باب آخری: فسانہء آزاد
مریضِ محبت
بیماری اور اباجان کا چولی دامن کا ساتھ تھا لیکن انہوں نے کبھی بیماری کو اپنے اوپر ھاوی نہیں ہونے دیا ۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے انہوں نے پہلی مرتبہ جیل پہنچنے کا واقعہ سنایا تو یہ بات خاص طور پرذکر کی تھی کہ ان سے باقی تمام سہولتیں چھینتے وقت ، ان کی کمر کے گرد کسی ہوئی وہ چمڑے کی بیلٹ بھی اُتروالی گئی جو وہ گردوں کے درد سے بچاؤ کے لیے پہنا کرتے تھے۔ یہ واقعہ ان کی جوانی کا ہے ۔ اس وقت کس نے ان کے مرض کی تشخیص کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ انہیں گردوں کی تکلیف ہے، یہ واضح نہیں۔ میرا اپنا گمان یہ ہے کہ یہ خود ان کی اپنی تشخیص تھی اور وہ پہلو کے اس درد کو کم کرنے کی خاطر وہ یہ بیلٹ باندھا کرتے تھے ۔ بہت بعد میں، جب میں انہیں لے کر ایس آئی یو ٹی ، ڈاکٹر ادیب رضوی کے ہاں گیا تو یہ عقدہ کھلا کہ انہیں مثانے کا کینسر ہے۔ یہ بات ۸۰ کی دہائی کی ہے۔
اپنے کالج کے زمانے میں راقم الحروف نے اباجان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تکلیف کا باقاعدہ علاج کروائیں ، لہٰذا طے ہوا کہ انہیں ایس آئی یو ٹی لے جاکر دکھایا جائے۔ ان ہی دنوں میرا ایک کلاس فیلو ڈاؤ میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا، اس سے تذکرہ کیا تو اس نے ساتھ چلنے کی حامی بھر لی اور اپنے روم میٹ سے سفید گاؤن ادھار لے کر پہن لیا اور ایک اسٹیتھو اسکوپ بھی ہاتھ میں پکڑ لیا، اس طرح ہم ایک جعلی نوجوان ڈاکٹر کی معیت میں ۱۴ نمبر کی او پی ڈی پہنچے اور اپنی باری آنے پر اباجان کو دکھایا۔ اس کے بعد اباجان کے چکر لگتے رہے ۔ ۱۹۸۳ میں میں کراچی سے باہر چلا گیا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ اباجان کو ایس آئی یوٹی کی جانب سے جناح ہسپتال بھیجا گیا جہاں پر اباجان کو ریڈیائی شعائیں بھی دی گئیں۔ ۱۹۹۰ میں کراچی آکر مین نے پھر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی اور اباجان کو لے کر ایس آئی یو ٹی کے چکر لگانے شروع کردئیتے۔ اسی اثناء میں سالے صاحب ڈاکٹر یعقوب نے اباجان کی فائل دیکھی اور ہمیں اطلاع دی کہ اباجان کو مثانے کا کینسر ہے۔ کینسر کی گلٹی مثانے کے اندر اور باہر دونوں جانب تھی۔ باہر کی گلٹی کو چھیڑا نہ جاسکتا تھا، البتہ مثانے کے اندر کے اضافے کو ہر سال انڈو اسکوپی کے ذریعے کھرچ دیا جاتا تھا۔ یہ سلسہ اسی طرح چلتا رہا اور اباجان کی یہ بیماری اسی طرح قابو مین رہی۔
اباجان اور یہ موذی مرض ، دونوں مدتوں آپس میں دست و گریباں رہےاور میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آخر میں فتح اباجان ہی کی ہوئی اور جس مرض الموت میں مبتلا ہوکر وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے وہ کینسر نہیں بلکہ دل کا عارضہ تھا۔ بہر حال کینسر ہو یا عارضہِ قلب، دونوں ان کے نزدیک محبت کے مرض تھے اور بقول شاعر:
مریضِ محبت انہی کا فسانہ
سناتا رہا دم نکلتے نکلتے
اللہ اور اس کے رسول کی سچی محبت ان کے دل و دماغ میں اور رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی۔ یہ بیماری بھی اللہ ہی کی طرف سے ایک آزمائش تھی، جسے انہوں نے ہنس کھیل کر ، خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔کبھی اس تکلیف کی شکایت نہیں کی۔ کینسر ہویا سردرد، کسی بھی بیماری کی کبھی کسی سے شکایت نہ کی اور نہ کبھی گھبرائے۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ نے پیروں میں درد کی شکایت کی اور بتایا کہ کوئی دوا کارگر نہیں ہورہی ہے، تو ان پر برس پڑے کہ’’ بڑے میاں ! کیا اللہ تعالیٰ صرف تمہارے لیے اپنے قانون کو توڑے گا؟ وقت کے ساتھ ساتھ قویٰ مضمحل ہوتے جاتے ہیں۔ بڑھاپا اور یہ تکلیفیں فطری عمل ہیں۔ ‘‘
یہی کیفیت اپنی بیماری کے دوران بھی رہتی۔ صرف اتنا کرتے کہ اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر حبیب الرحمٰن صاحب کے پاس دوڑے دوڑے جاتے ، ان کی دی ہوئی دوا کھاتے اور ان ہی کے بتائے ہوئے پرہیز پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہتے۔ تقریباً دوسال پہلے ڈاکٹروں نے انڈوسکوپی سے پہلے فٹنس ٹسٹ تجویز کیا اور اس سلسلے میں دل کا ای سی جی اور ایکو ٹسٹ لیا گیا تو پتا چلا کہ اباجن کو پہلے ہی دل کا ایک دورہ پڑچکا ہے۔ اباجان سے پوچھا گیا تو انہیں اس بارے میں کوئی علم نہین تھا ۔ یہ بات جہاں ہمارے لیے حیران کن تھی، وہیں خود اُن کے لیے بھی نئی تھی۔ یعنی دل کا دورہ بھی ہنس کھیل کر برداشت کیا تھا جیسے کوئی پھانس چبھ گئی ہو۔ خیر صاحب، پھر اس کے بعد سے کوئی انڈواسکوپی مکمل بے ہوشی کی حالے میں نہیں ہوئی۔ جسم کا کچھ حصہ مقامی طور پر بے حس کردیا جاتا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔
پچھلے سال ہم گھر والوں پر اور خاص طور پر اباجان پر قیامت گزر گئی۔ بڑے بھائی امین الرحمٰن جو اباجان کے دوسرے نمبر کے بیٹے تھے اور ہم بھائیوں میں عادت و اخلاق اور کردار کے اعتبار سے سب سے افضل اور بہتر تھے اور ہنس مکھ، چاق و چوبند اور شرارتی ہونے کے ناطے سب بچوں اور بڑوں کی آنکھ کا تارہ تھے اور یکساں مقبول تھے، اچانک ایک مختصر علالت کے بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ہوا یوں کہ ایک دن صبح راقم الحروف کو آلکسی نے آگھیرا تو بندہ وقت پر دفتر روانہ نہ ہوسکا۔ ابھی چائے کا آخری گھونٹ حلق سے اتارا ہی تھا اور چاہتا تھا دفتر روانگی ڈالی جائے، اتنے میں بھابی کا ٹیلیفون آگیا۔ خلیل بھائی امین صبح فجر کے وقت سے بے چین ہیں اور انہیں کسی کل چین نہیں آرہا ہے۔
میں نے بھائی کے گھر پہنچ کر صورتِ حال کا ادراک کیا تو اندازہ ہوا کہ سینے کی جلن جو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھی ہوئی ہے ، اس بات کی متقاضی ہے کہ فوراً امراضِ قلبکے ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔ انہیں لے کر امراضِ قلب کے قومی ادارے پہنچا ۔ مجھے یقین تھا کہ ابتدائی معائنے کے بعد بھائی کی طبیعت کو بد ہضمی کا شاخسانہ قرار دے کر ہمیں گھر بھیج دیا جائے گا۔لیکن راقم الحروف کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا اور داکٹروں نے فوراً انجیو گرافی کرنے کا کہا۔ انجیو گرافی ہوئی تو فوری طور پر دل کا آپپریشن تجویز ہوا۔
اگلے روز بھائی آپریشن ٹیبل پر جانبر نہ ہوسکے اور ان کا بے جان لاشہ ہمارے حوالے کردیا گیا۔ اباجان کو بھائی کی ناگہانی موت کی اطلاع دینے کی ذمہ داری مجھ بدنصیب کے حوالے ہوئی تو میں نے ٹیلیفون پر انہیں اس قیامت خیز سانحے سے آگاہ کیا ۔ پہلے تو وہ ایک لمحے خاموش ہوگئے۔ میں نے ہیلو کہا تو اللہ جانے کیا سوچ کر باتیں شروع کیں اور بھائی کی تدفین سے متعلق ہدایات دینے لگے۔
اس دن سب روئے لیکن اباجان جس صبر اور حوصلے کے ساتھ پرسہ دینے والوں سے ملے اس کی سوچ آج بھی میرا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ نہ روئے ، نہ چیخے، نہ کسی سے گلہ کیا، دل ہی دل میں بہت چیخ چیخ کر روتے ہوں گے، لیکن بظاہر خاموش تھے۔ بہت بڑا سانحہ تھا جو ہم سب پر گزر گیا۔ ہم سب دم بخود تھے کہ آن کی آن میں یہ کیا ہوگیا۔ لیکن اباجان کی شکل دیکھ کر تو کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ اللہ اللہ کیا دن تھے جو گزر گئے۔ رفتہ رفتہ وقت نے ہمارے ان زخموں پر مرہم رکھدیا اور ہم نارمل ہوگئے۔ لیکن اباجان اس نقصان کو برداشت نہ کرسکے اور اندر ہی اندر گھلنے لگے۔ ایک دن سیڑھیوں سے گرے تو ٹانگ پر چوٹ لگی اور آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔ چلتے تو تھے لیکن رُک رُک کر اور تکلیف کے ساتھ۔ تکلیف چہرے سے ظاہر ہوتی لیکن زبان تک کبھی نہ آئی ۔اٹھتے ، بیٹھتے یا لیٹتے وقت تکلیف کا اظہار صرف دو لفظ ہوتے، ’’ اللہ رے!‘‘ اور بس۔
اسی اثناء میں ہم بھائیوں نے اباجان کے مشورے کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ امین بھائی کے بیٹے شہریار عرف شیری کی شادی بالکل اسی طرح انہی تاریخوں میں اور اسی انتظام کے ساتھ کی جائے جس کا اہتمام امین بھائی اپنی زندگی ہی میں کرچکے تھے۔ کارڈ بانٹنے کا مرحلہ درپیش ہوا تو جہاں سب نے اپنے حصے کے کارڈ سنبھالے وہیں اباجان نے بھی اپنے دوستوں کو کارڈ تقسیم کرنے کا کام خود اپنے ذمے لے لیا۔ مجھے ہمیشہ یاد رہے کہ کس طرح میں اباجان کو لے کر ان کے دوستوں کے پاس پہنچا اور اور کس صبر اور حوصلے کے ساتھاباجان نے اپنے کارڈ تقسیم کیے۔ ہاں البتہ جب حکیم ایس ایم اقبال صاحب کے مطب پہنچے اور حکیم صاحب انہیں دیکھ کر اپنی کرسی سے اُٹھے اور مطب کے دروازے پر آکر استقبال کیا تو اباجان کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ سے گئے اور وہ یکبارگی رو پڑے اور حکیم صاحب سے کہنے لگے۔’’ امین الرحمٰن ہی چلا گیا۔ اب کیا کرنا ہے؟‘‘
یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری موقع تھا جب میں نے اباجان کو روتے ہوئے دیکھا۔ فوراً ہی حکیم صاحب نے مصافحہ، معانقہ وغیرہ کیا تو اباجان سنبھل گئے اور اپنے آپ کو قابو میں کرلیا۔ حکیم صاحب نے اباجان کو اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کی ، ایک معجون اور شہد کی ایک شیشی اباجان کے لیے مجھے پکڑائی اور اس طرح ہم ان سے پانچ سات منٹ کی ملاقات کے بعد رخصت ہوئے۔
انہی دنوں ایس آئی یو ٹٰ کے چکر لگنے شروع ہوئے۔ نئے سرے سے ٹسٹ تجویز ہوئے اور ان ٹسٹوں کے لیے ہر دوسے تیسرے روز ہسپتال جانا پڑا ۔ کئی مرتبہ اس ترتیب میں خلل پڑا، وجہ کبھی میری آفس کی مصروفیات ہوتیں اور کبھی اباجان کی طبیعت۔ بہر حال ابتدائی ٹسٹ مکمل ہوئے لیکن میرا سنگاپور کا سفر اور چھوٹے بھائی کا ساؤتھ افریقہ کا سفر آڑے آیا اور اباجان نے طے کیا کہ ہماری واپسی تک اینڈواسکوپی کو موخر کردیا جائے۔ میں سفر کی تیاری مین مصروف ہوگیا۔
ہفتہ ۹ جنوری کو شام کے وقت میں ٹیکسی لے کر ائر پورٹ کیطرف روانہ ہوا ۔ راستے میں چھوٹی بھابی ( مرحوم امین الرحمٰن بھائی کی زوجہ) محترمہ) کا ٹیلیفون آگیا اور پتہ چلا کہ بڑے بھائی اباجان کو لے کر ہسپتال روانہ ہوئے ہیں۔ کافی دیر تک کوشش کرنے کے بعد ہی بڑے بھائی سے رابطہ قائم ہوسکا۔ انہوں نے بتایا کہ داکٹر معائنہ کررہے ہیں ویسے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ سامان جمع اور بورڈنگ پاس لینے تک ابھی کچھ دیر ہے۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہے تو وہ فوراً بتائیں تاکہ میں اپنا پروگرام کینسل کرسکوں۔
کچھ دیر بعد بھائی سے پھر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ اباجان خیریت سے ہیں اور خود کہتے ہیں کہ ’’ خلیل سے کہو کہ وہ اپنے سفر پر روانہ ہوجائے اور فکر نہ کرے۔ سب ٹھیک ہے‘‘۔
یہ سنا تو میری جان میں جان آئی۔ اور میں اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ اسی دن چھوٹے بھائی کا بھی ساؤتھ افیقہ جانے کا پروگرام تھا ، لہٰذا اسے بھی اباجان کی طبیعت کا علم نہ ہوسکا۔
بعد میں پتہ چلا کہ ابناجان نے سب گھر والوں کو سختی کے ساتھ منع کیا تھا کہ ہم دونوں بھائیوں کو ان کی طنیعت سے متعلق کچھ نہ بتایا جائے۔ چھوٹی بھابی تک یہ بات نہ پہنچ سکی تھی لہٰذا انہوں نے پریشانی میں مجھے فون کردیا۔ واپسی پر پتہ چلا کہ اباجان ایک ہفتہ ہسپتال میں رہ کر آئے ہیں۔ اس دوران ان کی کیفیت کا پتہ چلا نے کے لیے ایک خاص ٹسٹ کروایا گیا تو تصدیق ہوئی کہ پھر دل کا دورہ پڑا تھا۔ یہ دوسرا دورہ تھا جسے چپ چپاتے برداشت کرگئے۔ اس کے بعد بہت زیادہ کمزور ہوگئے اور زیادہ وقت گھر پرصرف آرام میں گزرنے لگا۔ اس دوران ان کا محبوب مشغلہ یعنی مطالعہ بھی چھوٹ گیا۔ کبھی کبھی ہم لوگوں سے کچھ مختصر سی بات کرلیا کرتے اور بس۔ اس دوران اپنے دوستوں مولانا عزیز الرحمٰن صاحب اور مولانا طاہر مکی صاحب کے فون ملواتے اور ان سے مختصر بات کرلیا کرتے۔
یہی وہ وقت تھا جب اباجان نے کھانا پینا چھوڑدیا ۔ ایک دن اپنی بڑی بہو سے کہنے لگے،’’ بہو رانی! لگتا ہے اب میرا آکری وقت قریب آگیا ہے۔‘‘ پوچھا ، ’’کیوں؟‘‘۔
تو بتایا، ’’ اب کھانا کھانے کو دل نہیں کرتا۔ اب لگتا ہے کہ بڑے میاں نے مجھے بلانے کا پروگرام بنالیا ہے۔‘‘ اسی طرح میری بیگم سے کہنے لگے، ’’ ارے بیٹے، ان بڑے میاں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، کب بلالیں۔ بس اب چل چلاؤ ہپی ہے۔‘‘
اسی دوران ان کے بتائے ہوئے ایک نکتے پر ایک مضمون لکھا اور انہیں جاکر سنایا تو بہت خوش ہوئے۔ اور دوستوں کو فون کرکے اس کے متعلق بتایا۔ فروری کتے پہلے ہفتے مین پھر پھر طبیعت خراب ہوئی تو ایک ہفتہ مزید ہسپتال مین رہے۔ اسی دوران راقم کو بھی تیمارداری میں اپنا حصہ بٹانے کا موقع ملا۔ اس مرتبہ پھر وہی عجیب و غریب واقعہ دہرایا گیا۔ خاص ٹسٹ (TROPI) نے ظاہر کیا کہ دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ اب تو دل اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ خدا کی پناہ۔
ہسپتال سے واپسی پر خاکسار نے کئی مرتبہ درخواست کی کہ کسی ماہر قلب کو دکھالیں مگر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بات آڑے آجاتی۔ کبھی اباجان کی طبیعت، کبھی ان کا موڈ اور کبھی کچھ اور۔ بہر حال ہم صرف اباجان کی فائل لیجا کر عباسی شہید ہسپتال کے شعبہء دل کے سربراہ ڈاکٹر عبدالرشید صاحب کو دکھاسکے ۔ داکٹر صاحب نے اباجان کی فائل دیکھی تو کہا۔
’’خلیل ! میں نے ان کی فائل دیکھ لی۔ اب تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے عرض کی’’ اب آپ اباجان کو اپنے زیرِ علاج لئ لیجیے اور ان کی دیکھ بھال شروع کردیں‘‘۔
کہنے لگےِ’’ ان کا دل اب بہت زیادہ کمزور ہوگیا ہے۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اس بارے میں کوئی انسان کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ جب تک حضرت کی زندگی ہے، کوئی بیماری بھی ان کا بال تک بیکا نہیں کرسکتی۔البتہ ہم دواؤں کے ذریعے ان کی زندگی کی کوالٹی کو بہتر بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں، جو ہمارا فرض ہے۔‘‘
بات معقول تھی، اور ہم چاتے تھے کہ ان کا علاج شروع کروادیا جائے۔ لیکن اللہ کی مشیت دیکھیے کہ اس کی بھی نوبت نہ آسکی اور اگلے ہی ہفتے ، بروز اتوار ۱۴ فروری ۲۰۱۰ کو راقم گہری نیند مین تھا کہ ٹیلیفون کی مسلسل گھنٹیوں نے یہ سلسہ توڑدای ۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ بات شروع کی ۔ چھوٹے بھائی نے بتایا کہ اباجان کی طبیعت خراب ہوگئی ہے ، لہٰذا انہیں لے کر ہسپتال جارہے ہیں۔ ہسپتال پہنچا تو اباجان اپنی جان جان جانِ آفریں کے سپرد کرچکے تھے۔ انا للہِ و اناالیہِ راجعون۔ ایک دور کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ اور میں ہوا مین معلق ہوگیا ہوں۔ یہی کیفیت آج تک ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کیفیت کو کیا نام دوں؟
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ٌٌٌٌتمت بالخیرٌٌٌٌ