کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جائے گا کہ علمِ حدیث کے ماہرین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی گئی باتوں کو کتنے سخت معیار پر پرکھتے ہیں۔ میرے پاس صحیح البخاری کا بیروت سے چھپا ہوا عربی ایڈیشن ہے جس کے صفحات ساڑھے تین ہزار سے کچھ اوپر ہیں۔ مسند احمد بن حنبل میں دس ہزار حدیثیں ہیں اور یہ مجموعہ بھی ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ صحیح البخاری، مسلم، ترمذی، النسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد، موطا امام مالک،سنن دارمی، مستدرک حاکم، سنن بیہقی، سنن دار قطنی، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مسند ابی یعلی، مسند اسحاق، مسند عبداللہ بن مبارک، مسند شافعی، مسند ابن الجعد اور مصنف ابن ابی شیبہ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں ہیں جن کے کل صفحات کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہی بنتی ہو گی۔ اس ضخیم مجموعے میں 90 صفحے ایسے ملیں جن پرکسی کو اعتراض ہو تو کیا یہی انصاف ہے کہ اس وجہ سے حدیث کے سارے ذخیرے کو دریا برد کر دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ حدیث غلط ہے یا پڑھنے والے کی تحقیق میں کمی ہے۔ گزارش ہے کہ کسی حدیث کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو رہی ہو تو علماء سے رجوع کر کے دریافت کیجیے کہ اس حدیث کا مرتبہ کیا ہے، صحیح ہے، ضعیف ہے یا موضوع ہے۔ اس سے کونسے مسائل اخذ ہوتے ہیں جن کی ضرورت روزمرہ زندگی میں رہتی ہے، علمِ حدیث کے ماہرین اس کی کیا تشریح کرتے ہیں۔ بڑی بے انصافی ہو گی کہ علماء اور ماہرینِ فن کو چھوڑ کر ہر آدمی اپنی مرضی کی تشریح کرتا رہے۔ ایسا اختیار اس سے کمتر شعبوں میں بھی دے دیا جائے تو سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔ ذرا سوچیے کہ کوئی پروفیسر فوج کی کمان سنبھالنے پر اصرار کرے، ڈاکٹر صاحب مطب چھوڑ کر تعمیراتی کام کا ٹھیکہ لے لیں یا ایک انجینئر مریضوں کا آپریشن کرنے میں لگ جائے تو کیا حال ہو ۔ افسوس کہ دین کے بارے میں یہ بنیادی اصول پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا۔
نماز کے طریقے میں فروعی اختلافات اور حدیث
نماز کے بارے میں کہا گیا کہ اگر حدیثیں صحیح اور قابل اعتبار ہوتیں تو نماز کے طریقے میں اختلاف کیوں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ہے۔ اختلاف پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلتے ہیں۔ حدیث سے نماز کا مکمل طریقہ چاہیے (جس کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے) تو الشیخ ناصرالدین البانی کی کتاب "صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کا مطالعہ کریں۔ اس میں نماز کا ایک ایک مسئلہ صحیح حدیث کی روشنی میں آپ کو مل جائے گا۔ تفصیل چاہیے تو اس موضوع پر ان کی مفصل کتاب "صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" پڑھیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں میں نماز کے ارکان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ، سنی،خارجی، حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، دیوبندی، بریلوی غرض تمام مکاتبِ فکر کہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ سب سے سب یہ بھی مانتے ہیں کہ فجر میں دو رکعت، ظہر، عصر، اور عشاء میں چار چار رکعت اور مغرب میں تین رکعت فرض ہے۔ نماز کے طریقے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔ یعنی سب مانتے ہیں کہ پہلے قیام پھر رکوع، پھر قومہ، پھر دو سجدے کریں گے تب ایک رکعت پوری ہو گی۔ سب اس پر بھی متفق ہیں کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ اختلاف صرف اتنا سا ہے کہ جماعت کی صورت میں امام کی قراءت سب کو کافی ہے یا ان کو الگ سے قراءت کرنی ہو گی۔ گویا صرف پڑھنے کی نوعیت میں فرق ہے۔ اسی طرح رفع الیدین کے بارے میں صرف اختلاف یہ ہے کہ افضل کیا ہے۔ کوئی شخص تحقیق کے بعد رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھے یا بغیر رفع الیدین کے نماز سب کے نزدیک صحیح ہو گی۔ پس نماز کے بنیادی ارکان اور بنیادی مسائل میں حدیث کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں جو لوگ حدیث کو چھوڑ بیٹھے ہیں ان میں نماز کے طریقے حتی کہ نمازوں کی تعداد پر جو اختلاف واقع ہوا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔ کوئی پانچوں نمازوں کو مانتا ہے، کسی کے نزدیک تین ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے مختلف آیتوں کے ٹکڑے کاٹ کر دعاؤں کا ایک مجوعہ گھڑا ہے اور نماز کے مختلف حصوں یعنی قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ کے لیے ایک ایک ٹکڑا کسی دلیل کے بغیر مقرر کر لیا ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب کا خیال تو کہ ہے کہ نماز، حج، زکٰوۃ سب فضول چیزیں ہیں اور اسلام کی ذلت و رسوائی اور پسی کا سبب ہیں۔ (طلوع اسلام، مارچ1953۔ ص46)۔ دوسری جگہ پرویز صاحب نے نماز کو ایران کے آگ پوجنے والے مجوسیوں کی رسم کا عکس قرار دیا ہے۔ (طلوع اسلام دسمبر 1951۔ ص47)
خلاصہ یہ کہ جو لوگ حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن سے نماز کا طریقہ دریافت کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ان کے درمیان نماز کی رکعات، کیفیت، ترکیب وغیرہ میں ایسا زبردست اختلاف پایا جاتا ہے جس کا نام و نشان بھی حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ملتا-
عجمی سازش
کہا جاتا ہے کہ حدیث کے مجموعے مرتب کرنے والے لوگ عجمی تھے اور انہوں نے سازش کر کے ذریعے اسلام کی اصل دعوت کو چھپا دیا۔ سنہ وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃ حدیث میں سرِ فہرست ابن شہاب زھری، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز رحمہم اللہ کے نام آتے ہیں۔ یہ سب سے سب نہ صرف عرب تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معزز قبیلے قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد جن محدثین نے حدیث کو اکٹھا کیا ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے حدیث پوری امت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ ان کے بعد کتب ستہ کے مولفین کا دور آتا ہے۔ ان میں امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی عربی النسل تھے۔ جن محدثین کی کتابیں آج رائج اور مقبول ہیں ان میں 18 عرب اور صرف 4 عجمی تھے۔ ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے پہلی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری کے آخر تک کے مشہور محدثین کا ذکر اپنی کتاب "تذکرۃ المحدثین" میں کیا ہے۔ ان کی تعداد ستر ہے جن میں سے 12 کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث کو عجمی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے۔
سند کا طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی گئی باتوں کو پرکھنے کے لیے محدثین نے سند کا طریقہ کار وضع کیا۔ فرض کیجیے کہ امام بخاری کے دور میں ایک حدیث بیان کی جا رہی تھی، تو حدیث کا راوی بتاتا تھا کہ میں نے یہ بات فلاں شخص سے سنی ہے، اس نے یہ بات فلاں سے سنی تھی اور اس سنانے والے نے فلاں صحابی کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوں کیا یا یوں فرمایا۔ محدثین نے ان تمام لوگوں کے حالاتِ زندگی جمع کیے جنہوں نے کبھی حدیث بیان کی تھی۔ امام بخاری اپنی صحیح البخاری میں کوئی حدیث اسی وقت درج کرتے ہیں جب یہ ثابت ہو جائے کہ سامع اور مسموع کی ملاقات ثابت ہے۔ پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ائمہ رجال کی تحقیق ان راویوں کے بارے میں کیا ہے۔ وہ سچے تھے یا جھوٹے، ان کا حافظہ کیسا تھا، وہ مختلف حدیثوں کو گڈمڈ تو نہ کر جاتے تھے وغیرہ۔ ائمہ رجال نے راویوں کے حالات جاننے میں زندگیاں کھپا دیں۔ آج بھی تقریبًا دس لاکھ آدمیوں کے حالاتِ زندگی کتب رجال میں موجود ہیں۔ تحقیق کا سائنٹفک انداز دیکھیے، اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کے جذبے پر قربان جائیے کہ راویوں کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا کہ فلاں راوی کا حافظہ کس عمر میں کیسا تھا۔ فلاں راوی آخر عمر میں حدیثیں گڈمڈ کر جاتا تھا۔ فلاں راوی جھوٹا تھا اس لیے وہ ناقابل اعتبار ہے۔ وغیرہ۔ علمِ رجال، جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک جز کی حفاظت کے لیے کسوٹی کا کام کیا ہے، اس کے بارے یہ کہنا قرینِ انصاف نہ ہو گا کہ:
" کہنے دیجئے کہ سند کا یہ فرسودہ نظام ایک مکاری پر مشتمل سیاسی جھنجھٹ اور شرم کا مقام ہے۔
محدثین اور حکومتوں کے تعلقات
محدثین کے بارے میں یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ سرکاری پٹھو تھے اور انہوں نے حکومتوں کے مفادات پورے کرنے کے لیے دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ حدیث کا سب سے پہلا جامع مجموعہ امام مالک رحمہ اللہ نے "موطا امام مالک" کے نام سے مرتب کیا تھا۔ اس مجموعے کو بعض علماء "کتب ستہ" میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے مولف امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے حکومت نے جبری طور پر فتوٰی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ امام مالک کے انکار پر ان کے شانے اکھڑوا دیے گئے اور منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر شہر کا گشت کرایا گیا۔ لیکن قربان جائیے امام کی استقامت کے۔ جس چوک سے گزرتے فرماتے جاتے تھے "لوگو! میں مالک بن انس ہوں۔ مجھے پہچان لو اور سن لو کہ جبری طلاق کے بارے میں حکومتی موقف درست نہیں ہے۔" تمام تر ظلم و ستم کے باوجود حکومت وقت امام صاحب سے ایک غلط فتوٰی بھی اپنی مرضی کا نہ لے سکی۔
مسند احمد بن حنبل کا شمار حدیث کے بڑے مجموعوں میں ہوتا ہے۔ اس میں دس ہزار کے قریب حدیثیں ہیں۔ اس کے مولف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں۔ ان کے زمانے میں مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا مخلوق۔ بادشاہ قرآن کو اللہ کی مخلوق کہتا تھا جبکہ امام صاحب اسے کلام اللہ کہتے تھے۔ کلمہ حق کہنے کی پاداش میں امامِ اہلِ سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ کھال پھٹ گئی اور گوشت نظر آنے لگ گیا۔ یہ عمل کئی دن چلتا رہا لیکن امام کی زبان پر ایک ہی بات تھی "یہ بات اللہ کے قرآن سے سمجھا دو یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان سے بتا دو"۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود حاکمِ وقت امام کو ان کے موقف سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکا۔
امام بخاری پر مختلف اوقات میں مختلف پابندیاں لگتی رہیں۔ کبھی شہر کے دروازے ان پر بند کیے جاتے تھے تو کبھی شہر بدر کیا جاتا تھا۔ آخری دفعہ جب حکومت نے انہیں شہر سے نکل جانے کا حکم دیا تو وہ بہت دلبرداشتہ ہوئے اور چند دن بعد وفات پا گئے۔ حاکمِ بخارا خالد بن احمد ذیلی نے اپنے بچوں کو گھر آ کر پڑھانے کی درخواست کی تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مسترد کر دیا۔ اس نے کہا کہ کم از کم میرے بچوں کو الگ درس دے دیا کریں۔ انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی۔ امت کے دوسرے بڑے بڑے علماء نے بھی ہمیشہ حکومتِ وقت کے غلط کاموں پر تنقید کی اور اس پر سزائیں برداشت کیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا جنازہ جیل سے نکلا تھا۔ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ اتنی بار جیل گئے کہ پس زندان جانا معمول بن گیا اور ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھایا گیا۔ برصغیر میں علماء نے بڑی صعوبتیں جھیلیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی زندگی کے کتنے ہی سال جیل کی نذر ہوئے۔ منکرینِ حدیث کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ کالا پانی کیا بلا ہوتی تھی جس کا سامنا جعفر تھانیسری اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو کرنا پڑا تھا۔ دور کیوں جاتے ہیں اصولوں کی خاطر اقتدار کو ٹھوکر مارنے والے طالبان کے عظیم راہنما محمد عمر مجاہد بھی "ملا" ہی تھے۔
ان عظیم ہستیوں پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں جن کے پیشوا انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ برصغیر میں انکارِ حدیث کے بانی سرسید احمد خان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ ساری زندگی سلطنتِ برطانیہ کی کاسہ لیسی کرتے رہے۔ انہوں نے اس وقت انگریزوں کا ساتھ دیا تھا جب جنگ آزادی نے پورے ہندوستان میں آگ لگا رکھی تھی۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ 1957 کی جنگِ آزادی میں انہوں نے کئی انگریزوں کی جان بچائی تھی۔ حدیث پر شبہات وارد کرنے والے سب سے بڑے لیڈر غلام احمد پرویز انگریزی حکومت میں بڑے عہدوں پر فائز رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی سرکاری نوکری کرتے رہے۔ آج بھی ان لوگوں کی اکثریت سرکاری عہدوں پر بیٹھی ہوئی ہے یا مغربی ملکوں میں زندگی گزار رہی ہے۔
تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
قرآن تعلیمات پھیلانے میں علماء کا کردار
" مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟" میں کہی جانے والی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ تمام مولوی قرآن کریم کو ناظرہ پڑھانے پر زور دیتے ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے لوگوں کو قرآن سے دور رکھتے ہیں۔ برصغیر میں قرآنی تعلیمات عام کرنے میں علماء کا بے مثال کردار ہے۔ عربی کے بعد اردو واحد زبان ہے جس میں تفاسیر اور تراجم کثرت سے موجود ہیں۔ ذیل میں چند لوگوں کے نام دیے جاتے ہیں جنہوں نے قرآنِ پاک کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا
شاہ ولی اللہ، شاہ عبد القادر، شاہ رفیع الدین، فتح محمد جالندھری، اشرف علی تھانوی، مولوی محمود الحسن، سید ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی، سید حامد علی، حافظ نذر محمد، محمد جونا گڑھی، حافظ صلاح الدین یوسف، لقمان سلفی، عبد الرحمٰن کیلانی وغیرہ۔
ان علماء کا مقصد قرآنی تعلیمات کو عام کرنا نہیں تھا تو یہ ساری محنت کس لیے کی گئی۔جن لوگوں نے قرآن کریم کا فہم عام کرنے کےلیے زندگیاں وقف کر دیں ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے غیر قرآنی نظریات کو فروغ دیتے ہیں بڑی جرات کا کام ہے۔ البتہ صوفی لوگ ظاہری اور باطنی معنوں کے چکر میں پھنس کر قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھنے سے بھاگتے ہیں اور علماء نے ان کے دوسرے باطل عقیدوں کے ساتھ ساتھ اس موقف پر بھی گرفت کی ہے۔
برسبیل تذکرہ اردو کی چند تفاسیر کے نام بھی سن لیجیے:
تفہیم القرآن از سید ابوالاعلی مودودی، معارف القرآن از مفتی محمد شفیع، تفسیر عثمانی از شبیر احمد عثمانی، احسن البیان از صلاح الدین یوسف، تیسیر القرآن از عبد الرحمٰن کیلانی، تدبرِ قرآن از امین احسن اصلاحی، فی ظلال القرآن (اردو) از سید قطب ترجمہ سید حامد علی و معروف شاہ شیرازی، تفسیر ابن کثیر (مترجم) وغیرہ۔ شاہ عبد القادر، اشرف علی تھانوی اور کئی دوسرے علماء کے حواشی اسے کے علاوہ ہیں۔
کثرتِ حدیث اور امام بخاری کا انتخاب
امام بخاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 6 لاکھ میں سے 7275 روایات کا انتخاب کیا۔ کوئی ناواقف آدمی اس سے یہ تاثر لے سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کی چند ہزار حدیثیں چن لیں اور باقی پانچ لاکھ چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاح میں ایک ہی مضمون یا واقعہ اگر ایک سند سے نقل ہو تو وہ ایک حدیث ہے اور اگر دس، بیس، یا پچاس مختلف سندوں سے نقل ہو کر آئے تو وہ اسے دس، بیس یا پچاس حدیثیں کہتے ہیں۔ امام بخاری کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ایک ارشاد اور ان کی زندگی کے ایک ایک واقعہ کو بکثرت راوی مختلف سندوں سے روایت کرتے تھے۔ اور اس طرح چند ہزار مضامین کئی لاکھ حدیثوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ مشہور حدیث ہے " انما الاعمال بالنیات"، اس حدیث کا مضمون سات سو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ عام آدمی اسے ایک حدیث سمجھے گا لیکن محدثین کے ہاں انہیں سات سو حدیثیں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ میں نے ایک لاکھ حدیثوں میں سے انتخاب کر کے یہ مجموعہ مرتب کیا ہے تو اس کی مراد طرق اسانید ہوتے ہیں نہ کہ نفسِ مضمون۔ اس بات سے لاعلمی کی وجہ سے بعض لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
 
ان سوالات کے جواب بھی عطا فرمادیجئے:
1۔ کیا تمام کی تمام روایات صد فی صد درست ہیں جیسا کہ اس ڈشکشن کی ابتدا میں ایک صاحب نے پیش کیا تھا؟
2۔ کیا کتب روایات مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں یا علم و اعلام ہیں؟
3۔ کتب روایات کو مسلمان کے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟
4۔ قرآن اللہ کی کتاب ہے، کیا اس کی ترتیب بدل دینے سے اور کچھ آیات چھوڑ دینے کے بعد بھی یہ قرآن ہی کہلائے گی؟
5۔ میں نے کتنی اور کن روایات کے بارے میں یہ اظہار کیا تھا کہ ڈاکٹر شبیر احمد نے ان پر نظر ثانی کی ضرورت کے بارے میں‌لکھا ہے۔؟

والسلام۔
 
قسیم حیدر
مزا اس وقت آئے گا جب یہ بحث علمی ہو لیکن ابھی تو سطحی بحث ہے۔
خیر آج پت لگا کہ مسلمانوں کا ایک ایسا بھی فرقہ ہے جو صرف تین وقت کی نمازوں کو مانتا ہے اور ایک سجدہ کرتا ہے۔ اگر ان کی نشاندھی کی جائے تو ہماری جانکاری میں بھی اضافہ ہوگا۔
آپ نے اطاعت والی آیت لکھی ہے مگر ادھوری چھوڑدی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ اولامر کی اطاعت بھی ہے ، یہ بھی بتایا جائے کی اوالامر کون ہیں؟
جو لوگ منکرین حدیث ہیں ان کو قرآن کی رو سے سمجھائیں نہ کہ صحیح بخاری سے کیونکہ وہ تو حدیث کو نہیں مانتے۔
حالیہ دنوں میں مولانا محمد اسحاق مدنی کی تقریر سننے کا موقعہ انہوں نے ایسی روایات سنائیں کہ بس، بقول ان کے ایک جگہ پر ایک حدیث کچھ ہے تو دوسری جگہ کچھ ہے، اگر ضرورت پڑی تو وہ تقریر اپ لوڈ بھی کردوں گا۔
جن لوگوں کو منکرین حدیث کہا جاتا ہے میری خیال میں وہ قول رسول خدا کے مخالف نہیں صرف حدیث کے پہنچنے کے حوالے سے معترض ہیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ان سوالات کے جواب بھی عطا فرمادیجئے:
1۔ کیا تمام کی تمام روایات صد فی صد درست ہیں جیسا کہ اس ڈشکشن کی ابتدا میں ایک صاحب نے پیش کیا تھا؟
2۔ کیا کتب روایات مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں یا علم و اعلام ہیں؟
3۔ کتب روایات کو مسلمان کے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟
4۔ قرآن اللہ کی کتاب ہے، کیا اس کی ترتیب بدل دینے سے اور کچھ آیات چھوڑ دینے کے بعد بھی یہ قرآن ہی کہلائے گی؟
5۔ میں نے کتنی اور کن روایات کے بارے میں یہ اظہار کیا تھا کہ ڈاکٹر شبیر احمد نے ان پر نظر ثانی کی ضرورت کے بارے میں‌لکھا ہے۔؟

والسلام۔


1۔ کیا تمام کی تمام روایات صد فی صد درست ہیں جیسا کہ اس ڈشکشن کی ابتدا میں ایک صاحب نے پیش کیا تھا؟
روایات سے تمہارا مراد اگر حدیثَ نبوی ہے جس کی چھان پھٹک محدثین نے کی اور ان کے درجے بنادیے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا موضوع ہے۔
2۔ کیا کتب روایات مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں یا علم و اعلام ہیں؟
حدیث نبوی پر ایمان لازمی ہے، جیسا کہ اطاعت رسول سے لازم ٹھہرا۔

3۔ کتب روایات کو مسلمان کے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟
اگر تم حدیث نبوی کا ذکر کر رہے ہو تو اللہ تعالی نے۔
4۔ قرآن اللہ کی کتاب ہے، کیا اس کی ترتیب بدل دینے سے اور کچھ آیات چھوڑ دینے کے بعد بھی یہ قرآن ہی کہلائے گی؟
اس کا انکار حدیث سے کیا تعلق ہے؟

حدیث نبوی کو تم روایات کیوں کہتے ہو؟ کیا حدیث نبوی کی اہمیت کم کرنے کے خیال سے یہ طرز بیان اپنایا ہے؟
 

باذوق

محفلین
۔۔۔
آپ نے اطاعت والی آیت لکھی ہے مگر ادھوری چھوڑدی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اطاعت کے علاوہ اولامر کی اطاعت بھی ہے ، یہ بھی بتایا جائے کی اوالامر کون ہیں؟
۔۔۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 59 )
پہلی بات
اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول
کے الفاظ ، قرآن میں درج بالا حوالہ کے علاوہ چار جگہ مزید آئے ہیں۔ جبکہ ’اولی الامر‘ کے الفاظ پورے قرآن میں صرف ایک ہی جگہ ہیں۔

دوسری بات
رسول کے لفظ کے ساتھ ساتھ ، متذکرہ پانچ آیات میں ، اطعیوا کا لفظ بھی ہے۔ لیکن غور کر لیجئے کہ اولی الامر کے ساتھ اطیعوا کا لفظ نہیں ہے !!
اور کیا رسول کی اطاعت ۔۔۔ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کہلائے گی؟
نہیں !! بلکہ ۔۔۔ رسول کی اطاعت بھی خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت متصور ہوگی۔
بطورِ ثبوت یہ آیت ملاحظہ فرمائیں :
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ
جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
( سورة النسآء : 4 ، آیت : 80 )
اسی ایک آیت سے یہ بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ : حدیث بھی اسی طرح دین کا ماخذ ہے ، جس طرح قرآن کریم !!

تیسری بات
اللہ اور رسول ۔۔۔ ان دونوں کی اطاعت ۔۔۔ مستقل اور واجب ہے۔
لیکن ، اولی الامر کی اطاعت ، ضروری تو ہے ، مگر یہ مستقل نہیں بلکہ مشروط ہے۔ اور اس شرط کی وضاحت احادیث میں بیان کر دی گئی ہے ۔ صرف ایک حوالہ ذیل میں دیکھ لیں :
السمع والطاعة للامام ما لم تكن معصية
معصیت میں اطاعت نہیں ، اطاعت صرف معروف میں ہے۔
صحيح بخاري ، كتاب الاحکام ، باب : السمع والطاعة للامام ما لم تكن معصية ، حدیث : 7231

رہی یہ بات کہ اولی الامر سے کون مراد ہے؟
بعض اہلِ علم کے مطابق : امراء و حکام مراد ہیں۔
اور بعض کے مطابق : علماء و فقہاء مراد ہیں۔
آیت کے مفہوم کو دیکھا جائے تو دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں۔
یہاں زمرہ جاتی اہمیت نہیں ہے بلکہ صرف اسی شرط کی اہمیت ہے جو اوپر بیان کی جا چکی ہے کہ : اللہ اور رسول کو چھوڑ کر جس کسی کی بھی اطاعت کی جائے گی وہ صرف اور صرف معروف میں ہوگی۔ معصیت میں‌ کوئی اطاعت نہیں‌ ہوگی !!
 

فرید احمد

محفلین
ان سوالات کے جواب بھی عطا فرمادیجئے:
1۔ کیا تمام کی تمام روایات صد فی صد درست ہیں جیسا کہ اس ڈشکشن کی ابتدا میں ایک صاحب نے پیش کیا تھا؟
2۔ کیا کتب روایات مسلمان کے ایمان کا حصہ ہیں یا علم و اعلام ہیں؟
3۔ کتب روایات کو مسلمان کے ایمان کا حصہ کس نے بنایا؟
فاروق کی ان باتوں کا جواب لکھ چکا ہوں
مگر وہ مانتے نہیں
1 کتنی روایات کتنی درست ہیں ، وہ اس فن کے آدمی جانتے ہیں ، آپ بھی اس سے واقف ہو لیں ، سمجھ میں آجائے گا۔ علم کا دروازہ کسی پر بند نہیں ۔ جاننا نہیں اور جاننے والا بتائے تو اپنے جہل کو تسلیم نہیں کرنا ہے اور ہمہ دانی کا دعوی کیے پھرنا ہے ۔
2 ان روایات کو ایمان کا حصہ قران نے بنایا ، رسول کی اطاعت کا حکم دے کر
بعض احکام میں اصولی حکم دے کر تفصیلات رسول کی زبانی بیان فرماکر مثلا زکوۃ کی مقدار ، نماز کی رکعات ۔
میرے خیال سے کم سے کم اتنا تو صاف لفظوں میں فاروق صاحب کو تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ ان احکام کی روایات ، جو قرآن سے ثابت ہیں ، مگر تفصیلات حدیث پر موقوف ہیں‌، وہ انہیں تسلیم ہیں ، اس کا انکار نہیں کرتے ،
اور اس حد تک وہ ایرانی مصنفین سازش کا شکار نہیں ،
اس میں ملاوٹ نہیں ۔
پھر بات آگے بڑھے ۔
 
واضح رہے کہ میں نے اقوال رسول کے بارے میں‌کبھی لکھا ہی نہیں۔ بات کتب روایات کی ہوتی رہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ مکمل طور پر کتب روایات پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ تو میں نے عرض‌کی کہ ڈاکٹر شبیر احمد کی کتاب اسلام کے مجرم بھی دیکھ لیں۔ ان روایات پر ایک نظر ڈالئے۔ یہ ساری بحث ساری کتب روایات پر قرآن کی طرز کے مکمل ایمان سے شروع ہوئی۔ میں ان کتب روایات پر قرآن کی طرح ایمان نہیں رکھتا۔ ان کتب میں اقوال رسول بھی شامل ہیں اور مزید روایات بھی۔ اور انکی صحت، کتنی بھی درست ہو، قرآن کی صحت سے مقابلہ نہیں۔ لہذا جو آپ کو درست نہیں لگتا وہ مجھے بھی نہیں لگے گا۔

جی نہیں یہ سوال اقوال رسول کا نہیں، مکمل کتب روایات کا ہے۔ استدعا ہے کہ اصل سوال کو تبدیل نہ کریں۔

تمام سوالات کے جوابات دوبارہ صرف کتب روایات کی روشنی دیجئے۔ عنائت ہوگی۔ خاص‌طور پر قرآن والے سوال کا۔
میں‌بتا چکا ہوں‌کہ کتب روایات کو میں علم و اعلام من الرجال کا حصہ سمجھتا ہوں اور یہ میرے ایمان میں شامل نہیں ہیں۔ جو دیے ہوئے اصولوں پر پوری اترتی ہیں استعمال کرتا ہوں۔ اصول بیان کرچکا ہوں۔

میں نے جس اہانت رسول سے پر روایات کی طرف اشارہ دینے والی کتاب 'اسلام کے مجرم؛ کا حوالہ دیا ان روایات کو پروموٹ‌کرنا کیا ضروری ہے؟
 
حدیث نبوی کو تم روایات کیوں کہتے ہو؟ کیا حدیث نبوی کی اہمیت کم کرنے کے خیال سے یہ طرز بیان اپنایا ہے؟

الف صاحب ، یہ نوٹ‌ دہرا رہا ہوں۔ اقوال رسول پر میں نے کبھی لکھا ہی نہیں۔ دیکھ لیجئے۔ بات ہی مکمل کتب روایات سے شروع ہوئی۔ اور دلیل یہ دی گئی کہ اقوال رسول چونکہ ان کتب میں شامل ہیں لہذا تمام کی تمام کتاب ایمان کا حصہ بنے گی اور کسی حصے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

اس کا جواب میں نے یہ عرض‌کیا کہ کم از کم ایک کتاب 'اسلام کے مجرم' دیکھ لیں کہ اس میں جن روایات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مصنف ک مطابق اہانت رسول سے پر ہیں لہذا مکمل کتاب پر نہیں بلکہ ان روایات پر یقین کیا جائے گا جو رسول اللہ کی اس حدیث پر پوری اتریں گی کہ ضو قرآن کی مدد سے دیکھئے کہ ان کا قول قابل قبول ہے؟ لہذا کتب روایات کو میں قرآن میں‌ شامل نہیں کرسکتا۔ قرآن پر میرا ایمان ہے۔ اور ان کتب روات پر نہیں۔ کتب روایات سے مراد وہاں 'صحاہ ستہ کتب' میں‌ان میں تین کتب شیعہ حضرات کی کتب روایات کی بھی شامل کرتا ہوں۔

امید ہے اس وضاحت کے بعد آپ سب دوبارہ میری پوسٹس کو دیکھیں گے تو آپ کو ہر جگہ میرا لکھا ہو 'کتب روایات' ہی ملے گا 'اقوال رسول؛ نہیں۔ کہ ان کتب روایات میں کم از کم ایک سیٹ ایسا ہے جسے ڈاکٹر شبیر احمد اہانت رسول قرار دیتے ہیں اور مزید بہت سے لوگوں کی طرح میں اس سے متفق ہوں۔ لہذا میں ان کتب پر ایمان نہیں رکھ سکتا اور تمام کا تمام اسے درست نہیں سمجھ سکتا۔ اس پر بحث شروع ہوئی۔ میں اس متعدد وضاحت کے بعد اس بحث سے دستبردار ہوتا ہوں۔
اس کتاب 'اسلام کے مجرم' میں شامل چند مزید نام جو اس کے مندرجات سے متفق ہیں۔ اس کتاب سے اقتباس صفحہ ااا

علامہ ذیشان قادری نقش بندی
شیخ الحدیث مفتی محمد ارشاد نظامی
حفظہ بتول سلطانہ
خطیب المحدث محمد یاسین جعفری
امام سید محمد النوری
قاری غلام محمد
فاضل علوم دینیہ مختار بیگم۔
 

خاور بلال

محفلین
"حال ہی میں یہ ایک نرالا اندازِ فکر پیدا ہوا ہے کہ اسلام میں “پریسٹ ہڈ“ (priesthood) نہیں ہے۔ قرآن اور سنت اور شریعت پر کوئی “ مُلا “ کا اجارہ نہیں ہے کہ بس وہی ان کی تعبیر کرنے کا مجاز ہو، جس طرح وہ تعبیرِ احکام اور اجتہاد و استنباط کرنے کا حق رکھتا ہے اسی طرح ہم بھی یہی حق رکھتے ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ دین کے معاملے میں مُلا کی بات ہماری بات سے زیادہ وزنی ہو۔

یہ باتیں وہ لوگ کہتے ہیں جو نہ قرآن و سنت کی زبان سے واقف ہیں، نہ اسلامی روایات پر جن کی نگاہ ہے۔ نہ اپنی زندگی کے چند روز بھی جنہوں نے اسلام کے تحقیقی مطالعے میں صرف کیے ہیں۔ وہ ایمانداری کے ساتھ اپنے علم کا نقص محسوس کرنے اور اسے دور کرنے کے بجائے سرے سے علم کی ضرورت ہی کا انکار کرنے پر تُل گئے ہیں اور اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں علم کے بغیر اپنی تعبیروں سے اسلام کی صورت بگاڑدینے کے لئے چھوڑدیا جائے۔

اگر جہالت کی اس طغیانی کو یونہی بڑھنے دیا گیا تو بعید نہیں کہ کل کوئی اٹھ کر کہے کہ اسلام میں “وکیل ہڈ“ نہیں ہے اس لیے ہر شخص قانون پر بولے گا چاہے اس نے قانون کا ایک لفظ نہ پڑھا ہو اور پرسوں کوئی دوسرے صاحب اٹھیں اور فرمائیں کہ اسلام میں انجینئیر ہُڈ نہیں ہے اس لیے ہم بھی انجینئیرنگ پر کلام کریں گے۔ چاہے ہم اس فن کی الف بے سے بھی واقف نہ ہوں اور پھر کوئی تیسرے صاحب اسلام میں ڈاکٹر ہڈ کا انکار کرکے مریضوں کا علاج کرنے کھڑے ہوجائیں بغیر اس کے کہ ان کو علم طب کی ہوا بھی لگی ہو۔ میں سخت حیران ہوں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور ذی عزت لوگ یہ کیسی اوچھی اور طفلانہ باتیں کرنے پر اُتر آئے ہیں۔ بیشک اسلام میں پریسٹ ہڈ نہیں ہے، مگر انہیں معلوم بھی ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسلام میں نہ تو بنی اسرائیل کی طرح دین کا علم اور دینی خدمات کسی نسل اور قبیلے کی میراث ہیں، اور نہ عیسائیوں کی طرح دین و دنیا کے درمیان تفریق کی گئی ہے کہ دنیا قیصروں کے حوالے اور دین پادریوں کے حوالے کردیا گیا ہو۔ بلاشبہ یہاں قرآن اور سنت اور شریعت پر کسی کا اجارہ نہیں ہے اور مُلا کسی نسل یا خاندان کا نام نہیں ہے جس کو دین کی تعبیر کرنے کا آبائی حق ملا ہوا ہو۔ جس طرح ہر شخص قانون پڑھ کر جج اور وکیل بن سکتا ہے، اور ہر شخص انجینئیرنگ پڑھ کر انجینئیر اور طب پڑھ کر ڈاکٹر بن سکتا ہے۔ اسی طرح ہر شخص قرآن اور سنت کے علم پر وقت اور محنت صرف کرکے مسائل شریعت میں کلام کرنے کا مجاز ہوسکتا ہے۔ اسلام میں پریسٹ ہڈ نہ ہونے کا اگر کوئی معقول مطلب ہے تو وہ یہی ہے۔ نہ یہ کہ اسلام کوئی بازیچہ اطفال بنا کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ جس کا جی چاہے اٹھ کر اس کے احکام اور تعلیمات کے باے میں ماہرانہ فیصلے صادر کرنے شروع کردے، خواہ اس نے قرآن اور سنت میں بصیرت پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہ کی ہو۔ علم کے بغیر اتھارٹی بننے کا دعویٰ اگر دنیا کے کسی دوسرے معاملے میں قابلِ قبول نہیں ہے تو آخردین ہی کے معاملے میں کیوں قابل قبول ہو؟"
(سید ابوالاعلیٰ مودودی۔ اسلامی دستور کی تدوین)

"اور جو رسول کی اطاعت کرے اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی" (النساء 80)

"پس نہیں تیرے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہ ہوں گے جب تک کہ اپنے اختلاف میں تجھے فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ تو کرے اس پر اپنے دل میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔" (النساء 65
)
 

فرید احمد

محفلین
واضح رہے کہ میں نے اقوال رسول کے بارے میں‌کبھی لکھا ہی نہیں۔ بات کتب روایات کی ہوتی رہی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ مکمل طور پر کتب روایات پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔

کیا منطق ہے :

اقوال رسول

کتب روایات

دونوں میں کیا فرق ؟

یہ کہ اقوال رسول معتبر ہے

اور کتب روایات معتبر نہیں ۔

کتب روایات میں کیا ہوتا ہے ؟

اقوال رسول اور فعال رسول

نتیجہ ؟
 
مخلصانہ سوال۔
کیا آپ اس سوچ کی وجہ سے مخالفت کرتے رہے ہیں؟
اگر ایسا ہے تو وضاحت یہ ہے۔ ان کتب روایات میں ایسی روایات شامل ہیں جن میں‌اہانت رسول کا پہلو نکلتا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ چند دوسروں کواہانت رسول سلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے اورآپ کو نظر نہ آئے۔ خلوص دل سے ایک نظر ایسی روایات پر ڈالئیے اور بتائیے کہ آپ کو اہانت رسول یا اہانت خانوادہ رسول نظر نہیں‌آتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں‌نے ضو القرآن والی روایت پیش کی کہ کم از کم تو کوئی معیار ہو ایک روایت کے درست ہونے کا۔ ایک بہت ہی محدود لسٹ‌ہے ایسی روایات کی جو بنا کسی وارننگ کے بیش تر کتب میں چلی آ رہی ہیں۔ آپ کو ہم کو یہ بادی النظر کم اہم لگتی ہیں لیکن دشمنان اسلام انہی کو گھما پھرا کر یہاں ہمارے ( آپ کا سامنا نہیں ہوا) منہہ پر مارتے ہیں۔ اس کتاب کے محدود اعتراض کو تمام اقوال رسول پر محیط کرنا انصاف نہیں۔ ایک بار پھر استدعا ہے کہ مخلصانہ طریقہ سےسوچئیے۔ آپ کے ہر مخلصانہ سوال کا جواب مخلص تر انداز میں دینا میرا فرض‌ہے۔ لنک ایکبار پھر درج ہے
http://ourbeacon.com/wp-content/uploads/admin2/2007/08/criminals.pdf

میرا برادرانہ مشورہ ہے کہ ہم اور آپ اس مسئلے کے حل کو اپنے اللہ اور رسول اللہ صلعم کی ہدائت کے مطابق، اللہ اور رسول اللہ پر چھوڑ‌دیں اور کچھ عرصے کے بعد اس پر ضروری ہو تو دوبارہ توجہ دیں۔ بسا اوقات مجھے بات سمجھنے میں‌وقت لگتا ہے ممکن ہے آپ کا نکتہ نظر ، مجھے بعد میں کچھ اور پڑھنے کے بعد‌ سمجھ میں آجائے۔

والسلام۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کیا منطق ہے :

اقوال رسول

کتب روایات

دونوں میں کیا فرق ؟

یہ کہ اقوال رسول معتبر ہے

اور کتب روایات معتبر نہیں ۔

کتب روایات میں کیا ہوتا ہے ؟

اقوال رسول اور فعال رسول

نتیجہ ؟

بشکریہ زیک: یہ بطور ایک عام ممبر رائے ہے

برادر، معاف کیجئے گا، کافی پڑے لکھے جاہل لگ رہے ہیں یہ بات کہتے ہوئے۔ اللہ آپ کے شاگردوں پر رحم فرمائے

کتب روایات، کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مارکیٹ میں موجود کتبِ روایات کی تمام کی تمام کتب میں موجود تمام کا تمام متن بالکل درست ہے اور یہ متن ان کتب کے پہلے ایڈیشن سے لے کر اب تک بالکل اسی طرح چھپتا چلا آ رہا ہے اور کسی ایڈیشن میں دوسرے سے کم یا زیادہ "احادیث" موجود نہیں اور یہ کہ ان میں موجود تمام کی تمام باتیں بالکل درست طور پر حضور ص کے اقوال اور افعال پر مبنی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں؟

براہ کرم یا تو اس طرح کی فضول گفتگو بند کیجئے یا پھر اپنی استادی اور علمیت کو چوم کر ایک کونے میں رکھ دیجئے
 

قسیم حیدر

محفلین
منکرینِ حدیث میں نمازوں کا اختلاف
سولنگی صاحب! منکرینِ حدیث کا ایک گروہ جس کے سربراہ خواجہ عباد اللہ اختر ہیں، دو وقت کی فرض نماز کے قائل ہیں۔ مدھوپوری منکرینِ حدیث چھے وقت کی نمازیں فرض مانتے ہیں۔ ان دونوں کے برخلاف گوجرانوالہ اور یوپی ہندوستان کا ایک گروہ تین وقت کی نماز فرض مانتا ہے (رسالہ اقمواالصلٰوۃ ص۲۱)۔ پھر تین ماننے والوں میں بھی سخت اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں ظہر اور مغرب فرض ہے، عصر اور مغرب کی نمازیں پڑھنا غلط ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ عصر اور عشاء فرض ہیں اور ظہر اور مغرب کی نمازپڑھنا غلط ہے۔ یہی تین وقت کی نماز ماننے والے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر نماز میں صرف دو ہی رکعتیں ہیں۔ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔
اولی الامر سے کون لوگ مراد ہیں
اطاعت والی آیت پوری اس لیے نہیں لکھی تھی کہ فاروق صاحب نے اپنے مراسلے میں آیت کا اتنا ہی ٹکڑا ذکر کیا تھا۔ میں نے اس کے عربی متن کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی تھی۔مکمل آیت اس طرح ہے:
یایھا الذین ءامنوا اطیعوا اللہ و اطیعواالرسول و اولی الامر منکم (النساء۔۵۹)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے ان کی جو صاحبِ امر (اولی الامر) ہیں۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔۔۔"
اس آیت میں اولی الامر سے مراد اسلامی حکومت کے ذمہ داران ہیں جن کی اطاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کے ایک قول کی بنیاد پر دینی تفقہ اور سمجھ رکھنے والے علماء کو بھی "اولی الامر" میں سے سمجھا جاتا ہے۔ باذوق بھائی اس پر تفصیلی روشنی ڈال چکے ہیں۔ ایک گروہ نے اس سے مراد ایسی ہستیاں لی ہیں جن سے غلطی کا صدور ممکن نہیں لیکن اگر یہ بات درست ہو تو آیت کا اگلا حصہ بے معنی ہو جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "پھر اگر تم میں کسی چیز کے بارے نزاع پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو"۔
صحیح احادیث کا آپس میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ بعض دفعہ دو حدیثوں میں ظاہری اختلاف بظر آتا ہے لیکن ان کے بارے میں ماہرین فن کی رائے جاننے کے بعد اپنا خیال ظاہر کیجیے گا۔
قرآن کریم سے حفاظتِ حدیث کے بارے میں شبہات کا جواب
جہاں تک قرآنِ کریم سے حدیث کی حفاظت کے دلائل کا تعلق ہے تو قرآن کریم کی ایک ہی آیت اس کے لیے کافی ہے، بشرطیکہ آدمی صدق نیت اور قلبِ سلیم سے مسئلے کو سمجھنا چاہے۔ سورۃ النحل آیت نمبر 44 میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم و لعلھم یتفکرون (النحل ۔44)
"ھم نے یہ ذِکر آپ پر نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کرتے جائیں جو اُن کے لیے اتاری گئی ہے"۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وہ حکمت بیان کر دی ہے جس کا تقاضا یہ تھا کہ لازمًا ایک انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجا جائے۔ "ذِکر" یعنی قرآن فرشتوں کے ذریعے بھی بھیجا جا سکتا تھا، براہِ راست چھاپ کر ایک ایک انسان تک بھی پہنچایا جا سکتا تھا۔ مگر محض کتاب بھیج دینے سے وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت و ربوبیت اس کی تنزیل کی متقاضی تھی۔ اُس مقصد کی تکمیل کے لیے ضروری تھا کہ اس "ذِکر" کو ایک قابل ترین انسان لے کر آئے۔ وہ اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے لوگوں کے سامنے پیش کرے۔ جن کی سمجھ میں کوئی بات نہ آئے اس کا مطلب سمجھائے۔ جنہیں کچھ شک ہو ان کا شک رفع کرے، جنہیں کوئی اعتراض ہو ان کے اعتراض کا جواب دے۔ جو نہ مانیں اور مخالفت و مزاحمت کریں اُن کے مقابلہ میں وہ اُس طرح کا رویہ برت کر دکھائے جو اِس "ذِکر" کے حاملین کی شان کے شایاں ہے۔ جو مان لیں انہیں زندگی کے ہر گوشے اور ہر پہلو کے متعلق ہدایات دے، ان کے سامنے خود اپنی زندگی کو نمونہ بنا کر پیش کرے اور ان کو انفرادی و اجتماعی تربیت دے کر ساری دنیا کے سامنے ایسی مثال رکھ دے جس کا پورا نظام "ذِکر" کے منشا کی شرح ہو۔
یہ آیت ان لوگوں کی حجت کے لیے قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف "قرآن" کو لے لینا چاہتے ہیں۔ وہ خواہ اس بات کے قائل ہوں کہ نبی نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی صرف قرآن پیش کر دیا تھا، یا اِس کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف "ذِکر" ہے نہ کہ نبی کی تشریح، یا اِس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لیے صرف ذکر کافی ہے نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں، یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف قرآن ہی قابل اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے لائق نہیں ہے۔ غرض اِن چاروں باتوں میں سے جس بات کے بھی وہ قائل ہوں ، اُن کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے۔
اگر وہ پہلی بات کے قائل ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی نے اُس منشا ہی کو فوت کر دیا جس کی خاطر قرآن کو فرشتوں کے ہاتھ یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کے بجائے اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا تھا۔
اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (معاذ اللہ) یہ فضول حرکت کی ہے اپنا قرآن ایک نبی کے ذریعے بھیجا۔ کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف قرآن کے مطبوعہ شکل میں نازل ہو جانے کا ہو سکتا تھا۔
اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوتِ محمدی، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد اگر کوئی مسلک معقول رہ جاتا ہے تو وہ صرف اُن لوگوں کا ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں۔ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لیے نبی کی تشریح کو ناگزیر ٹھہرا رہا ہے اور نبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ قرآن کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرینِ حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی توضیح و تشریح دنیا میں باقی نہیں رہ گئی یا اس طرح گڈمڈ ہو گئی ہے کہ غلط اور درست میں امتیاز کرنا ممکن نہیں تو اس کے دو نتیجے کھلے ہوئے ہیں۔ پہلا نتیجہ یہ ہے کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوتِ محمدی ختم ہو گئی اور ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ صرف اُس طرح کا رہ گیا جیسا ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں، ان پر ایمان لاتے ہیں مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں۔ یہ چیز نئی نبوت کی ضرورت آپ سے آپ ثابت کر دیتی ہے، صرف ایک بےوقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کر سکتا ہے۔ اس لیے ختم نبوت پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو ہدایات اور فرمودات ارشاد فرمائے انہیں محفوظ مانا جائے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اکیلا قرآن نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لیے ناکافی ہے۔ اس لیے صرف قرآن کے ماننے والے خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں، مدعی سست کی حمایت میں گواہانِ چست کی بات ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت آپ سے آپ خود قرآن سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قاتلہم اللہ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعے سے دین کی جڑ کھود رہے ہیں۔
(اس مضمون کی تیاری میں تفہیم القرآن جلد دوم سے مدد لی گئی ہے)
 

الف نظامی

لائبریرین
اگر ایسا ہے تو وضاحت یہ ہے۔ ان کتب روایات میں ایسی روایات شامل ہیں جن میں‌اہانت رسول کا پہلو نکلتا ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ چند دوسروں کواہانت رسول سلی اللہ علیہ وسلم نظر آئے اورآپ کو نظر نہ آئے۔ خلوص دل سے ایک نظر ایسی روایات پر ڈالئیے اور بتائیے کہ آپ کو اہانت رسول یا اہانت خانوادہ رسول نظر نہیں‌آتی۔
پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے انکار سنت سے بات شروع کی تھی اور اب موضوع سے بھاگنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جہاں تک اہانت رسول کا سوال ہے تو آپ خود سنت نبوی کا انکار کرکے فرمان خداوندی کہ اطاعت رسول کرو کے تارک ٹھہر رہے ہیں لہذا خود سے یہ سوال کرلیں کہ کیا آپ اہانت اللہ تعالی و رسول اللہ کے مرتکب تو نہیں۔
دوسری بات یہ جن روایات کا آپ نے تذکرہ کیا ان کے بارے میں کسی عالم اسلام سے کبھی ان کے مستند ہونے کے بارے میں سوال کیا یا از خود نتائج اخذ کرنا شروع کردیے۔ علمائے اسلام ان شااللہ اہانت الہی اور اہانت رسول اللہ و خوانودہ رسول و صحابہ و ائمہ امت کی اچھی طرح سے سرکوبی کرنا جانتے ہیں۔ اللہ تعالی ان کے علم و فضل میں برکت عطا فرمائے۔
 

خاور بلال

محفلین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ جو بحث اور اعتراضات آج کل محفل پر جاری ہیں ان کے تشفی جوابات علماء نے بیان کردیے ہیں۔ میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کم از کم درجن سے زائد تصانیف جانتا ہوں جن میں معترضین و مستشرقین کو قرآن و حدیث اور عقلی دلائل کے ذریعے جوابات دیے گئے ہیں جن کے بعد ان اعتراضات کی حقیقت باقی نہیں رہ جاتی۔ دیگر علماء نے بھی یہ کام بخوبی انجام دیا ہے لیکن سید مودودی کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے صرف قرآن و حدیث ہی نہیں بلکہ عقلی دلائل کے ساتھ بات کی ہے جس سے مستشرقین و معترضین کے لئے فرار کا کوئی پہلو باقی نہیں رہ جاتا۔

سوال یہ ہے کہ اعتراضات کی یہ برسات کیا ایک مہینہ پہلے وارد ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ نہیں۔ تو پھر پچھلے ایک مہینے سے یہ بحث اردو محفل پر کیوں ہورہی ہے؟ واضح رہے کہ اعتراضات کے حوالے سے علماء نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جن حضرات کی دال علماء کے سامنے نہیں گلی وہ اب اپنی دال گلانے اردو محفل آگئے ہیں۔

کیا معترضین کے لئیے یہ بات مناسب نہیں تھی کہ وہ اتنے نازک موضوع جن پر امت کا اجماع ہے گفتگو کرنے سے پہلے علماء کی تصانیف سے مستفید ہوتے پھر اگر کوئی پہلو باقی رہ جاتا تو مطلوبہ معیار کے افراد سے گفتگو کرتے۔ ظاہر ہے سنت اور احادیث کی حجیت پر گفتگو کوئی مذاق نہیں کہ ہر ایرا غیرا اپنے ڈنڈے پر اعتراض کا جھنڈا لگا کر آجائے اور اردو محفل کے احباب پر مشقِ ستم شروع کردے۔ پلٹنے جھپٹنے، جھپٹ کر پلٹنے میں مزا تب ہی آتا ہے جب سامنے مقابل موجود ہو۔ اب اگر گاما پہلوان بمقابلہ Rey Mysterio ہوں تو خود ہی اندازہ لگالیں کہ کیا نتیجہ نکلے گا۔

معترضین کی تحقیقی کاوشوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کام میں‌ کتنی عرق ریزی کی ہے۔ (تھوڑی سے مزید کاوش کرلیتے تو ان کے جوابات بھی مل جاتے) یہ کام کتنی نیت نیتی پر مبنی ہے اس کا اندازہ آپ حضرات کو ہوگیا ہوگا۔ اس کے باوجود اگر علم کے پیاسوں کی تشنگی باقی ہے اور انہیں عقلی دلائل بھی مطلوب ہیں تو ان سے گذارش ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کی تقریباً تمام تصانیف کا مطالعہ کرلیں۔ علم کے پیاسوں‌ کے لیے اتنے ڈھیر سارے مطالعے کا بار کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اور اگر محفل پر کوئی بات کرنی بھی ہے تو اپنے اعتراضات کے ساتھ ساتھ اسکے جواب میں کیا گیا حاصلِ مطالعہ بھی پیش کرنے کی زحمت کرلیا کریں۔

بہر حال مینڈکیوں کا زکام لاعلاج مرض نہیں۔
 
بشکریہ زیک: یہ بطور ایک عام ممبر رائے ہے

برادر، معاف کیجئے گا، کافی پڑے لکھے جاہل لگ رہے ہیں یہ بات کہتے ہوئے۔ اللہ آپ کے شاگردوں پر رحم فرمائے

کتب روایات، کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ مارکیٹ میں موجود کتبِ روایات کی تمام کی تمام کتب میں موجود تمام کا تمام متن بالکل درست ہے اور یہ متن ان کتب کے پہلے ایڈیشن سے لے کر اب تک بالکل اسی طرح چھپتا چلا آ رہا ہے اور کسی ایڈیشن میں دوسرے سے کم یا زیادہ "احادیث" موجود نہیں اور یہ کہ ان میں موجود تمام کی تمام باتیں بالکل درست طور پر حضور ص کے اقوال اور افعال پر مبنی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں؟

براہ کرم یا تو اس طرح کی فضول گفتگو بند کیجئے یا پھر اپنی استادی اور علمیت کو چوم کر ایک کونے میں رکھ دیجئے


قیصرانی!
آپ کے خیالات پڑھکر بھی مجھے دھچکہ سا لگ رہا ہے
سوال مجھے تو نہیں لیکن پڑھا تو اسکے جواب میں عرض کروں کہ جی ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اختلاف واقع نہیں ہوا اور جہاں جہاں لکھنے والوں سے سہو ہوا ہے انکی بھی علماء نے نشاندہی کی ہے۔
تحقیقات ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
حجیت حدیث پر سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کے مضمون سے اقتباسات
جن اصولِ ثلاثہ پر تمام امت کا اجماع ہے، ان میں سے دوسرا اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔ چنانچہ حضرات صحابہ اور ان کے بعد کے تمام اہل علم و ایمان اس اصل پر ایمان رکھتے ہیں، اسے دین میں حجت گردانتے ہیں، امت کو اس کی تعلیم دیتے ہیں، اس موضوع پر انہوں نے بہت سے کتابیں تصنیف فرمائی ہیں، کتب اصول فقہ و اصول حدیث میں بھی اسے واضح فرمایا گیا ہے اور اس سلسلہ کے دلائل بہت ہیں۔ ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ خود کتاب اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم جیسا ان کے ہم عصر لوگوں کے لیے تھا، اسی طرح بعد میں آنے والے لوگوں کےلیے بھی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں۔ ان کی بعثت سے لے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ ان کی اتباع و اطاعت بجا لائیں اور پھر یہ اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کتاب اللہ کے مفسر ہیں۔ کتاب اللہ میں جو باتیں اجمال کے ساتھ بیان کی گئی تھیں، انہوں نے اپنے اقوال، افعال اور تقریرات کے ذریعے ان کی تفصیل بیان فرما دی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت نہ ہوتی تو مسلمانوں کو ہرگز معلوم نہ ہو سکتا تھا کہ نمازوں کی تعداد کیا ہے؟ نمازوں کو کس طرح ادا کرنا ہے، نماز کے فرائض و واجبات کیا ہیں؟ اسی طرح انہیں روزہ، زکٰوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، معاملات، محرمات اور حدود و تعزیرات کے احکام کی تفصیل بھی معلوم نہیں ہو سکتی تھی۔ اتباع و اطاعت رسول کے متعلق جو آیاتِ کریمہ ہیں ان میں سے چند ایک حسبِ ذیل ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً (النساء۔59)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہیں، اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو جائے تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔"
مزید فرمایا:
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا (النساء۔84)
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو نافرمانی کرے گا تو (اے نبی ) ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔"
اگر سنت حجت نہیں یا تمام سنت محفوظ نہیں تو پھر اطاعت کیسے ممکن ہے؟ اور تنازعات کے تصفیہ کے لیے کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف رجوع کرنا کیسے ممکن ہے؟ سنت یا حدیث کو حجت تسلیم نہ کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے حالانکہ ایسا خیال کرنا بے حد باطل اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ بہت بڑا کفر اور بدگمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل میں فرمایا ہے:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُون (النحل۔44)
"اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب نازل کی ہے تا کہ جو (ارشادات) لوگوں کی طرف نازل کیے گئے ہیں آپ انہیں کھول کھول کر بیان کر دیں تا کہ وہ غور کریں"
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے (سنت یا حدیث) کا وجود ہی نہیں رہا یا وہ حجت نہیں ہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب کی تشریح اور تبیین کا کام ان صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سپرد فرمائیں۔
اسی طرح سورۃ النور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (النور۔ 54)
"کہہ دیجیے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کے حکم پر چلو، اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) جو تمہارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پا لو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (اللہ کے احکام ) پہنچا دینا ہے۔"
یہ آیات واضح طور پر دلالت کر رہی ہیں کہ ہدایت اور رحمت نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتباع میں مضمر ہے، اور سنت پر عمل کے بغیر آپ کی اتباع و اطاعت کیسے ممکن ہے؟ یا اگر یہ کہا جائے کہ سنت یا حدیث قابل اعتبار نہیں تو اس صورت میں بھی سنت کی اتباع کیسے ممکن ہو گی؟ اللہ عز و جل نے سورۃ النور میں فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (النور۔63)
"جو لوگ ان (یعنی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو ڈرنا چاہییے کہ ان پر کوئی آفت نہ آ جائے یا عذابِ الیم انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے۔"
سورۃ الحشر میں فرمایا:؂
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا (الحشر۔7)
"جو (چیز یا حکم) تمہیں رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) دیں اسے لے لو (مضبوطی سے پکڑ لو) اور جس سے وہ منع کر دیں (اس سے) رک جاؤ)۔"
اس مضمون کی اور بھی آیاتِ کریمہ ہیں جو سب کی سب اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ و آلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع فرض ہے۔
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےخیبر کے دن کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا اور پھر فرمایا، "قریب ہے کہ تم میں سے کوئی (شخص ) میری تکذیب کرے، وہ تکیہ لگائے ہوئے ہو، میری حدیث (اس کے سامنے) بیان کی جائے تو وہ کہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب اللہ موجود ہے، ہم اس میں جس چیز کو حلال پائیں گے اسے حلال سمجھیں گے اور جس کو حرام پائیں گے اس کو حرام گردانیں گے لیکن یاد رکھو جن چیزوں کو اللہ کے رسول نے حرام قرار دیا ہے وہ بھی اسی کے مثل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔" (اس حدیث کو امام حاکم، ترمذی اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ حدیثیں تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں جن میں یہ ہے کہ آپ اپنے خطبہ میں صحابہ کرام کو فرماتے تھے کہ "جو لوگ یہاں حاضر ہیں، وہ ان تک پہنچا دیں تو غائب ہیں۔" صحیحین یعنی بخاری اور مسلم میں ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں قربانی کے بعد خطبہ دیا تو اس میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ "جو حاضر ہیں، وہ ان تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں کیونکہ بہت سے لوگ جن تک بات کو پہنچایا گیا ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ سننے والے سے بھی زیادہ یاد رکھنے والے ہوں۔"
صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قولی اور فعلی احادیث کو یاد کیا اور پھر انہیں تابعین تک پہنچا دیا۔ تابعین نے انہیں بعد میں آنے والوں تک پہنچا دیا اور پھر اس کے بعد نسل در نسل اور قرن در قرن ثقہ علماء نے احادیث مبارکہ کو منتقل کیا، انہیں مستقل کتابوں میں جمع کیا اور صحیح و ضعیف کو بھی واضح کر دیا اور اس سلسلہ میں مشہور و معروف قوانین اور ضوابط بھی مقرر کیے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ سند صحیح ہے یا ضعیف، اہل علم نے کتبِ احادیث مثلًا صحیحین و غیرھما کو قبول کیا اور ان کی مکمل طور پر حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ نے نقاد علماء کو توفیق بخشی جنہوں نے باطل پرستوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویل کی نفی کر دی اور سنت کے زیبا سے ہر اس آلائش کو دور کر دیا جسے کذاب اور ملحد لوگوں نے چپکانے کی کوشش کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام اس لیے فرمایا ہے کہ سنت رسول اللہ، کتاب اللہ کی تفسیر ہے، مجمل احکام کی تفصیل ہے اور پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کئی مستقل احکام ایسے بھی ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید میں ذکر نہیں ہے مثلًا احکام رضاعت کی تفصیل، میراث کے بعض احکام وغیرہ۔
امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ "ہم میں سے ہر ایک کی بات رد کی جا سکتی ہے اور قبول بھی کی جا سکتی ہے مگر اُس ذاتِ گرامی کی بات کو رد نہیں کیا جا سکتا جو اِس قبر میں محوِ استراحت ہیں۔" یہ کہتے ہوئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کی طرف اشارہ کرتے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث تو سر آنکھوں پر ہے۔" امام شافعی رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ "اگر کوئی بات کہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث اس کے خلاف ہو تو میری بات کو دیوار سے دے مارو۔" امام احمد بن حنبل کہتے تھے "میرے پیچھے نہ چلو، مالک اور شافعی کی بھی تقلید نہ کرو بلکہ دین کو وہاں سے لو جہاں سے ہم نے لیا ہے (یعنی کتاب و سنت)۔ (الشیخ ابن باز نے یہ قول یہاں اس لیے دیے ہیں تا کہ معلوم ہو جائے کہ حجیت حدیث تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔)
 
حجیت حدیث پر سعودی مفتی اعظم الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کے مضمون سے اقتباسات
جن اصولِ ثلاثہ پر تمام امت کا اجماع ہے، ان میں سے دوسرا اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے۔

snip

امام احمد بن حنبل کہتے تھے "میرے پیچھے نہ چلو، مالک اور شافعی کی بھی تقلید نہ کرو بلکہ دین کو وہاں سے لو جہاں سے ہم نے لیا ہے (یعنی کتاب و سنت)۔ (الشیخ ابن باز نے یہ قول یہاں اس لیے دیے ہیں تا کہ معلوم ہو جائے کہ حجیت حدیث تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے۔)

بہت اچھی واضحت کی ہے آپ نے
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی!
آپ کے خیالات پڑھکر بھی مجھے دھچکہ سا لگ رہا ہے
سوال مجھے تو نہیں لیکن پڑھا تو اسکے جواب میں عرض کروں کہ جی ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اختلاف واقع نہیں ہوا اور جہاں جہاں لکھنے والوں سے سہو ہوا ہے انکی بھی علماء نے نشاندہی کی ہے۔
تحقیقات ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں۔
چونکہ آپ نے بات کی تو برائے معلومات یہ فرما دیں کہ علما نے کب نشاندہی کی، کن کن کتب کی حد تک اور اس پر اب تک کیا عملی قدم اٹھائے گئے؟
 

دوست

محفلین
چونکہ آپ نے بات کی تو برائے معلومات یہ فرما دیں کہ علما نے کب نشاندہی کی، کن کن کتب کی حد تک اور اس پر اب تک کیا عملی قدم اٹھائے گئے؟
میرے خیال سے اب تک کئی بار جو ضعیف اور صحیح احادیث کی بات ہورہی ہے وہ اسی تحقیق کی جانب اشارہ ہے ۔ دوسری صورت میں آپ کے خیال میں کیسے تحقیق ہونی چاہیے؟
کیا آپ نے قسیم حیدر کے اوپر والے پیغام کا مطالعہ کیا ہے؟
اگر کیا ہے تو پھر بھی یہ سوال کیوں؟
اس میں بھی بتایا گیا ہے کہ علماء نے احادیث میں‌ سے ان باتوں کو الگ کرنے کے لیے تحقیق کی ہے جو منافقین اور دشمنان اسلام کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی تھیں۔
کم از اکم اگر مجھے کوئی شک تھا تو وہ دور ہوگیا ہے اور بلا جھجھک یہ کہتا ہوں کہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی میرے ایمان کا حصہ ہیں۔ اور مجھے ان پر ان کتب ربانی سے زیادہ اعتبار ہے جن میں جانے کتنی بار تحریف ہوچکی ہے۔
وسلام
 
Top