فردوس عاشق اعوان کی جگہ عاصم سلیم باجوہ معاون خصوصی برائے اطلاعات مقرر

آورکزئی

محفلین
ان الزامات پر اتنا یقین ہے تو عدالت میں ثابت کر دیں۔ وہ ٹیرن خان والے معاملہ پر تو نیازی کو گھر بھیجنا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ :)

ویسے اپ کو سب کچھ پتا ہے۔۔۔ لیکن پتا نہیں کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسم محمد

محفلین
مطلب ۔۔۔۔۔ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔۔۔
چونکہ پاکستان میں 1970 کے بعد الیکشن کبھی صاف شفاف نہیں ہوتے اس لیے عین ممکن ہے 2013 میں اکثریتی ووٹ تحریک انصاف کو پڑا لیکن ن لیگ کے حق میں مقتدر حلقوں نے دھاندلی کر وائی۔ اور پھر 2018 کے الیکشن میں اکثریتی ووٹ ن لیگ کو پڑا مگر مقتدر حلقوں نے تحریک انصاف کے حق میں نتائج تبدیل کر وائے۔ دونوں صورتوں میں اقتدار شفافیت کے ساتھ منتقل نہیں ہوا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہمیشہ انتخابات ہارنے والا ہی کیوں دھاندلی کا رونا روتا ہے۔
 

آورکزئی

محفلین
چونکہ پاکستان میں 1970 کے بعد الیکشن کبھی صاف شفاف نہیں ہوتے اس لیے عین ممکن ہے 2013 میں اکثریتی ووٹ تحریک انصاف کو پڑا لیکن ن لیگ کے حق میں مقتدر حلقوں نے دھاندلی کر وائی۔ اور پھر 2018 کے الیکشن میں اکثریتی ووٹ ن لیگ کو پڑا مگر مقتدر حلقوں نے تحریک انصاف کے حق میں نتائج تبدیل کر وائے۔ دونوں صورتوں میں اقتدار شفافیت کے ساتھ منتقل نہیں ہوا۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ہمیشہ انتخابات ہارنے والا ہی کیوں دھاندلی کا رونا روتا ہے۔

سو فیصد متفق۔۔۔۔۔۔۔ کب تک چلے گا یہ سلسلہ ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟یا بس ایسے ہی روتے رہیں گے۔۔۔ اور نیازی جیسے نااہل سہتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
 

جاسم محمد

محفلین
سو فیصد متفق۔۔۔۔۔۔۔ کب تک چلے گا یہ سلسلہ ۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟یا بس ایسے ہی روتے رہیں گے۔۔۔ اور نیازی جیسے نااہل سہتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اگرفوج انتخابات میں کوئی مداخلت نہ بھی کرے تب بھی عوام انہی روایتی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں گے جنہوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔
باقی فوج کی سیاسی نظام میں مداخلت روکنے کا آسان طریقہ ان کو برما کے آئین کی طرح پارلیمان میں کچھ فیصد سیٹیں الاٹ کرنا ہے۔ یوں پس پردہ خلائی مخلوق بن کر نظام کنٹرول کرنے کی بجائے یہ سب کے سامنے کھل کر سیاست کریں گے۔ اور اس طرح من گھڑت سازشی ناظریات، سارا وقت کی ٹینشن کہ پتا نہیں نظام کون چلا رہا سےجان چھوٹ جائےگی۔
image.png

Constitution of Myanmar - Wikipedia
جب پاکستان کے آزاد اداروں اور حکومتی محکموں میں اتنی قوت نہیں ہے کہ فوج کو بیرکوں تک محدود سکھ سکیں تو بہتر ہے ان کو ساتھ ملا کر ملک چلائیں۔ بجائے اس کہ ہمہ وقت ان سے لڑائی ڈال کر نہ خود ملک چلا سکیں اور نہ ان کو چلانے دیں۔
 
اگرفوج انتخابات میں کوئی مداخلت نہ بھی کرے تب بھی عوام انہی روایتی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیں گے جنہوں نے ملک کو اس حال تک پہنچایا ہے۔
باقی فوج کی سیاسی نظام میں مداخلت روکنے کا آسان طریقہ ان کو برما کے آئین کی طرح پارلیمان میں کچھ فیصد سیٹیں الاٹ کرنا ہے۔ یوں پس پردہ خلائی مخلوق بن کر نظام کنٹرول کرنے کی بجائے یہ سب کے سامنے کھل کر سیاست کریں گے۔ اور اس طرح من گھڑت سازشی ناظریات، سارا وقت کی ٹینشن کہ پتا نہیں نظام کون چلا رہا سےجان چھوٹ جائےگی۔
image.png

Constitution of Myanmar - Wikipedia
جب پاکستان کے آزاد اداروں اور حکومتی محکموں میں اتنی قوت نہیں ہے کہ فوج کو بیرکوں تک محدود سکھ سکیں تو بہتر ہے ان کو ساتھ ملا کر ملک چلائیں۔ بجائے اس کہ ہمہ وقت ان سے لڑائی ڈال کر نہ خود ملک چلا سکیں اور نہ ان کو چلانے دیں۔
جتنے اصحاب کی رائے ہم اب تک دیکھ چکے ہیں، ہمیں یوں لگتا ہے جیسے عمران نیازی کے تمام حامی جمہوریت دشمن اور اقتدارِ میں محکمۂ زراعت کے کردار کے حامی ملے۔ ادھر جتنے اصحاب نازی کے مخالف ملے وہ جمہوریت کے حامی تھے۔



یہ بات اب الف نظامی بھائی سے پوچھنی پڑے گی کہ آیا یہ سیمپل سائز قابلِ اعتبار ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
جتنے اصحاب کی رائے ہم اب تک دیکھ چکے ہیں، ہمیں یوں لگتا ہے جیسے عمران نیازی کے تمام حامی جمہوریت دشمن اور اقتدارِ میں محکمۂ زراعت کے کردار کے حامی ملے۔ ادھر جتنے اصحاب نازی کے مخالف ملے وہ جمہوریت کے حامی تھے۔
جب پاکستان کے آزاد اداروں اور حکومتی محکموں میں اتنی قوت نہیں ہے کہ فوج کو بیرکوں تک محدود سکھ سکیں تو بہتر ہے ان کو ساتھ ملا کر ملک چلائیں۔ بجائے اس کہ ہمہ وقت ان سے لڑائی ڈال کر نہ خود ملک چلا سکیں اور نہ ان کو چلانے دیں۔
عمران نیازی کے حامی سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت کے حامی نہیں ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ ماہ قبل جب مقتدر حلقوں نے مجرم نواز شریف سے ڈیل کرکے علاج کے نام پر اسے ملک سے باہر بھیجا تھا تو عمران نیازی نے کیسے فرنٹ فٹ پر آکر چوکے چھکے لگائے تھے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس کے سامنے آرمی چیف کے ایکسٹینشن والے معاملہ پر ان کے عہدہ کی بذیعہ اٹارنی جنرل کافی بے عزتی بھی کروائی تھی۔
یہ تمام مسائل اس لئے ہیں کیونکہ پاکستان کے سیاسی نظام میں دیگر جمہوریتوں کی طرح کوئی ایک طاقت کا مرکز قائم نہیں ہے۔ فوج، مولویوں،ایجنسیوں وغیرہ نے سول حکومت سے الگ تھلگ اپنے اقتدار کے مراکز کھول رکھے ہیں۔ اور یوں پس پردہ رہتے ہوئے حکومتی محکموں اور آزاد ریاستی اداروں پراپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں بڑا سا بڑا مجرم بھی ثبوتوں کے ساتھ پکڑے جانے پر اپنے معاملات ان مقتدر حلقوں سے "مینج" کرکے رفو چکر ہو جاتا ہے۔ جبکہ کمزور بے گناہ لوگ سالہا ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باوجود جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔
یہ نظام اقتدار کے متبادل مراکز کیساتھ مسلسل مزاحمت اور لڑائی سے ٹھیک نہیں ہوگا۔ کیونکہ جن کو ایک بار اقتدار کا نشہ لگ گیا وہ آسانی سے اترتا نہیں۔ نظام میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ بتدریج اسے بہتر بنایا جائے۔ نہ کہ ہر سول حکومت کو مقتدر قوتوں سے لڑوا کر ملک و قوم سب کا نقصان کیا جائے۔
 
Top