مقدس
لائبریرین
اچھا دے دیں لولززچلو پھر ایک صفحہ پکڑو اور پھر سے کام کی بن جاؤ۔
رات کو کروں گئی، ابھی تو موبائل سے لاگ ان کیا ہے
اچھا دے دیں لولززچلو پھر ایک صفحہ پکڑو اور پھر سے کام کی بن جاؤ۔
کتاب کا صفحہ ۲۲۳-۲۲۴اچھا دے دیں لولزز
رات کو کروں گئی، ابھی تو موبائل سے لاگ ان کیا ہے
ص ۲۱۰
آیا' تو رُوزی ہوئی؛ نہیں تو رُوزہ۔ یوں ہی ہر رُوز راہ طَے کرتا۔ جب یہ نوبت پہنچی ٗ چند روز میں ایک شہر ملا ٗ مسافر خانے میں بادشاہ اتُرا۔ اتّفاقاَ ایک سوداگر بھی کسی سِمت سے وارِد ہوا۔ قافلہ باہَر اُتارا ٗ تنہا گھوڑے پر سوار ٗ سَیر کرتا مہمان سَرا میں وارِد ہوا۔ شہ زادی گو کہ گردِ راہ ٗ صعوبتِ سفر کی مُبتَلا تھی ؛ لیکن اچّھی صورت کبھی چِھپی نہیں رہتی۔ سعدی:
حاجتِ مَشّاطہ نیست روی دالآ رام را
سوداگر کی آنکھ جو پڑی ؛ بہ یک نگاہ اَزخُوِدرَفتَہ ہوا ٗ سانس سینے میں اَڑی۔ بادشاہ کے قریب آ سلام کیا۔ یہ بیچارے اللہ کے ولی ٗ وہ وَلَدُ الِزّنا شقی۔ بادشاہ نے سلام کا جواب دیا۔ اِس عرصے میں وہ غدّار حیلہ سُوچا ٗ بہت فَسُردٗہ خاطرہو کر کہا : اے عزیز! میں تاجِر ہوں ٗ قافلہ باہَر اُترا ہے۔ میری عورت کو دردِ زِہ ہو رہا ہے۔ دائی کی تلاش میں دیر سے گدا ئی کر رہا ہوں ٗ ملتی نہیں۔ تو مردِ بزرگ ہے ٗ کَج ادائی نہ کرٗ اس نیک بخت کولِلہ میرے ساتھ کر دے ؛ تا اِس کی شِراکَت سے اُس کو رنج سے نَجات ملے ؛ وگرنہ بندہء خدا کا مُفت خون ہوتا ہے ٗ آدمی کا مر جانا زَبوٗں ہوتا ہے۔ یہ اللّٰہ کا نام سُن کر گھبرائے ٗ بی بی سے کہا: زِہِے نصیب! جو محتاجی میں کسی کی حاجت بر آئے ٗ کام نکلے۔ بسمِ اللّٰہ ٗ دِیر نہ کرو۔ اُس نے دَم نہ مارا ٗ کھڑی ہو گئی ٗ سوداگر کے ساتھ روانہ ہوئی۔ دروازے سے باہَر نکل اُس غریب سے کہا : قافلہ دور ہے ٗمجھے
ص ۲۱۱
آئے ہوئے عرصہ گزرا ہے؛ آپ گھوڑے پر چڑھ لیں تو جلد پہنچیں۔ وہ فَلَک سَتائی فریب نہ جانتی تھی ٗ سوار ہوئی۔ سوداگر نے گھوڑے پر بِٹھا ٗ باگ اُٹھائی۔ قافلے کے پاس پہنچ کے کوچ کا حُکم دیا ٗ آپ ایک سِمت گھوڑا پِھینکا۔ اُس وقت اُس نیک بخت نے داد ببداد ٗ فریاد مچائی۔ تڑپی ٗ ُروئی پیٹی ٗ چِلّائی۔ آہ وزاری اِس کی ٗ اُس بے رَحم ٗ سنگ دل کی خاطر میں نہ آئی۔
بادشاہ پَہَر بھر مُنتَظِر رہا ٗ پھر خَیال میں آیا : خود چلیے ٗ دیکھیئے وہاں کیا ماجرا ہوا۔ بیٹوں کا ہاتھ پکڑے سَرا سے نکلا۔ ہر چند ڈھو نڈھا ؛ نشان کے سوا قافلے کا سُراغ نہ ملا۔ دور گردِ سیاہ اُڑتی دیکھی ٗ جَرَس اور زَنگ کی صدا سُنی۔ نہ پاؤں میں دوڑنے کی طاقت ٗ نہ بی بی کے چھوڑنے کی دل کو تاب ؛ سب طَرَح کا عذاب۔ نہ کوئی یار نہ غم گُسار۔ نہ خدا تَرس ٗ نہ فریاد رَس۔ بہ حسرت و یاس قافلے کی سِمت دیکھ یہ کہا ٗ مُصحفی :
تو ہمرہا نِ قا فلہ سے کہیو ای صبا
ایسے ہی گر قدم ہیں تمہارے ٗ تو ہم رہے
لاچار ٗ لڑکوں کو لے کر اُسی طرف چلا۔ چند گام چل کر اضطراب میں راہ بھول گیا۔ ایک ندی حائل پائی ٗ مگر کَشتی نہ ڈُونگی نہ مَلّاح۔ نہ راہ سے یہ آشنا ٗ نہ وہاں سَیّاح کا گُزارا۔ کَنارے پر دریا کے خاک اُڑا کے ایک نعرہ مارا اور ہر طرف ماہیِ بے آب سا واہی تباہی پھرا ٗ رَہ برِ کامل کو پُکارا ؛ ساحِلِ مطلب سے ہَم کِنار
بہت بہترین سیما صاحبہروز}اُدھر آنکلا۔اس نے جو یہ لشکرِ جرار اورقافلہ تیار دیکھا، پوچھا”{یہ} کس کی سواری ہے،کہاں کی تیاری ہے”؟
لوگوں نے تمام جانِ عالم کا قصہّ سُنایا۔یہ خوش ہوا،جی میں جی آیا نہ پوچھا” شہزادہ کہاں ہے؟”
وہ بولے “پیرِ مرد جو یہاں کا مالک ہے ُٰٰ[کامل ہے،عامل ہے] فقیرِ سالک ہے ۔ کچھ کہنے کو {تنہا} جدا لے گیا۔”
اس عرصے میں جانِ عالم رخصت ہو کے سوار ہوا۔{ سلامی کی توپ چلی،نقارہ نواز نے ڈنکے پر چوپ دی}.وزیرزادےُ نے {اسی ہلڑ میں} دوڑ کر مُجرا کیا۔شہزادے نے گھوڑے سے کود کے گلے لگایا۔[خوب پیار کیا]دیر تک نہ چھوڑا ، اسی دم لباسِ فاخرہ پہنا ،ہمراہ سوار کیا۔راہ میں سرگزشِت تفرقہ کہتا،سنتا چلا،جب خیمہ میں داخل ہوا،وزیر زادے کو محل سرا میں طلب کیا انجمن آرا
اور ملکؔہ {مہر نگار} کو نذر دلوا کے کہا۔”یہ وہی شخص ہے“ المِ مُفارقت مُدام دل میں کانٹا سا کھٹکتا تھا،جی سنیے {تنگ آمد دشد میں دم} اٹکتا تھا۔دیکھُو جب اچھے دن آتے ہیں۔{بے تلاش} بچھڑے مل جاتے ہیں،جس دن گردوں نے ہمیں آوارہؔ دشتِ اغیار کیا تھا۔جدُا ہر ایک دوست اورغمخوار کیا {تھا}اب مساعدتِ بخت سے ایاّم سخت دور ہوئے بہم مجبور ہوئے”۔
{اب}وزیر زادے کا حال سنو۔انجمن آرا کا حُسن و جمال بے مثال دیکھ دیوانہ ہو۔ہوش حواس ، عقل کھو،نمک حرام بنا،وصل کی تدبیر میں پھنسا۔
استاد
یار اغیار ہو گئے اللہّ کیا زمانے کا انقلاب ہوا
۲۲۲ ریختہ
کتاب کا صفحہ ۲۲۳-۲۲۴
صفحہ ۱۰۹ اصل افسانے کا
اونچا برج "سے شروع ہوتا خواجہ سرا نے " پر ختم ہوتا
۲۰۶ سے ۲۰۹ تک پیجز ہوگئےاوشو 205
صابرہ امین 210 - 215
عاطف علی 216-217
محمد عمر 218 - 229
سیما علی 230-231
عاطف علی 232-233
مندرجہ ذیل صفحات کس کے پاس ہیں
201-204
206 - 209
یہ اگر کسی نے نہیں لیے تو جو لوگ مسلسل لکھ رہے ہیں انہی میں تقسیم ہو جائیں گے۔۲۰۶ سے ۲۰۹ تک پیجز ہوگئے
اب ۲۰۱ سے ۲۰۴ تک دیکھنا کس کو دینے ہیں
206-209 تک صفحات بنٹ گئےیہ اگر کسی نے نہیں لیے تو جو لوگ مسلسل لکھ رہے ہیں انہی میں تقسیم ہو جائیں گے۔
اگر اعداد کو انگریزی طرز پر ہی لکھیں تو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی رہے گی ورنہ ہو سکتا ہے کوئی غلط صفحہ ٹائپ کر دے۔
جزاکِ اللہ خیرا کثیرا۔بہت بہترین سیما صاحبہ
اللہ پاک آپکو مزید توانائی دے اور صحت مندو توانا رکھے آمین
جی ہو گیا ہے ، اوشو کے ذمے تھا۔ اب تازہ صورتحال کچھ یوں ہے206-209 تک صفحات بنٹ گئے
201-20 تک صفحات رہتے ہیں
یہ محب علوی بھائی آپ کے مینشن پیجز ہیں یہ بتائیے کہ آپ 205 پیج ہوگیا؟
اگلا ہوم ورک بھی دے دیجیئے ۔عاطف علی 232-233 مکمل
مجھے دے دیںجی ہو گیا ہے ، اوشو کے ذمے تھا۔ اب تازہ صورتحال کچھ یوں ہے
اوشو 205 مکمل
206-209 مکمل
صابرہ امین 210 - 215
عاطف علی 216-217
محمد عمر 218 - 229
سیما علی 230-231 مکمل
عاطف علی 232-233 مکمل
مندرجہ ذیل صفحات تقسیم نہیں ہوئے
201-204
جاسمن اب شاید صفحہ 102 کر رہی ہیں اور یوں تین مزید صفحات تقسیم کرنے ہیں
103-105
چلیں آپ 103, 104 اور 105 صفحہ لے لیں۔مجھے دے دیں
شکریہ ۔ ۔ پیاری نور وجدان ۔ ۔بہت اعلی اور بہترین! کتنی جلدی آپ نے بات سمجھی. ماشاء اللہ
اب صفحات 232 سے آگے ٹائپ کرنے ہیں؟جی ہو گیا ہے ، اوشو کے ذمے تھا۔ اب تازہ صورتحال کچھ یوں ہے
اوشو 205 مکمل
206-209 مکمل
صابرہ امین 210 - 215
عاطف علی 216-217
محمد عمر 218 - 229
سیما علی 230-231 مکمل
عاطف علی 232-233 مکمل
مندرجہ ذیل صفحات تقسیم نہیں ہوئے
201-204
جاسمن اب شاید صفحہ 102 کر رہی ہیں اور یوں تین مزید صفحات تقسیم کرنے ہیں
103-105
داستان کے صفحات 120 سے 200 تک شعیب گروپ نے ٹائپ کر رہا ہے۔ آپ اب 107 کر لیں۔اب صفحات 232 سے آگے ٹائپ کرنے ہیں؟
میرے ذمہ صفحہ 107ہے اس سے آگے مزید دو صفحات
233 اور 234میرے زمہ
یہ صفحات اصل افسانے کے کونسے صفحہ نمبر بنیں گے؟
109 221
110 222
111 223
112 224
113 225
114 226
115 227
116 228
117 229
118 230
119 231
120 232
121 233
122 234
مجھے 121, 122ٹائپ کرنا ہوگا ساتھ ۱۰۷ کے؟