کبھی تو گل،کبھی شبنم کبھی نکہت کبھی رنگ
تُو فقط ایک ہے لیکن تجھے کیا کیا سمجھوں
ظلم یہ ہے کہ ہے یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں
میں شاعر ہوں مجھے فطرت کے نظاروں سے الفت ہے
مرا دل دشمنِ نغمہ سرائی ہو نہیں سکتا
مجھے انسانیت کا درد بھی بخشا ہے قدرت نے
مرا مقصد فقط شعلہ نوائی ہو نہیںسکتا
جواں ہوں میں جوانی لغزشوں کا ایک طوفاں ہے
مری باتوں میں رنگِ پارسائی ہو نہیں سکتا