حدیث کے بارے میں اٹھائے جانے والے اہم شبہات کا جائزہ پیشِ خدمت ہے۔ اس موضوع پر مختف دھاگوں میں جو دھما چوکڑی مچی ہے اس کی بجائے بہتر تھا کہ علمِ حدیث کے کسی استاد کو تلاش کر کے ان کے سامنے یہ سوالات رکھے جاتے لیکن افسوس کہ دین کا علم جنسِ بازار بن کر رہ گیا ہے۔ ہر آدمی دین پر طبع آزمائی کرنے کی کوشش کرتا ہے خواہ علم و عمل سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو۔ حدیث پڑھنے یا پرکھنے کا شوق ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آدمی اِس فن کی باقاعدہ تعلم حاصل کی جائے۔ محدثین کے اصولوں سے واقفیت پیدا کرے۔ متعلقہ حدیث کے بارے میں ماہرینِ فن کی تشریح سے واقفیت حاصل کرے۔ لیکن اس کے لیے وہ طریقہ کار بہرحال مناسب نہیں ہے جو یہاں اپنایا گیا ہے۔
کتابتِ حدیث کی ممانعت؟
"بخاری شریف اور حدیثِ رسول صلعم کے متعلق کچھ معلومات میں" لکھا گیا ہے::
"حدثنا ھداب بن خالد الازدي حدثنا ھمام عن زيد بن اسلم عن عطاء بن يسار عن ابي سعيد الخدري ان رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم قال لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي قال ھمام احسبہ قال متعمدا فليتبوا مقعدہ من النار
ترجمہ : ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ اور نہ لو (لکھو)، اور جس نے مجھ سے کچھ اور لکھا علاوہ قرآن کے تو اس کو چاہئیے کہ وہ اسے تلف کردے۔ اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اور وہ جس نے مجھ (رسول صلعم) سےکو کوئی نا درست بات منسوب کی --- اور حمام نے کہا ، کہ انہوں نے 'جان بوجھ' کر بھی کہا -- تو اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔"
اس حدیث کے متن کا سادہ ترجمہ دیکھیے:
"مجھ سے کچھ نہ لکھو، اور جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ اور کچھ لکھا ہو وہ اسے مٹا دے، اور میری حدیث بیان کرو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا ۔۔ہمام نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے "جان بوجھ کر" کے الفاظ بھی کہتے تھے۔۔تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"
میں نہیں سمجھ سکا کہ
" وحدثوا عني ولا حرج"
کا ترجمہ
" اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں"
کس قاعدے سے کیا گیا ہے۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو عربی متن میں "و لا" کی جگہ "بانہ" یا اس سے ملتا جلتا کوئی لفظ ہونا چاہیے تھا۔
حدیث کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہو رہا تھا تو عام لوگ قرآن اور حدیث میں امتیاز نہ کر سکتے تھے تب یہ حکم دیا گیا کہ قرآنِ کریم کی آیات لکھی جائیں اور حدیث زبانی بیان کی جائے تا کہ دونوں کا فرق قائم رہے۔ زبانی روایت کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ حکمًا فرمایا کہ "مجھے سے حدیث بیان کرو" اور ساتھ یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ "جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"۔ قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھنے کی یہ ممانعت وقتی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ابوشاہ یمنی صحابی کو حدیث لکھ کر دے دیں۔ اس واقعے کے بعد ممانعت کا حکم اگر دیا گیا ہو تو اس سے آگاہ فرمائیے۔ اسی موقع پر سوا لاکھ صحابہ کے بھرے مجمع میں ناقہ پر سوار ہر کر اعلان فرمایا تھا کہ:
"اللہ تعالیٰ اس بندے کو تروتازہ رکھے جس نے میرے اقوال سنے پھر انہیں یاد کر کے محفوظ کیا پھر اس شخص کو پہنچایا جس نے میرے یہ اقوال نہیں سنے۔"(ترمذی۔ کتاب العلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین دین کا حصہ ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا یَنَطِقُ عَنِ الھَوی اِن ھُوَ اِلا وَحی یُوحٰی (النجم 3۔4)
"وہ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو اُن پر نازل کی جا رہی ہے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انبیاء و رسل اور تمام اولادِ آدم کے سردار ہیں ان کی حدیث کو دین کا درجہ کیوں حاصل نہ ہو گا جبکہ سابقہ امتوں میں بھی انبیاء اور رسل کے فرامین کو وحی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ فرعون کی ہلاکت کی وجہ تورات کا نہیں موسٰی علیہ السلام کے فرامین کا انکار تھا۔ تورات تو اس کے غرق ہونے کے بعد نازل ہوئی تھی۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا اَھْلَكْنَا الْقُرُونَ الْاُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَھدًى وَرَحْمَۃ لَّعَلَّھمْ يَتَذَكَّرُونَ (القصص۔43)
"پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم موسٰی (علیہ السلام) کو تورات عطا کی۔"
لہٰذا صحابہ کرام اور اسلافِ امت کے ساتھ بڑی بدگمانی ہو گی کہ انہوں نے دین کے اس اہم حصے کو محفوظ کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور وقتی ممانعت کو قطعی سمجھ کر حدیث لکھنے سے باز رہے۔
کتابتِ حدیث کی مختصر تاریخ
یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام کے دور سے لے کر ائمہ محدثین کے دور تک متواتر حدیث کی کتابت ہوتی رہی ہے۔
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں جو تحریری مجموعے مرتب کیے گئے ان میں صحیفہ صادقہ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص)، صحیفہ عمر رضی اللہ عنہ، صحیفہ علی رضی اللہ عنہ، صحیفہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ، خطبہ حجۃ الوداع، مسند ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، صحیفہ ہمام بن منبہ، صحیفہ بشیر بن نہیک، صحیفہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کی مرویات جو ان کے شاگرد عروہ بن زبیر نے لکھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات جنہیں سعید بن زبیر تابعی نے مرتب کیا، صحیفہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ، رسالہ سمرہ بن جندب، صحیفہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسالہ سعد بن عبادہ انصاری وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ مجموعے تھے جن میں سے بیشتر صحابہ کرام نے خود لکھے یا لکھوائے۔ اگر منعِ کتابتِ حدیث والی حدیث کا حکم عام تھا تو کیا یہ سب صحابہ (معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نافرمان ہو گئے تھے؟
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا کارنامہ
99 ھ میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر حدیث کو جمع کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمارے پاس پہلے سے لکھی ہوئی موجود ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کا تحریری مجموعہ انہیں اپنے والد عبدالعزیز بن مروان (م 86ھ) کی وراثت سے ملا تھا۔ عمربن عبد العزیز نے مختلف دیار و امصار میں فرمان جاری کیے اور بارہ ماہر محدثین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جن کی کمیٹی کے سربراہ ابن شہاب زہری تھے۔ ان بارہ اشخاص نے الگ الگ مجموعے مرتب کیے اور انہیں دارالخلافہ بھیج دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بکھری ہوئی احادیث جمع ہو گئیں اور بعد میں آنے والے محدثین نے ان تحریری مجموعوں کو اپنی تصانیف میں ضم کر لیا۔
موطا امام مالک اور دوسری اہم تصانیف
اس کے بعد بھی حدیث کی کتابت جاری رہی اور مختلف مجموعے مرتب ہوئے۔ امام مالک کی موطا کی تالیف کا دور 130ھ سے شروع ہو کر 141 ھ پر ختم ہوتا ہے۔ یہی حال دوسری تصانیف کا ہے۔ ذیل میں ان کتابوں کے نام اور ان کے مولفین کے سال وفات دیے جاتے ہیں جسے دیکھنے سے واضح ہو جائے گا کہ اس پورے عرصے میں کبھی بھی ایسا دور نہیں گزرا جب حدیث نہ لکھی جاتی رہی ہو۔
جامع ابن جریج (وفات150ھ)، مسند امام ابوحنیفہ (150ھ)، جامع امام اوزاعی (157ھ)، جامع سفیان ثوری (161ھ)، جامع ابن المبارک (181ھ)، کتاب الخراج امام ابو یوسف (182ھ)، کتاب الآثار امام محمد بن حسن شیبانی (189ھ)،
اس دور میں مندرجہ ذیل مسانید مرتب کی گئیں۔
مسند امام شافعی (204ھ)، مسند البزاز حماد بن سلمہ بن دینار بصری (197ھ) مسند امام موسٰی بن جعفر کاظم (183ھ)، مسند ابوسفیان وکیع بن جراح (197ھ) وغیرہ۔
اس تفصیل کے بعد اس دعوے کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے کہ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد تک صحیح احادیث کا کوئی مجموعہ امت کے پاس موجود نہ تھا"؟ صحابہ کے تحریری مجموعوں کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ان کے بعد تابعین کے پاس جو تحریری مجموعے تھے ان کا شمار بھی مشکل ہے اور تابعین کا دور ختم نہیں ہوا تھا کہ سات عدد مسانید جن کا ذکر ہو چکا ہے منظر عام پر آ گئیں اسی زمانے میں موطا امام مالک کی تکمیل ہوئی جو صحت اور جامعیت کے اعتبار سے کتب ستہ میں شمار ہوتی ہے جبکہ صحیح البخاری 233ھ سے پہلے منظر عام پر آ چکی تھی، کیونکہ امام بخاری نے یہ کتاب امام یحیٰی بن معین، علی بن المدینی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ پر پیش کی تھی جن کے سال وفات بالترتیب 234ھ، 233ھ، اور 240 ھ ہیں۔
کتابت کے علاوہ حفظِ حدیث کا بھی عام رواج تھا۔ عربوں کے بے مثال حافظے نے حدیث کی حفاظت میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ایک مستقل موضوع ہے۔
کتب احادیث میں غلطیوں کی نشاندہی
دوسرا اعتراض ہے کہ کتب حدیث کی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے 90 صفحات کی کتاب چاہیے۔ غلطیوں سے مراد اگر ضعیف اور موضوع روایات کی نشاندہی ہے تو یہ کام محدیثین کر چکے ہیں۔ تازہ ترین کام علامہ ناصر الدین البانی کی "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ" کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جائے گا کہ علمِ حدیث کے ماہرین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی گئی باتوں کو کتنے سخت معیار پر پرکھتے ہیں۔ میرے پاس صحیح البخاری کا بیروت سے چھپا ہوا عربی ایڈیشن ہے جس کے صفحات ساڑھے تین ہزار سے کچھ اوپر ہیں۔ مسند احمد بن حنبل میں دس ہزار حدیثیں ہیں اور یہ مجموعہ بھی ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ صحیح البخاری، مسلم، ترمذی، النسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد، موطا امام مالک،سنن دارمی، مستدرک حاکم، سنن بیہقی، سنن دار قطنی، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مسند ابی یعلی، مسند اسحاق، مسند عبداللہ بن مبارک، مسند شافعی، مسند ابن الجعد اور مصنف ابن ابی شیبہ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں ہیں جن کے کل صفحات کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہی بنتی ہو گی۔ اس ضخیم مجموعے میں 90 صفحے ایسے ملیں جن پرکسی کو اعتراض ہو تو کیا یہی انصاف ہے کہ اس وجہ سے حدیث کے سارے ذخیرے کو دریا برد کر دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ حدیث غلط ہے یا پڑھنے والے کی تحقیق میں کمی ہے۔ گزارش ہے کہ کسی حدیث کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو رہی ہو تو علماء سے رجوع کر کے دریافت کیجیے کہ اس حدیث کا مرتبہ کیا ہے، صحیح ہے، ضعیف ہے یا موضوع ہے۔ اس سے کونسے مسائل اخذ ہوتے ہیں جن کی ضرورت روزمرہ زندگی میں رہتی ہے، علمِ حدیث کے ماہرین اس کی کیا تشریح کرتے ہیں۔ بڑی بے انصافی ہو گی کہ علماء اور ماہرینِ فن کو چھوڑ کر ہر آدمی اپنی مرضی کی تشریح کرتا رہے۔ ایسا اختیار اس سے کمتر شعبوں میں بھی دے دیا جائے تو سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔ ذرا سوچیے کہ کوئی پروفیسر فوج کی کمان سنبھالنے پر اصرار کرے، ڈاکٹر صاحب مطب چھوڑ کر تعمیراتی کام کا ٹھیکہ لے لیں یا ایک انجینئر مریضوں کا آپریشن کرنے میں لگ جائے تو کیا حال ہو ۔ افسوس کہ دین کے بارے میں یہ بنیادی اصول پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا۔
نماز کے طریقے میں فروعی اختلافات اور حدیث
نماز کے بارے میں کہا گیا کہ اگر حدیثیں صحیح اور قابل اعتبار ہوتیں تو نماز کے طریقے میں اختلاف کیوں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ہے۔ اختلاف پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلتے ہیں۔ حدیث سے نماز کا مکمل طریقہ چاہیے (جس کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے) تو الشیخ ناصرالدین البانی کی کتاب "صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کا مطالعہ کریں۔ اس میں نماز کا ایک ایک مسئلہ صحیح حدیث کی روشنی میں آپ کو مل جائے گا۔ تفصیل چاہیے تو اس موضوع پر ان کی مفصل کتاب "صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" پڑھیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں میں نماز کے ارکان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ، سنی،خارجی، حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، دیوبندی، بریلوی غرض تمام مکاتبِ فکر کہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ سب سے سب یہ بھی مانتے ہیں کہ فجر میں دو رکعت، ظہر، عصر، اور عشاء میں چار چار رکعت اور مغرب میں تین رکعت فرض ہے۔ نماز کے طریقے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔ یعنی سب مانتے ہیں کہ پہلے قیام پھر رکوع، پھر قومہ، پھر دو سجدے کریں گے تب ایک رکعت پوری ہو گی۔ سب اس پر بھی متفق ہیں کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ اختلاف صرف اتنا سا ہے کہ جماعت کی صورت میں امام کی قراءت سب کو کافی ہے یا ان کو الگ سے قراءت کرنی ہو گی۔ گویا صرف پڑھنے کی نوعیت میں فرق ہے۔ اسی طرح رفع الیدین کے بارے میں صرف اختلاف یہ ہے کہ افضل کیا ہے۔ کوئی شخص تحقیق کے بعد رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھے یا بغیر رفع الیدین کے نماز سب کے نزدیک صحیح ہو گی۔ پس نماز کے بنیادی ارکان اور بنیادی مسائل میں حدیث کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں جو لوگ حدیث کو چھوڑ بیٹھے ہیں ان میں نماز کے طریقے حتی کہ نمازوں کی تعداد پر جو اختلاف واقع ہوا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔ کوئی پانچوں نمازوں کو مانتا ہے، کسی کے نزدیک تین ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے مختلف آیتوں کے ٹکڑے کاٹ کر دعاؤں کا ایک مجوعہ گھڑا ہے اور نماز کے مختلف حصوں یعنی قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ کے لیے ایک ایک ٹکڑا کسی دلیل کے بغیر مقرر کر لیا ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب کا خیال تو کہ ہے کہ نماز، حج، زکٰوۃ سب فضول چیزیں ہیں اور اسلام کی ذلت و رسوائی اور پسی کا سبب ہیں۔ (طلوع اسلام، مارچ1953۔ ص46)۔ دوسری جگہ پرویز صاحب نے نماز کو ایران کے آگ پوجنے والے مجوسیوں کی رسم کا عکس قرار دیا ہے۔ (طلوع اسلام دسمبر 1951۔ ص47)
خلاصہ یہ کہ جو لوگ حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن سے نماز کا طریقہ دریافت کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ان کے درمیان نماز کی رکعات، کیفیت، ترکیب وغیرہ میں ایسا زبردست اختلاف پایا جاتا ہے جس کا نام و نشان بھی حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ملتا-
عجمی سازش
کہا جاتا ہے کہ حدیث کے مجموعے مرتب کرنے والے لوگ عجمی تھے اور انہوں نے سازش کر کے ذریعے اسلام کی اصل دعوت کو چھپا دیا۔ سنہ وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃ حدیث میں سرِ فہرست ابن شہاب زھری، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز رحمہم اللہ کے نام آتے ہیں۔ یہ سب سے سب نہ صرف عرب تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معزز قبیلے قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد جن محدثین نے حدیث کو اکٹھا کیا ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے حدیث پوری امت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ ان کے بعد کتب ستہ کے مولفین کا دور آتا ہے۔ ان میں امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی عربی النسل تھے۔ جن محدثین کی کتابیں آج رائج اور مقبول ہیں ان میں 18 عرب اور صرف 4 عجمی تھے۔ ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے پہلی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری کے آخر تک کے مشہور محدثین کا ذکر اپنی کتاب "تذکرۃ المحدثین" میں کیا ہے۔ ان کی تعداد ستر ہے جن میں سے 12 کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث کو عجمی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے۔
سند کا طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی گئی باتوں کو پرکھنے کے لیے محدثین نے سند کا طریقہ کار وضع کیا۔ فرض کیجیے کہ امام بخاری کے دور میں ایک حدیث بیان کی جا رہی تھی، تو حدیث کا راوی بتاتا تھا کہ میں نے یہ بات فلاں شخص سے سنی ہے، اس نے یہ بات فلاں سے سنی تھی اور اس سنانے والے نے فلاں صحابی کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوں کیا یا یوں فرمایا۔ محدثین نے ان تمام لوگوں کے حالاتِ زندگی جمع کیے جنہوں نے کبھی حدیث بیان کی تھی۔ امام بخاری اپنی صحیح البخاری میں کوئی حدیث اسی وقت درج کرتے ہیں جب یہ ثابت ہو جائے کہ سامع اور مسموع کی ملاقات ثابت ہے۔ پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ائمہ رجال کی تحقیق ان راویوں کے بارے میں کیا ہے۔ وہ سچے تھے یا جھوٹے، ان کا حافظہ کیسا تھا، وہ مختلف حدیثوں کو گڈمڈ تو نہ کر جاتے تھے وغیرہ۔ ائمہ رجال نے راویوں کے حالات جاننے میں زندگیاں کھپا دیں۔ آج بھی تقریبًا دس لاکھ آدمیوں کے حالاتِ زندگی کتب رجال میں موجود ہیں۔ تحقیق کا سائنٹفک انداز دیکھیے، اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کے جذبے پر قربان جائیے کہ راویوں کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا کہ فلاں راوی کا حافظہ کس عمر میں کیسا تھا۔ فلاں راوی آخر عمر میں حدیثیں گڈمڈ کر جاتا تھا۔ فلاں راوی جھوٹا تھا اس لیے وہ ناقابل اعتبار ہے۔ وغیرہ۔ علمِ رجال، جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک جز کی حفاظت کے لیے کسوٹی کا کام کیا ہے، اس کے بارے یہ کہنا قرینِ انصاف نہ ہو گا کہ:
" کہنے دیجئے کہ سند کا یہ فرسودہ نظام ایک مکاری پر مشتمل سیاسی جھنجھٹ اور شرم کا مقام ہے۔
محدثین اور حکومتوں کے تعلقات
محدثین کے بارے میں یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ سرکاری پٹھو تھے اور انہوں نے حکومتوں کے مفادات پورے کرنے کے لیے دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ حدیث کا سب سے پہلا جامع مجموعہ امام مالک رحمہ اللہ نے "موطا امام مالک" کے نام سے مرتب کیا تھا۔ اس مجموعے کو بعض علماء "کتب ستہ" میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے مولف امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے حکومت نے جبری طور پر فتوٰی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ امام مالک کے انکار پر ان کے شانے اکھڑوا دیے گئے اور منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر شہر کا گشت کرایا گیا۔ لیکن قربان جائیے امام کی استقامت کے۔ جس چوک سے گزرتے فرماتے جاتے تھے "لوگو! میں مالک بن انس ہوں۔ مجھے پہچان لو اور سن لو کہ جبری طلاق کے بارے میں حکومتی موقف درست نہیں ہے۔" تمام تر ظلم و ستم کے باوجود حکومت وقت امام صاحب سے ایک غلط فتوٰی بھی اپنی مرضی کا نہ لے سکی۔
مسند احمد بن حنبل کا شمار حدیث کے بڑے مجموعوں میں ہوتا ہے۔ اس میں دس ہزار کے قریب حدیثیں ہیں۔ اس کے مولف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں۔ ان کے زمانے میں مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا مخلوق۔ بادشاہ قرآن کو اللہ کی مخلوق کہتا تھا جبکہ امام صاحب اسے کلام اللہ کہتے تھے۔ کلمہ حق کہنے کی پاداش میں امامِ اہلِ سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ کھال پھٹ گئی اور گوشت نظر آنے لگ گیا۔ یہ عمل کئی دن چلتا رہا لیکن امام کی زبان پر ایک ہی بات تھی "یہ بات اللہ کے قرآن سے سمجھا دو یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان سے بتا دو"۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود حاکمِ وقت امام کو ان کے موقف سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکا۔
امام بخاری پر مختلف اوقات میں مختلف پابندیاں لگتی رہیں۔ کبھی شہر کے دروازے ان پر بند کیے جاتے تھے تو کبھی شہر بدر کیا جاتا تھا۔ آخری دفعہ جب حکومت نے انہیں شہر سے نکل جانے کا حکم دیا تو وہ بہت دلبرداشتہ ہوئے اور چند دن بعد وفات پا گئے۔ حاکمِ بخارا خالد بن احمد ذیلی نے اپنے بچوں کو گھر آ کر پڑھانے کی درخواست کی تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مسترد کر دیا۔ اس نے کہا کہ کم از کم میرے بچوں کو الگ درس دے دیا کریں۔ انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی۔ امت کے دوسرے بڑے بڑے علماء نے بھی ہمیشہ حکومتِ وقت کے غلط کاموں پر تنقید کی اور اس پر سزائیں برداشت کیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا جنازہ جیل سے نکلا تھا۔ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ اتنی بار جیل گئے کہ پس زندان جانا معمول بن گیا اور ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھایا گیا۔ برصغیر میں علماء نے بڑی صعوبتیں جھیلیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی زندگی کے کتنے ہی سال جیل کی نذر ہوئے۔ منکرینِ حدیث کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ کالا پانی کیا بلا ہوتی تھی جس کا سامنا جعفر تھانیسری اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو کرنا پڑا تھا۔ دور کیوں جاتے ہیں اصولوں کی خاطر اقتدار کو ٹھوکر مارنے والے طالبان کے عظیم راہنما محمد عمر مجاہد بھی "ملا" ہی تھے۔
ان عظیم ہستیوں پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں جن کے پیشوا انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ برصغیر میں انکارِ حدیث کے بانی سرسید احمد خان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ ساری زندگی سلطنتِ برطانیہ کی کاسہ لیسی کرتے رہے۔ انہوں نے اس وقت انگریزوں کا ساتھ دیا تھا جب جنگ آزادی نے پورے ہندوستان میں آگ لگا رکھی تھی۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ 1957 کی جنگِ آزادی میں انہوں نے کئی انگریزوں کی جان بچائی تھی۔ حدیث پر شبہات وارد کرنے والے سب سے بڑے لیڈر غلام احمد پرویز انگریزی حکومت میں بڑے عہدوں پر فائز رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی سرکاری نوکری کرتے رہے۔ آج بھی ان لوگوں کی اکثریت سرکاری عہدوں پر بیٹھی ہوئی ہے یا مغربی ملکوں میں زندگی گزار رہی ہے۔
تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
قرآن تعلیمات پھیلانے میں علماء کا کردار
" مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟" میں کہی جانے والی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ تمام مولوی قرآن کریم کو ناظرہ پڑھانے پر زور دیتے ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے لوگوں کو قرآن سے دور رکھتے ہیں۔ برصغیر میں قرآنی تعلیمات عام کرنے میں علماء کا بے مثال کردار ہے۔ عربی کے بعد اردو واحد زبان ہے جس میں تفاسیر اور تراجم کثرت سے موجود ہیں۔ ذیل میں چند لوگوں کے نام دیے جاتے ہیں جنہوں نے قرآنِ پاک کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا
شاہ ولی اللہ، شاہ عبد القادر، شاہ رفیع الدین، فتح محمد جالندھری، اشرف علی تھانوی، مولوی محمود الحسن، سید ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی، سید حامد علی، حافظ نذر محمد، محمد جونا گڑھی، حافظ صلاح الدین یوسف، لقمان سلفی، عبد الرحمٰن کیلانی وغیرہ۔
ان علماء کا مقصد قرآنی تعلیمات کو عام کرنا نہیں تھا تو یہ ساری محنت کس لیے کی گئی۔جن لوگوں نے قرآن کریم کا فہم عام کرنے کےلیے زندگیاں وقف کر دیں ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے غیر قرآنی نظریات کو فروغ دیتے ہیں بڑی جرات کا کام ہے۔ البتہ صوفی لوگ ظاہری اور باطنی معنوں کے چکر میں پھنس کر قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھنے سے بھاگتے ہیں اور علماء نے ان کے دوسرے باطل عقیدوں کے ساتھ ساتھ اس موقف پر بھی گرفت کی ہے۔
برسبیل تذکرہ اردو کی چند تفاسیر کے نام بھی سن لیجیے:
تفہیم القرآن از سید ابوالاعلی مودودی، معارف القرآن از مفتی محمد شفیع، تفسیر عثمانی از شبیر احمد عثمانی، احسن البیان از صلاح الدین یوسف، تیسیر القرآن از عبد الرحمٰن کیلانی، تدبرِ قرآن از امین احسن اصلاحی، فی ظلال القرآن (اردو) از سید قطب ترجمہ سید حامد علی و معروف شاہ شیرازی، تفسیر ابن کثیر (مترجم) وغیرہ۔ شاہ عبد القادر، اشرف علی تھانوی اور کئی دوسرے علماء کے حواشی اسے کے علاوہ ہیں۔
کثرتِ حدیث اور امام بخاری کا انتخاب
امام بخاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 6 لاکھ میں سے 7275 روایات کا انتخاب کیا۔ کوئی ناواقف آدمی اس سے یہ تاثر لے سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کی چند ہزار حدیثیں چن لیں اور باقی پانچ لاکھ چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاح میں ایک ہی مضمون یا واقعہ اگر ایک سند سے نقل ہو تو وہ ایک حدیث ہے اور اگر دس، بیس، یا پچاس مختلف سندوں سے نقل ہو کر آئے تو وہ اسے دس، بیس یا پچاس حدیثیں کہتے ہیں۔ امام بخاری کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ایک ارشاد اور ان کی زندگی کے ایک ایک واقعہ کو بکثرت راوی مختلف سندوں سے روایت کرتے تھے۔ اور اس طرح چند ہزار مضامین کئی لاکھ حدیثوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ مشہور حدیث ہے " انما الاعمال بالنیات"، اس حدیث کا مضمون سات سو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ عام آدمی اسے ایک حدیث سمجھے گا لیکن محدثین کے ہاں انہیں سات سو حدیثیں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ میں نے ایک لاکھ حدیثوں میں سے انتخاب کر کے یہ مجموعہ مرتب کیا ہے تو اس کی مراد طرق اسانید ہوتے ہیں نہ کہ نفسِ مضمون۔ اس بات سے لاعلمی کی وجہ سے بعض لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کتابتِ حدیث کی ممانعت؟
"بخاری شریف اور حدیثِ رسول صلعم کے متعلق کچھ معلومات میں" لکھا گیا ہے::
"حدثنا ھداب بن خالد الازدي حدثنا ھمام عن زيد بن اسلم عن عطاء بن يسار عن ابي سعيد الخدري ان رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم قال لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي قال ھمام احسبہ قال متعمدا فليتبوا مقعدہ من النار
ترجمہ : ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلعم نے فرمایا کہ مجھ سے کچھ اور نہ لو (لکھو)، اور جس نے مجھ سے کچھ اور لکھا علاوہ قرآن کے تو اس کو چاہئیے کہ وہ اسے تلف کردے۔ اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ اور وہ جس نے مجھ (رسول صلعم) سےکو کوئی نا درست بات منسوب کی --- اور حمام نے کہا ، کہ انہوں نے 'جان بوجھ' کر بھی کہا -- تو اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہے۔"
اس حدیث کے متن کا سادہ ترجمہ دیکھیے:
"مجھ سے کچھ نہ لکھو، اور جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ اور کچھ لکھا ہو وہ اسے مٹا دے، اور میری حدیث بیان کرو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا ۔۔ہمام نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے "جان بوجھ کر" کے الفاظ بھی کہتے تھے۔۔تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"
میں نہیں سمجھ سکا کہ
" وحدثوا عني ولا حرج"
کا ترجمہ
" اور مجھ سے روایت کرو کہ ایسا (تلف) کرنے میں کوئی برائی نہیں"
کس قاعدے سے کیا گیا ہے۔ اگر اسے درست مان لیا جائے تو عربی متن میں "و لا" کی جگہ "بانہ" یا اس سے ملتا جلتا کوئی لفظ ہونا چاہیے تھا۔
حدیث کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن کریم نازل ہو رہا تھا تو عام لوگ قرآن اور حدیث میں امتیاز نہ کر سکتے تھے تب یہ حکم دیا گیا کہ قرآنِ کریم کی آیات لکھی جائیں اور حدیث زبانی بیان کی جائے تا کہ دونوں کا فرق قائم رہے۔ زبانی روایت کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ حکمًا فرمایا کہ "مجھے سے حدیث بیان کرو" اور ساتھ یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ "جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"۔ قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھنے کی یہ ممانعت وقتی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر صحابہ کو حکم دیا تھا کہ وہ ابوشاہ یمنی صحابی کو حدیث لکھ کر دے دیں۔ اس واقعے کے بعد ممانعت کا حکم اگر دیا گیا ہو تو اس سے آگاہ فرمائیے۔ اسی موقع پر سوا لاکھ صحابہ کے بھرے مجمع میں ناقہ پر سوار ہر کر اعلان فرمایا تھا کہ:
"اللہ تعالیٰ اس بندے کو تروتازہ رکھے جس نے میرے اقوال سنے پھر انہیں یاد کر کے محفوظ کیا پھر اس شخص کو پہنچایا جس نے میرے یہ اقوال نہیں سنے۔"(ترمذی۔ کتاب العلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین دین کا حصہ ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:
وَمَا یَنَطِقُ عَنِ الھَوی اِن ھُوَ اِلا وَحی یُوحٰی (النجم 3۔4)
"وہ (نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتے، یہ تو ایک وحی ہے جو اُن پر نازل کی جا رہی ہے۔"
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انبیاء و رسل اور تمام اولادِ آدم کے سردار ہیں ان کی حدیث کو دین کا درجہ کیوں حاصل نہ ہو گا جبکہ سابقہ امتوں میں بھی انبیاء اور رسل کے فرامین کو وحی کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ فرعون کی ہلاکت کی وجہ تورات کا نہیں موسٰی علیہ السلام کے فرامین کا انکار تھا۔ تورات تو اس کے غرق ہونے کے بعد نازل ہوئی تھی۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِن بَعْدِ مَا اَھْلَكْنَا الْقُرُونَ الْاُولَى بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَھدًى وَرَحْمَۃ لَّعَلَّھمْ يَتَذَكَّرُونَ (القصص۔43)
"پچھلی نسلوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم موسٰی (علیہ السلام) کو تورات عطا کی۔"
لہٰذا صحابہ کرام اور اسلافِ امت کے ساتھ بڑی بدگمانی ہو گی کہ انہوں نے دین کے اس اہم حصے کو محفوظ کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور وقتی ممانعت کو قطعی سمجھ کر حدیث لکھنے سے باز رہے۔
کتابتِ حدیث کی مختصر تاریخ
یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام کے دور سے لے کر ائمہ محدثین کے دور تک متواتر حدیث کی کتابت ہوتی رہی ہے۔
صحابہ کرام کے تحریری مجموعے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں جو تحریری مجموعے مرتب کیے گئے ان میں صحیفہ صادقہ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص)، صحیفہ عمر رضی اللہ عنہ، صحیفہ علی رضی اللہ عنہ، صحیفہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ، خطبہ حجۃ الوداع، مسند ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، صحیفہ ہمام بن منبہ، صحیفہ بشیر بن نہیک، صحیفہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کی مرویات جو ان کے شاگرد عروہ بن زبیر نے لکھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات جنہیں سعید بن زبیر تابعی نے مرتب کیا، صحیفہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ، رسالہ سمرہ بن جندب، صحیفہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسالہ سعد بن عبادہ انصاری وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ مجموعے تھے جن میں سے بیشتر صحابہ کرام نے خود لکھے یا لکھوائے۔ اگر منعِ کتابتِ حدیث والی حدیث کا حکم عام تھا تو کیا یہ سب صحابہ (معاذ اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نافرمان ہو گئے تھے؟
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کا کارنامہ
99 ھ میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر حدیث کو جمع کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ مدینہ کے حاکم کو لکھا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہمارے پاس پہلے سے لکھی ہوئی موجود ہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کا تحریری مجموعہ انہیں اپنے والد عبدالعزیز بن مروان (م 86ھ) کی وراثت سے ملا تھا۔ عمربن عبد العزیز نے مختلف دیار و امصار میں فرمان جاری کیے اور بارہ ماہر محدثین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جن کی کمیٹی کے سربراہ ابن شہاب زہری تھے۔ ان بارہ اشخاص نے الگ الگ مجموعے مرتب کیے اور انہیں دارالخلافہ بھیج دیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بکھری ہوئی احادیث جمع ہو گئیں اور بعد میں آنے والے محدثین نے ان تحریری مجموعوں کو اپنی تصانیف میں ضم کر لیا۔
موطا امام مالک اور دوسری اہم تصانیف
اس کے بعد بھی حدیث کی کتابت جاری رہی اور مختلف مجموعے مرتب ہوئے۔ امام مالک کی موطا کی تالیف کا دور 130ھ سے شروع ہو کر 141 ھ پر ختم ہوتا ہے۔ یہی حال دوسری تصانیف کا ہے۔ ذیل میں ان کتابوں کے نام اور ان کے مولفین کے سال وفات دیے جاتے ہیں جسے دیکھنے سے واضح ہو جائے گا کہ اس پورے عرصے میں کبھی بھی ایسا دور نہیں گزرا جب حدیث نہ لکھی جاتی رہی ہو۔
جامع ابن جریج (وفات150ھ)، مسند امام ابوحنیفہ (150ھ)، جامع امام اوزاعی (157ھ)، جامع سفیان ثوری (161ھ)، جامع ابن المبارک (181ھ)، کتاب الخراج امام ابو یوسف (182ھ)، کتاب الآثار امام محمد بن حسن شیبانی (189ھ)،
اس دور میں مندرجہ ذیل مسانید مرتب کی گئیں۔
مسند امام شافعی (204ھ)، مسند البزاز حماد بن سلمہ بن دینار بصری (197ھ) مسند امام موسٰی بن جعفر کاظم (183ھ)، مسند ابوسفیان وکیع بن جراح (197ھ) وغیرہ۔
اس تفصیل کے بعد اس دعوے کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے کہ" رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد تک صحیح احادیث کا کوئی مجموعہ امت کے پاس موجود نہ تھا"؟ صحابہ کے تحریری مجموعوں کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ان کے بعد تابعین کے پاس جو تحریری مجموعے تھے ان کا شمار بھی مشکل ہے اور تابعین کا دور ختم نہیں ہوا تھا کہ سات عدد مسانید جن کا ذکر ہو چکا ہے منظر عام پر آ گئیں اسی زمانے میں موطا امام مالک کی تکمیل ہوئی جو صحت اور جامعیت کے اعتبار سے کتب ستہ میں شمار ہوتی ہے جبکہ صحیح البخاری 233ھ سے پہلے منظر عام پر آ چکی تھی، کیونکہ امام بخاری نے یہ کتاب امام یحیٰی بن معین، علی بن المدینی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ پر پیش کی تھی جن کے سال وفات بالترتیب 234ھ، 233ھ، اور 240 ھ ہیں۔
کتابت کے علاوہ حفظِ حدیث کا بھی عام رواج تھا۔ عربوں کے بے مثال حافظے نے حدیث کی حفاظت میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ایک مستقل موضوع ہے۔
کتب احادیث میں غلطیوں کی نشاندہی
دوسرا اعتراض ہے کہ کتب حدیث کی غلطیوں کی نشاندہی کے لیے 90 صفحات کی کتاب چاہیے۔ غلطیوں سے مراد اگر ضعیف اور موضوع روایات کی نشاندہی ہے تو یہ کام محدیثین کر چکے ہیں۔ تازہ ترین کام علامہ ناصر الدین البانی کی "سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ" کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہو جائے گا کہ علمِ حدیث کے ماہرین نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی گئی باتوں کو کتنے سخت معیار پر پرکھتے ہیں۔ میرے پاس صحیح البخاری کا بیروت سے چھپا ہوا عربی ایڈیشن ہے جس کے صفحات ساڑھے تین ہزار سے کچھ اوپر ہیں۔ مسند احمد بن حنبل میں دس ہزار حدیثیں ہیں اور یہ مجموعہ بھی ہزاروں صفحات پر مشتمل ہے۔ صحیح البخاری، مسلم، ترمذی، النسائی، ابوداؤد، ابن ماجہ، مسند احمد، موطا امام مالک،سنن دارمی، مستدرک حاکم، سنن بیہقی، سنن دار قطنی، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مسند ابی یعلی، مسند اسحاق، مسند عبداللہ بن مبارک، مسند شافعی، مسند ابن الجعد اور مصنف ابن ابی شیبہ حدیث کی بڑی بڑی کتابیں ہیں جن کے کل صفحات کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہی بنتی ہو گی۔ اس ضخیم مجموعے میں 90 صفحے ایسے ملیں جن پرکسی کو اعتراض ہو تو کیا یہی انصاف ہے کہ اس وجہ سے حدیث کے سارے ذخیرے کو دریا برد کر دیا جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ حدیث غلط ہے یا پڑھنے والے کی تحقیق میں کمی ہے۔ گزارش ہے کہ کسی حدیث کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہو رہی ہو تو علماء سے رجوع کر کے دریافت کیجیے کہ اس حدیث کا مرتبہ کیا ہے، صحیح ہے، ضعیف ہے یا موضوع ہے۔ اس سے کونسے مسائل اخذ ہوتے ہیں جن کی ضرورت روزمرہ زندگی میں رہتی ہے، علمِ حدیث کے ماہرین اس کی کیا تشریح کرتے ہیں۔ بڑی بے انصافی ہو گی کہ علماء اور ماہرینِ فن کو چھوڑ کر ہر آدمی اپنی مرضی کی تشریح کرتا رہے۔ ایسا اختیار اس سے کمتر شعبوں میں بھی دے دیا جائے تو سارا نظام تلپٹ ہو جائے۔ ذرا سوچیے کہ کوئی پروفیسر فوج کی کمان سنبھالنے پر اصرار کرے، ڈاکٹر صاحب مطب چھوڑ کر تعمیراتی کام کا ٹھیکہ لے لیں یا ایک انجینئر مریضوں کا آپریشن کرنے میں لگ جائے تو کیا حال ہو ۔ افسوس کہ دین کے بارے میں یہ بنیادی اصول پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا۔
نماز کے طریقے میں فروعی اختلافات اور حدیث
نماز کے بارے میں کہا گیا کہ اگر حدیثیں صحیح اور قابل اعتبار ہوتیں تو نماز کے طریقے میں اختلاف کیوں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اختلاف حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ہے۔ اختلاف پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلتے ہیں۔ حدیث سے نماز کا مکمل طریقہ چاہیے (جس کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے) تو الشیخ ناصرالدین البانی کی کتاب "صفۃ صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کا مطالعہ کریں۔ اس میں نماز کا ایک ایک مسئلہ صحیح حدیث کی روشنی میں آپ کو مل جائے گا۔ تفصیل چاہیے تو اس موضوع پر ان کی مفصل کتاب "صلوۃ النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" پڑھیے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام فرقوں میں نماز کے ارکان کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ دنیا بھر کے شیعہ، سنی،خارجی، حنفی ، مالکی، شافعی، حنبلی، اہل الحدیث، دیوبندی، بریلوی غرض تمام مکاتبِ فکر کہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ سب سے سب یہ بھی مانتے ہیں کہ فجر میں دو رکعت، ظہر، عصر، اور عشاء میں چار چار رکعت اور مغرب میں تین رکعت فرض ہے۔ نماز کے طریقے میں بھی سب کا اتفاق ہے۔ یعنی سب مانتے ہیں کہ پہلے قیام پھر رکوع، پھر قومہ، پھر دو سجدے کریں گے تب ایک رکعت پوری ہو گی۔ سب اس پر بھی متفق ہیں کہ سورۃ الفاتحہ پڑھنی ضروری ہے۔ اختلاف صرف اتنا سا ہے کہ جماعت کی صورت میں امام کی قراءت سب کو کافی ہے یا ان کو الگ سے قراءت کرنی ہو گی۔ گویا صرف پڑھنے کی نوعیت میں فرق ہے۔ اسی طرح رفع الیدین کے بارے میں صرف اختلاف یہ ہے کہ افضل کیا ہے۔ کوئی شخص تحقیق کے بعد رفع الیدین کے ساتھ نماز پڑھے یا بغیر رفع الیدین کے نماز سب کے نزدیک صحیح ہو گی۔ پس نماز کے بنیادی ارکان اور بنیادی مسائل میں حدیث کے ماننے والوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ ہاں جو لوگ حدیث کو چھوڑ بیٹھے ہیں ان میں نماز کے طریقے حتی کہ نمازوں کی تعداد پر جو اختلاف واقع ہوا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔ کوئی پانچوں نمازوں کو مانتا ہے، کسی کے نزدیک تین ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ ہر رکعت میں دو سجدے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ ایک ہی سجدہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں نے مختلف آیتوں کے ٹکڑے کاٹ کر دعاؤں کا ایک مجوعہ گھڑا ہے اور نماز کے مختلف حصوں یعنی قیام، رکوع، سجدہ وغیرہ کے لیے ایک ایک ٹکڑا کسی دلیل کے بغیر مقرر کر لیا ہے۔ غلام احمد پرویز صاحب کا خیال تو کہ ہے کہ نماز، حج، زکٰوۃ سب فضول چیزیں ہیں اور اسلام کی ذلت و رسوائی اور پسی کا سبب ہیں۔ (طلوع اسلام، مارچ1953۔ ص46)۔ دوسری جگہ پرویز صاحب نے نماز کو ایران کے آگ پوجنے والے مجوسیوں کی رسم کا عکس قرار دیا ہے۔ (طلوع اسلام دسمبر 1951۔ ص47)
خلاصہ یہ کہ جو لوگ حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن سے نماز کا طریقہ دریافت کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں ان کے درمیان نماز کی رکعات، کیفیت، ترکیب وغیرہ میں ایسا زبردست اختلاف پایا جاتا ہے جس کا نام و نشان بھی حدیث کے ماننے والوں میں نہیں ملتا-
عجمی سازش
کہا جاتا ہے کہ حدیث کے مجموعے مرتب کرنے والے لوگ عجمی تھے اور انہوں نے سازش کر کے ذریعے اسلام کی اصل دعوت کو چھپا دیا۔ سنہ وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃ حدیث میں سرِ فہرست ابن شہاب زھری، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز رحمہم اللہ کے نام آتے ہیں۔ یہ سب سے سب نہ صرف عرب تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معزز قبیلے قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد جن محدثین نے حدیث کو اکٹھا کیا ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے حدیث پوری امت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ ان کے بعد کتب ستہ کے مولفین کا دور آتا ہے۔ ان میں امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی عربی النسل تھے۔ جن محدثین کی کتابیں آج رائج اور مقبول ہیں ان میں 18 عرب اور صرف 4 عجمی تھے۔ ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے پہلی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری کے آخر تک کے مشہور محدثین کا ذکر اپنی کتاب "تذکرۃ المحدثین" میں کیا ہے۔ ان کی تعداد ستر ہے جن میں سے 12 کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث کو عجمی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے۔
سند کا طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی گئی باتوں کو پرکھنے کے لیے محدثین نے سند کا طریقہ کار وضع کیا۔ فرض کیجیے کہ امام بخاری کے دور میں ایک حدیث بیان کی جا رہی تھی، تو حدیث کا راوی بتاتا تھا کہ میں نے یہ بات فلاں شخص سے سنی ہے، اس نے یہ بات فلاں سے سنی تھی اور اس سنانے والے نے فلاں صحابی کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یوں کیا یا یوں فرمایا۔ محدثین نے ان تمام لوگوں کے حالاتِ زندگی جمع کیے جنہوں نے کبھی حدیث بیان کی تھی۔ امام بخاری اپنی صحیح البخاری میں کوئی حدیث اسی وقت درج کرتے ہیں جب یہ ثابت ہو جائے کہ سامع اور مسموع کی ملاقات ثابت ہے۔ پھر یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ائمہ رجال کی تحقیق ان راویوں کے بارے میں کیا ہے۔ وہ سچے تھے یا جھوٹے، ان کا حافظہ کیسا تھا، وہ مختلف حدیثوں کو گڈمڈ تو نہ کر جاتے تھے وغیرہ۔ ائمہ رجال نے راویوں کے حالات جاننے میں زندگیاں کھپا دیں۔ آج بھی تقریبًا دس لاکھ آدمیوں کے حالاتِ زندگی کتب رجال میں موجود ہیں۔ تحقیق کا سائنٹفک انداز دیکھیے، اور حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کے جذبے پر قربان جائیے کہ راویوں کے بارے میں یہ بھی لکھ دیا کہ فلاں راوی کا حافظہ کس عمر میں کیسا تھا۔ فلاں راوی آخر عمر میں حدیثیں گڈمڈ کر جاتا تھا۔ فلاں راوی جھوٹا تھا اس لیے وہ ناقابل اعتبار ہے۔ وغیرہ۔ علمِ رجال، جو صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اور جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے ایک ایک جز کی حفاظت کے لیے کسوٹی کا کام کیا ہے، اس کے بارے یہ کہنا قرینِ انصاف نہ ہو گا کہ:
" کہنے دیجئے کہ سند کا یہ فرسودہ نظام ایک مکاری پر مشتمل سیاسی جھنجھٹ اور شرم کا مقام ہے۔
محدثین اور حکومتوں کے تعلقات
محدثین کے بارے میں یہ تاثر بھی غلط ہے کہ وہ سرکاری پٹھو تھے اور انہوں نے حکومتوں کے مفادات پورے کرنے کے لیے دین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ حدیث کا سب سے پہلا جامع مجموعہ امام مالک رحمہ اللہ نے "موطا امام مالک" کے نام سے مرتب کیا تھا۔ اس مجموعے کو بعض علماء "کتب ستہ" میں شمار کرتے ہیں۔ اس کے مولف امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے حکومت نے جبری طور پر فتوٰی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ امام مالک کے انکار پر ان کے شانے اکھڑوا دیے گئے اور منہ کالا کرکے گدھے پر بٹھا کر شہر کا گشت کرایا گیا۔ لیکن قربان جائیے امام کی استقامت کے۔ جس چوک سے گزرتے فرماتے جاتے تھے "لوگو! میں مالک بن انس ہوں۔ مجھے پہچان لو اور سن لو کہ جبری طلاق کے بارے میں حکومتی موقف درست نہیں ہے۔" تمام تر ظلم و ستم کے باوجود حکومت وقت امام صاحب سے ایک غلط فتوٰی بھی اپنی مرضی کا نہ لے سکی۔
مسند احمد بن حنبل کا شمار حدیث کے بڑے مجموعوں میں ہوتا ہے۔ اس میں دس ہزار کے قریب حدیثیں ہیں۔ اس کے مولف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ہیں۔ ان کے زمانے میں مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا مخلوق۔ بادشاہ قرآن کو اللہ کی مخلوق کہتا تھا جبکہ امام صاحب اسے کلام اللہ کہتے تھے۔ کلمہ حق کہنے کی پاداش میں امامِ اہلِ سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ کھال پھٹ گئی اور گوشت نظر آنے لگ گیا۔ یہ عمل کئی دن چلتا رہا لیکن امام کی زبان پر ایک ہی بات تھی "یہ بات اللہ کے قرآن سے سمجھا دو یا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرمان سے بتا دو"۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود حاکمِ وقت امام کو ان کے موقف سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکا۔
امام بخاری پر مختلف اوقات میں مختلف پابندیاں لگتی رہیں۔ کبھی شہر کے دروازے ان پر بند کیے جاتے تھے تو کبھی شہر بدر کیا جاتا تھا۔ آخری دفعہ جب حکومت نے انہیں شہر سے نکل جانے کا حکم دیا تو وہ بہت دلبرداشتہ ہوئے اور چند دن بعد وفات پا گئے۔ حاکمِ بخارا خالد بن احمد ذیلی نے اپنے بچوں کو گھر آ کر پڑھانے کی درخواست کی تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مسترد کر دیا۔ اس نے کہا کہ کم از کم میرے بچوں کو الگ درس دے دیا کریں۔ انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی۔ امت کے دوسرے بڑے بڑے علماء نے بھی ہمیشہ حکومتِ وقت کے غلط کاموں پر تنقید کی اور اس پر سزائیں برداشت کیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا جنازہ جیل سے نکلا تھا۔ شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ اتنی بار جیل گئے کہ پس زندان جانا معمول بن گیا اور ان کا جنازہ بھی جیل سے اٹھایا گیا۔ برصغیر میں علماء نے بڑی صعوبتیں جھیلیں۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی زندگی کے کتنے ہی سال جیل کی نذر ہوئے۔ منکرینِ حدیث کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ کالا پانی کیا بلا ہوتی تھی جس کا سامنا جعفر تھانیسری اور ان کے دوسرے ساتھیوں کو کرنا پڑا تھا۔ دور کیوں جاتے ہیں اصولوں کی خاطر اقتدار کو ٹھوکر مارنے والے طالبان کے عظیم راہنما محمد عمر مجاہد بھی "ملا" ہی تھے۔
ان عظیم ہستیوں پر وہ لوگ اعتراض کرتے ہیں جن کے پیشوا انگریزوں کے ساتھ تعاون کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ برصغیر میں انکارِ حدیث کے بانی سرسید احمد خان کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ ساری زندگی سلطنتِ برطانیہ کی کاسہ لیسی کرتے رہے۔ انہوں نے اس وقت انگریزوں کا ساتھ دیا تھا جب جنگ آزادی نے پورے ہندوستان میں آگ لگا رکھی تھی۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ 1957 کی جنگِ آزادی میں انہوں نے کئی انگریزوں کی جان بچائی تھی۔ حدیث پر شبہات وارد کرنے والے سب سے بڑے لیڈر غلام احمد پرویز انگریزی حکومت میں بڑے عہدوں پر فائز رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی سرکاری نوکری کرتے رہے۔ آج بھی ان لوگوں کی اکثریت سرکاری عہدوں پر بیٹھی ہوئی ہے یا مغربی ملکوں میں زندگی گزار رہی ہے۔
تری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
قرآن تعلیمات پھیلانے میں علماء کا کردار
" مولویت : دینی نظریات و دینی کتب کا درست یا غلط سیاسی استعمال؟" میں کہی جانے والی یہ بات بھی محل نظر ہے کہ تمام مولوی قرآن کریم کو ناظرہ پڑھانے پر زور دیتے ہیں اور سیاسی مقاصد کے لیے لوگوں کو قرآن سے دور رکھتے ہیں۔ برصغیر میں قرآنی تعلیمات عام کرنے میں علماء کا بے مثال کردار ہے۔ عربی کے بعد اردو واحد زبان ہے جس میں تفاسیر اور تراجم کثرت سے موجود ہیں۔ ذیل میں چند لوگوں کے نام دیے جاتے ہیں جنہوں نے قرآنِ پاک کا مقامی زبان میں ترجمہ کیا
شاہ ولی اللہ، شاہ عبد القادر، شاہ رفیع الدین، فتح محمد جالندھری، اشرف علی تھانوی، مولوی محمود الحسن، سید ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی، سید حامد علی، حافظ نذر محمد، محمد جونا گڑھی، حافظ صلاح الدین یوسف، لقمان سلفی، عبد الرحمٰن کیلانی وغیرہ۔
ان علماء کا مقصد قرآنی تعلیمات کو عام کرنا نہیں تھا تو یہ ساری محنت کس لیے کی گئی۔جن لوگوں نے قرآن کریم کا فہم عام کرنے کےلیے زندگیاں وقف کر دیں ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے غیر قرآنی نظریات کو فروغ دیتے ہیں بڑی جرات کا کام ہے۔ البتہ صوفی لوگ ظاہری اور باطنی معنوں کے چکر میں پھنس کر قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھنے سے بھاگتے ہیں اور علماء نے ان کے دوسرے باطل عقیدوں کے ساتھ ساتھ اس موقف پر بھی گرفت کی ہے۔
برسبیل تذکرہ اردو کی چند تفاسیر کے نام بھی سن لیجیے:
تفہیم القرآن از سید ابوالاعلی مودودی، معارف القرآن از مفتی محمد شفیع، تفسیر عثمانی از شبیر احمد عثمانی، احسن البیان از صلاح الدین یوسف، تیسیر القرآن از عبد الرحمٰن کیلانی، تدبرِ قرآن از امین احسن اصلاحی، فی ظلال القرآن (اردو) از سید قطب ترجمہ سید حامد علی و معروف شاہ شیرازی، تفسیر ابن کثیر (مترجم) وغیرہ۔ شاہ عبد القادر، اشرف علی تھانوی اور کئی دوسرے علماء کے حواشی اسے کے علاوہ ہیں۔
کثرتِ حدیث اور امام بخاری کا انتخاب
امام بخاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 6 لاکھ میں سے 7275 روایات کا انتخاب کیا۔ کوئی ناواقف آدمی اس سے یہ تاثر لے سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کی چند ہزار حدیثیں چن لیں اور باقی پانچ لاکھ چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاح میں ایک ہی مضمون یا واقعہ اگر ایک سند سے نقل ہو تو وہ ایک حدیث ہے اور اگر دس، بیس، یا پچاس مختلف سندوں سے نقل ہو کر آئے تو وہ اسے دس، بیس یا پچاس حدیثیں کہتے ہیں۔ امام بخاری کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک ایک ارشاد اور ان کی زندگی کے ایک ایک واقعہ کو بکثرت راوی مختلف سندوں سے روایت کرتے تھے۔ اور اس طرح چند ہزار مضامین کئی لاکھ حدیثوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ مشہور حدیث ہے " انما الاعمال بالنیات"، اس حدیث کا مضمون سات سو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ عام آدمی اسے ایک حدیث سمجھے گا لیکن محدثین کے ہاں انہیں سات سو حدیثیں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ میں نے ایک لاکھ حدیثوں میں سے انتخاب کر کے یہ مجموعہ مرتب کیا ہے تو اس کی مراد طرق اسانید ہوتے ہیں نہ کہ نفسِ مضمون۔ اس بات سے لاعلمی کی وجہ سے بعض لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔