اچھا اب سمجھے۔ فانٹ سمیت ایم ایس ورڈ کی فائل بہت بڑی بن گئی، اتنی کہ ای میل پر اٹیچ نہیں ہورہی تھی۔ مگر اس سے ہی پی ڈی ایف بھی بنائی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ رے!
ایک ناول۔۔۔ایک داستان۔۔۔۔کہانی کے ہیرو۔۔۔۔واقعی ہیرو ہیں۔ آخری باب نے رُلا دیا۔ مجھے لگا جیسے آزاد صاحب میرے بھی والد تھے۔۔۔۔میرے اپنے والد ہمارے بچپن میں ہی چلے گئے تھے۔ واقعی باپ کی جدائی ہمیں معلق کر دیتی ہے۔۔۔۔شاید ہم کبھی بھی زمین پہ پاؤں نہیں رکھ پاتے۔
آپ کی تحریر کمال کی ہے۔ کیا ناول لکھا ہے۔۔۔کیا آپ بیتی ہے۔۔کیا داستان طرازی ہے۔۔۔۔کیا شخصیت نگاری ہے!!!
آزاد صاحب میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دینے کے بعد بھی کیا بے نیازی اورعاجزی پائی جاتی تھی جو اب خال خال ہی نظر آتی ہے۔
شروع سے قاری آزاد صاحب کے ساتھ ساتھ ہے۔ کہیں اُن کے ساتھ کسی سے معرکہ لڑ رہا ہے۔ کہیں اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہے۔ کہیں جیل میں پودے کاشت کر رہا ہے۔ کہیں سوشل ورک کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے۔ کسی جگہ بڑے سے بڑا لالچ ٹھُکرایا جا رہا ہے۔ کہیں اکٹھے شرارتیں کر کے ہنسا جا رہا ہے۔
آخر میں قاری آزاد صاحب کے ساتھ کو چھوڑ کے لکھاری کے ساتھ کھڑا آنسو بہا رہا ہے۔۔۔۔۔
اللہ رے!
 
آخری تدوین:

ابن توقیر

محفلین
آخری باب پڑھتے پڑھتے آنکھیں آنسوؤں سے ترہوگئیں،بوجھل دل کے ساتھ مکمل کی ہے۔
حالات سے لڑنا،زندگی اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جینا،راستے میں آئی ہردنیاوی آفرکوٹھکراکراپنےمقصدکےساتھ آگے بڑھتے چلے جانا،کوئی گلہ نہیں،کسی سے شکوہ نہیں۔اپنی ذات کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
کتنے احساسات تھے جن کے اثرپتا ہی نہیں چلا کہ کب شروع کی اور کب ختم ہوگئی۔
 

جاسمن

لائبریرین
اللہ مغفرت فرمائے۔جنت الفردوس میں جگہ دے۔قبر کو روشن،ہوادار،کشادہ اور ٹھنڈا کرے۔اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔لواحقین کو ان کے لئے صدقئہ جاریہ بنائے۔آمین!ثم آمین!
 

فرحت کیانی

لائبریرین
خلیل بھائی۔ آخری دو پوسٹس پڑھ نہیں پائی تھی۔ اب پڑھ لی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے ابا جان کو جس طرح آپ نے دیکھا بعینہ آپ کے قاری نے بھی ویسے ہی دیکھا۔
آخری پوسٹس نے جہاں بہت اداس کر دیا وہاں ویسی کی خوشی دی جیسی مشاہی
 
اللہ رے!
ایک ناول۔۔۔ایک داستان۔۔۔۔کہانی کے ہیرو۔۔۔۔واقعی ہیرو ہیں۔ آخری باب نے رُلا دیا۔ مجھے لگا جیسے آزاد صاحب میرے بھی والد تھے۔۔۔۔میرے اپنے والد ہمارے بچپن میں ہی چلے گئے تھے۔ واقعی باپ کی جدائی ہمیں معلق کر دیتی ہے۔۔۔۔شاید ہم کبھی بھی زمین پہ پاؤں نہیں رکھ پاتے۔
آپ کی تحریر کمال کی ہے۔ کیا ناول لکھا ہے۔۔۔کیا آپ بیتی ہے۔۔کیا داستان طرازی ہے۔۔۔۔کیا شخصیت نگاری ہے!!!
آزاد صاحب میں بڑے بڑے کارنامے سر انجام دینے کے بعد بھی کیا بے نیازی اورعاجزی پائی جاتی تھی جو اب خال خال ہی نظر آتی ہے۔
شروع سے قاری آزاد صاحب کے ساتھ ساتھ ہے۔ کہیں اُن کے ساتھ کسی سے معرکہ لڑ رہا ہے۔ کہیں اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہے۔ کہیں جیل میں پودے کاشت کر رہا ہے۔ کہیں سوشل ورک کے لئے تگ و دو ہو رہی ہے۔ کسی جگہ بڑے سے بڑا لالچ ٹھُکرایا جا رہا ہے۔ کہیں اکٹھے شرارتیں کر کے ہنسا جا رہا ہے۔
آخر میں قاری آزاد صاحب کے ساتھ کو چھوڑ کے لکھاری کے ساتھ کھڑا آنسو بہا رہا ہے۔۔۔۔۔
اللہ رے!
جاسمن بٹیا کا ایک دوسرے دھاگے میں شکریہ ادا کرچکے لیکن یہاں بھی شکریہ ادا کرتے ہیں اس خوبصورت ترین تبصرے پر

خوش گوار لمحات

جزاک اللہ الخیر
 
آخری باب پڑھتے پڑھتے آنکھیں آنسوؤں سے ترہوگئیں،بوجھل دل کے ساتھ مکمل کی ہے۔
حالات سے لڑنا،زندگی اپنے لیے نہیں دوسروں کے لیے جینا،راستے میں آئی ہردنیاوی آفرکوٹھکراکراپنےمقصدکےساتھ آگے بڑھتے چلے جانا،کوئی گلہ نہیں،کسی سے شکوہ نہیں۔اپنی ذات کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
کتنے احساسات تھے جن کے اثرپتا ہی نہیں چلا کہ کب شروع کی اور کب ختم ہوگئی۔
بہت شکریہ ابن توقیر بھائی کہ آپ نے ایک نشست میں اس سوانح کو پڑھا اور سراھا۔

جزاک اللہ الخیر
 
اللہ مغفرت فرمائے۔جنت الفردوس میں جگہ دے۔قبر کو روشن،ہوادار،کشادہ اور ٹھنڈا کرے۔اس میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔لواحقین کو ان کے لئے صدقئہ جاریہ بنائے۔آمین!ثم آمین!
بارِ دگر متشکرم بٹیا

جزاکِ اللہ
 
خلیل بھائی۔ آخری دو پوسٹس پڑھ نہیں پائی تھی۔ اب پڑھ لی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے ابا جان کو جس طرح آپ نے دیکھا بعینہ آپ کے قاری نے بھی ویسے ہی دیکھا۔
آخری پوسٹس نے جہاں بہت اداس کر دیا وہاں ویسی کی خوشی دی جیسی مشاہی
جزاکِ اللہ بہنا!

اب ملاحظہ فرمائیے ہماری بھابی غزالہ امین کا لکھا ہوا مضمون "میرے مولانا"
 
میرے مولانا
از :غزالہ امین​


مولانا اسماعیل آزاد میرے سُسر ہی نہیں، بلکہ میرے خالو بھی تھے۔ اسی لیے شروع ہی سے ان کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی کی فضا قائم رہی ۔ میں نے چونکہ اپنی شادی کے بعد ، شروع کے چند سال ہی ان کے گھر میں گزارے، لہٰذا روایتی بہو کی طرح ان کی خدمت تو نہیں کرپائی لیکن اگلے تمام سالوں میں ، ہر ہفتے پندرہ دن بعد جب سب بیٹے بہو ان کے گھر جمع ہوتے، تو میں نیچے خواتین میں بیٹھنے کے بجائے ان کے کمرے میں جادھمکتی۔ پھر میں ہوتی اور میرے خالو ابا، اور ان کیی دلچسپ ، معلوماتی اور مزیدار باتیں۔ تاریخِ قرآن وحدیث، Comparative Religion , کیرن آرمسٹرانگ کے لیکچر ، Dead Sea Scroll, کی حقیقت ، اپنے ماضی کے دلچسپ واقعات یا پھر اسلام کو اندرونی دشمنوں سے خطرات، ان کے پسندیدہ موضوع تھے، جن پر وہ بے تکان بولتے ۔

وہ میرے روحانی استاد بن گئے تھے، کیونکہ اللہ کی وحدانیت کی حقیقت اور حُبِ رسول ﷺ کی اہمیت میں نے اُن سے سیکھی۔ اپنے بارے میں بڑے فخر سے کہتے تھے۔
’’بہو بیگم! میں صرف اُس کا دوست ہوں جو اللہ اوراُس کے رسول ﷺ کا دوست ہے۔‘‘

جب کئی گھنٹے باتیں کرلیتے تو فرماتے۔
’’ جاؤ نیچے جاکر کھانا کھالو۔ تُم تو بالکل جاہل ہو ، پتا نہیں میری باتیں تمہارے پلے پڑتی بھی ہیں یا نہیں۔‘‘

جب سے میں نے او لیول کے طلبا کو اسلامیات پڑھانی شروع کی تو میری بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک مرتبہ میرے کسی سوال پر یہ حدیث دہرائی:
’جنت کو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سُنا‘

میں نے پوچھا، ’’اگر ایسا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اُس جنت میں وہ دھتکارا ہوا شیطان اپنی موت سے پہلے پہنچ گیا، جب کہ اللہ جو کہ قادر اور علیم ہے جانتا تھا کہ کہ یہ زمین پر اتنا فساد کرنے والا ہے۔ جنت میں کوئی دوزخی کیسے جا سکتا ہے۔ ‘‘

میری اس بات کو سُن کر خالو ابا کچھ دیر مجھے غور سے دیکھتے رہے ، پھر کہنے لگے ،’’ بہو بیگم! ہو تو تُم جاہل مگر آج بڑی گہری بات کر گئی ہو۔ سنو! انسان کو جس جنت میں بسایا گیا وہ یہیں کہیں تھی۔ شاید اسی زمین پر۔ آسمانوں والی جنت میں تووہ قیامت کے حساب کتاب کے بعد جائے گا۔‘‘

جون ۲۰۰۹؁ میں میرے شوہر یعنی اُن کے دوسرے نمبر کے بیٹے امین الرحمٰن کی ناگہانی موت نے انھیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا ۔ اُس دن میں اپنے محرم کے سینے سے لگ کر بہت روئی مگر ساتھ ہی اُن کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انھوں نے اپنا سب سے پیارا بیٹا مجھے عنایت کیا تھا۔

اِس واقعے کے بعد خالو ابا اور میں ایک ساتھ بیٹھتے تو تھے مگر اتنی باتیں کبھی نہ کرپائے، بس ایک Silent yet strong bond تھا جس میں ہم دونوں بندھ کر رہ گئے تھے۔ بیٹے کی موت کا روگ ایسا جی کو لگایا کہ خالو ابا بالکل ٹوٹ کر رہ گئےاور اس کے بعد وہ صرف آٹھ مہینے ہی اور جی پائے۔ ان سے میری آخری ملاقات ان کے انتقال سے صرف دو دن پہلے ہوئی جب میرا چھوٹا بیٹا عمار( جو کہ اپنے دادا کا چہیتا تھا) ان سے ملنے کے لیے بحرین سے اچانک آپہنچا۔

میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھا، ’’ کیوں رو رہی ہو؟‘‘

میں نے جواب دیا ، ’’ سہیل ( میرے مرحوم شوہر) یاد آگئے۔‘‘

کہنے لگے، ’’ خوش رہا کرو۔ تمہارے بچوں کو تمہاری ضرورت ہے۔‘‘

۱۴ فروری کی صبح، جس وقت پوتے (عمار) نے بحرین کی فلائیٹ لی، خالو ابا اپنے خالقِ حقیقی سے ملاقات کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ دوپہر کو جب اُن کی میت نہلا دھلا کر سفید کفن میں ملبوس ، ڈرائینگ روم میں رکھی تھی تو اس کمرے میں ایک عجیب سی ٹھنڈک اور خاموشی تھی، اور خالو ابا کے چہرے پر ایک ابدی سکون اور نور تھا ۔ میں نے ہولے سے ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اور دُعا مانگی، ’’ یاللہ! اِس موحد کو باغِ عدن کے گھنے درختوں کے سائے تلے رکھنا ، کہ یہ مردِ مومن جس نے زندگی میں کبھی کپڑوں کا دو سے تیسرا جوڑا نہیں پہنا، جنت میں بھی اطلس و کمخواب پہن کر اونچی مسندوں پر بیٹھنے کے بجائے ، کسی درخت کے نیچے علمی محفل سجانا زیادہ پسند کرے گا۔

اللہ تعالیٰ میرے مولانا، میرے خالو ابا کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)۔

نوٹ: ماہنامہ ’’تعمیرِ افکار‘‘ کے شمارے جنوری فروری ۲۰۱۱ ’’ اشاعتِ خاص بیاد مولانا محمد اسماعیل آزاد‘‘ میں شائع ہوا​
 
آخری تدوین:
خلیل بھائی اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے اللّٰہ کے ایک ولی کا تذکرہ پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔
یقیناً آپ کا یہ کام آپ کے لیے اجر وثواب کا باعث بنے گا۔ انشاء اللّٰہ

اللّٰہ تعالیٰ مولانا کے حسنات کو قبول فرمائے۔ سیئات سے درگزر فرمائے۔ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو اپنے مقرب بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین
محسوس ہوا کہ سیرت النبیﷺ ان کا خاص موضوع رہا۔ ان شاء اللّٰہ یہ عمل بھی ان کے درجات میں بلندی اور جنت میں نبیﷺ کے قرب کا باعث بنے گا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے نیک بندوں کی سیرت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے مولانا
از :غزالہ امین​


مولانا اسماعیل آزاد میرے سُسر ہی نہیں، بلکہ میرے خالو بھی تھے۔ اسی لیے شروع ہی سے ان کے ساتھ اپنائیت اور بے تکلفی کی فضا قائم رہی ۔ میں نے چونکہ اپنی شادی کے بعد ، شروع کے چند سال ہی ان کے گھر میں گزارے، لہٰذا روایتی بہو کی طرح ان کی خدمت تو نہیں کرپائی لیکن اگلے تمام سالوں میں ، ہر ہفتے پندرہ دن بعد جب سب بیٹے بہو ان کے گھر جمع ہوتے، تو میں نیچے خواتین میں بیٹھنے کے بجائے ان کے کمرے میں جادھمکتی۔ پھر میں ہوتی اور میرے خالو ابا، اور ان کیی دلچسپ ، معلوماتی اور مزیدار باتیں۔ تاریخِ قرآن وحدیث، Comparative Religion , کیرن آرمسٹرانگ کے لیکچر ، Dead Sea Scroll, کی حقیقت ، اپنے ماضی کے دلچسپ واقعات یا پھر اسلام کو اندرونی دشمنوں سے خطرات، ان کے پسندیدہ موضوع تھے، جن پر وہ بے تکان بولتے ۔

وہ میرے روحانی استاد بن گئے تھے، کیونکہ اللہ کی وحدانیت کی حقیقت اور حُبِ رسول ﷺ کی اہمیت میں نے اُن سے سیکھی۔ اپنے بارے میں بڑے فخر سے کہتے تھے۔
’’بہو بیگم! میں صرف اُس کا دوست ہوں جو اللہ اوراُس کے رسول ﷺ کا دوست ہے۔‘‘

جب کئی گھنٹے باتیں کرلیتے تو فرماتے۔
’’ جاؤ نیچے جاکر کھانا کھالو۔ تُم تو بالکل جاہل ہو ، پتا نہیں میری باتیں تمہارے پلے پڑتی بھی ہیں یا نہیں۔‘‘

جب سے میں نے او لیول کے طلبا کو اسلامیات پڑھانی شروع کی تو میری بہت حوصلہ افزائی کرتے۔ ایک مرتبہ میرے کسی سوال پر یہ حدیث دہرائی:
’جنت کو نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سُنا‘

میں نے پوچھا، ’’اگر ایسا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اُس جنت میں وہ دھتکارا ہوا شیطان اپنی موت سے پہلے پہنچ گیا، جب کہ اللہ جو کہ قادر اور علیم ہے جانتا تھا کہ کہ یہ زمین پر اتنا فساد کرنے والا ہے۔ جنت میں کوئی دوزخی کیسے جا سکتا ہے۔ ‘‘

میری اس بات کو سُن کر خالو ابا کچھ دیر مجھے غور سے دیکھتے رہے ، پھر کہنے لگے ،’’ بہو بیگم! ہو تو تُم جاہل مگر آج بڑی گہری بات کر گئی ہو۔ سنو! انسان کو جس جنت میں بسایا گیا وہ یہیں کہیں تھی۔ شاید اسی زمین پر۔ آسمانوں والی جنت میں تووہ قیامت کے حساب کتاب کے بعد جائے گا۔‘‘

جون ۲۰۰۹؁ میں میرے شوہر یعنی اُن کے دوسرے نمبر کے بیٹے امین الرحمٰن کی ناگہانی موت نے انھیں اندر سے ہلا کر رکھ دیا ۔ اُس دن میں اپنے محرم کے سینے سے لگ کر بہت روئی مگر ساتھ ہی اُن کا شکریہ بھی ادا کیا کہ انھوں نے اپنا سب سے پیارا بیٹا مجھے عنایت کیا تھا۔

اِس واقعے کے بعد خالو ابا اور میں ایک ساتھ بیٹھتے تو تھے مگر اتنی باتیں کبھی نہ کرپائے، بس ایک Silent yet strong bond تھا جس میں ہم دونوں بندھ کر رہ گئے تھے۔ بیٹے کی موت کا روگ ایسا جی کو لگایا کہ خالو ابا بالکل ٹوٹ کر رہ گئےاور اس کے بعد وہ صرف آٹھ مہینے ہی اور جی پائے۔ ان سے میری آخری ملاقات ان کے انتقال سے صرف دو دن پہلے ہوئی جب میرا چھوٹا بیٹا عمار( جو کہ اپنے دادا کا چہیتا تھا) ان سے ملنے کے لیے بحرین سے اچانک آپہنچا۔

میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پوچھا، ’’ کیوں رو رہی ہو؟‘‘

میں نے جواب دیا ، ’’ سہیل ( میرے مرحوم شوہر) یاد آگئے۔‘‘

کہنے لگے، ’’ خوش رہا کرو۔ تمہارے بچوں کو تمہاری ضرورت ہے۔‘‘

۱۴ فروری کی صبح، جس وقت پوتے (عمار) نے بحرین کی فلائیٹ لی، خالو ابا اپنے خالقِ حقیقی سے ملاقات کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ دوپہر کو جب اُن کی میت نہلا دھلا کر سفید کفن میں ملبوس ، ڈرائینگ روم میں رکھی تھی تو اس کمرے میں ایک عجیب سی ٹھنڈک اور خاموشی تھی، اور خالو ابا کے چہرے پر ایک ابدی سکون اور نور تھا ۔ میں نے ہولے سے ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اور دُعا مانگی، ’’ یاللہ! اِس موحد کو باغِ عدن کے گھنے درختوں کے سائے تلے رکھنا ، کہ یہ مردِ مومن جس نے زندگی میں کبھی کپڑوں کا دو سے تیسرا جوڑا نہیں پہنا، جنت میں بھی اطلس و کمخواب پہن کر اونچی مسندوں پر بیٹھنے کے بجائے ، کسی درخت کے نیچے علمی محفل سجانا زیادہ پسند کرے گا۔

اللہ تعالیٰ میرے مولانا، میرے خالو ابا کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)۔

نوٹ: ماہنامہ ’’تعمیرِ افکار‘‘ کے شمارے جنوری فروری ۲۰۱۱ ’’ اشاعتِ خاص بیاد مولانا محمد اسماعیل آزاد‘‘ میں شائع ہوا​
خلیل بھائی ایک بار پھر مسکراہٹ اور دکھ والی کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ کی بھابھی نے بھی مرحوم کی شخصیت کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا کہ محسوس ہوا کہ ہم بھی وہیں کہیں وجود ہیں۔
اللہ تعالٰی سے مرحوم کے درجات کی بلندی کے لیے بہت ساری دعائیں۔ آمین
 
Top