قائد اور اتاترک

arifkarim

معطل
جی جناب یہ کھلا تضاد نہیں ۔۔۔ بلکہ یہ کھلا انصاف ہے کہ اس ملک میں اقلیتوں کو بھی اعلٰی سیٹوں پر نمائندگی دے کر یہ دکھا دیا کہ اسلام اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کرتا ہے ۔۔۔ !
یعنی قائد اعظم کا لبرل اسلام۔ نہ کہ ملا کا اسلام جو کہتا ہے کہ غیر مسلم اور قادیانی وزیر تو کیا ملکی سیاست میں قدم تک نہیں رکھ سکتا! کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ جو کہ قادیانی تھا نے استعفیٰ 1954 کیوں دیا تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیر قانون جو کہ ہندو تھا نے 1950 میں استعفیٰ کیوں دیا تھا؟
 

نایاب

لائبریرین
نایاب صاحب
ظاہر پرستوں کو ظاہری وضع قطع کی ضرورت ہوتی ہے لیکن احبابِ بصیرت کو
قائد کا یہ قول؛
اور
علامہ اقبال کا یہ ایک مصرع کافی ہے

میرے محترم بھائی آپ نے بالکل درست کہا مگر
کیا ان اقوال کی مدد سے ان دونوں محترم ہستیوں کو " متشرع مسلمان " یا عام معنی میں " ملائیت " کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ؟
میری نگاہ میں یہ دونوں ہستیاں بلاشبہ انسانیت کے عظیم درجوں پہ فائز ہیں ۔
 
"Another great figure, a world figure, that has passed away is Mustafa Kemal Ataturk. His death has come as the greatest blow to the Muslim East. In Persia and Afghanistan, in Egypt and of course in Turkey, he demonstrated to the consternation of the rest of the world that Muslim Nations were coming into their own. In Kemal Ataturk the Islamic world has lost a great hero. With the example of this great man in front of them as an inspiration, will the Muslims of India still remain in quagmire?"
[Muhammad Ali Jinnah's Presidential Address at the annual session of the All-India Muslim League held at Patna, 26th-29th December, 1938]

Source: Some Recent Speeches and Writings of Mr. Jinnah, Jamil uddin Ahmed, 1942, pg 66
یقیناّ قائد نے ایسا ہی کہا ہوگا، یہ کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے۔۔۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ اس سے کیا برآمد کرنا چاہتے ہیں؟
قائد مصطفیٰ کمال کی وفات پر تعزیتی بیان میں اسے خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟مصطفیٰ کمال کی تعریف تو علامہ اقبال نے بھی کی ہے۔ دیکھنا تو یہ ہوگا کہ ہم جب کسی شخص کی تعریف کرتے ہیں تو کس حوالے سے کرتے ہیں۔
جب پہلی جنگِ عظیم کے نتیجے میں ترکی کو شکست ہوگئی اور قریب تھا کہ ترکی کے حصے بخرے کر لئے جاتے، ایسے نازک وقت میں مصطفیٰ کمال ، جو ایک فوجی جرنیل تھا ، آگے بڑھا اس نے ترک افواج کی کمان سنبھالتے ہوئے ترک سلطنت کے کئی علاقے اور شہر اتحادی افواج سے واپس چھین لئے۔ چنانچہ برصغیر کے مسلمان، جو خلافتِ عثمانیہ کے ساتھ ایک مذہبی اور جذباتی وابستگی رکھتے تھے اور ترکی کی شکستوں سے ملول اور مضطرب تھے، یکایک مصفیٰ کمال کے مدّاح بن گئے۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ سب لوگ اسے مسلمانوں کا ایک جانباز ہیرو سمجھنے لگے۔ ڈاکٹر اقبال نے بھی طلوعِ اسلام جیسی معرکۃ الآراء نظم لکھی۔ اور سب کو مصطفیٰ کمال کی شکل میں مسلم امہ کا نجات دہندہ نظر آنے لگا۔
لیکن جب اس نے اپنے مخصوص فکری رحجان کی وجہ سے ترک قوم کے مصائب کی وجہ مذہب کو قرار دیا اور یورپین اقوام سے ہم پلہ ہونے کیلئے انہی کی طرح اپنی قوم کی شناخت مذہب کے حوالے سے کرنے کی بجائے زبان، علاقے اور نسل کے ساتھ وابستہ کی تو ڈاکٹر اقبال ہی نہیں، بہت سے آبگینوں کو ٹھیس پہنچی اور وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا۔۔۔
یعنی اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس شخص میں صلاحیتیں تھیں، لیکن مسلم امہ کی مرکزیت اور خلافت کے حوالے سے جو توقعات اس سے وابستہ کرلی گئی تھیں، وہ پوری نہ ہوسکیں۔
نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں ہے نمود اسکی۔۔
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

چنانچہ اگر قائدِ اعظم نے بھی اسکی تعریف کی تو اس حوالے سے کہ اس نے بڑے نازک وقت میں ایک شکست خوردہ اسلامی ملک کی باگ ڈور سنبھالی اورImmediate Threats & Challenges سے اچھی طرح عہدہ برآ ہوتے ہوئے ایک مسلمان ملک کو اغیار کی غلامی سے بچایا۔ قائد کی یہ Statementیہ ایک حقیقت پسندانہ سوچ کی مظہر ہے، حقیقت پسندی اور آئیڈیلزم میں فرق ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اور اسی تناظر میں یہ بیان دیکھنا چاہئیے۔ قائدِ اعظم ایک حقیقت پسند لیڈر تھے اور انہوں نے اقبال کے آئیڈیلزم کو ایک محدود فریم ورک میں Actualizeکرکے دکھایا۔ محمد علی جناح کو ڈاکٹر اقبال بنانے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی حقیقت سے بہت بعید ہوگی اگر کہا جائے کہ قائد اعظم، اتاترک کو اپنا رول ماڈل سمجھتے تھے یا یہ کہ اسکے نظریات کے پیروکار تھے۔ انہوں نے جس تناظر میں اسکی تعریف کی ہے اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہئیے یعنی ایک مسلم ملک کا ہیرو جس نے اپنے ملک کو کرائسز سے نکالا اور اغیار کی غلامی سے نکال کر خودمختاری کی طرف لیکر آیا۔۔ بس یہاں تک ہی محدود رہئیے، کیونکہ انکے بیان میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے اتا ترک کے مذہبی و سیاسی نظریات کے درست یا غلط ہونے کا اشارہ ملتا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
1938 میں اتا ترک کی وفات پر قائد نے جو تعزیتی کلمات کہے ہیں اس سے کیا اخذ کیا جاسکتا ہے سوائے یہ کہ ایک تعزیتی بیان ہے اور قائد مسلمانانِ برصغیر کو مملکت پاکستان کے قیام کے حوالے سے انسپریشن کی بات کر رہے ہیں
صرف رسمی تعزیتی بیان میں کیا کوئی یہ کہے گا کہ مرحوم کو مشعلِ راہ بنا کر مسلمان اپنی پسماندگی سے باہر آ سکتے ہیں؟

ویسے اس کا بھی جواب ہے۔ سٹینلی وولپرٹ جیسے نامور مورخ نے اپنی کتاب میں تذکرہ کیا ہے کہ عام زندگی میں جناح اتاترک اور اس کی سوانح سے کتنا متاثر تھے۔

تصویر یہ رہی حوالے کی:
attachment.php


Ref: Jinnah of Pakistan, pg 130

افسوس یہ کتاب میرے پاس صرف کتابی شکل میں ہے، برقی شکل میں نہیں ورنہ ربط بھی فراہم کر دیتا۔
خیر، اب یہ بتائیے کہ ان حوالہ جات کی موجودگی میں حکیم صاحب کے اقوال کی کیا تاریخی حیثیت رہ جاتی ہے؟

zeesh
 

الف نظامی

لائبریرین
میرے محترم بھائی آپ نے بالکل درست کہا مگر
کیا ان اقوال کی مدد سے ان دونوں محترم ہستیوں کو " متشرع مسلمان " یا عام معنی میں " ملائیت " کا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ؟
میری نگاہ میں یہ دونوں ہستیاں بلاشبہ انسانیت کے عظیم درجوں پہ فائز ہیں ۔
درجات کی پیمائش میری بساط سے باہر ہے۔
جو کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ
ان دونوں ہستیوں کے اقوال و افعال ہمیں ہر حال میں نبیِ رحمت کی تعلیمات سے رہنمائی کا درس دیتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اور آپ کی سوچ کا بچگانہ پن کافی واضح ہوگیا
اتاترک ایک اسلام دشمن انسان تھا آپکی یا قائد اعظمؒ کی حمایت سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی
اگر قائدِاعظمؒ یہ کہتے کہ ہمیں اسلام سے زیادہ مصطفیٰ کمال اتاترک کی تقلید کرنی ہے تو میں بخدا قائد کو کبھی لیڈر نہ مانتا
والسلام
بھائی میں ۲۱ سال کا 'بچہ' ہوں، اس لیے میری تحاریر میں بچگانہ پن نہیں ہو گا تو کیا ہوگا؟ مجھے خود اس کا اعتراف ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے جو اتاترک کی مدح میں اقتباس پیش کیا ہے، وہ میرے قلم سے نہیں، خود قائد کے منہ سے ادا ہوا۔
اب آپ کی مرضی کہ آپ اصلی قائد کو مانتے ہیں، یا مولویوں کے ہاتھوں یرغمال جناح کو۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں؟
 

arifkarim

معطل
یعنی مغربی طرز ننگی اور بے راہ روی بپھیلانے مین اہم کردار ادا کرے گا
کیا آج ترکی میں مغربی طرز ننگی اور بے راہ روی عام ہے؟ :chatterbox:
نیز قائد اعظم کے بہت سے بیانات ہیں جن میں انہوں نے غیر مسلمین یعنی عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں وغیرہ کو پاکستان موومنٹ کیلئے کوشاں رہنے کی ترغیب دی ہے۔ اسی لئے تو تحریک پاکستان میں غیر مسلمین شریک تھے کیونکہ انکو قائد اعظم اور مسلم لیگ کے ایجنڈے کے مطابق بھارت سے بہتر حقوق و فرائض اور آزادیوں کا وعدہ کیا گیا تھا! اس ضمن میں ایک مشہوربھارتی عیسائی جو کہ تحریک پاکستان کا حصہ بنے یعنی الوین رابرٹ كورنيليس کے بارہ میں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Alvin_Robert_Cornelius
 

حسان خان

لائبریرین
براہ کرم یہ ملاحظہ کیجیئے
http://www.radioislam.org/ataturk/jewish.htm
یہاں حوالہ بھی موجود ہے

اتاترک چاہے یہودی ہو، دینِ اسلام کا دشمن، اس بات کا اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ جناح اتاترک کے مداح تھے اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سماجی پسماندگی سے نکلنے کے لیے اس کی ذات کو سیاسی مشعلِ راہ بنانے کو کہتے تھے۔ پکڑ کرنی ہے تو قائدِ اعظم کی کیجیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اتاترک چاہے یہودی ہو، دینِ اسلام کا دشمن، اس بات کا اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ جناح اتاترک کے مداح تھے اور ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سماجی پسماندگی سے نکلنے کے لیے اس کی ذات کو سیاسی مشعلِ راہ بنانے کو کہتے تھے۔ پکڑ کرنی ہے تو قائدِ اعظم کی کیجیے۔
بالکل غلط۔
فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ
Q001_thumb%5B15%5D.jpg
آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا :-​
" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "​
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت "

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :-
" ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
" اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
" میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے "


مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا:-
" اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی صاحب، برا نہ مانیں تو اب ان غیر مصدقہ اقوال کو بار بار کاپی پیسٹ کرنا بند کر دیں۔ مجھے اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔
جب بھی آپ غلط لکھیں گے ریکارڈ کی درستگی کے لیےمصدقہ اقوال لکھے جائیں گے۔ ایک بار کیا سو بار کیا۔ اکتاہٹ ہو رہی ہے تو کوئی اور کام کیجیے۔
 

arifkarim

معطل
میں ٖ غلط نہیں لکھ رہا، اب تک صرف دو حوالے پیش کیے ہیں اور دونوں عکسی حوالوں کے ساتھ۔
حکیم صاحب کے یہ گھسے پٹے اقوال ان کے سامنے کیا ہیں؟
فکر نہ کرو۔ حقائق کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ بالآخر کسی ناظم سے اپیل کریں گے یہ دھاگہ مقفل کر دیا جائے۔ :)
 

arifkarim

معطل
کاش کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم باریش ہوتے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
یا کم از کم نماز والی ٹوپی میں ہی ان رہنماؤں کی کچھ تصاویر ہوتیں تو ہمیں ان مباحث سے نجات مل جاتی ۔۔۔ ۔۔
اسلام میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں! :atwitsend:
 

حسان خان

لائبریرین
لیکن جب اس نے اپنے مخصوص فکری رحجان کی وجہ سے ترک قوم کے مصائب کی وجہ مذہب کو قرار دیا اور یورپین اقوام سے ہم پلہ ہونے کیلئے انہی کی طرح اپنی قوم کی شناخت مذہب کے حوالے سے کرنے کی بجائے زبان، علاقے اور نسل کے ساتھ وابستہ کی تو ڈاکٹر اقبال ہی نہیں، بہت سے آبگینوں کو ٹھیس پہنچی اور وہ خواب سہانا ٹوٹ گیا۔۔۔

محمود بھائی، آپ واحد بندے ہیں جس نے یہاں اتاترک کو یکمشت یہودی قرار دینے کے بجائے ایک علمی تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس کے لیے میں آپ کا مشکور ہوں۔

باقی میں یہ عرض کروں گا، کہ جناح کا یہ اقتباس اُس وقت کا نہیں ہے جب اتاترک نے ترکوں کو مغربی پنجے سے رہائی دلائی تھی، بلکہ یہ اقتباس اس وقت کا ہے جب اتاترک اپنی تمام سماجی اصلاحات مکمل کر کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکا تھا۔ اگر جناح اسے اُس کی وفات کے موقعے پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ کہیں تو یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ اتاترک کے بہت سے اقدامات سے جناح متفق ہوں گے۔

دوسری طرف مودودی جیسے لوگوں کا کردار بھی آپ کے سامنے ہی ہے جو اُس وقت اتاترک کو برطانوی ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے۔ اس کے مقابلے میں جناح اتاترک کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔
 

باباجی

محفلین
بھائی میں ۲۱ سال کا 'بچہ' ہوں، اس لیے میری تحاریر میں بچگانہ پن نہیں ہو گا تو کیا ہوگا؟ مجھے خود اس کا اعتراف ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے جو اتاترک کی مدح میں اقتباس پیش کیا ہے، وہ میرے قلم سے نہیں، خود قائد کے منہ سے ادا ہوا۔
اب آپ کی مرضی کہ آپ اصلی قائد کو مانتے ہیں، یا مولویوں کے ہاتھوں یرغمال جناح کو۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں؟
آپ یقیناً "بچے" ہیں
جو ایک ہی چیز کی رٹ لگائے جارہے ہیں :)
اور قائد کی کسی بھی لیڈر کے بارے میں کی گئی ایک دو باتوں کو
قائد کی ہی کی گئی دینی و مذہبی باتوں پر کوئی فوقیت نہیں
کیا قائد نے یہ کہا کہ قرآن و دین سے زیادہ ہمیں کسی کمال اتا ترک کی تقلید کرنی چاہیئے ؟؟؟؟؟؟
 

الف نظامی

لائبریرین
باقی میں یہ عرض کروں گا، کہ جناح کا یہ اقتباس اُس وقت کا نہیں ہے جب اتاترک نے ترکوں کو مغربی پنجے سے رہائی دلائی تھی، بلکہ یہ اقتباس اس وقت کا ہے جب اتاترک اپنی تمام سماجی اصلاحات مکمل کر کے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو چکا تھا۔ اگر جناح اسے اُس کی وفات کے موقعے پر ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ کہیں تو یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ اتاترک کے بہت سے اقدامات سے جناح متفق ہوں گے۔۔
قائد نے اتا ترک کے نظریات سے متفق ہونے کی بات کہیں بھی نہیں کی اور نہ ہی قائد ان کے نظریات سے متفق تھے ، اگر قائد اتا ترک کے نظریات سے متفق ہوتے تو سن 47ء اور 48 ء میں یہ بیانات ہر گز نہ دیتے

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
" اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"
 
Top