اب آئیں بائیں شائیں سے کام نہیں چلے گا ....حرف تمنا …ارشاد احمد حقانی
پاکستان کے نقطہ ٴ نظر سے قومی منظر نامہ ہر حوالے سے زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس وقت بہت سے محاذوں پر حالات بگڑ رہے ہیں اور بظاہر ان کی اصلاح کے لئے کوئی متفقہ اور متحدہ اور مضبوط موٴقف اختیار کیا جاتا دکھائی نہیں دیتا۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات جس طرح بگڑ رہے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ قومی سطح پر اس حوالے سے ایک جامع پالیسی مرتب کی جائے جس کے آثار ابھی تک ظاہر نہیں ہو رہے۔ ن لیگ کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان کا یہ مطالبہ بالکل قابل فہم، بروقت اور اہم ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی موجودہ صورت حال کی تمام جہتوں پر غور اور فیصلہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا فوری اجلاس بلایا جائے۔ ان کی تجویز ہے کہ اس اجلاس میں پارلیمنٹ یک زبان ہو کر امریکہ سے یہ وضاحت طلب کرے کہ وہ پاکستان کا دوست ہے یا دشمن۔ چوہدری صاحب نے کہا کہ حالات سنگین ہیں لیکن سیاسی حکومت خاموش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم گیلانی واضح لائحہ عمل اختیار کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ فوجی قیادت کے بیانات اور اس کا موٴقف تب ہی موٴثر ثابت ہو سکتا ہے جب ملک کی سیاسی قیادت بھی اپنی آواز عالمی سطح پر اٹھائے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت چوہدری نثار علی خان کو اس لئے پیش آئی ہے کہ جنرل کیانی کے بیان کے باوجود سیاسی حکومت نے کیانی کے موٴقف کے حق میں کوئی مضبوط آواز بلند نہیں کی۔ وزیر اعظم گیلانی نے اگرچہ کہا ہے کہ جنرل کیانی کا بیان سیاسی حکومت کی سوچ کا بھی آئینہ دار ہے لیکن آج انہوں نے اپنے اس بیان کی جزوی تردید بھی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہم امریکہ سے اس کے حملوں کے حوالے سے صرف سفارتی سطح پر بات کر سکتے ہیں، جنگ نہیں کر سکتے۔ ہم مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کو ختم کر کے دم لیں گے۔ ظاہر ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے اگر امریکہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا تو یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو جاتا جب جنرل کیانی کے بیان سے پہلے حکومت پاکستان کے ایک ذمہ دار نمائندے نے امریکہ کو متنبہ کر دیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین کے اندر امریکی حملوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ معاصر ”دی نیوز“ کی اطلاع کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے نیٹو فورسز کو پاکستان کے اندر کارروائی کرنے کی اجازت نہ دینے سے متعلق بیان سے 5 روز قبل اسلام آباد نے امریکی انتظامیہ کو 5 ستمبر کو رسمی طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ پاکستان کے علاقے میں امریکی یا نیٹو فورسز کے کسی حملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ تین ستمبر کو پاکستان کے اندر امریکہ کے پہلے زمینی آپریشن کے بعد وزیراعظم گیلانی کے قومی سلامتی کے مشیر میجر جنرل محمود درانی نے رسمی طور پر اپنے امریکی ہم منصب اسٹیو ہیڈلے کو تحریر کرتے ہوئے انتباہ کیا تھا کہ پاکستان اپنی حدود میں کسی غیر ملکی فورس کو کارروائی کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ انتباہ آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے سے ایک روز قبل کیا گیا تھا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ حکومت پاکستان اس خط کو عوام کے سامنے لا سکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ خط میں درانی نے امریکی انتظامیہ پر واضح کر دیا ہے کہ اتحادی فورسز کے ساتھ تعلقات کے قواعد اچھی طرح واضح ہیں اور ان میں ایسی کوئی دفعہ نہیں ہے کہ جس سے افغانستان میں موجود امریکی یا نیٹو فورسز کو پاکستان کی حدود میں کارروائی کی اجازت ملتی ہو۔اگرچہ 40 سے زائد موقعوں پر افغانستان میں امریکہ کی قیادت میں اتحادی فورسز نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائلوں سے حملے کئے ہیں تاہم تین ستمبر کا زمینی آپریشن منفرد تھا اور اس نے اسلام آباد میں گھنٹیاں بجا دیں۔ لہٰذا حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی کے ساتھ واشنگٹن کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا۔پاکستان میں اتحادی فورسز کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے اسلام آباد میں پالیسی سازوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ سنجیدگی سے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اسلام آباد کی پالیسی کا جائزہ لیں۔
معاصر کی رپورٹ کے مطابق اگر اتحادی فورسز کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے اسلام آباد میں پالیسی سازوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ سنجیدگی سے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اسلام آباد کی پالیسی کا جائزہ لیں تو اس کا بہترین طریقہ وہی ہے جو چوہدری نثار علی خان نے پیش کیا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کا موٴقف اتنا وزنی ہو گا کہ جنرل کیانی کے انتباہ کا وزن کئی گنا بڑھ جائے گا اور دنیا کو معلوم ہو گا کہ پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے، اسے امریکہ کی پالیسی کی کن جہتوں پر اعتراض ہے اور پاکستان اور امریکہ کے لئے آیا کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ممکن ہے جس کے ذریعے تصادم کے بغیر پالیسی کے خطوط پر اتفاق ہو سکے۔ ہمیں اس مرحلے پر یہ تلخ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے پاکستان اور امریکہ کے نقطہ ہائے نظر میں واضح تضادات ابھر چکے ہیں جس کا ایک اظہار سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے ایک سینئر خاتون افسر کے بیان سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے :
Lisa Curtis, a former senior adviser on South Asian issues in the State Department, told reporters that Pakistan's inability to dismantle "terrorist safe havens" in Fata had caused the US administration to decide "that 'enough is enough' and they needed to take these steps in order to try to take care of the problem on their own." The move, she said, could be attributed to Pakistan's attempt to forge peace deals with militants in the tribal areas recently that followed heavy causalties suffered by US-led coalition forces in Afghanistan.
اس کا ترجمہ یہ ہے :
”امریکی محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیائی امور کی ایک ماہر خاتون افسر نے رپورٹروں کو بتایا ہے کہ فاٹا میں (ان کے بقول) موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے میں پاکستان کی ناکامی نے امریکی انتظامیہ کو مجبور کر دیا ہے یہ کہنے پر کہ ”بس بہت ہو چکا“ اور انہیں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے خود اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس خاتون نے کہا کہ اس امریکی سوچ کی ایک وجہ پاکستان کی وہ کوششیں ہیں جو وہ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں سے امن مذاکرات کے لئے کر رہا ہے حالانکہ ان سے عین پہلے امریکی افواج کو افغانستان میں بہت سخت جانی نقصان ہو چکا تھا“۔
اس تبصرے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فاٹا کی صورتحال کو معمول پر لانے کے لئے امریکہ اور پاکستان کی سوچ کے زاویوں میں صریح تصادم ہے۔ اس سے پاکستانی حکومت کو معلوم ہوجانا چاہئے کہ سفارتکاری کے ذریعے یہ مسئلہ اب آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے جیسا کہ وزیراعظم گیلانی اور وزیر دفاع احمد مختار نے کہا ہے۔ امریکہ سے جنگ کرنا تو کوئی بھی پاکستانی نہیں چاہتا لیکن جب امریکہ ایسے حالات پیدا کر دے جن میں جنرل کیانی کو اپنا حالیہ بیان دینا پڑا تو ہم محض سفارتکاری پر انحصار کر کے مطمئن نہیں ہو سکتے کیونکہ امریکہ کے نزدیک ہماری اور اس کی اپروچ میں نمایاں فرق بلکہ تضاد ہے۔
اندریں حالات یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ چوہدری نثار علی خان کی تجویز کے مطابق فوری طور پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جانا چاہئے (پارلیمنٹ، قومی اسمبلی اور سینٹ کے دونوں ایوانوں کو کہا جاتا ہے) اگر یہ اجلاس بلانے میں تاخیر ہوئی اور ہمارا اجتماعی ردعمل فوری طور پر سامنے نہ آ سکا تو امریکہ کو اپنی مہم جوئی سے باز رکھنا مشکل تر ہو جائے گا۔ اب پاکستان کی سویلین قیادت کو بالکل کھل کر دو ٹوک موٴقف اختیار کرنا پڑے گا اور اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے اس کی ادائیگی کے لئے قوم کو تیار رہنا ہو گا۔ یقینا یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل صورتحال ہے لیکن مشکلات کا مقابلہ کوئی بھی قوم اپنے اتحاد او راتفاق اور یکجہتی سے ہی کر سکتی ہے ۔ کیا ہم یہ اتحاد اور یکجہتی فوری طور پر بروئے کار لا سکیں گے؟
ایک مراسلہ
اہل وطن کی زرپرستی پایہ ثبوت کوپہنچی !
قریہ قریہ جشن بپا ہے ۔
مبارک سلامت کہنے والوں کا اژدھام ہے۔
بڑے بڑے ملک، چوہدری، مولوی ملا، خادم، مخدوم، گھوڑے کھول کر بگھی میں جت گئے ہیں۔ اور شہنشاہ معظم کے قدموں کا بوسہ لینے کے لئے بے تاب ہیں۔ خلقت خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی ہے لیکن اس ہجوم میں کچھ کمزور لوگ نیچے گر گئے ہیں جن میں آمنہ مسعود عافیہ صدیقی افتخار چوہدری ڈاکٹر قدیر خاں حقانی صاحب (معہ قارئین کرام) پہچانے جا رہے ہیں۔
مشرف کے جانے سے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔
جج بے حال تھے، سو اب بھی ہیں۔
غریب نان جویں کو محتاج تھے، سو اب بھی ہیں۔
غریب پہلے بھی مارے جا رہے تھے، اب بھی مارے جا رہے ہیں۔ جادوئے محمود میں جو تاثیر پہلے تھی، اب بھی ہے۔
بھارت نے ڈاکٹر رادھا کرشنین اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسی عالمی شہرت یافتہ، سنجیدہ، باوقار شخصیات کو صدر بنا کر اس عہدے کا وقار بلند کیا اور ہم نے .........
بس قبلہ محترم !قلم توڑ دو
بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا۔
سارے اعمال ایک دن اپنے منطقی انجام کو پہنچتے ہیں۔
آپ کی خیریت، صحت اور طول عمر کا طالب اور دعا گو
احقر
عادل اختر
راولپنڈی کینٹ