اوشو
لائبریرین
صفحہ 108
-------------------
بَزّاز، تو اُدھر بھی۔ صَرّاف کے مُقابِل صَرّاف۔ بازار کا صَحن نفیس، شفّاف۔ جوہری کے روبہ رو جوہری۔ زَر و جواہِر کا ہر سِمت ڈِھیر۔ نَقد و جِنس سے ہر شخص سِیر۔ کوئی شَے، کسی طرح کا اسباب ایسا نہ تھا کہ اس بازار میں نہ تھا۔ مغرب و مشرق کے اَشیاے نادِرہ کا ہر جا انبار تھا۔ جَنوب و شِمال کا خریدار تھا۔ حلوائی، نان بائی، کُنجڑے، قَصائی۔ سَقُّوں کے کٹوروں کی جھَنکار۔ میوہ فروشوں کی پُکار۔ دَلّالوں کی بُول چال۔ جہان کا اسباب و مال۔ نہر کی کیفت جُدا، قَدِّ آدم آبِ مُصفّیٰ۔ فُوّاروں سے کیوڑا، گُلاب اُچھلتا؛ بازار مَہَک رہا، مسافر ہر ایک بہک رہا۔ ہر طَرَف دھوم دھام، خَلقَت کا اِزدِھام۔ چلنے پھرنے والوں کے کپڑے، لتّے ہوئے جاتے تھے۔ وَہم و گُماں کَشمَکش سے بار پاتے تھے۔
جانِ عالم قُدرتِ حق دیکھتا جاتا تھا، ہوش بَر جا نہ آتا تھا۔ دل سے کہتا تھا: اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیر۔ کیا ملک ، کیا سلطنت، کیا شہر و بازار ہے! کیا بیوپاری ہیں، کیسا کیسا خریدار ہے! ہر شخص کو آرام و راحت ہے، کیا بَندوبست با اِنتِظام ہے، کیا حکومت ہے! جب چوک میں آیا، پوچھا: اَیوانِ جہاں پناہ، دَولت سَراے شاہ کی کدھر راہ ہے؟ لوگوں نے کہا: دَستِ راست سیدھے چلے جائیے۔ پیاس لگی تو شربت حاضر ہے۔ بھوک ہو تو جس شَے پر رغبت ہو، کھائیے۔ مَدِّ نظر مسافر نوازی ہے، جو چیز ہے گرما گرم، تازی ہے۔ اَلغَرض بازازر طے کر قریبِ عِماراتِ بادشاہی جب آیا، اُن مکانوں کو نِرا طِلِسم پایا۔ عقل کام نہ کرتی تھی۔ ہر کُنگُرہ ایوانِ فلک سے
-------------------
بَزّاز، تو اُدھر بھی۔ صَرّاف کے مُقابِل صَرّاف۔ بازار کا صَحن نفیس، شفّاف۔ جوہری کے روبہ رو جوہری۔ زَر و جواہِر کا ہر سِمت ڈِھیر۔ نَقد و جِنس سے ہر شخص سِیر۔ کوئی شَے، کسی طرح کا اسباب ایسا نہ تھا کہ اس بازار میں نہ تھا۔ مغرب و مشرق کے اَشیاے نادِرہ کا ہر جا انبار تھا۔ جَنوب و شِمال کا خریدار تھا۔ حلوائی، نان بائی، کُنجڑے، قَصائی۔ سَقُّوں کے کٹوروں کی جھَنکار۔ میوہ فروشوں کی پُکار۔ دَلّالوں کی بُول چال۔ جہان کا اسباب و مال۔ نہر کی کیفت جُدا، قَدِّ آدم آبِ مُصفّیٰ۔ فُوّاروں سے کیوڑا، گُلاب اُچھلتا؛ بازار مَہَک رہا، مسافر ہر ایک بہک رہا۔ ہر طَرَف دھوم دھام، خَلقَت کا اِزدِھام۔ چلنے پھرنے والوں کے کپڑے، لتّے ہوئے جاتے تھے۔ وَہم و گُماں کَشمَکش سے بار پاتے تھے۔
جانِ عالم قُدرتِ حق دیکھتا جاتا تھا، ہوش بَر جا نہ آتا تھا۔ دل سے کہتا تھا: اِنَّ اللہَ عَلیٰ کُلِّ شَی ءٍ قَدِیر۔ کیا ملک ، کیا سلطنت، کیا شہر و بازار ہے! کیا بیوپاری ہیں، کیسا کیسا خریدار ہے! ہر شخص کو آرام و راحت ہے، کیا بَندوبست با اِنتِظام ہے، کیا حکومت ہے! جب چوک میں آیا، پوچھا: اَیوانِ جہاں پناہ، دَولت سَراے شاہ کی کدھر راہ ہے؟ لوگوں نے کہا: دَستِ راست سیدھے چلے جائیے۔ پیاس لگی تو شربت حاضر ہے۔ بھوک ہو تو جس شَے پر رغبت ہو، کھائیے۔ مَدِّ نظر مسافر نوازی ہے، جو چیز ہے گرما گرم، تازی ہے۔ اَلغَرض بازازر طے کر قریبِ عِماراتِ بادشاہی جب آیا، اُن مکانوں کو نِرا طِلِسم پایا۔ عقل کام نہ کرتی تھی۔ ہر کُنگُرہ ایوانِ فلک سے