اوشو

لائبریرین
صفحہ 108
-------------------
بَزّاز، تو اُدھر بھی۔ صَرّاف کے مُقابِل صَرّاف۔ بازار کا صَحن نفیس، شفّاف۔ جوہری کے روبہ رو جوہری۔ زَر و جواہِر کا ہر سِمت ڈِھیر۔ نَقد و جِنس سے ہر شخص سِیر۔ کوئی شَے، کسی طرح کا اسباب ایسا نہ تھا کہ اس بازار میں نہ تھا۔ مغرب و مشرق کے اَشیاے نادِرہ کا ہر جا انبار تھا۔ جَنوب و شِمال کا خریدار تھا۔ حلوائی، نان بائی، کُنجڑے، قَصائی۔ سَقُّوں کے کٹوروں کی جھَنکار۔ میوہ فروشوں کی پُکار۔ دَلّالوں کی بُول چال۔ جہان کا اسباب و مال۔ نہر کی کیفت جُدا، قَدِّ آدم آبِ مُصفّیٰ۔ فُوّاروں سے کیوڑا، گُلاب اُچھلتا؛ بازار مَہَک رہا، مسافر ہر ایک بہک رہا۔ ہر طَرَف دھوم دھام، خَلقَت کا اِزدِھام۔ چلنے پھرنے والوں کے کپڑے، لتّے ہوئے جاتے تھے۔ وَہم و گُماں کَشمَکش سے بار پاتے تھے۔
جانِ عالم قُدرتِ حق دیکھتا جاتا تھا، ہوش بَر جا نہ آتا تھا۔ دل سے کہتا تھا: اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیر۔ کیا ملک ، کیا سلطنت، کیا شہر و بازار ہے! کیا بیوپاری ہیں، کیسا کیسا خریدار ہے! ہر شخص کو آرام و راحت ہے، کیا بَندوبست با اِنتِظام ہے، کیا حکومت ہے! جب چوک میں آیا، پوچھا: اَیوانِ جہاں پناہ، دَولت سَراے شاہ کی کدھر راہ ہے؟ لوگوں نے کہا: دَستِ راست سیدھے چلے جائیے۔ پیاس لگی تو شربت حاضر ہے۔ بھوک ہو تو جس شَے پر رغبت ہو، کھائیے۔ مَدِّ نظر مسافر نوازی ہے، جو چیز ہے گرما گرم، تازی ہے۔ اَلغَرض بازازر طے کر قریبِ عِماراتِ بادشاہی جب آیا، اُن مکانوں کو نِرا طِلِسم پایا۔ عقل کام نہ کرتی تھی۔ ہر کُنگُرہ ایوانِ فلک سے
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 214

اب اُن لڑکوں کا حال سُنیے۔ جس کو بِھیڑیا لئے جاتا تھا، اُدھر سے کوئی تَیراَندازِ سَبُک دَسْت آتا تھا؛ اُس نے چُھڑایا۔ دوسرا جو غُوطے کھاتا تھا، بِلبِلاتا تھا؛ اُس کوماہی گیرنے دامِ مَحبّت میں اُلجھایا، کَنارہ دکھایا۔ وہ دونوں لاوَلَد تھے، اُسی شہر کے رہنے والے جہاں اِن لڑکوں کا باپ بادشاہ ہوا تھا۔ وہ اپنے اپنے گھر میں لا، بہ قَدَرِمَقدوٗر لڑکوں کو پرورش کرنے لگے۔ جَلَّ جَلالُہٗ! کیا سنگِ تَفرِقَہ فلک نے پھینکا کہ ایک دوسرے کے سنگ نہ رہا، جُدا ہو گیا۔ چند عرصے تک بادشاہ نے ضبط کیا، آخر بیٹوں کی مُفَارَقَت نے بے چین کیا؛ وزیر سے فرمایا: دو لڑکے قومِ شریف سےہماری صُحبت کے قابل ڈھونڈھ لاؤ، ہمارا دل بہلاؤ۔ وزیر نے تمام شہر کے لڑکے طلب کیے۔ حُکمِ حاکم مرگِ مُفاجات! وہ دونوں بھی آئے۔ سُبْحانَ اللہ! جامِعُ الْمُتَفَرِّقین بھی اُسی کا نام ہے، بِچھڑے مِلانا اُس کے روٗبہ روٗ کتنا کام ہے! بس کہ صورت و سیرت دونوں کو خالق نے عطا کی تھی، شاہ زادے تھے؛ وہی وزیر کو پسند آئے، روٗبہ رٗولایا۔ بہ سَبَب طوٗلِ زَمانِ مؐفارَقَت اورتکلیف وعُسرت نقشے بدل گئےتھے، قَطْع اَور ہو گئی تھی؛ نہ بادشاہ نے پہچانا، نہ تقاضائے سِن سے لڑکوں نے باپ جانا اور نہ ہی یہ سمجھ آئی کہ ہم دونوں بھائی ہیں۔ یہ بھی قدرت نُمائی ہے بَہَم ہوئے مگرجُدا رہے؛ لیکن جوشِ خوں سےبادشاہ کا حال دِگرگوٗں ہوا؛ دونوں پر بہ مَحبّتِ تمام مصروفِ عنایت عَلَی الدَّوام رہا۔سب نے سُنا ہے، کامل کا یہ نُکتہ ہے:کُلُّ اَمْرٍمَرْھُون بِاَوْقَاتِہٖ۔ تھوڑے دن میں مُعْتَمَد و مُقَرَّب ہوئے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص215

اور وہ سوداگر جَو فَروشِ گَندُم نُما ٗ دغا پُتلا یہاں کے پہلے بادشاہ سے رَسائی ، عَمْلے سے شَناسائی رکھتا تھا ؛ اِس نظر سے وہ بھی اُس عورتِ ناراض کو لے کر وہاں واِرد ہوا۔ خَبَرِ مَرگِ بادشاہ سُن کر مَلوٗل ہوا کہ مطلب نہ حُصوٗل ہوا۔ لوگوں نے کہا : بادشاہِ تازہ اُس سے زیادہ خَلیق و غریب پَروَر ہے۔ بہ وَساطَتِ وزیراعظم تُحفہ تُحفہ تَحائِف لے کے حُضور میں حاضر ہوا، نَذْر گُزرانی، شَرَفِ عَتْبہَ بُوس حاصل ہوا۔ ایک نظر تو دیکھا تھا، بادشاہ نے نہ پہچانا، نہ سوداگر نے حریف جانا ؛ مگر بادشاہ اُس کو ذی اِعِتبار، سَیّاحِ دِیاردِیارسمجھ بِیش تر اَطراف وجَوانِب کا مذکور سُنتا تھا۔

ایک دن قریبِ شام حُضور میں حاضر تھا، بادشاہ نے فرمایا: آج کی شب گھر نہ جا، کچھ دیٖدہ و شَنیدہ حکایت ہم کو سُنانا۔ وہ بیٹھا تو مگر مُکَدَر، پریشان۔ بادشاہ نے تَرَدُّد کا سبب پوچھا۔ یہ بَاعِثِ عنایت فِی الجُملہ گُستا خ ہو چلا تھا، دست بَسْتہ عرض کی : خانہ زاد کے پاس ایک عورتِ ناراض ہے، اُس کوفِدوی سے اِغماض ہے؛ اُس کی نگہ بانی، حفاظت بہ ذاتِ خود کرتا ہوں۔ بہ مرتبہ ڈرتا ہوں ایسا نہ ہو، نکل کے رازِ پِنہاں فاش کرے، حِمایتی تلاش کرے۔ وہی لڑکے بس کے مُعتَمَد تھے؛ خاص دستہ ان کے ہمراہ کر، پاسبانی کی تاکیٖدِ اَکِیٖد کی۔ لڑکے آداب بجا کے، سوداگر کے مکان پر گئے۔ باغ میں خَیمہ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
---------
ریختہ صفحہ 455 - (340)
---------

دیکھا ، وہ شیدا ہوئی ۔
دوسرے دن ملکہ اور انجمن آرا نے شاہ فیروز بخت سے عرض کی
کہ اگر حضرت کی اجازت ہو تو زہزادے کہ محل سرا ئے قدیم میں ہم جائیں ،
ماہ طلعت سے ملاقات کر آئیں ۔ بادشاہ نے فرمایا : وہ عورت بد بخت
سخت منہ پھٹ ، بڑھ بولی، فضول ہے؛ اسے شرمندہ کرنے سے کیا حصول ہے ۔
میاں مٹھو بھی حاضر تھے، بول اٹھے : قبلہء عالم ! یگانگت مقتضیِ
ملاقات خوہ نخواہ ہے ، باہم رہ و رسم بڑھے گی ، مدارات ہوگی ، خفت و ذلت
کی کیا بات ہو گی ۔ بادشاہ چپ ہو رہا ۔ شہ زادیوں نے سواری طلب کی ۔ طائر
پرّاں نے پیش قدمی کر کے ماہ طلعت کو سلام کیا ۔ اس نے سر جھکا لیا ۔ یکایک
سواریاں پہنچیں ۔ اس وقت وہ بیچاری خفت کی ماری اٹھی ، استقبال کیا۔
دونوں نے گلے سے لگایا ، مسند پر جا بیٹھیں ۔
ملکہ بڑی مقرر ، خوش بیاں تھی ؛ انجمن آرا نموہی بی زبان تھی ؛ سلسلہء
کلام بہ دلداریء تمام کھولا کہ ہماری جانب اور گمان نہ لانا ، ہم بہر حال
شریک بشاشت ، مونس رنج و ملال ہیں ۔ توتا انجمن آرا کے سامنے آیا ،
پھر ماہ طلعت سے کہا : غریب نواز ! اتنا زبان مبارک سے فرماؤ کہ آج سچا
کون ہے ، جھوٹے کے منہ میں کیا ہے ؟ اور تو کیا کہوں ، آپ کی کج بحثی کے
باعث جان عالم کے ہاتھ یہ لوگ مہر جبیں ، ماہ سیما آئے ۔ گو اتنا چکر ہوا ؛
میرے سبب آپ کو ندامت ہوئی ، ھجوٹے کے منہ میں گھی شکر ہوا۔
انجمن آرا تو سیدھی ، بھولی تھی ؛ توتے سے بد مزہ ہوئی ، فرمایا : دیوانے!
---------
ریختہ صفحہ 456 - (341)
---------

کیا بیہودہ بکتا ہے ! بے حکم خدا کسی سے کیا ہو سکتا ہے ! پھر ماہ طلعت سے
کہا " سنو میری جان ! یہ جانور بے شعور ۔ عقل سے دور حیوانیت سے مجبور
ہے ۔ دنیا دنیا کا کارخآنہ فسانہ ہے ۔ رہا یہ حسن و خوبی عارض ، عارضی شےہے،
اس پر کیا اترانا ہے ! یہ کیفیت یہ جوبن ، یہ سن ؛ چار دن کا ہے ناپائدار ،
اس کا کیا اعتبار ! رنگ چمن دنیا جاوداں نہیں ۔ کون سی بہار ہے جسے
دغدغہء خزاں نہیں ۔ حسن پر غرور بے جا ہے ، سرور یہ کہتا ہے ، شعر :

بہتا دریا ہے یہ حسن ،اس میں ذرا دھولے ہاتھ
بے خبر اتنا ہے کیوں بر سر ساحل بیٹھا

کل من علیہا فان ویبقی ذولجلال والاکرام ۔

نظر پڑا چمن دہر میں جو ہم کو مکاں --- ---ہزار خوار ہوئی دیکھی بلبل نالاں
ہمارے زعم میں اس سا نہیں کوئی ناداں---جو اپنے حسن دوروزہ پہ کچھ ہوا نازاں
شکستہ رنگیء گل شاہد چمن ہے یہاں ------کہ اس بہار کا انجام آخرش ہے خزاں
گھمنڈ اس پہ ، حماقت کہ بس نشانی ہے
مقام عبرت و حیرت سرائے فانی ہے

آخر دونوں نے ماہ طلعت کو شیریں بیانی اور اپنی خوش زبانی سے
شگفتہء خاطر ، خنداں رو ، کیا ، معاملہ یک سو کیا ۔ دو چار گھڑی ہنسی خوشی ،
اختلاط رہا ؛ مگر توتا نوک چوک ، چھیڑ چھاڑ کیے گیا ۔ پھر رخصت ہوئیں ۔
اس نے حاضر ہونے کا وعدہ کیا ۔ واقعی جنہیں اللہ حسن بے مثال ، مرتبہء
جاہ و جلال دیتا ہے؛ ان لوگوں کا دل صفا منزل غبار کلفت اور
-----------------
 

محمد عمر

لائبریرین
ص 319

دیدۂ خوں بار سے دریا اُمڈا تھا، اشکِ مسلسل سے تا دامن یا قوت اور موتیوں کی لڑی تھی۔ جب دلِ سُوختہ گھبراتا، تو سُوزِ دَروں مِثلِ دُخاں لب پر آتا۔ جی بہلانے کو یہ غزل پڑھتی، مُؤلِّف :


آتَشِ فُرقت سے سینہ جب سے مِجْمَر ہو گیا

بھُن کے لختِ دل مرا ہر ایک، اَخگر ہو گیا

باعِثِ اِفشاے ذِلّت دم نہ مارا میں نے گاہ

ورنہ زیرِ آسماں کیاکیا نہ مجھ پر ہو گیا

نَزْع کی تو آمَدِ جاناں کا کھینچا انتظار

وہ نہ آیا، وعدہ اپنا یاں برابر ہو گیا

کیا ڈراتا ہے ہمیں واعظ سُنا شُورِ نِشُور

شامِ فرقت، یاں عذابِ روزِ محشر ہو گیا

اب جو ہنستا ہوں تو ہنستے ہنستے بھی گرتے ہیں اشک

روتے روتے، آخِرش رُونے کا خوگر ہو گیا

فکر پھر کس کو ہو دیواں جَمع کرنے کی سُرور

جب کہ ہو مجموعۂ خاطر ہی اَبتر ہو گیا

دَفْعّۃً تُو نے سلام کیا۔ وہ خوش ہو کر بولی: اے قاصدِ نیک صدا و ہُد ہُد شہْرِ سَبا! میرے سُلَیمانِ حُسن و خوبی کا پتا، یا اُس بِلقيس محبوبی کا سُراغ ہاتھ آیا؟ تُوتے نے کہا : اے ملکۂ عالمِ قَدْر داں! خبرداروں کو خِلْعَت و انعام دیتے ہیں، جب دوست کا پیغام پوچھتے ہیں، عَلَی الْخُصوص یہ خَبَرِ فرحت اثر! پہلے یہ اِرشاد ہو کہ اگر کچھ پتا بتاؤں گا، تو اُس کی اُجرت کیا پاؤں گا؟ یہ سُن کے ملکہ کی جانِ رفتہ بدن میں آئی۔ يقين ہوا، اِس نے مُفصّل خبر پائی۔ یہ کہا، اُستاد :

پیغامِ دوست جلد تو پیغام بَر سُنا

گھبرا کے دم ہی جائے نہ میرا کہیں اُلٹ

تُوتا عرض کرنے لگا: حضُور کا اِرشاد واقِعی بجا ہے، مگر ایسی خبر کا جلد کہنا، حُمُق


320

کا مُقْتَضا ہے۔ اُستاد :

دفعۃً خوگرِ فُرقت کو نہ دے مُژدۂ وصل (۱)

خَبرِ خوش نہیں اچھّی جو یکایک ہووے


تُوتا تقریر کو طول دیتا تھا۔ کبھی خوش، گاہ مَلول کر دیتا تھا۔ ملکہ بے چین ہوئی جاتی تھی۔ اِدھر شہزادے سے زیادہ انجمن آرا گھبراتی تھی۔ غرض نہ رہ سکی، صورت بدلی۔ جانِ عالم بھی مُجَسَّم ہو کے سامنے آیا۔ آپَس میں عاشق و معشوق و معشوق و عاشق خوب گلے مِل مِل کے رُوئے۔ غُبارِ کُلْفَتِ پارینہ، داغِ مُہاجَرتِ دیرینہ دل کھول کر صَفْحۂ سینہ سے دھوئے۔ رُونے کی آواز سے مُغلانیاں، خواصیں جمع ہوئیں۔ جس کی آنکھ اِن دونوں پر پڑی؛ دوڑ کر صدقے ہوئی اور پاؤں پر گر پڑی۔ جَلَّ جَلالُہٗ! حُسنِ خوب سے، کوئی چیز زیادہ دِلکش اور محبوب نہیں۔ دوست تو دوست ہے، دُشمن غَش کر جاتا ہے۔ لڑکا ہو یا بوڑھا، شَیدا نظر آتا ہے۔ مال تو کیا، مال ہے؛ سُوت کی اَنْٹی بھی اگر پاس ہو، تو اَنْٹی ماری سے خریدار بن جاتا ہے۔ جان عزیز نہیں، حُرمت بکھر چیز نہیں۔ غلام کی غلامی پر آقا فخر کرتا ہے۔ جانِ تازہ پاتا ہے جو کوئی کہتا ہے کہ : یہ اُس پر مرتا ہے۔ عِياذًا بِاللّٰہ یہ اَمر محمود نہیں۔ اِس میں غیرِ ضَرَر کچھ سود نہیں۔

غَرض کہ خُرّم و خَنداں بارہ دری میں آئے۔ انجمن آرا سے ملکہ نے حال پوچھا۔ اُس نے دیو کا اُٹھا لے جانا، باغ کی


321

بے سَروپائی؛ پھر جانِ عالم کی رَسائی اور سفید دیو کا آنا، باہم کی لڑائی، پھر اُس کو قتل کر کے آفت سے چھُڑانا؛ اپنی پِیادہ پائی، صَحرا نَوردی، ہَوا گرم، پاؤں کا وَرَم؛ پھر وہ عَمَل جُوگی کا بتایا ہوا شہ زادے کا سِکھانا، باد ہَوائی سفر، تُوتے سے درخت پر مل جانا سُنا دیا۔ پھر اُس نے جانِ عالم سے سَرگُذشت پوچھی، اپنی صُعوبَت کہی۔ گُذَشتہ کا حال میں ذِکْر کر کے، جو کچھ دھیان بندھا، پھر سب رُونے لگے۔ تُوتا بد مزہ، خفا ہوا، کہا : صاحِبو! اب یہ قصّہ بکھیڑا دور کرو، سِجدۂ شُکر بجا لاؤ، کھیلو کھاؤ، ہنسی خوشی کا ذکر کرو۔ یاد رکھو یہ بات : گذشتہ را صَلْوات مُصحفي:


جُز حسرت و افسوس، نہیں ہاتھ کچھ آتا

ایّامِ گزشتہ کو کبھی یاد نہ کیجے


ملکہ بولی : اے شیریں مَقال، مبارَک قَدَم، خُجَستہ فال! شہ زادے کے برابر عقل کا دشمن کسی نے دیکھا سُنا ہو گا۔ سوز :

معلوم ہم کو دل کے سُلوکوں سے یہ ہوا (۱)

نادان ہے جو دوست، وہ دشمن ہے جان کا

اِس نے جتنی محنت و مَشقّت اُٹھائی، اپنی بد عقلی کی سزا پائی۔ بھلا عالَمِ تنہائی میں جو کچھ کیا سُو کیا؛ دو تین بار اپنے ساتھ ہم دونوں کو خراب، آفت کا مُبتَلا کر چکا ہے، آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ یہ کہ کر، دَر بہ رؤے دشمناں بند، دوست با دِلِ خُر سَند باہم بیٹھے اور دَورِ ساغَر

322

بے دَغْدَغَۂ فَلَک تَفْرِقَہ پسند و سِفْلہ پَروَر شُروع ہوا۔ مُطْرِب نے ساز کی ناسازی پر گُوشُمالی دی، صداے عیش و طَرَب بَلند ہوئی۔ یہ خبر بارہ دری میں مُشْتَہَر ہوئی اور وہاں کے بادشاہ کو پہنچی کہ ایک مرد صاحِب جمال، دوسری عورت پری تِمثال ملکہ کے پاس تازہ وارِد ہوئی۔ کہنے لگا : اِلْحَمْدُ لِلّٰہ گھر بیٹھے یہ عنایت پَروردگار ہے۔ نصیب چمکا ہوا ہے، طالع یار ہے۔ ایک موجود تھی، دو اور آئے۔ اُسی دم دو ہزار سوارِ جَرّار اور دو سپہ سالارِ تَجْرِبہ کار نگہ بانی کو بھیجے۔ جانِ عالم نے یہ ماجرا سُنا، کہا :

فَضْلِ اَلہٰی چاہیے، بعدِ مدّتِ مَدید یہ صُحبتِ ہَمدیگر مُیسَّر ہے، صُبْح ۱۲؎ کو سمجھ لیں گے۔ سوار تو باغ گھیرے کھڑے رہے، یہاں تمام شب جلسے بڑے رہے۔

جس وقت خُسرَوِ خاوَر آرام گاہِ مشرق سے بر آمد ہو کے جلوہ گرِ تختِ زَنْگاری ہوا اور سِپَہ سالارِ انجم مَع سوار، پیدل ثَوابِت و سیّارہ کے، کُوہِ مغرب کی طرف فَراری ہوا؛ جانِ عالم حَمّام سے غُسْل کر کے نکلا۔ اُس لَوح سے اِسمِ تَسخِیر پڑھنا باغ کے دروازے پر آیا۔ جس کی نگاہ پڑی، دبدبۂ شوکت اور اِسْم کی برکت سے آداب بجا لایا، دست بَستہ رو بہ رو آیا۔ وہ دو ہزار سوار مَعِ سِپَہ سالار فرماں بردار ہوئے؛ پھر تو دروازہ بہ کُشادہ پیشانی کھولا۔

یہ خَبْرِ وحشت اثر اُس بادشاہ کو پہنچی؛ اور سوار پِیادے،

323

لڑائی کے آمادے بھیجے۔ وہ بھی جب سامنے آئے، گھبرائے، حلقۂ غُلامی کان میں ڈالا، جنگ کا خَیال نہ رہا۔ پھر تو مشہور ہوا کہ ساحِر ہے۔ اَلمُختَصَر، تمام فوج آ کر شریک ہوئی۔ اُس وقت وہاں کا تاج دار طَیش کھا کے سوار ہوا۔ کہاں یَکَّہ سوار، کُجا اَنْبُوہِ بے شمار! تلوار چلی، دس بارہ زخمی ہوئے، کچھ جان سے گئے۔ اور فوج نے نَرغا کر جان سے تو نہ مارا، کمندوں میں پھنسا لیا اور جانِ عالم کے حوالے کیا۔ شہ زادہ عالی حوصلہ خوفِ خدا سے اور نحوستِ طالعِ نارَسا، کج ادا سے مِثلِ بِید کانپا اور فرمایا : اللّٰہ وہ وقت کسی کو نہ دِکھائے جو اپنی فوج یا رعیّت حاکم سے ناراض ہو۔ دوست دشمن ہو جائے، عداوت سے پیش آئے۔ یہ ارشاد کر کے اُس سے بَغَل گیر ہوا، برابر بِٹھایا، قتْل سے ہاتھ اُٹھایا۔ وہ بے چارہ نادِم و پشیماں، سَر دَر گِریباں، گھُٹتے پر گردن جھُکا، مُنفَعِل، خاموش بیٹھا۔ شہ زادے نے کہا : مسافر کُشی صِفْتِ شاہی سے بعید ہے۔ ہم تمھارے مہمان تھے، تم نے دعوت کے بدلے عداوت کی؛ اللّٰہ کو یہ بات پسند نہ ہوئی، عبرت کا تماشا دکھایا۔ یہ تخت، یہ سلطنت آپ کو مُبارَک رہے۔ بندہ غریبِ دِیار، کمر باندھے چلنے کو تیّار ہے۔ اِس لڑائی کا قصّہ، فَسانہ ہو جائے گا۔ اِمرُوز یا فَردا یہ مسافر روانہ ہو جائے گا۔ وہ اِس کی فصاحت و بلاغت اور یہ سِیر چشمی دیکھ کر حیران ہوا، کہ دشمن کو گِرِفتار کیا، پھر مُلک بخش دیا۔ سِر جھُکا کر

324

بولا : بہ خُداے عَزّ و َجَل لائق، حکومت، قابلِ سلطنت آپ کی ذاتِ فَرخُندہ صِفات ہے۔ جانِ عالم نے کہا : آپ نے اپنی تربیت کرتے ہیں، وگرنہ من آنم کہ خوب می دانم۔

اَلقِصّہ، وہ مَجحوب ہو کر رخصت ہوا۔ فوج کو صُلح جو ثابِت ہوئی، اپنے بادشاہ کے ہمراہ چلی گئی۔ جب یہ جنگِ زَرگَری ہو چکی؛ مکان پر آ کر بہت تیّاری اور تکلّف سے دعوت کی اور غُذرِ تَقصیر کر کے عَفو کا اُمّیدوار ہوا۔ شہر والے یہ خبر سُن کے ایسے مشتاق ہوئے کہ غُول کے غُول آنے لگے۔ رُوز ماغ کے دروازے پر مِیلا رہتا تھا، کسی وقت وہ کوچہ نہ اکیلا رہتا تھا۔

پھر جاسوس، شُتُر سوار، ہرکارے فوج کے تَجَسُّس میں بھیجے۔ چالیس منزل پر لشکر ملا۔ جانِ عالم کی مُفارَقت سے کسی میں جان نہ تھی۔ فرمانِ مُہری دیکھ کر سب نے جانِ تازہ پائی، مُہر آنکھوں سے لگائی۔ رات دن کوچ کرتی، بیس پچّیس دن میں بہ رسمِ یَلغار، فوج داخل ہوئی۔ شہ زادہ لشکر کو مُلاحظہ کر کے مسرور ہوا، ملال بھولا، رنج دور ہوا۔ اَرکانِ سلطنت نے ملازمت حاصل کی، سب نے نَذر دی۔ مُوافقِ قَدر و مَنزِلَت خِلْعَت اور انعام خاص و عام کو مَرحَمَت ہوا۔ اور رِعایا بَرایا، بازاری، دُکان دار، اہلِ حِوفہ کو بھی کچھ دیا۔ فوج کے سرداروں کو خِلعَتِ جواہِر نِگار، سِپَر و شمشیرِ مُرَصَّع کار عنایت کر کے، دو ماہَہ تمام فوج کو انعام میں دیا۔ اَز سَرِ نو لشکر چمکا دیا۔ پھر وہاں سے

325

کوچ ہوا۔ وہی راہ میں جلسے، اِختِلاط، فَسانے، حِکایات، عیش و نَشاط تُوتا ہنْساتا، رَمز و کِنایے کرتا، لطیفے سُناتا، دِل بہلایا جاتا تھا۔ ہر صُبْح با خاطِرِ شِگُفتہ مِثلِ نَکہتِ گُل کوچ۔ ہر شام بَسانِ فصلِ بہار بہ آسایِش مُقام۔ روز و شب بہ راحت و آرام کبھی کوچ، کبھی مُقام کرتے چلے۔


وُروٗدِ عَساکِر فیروزی اثر صحراے ہمیشہ بہارمیں۔ وٗفورِ سَرما، شِدّتِ بَرْد دشت و کُہسار میں۔ کیفیت باہم کے جلسے کی، ترقّی شراب کے نشے کی۔ خیالاتِ فاسد آنا، تُوتے کا سمجھانا، پھر شہ زادے کا پچھتانا۔


نا گاہ ایک روز گُذَرِ مَوکِبِ با حشمت و جلال، فَرّ و شوکت سے، ایک صَحراے باغ و بہار، دَشتِ لالہ زارِ بے ملال میں ہوا۔ فِضاے صَحرا قابلِ تحریر۔ کیفیّت دشتِ گُلشن آسا لائقِ تقریر۔ بوٗ باس ہر برگ و گُل کی رشکِ مُشکِ اَذْفَر۔ صَفْحَۂ بِیاباں مُعَنْبَر و مُعَطَّر۔

چشموں کا پانی صفا میں آبِ گُہر سے آب دار تر، ذائقے میں بِہ اَز شیر و شکر۔ چِلّے کے جاڑے، کڑاکے کی سردی تھی، گویا کہ زمین سے

326

آسمان تک یَخ بھر دی تھی۔ پَرِند چَرِند اپنے اپنے آشیانوں اور کاشانوں میں جَمے ہوئے بیٹھے، بھوک اور پیاس کے صدمے اُٹھاتے تھے، دھوپ کھانے کو باہَر نہ آتے تھے، قصد سے تھرتھراتے تھے۔ سردی سے سب کا جی جلتا تھا، دَمِ تقریر ہر شخص کے مُنہ سے دُھواں دھار دُھواں نکلتا تھا۔ آواز کسی کی کان تک کسی کے کم جاتی تھی، مُنْہ سے بات باہَر آئی اور جم جاتی تھی۔ مارِ سیاہ اُوس چاٹنے باہَر نہ آتا تھا، سردی کے باعث دُم دَبا کے بانبی میں دُبکا جاتا تھا۔ زمانے کے کاروبار میں خلل تھا، ہر ایک دست دَر بَغَل تھا۔ عاشق و معشوق بھی اگر ساتھ سوتے تھے؛ گھُٹنے تھے، مگر گھُٹنے پیٹ سے جُدا نہ ہوتے تھے۔ اَشکِ شِمْعِ انجمن لگن تک گرتے گرتے اُولا تھا، پروانوں نے گِرد پھرتے پھرتے ٹٹولا تھا۔ شعلہ کانپتا تھا، فانوس کے لِحاف میں مُنہ ڈھانپتا تھا۔ شِمع کا جِسم برف تھا، پگھلنے کا کیا حرف تھا۔ ہر سنگ کے سینے میں آگ تھی، گواہِ شرعی شَرَر تھا، لیکن سردی کو بھی یہ لاگ تھی اور جاڑے کا ایسا اثر تھا کہ سِلِیں کی سِلِیں جَمی پڑھی تھیں، فَولاد سے زیادہ کڑی تھیں۔ تَنورِ فلکِ چارُم کی چھاتی سرد تھی۔ گُلْخَن میں یہ بُرودَت تھی کہ کشمیر گَرْد تھی۔ لُنجوں نے بٹیر پلڑے، لَوِے لولُوں کے ہاتھ آئے، لنگڑے ہِرَن باندھ لائے۔ سَر زمینِ ہند میں مُردے نہ جلتے تھے، زِندوں کے ہاتھ پاؤں گلتے تھے۔ آتش، رُخسارِ گُل شبنم نے بُجھائی تھی، باغ میں بھی جاڑے کی دُھائی تھی۔ اُوس برگ و بار کی،

327

صنعت پروردگار کی دِکھاتی تھی، مُرصَّع کاری یک لَخْت نظر آتی تھی۔ دانہ ہاے

اشکِ شبنم، خواہ بڑے یا رِیزِے تھے، ہر شَجَر کے برگ و بار میں اَلماس اور موتیوں کے سَبُک آوِیزِے تھے۔ عِذارِ لالۂ حَمرا رشکِ زعفراں تھا۔ طلائی درختوں کی ٹہنیاں، کُہرُ بائی پتّے، بہار میں رنگِ خِزاں تھا۔ اِس سردی کا کہیں ٹھور ٹھکانا ہے، حَمَّام پر یہ پھبتی تھی کہ بَرف خانہ ہے۔ آگ پر لوگ جی نثار کرتے تھے، زَر دُشْت کا طَریق اِختیار کرتے تھے۔ اُسی سردی کا یہ وُفور ہے کہ آج تک بُتوں کی سرد مِہری مشہور ہے۔ آفتاب عازِمِ بُرجِ حَمَل تھا، آتَش پَرَستوں کا عَمَل تھا۔ زیست سَمَنْدَر کے عُنوان تھی، آگ میں خَلقت کی جان تھی۔ عاشق تو کیا، معشوق ٹھنڈی سانْس بھرتے تھے، گرمی نہ کرتے تھے۔ دانْت سے دانْت بجتا تھا۔ ہونْٹ نیلم کو شرماتے تھے، پان کے لاکھے میں سُوسَن کی پنکھڑی سے نظر آتے تھے۔ عاشق تن، پریوں کو ساتھ لے کے سوتے تھے، اِس پر بچھونے گرم نہ ہوتے تھے۔ عالَم اللّٰہ کا جاڑے میں اَلْمَسْت تھا۔ جس کو دیکھا، آتَش پرست تھا۔ جاڑے سے اُس دشت میں ایسا پالا پڑا، تمام اہلِ لشکر کو تَپ لَرزِے کا عالم تھا۔ بانکے تِرچھے خود بہ خود اَینْٹھے جاتے تھے، ڈھال تلوار کھَڑ کھَڑانے کے عِوَض دانْت کَڑ کَڑاتے تھے۔ تپنچے، چَمْقاق، پَتھّر کَلے؛ لاٹھی سے بد تر تھے۔ بندوق میں لاگ نہ تھی، چانْپ کے پتھّروں میں آگ نہ تھی۔ اور تُوڑے دار کا یہ حال تھا : بُوجھ کندھا توڑتا تھا، قدم اُٹھانا مُحال تھا۔ تُوڑا

328

ہر ایک، گُل تھا؛ تُوتے کی جگہ شُورِ بُلبُل تھا۔ ملائم لوگوں کے حواس جَم گئے تھے، جُگنو کو چنگاری کے دھوکے میں اُٹھانے کو تھم گئے تھے۔ اور ہوش ایسے کانْپتے تھے؛ کیچوے کی مِٹّی کو الاو سمجھ، پھونْکتے پھونکتے ہانپْتے تھے۔ سردی بس کہ کار فَرما تھی، ایک کو دوسرے کی تمنّا تھی۔ یہاں تک جاڑے کا زور شور عالم گیر ہوا تھا کہ کُرَۂ نار، زَمْہَریر ہوا تھا۔ جانِ عالم نے فرمایا : آج خَیمہ ہمارا یہیں ہو۔ جس دم تمام لشکر نے مِثْل دَر مِثْل قیام کیا، خود مُتَوَجّہ سامانِ عیش و نَشاط ہوا۔ ملکہ اور انجمن آرا سے پری پَیکر محبوب۔ تُوتا مُصاحِبِ بے بَدَل، بہ دِل مرغوب۔ گردش میں دَورِ شرابِ ناب آیا، ساغر میں آفتاب آیا؛ اِلّا، کَشتی شراب کی، نہ بَطِ مَے چلتی تھی، نہ کباب بھُنتے تھے، نہ آگ جلتی تھی۔ گلاس شراب کا برف کی قُفلی کو شرماتا تھا، قطرۂ مَے اُس میں گرتے ہی جَم جاتا تھا۔ میناے بے زَباں کے مُنْہ پر روٗئی تھی، ایسی سردی ہوئی تھی۔ گلا بیٹھا تھا؛ جب بہت غُل کرتی، تب قُلقُل کرتی۔ لَبِ ساغر خُشک، جِسْم پر پَسینا تھا؛ پانی کا پیالہ فخرِ آبگینہ تھا۔ جاڑے کا لشکر میں ہر طرف شُور و غُل تھا۔ بازار میں روٗئی کا لِین دِین بِالکل تھا۔ جب دَورِ آفتاب ماہ جَبینوں میں چمکا؛ عالَمِ سُرور میں، نشے کے وُفور میں جانِ عالم کو خیالِ نزدیک و دور آیا۔ دل میں سُوچا کہ اِتنے عرصۂ دراز، زمانۂ دِیر یاز تک ملکہ اور انجمن آرا کو ہم سے

329

فُرقت، غیروں سے قُربت رہی، رنڈی کا اِعتِبار کیا ہے، یہ قوم قدیم سے بے وفا ہے۔ فِردَوسی :

اگر نیک بودے سَر انجام زن

زنان را "مَزَن" نام بودے نہ "زَن"

یہ نَشِیب و فَراز جو ذِہن میں آیا؛ جَل کَٹی باہم ہونے لگی، کَج بحثی صُحبت کا لطفت کھُونے لگی۔ وہ سبز پُوش، خانہ بدوش، موقع شَناس، مزاج داں، دِل سُوز، ادب آمُوز، بے زَباں بلبلِ ہزار داستان دل کا حال جانتا تھا، اُڑتی چِڑیا پہچانتا تھا؛ سمجھا : جانِ عالم کی طبیعت کَبیدَہ ہوئی۔ قریب وہ وقت آیا چاہتا ہے کہ ایسی گفتگو آغاز ہو، جس کا انجام یہ صُحبت دَرہَم و بَرہَم کرے۔ زندَگی سب کی تَلْخ ہو، ہر کلمہ نَبات کا، کا رِسَم کرے۔ بات کو کاٹ، طبیعت کو اُچاٹ، کہنے لگا : شہ زادۂ عالَم! نشہ اِس کیفیّت سے حرام ہے کہ اِس کی ترقّی میں عقْل کو تَنَزُّل ہوتا ہے۔ خَیالِ بیہودہ، لاطائل آتے ہیں، احسان بھول جاتے ہیں۔ فَقَط گُمانِ بے جا اور خَیال، وہ بھی نشے کے حال کا؛ اُس پر حقِّ خدمت ناحق بھول جانا، روکھے ہو کے بگڑنا، مُنْہ بنانا، گویا اِن تِلوں میں تیل نہ تھا، کبھی مِیل نہ تھا؛ آدمیّت سے بعید ہے۔ اِن میں کوئی آپ کی زر خرید ہے؟ ایک ساعَت اِدھر مُخاطَب ہو جیے۔ اِس مدّتِ مُفارَقَت میں بہت سانِحے دیکھے، افسانے اپنے بیگانے کے سُنے؛ اگر بہ گُوشِ ہوش اُنہیں سُنیے تو یہ تَخَیُلاتِ فاسِد
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 445

کا نام جو ”موکّلِ آفتاب"ہے (وغیرہ)۔ تفصیل کےلئے دیکھیے۔ برہانِ قاطع (طبعِ تہران) اِن سب معنوں میں اِس لفظ میں ذال ہے۔ لیکن حضرت ابراہیمؑ کے والد یا چچا کا نام "آزر" ہے (بہ زاےمعجمہ) اوریہاں یہٖ لفظ اِسی معنی میں آیا ہے، اِس لیے اس کو زے میں لکھا گیا ہے۔

آمدہ (ص ۲ ) اِس رباعی کی ردیف "آمدہء" ماضیِ قریب کا صیغہء واحد ظاہر ہے۔ آج کل رجحان یہٖ ہے کہ صیغہء واحد حاضر کو مثلاً "آمدہ ای" اور "رفتہ ای" لکھا جائے؛ لیکن پہلے یہی طریقہ مروّج تھا کہ ہ کے اوپر ہمزہ لکھ دیا جائے (آمدہ ، کردہ )۔ یہاں اِس سلسلے میں غالب کی ایک اصلاح کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ مولانا عرشی نے "املائے غالب "کے ذیل میں لکھا ہے:

" ایک بار جنوں بریلوی نے فارسی کے ماضیِ قریب کے صیغہ واحد حاضر کو "ی" کے ساتھ لکھا۔۔۔۔ اُس کی اصلاح میں ارشادفرمایاہے:

پروردہ، رفتہ؛ یہٖ جتنے الفاظ ہیں، ان میں یاے تحتانی نہیں لکھتے، بس وہی ہاے ابناے حر کت رہتی ہے ۔ پس اگر وہ ساکن ہے تو تو" رفتہ ، بودہ" اِس صورت پر رہے گی۔ اور اگر اُس کو حرکت لازم آئے تو علامتِ حرکت ہمزہ لکھ دیا جائے گا: رفتہ، آمدہ۔ اور اِن مفعول کے صیغوں کا یہیٖ حال ہے۔" [مکاتیبِ غالب ، ص۲۱۹ ]

فسانہء عجائب کے نسخوں میں بھی ایسے الفاظ کا یہی املا ملتا ہے، اِس بنا پر اِس کتاب میں ہر جگہ اِسی املا کی پابندی کی گئی ہے۔

اَتَم (ص ،۵۷ ) اصلاً مشّدد ہے۔ ( اَتَمّ )عربی کے ایسے متعدّد دو حرفی لفظ ہیں جن کا حرفِ آخر مشدّد ہے ،لیکن فارسی اور اُردو میں وہ تشدید کے بغیر مستعمل ہیں؛ یہٖ لفظ بھی اِسی فہرست میں شامل ہے۔ ترکیب کی صورت میں یا ضرورتِ شعری کے بنا پر کبھی ایسے لفظ معِ تشدید بھی آ سکتے ہیں(اور آتے ہیں) لیکن مفرد لفظ گفتگو میں اور نثر میں عموماً بغیرِ تشدید ہی مستعمل ہیں؛ اِسی لحاظ سے یہاں م پر تشدید نہیں لگائی گئی۔

اَچَھنبا (ص ۲۰۶ ) اِس کتاب کے سب نسخوں میں اِسی طرح ہے۔ یہٖ پُرانا املا ہے اِس لفظ کا۔ ”اچمبھا“ بعد کی صورت ہے۔ فرہنگِ آصفیہ اور جلال کی لغت سرمایہ زبانِ اُردو میں ”اچنبھا“ ہی ہے۔ ( البتّہ امیرالغات میں ”اچمبھا“ ہے) اِسی لفظ کے اسی قدیم املا کو محفوظ رکّھا گیا ہے۔

اِحاطَہ ( ص ۱۲ ) امیر اللغات میں اِس لفظ پر اعراب موجود نہیں، لیکن فرہنگِ آصفیہ میں الف پر


ص 446

زیر لگا ہوا ہے اور نورللغات میں صراحتاً ”بہ کسرِ اوّل“ لکھا گیا ہے۔ صاحبِ آصفیہ میں مزید صراحت کی ہے کہ: ”عوام بہ فتحِ اوّل بولتے ہیں اور کبھی الف کو حذف بھی کر دیتے ہیں“ اِس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ فصیح بہ کسرِ اوّل ہے۔ اِسی کی پابندی کی گئی ہے۔

اَدنیٰ (ص ۴) [ح: ادنا۔ م، ض،ف، ک، ل: ادنیٰ]

”ادنیٰ“ اور” اعلیٰ“ جیسے الفاظ، جن کے آخر میں عربی کے قاعدے کے مطابق الفِ مقصورہ (الف بہ صورت یٰ) لکھا جاتا رہا ہے، فسانہء عجائب کےنسخوں میں بیش تر الف مقصورہ ہی ملتے ہیں۔ اوپر ”ادنیٰ ” کے ذیل میں اختلافِ نسخ کی جو نشان دہی کی گئی ہے، اُس سے اِس تناسب کا بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یا مثلاً ص ۱۹ پر ایک جملے میں یہٖ دونوں لفظ آئے ہیں: ”ایک کنجڑن ادنیٰ، عالیٰ ہفت ہزاری بنائ“ یہاں ح، م، ض، ف ،ک، ل؛ سب میں :اعلیٰ“ ہے۔ ح، ض میں ”ادنا“ ہے لیکن م، ف، ک،ل میں " ادنیٰ " ہے۔ یا مثلاً ” مصفّٰیٰ“ : ” ا صل تو یہٖ ہے عسلِ مسفّیٰ جنّت کی نہر کا حلق سے اترا۔“ م میں ” عسلِ مسفّا“ ہے، لیکن ح، ض،ٖ ف، ک، ل میں ”عسلِ مصفّیٰ“ ہے۔ یہٖ واقعہ ہے کہ اب سے پہلے عموماً ایسے لفظ کو (اصل کے مطابق) الفِ مقصورہ ہی سے لکھا جاتا تھا، اِسی وجہ سے اِس کتاب میں ایسے الفاظ کو اُس زمانے کے چلن کے مطابق (اور اِس بنا پر بھی کے پیشِ نظر نسخوں میں بھی بیش تریہی املا ملتا ہے) معِ الفِ مقصورہ ہی لکھا گیا ہے، جیسے: ادنیٰ، اعلیٰ، نصاریٰ، عیسیٰ، لیلیٰ۔

اَدَھر سا (ص ۲۲۸ ) [ح ، م، ض، ک : اَدَھر۔ ل، ف، : ادھر سا]

امیراللغات مہں صرف ”اَدَرسا“ ہے اور اِس کے معنی لکھے ہیں: ” ایک قسم کا سوتی سفید اور باریک کپڑا، جس کی بُناوٹ میں جِھرجِھرا پن ہوتا ہے“۔ نور میں بھی صرف ”ادرسا“ہے ( اس میں دراصل امیراللغات ہی کے اندراج کو بہ ادنا تصّرف نقل کر دیا گیا ہے)البتہ پلیٹس نے ”اَدَرسا“ اور ”ادھرسا“ دونوں لفظ درجِ لغت کیئے ہیں اور اِس سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ ”ادرسا“ اور ” ادھر سا“ دونوں صورتیں بجاےخود درست ہیں۔چوں کہ ل، ف، اور ن میں ”ادھر سا“ ہے اور پلیٹس کے لغت میں یہٖ موجود ہے؛ اس بنا پر اسی کو برقرار رکّھا گیا ہے۔

انشا نے سلکِ گہر میں ایک جگہٖ اس لفظ کو استعمال کیا ہے۔ [ اُس کے


ص447

مطبوعہ نسخے ( مرتّبہ مولانا عرشی) میں ”ادرسہ“ ہے ] ” اور سارا محل سرا طَورِطاؤس ہَوا دار ،اور ہرہر در اور ہر ہر کھم کو سوہا اور سہ لگا ہوا “ [ سلکِ گہر، مرتّبہ مولانا عرشی ، ص ۔۳۸ ]۔

میر حسن نے بھی ایک شعر میں اِسے نظم کیا ہے:

کئی دن تیرے چپ رہنے میں اشک آنکھوں سے برسا ہے

نکل خورشید رو گھر سے کہ عالم خوب ترسا ہے

نہیں ملبوس بہتر کوئی اِس عریاں تنی سے بھی

یہی ہے اپنی محمودی، یہی اپنا ادرسا ہے

[ کلیاتِ میر حسن، عکسِ مخطوطہ برٹش میوزیم ، ورق ۲۱۳ ]

البتہ ” ادھر “ کسی لغت میں نہیں ملا، نہ کہیں اور نظر سے گزرا۔ یہٖ بہ خوبی ممکن ہے کہ ”ادھرسا“ کی ایک صورت ” ادھر “ بھی ہو اور کسی زمانے میں یہٖ لفظ اِس طرح مستعمل رہا ہو۔ قطعی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔

اَ ر٘جُمَن٘د (ص ۱۵۹) فارسی میں ج موقوف ہے (برہانِ قاطع ) بلکہ صاحبِ غیاث اللغات نے تو صراحت بھی کر دی ہے کہ ” بہ ضمّ

جیم خواندن خطاست ۔ ” فرہنگِ آصفیہ میں یہ لفظ موجود نہیں ۔ نوراللغات میں ہے اور فارسی کے مطابق جیم کو موقوف بتایا گیا ہے[ مولّف نے دراصل غیاث اللغات کی عبارت کا اُردو میں ترجمہ کر دیا ہے] لیکن امیراللغات میں ج پر پیش لگا ہوا ہے اور اُردو میں زبانوں پر اِسی طرح ہے؛ اِسی لیے یہاں بھی ج پر پیش کو مرجّح سمجھا گیا ہے۔


اِز٘دِحام (ص ۱۰۸ ) [ح : ازدہام۔ م : اژدحام۔ ض، ف، ل، : اژدہام ۔ ن : ازدحام] ا،س لفظ کا صحیح املا ”ازدحام“ ہے۔ مؤلّفِ آصفیہ نے وضاحت بھی کر دی ہے کہ: زاے فارسی اور ہاے ہوّز سے لکھنا غلط ہے “ اِسی بنا پر ن کے املا کو برقرار رکّھا گیا ہے۔

اِس٘رار (ص ۷۶ )مولّفینِ امیرالغات و نور اللغات نے صراحت کی ہے کہ (جن و پری کا) سایہ اور آسیب کے معنی میں یہٖ لفظ ”بالکسر اور بجاے واحد مستعمل ہے۔“ فرہنگِ آصفیہ میں بھی ”آسیب، جن وپری کا سایہ، ”بھوت پریت "کے معنی میں اِس لفظ کو بالکسر ہی لکھا گیا ہے؛ اِسی بِنا پر الف پر زیر لگایا گیا ہے۔

اِس٘فَن٘دِ یار (ص ۵۹ ) غیاث اللغات میں برہانِ قاطع کے حوالے سے اِس کو” بکسر اوّل و سوم و دالِ مہملہ موقوف“ لکھا ہے۔ امیراللغات میں ”اِس٘فَن٘دِ یار“ ہے اور یہٖ اُردو والوں کے تلفظ سے قریب تر ہے ؛ اِسی بنا پر اِسی لفظ پر امیر الغات کے مطابق اعراب لگائے گئے ہیں۔


ص 448

اَش اَش (ص۲۰۲) فسانہ عجائب کے سبھی نسخوں میں یہی املا ملتاہے۔ یہاں صراحت کی ضرورت یوں پیش آئی کہ لوگ (غلطی سے) اِس کا املا " عش عش “ صحیح سمجھتے ہیں۔امیر مینائ نے امیر الغات میں ”اش اش” کے حاشیے میں لکھا ہے کہ: ” اور جو لوگ اس کو ” عش عش ”لکھتے ہیں، اُس کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی، کیوں کہ اس کا کہیں سے پتہ نہیں چلتا۔“ جلال نے مزید وضاحت کی ہے کہ: پس جو لوگ اس کلمہ کو بجاے دو الف، دو عین سے لکھتے ہیں، مولّفِ ہیچمداں کے نزدیک خطا پر ہیں“ (سرمایہ زبانِ اُردو)۔ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ نے بھی ”اش اش“ کو صحیح بتایا ہے۔

اَشَر٘فی(ص ۳۵ ) یہٖ لفظ اصلاً بہ فتحِ اوّل و سکونِ دوم (اَش٘ر٘فی )ہے۔ نوراللغات اور آصفیہ میں بھی اِسی طرح لکھا گیا ہے ، لیکن زبانوں میں بیشتر ” اَشَر٘فی“ ہے۔ انشا نے اِس طرح نظم بھی کیا ہے:

مانی ہوں منّتیں بھی سو سو کروڑ ڈھب کی

دھو دھو روپے اشرفی نذریں اُٹھائیاں ہوں

جمع کی صورت میں تو سبھی بہ فتحِ دوم ”اَشَر٘فیاں “ کہتے ہیں۔ اِس لفظ کے دونوں تلفّظ بجاے خود درست ہیں لیکن استعمال عام میں چوں کے بیش تر ”اَشَر٘فی“ اور ”اَشَر٘فیاں“ ہے، اِسی بِنا پر ش پر زبر لگایا گیا ہے۔

اصطبل (ص ۵۱) بہ لحاظِ اصل یہٖ لفظ بہ کسرِ اول و سکونِ چہارم ( اِص٘طَب٘ل) ہے۔ اُردو شعرا نے اِس طرح نظم بھی کیا ہے، لیکن بول چال میں یہٖ بہ فتحِ اوّل و چہارم ( اَص٘طَبَل) ہے۔ کیا خواص کیا عوام سبھی اِسی طرح بولتے ہیں۔ امیراللغات اورنوراللغات میں اِس لفظ کو اصل حرکات ہی کے ساتھ اس (اَص٘طَبَل) لکھا گیا ہے۔ اثرلکھنوی مرحوم نے نوراللغات کے اندراج پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

"صحیح یوں ہی ہے جس طرح لکھا ہے اور شاعر بھی زیادہ تر اِسی طرح نظم کرتے ہیں، مگر کیا خواص کیا عوام ، بولتے اَص٘طَبَل ہیں بہ فتحِ اوّل و سکونِ صاد و فتحِ طا و با و سکونِ لام۔“

[فرہنگِ اثر، ص ۱۴۷]

اِسی سے ملتی جلتی بات صاحبِ فرہنگِ آصفیہ نے لکھی ہے : ” لیکن شعراے ہند نے اِس بے کو متحرک و مو قوف، دونوں طرح باندھا ہے، چنانچہ ایک ایک مصرع لکھا جاتا ہے۔ سودا: بدیمن یہ کہ اصطبل اوجڑ کرے ہزار۔۔۔۔ میر انیس : خالی ہوا اصطبل، چلے


ص 449

آتے ہیں گھوڑے"۔ بہ ہرحال بول چال میں 'اَص٘طَبَل“ آتا ہے اور نثر میں بھی اِسی طرح مرجّح سمجھا جانا چاہیے؛ اسی نسبت سے اِس لفظ کو بہ فتحِ اوّل و چہارم لکھا گیا ہے۔

اصیل۔ اسیل(ص ۲۰) [ح ، ض ، ک ، ف ، ل : اسیلوں ۔۔ م اصیلوں]

اصیلیں ص ۱۴۱ پر بھی آیا ہے اور وہاں ح ، ض ، ف ، ل میں”اسیلیں“ہے اور م ، ک میں ”اصیلیں“ ہے۔

لغت نویسوں نے بِالعموم ”اصیل “ لکھا ہے اور یہی مستعملِ عام لفظ ہے۔”اسیل“ (غالباً) اِسی کی بدلی ہوئی صورت ہے، لیکن اِس نے رواجِ عام نہیں پایا۔ امیر مینائی نے امیر اللغات میں اِس لفظ کے سلسلے میں جو کچھ لکھا ہے ، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ ”اصیل“ کی ایک صورت ”اسیل“ ہو سکتی ہے۔ لفظِ ”اصیل“ کے حاشیے پر انہوں نے لکھا ہے :

چوں کہ ماما اصیلوں پر اکثر باتوں پر اعتبار کیا جاتا ہے اور معتبر و معتمد ہونا، اصالت کی دلیل ہے ؛ اِس لئے کہا جا سکتا ہے یہٖ لفظ اِن معنوں میں عربی ہے۔

اور دوسرا خیال یہ بھی ہے کہ یہٖ لفظ اِن معنوں میں ”شیٖل“ سے بنا ہے۔ ”شیل“ کے معنی سنسکرت میں ”نیک چال چلن “ ہیں اور الف نفی کا ہے۔ چون کہ مامائیں اچّھے چال چلن میں پردہ نشین عورتوں کی مثل نہیں ہوتیں، اکثر باہر پھرتی ہیں؛ اِس لئے اُن پر ”اَشیٖل” کا اطلاق ہو سکتا ہے؛ مگر اِس صورت میں چاہیے کہ اِس املا بجاے صاد، سین سے ہو۔ اگرچہ اس اشتقاق اور اشتقاقِ اولیٰ میں مخالفت ہے؛ مگر دونوں خیال مختلف حیثیتوں سے ٹھیک معلوم ہوتے ہیں۔“

اشتقاق کی صحیح صورت جو بھی ہو، دو باتیں صاف ہیں: ایک تو یہٖ کہ اس کا املا ”اسیل“ بھی ہوسکتا ہے (فسانہ عجائب کے بیش تر نسخوں میں”اسیل“ کا وجود بھی اِس پر دلالت کرتا ہے)۔ دوسری بات یہ ہے کہ ”اسیل“ کو قبولِ عام حاصل نہیں ہوا۔ لغت کی کتابوں میں اور عام تحریروں میں اِس کا املا” اصیل“ ہی ملتا ہے؛ اِسی بنا پر اِس کتاب میں ہر جگہ ”اصیل“ کو مرجّح قرار دیا گیا ہے۔

اَکاسی دِیا (ص ۱۸۶) ک میں ”اگاسی دیا“ ہے، لیکن اور سب نسخوں میں ”اکاسی دیا” ہے اور اُسی کو برقرار رکّھا گیا ہے۔




ص450

اصل لفظ ”آکاش دیا” ہے (ہندی شبد ساگر) اور ”آکاس دیا“ بھی مستعمل ہے(ایضاً) ہندی میں ”اکاس“ کی ایک صورت ”اَگاس“ بھی ہے (ایضاً) اِس سے معلوم ہوا کہ ک میں ”اگاسی دیا“ کتابت کی غلطی نہیں۔

ہندی میں” آکاش دیا“ اور ”اکاس دیا“ ہے۔ ”اکاسی دیا“ اُردو کا اضافہ ہے- امیر اللغات اور نوراللغات میں آکاش دیا، آکاس دیا، اکاس دیا ، آکاسی دیا؛ کوئی لفظ موجود نہیں۔ فرہنگِ آصفیہ میں ”اکاس دیا“ ہے ، ”اکاسی دیا“ اُس میں بھی نہیں۔ کراچی سے ترقّیِ اُردو بورڈ کے لُغت کی جو پہلی جلد آئی ہے، اُس میں ، ”اکاس دیا“ ہے لیکن ”اکاسی دیا“ اُس میں بھی موجود نہیں؛ البتّہ فیلن نے ”اکّاس دیا“ اور ”اکاسی دیا“ دونوں لفظ درجِ لغت کیے ہیں (بہ تشدید کاف)۔” اکاس دیا“ کے مختلف معنی لغات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ک کے حاشیے پر اِس لفظ کے جو درجِ ذیل معنی لکھے ہوئے ہیں وہ اِن لغات میں نہیں ملتے : ” آگاسی دیا : بالفتح، چراغیکہ بر درِ دولت متّصلِ اردوی معلّیٰ روشن کنند۔“ اور اس عبارت میں یہی معنی زیادہ کھپتے ہیں۔

اَلَیّا (ص ۱۴۳ ) فسانہ عجائب کےسبھی پیشِ نظر نسخوں میں اِسی طرح ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں یہٖ لفظ موجود نہیں۔ امیر اللغات اور نورالغات میں "الہیا“ ہے۔ ہندی شبد ساگر میں ”الہیا“ اور ”الیّا“ دونوں لفظ موجود ہیں، اگر چہ اصل لفظ ”الہیا“ کو مانا گیا ہے لیکن اُس کی ایک صورت ”اَلَیّا “ بھی درج کی ہے۔ چوں کہ ” الیّا “ ہندی لغت میں موجود ہے اور فسانہ عجائب کے نسخوں میں بھی میں” الیّا “ ہے؛ اس لیے اسی کوبرقرار رکھا گیا ہے۔

اِمام باڑہ (ص ۱۱ ) سب نسخوں میں ”امام باڑہ“ ہے ۔ پُرانے زمانے میں بہت سے ہندی الفاظ کے آخر میں فارسی کے اثر سے الف کے بجائے ہاے مختفی لکھی جاتی تھی، اس لیے” باڑا“ کو بھی ” باڑہ” لکھا جاتا تھا؛ اِسی نسبت سے شعر نے ”امام باڑہ“ کو بہ اضافت بھی نظم کیا ہے۔ ناسخ کے کلّیات میں بھی اِس کی مثالیں موجود ہیں؛ دو مختلف قطعوں کے دو مصرعے بطورِ مثال لکھے جاتے ہیں:

۱۔ بابِ امام باڑہ والا بنا نمود ( کلّیاتِ ناسخ، طبعِ اوّل؁۱۲۵۸ ھ، ص۳۶۳ )

۲۔امام باڑہ گردوں بنائ سلطانیست (ایضاً)

اِس بنا پر اِس کتاب میں اِس لفظ کے پُرانے املا کو برقرار رکّھا گیا ہے۔ [ امیراللغات اور
 

سیما علی

لائبریرین
340)

وج و نَخُوت سے صاف،اور مرآتِ سینہ زنگِحسد و کینہ سے شفاف ہوتا ہے۔الَقصّہ،باہم بے رنج و الم رہنے لگے ۔شب شاد ، ہر روز خنداں، خرم و فرحاں بسر کرنے لگے۔نئے سرے سے وہ اُجڑا ہوا شہر َبسا۔بنائے ظلم و ستم منہدم ہوئی۔مرُّوج عدل ودَاد ہوا۔دونا سابق سے حال میں آباد ہوا۔خزاں چمن سے دور ہوئی۔بلبلِ نالاں چہچہے کرنے لگی ،مسرور ہوئی۔

ایک روز جانِ عالم نے تمام خلقت کو دَرِ شہرِ پناہ
پر طلب کر کے ، وہ بکری کا بچہ دکھا،نمک حرامیاں اُس کی سنا ، جلاد سے حکم کیا، اس کے اعضا اعضا سے جدا، بے دست پا کر کے، زاغ و زغن کو، گوشت کی بوٹیاں اُڑا کر کھلا دو۔شکاری کتوں کو، لہو اسکا ہو بہا ، چٹا دو۔ یہ مجرّد فرمان اسی آن بند بندِ تیغ تیز سے جدا ہو گیا۔ ایک عالم یہ سانحہ سن کے حیرت کا مبتلا ہوگیا۔سب نے اس سے دین پر لعنت و نفرین کی کی۔جان عالم نے دولت سرا کی راہ لی۔ فیروز شاہ نے تاج وتخت بیٹے کو حوالے کیا، خود گوشۂِ تنہائی لیا۔ بادشاہ شب اپنی عبادت اور بیداری میں سحر کرتا
وہ تو قاَئمِ الّیل، صاٰ۔ٔمُ النّہار مشہور ہوا۔ جان عالم ہر روز تخت پر جلوہ افروز ہو۔ عدل کی داد دے کے۔ شب کو بری پیکروں میں بسر کرتا تھا۔ یہ عادل و سخی ، رحیم و سجا یکتائے روزگار مشہور ہوا۔
ذکر دونوں کا تا قیامِ قیامت صفحۂِ روزگار،ورقِ لیلُ و نہاربرزبانِ یگانہ و بیگانہ رہا۔بات باقی رہ گئی ،نہیں تو
دورِ دوران میں کس کا دَور رہا، کس کا زمانہ رہا۔

ریختہ ص 457
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جس طرح جانِ عالم کے مطلب ملے،اسی طرح کلُ عالمُ کی مراد اور تمنائے دلی الّلہ دے ۔علیَ الخصوص سامعین ، ناظرین، راقم و موٰلفّ کی خواہش و آرزو بہ تصدقِ رسولِ عَربی بَرآئے۔بِحرُمتہِ النبیِّ وآلہِ الا مجاد با النون واصاد۔بہ اسباب ظاہر یہ فسانہ ہے، نادرِ زمانہ ہے،مضمونِ چکیدہ دل و تحریر خامہ ہے، اگر دیدہ غور و نظرِ تامل سے مُلاحظہ کرو،
تو حقیقت میں کارنامہ ہے۔موُٰ لفُِ:
گلزار کو جہاں کے ہم نے بغور دیکھا کیابےثبات، ہےَ ہےَ ! دلچسپ یہ مکان ہے
اک رنگ پر نہیں رنگین اسکا نقشہ ہے فصلِ گل کبھی تو گہٖ موسم خِزاں ہے
روتی چمن میں شبنم ،ہنسنے پہ ہے گلوں کے نالے سے بلبلوں کے جو گل ہے، شاداں ہے
دیکھا بہ چشمِ عبرت ہم نے طلسمِ دنیا رشکِ حباب شبنم واللّہ بے گمان ہے
پابند یاں نہ ہوئے، جس کو کہ عقل کچھ ہو دُنیا ہے نام جس کا، وہ قحبہّ جہاں ہے
آتی سدا جرس سے کانوں میں ہے یہ پیہم غافل عبث ہو ،رَد میں یاروں کا کارواں ہے
ازبہر پنجتن توُ سن لے دعاُ یہ خالق! جو ہے نہاں جہاں میں،تجھ پہ وہ سب عیاں ہے
اہلِ دول کا مجھ کو محتاج تو نہ کرنا۔ احسان کا بار اُن کے مجھ کو بہت گراں ہے
کعبہ بھی اور مدینہ دکھلا سرٓور کو وہ مدعاِ دل ہے یہ آرزوِ ئے جاں ہے
تاریخِ مولٰف
جس نے سنا اس کو،کہنے لگا دل میں یارب یہ فسانہ ہے یا سحر ہے بابل کا
تاریخِ سرور۔ٓ اِس کی منظور ہوئی جس دم. بے ساختہ جی بولا “ نشتر ہے رگِ دل کا”
ریختہ ص -
458
(343)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
صفحہ ۲۳۴

الّا، مقتضائے عقل یہ ہے کہ عالم اسباب میں کسی اسباب کا پابند نہ ہو، تعلق خاطر نہ رکھے۔ ہمیشہ اس نے بھلے سے برائی کی ہو ۔ جو گیا یہاں سے، یعنی جہانِ گذراں سے، اسکا شاکی تھا ۔ بادشاہ سے فقیر تک، جوان سے پیر تک ۔ حقیقت میں یہ نفس امارہ سخت ناکارہ ہے، اسکو بہ ہر کیف زیر کرے، زبردستی پچھاڑے ۔ گرد ہوا و ہوّس سے دامن ہمت جھاڑے ۔ شعر:
دیوانہ باش تا غمِ تو دیگراں خورند
آنرا کہ عقل بیش، غم روزگار بیش

یہاں کوئی ایسی بات خدا کی عنایات سے پیدا کرےتا صفحہِ روزگار پر چندے بہ نیکی نام یاد رہے۔ شعر:

اسطرح جی کہ بعد مرنے کے
یاد کوئی تو گاہ گاہ کرے

دنیا میں کسی سے دل نہ لگائے کہ یہ کارخانہ بہت بے ثبات ہے ۔وصل سے فرحت، ہجر کی مصیبت اپنے سر پر نہ لائے کہ مرجانے کی بات ہے۔ معشوق باوفا عنقا کی طرح نا پید ہے اور پر دغّا ہرجائی ہر جا مہیا ہے۔ خواہش کا انجام کاہش ہے ۔ تمنا دل سے دعت کربے میں جان کی آرائش ہے ۔ مولف:

کبھی نہ چین سے رہنے دیا تمنا نے
خراب و خستہ میں اس دل کی آرزو سے ہوا


مگر وائے غفلت، ہائے نادانی! کہ جب نشہِ جوانی کا موسم پیری میں
 

نور وجدان

لائبریرین
صفحہ ۲۳۵


خمار اتار ہوتا ہے، اس وقت آدمی سر پر ہاتھ دھر کر روتا ہے ۔ وقتِ از دست رفتہ و تیز از شست جستہ کب ہاتھ آتا ہے ۔ ناچارہو، کفِ افسوس مل کے ہچھتاتا ہے گذشتہ را صلوات کہ کے دل کو سمجھاتا ہے

آدمیوں کو بندر کی تقریر دل خراش، پر اثر ست عبرت و حیرت حاصل تھی ۔ کبھی نصیحت و پند، گاہ کلام رنگین و دل چسپ، بادل درمند، کبھی سخنان وحشت افزا سناتا چلا جاتا تھا ۔ اہل دل، طبیعت کے گداز روتے ساتھ آتے تھے ۔ ہر فقرہ پردرد پر ضبط نہ ہوتا تھا، چلاتے تھت ۔ خلق خدا، جنازے کی طرح ہاتھی کے ہمراہ تھی ۔اک عالم کے لب پر نالے تھے، فغان و آہ تھی ۔ اسی سامان سے ملکہ کے جھروکے تلے پہنچے ۔ وہ منتظر تمام شب، نالہ بہ لب، سوداگر سے فرمانے لگء: اک دم ٹھہر جا، مجں بھی اس اسیرِ پنجہِ تقدیر کی تقریر کی مشتاق ہوں ۔ سوداگر نے ہاتھی روکا ۔ ملکہ نے کہا: اے مقرر بے زباں، وطن آوارہ، گم کردہ خانماں ! اگرچہ ہم اب کس لائق ہیں، مگر تیری داستان ظلم و جور کے شائق ہیں ۔بندر نے آواز پہچانی ۔ پہلے تو خوب رویا، پھر جی کو ٹھہرا کر کہنے لگا، شعر:

ہر کس از دست غیر نالہ کند
سعدی از دستِ خویشتن فریاد

میر

کیونکے کہیے، کوئی نہیں آگاہ
اک قیامت بپا ہے یہاں سرِ راہ
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص 451

آصفیہ میں ” امام باڑا “ہے اور اب بیش تر اسی لکھا جاتا ہے]۔

اِمَر٘تی (ص ۷ ) نظم میں یہ لفظ بہ سکون دوم ملتا ہے۔ امیرالغات میں سند کا شعر منددرج ہے، وہی شعر نور اللغات میں نقل کیا گیا ہے۔ اِس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں مولّفین کے نزدیک یہٖ لفظ بہ سکونِ دوم ہے [ فرہنگِ آصفیہ میں یہ لفظ موجود نہیں] لیکن زبانوں پربہ فتحِ دوم ہے اور نثر میں بھی اِسی کو مرجّح سمجھنا چاہیے۔ یہ صراحت کر دی جائے کہ ہندی شبد ساگر میں اِسے بہ کسرِ اوّل و فتحِ دوم (اِ مَر٘تی) لکھا گیا ہے۔ فیلن نے بھی ” ام٘رتی“ لکھ کر، لکھا ہے کہ مقبولِ عام تلفّظ ”اِمَر٘تی“ ہے ؛ اسیِ نسبت سے م پر زبر لگایا گیا ہے۔

اِن٘دَر (ص ۹۰ ) اصلاً یہ لفظ بہ کسرِ اوّل و سکونِ دوم و چہارم ہے، مگر اُردو میں بہ کسرِ اوّل و سکونِ دوم و فتحِ سوم مستعمل ہے۔ آصفیہ و امیراللغات میں اسیِ طرح اعراب لگائے گئے ہیں (اِن٘دَر) امیراللغات میں انشا کا ایک شعر بھی سنداً لکھا گیا ہے ، جس میں ”اِن٘دَر“ آیا ہے؛ متعلّق مصرع یہ ہے:

نہیں یہ لکھنؤ ، اک راجا اندر کا اکھاڑا ہے

اِسی بنا پر دال پر زبر لگایا گیا ہے۔

اوٗبھی (ص ۱۰) قدیم اُردو لغات میں ”اوبھنا“ اِس معنی میں موجود نہیں لیکن یہ معلوم ہوا کہ اودھی اور راجستھانی میں اِس مِصدر کے مشتقّات ( اُٹھنے ، بلند ہونے کے مفاہیم میں) مستعمل ہیں- ترقّیِ اُردو بورڈ کراچی سے اُردو لغت کی جو پہلی جلد آئی ہے ، اُس میں یہ لفظ موجود ہے اور اُس میں دکنی کی دو مثالیں بھی لکھی گئی ہیں۔ ایک مثالیہ شعر کا پہلا مصرعہ یہ ہے: ” پدم راو اوبھا ہوا چھات لگ”۔ ہندی شبد ساگر میں ( ) موجود ہے اور اور اُسی کی بِنا پر اِسے بہ واوِ معروف رکّھا گیاہے۔ یادوں کی برات میں جوش نے ایک جگہ لکھا ہے: ”صبح سات بجے سے آدھی رات کے بعد بھی مسلسل پی رہے تھے اور د۲و بجے رات کے قریب اوبھی اوبھی سانسیں لے رہے تھے“ (ص ۵۱۴) اِس سے معلوم ہوا کہ لکھنؤ میں یہ لفظ مستعمل رہا ہے۔

اَور٘گی (ص ۱۵) فرہنگِ آصفیہ ، نوراللغات اور امیراللغات میں” اَوگی“ ملتا ہے اور ”اورگی“ کا ان لغات میں نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ شعرا نے بھی ”اوگی“ نظم کیا ہے، سند کے اشعار امیراللغات میں موجود ہیں؛ البتّہ جلال نے سرمایہ زبانِ اُردو میں ”اورگی“ کو اصل لفظ کے طور پر درج کیا ہے اور ”اوگی“ کو اُس کی ایک شکل بتایا ہے:


ص 452

” اورگی : اُس ٹاٹ بافتہ کو کہتے ہیں جس سے جوتوں کو سجتے ہیں اور کبھی یہ لفظ بہ حذفِ راے مہملہ بھی بولا جاتا ہے، یعنی اوگی۔۔۔۔“

جلال کے اندازِ تحریر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک اصل لفظ ”اورگی“ ہے۔ فسانہ عجائب کے نسخوں میں ”اورگی “ کا وجود بھی اِسی پر دلالت کرتا ہے۔

اِیزَد (ص ۳۱ ) یہ فارسی میں بہ کسرِ سوم اور بہ فتحِ سوم، دونوں طرح ہے۔(برہانِ قاطع۔ فرہنگِ فارسی) غالب نے اسے بہ فتحَ سوم نظم کیا ہے:

در احمد الف نامِ ایزد بود زمیم آشکارا محمد بود

( کلّیاتِ فارسیِ غالب، نول کشور، طبعِ دوم، ص۱۵۱ )

فرہنگِ آصفیہ میں یہ لفظ موجود نہیں۔ امیراللغات اورنوراللغات میں اِس کو صرف بہ کسرِ سوم لکھا گیا ہے لیکن اُردو میں زبانوں پر عموماًبہ فتحِ سوم ہے۔ “ اثر لکھنوی مرحوم نے ایک مضمون میں لکھا تھا : ”ایزد فارسی میں بہ کسرِسوم ہے، اُردو میں بہ فتحِ سوم بولتے ہیں“ [ رسالہ الحمرا (لاہور) جنوری ؁۱۹۵۴ء ] اُردو کی حد تک یہی بات صحیح ہے اور اِسی کی پابندی کی گئی ہے۔


اَینٹھے [” سِر پر گلُنار اَینٹھے طرح دار”] (ص ۱۸۲ ) م اور ن کے علاوہ سب نسخوں میں ”اینٹھے” ہے۔ م اور ن میں ”پھینٹے“ ہے۔

یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نسخہ م اور نسخہ ن ، دونوں مصنّف کے نظرثانی کردہ نسخے نہیں۔ جن نسخوں پر مصنّف نے نظرِثانی کی ہے، اُن سب میں ”اینٹھے” ہے۔ اُردو اور ہندی لغات میں یہ لفظ نہیں ملتا، لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ بجاے خود بھی یہ کوئی لفظ نہیں ہو سکتا۔ ایسے قدیم الفاظ کے سلسلے میں یہ امکان ہمیشہ کارفرما رہتا ہے کہ کسی زمانے میں کسی خاص علاقے میں یا کسی خاص حلقے میں وہ مستعمل رہے ہوں۔ اِس کی کئی مثالیں اِسی کتاب میں موجود ہیں [ مثال کے لئے دیکھیے” اوبھی“ اور ”پاہُنی“] مصنّف کی نظر سے گزرے ہوئے سبھی پانچ نسخوں میں یعنی اشاعتِ اوّل سےلے کراشاعتِ آخر (ل) تک سبھی میں اِس لفظ کا وجود اِسی پر دلالت کرتا ہے۔ اِس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی خاص طرح کی پگڑی کو کسی زمانے میں ”اینٹھا“ کہتے ہوں۔ ”اینٹھنا“ بل دینے کے معنی میں مستعمل ہے، اور پگڑی کے پیچ کی رعایت سے یہ بہ خوبی ممکن ہے کہ بل دار پگڑی کو ”اینٹھا“ کہتے ہوں۔ میرے رفیقِ کار پنڈت ترلوچن شاستری نے بتایا کہ اُنھوں نے اودھ کے مضافات میں یہ لفظ سُنا ضرورہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ سادہ لپیٹ کی پگڑی کو "مُریٹھا” اور بل دار لپیٹ والی پگڑی کو ”اینٹھا“


ص 453

کہا جاتا تھا۔ یہ قطعی طور پر قرینِ قیاس ہے؛ اِسی بنا پر اس لفظ کو صحیح سمجھا گیا ہے اور برقرار رکّھا گیا ہے۔

بادشاہ (ص ۴ ) فسانہ عجائب کے مختلف نسخوں میں اِس لفظ کا املا مختلف ملتاہے، مثلاً ح، ف اور ل عموماً ”بادشاہ“ ملتا ہے اور ک اور م میں ”پادشاہ“۔ ض میں کہیں ”بادشاہ“ ہے ( مثلاً ص ۴ ) اور کہیں ”پادشاہ“ ( مثلاً ص ۲۰ )۔ فارسی میں پادشاہ ہے اور بہ قولِ صاحبِ نوراللغات ”بادشاہ“ اُس کی مہن٘د صورت ہے۔ مؤلّف نے مزید وضاحت کی ہے کہ ” یہ لفظ باے فارسی سے صحیح ہے لیکن اِس وجہ سے باے فارسی سے جُزوِ اوّل بہ معنیِ ریح ہے ، عموماً زبانوں پر بادشاہ ہے “ اور یہ بالکل درست ہے۔ سراج الدین علی خان آرزو نے چراغِ ہدایت میں اِس کی وضاحت کی تھی: پاد شاہ ببای فارسی ۔ ۔ ۔ ۔ وایں کہ در ہندستان ببای تازی شہرت دارد، ظاہرااز جہتِ استکراہِ حرف اوّل از کلمہ مذکور کہ بزبانِ ہندی قبیح است“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اِسی وجہ سے اِس لفظ کا املا ”بادشاہ“ رکّھا گیا ہے۔

باربَد (ص ۸۹ ) فرھنگِ رشیدی کے مطابق اِسے بہ فتحِ چہارم مرجّح سمجھا گیا ہے۔

باروت (ص ۱۶۳ ) [ح، م : بارود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ض، ک، ف، ل: باروت]

آگے چل کر یہ لفظ ایک اور جگہ آیا ہے۔ شہپال جادو سے لڑنے کے لیے جانِ عالم کی فوج آراستہ ہو رہی ہے ، وہاں ایک جملہ ہے: "کہیں سرنگ کا رنگ جمایا، باروت کو بچھایا“ یہاں ح، ض، ک میں "بارود" ہے اور م، ف، ل میں ”باروت" ہے۔

فارسی میں ”بارود“ اور ”باروت” دونوں مستعمل ہیں (برہانِ قا طع ۔ بہارِ عجم ) یہی صورت اُردو میں ہے۔ فرہنگِ آصفیہ اور نوراللغات میں دونوں لفظ موجود ہیں۔ رشک نے نفس اللغة میں ” بارود “ کے ذیل میں وضاحت کی ہے کہ: ”وبجای دالِ مہملہ، تای فوقانی نیز گویند“اور فسانہ عجائب کے اختلافِ نسخ سے بھی اِس کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر معین نے برہانِ قاطع کے حاشیہ میں لفظ ”بارود“ کے ذیل میں لکھا ہے کہ ”باروت“ ترکی ہے اور ”بارود” اِسی سے بنا ہے۔ مختصر یہٖ کہ اُردو میں بھی یہ لفظ دونوں طرح مستعمل رہا ہے، اگرچہ آج کل عموماً ”بارود“ لکھتے اور بولتے ہیں۔ فسانہ عجائب کے موخّر نسخوں (ف اور ل) میں چوں کہ ”باروت “ ہے، اِس لیے اِسی قدیم شکل کو دونوں جگہ برقرار رکّھا گیا ہے۔

ببھاس(ص ۱۴۳) [ م: بھبھاس۔ ح ، ض ، ک ، ف: بھباس]


ص 454

نور اللغات اور فرہنگِ آصفیہ میں یہ لفظ موجود نہیں۔ ہندی میں ”وِبھاس“ہے۔ ہندی کے ایسے الفاظ میں و اور ب کا تبادلہ ہو سکتا ہے ، اِس لیے یہ "بِبھاس“ بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرا حرف بہ ہر طور”بھ“ ہے۔ فیلن کے لغت میں ” بِبھاس“ ہے اور یہی صورت مرجّح معلوم ہوتی ہے؛ اِسی کے مطابق ”بِبھاس“ لکھا گیا ہے۔

بحری (ص ۱۸۱) سب نسخوں میں اِسی طرح ہے ، لیکن عام طور پر اسے ”بہری“ لکھا جاتا ہے۔ لُغات میں بھی یہ ہائے ہوّز ملتا ہے۔ آصفیہ میں بھی ”بہری“ ہے ، لیکن اُس کے ذیل میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ : ”بعض ترکی لغات میں بھی یہ لفظ حاے حُطّی سے پایا جاتا ہے“ اِس بنا پر بھی اور اصل کی مطابقت سے بھی اِس کا املا بہ ہاے حُطّی برقرار رکّھا گیا ہے۔

برآمدہ ۔(ص ۲۲۵) سب نسخوں میں ”برآمدہ“ ہے۔ فرہنگِ آصفیہ میں بھی ”برآمدہ“ ہے۔ پڑھنے میں ”برامدہ“ آتا ہے ، لوگ اب اِس طرح لکھنے بھی لگے ہیں؛ لیکن قدیم تحریری صورت "برآمدہ“ ہی ہے اور یہاں اُسی قدیم صورت کو برقرار رکّھا گیا ہے۔ یہی صورت ”درآمد“ اور ”برآمد“ کی ہے کہ لکھیں گے (اور لکھتے ہیں) الفِ ممدودہ، لیکن بولتے ہیں ”درامد“ اور ”برامد“۔ ”درآنا“ اور ”بر آنا“ کو بھی اِسی طرح معِ الفِ ممدودہ لکھتے ہیں خواہ بولیں کسی طرح۔ اس کتاب میں ان سب الفاظ میں قدیم املا کے مطابق الفِ ممدودہ کو برقرار رکّھا گیا ہے۔

بِرچِھک (ص ۱۳۶ ) [ ح، م : برچھیک]

فرہنگِ آصفیہ میں بِرچَھک (بہ کسرِاوّل و فتحِ سوم) ہے۔ فیلن کے لُغت میں ”بِرچَھک“ اور ”بِرچِھک“ دونوں صورتیں ملتی ہیں۔ نورللغات میں یہ لفظ موجود نہیں۔ یہ لفظ عام بول چال میں نہیں آتا ،خاص خاص لوگ ہی اِسے کاستعمال کرتے ہیں، مثلاً جوتشی ؛ اِس بنا پر اِس کو اصل حرکات کے مطابق ”برچِھک“ مرجّح قرار دیا گیا ہے۔ اِس کی تائید اِس سے بھی ہوتی ہے کہ ح اور م میں ”برچھیک“ ہے اور یہ املا لازماً بہ کسرِ سوم پر دلالت کرتا ہے۔

بِرَ ن٘جی (ص ۱۰۶ ) بہ لحاظِ اصل یہ لفظ بہ کسرِ اوّل و دوم (بِرِنجی) ہے۔ نور میں بھی اسی طرح ہے لیکن آصفیہ میں ”بِرَنجی“ لکھا ہوا ہے اور زبانوں پر بھی اِسی طرح ہے؛ اس لیے اسی کو مرجّح سمجھا گیا ہے۔

بُقراط (ص ۱۳) اصلاً یہ لفظ بہ فتحِ اوّل ہے (غیاث اللغات) لیکن بہ ضمِّ اوّل ہے۔ موّلفِ فرہنگِ آصفیہ نے اِس کی صراحت کی ہے: ” بقراط ۔ ۔ ۔ ۔ صحیح بہ فتحِ موحّدہ، اور زبان زدِ خاص و عام
 

سیما علی

لائبریرین
مقدس
-105-103 ص
سعدی؀۔ کس نیاموخت علم تیرازمن
کہ مرا عاقبت نشا نہ کرد
یہ کہہ کر ناریل زمین پر مارا،وہ پھٹا ،ہزار ہا اژدرٖ شعلہ فشاں پیدا ہوا،شہزادے نے کچھ پڑھا،وہ سب [کےسب ] پانی ہو گئے،”[ہستی سے]فانی ہوگئے۔پھر تو منت کرنے لگی،پاؤں پر سر دھرنے لگی،
جادوگر نیاں سمجھانے گئیں کہ یہ شرطِ مروت نہیں ،جو اپنا والہ و شیدا ہو،اس سے دغا کیجیے ، بھلائی کے عوض بُرا کیجئے. “
شہزادے نے کہا” گریبان میں منہ ڈالو،سوچو تو ہم بھی کسی کے عشق میں [خود رفتہ و وحشی]عزےزوں سے جُدا مصیبت کہ مبتلا،سر بصحرا ہوئے تھے،ہمیں جبر سے قید کیا،ہزار طرح کا المِ مُفارقت دیا، یہ احسان کچھ کم ہے، کہ ہم نے طلسم [کو] درہم برہم جو نہ کیا۔” وہ سمجھیں یہ[ہر گز]نہ ٹہرے گا۔عاشقی کا کام،نصیحت وپند، قید و بند سے نہیں ہوتا،اور جبر کا کام[اگر اختیار کیا]حباب آُسا ناپئدار ہے،
اس کا کیا اعتبار ہے حسنٓ؀۱
ع سدا ناؤ کاغذ کی بہتی نہیں
اور یہ قضیہٓ اتفاقیہ ہے [جو کبھی،ہو نہیں تو]
حسنٓ؀ کبھی یو ں بھی ہے گردشِ روزگار؀۲
کہ معشوق عاشق کے ہو اختیار
لیکن سوچو تو لاکھ طرح کا راحت و آرام ہو[جہاں کا چین صبح و شام ہو ]جو جی
———————————————
مثنوعی سحر البیان۔

؀۱۔؀۲۔
ریختہ 103 - ک۔105
درمیان ذرا سا فصل پیدا ہو جائے,جو پڑھنے والے کی نظر میں بہ آسانی اور فوری طور پر آ جائے اور وہ سجھ لے کہ یہاں خواندگی میں ان لفظوں کو الگ الگ آنا چاہیے -اسکی وضاحت کے لیے شروع متن ہی سے ایک مثال پیش کروں گا۔"سزاوار حمد و ثنا خالق ارض و سما ،,جل و علیٰ ۔صانع بے چون و چرا ہے“(صٰ) اس جملے میں چار ٹکڑے ہیں۔
ان میں سے دوسرے اور تیسرے ٹکڑے بعد کاما آیا ہے۔مگر پہلے ٹکڑے کے بعد کاما آیا ہے ۔مگر پہلے ٹکڑے {سزاوارِ حمد و ثنا} کے بعد کاما نہیں آسکتا، کیونکہ یہ ٹکڑا اس طرح الگ اور معنوی طور پر خود مکتفی نہیں،جسطرح وہ ٹکڑے ہیں،مگر یہ بھی الگ سا!اس لیے اسے اس طرح لکھا گیا ہے کہ اس کے بعد ذرا سا فصل پیدا ہو گیا ہے۔ اس اندازِ کتابت کو {اور اس کی افادیت کو} ہر جگہ با آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس التزام کو نبھانے میں مشکل تو بہت پیش آئی! مگر بہ حال اسمیں کامیابی حاصل ہوئی اور یہ التزام آخر تک بر قراررہا۔
مشؔدد حرفوں پر تشدید ضرور لگائی گئی ہے۔اسی طرح اضافت کے زیر بھی پابندی سے لگائے گئے ہیں۔اس التزام کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ہے۔اضافت کا مسلئہ بعض مقامات پر خاصہ پریشان کن ہوتا ہے، ویسے بھی یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے،ان دونوں باتوں کو ذہن نشین کد لیا گیا تھا اور پیشِ نظر رکھا گیا۔اس سلسلے میں
————————————————-
؀۱
قاضی عبد الودود صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جو لوگ کسی متن کو مرتب کرتے ہیں اور اسکا مسودہ کسی دوسرے شخص سے لکھواتے یا ٹائپ کراتے ہیں،تو وہ تدوین کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔یہ لازم ہے کہ مرتب اپنے سے پورے متن کو نقل کرے،تاکہ مشخصات متن {بشمول املائے الفاظ} برقرار رہ سکیں۔میں نے اس قول کو گرہ میں باندھ لیا تھا اور اس پر پابندی سے عمل کرتا ہوں۔ اس کتاب کا مکمل مسودہ میں نے اپنے قلم سے لکھا اور ایسے مقامات پر ،جہاں کاما کے بجائے دو لفظوں کے درمیان فصل رکھنا تھا،ایسے دو لفظوں کے درمیا ترچھا خط سرخ روشنائی سے کھینچا گیا ۔اس طرح التزام رہ پایا{اس کے باوجود تحسین کے اصل مستحق زیدی صاحب ہیں ،جنہوں نے اس متن کی کتابت کی ہے}
ریختہ ص 105
 

مقدس

لائبریرین
صفحہ: ۱۰۲


کہتی: اور تو کچھ جانتی نہیں، پر یہ نقشہ ہے: ہاتھ پاؤں سنسناتے ہیں، خود بہ خود غش چلے آتے ہیں۔ دم سینے میں بند ہے، گھبراتا ہے، مکان کاٹے کھاتا ہے۔ باغ ویران، گل و بوٹا خار معلوم ہوتا ہے۔ ھر زنداں، بات کرنا بے کار معلوم ہوتا ہے۔ جان بےقرار ہے، بند بند ٹوٹتا ہے۔ دامن صبر دست استقلال سے چھوٹتا ہے۔ جنگل پسند ہے۔ ویرانے کا جی خوائشمند ہے۔ دشت کا سناتا بھاتا ہے، بلبل کا نالہ دل دکھاتا ہے۔ خدا جانے کس کی جستجو ہے، دل کا مرغوب قمری کی کوکو ہے۔ تنہائی خوش آتی ہے، آدمیوں کی صورت سے طبعیت نفت کھاتی ہے۔ سینہ جلتا ہے، دل کو کوئی مسوس کر ملتا ہے۔ آنکھ ظاہر میں بند ہوئی جاتی ہے، مگر نیند مطلق نہیں آتی ہے۔ ہاتھ چاہتے ہیں سر دست چاک گریباں دیکھیں۔ پاؤں چل نکلے ہیں کہ بیاباں دیکھیں۔ نل و من کی مثنوی سے ربط ہے۔ لیلی و مجنوں کا قصہ پڑھتی ہوں، یہ کیا خبط ہے۔ دل کی تمنا ہے کہ بےقراری کر۔ آنکھیں امڈی ہیں کہ اشک باری کر۔ جہان کی بات سے کان پریشان ہوتے ہیں، بگر جان عالم کا ذکر دل لگا کر سنتی ہوں۔ جو کوئی سمجھاتا ہے؛ رونا چلا آتا ہے، سر دھنتی ہوں۔ ناامی، مجھ خستہ و پریشاں کا کام ہے۔ آہ، مجھ بےسروساماں کا تکیہ کلام ہے۔ منہ کی رونق جاتی رہ، زردی چھا گئی، بہار حسن پر خزاں آگئی۔ ہر دم لب پر آہ سرد ہے، ایک دل ہے اور ہزار طرح کا درد ہے۔ جان جانے کا


صفحہ: ۱۰۳


وسواس نہیں، بزرگوں کا لھاظ و پاس نہیں۔ زیور طوق و سلاسلہے، زیب و زینت سے بدمزگی حاصل ہے۔ دل وجگر میں گھاؤ ہے۔ بگاڑنا، بناو ہے۔ بستر نرم خارکار ہے؛ ارے لوگو، یہ کیا آزار ہے! سب سے آنکھ چراتی ہوں، ہم صحبتوں سے شرماتی ہوں۔ اب صدمے اٹھاے کا یارا نہیں۔ بےموت اس بکھیڑے سے چھٹکارا نہیں۔ عجیب ھال ہے، اکژ یہ خیال ہے، مولف:

افسوس! یہ حال ایک عالم دیکھے ایسا نہ ہو کہ جان عالم دیکھے

اگر اسی کا عشق و عاشقی نام ہے؛ تو میں درگزری، میرا سلام ہے۔ جو لوگ عشق کرتے تھے، کیوں کر جیتے تھے؟ دو دن سے کچھ نہیں کھایا، مگر پیٹ بھرا ہے۔ کھڑی ہوں، جی بیٹھا جاتا ہے۔ پہلے مجھے نہ منع کیا، ہے ہے! میری جان کے دشمنو، یہ کیا کیا! اللہ کی مرضی، جیسا کیا ویسا بھگتیں گے، کسی کا کیا بگڑا۔ میری قسمت کا لکھا، جو کیا، وہ اچھا کیا۔

یہ سن کر ایک کھیلی کھائی، عشق کے نیرنگ دیکھی، وصل کے ہجر میں صدمے اٹھائی، قریب آئی، کہا: قربان جاؤں، واری ابھی سلامتی سے نوگرفتاری ہے جو اتنی آ۰ و زاری اے بےقراری ہے۔ سہتے سہتے عادت ہو جائے گئی، تو تسکین آئے گی۔ ان باتوں کے سننے سے چوٹ سی لگی۔ ملکہ کا دل جو بھر آیا، بےاختیار خو نابہ دل، لخت جگر چشم تر سے متصل بہانے لگی۔ دیدہ دیدار طلب سے سمندر کی لہر لہرانے لگی۔ نظم میں دل کا



صفحہ: ۱۰۴


حال سنانے لگی، مولف:

حالت ہے اس کی پارے کی، برق و شرار کی

کیا کیا تڑپ سناؤں دل بےقرار کی

پھوٹے تپش سے دل کی یہ سب آبلے میرے

منت کشی نہ کرنی پڑی نوک خار کی

دل اپنا قبر میں بھی جلے گا اسی طرح

حاجت رہے گی ہم کو نہ شمع مزار کی

وعدہ کی شب کو، دیدہ اختر جھپک گئے

دیتے مثل ہیں لوگ مرے انتظار کی

لے جائیو ادھر سے جنازہ مرا سرور

حسرت بھری ہے دل میں مرے کوے یار کی


رخصت ہونا جان عالم کا ملکہ نگار سے اور

پہنچنا ملک زرنگار، مملکت دلدار کا۔ ملاقات

خواجہ سرا کی، دریافت ہونا حال پرملال

جادوگر کا۔ پھر اس کو قتل کر کے، لانا اس

ماہ پیکر کا۔


صفحہ: ۱۰۵


بیت: یہاں کا تو قصہ یہ چھوڑا یہاں

سنو پھر اسی غم زدے کا بیاں

طلسم کشایان گنجینہ، سخن، فخر سامری و رہ نوردان اقلیم حکایت کہن، مشتاق جادو و شعبدہ گری؛ رسامان جفاکش و محنت کشیدہ؛ سخر سازان سخن سنج، دریں سراے سپنج رؤے راحت نہ دیدہ؛ گوسالہ سخن کو دیر خراب آباد میں یو گویا کرتے ہیں کہ ملکہ مہر نگار کے باغ سے چالیس منزل ملک زرنگار، کشورآفت روزگار تھا۔ شہ زادہ دل ازکف دادہ، یکہ و تنہا، صعوبت سفر کا مبتلا، پاؤں میں چھالے، لب پر آہ ونالے، گرتا پڑتا، کئی مہینے کے بعد اس زمین خجستہ آئیں میں پہنچا اور جو جو پتے توتے نے بتائے تھے، وہ سب اس جوار میں پائے۔ واقعی عجب نواح شگفتہ و شاداب، ہر سمت چشمہ ہاے آب۔ جنگل سب سبزہ زار، گل بوٹے خود رو کی انوکھی بہار۔ ہوا فرحت انگیز، بو باس مشک بیز، جنوں خیز۔ جان عالم خوش و خرم جلد جلد قدم اٹھاتا چلا جاتا تھا۔

ایک روز دو چار گھڑی دن رہے، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شے مثل آفتاب، بہ صد آب وتاب شمال کی سمت یہ درخشاں ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہرتی، عقل حیراں ہے۔ دل سے کہا، آثار حشر نموہ ہوئے۔ یہ کیا قیامت ہے، ہم مشاہدہ جمال جاناں سے محروم ہے۔ مشرق و مغرب کو چھوڑ، سورج شمال کی طرف جا نکلا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۸

سوائےاہلِ حِرفہ اپنے اُمورِ ضروری موقوف کر، گھروں میں ناچ دیکھو، جشن کرو۔ جو کچھ احتیاج ہو، سرکار سے لُو۔اور ہر رئیسِ محلہ، سردارِ قوم سے فرمایا : جو جو تم سے مُتعلق ہوں؛ اُن کی فرد درست کر، حُضور میں گزرا نو، سب کو ہمارا مہمان جانو۔ اُن کے کھانے پینے کا سامان، خواہ ہندو ہو یا مسلمان، حُضور سے ملے گا۔ اور اربابَ نشاط کے داروغہ کو احکام مِلا : جس کی جیسی لِیاقت ہو، یا جس کا جو شائق ہو، بہ شرطے کہ اُس کے لائق ہو: بہ رضا مندیِ طرفین‘ وہ ویسا طائِفہ وہاں بھیج دو۔

دکانداروں کو ارشاد ہوا : دن رات دکانیں کُھلی رہیں؛ قریب قریب ناچ ہو۔ ان کے کھانے کا صرف‘تصرُفی باورچی خانے میں ٹھہرا۔ ہندو کو : پوری کچوری‘ مٹھائی‘ اچار۔ مسلمان کو : پُلاو‘ قلیہ‘ زردہ‘ قُورمہ؛ ایک آبی‘ دوسری شیر مال؛ فِرنی کا خوانچہ؛ تشتری کباب کی‘ بہت آب و تاب کی۔ شہر میں گلی گلی عیش و طرب‘ خوشی میں چھوٹے بڑے سب ‘نہ کسی کو کسی سے غرض نہ مطلب۔ پکا پکایا کھانا کھانا‘ دُوکانوں میں بیٹھے ہر وقت ناچ دیکھنا، سرکار کا کام بنانا‘ بغلیں بجانا۔ بیت :

بہشت آنجا کہ آزارے نباشد (۱)
کسے را با کسے کارے نباشد

اور اس سے پہلے بہ تعیُنِ روزِ شادی؛ نامے بادشاہوں کو‘ فرمان راجہ بابو کو‘ صوبے دار وں کو شُقے‘ عاملوں کو پروانے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۳۹

جا چکے تھے۔ دو چار منزل گِرد پیش‘ سرِراہ دو دو کُوس کے فاصلے سے باورچی اور حلوائی کھانا‘ مٹھائی گرماگرم تیار کیے بیٹھے رہتے تھے کہ اس عرصے میں جو مسافر گزرے‘ یا طلبیدۂ بادشاہ آئے؛ بھوکا نہ جائے۔ اور مُژدۂ شادی راہ چلتوں کو سُنا‘ شہر میں بھیج دیتے تھے کہ یہ جلسہ قابلِ دید ہے۔

غرض کے دو منزل‘ چار منزل بلکہ دس بیس دن کی راہ سے‘ تماش بین بےفِکرے لکھنؤ والوں سے‘ سیر دیکھنے کو آئے۔ اور ساچق کا دن آیا۔ اگر سب سامان بیان کروں‘ کہانی ناتمام رہ جائے؛ مگر وہی مشتے نمونہ از خروارے۔ پچاس ہزار چوگھڑے: رُپہلے، سنہرے‘ جواہر نگار‘ نُقل اور میوے سے لبالب۔ لاکھ خوان: بہ حُسن و خوبیِ بِسیار‘ پُرتکُلف سب؛ پچاس ہزار میں مِصری کے کوزے‘ باقی میں میوا۔ اور قند کی چھبڑیاں مُرصِع کاری کی‘ بڑی تیاری کی۔ نُقرئی دہی کی مٹکی‘ گلے میں مچھلیاں ناڑے سے بندھیں۔ آرایش کے تخت بے حساب‘ اس روش کے جن کے دیکھنے سے صناعی سانِعِ حقیقی کی یاد آئے۔ گُل بؤٹا اس سج دھج کا‘ جو نقل کو اصل کر دکھائے۔ آتش بازی کے ٹُوکرے قطار در قطار‘ بے پایاں۔ سزو، جھاڑ، درختِ میوہ دار ہزار در ہزار، لا بیان۔ بہت تُزُک، بڑا سامان۔ آرائش کے گُلدستوں سے چمنِ رواں ساتھ تھا۔ سرِدست یہ باغ ہاتھوں ہاتھ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۰

اس انداز سے ساچق گئی۔ مہندی کی شب ہوئی۔ وزیرِ درست تدبیر نے خوب تیاری کی۔ نارنول کی مہندی ہزارہا من بوباس میں دُلھن پن۔ وہ رنگین جس کی دید سے دستِ نظارہ مِثل پنجۂ مرجاں رشکِ عقیقِ یمن ہو جائے، سُرخ رؤ ہمہ تن ہو جائے۔ ایک بار لگائے، لال ہو؛ تمام عمر کف افسوس ملتا رہے۔ نہ ہاتھ لگنے کا ایسا ملال ہو۔ بہ ظاہر سب، ہری؛ جگر میں سُرخی کوٹ کوٹ کے بھری۔ جڑاؤ سینیوں میں حِنا، شمعِ مُومی و کا فوری اُس پر رُوشن۔ ملیدے کے خوانوں پر جُوبن آرائش۔ اور آتش بازی ہمراہ۔ سب کے لب پر واہ واہ۔ بہت چمک دمک سے مہندی لایا اور یہ رنگ ڈھنگ حُسنِ تدبیر سے دکھایا کہ تمام ہم چشموں میں سُرخ رو ہوا۔

برات کی رات کا حال سُنو : دیوانِ خاص سے دلہن کا مکان چار پانچ کوس تھا۔ یہاں سے وہاں تک دونوں طرف بلؤر کے جھاڑ آدمی کے قد سے دوچند، سو سو بتی کے سربلند، پانچ چھے گز کے فاصلے سے رُوشن۔ اور دس گز جُدا نُقرئی، طلائی پنج شاخہ جلتا۔ اُن سے کچھ دور ہزاروں مزدور، ٹھاٹھروں پر روشنی کرتے۔ جھاڑ رشکِ سردِ چراغاں، چمکتے، جابہ جا تِر پۃلِیے اور نوبت خانے بنے؛ کتھک اتھک اُن پر ناچتے، نوبت بجتی، مُغرق شامیانے تنے۔ اس کے قریب دورویہ آتش بازی گڑی، خلقتِ خدا تماشہ دیکھنے کو کھڑی۔ رُوشنی یہ رُوشن تھی کہ چیونٹی، سوار کو بہ ہیئتِ مجموعی، مفصل معلوم ہوتی تھی۔

غرض نوشہ سوار ہوا۔ شورو غُل یک بارہوا۔ کسی نے کہا : سواری جلد لانا! کوئی پٹکا، شملہ سنبھال خدمت گار کو پُکارا کہ ہاتھی بٹِھانا!
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۱

پلٹنیں آگے بڑھیں، عربی باجے بجنے لگے۔ کُوس وکور گرجنے لگے۔ نوبت ونشان، ماہی مراتِب، جلوس کا سامان۔ سواروں کے رِسالے دورؤیہ باگیں سنبھالے۔ خود اسپے، اِکے، بیش قرار درما ہے دار۔ پھر ہزار بارہ سے تختِ رواں، تمام تمامی سے منڈھا۔ اُن پر طنڈیاں جوان جوان، شادی مبارک گاتیں؛ سج دھج دِکھا، کر طبلے بھڑ بھڑاتیں۔ بہت سے سانڈنی سوار تیز رفتار۔ خاص بردار: خاصِیاں کندھوں پر، دولھا کے برابر۔ اُن کے قریب، برچھے والے، بان دار، چُوبدار۔ روشن چوکی والے: شہنائیں پُر تکُلف، سُر نرالے۔ ہزاروں غلام زریں کمر، سُنہری رُپہلی انگیٹھیاں ہاتھوں میں؛ جُھولی میں عنبرِ سارا، عود غرقی بھرا، سارا شہر مہکتا۔ گِرد ہزارہا پنج شاخہ پُھنکتا، سُونے چاندی کی دستیاں رُوشن، مُتملوں پر جوبن۔قُرمیں چالیس بادشاہ پُرشوکت و جاہ۔ پیچھے بارہ ہزار ہاتھیوں پر امیر وزیر، ارکانِ سلطنت، ترقی خواہ۔ خواصی میں انجمن آرا کا بھائی، جان عالم کا سالا بجائے شہ بالا۔ آہستہ آہستہ، قدم قدم خوش و خُرم چلے۔ کوچہ و بازار بو باس معطر تھا۔ چرخِ گرداں دیدۂ دیدبانِ چارُم سے تماشائی تھا، یہ سامان تھا۔ دشت کاوحش وطیرحیران تھا۔

پہر رات رہے دُلھن کے دروازے پر پہنچے۔ ماما، اصییلیں دوڑیں؛ پانی کا تشت ہاتھی کے پاؤں تلے پھینکا۔ کسی نے کچھ اور ٹُوٹکا کیا۔ دولھا ُاتر کر مجلس میں داخل ہوا۔ بارہ سے طائفہ رنڈیوں کا؛ سوائے بھانڈ، بھگتیے، ہیجڑے، زنانے، کشمیری قوال، بین کار،
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۲

ربابیے، سرُو دِیے کے؛ حاضر تھا۔ ناچ ہونے لگا۔ قریبِ صُبح قاضی طلب ہوا۔ بہ ساعتِ معین کئی سلطنت کے خِراج پر مہر بندھا۔ طالب و مطلوب کو سِلکِ ازدِواج میں مُنسلک کیا۔ مُبارک سلامت کا غُل مچا۔ میرسوز:

فلک شب کتخُدائی دیکھ اُس کی، سوزؔ!یوں بولا (۱)
تجھے یہ رات، اے رشکِ مہِ انورمبارک ہو

سب طائفے ساتھ کھڑے ہوں، ایک سُر میں مبارک باد گانے لگے۔ حوصلے سے زیادہ انعام پانے لگے۔ دولھا زنانے میں طلب ہوا: وہاں رسمیں ہونے لگیں۔ وہ بھی عجب وقت تھا: آرسی مصحف رؤ بہ رؤ، محبوبِ دل خواہ دؤ بہ دؤ؛ سؤرۂ اِخلاص کُھلا، آئینہ رؤنُمائی میں مز؁ لؤٹتا، سلسلۂ محبت مُستحکم ہو رہا۔ ڈُومنیوں کا سِٹھنِیاں گانا، دولھا دُلھن کا شرمانا۔ کبھی ٹُونے، گاہ اچھے بنے سلُونے۔ ہمجُولیوں کا پوچھنا: ٹُونا لگا؟ دولھا کا ہنس کےکہنا : عرصہ ہوا۔ کوئی دُلھن کی جُوتی، دولھاکے شانے میں چُھو گئی۔ کوئی اُسی کا کاجل پارا ہوا لگا گئی۔ ہم سِنُوں کی چَھیڑ چھاڑ، اُن کے جُوبن کی بہار، رقط ململ اور شبنم کے دوپٹوں کی آڑ۔ جس عم یہ رسمیں ہو چکیں، نو بات کی نوبت آئی؛ اِس طرح چُنی، کہ دیکھی نہ سُنی۔ میر حسن :

وہ جب پاؤں پر کی اُٹھاتے اڑا
نہیں اور ہاں کا عجب غُل پڑا (۲)

جس دم یہ رسمیں ہو چکیں؛ پھر ڈُومینوں نے پاہنی گائی، سب کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۳

چھاتی بھر آئی۔ دُلھن سے رُخصت ہونے لگے، رُو رُو جی کُھونے لگے۔ سواری تیار ہو کے دروازے پر آئی۔ دولھا نے سہرا سِر سے لپیٹ دُلھن کو گُود میں اُٹھایا سب کا دل اُمنڈ آیا، شُور و غُل مچایا۔ دُنیا کے کارخانے قابلِ دید ہیں، بلکہ دید ہیں نہ شنید ہیں۔ شادی میں غم سلف سے توام ہے؛ مگر ثبات بجز ذاتِ باری کسی کو نہیں۔ مُقدماتِ جہانِ گُذراں خوابِ پریشاں ہیں، اس میں سب حیراں ہیں۔ مُؤلف :

اک وضع پر نہیں ہے زمانے کا طور، آہ
معلوم ہو گیا مجھے لیل و نہار سے

غرض کہ دُلھن کو سُکھپال میں سوا کیا۔ بادشاہ نے اسبابِ ضروری، سامانِ ظاہری کے سِوا، مُلک و سلطنت و خزانہ جہیز میں لکھ دیا۔ بارت رُخصت ہوئی۔ وہ اِہتِمام، تجمُل، سواری کا سامان۔ ہر شخص خُرم و خنداں۔ جہیز کا آگے بڑھنا، لوگوں کا دولھا پر دُعائیں پڑھنا۔ نسیمِ سحر کا چلنا، شمع کا جَھلمِلا جِلمِلا کے جلنا۔ شہنا میں بھیرُوں، بِبھاس، الیا، للت، رام کلی کا پھؤنکنا۔ نقیب اور چُوبداروں کا کُوئل کی طرح کؤکنا۔ نوبت کی ٹکُور، جھانجھ کا جھانجھ سے شُور۔ جُھٹ پُٹا وقت، نؤر کا تڑکا۔ کڑکیتُوں کا سومیل کڑکا۔ کچھ کچھ تاروں کی چمک۔ نقاروں کی صدا، دھونسے کی گُمک۔ چاند کے مُنہ پر سفیدی، دُلھن والوں کی یاس و نااُمیدی۔ عِطر کی ہر سؤ لپٹ، پھولوں کی مہک۔ سب کو نیند کا خُمار، کوئی پیادہ کوئی سوار۔ فرش
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۴۴

باسی ہار پھولوں سے رشکِ صحنِ چمن؛ کہیں جُھول، کہیں شِکن۔ کسی جا پکھروٹے اوور بیڑُوں کے پتے کُھلے پڑے، کہیں لوگ حیران و ششدر کھڑے۔ مجلس کے فِراق میں، اہل محفل کے اِشتِیاق میں، شمع کی زاری، اشک باری۔ لگن میں پروانوں کی بے قراری، خاکساری۔ دولھا کے لوگوں کی خوش بشاش تیاری، دُلھن کے گھر میں نالہ و زاری۔ کوئی کہیں نیند کی جُھونک میں پڑا، کوئی یہ سامان بہ چشمِ عبر دیکھ، تاسُف میں کھڑا۔ شمع فانوس میں گُل۔ گُل، گُل گیر میں۔ زِیر انداز پر پروانوں کے پر، فراش فرش اُٹھانے کی تدبیر میں۔ بیٹھی ہوئی ہر ایک کی آواز کہیں سوز، کہیں ساز۔ یہ وقت دیکھنے کے قابل ہوتا ہے، راہ چلتا بھی دیکھ کر رُوتا ہے ۔ اِس کی لذت وہ جانے، جس کی نظر سے یہ ہنگامہ گُذرا ہو۔ کسی کی برات دیکھی ہو، گُو بیاہ نہ کیا ہو۔

قصہ مُختصر، دولھا شِگُفتہ خاطِر، خنداں۔ چہرے پر شباب کی چمک، عارِضِ تاباں سے حُسن کی بہار عیاں۔ ہاتھی پر سوار، گِرد شاہ و شہریار۔ زرِ سُرخ و سفید نِثار ہوتا۔ سرِ چوک پہر بجے دیوانِ خاص میں داخل ہوا۔ اب گھر پہنچنے کی ریت رسم ہونے لگی۔ دولھا دُلہن جب اُترے؛ بکرا ذبح کیا انگوٹھے میں لہو لگا دیا، پھر کھی کھلائی۔ رسموں سے فرصت پائی۔ اب یہ مُنتظِر ہوئے کہ شام ہو، وصل کا سر انجام ہو۔ اُس دن جانِ عالم کا گھبرانا، گھڑی گھڑی گھڑیالی سے دِن کی خبر منگوانا دیکھنے کی گوں تھا۔ بدحواس پھرتا تھا کہ کہیں جلد رات ہو، بے تکلفی کی ملاقات
 
Top