ظفر اقبال نے ایک مرتبہ
کنہیا لال کپور کی باتیں کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا، اس سے اقتباس ہے:
ایک مشاعرے کی صدارت کے لیے ایک دوست کے ہمراہ جا رہے ہیں کہ راستے میں ایک شاعرہ مس شمن بھی ساتھ ہو لیں‘ بولیں آپ نے ''شمن پٹاری‘‘ دیکھی؟ میں نے کہا‘ نہیں‘ پھر کہا ''شمن کیاری‘‘ ؟۔ میں نے انکار میں سر ہلایا۔ پھر بولیں ''شمن چنگاری‘‘؟ میں نے کہا نہیں‘ پھر بولیں‘ خیر کوئی بات نہیں۔ میرے پاس تینوں موجود ہیں۔ یہ کہتے ہی انہوں نے جھٹ اپنے بیگ میں سے ہندی کی تین چھوٹی چھوٹی کتابیں نکالیں اور کہا‘ کویتا سُنیں گے؟ میں نے مجبوراً اثبات میں سر ہلایا‘ بولیں‘ یہ ایک کویتا ہے جو میں نے اکیس برس کی عمر میں لکھی تھی۔ پہلا بند ہے :
شوں شوں کرتی... شاں شاں کرتی
بھک بھک کرتی... شک شک کرتی
چلی جا رہی ہے... اک گاڑی
کھرڑ کھرڑ کھڑ... گھرڑ گھرڑ گھڑ
گھڑ گھڑ کرتی... بھرڑ بھرڑ بھڑ
بھرڑ بھرڑ بھڑ... بھڑ بھڑ کرتی
چلی جا رہی ہے... اک گاڑی
شک شوں شک شوں... شک شوں کرتی
چھپ چھوں چھپ چھوں... چھپ چھوں کرتی
ٹپ ٹوں ٹپ ٹوں... ٹپ ٹوں کرتی
چلی جا رہی ہے... اک گاڑی
بولیں کہ اس کویتا کے اکیس بند تھے کیونکہ انہوں نے یہ نظم اکیس برس کی عمر میں لکھی تھی۔ پھر کہا۔ اچھا اب سُنیئے کوئل اور کوّا...
ایک تھا کوّا، ایک تھی کوئل
کوئل کُوکی کُو کُو کُو کُو
کوّا بولا کائیں کائیں
کوئل اب کے کُچھ نہ بولی
کوّا بولا کوئل پیاری
گھر کر آئی بدریا کاری
آئو چلو جمنا تٹ جائیں
ناچیں کُودیں شور مچائیں
کوئل کُوکی کُو کُو کُو کُو
کوّا بولا کائیں کائیں
میں نے ان دونوں کو ڈانٹا
کیا کرتے ہو‘ ہائیں ہائیں